سوشل میڈیا کی دنیا سے…… | اکتوبر و نومبر 2023

جمع و ترتیب: محمد سالِم ملک

یہاں درج فاضل لكهاريوں کے تمام افکارسے ادارہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔


مسجدِ اقصیٰ……شیخ حامد کمال الدین صاحب نے لکھا


مسجد تو کوئی ہو مسلمان کی جان ہے پھر اس مسجد کے بارے میں کیا خیال ہے جس میں ہزاروں انبیائے کرام کی پیشانیاں سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر پر ایک ساتھ جھکی ہوں۔ اور جہاں نماز کرانے امام کو لانے کے لیے جبریل کو براق دے کر مکہ روانہ کیا گیا ہو۔

سب سے بڑا یہودی برانڈ……زبیر منصوری صاحب نے لکھا


پاکستان میں سب سے بڑا یہودی برانڈ کوک، پیپسی اور مکڈونلڈ نہیں۔ بلکہ یہاں کا “نظام “ ہے۔ سب سے طاقتور بائیکاٹ اس کا کرنا ہو گا!

آزادی کی قیمت……فیض اللہ خان صاحب نے لکھا


وہ بحر و بر سے آئے ، فضاؤں سے اترے۔ یہ جدید دور کی جنگی حکمت عملی اور ٹیکنالوجی کی دہشت و وحشت کی موت تھی، وہ جو زمین میں جھانکنے ، سیاروں سے آگے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے پاس ملاعمر کا عکس تھا نہ ہی محمد ضیف کا ……

ایمان اور ٹیکنالوجی کی اس جنگ میں عقیدہ سب سے اہم ہے۔ وہن کے مرض میں مبتلاء سود و زیاں کا سوچتے دو کو چار کرتے خسر الدنیا کے منشی اس جذبے کو سمجھ ہی نہیں سکتے یہ عقل کا کھیل ہی نہیں ……

ان کی زندگیاں پہلے ہی جہنم تھیں، اب بھی جو گزرے گی انہی پہ گزرے گی ہمارا کیا ہے ؟ ہمیں اپنا مستقبل بہتر بنانا ہے بہت سارے پیسے جمع کرنے ہیں اور جب یہ سب جمع ہوجائے تو پھر ہم اسے ان مقبوضات کی آزادی پہ لگادیں گے ، ہیں نا؟؟ کیسا دجل و فریب ہے جس میں ہم خوشی خوشی پھنسے ہوئے ہیں، سو ان کا غم چھوڑیں اپنے چھوٹے چھوٹے دکھوں کا سوچیں……تکاثر پڑھیں کہ گنتے گنتے قبر تک پہنچ گئے……

اوسلو سے لے کر ابراہیمی تک بیشمار معاہدات ہوئے مگر وہ قتل ہوتے رہے، ان کی زمینیں چھینی گئیں، زندان ان سے بھرے پڑے ہیں۔ مہذب دنیا کے ماتھے پہ لگا کلنک کا ٹیکہ ننگے بادشاہ کے سوا سب کو دکھائی دیتا ہے۔

یہ کسی فلم کے مناظر نہیں تھے مگر خراسان و قدس کی سرزمین پہ عجیب و غریب کردار پیدا ہوئے ۔ ان بے نام لوگوں کے عمل سے کوئی واقف بھی نہیں، ایک اک ہیرے کی زندگی پہ کئی کتابیں، درجنوں فلمیں بن سکتی ہیں ، وہ بھی سچی حیرت انگیز داستانیں……

جب فضا سے دیسی ساختہ انجنوں کیساتھ ہتھیار سنبھالے وہ اتر رہے تھے ، اس لمحے مسلم خطوں میں ہمیں مفتوح بناتے کاغذ کے سپاہی کچھ آمر کچھ بادشاہ خوب یاد آئے جن کے ہاتھ ہمارے ہی خون سے رنگے ہوئے ہیں جو ہمارے دارالخلافوں پہ دہائیوں سے قابض ہیں جنہوں نے وطنیت اور قومیت کے بت کی تعظیم اسق در لازم کردی ہے کہ اس سے انکار شرک سے بھی بڑا ظلم قرار پایا۔

باقی آزادی کی قیمت تو ہوتی ہے صاحب ، پلیٹ میں رکھ کر تو کچھ نہیں ملتا ایسا ہوتا تو ہمیں وادی مل چکی ہوتی ، بس یہ تلخ حقیقت ہم قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔

منافقین کا کام……احمد حامدی صاحب نے لکھا


دوران جنگ گہرے تجزیے ،کرنا ،فلسفیانہ مشورے دینا یا بزدلانہ دانشوری ،کرنا یہ سب تاریخ میں منافقین کا کام رہا ہے۔ مسلمان یا تو جنگ سے قبل اچھی طرح سوچتے ہیں یا پھر بہادری کے ساتھ اپنی پوری قوت لگا کر لڑنے کے بعد کمی اور کمزوریوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔

اب جنگ کی حالت ہے، صرف حمایت کرنی چاہیے۔

کیا ان حالات میں بھی کھیل اہم ہے؟……مفتی سید عدنان کاکا خیل صاحب نے لکھا


گزشتہ کئی روز سے اسرائیل غزہ کا مکمل محاصرہ کر کے شدید بمباری کر رہا ہے۔ سینکڑوں افراد معصوم بچوں سمیت شہید ہو چکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں۔ محاصرے کی وجہ سے غزہ میں گندم کا دانہ اور پانی کا قطرہ پہنچنے نہیں دیا جا رہا۔ خاک و خون میں نہائے معصوم بچے زمین پر بھوک سے بلک رہے ہیں اور ان پر اوپر سے بم برسائے جا رہے ہیں۔ ان خونچکاں حالات سے بے پرواہ ہو کر پاکستانی قوم کا بھارت میں جاری کرکٹ میچز کی طرف متوجہ رہنا کسی طور انسانیت نہیں ہے۔

مذہبی رواداری اور مغرب……مجاہد احمد صاحب نے لکھا


وطن عزیز سے نقل مکانی کر کے یورپ، امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک میں مستقل سکونت اختیار کرنے والوں کی اکثریت کو مقامی آبادی کی وسیع القلبی اور مذہبی رواداری بہت مُتاثر کرتی ہے۔ موجودہ حالات میں اس غلط فہمی کا پردہ بھی چاک ہو گیا ہے۔

ایمان دار بِلّے دودھ کے رکھوالے……محمد بیگ صاحب نے لکھا


ملک کے دو بڑے ایماندار محکمے واپڈا اور پولیس بجلی چوروں کے خلاف آپریشن میں مصروف

سستا ڈالر……شہزاد اسلم صاحب نے لکھا


ڈالر نے اس شرط پر سستا ہونے کی حامی بھری کہ اسکے علاوہ کوئی چیز سستی نہیں ہو گی۔

سازشی نظریات……مہتاب عزیز صاحب نے لکھا


گزشتہ صدی سے مسلمانوں کی نفسیات میں داخل ہو چکا ہے کہ اُنہوں نے مار ہی کھانی ہے۔ یہ اب اپنی ہر کامیابی کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں،اور اُسے بھی سازش سمجھنے لگتے ہیں۔

امداد……دبیر حجازی صاحب نے لکھا


فلسطینی بچوں کی پے در پے ہلاکت پہ صم بکم بنے مغرب و بل گیٹس کے متعلق ہمارے دانشوروں کا خیال ہے کہ پاکستانی بچوں میں پولیو کیسز سے پریشان ہو کر وہ امداد دیتے ہیں۔

فیض اللہ خان صاحب نے لکھا


ہمارے سادے بھولے لوگوں کو بالکل بھی علم نہیں کہ بوسینا کے ہزاروں مسلمانوں کو بغیر کسی حملے و جارحیت کے سربوں نے کاٹ ڈالا تھا اور مہذب دنیا صرف مزے لیتی رہی، بہت سے تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ۹۰ کی دہائی میں عراق پہ اقوام متحدہ، امریکی و برطانوی پابندیوں کے بعد دس لاکھ بچے ادویات نہ ہونے پہ جانوں سے گئے۔ صدام نے تو کسی بھی غیر مسلم ملک پہ حملہ نہیں کیا تھا۔ اسی عرصے کے دوران ہزاروں ارض قدس کے باشندے انہی کی آشیر باد سے غاصبوں نے قتل کیے۔ ابھی اطالیہ کی طرابلس، فرانس کی الجزائر و مالی کی وحشانیہ کاروائیوں پہ بات رہنے دیتے ہیں۔ لبنان میں جو کچھ ہوتا رہا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ امریکی وہاں بھی اسلحہ سمیت موجود تھے، حملہ آور تھے۔ اسی اکتوبر میں کوئی بائیس تئیس برس پہلے چھپن طاقتور ممالک اپنے لاؤ لشکر سمیت خراسان پہ چڑھ دوڑے تھے اور لاکھوں افغان آتش و آہن کی بارش میں نہا گئے (انہیں بحر و بر ہم نے کس بنیاد پہ دیے یہ الگ داستان ہے )۔

جو اب ہو رہا ہے اسے کسی کا ردعمل کہنے سے پہلے مہذب اقوام کا طرز عمل ضرور دیکھیں۔ انہوں نے پہلی و دوسری جنگ عظیم میں ہزاروں لاکھوں نہیں کروڑوں انسان قتل کیے ۔

اب کل کلاں کوئی کہیں عمارتوں سے پھر ٹکرا گیا تو کہیں گے کہ ہم پہ ظلم ہوگیا ، اپنے اعمال پہ نظر دوڑانے کی زحمت نہیں کرتے، اور کوئی نہ سہی نوم چومسکی کو ہی پڑھ لیں۔

کوئی رکاوٹ نہیں……طلحہ احمد صاحب نے لکھا


مسلم دنیا کی حکمران اشرافیہ اور فوجیں عصر حاضر کے کوفی ہیں جن کے دل فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں ان کے خلاف۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بادشاہت صرف اللہ کی ہے۔ ان کا بھی وقت آئے گا۔ اللہ اور مظلوم کے درمیان کوئی پرده (یعنی رکاوٹ) نہیں ہے۔

موت کا ذکر……طاہر اسلام عسکری صاحب نے لکھا


موت کا ذکر باعثِ عبرت تھا؛ مشینوں نے اسے ٹھٹھا اور تماشا بنا دیا!

ہم کیا کر سکتے ہیں……آصف محمود صاحب نے لکھا


ہم کم از کم اتنا تو کر سکتے ہین کہ یہ دکھ اور یہ تکلیف اور یہ کرب اپنی اگلی نسل کو منتقل کر کے جائیں۔ ہو سکتا اور بے حس نہ ہو۔ نئی نسل ہماری طرح بے بس وقت ایک سا نہیں رہتا جب وقت بدلے تو اس وقت کی نسل کے پاس حساب کا میزانیہ پورا اور مکمل ہونا چاہیے۔ یہ نئی نسل خوب صورت مغربی اصطلاحات کی زد میں آ چکی ہے۔ اسے بتائیے دنیا آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے وقت کھڑی تھی۔

حقوق انسانی کا مطلب آج بھی مغربی دنیا اور اس کے حلیفوں کے حقوق ہیں۔ انٹرنیشنل لاء اپنی اصل میں آج بھی انٹرنیشنل کرسچین لاء ہے۔ مسلمان اس بین الاقوامی نظام سے آج بھی عملاً باہر ہیں۔ اس عالمی نظام کو سمجھیں اور یہ سمجھ اپنے بچوں کو منتقل کر کے جائیں ۔ مسئلہ درست طور پر سمجھ لینا اور اس سمجھ کو آگے منتقل کر دینا اس سوال کا کم از کم درجے کا جواب کہ ہے ہم کیا کریں۔ خود نہیں بن سکے تو نئی نسل کو اس قابل بنائیں کہ وہ ہر معاملے کو سدھائے ہوئے جانور کی طرح مغرب کی آنکھ سے نہ دیکھے اپنی آنکھ سے دیکھے۔

ان کو پہچانیں……حماد احمد صاحب نے لکھا


جو بی بی سی فلسطین میں سکولوں، ہسپتالوں، مہاجرین کیمپوں پر وحشیانہ بمباریوں کو اسرایئلی بمباری کہنا مناسب نہیں سمجھتا وہ مسلمان ممالک کو صرف ملالایئں ہی دیتا ہے۔ تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکیں، تعلیم کے نام پر، بچوں کے حقوق کے نام پر، اظہار رائے کی آزادی کے نام پر۔

ان کو پہچانیں!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version