اخباری کالموں کا جائزہ | اکتوبر و نومبر ۲۰۲۳

پاکستان

مجموعی صورتحال

پاکستان میں آج کل الیکشن کی تیاریوں کی گہما گہمی ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے عمران خان کے قریبی کارکن جو کہ کافی عرصہ سے ’لاپتہ‘ تھے، وہ سامنے آکر باری باری پریس کانفرنس کر رہے ہیں اور عمران خان کو ۹ مئی کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے تحریک انصاف کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ دوسری طرف چار سال سے مفرور ن لیگ کے چیئرمین نواز شریف کی ۲۱ اکتوبر کو پاکستان آمد پر اس کے استقبال کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کو سبق سکھا کر سائیڈ لائن کرنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی نظرِ کرم نواز شریف پر ہے۔

یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!

روپے کی قدر میں بہتری اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی سے معیشت کو بچانے کی کوششیں بھی اخبارات کا موضوع رہیں لیکن ان میں جو سب سے اہم موضوع میڈیا پر زیرِ بحث رہا وہ افغان مہاجرین کی پاکستان سے بے دخلی کا موضوع ہے۔

پاکستان

افغان مہاجرین کی پاکستان سے بے دخلی

اس مہینے کے آغاز میں جنرل عاصم منیر اور نگران وزیر اعظم کی زیرِ صدارت ’اپیکس کمیٹی‘ کا اجلاس ہوا۔ جس کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ ملک بھر میں موجود تمام غیر قانونی مہاجرین ۳۱ اکتوبر تک خود ہی اپنے ممالک واپس چلے جائیں ورنہ بزورِ طاقت انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔ اس وقت پاکستان میں سب سے بڑی تعداد افغان مہاجرین کی ہے، جن میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۲۰ لاکھ غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔ جن میں ۵ لاکھ سے زائد بغیر کسی دستاویز کے رہ رہے ہیں۔ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی املاک، کاروبار اور جائیدادیں بھی ضبط کر لی جائیں گی۔ اس پر مرحلہ وار پلاننگ کا اجراء کیا گیا ہے۔

لیکن کیا یہ عملی طور پر ممکن بھی ہے؟ جبکہ افغان مہاجرین دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں ۔ ان کی نسلوں کی نسلیں پاکستان میں پروان چڑھی ہیں ۔ ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک سراسر زیادتی ہے۔ حکومت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ یکم نومبر سے پاکستان کی تمام سرحدی گزرگاہوں پر صرف پاسپورٹ اور ویزے والے افراد کو آمدو رفت کی اجازت ہو گی جیسا کہ کسی بھی ملک کی بین الاقوامی سرحد پر ہوتا ہے۔

اس موضوع پر کالم نویسوں کی آراء دو طرح کی ہیں۔ کچھ کالم نویس وہ ہیں جو کہ اس فیصلے کے دور رس نتائج کو سامنے رکھ کر بات کر رہے ہیں اور حکومت کو جلدبازی کرنے اور دانشمندانہ منصوبہ بندی کے بغیر فیصلہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ رائے رکھنے والے کالم نویسوں کی تحاریر سے اقتباسات ملاحظہ ہوں:

افغان مہاجرین اور کمہار کا گدھا | وسعت اللہ خان

’’نہ کوئی پہلا موقع ہے نہ ہی آخری کہ غیر قانونی افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ پچھلے چالیس برس سے سارا گیم اندازوں پر چل رہا ہے۔ مثلاً کتنے پناہ گزین پاکستان میں موجود ہیں؟…… ان میں رجسٹرڈ کتنے ہیں؟…… بغیر دستاویزات کے کتنے ہیں؟…… واپس کتنے گئے اور دوبارہ آگئے؟

……کتنے روزانہ سرحد پار سے آتے ہیں اور کہاں کہاں جاتے ہیں؟ ان میں سے کتنے اقوام متحدہ کے وظیفے پر گزارہ کر رہے ہیں؟ کتنے اپنا کاروبار کر رہے ہیں اور کتنے پاکستانیوں کے کاروباری شراکت دار ہیں؟

مذکورہ بالا سوالات میں سے کسی ایک کا حتمی جواب نہ تو حکومتِ پاکستان کے کسی ایک ادارے کے پاس ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کے پاس۔ جب یہ بنیادی معلومات ہی آپس میں نہیں ملتیں تو پھر کس بنیاد پر یہ اعلان کیا گیا کہ اگر اکتیس اکتوبر تک غیر قانونی تارکینِ وطن نے پاکستان نہیں چھوڑا تو انہیں حراست میں لے کر ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔

……فرض کریں کہ حکومتِ پاکستان واقعی ان سب کو نکالنے میں سنجیدہ ہے تو عملاً یہ کیسے ہو پائے گا؟

ایسے ہر کریک ڈاؤن میں ہراول ادارہ مقامی پولیس ہوتی ہے۔ کیا کسی جامع کریک ڈاؤن کے لیے پولیس کے پاس ضروری تکنیکی تربیت و آگہی ہے؟ تاکہ غیر قانونی گیہوں کے ساتھ ساتھ قانونی گھن نہ پس جائے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر بار ایسی مہم میں پولیس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ اندھا دھند گرفتاریاں ہوتی ہیں اور پھر قانونی و جائز غیر ملکیوں کو بھی خوف و ہراس میں مبتلا کر کے پیسے لے کر چھوڑا جاتا ہے۔

……اس وقت کئی لاکھ پناہ گزین وہ ہیں جن کی تین نسلوں نے افغانستان نہیں دیکھا۔ جو بچے اور ان کے بچے اور ان کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں، انہیں کس کیٹیگری میں رکھا جائے گا اور افغانستان کی کوئی بھی حکومت آخر انہیں کیوں قبول کرے گی؟

……سرحد پار سے کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں حالیہ تیزی کے بعد پاکستانی ریاست کو پھر غصہ آیا ہے اور ہر بار کی طرح یہ غصہ پناہ گزینوں پر ہی نکل رہا ہے۔ مگر یہ غصہ بھی چائے کی پیالی میں طوفان کی طرح جلد تھم جائے گا۔ کیونکہ بغیر تیاری کے غصے کا ایک ہی انجام ہوتا ہے۔ آپ میں سے کون کون اس محاورے سے ناواقف ہے کہ:

’’کمہار پہ بس نہ چلا تو گدھے کے کان اینٹھ دیے‘‘۔ ‘‘

[ڈی ڈبلیو اردو]

A refugee no longer | Editorial

ترجمہ: ’’اگرچہ حکام کو مجرمانہ عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے اور غیر قانونی ترکِ وطن کی روک تھام کرنی چاہیے، لیکن یہ جلد بازی میں اور دقیق سوچ بچار کے بغیر اپنایا جانے والا طریقہ کار دو حوالوں سے پریشانی کا باعث ہے۔ اولاً، یہ پاکستان کی عالمی ساکھ کو داغ دار کرتا ہے، ثانیاً، یہ ایک ایسے طبقے کو ہم سے بیگانہ کر دیتا ہے جو دہائیوں سے ہماری سرزمین پر پناہ لے رہا ہے۔ اس سے نمٹنے کے کئی طریقے ہیں۔ حکام کو اپنے کاموں میں شفافیت کو یقینی بنانا چاہیے۔ یہ ثبوت پر مبنی ہونا چاہیے، تعصب پر نہیں۔ دوسرا، غیر ملکیوں کے حوالے سے قانون کا از سرِ نو جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ اس میں پنا ہ گزینوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق انسانی ہمدردی پر مبنی طریقہ کار شامل کیا جا سکے ۔ تیسرا، کابل اور اسلام آباد کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ تعمیری مذاکرات میں مشغول ہوں، اور کسی ایسے حل پر پہنچیں جو اس مسلسل تناؤ کی بنیادی وجہ کو حل کرے تاکہ مہاجرین کو غیر منصفانہ جانچ پڑتال سے بچایا جا سکے۔ اور آخری اور شاید سب سے اہم بات یہ کہ افغانوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے، چاہے دستاویزی اعتبار سے ان کی حیثیت جو بھی ہو۔ اگرچہ قومی سلامتی سب سے مقدم ہے، لیکن اس کا حصول بین الاقوامی ساکھ کو داغ دار کرنے اور انسانی جانوں کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

[Daily DAWN]

بچہ سقہ؟؟؟ | حامد میر

’’بقول اقبال اگر افغانستان میں فساد ہوگا تو پورے ایشیا میں فساد ہوگا اور اگر افغانستان میں خوشحالی آئے گی تو پورے ایشیا میں خوشحالی آئے گی۔ افسوس کہ قیامِ پاکستان کے بعد حکمران اشرافیہ کی لڑائیوں اور چال بازیوں نے افغانستان اور پاکستان کے عوام میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا کیں، لیکن دونوں اطراف کے لوگوں کی تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتے اتنے مضبوط ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کمزور ہونے کی بجائے مزید مضبوط ہوئے۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ افغانستان اور پاکستان کے کئی حکمران ذاتی مفادات کے لیے ہمیں ایک دوسرے سے لڑاتے رہے۔

……آج پاکستان کی حکومت اعلان کر رہی ہے کہ یہاں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے یکم نومبر تک پاکستان چھوڑ دیں ورنہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو یکم نومبر تک نہ نکالا جا سکا تو پھر کیا ہو گا؟

……نگران حکومت کا اصل کام الیکشن کرانا ہے۔ فی الحال نگرانوں کی طرف سے الیکشن کے سوا باقی سب کام کیے جا رہے ہیں۔ افغان باشندوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی ہے اور اس سلسلے میں کچھ جگہوں پر ایسے افغان باشندوں کو بھی گرفتار کیا گیا جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود تھیں۔ نگران حکومت کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ کسی ایسے افغان کے ساتھ زیادتی نہ ہو جس نے پاکستانی قانون نہیں توڑا۔ جو بھی کیا جائے صرف اور صرف پاکستان کے فائدے کے لیے کیا جائے۔ منشیات فروشوں اور سمگلروں کو بالکل معاف نہ کیا جائے، لیکن بے گناہ افغانوں کو جیلوں میں ٹھونس کر پاکستان کے دشمنوں میں اضافہ نہ کیا جائے۔ یاد رکھیں حکیم الامت علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا۔ ایشیا کے دل میں پاکستان نے اپنے لیے خود ہی نفرت بھر دی تو یہ پاکستان کے فائدے میں نہیں ہو گا۔ پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے پر کام مت کریں اور بچہ سقہ مت بنیں۔ ‘‘

[روزنامہ جنگ]

مشکل فیصلے پر عمل درآمد | منیر احمد بلوچ

’’افغان مہاجرین کے جبری انخلا سے دشمن بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا بلکہ ہو سکتا ہے اجیت ڈول جیسے شاطر نے یہ کوششیں شروع ہی نہ کر دی ہوں کیونکہ پاک افغان دوستی اور بھائی چارہ عالمی اُفق پر رونما ہونے والی جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے اس لیے مغرب کی طرف سے اس راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ چین کی نئی منزل اور سفارت کاری کوئی معمولی بات نہیں، اس کا سب سے پہلے افغانستان کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں سفارت خانہ قائم کرنا وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور برصغیر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ چین کا یہ فیصلہ حالات اور سیاست کا رخ موڑ دے گا اور اس موقع پر چالیس برسوں سے نسل درنسل پاکستان میں رہنے والے افغانیوں کے انخلا سے پیدا ہونے والی چنگاریاں کس کا دامن جلائیں گی، یہ نوشتۂ دیوار ہے۔ افغان مہاجرین کے انخلا کے تناظر میں ان پہلوؤں کو بھی مدِّ نظر رکھنا ضروری ہے۔‘‘

[روزنامہ دنیا]

دوسری طرح کے کالم نویس اور تجزیہ نگار وہ ہیں جو نہ تو اسلامی بھائی چارہ، نہ انسانی ہمدردی ، نہ مہاجرین کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین اور نہ ہی اس فیصلے کے پاکستان پر دور رس اثرات کو مد نظر رکھ رہے ہیں، بلکہ افغان مہاجرین کے خلاف کیے جانے والے پراپیگنڈے سے اثر لیتے ہوئے جذبات کی رو میں بہہ کر ہر حال میں افغان مہاجرین کو جلد از جلد دیس نکالا دینے کی پرزور حمایت کر رہے ہیں۔ ایسے کالم نویسوں اور دانش سے عاری ’دانشوروں‘ کی تحاریر سے اقتباسات ملاحظہ ہوں:

اب یا کبھی نہیں! | زاہد اعوان

’’اب وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستان میں موجود غیر قانونی شہریوں کو رجسٹریشن کے ذریعے ریکارڈ پر لایا جائے تاکہ ایک منظم طریقہ کار کے ذریعے ان افراد کی واپسی کا عمل شروع کیا جا سکے۔ اس حوالے سے افغان حکومت کو بھی اعتماد میں لیا جائے اور بتایا جائے کہ ہم ایک اچھے ہمسائے کی حیثیت سے کئی دہائیوں سے افغان بھائیوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ ہم نے اپنی قوم کا پیٹ کاٹ کر افغان مہاجروں کو تعلیم، صحت اور روزگار سمیت تمام سہولتیں فراہم کیں، لیکن اس نیکی کے بدلے ہمیں بدترین دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا اور افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تمام تانے بانے سرحد پار جا کر ملتے ہیں جبکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہونے والی دہشت گردی میں زیادہ تر غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے ملوث تھے جس کے بعد اب ضروری ہو گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کو دیس نکالا دیا جائے۔ عالمی برادری کو بھی اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کرنی چاہیے ورنہ یہ آگ باقی دنیا کا امن بھی تباہ کر دے گی۔ نگران حکومت اور قومی اداروں نے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکیوں کو نکالنے کے لیے یکم نومبر کی جو ڈیڈ لائن دی ہے اس پر سختی سے عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔ اب اگر اس کام کا بیڑہ اٹھا لیا ہے تو اس کو ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر خدانخواستہ اب بھی یہ کام نہ ہو سکا تو پھر شاید آئندہ کئی دہائیوں میں بھی نہ ہو سکے اور حقیقی امن و امان کا خواب ادھورا ہی رہ جائے۔‘‘

[روزنامہ دنیا]

غیر قانونی مقیم غیر ملکی شہریوں کا انخلا……! | ساجد حسین ملک

’’نائن الیون کے بعد امریکہ اور نیٹو افواج نے افغانستان پر فوج کشی کی تو پاکستان کو مجبوراً عالمی طاقتوں کا ساتھ تو دینا پڑا لیکن اس نے پھر بھی افغانستان کے خلاف عالمی طاقتوں کی جنگ کو اپنی جنگ نہ سمجھا۔ اس کا خمیازہ ہمیں امریکہ کی طرف سے مستقل ناراضی کی صورت میں بھگتنا پڑا تو افغان طالبان کی سرپرستی میں قائم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی دہشت گردی کی خونریزکاروائیوں اور خودکش حملوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس میں کم و بیش اسّی ہزار کے لگ بھگ پاکستانی جن میں اکثریت کا تعلق پاکستان کی مسلح افواج سے ہے اپنی جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں تو کھربوں ڈالر کا معاشی نقصان بھی ہمارے حصے میں آ چکا ہے۔ حالات و واقعات کے اس سیاق و سباق اور پس منظر اور پیشِ منظر میں اب افغانیوں سے عقیدت کا بت دھڑام سے گر چکا ہے تو اس پر کسی اور کو دوش نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت پسندانہ سوچ یہی ہوسکتی ہے کہ تمام غیر ملکی جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں خواہ وہ افغان باشندے ہیں یا کوئی اور، وہ ہماری جان بخشی کریں اور اپنے ملک یا ملکوں کو جائیں اور ہمیں اپنے حال پر رہنے دیں۔ غیر قانونی طور پر مقیم پاکستان میں افغان باشندوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو تقریباً پندرہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان اب ان کو مزید پال نہیں سکتا۔ اقوام متحدہ یا کوئی اور ادارہ یا ملک ان کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے، ہمیں بہرکیف ان سے پیچھا چھڑانا ہوگا کہ اسی میں ہماری بہتری ہے۔‘‘

[روزنامہ نئی بات]

انڈیا

پارلیمنٹ میں مسلمان رکن کو گالیاں

بھگوا ہندو انتہا پسند ہندوستان میں سر عام مسلمانوں کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر اس قدر بھرا ہوا ہے کہ ان کے ہاتھوں اور زبانوں سے ابل پڑ رہا ہے۔ مرد، خواتین، یہاں تک کہ اسکولوں میں بچے تک محفوظ نہیں رہے۔ جہاں عام مسلمانوں کی جان و مال محفوظ نہیں وہیں ان کی بد تہذیبی ان کے ایوانوں میں بھی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ بی جے پی کے رکن ’رمیش بدھوڑی‘ نےپارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران ’بہوجن سماج پارٹی‘ کے مسلمان رکن دانش علی کے خلاف مغلظات بکے جس پر اجلاس میں موجود دیگر بی جے پی کے اراکین خوب لطف اندوز ہوئے۔ اس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی، لیکن اس حرکت پر بدھوڑی کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا اور نہ ہی اسپیکر کی طرف سے اسے روکا گیا۔ پورے ہندوستان میں ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے خلاف ہر پلیٹ فارم اور ہر سطح پر زہر اگل رہے ہیں، لیکن انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔

اس حوالے سے مختلف کالم نویسوں کی آرا کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:

نئی پارلیمنٹ عمارت کا ۲ ہزار سال پرانے سنسکار کے ساتھ افتتاح | ندیم عبد القدیر

’’دانش علی اکیلے ہی بی جے پی رکن پارلیمنٹ بھدوڑی کے خلاف کارروائی کرنے کی مانگ کر رہے ہیں اور مکتوب بھیج رہے ہیں۔ ان کی پارٹی ان کے ساتھ نہیں ہے۔ پارٹی نے اتنے نازک وقت میں اپنے ہی رکن پارلیمنٹ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ یہ ہے مسلم لیڈروں کی ’اوقات‘، ان کی پارٹیوں کی نظر میں۔ وہ سیاسی پارٹیاں جن کے لیے یہ لیڈران اپنی قوم سے بھی دشمنی مول لینے اور قوم سے غداری کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، وہ ان کی اتنی بڑی توہین کے وقت ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔

……ڈی ایم کے لیڈر ’ادئے نیدھی اسٹالن‘ نے سناتن دھرم کو ملیریا اور ڈینگی سے زیادہ خطرناک قرار دیا اور کہا کہ یہ ذہنیت ۲ ہزار سال سے ملک میں نفرت اور بدامنی کا بنیادی سبب بنی ہوئی ہے۔ اسٹالن کے بیان کی پوری بی جے پی مخالفت کر رہی ہے لیکن بھدوڑی نے اپنی حرکت سے اسٹالن کو صحیح ثابت کیا ہے۔ یہ ایک ایسی ذہنیت ہے جس میں دیگر کسی بھی تہذیب، ثقافت اور مذہب کے لیے رواداری کا کوئی جذبہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنے علاوہ ہر تہذیب، ثقافت اور مذہب کو ہمیشہ ختم کرنے کے درپے رہتی ہے۔ ۲ ہزار سال سے ہندوستان یہی دیکھ رہا ہے اور نئی پارلیمنٹ کی عمارت میں بھی اسی کا مظاہرہ ہوا۔‘‘

[روزنامہ اردو ٹائمز]

پارلیمنٹ میں اسلاموفوبیا کا بدترین مظاہرہ | ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

’’دانش علی کے تئیں جس نفرت کا اظہار رمیش بدھوڑی نے کیا اس میں دانش علی کا مسلمان ہونا اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ ہندوستان میں اب ’اسلاموفوبیا‘ کی لہر پورے زوروں پر چل رہی ہے۔ اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ کل تک بند کمروں میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جاتا تھا۔ پھر چوراہوں اور بازاروں میں مسلم دشمنی کے بدترین مظاہرے ہوئے۔ اب ملک کی پارلیمنٹ میں ایک معزز رکن کو بھی اسلاموفوبیا کا شکار ہونا پڑا ہے۔ اس مسلم دشمنی کو لگام دینے کے لیے ملک کے مسلمانوں کو اپنا ایک لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا۔ ملک میں ایک ایسا بیانیہ(Narrative) مسلمانوں کے خلاف تیار کیا جا رہا ہے کہ ملک کے دیگر طبقوں کے سامنے ان کی شبیہ کو اتنا مسخ کر کے رکھ دیا جائے کہ انہیں ہر مسلمان دہشت گرد، ’کٹوا‘ ملّا اور آتنک وادی نظر آئے۔ پارلیمنٹ میں ایک مسلم رکن کے خلاف ہونے والی اس مجرمانہ حرکت پر مسلم قائدین صرف بیان بازی کریں گے یا قراردادوں کو منظور کر کے بری الذمہ ہو جائیں گے تو آنے والے دنوں میں حالات اس قدر خطرناک ہو جائیں گے کہ دیگر مسلم ارکانِ پارلیمنٹ اور ارکانِ اسمبلی کے ساتھ مسلم قائدین و علماء کو بھی ایسی گالیاں سننے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ ‘‘

[روزنامہ منصف]

انڈیا

ذات پات پر مبنی مردم شماری

ہندوستان کے صوبہ بِہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے انڈیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کروائی اور اس کی تفصیلی رپورٹ میڈیا پر جاری کر دی گئی۔جس کے مطابق صوبہ بِہار کی تقریباً ۸۵ فیصد آبادی نچلی ذاتوں پر مشتمل ہے، جبکہ براہمن صرف ۴ فیصد ہیں۔ یہ موضوع اس لیے بھی اہم ہے کہ ۲۰۲۴ء میں ہندوستان میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ اب تک بی جے پی اور دیگر بڑی جماعتوں میں اونچی ذات کے براہمن یا کھشتری حکومت پر براجمان ہیں۔ اور نچلی ذات کے لوگوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے حکومت میں حصہ نہیں دیا جاتا۔

رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد دوسرے صوبوں میں بھی اسی طرح ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ زور و شور سے ہو رہا ہے۔ مودی حکومت میں اعلیٰ ذات کے سخت گیر اور انتہا پسند ہندوؤں نے پورے ہندوستان پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔ اگر دوسرے صوبوں میں بھی اسی طرح کی مردم شماری کرائی گئی تو آنے والے انتخابات میں بی جے پی کو زبردست دھچکہ لگ سکتا ہے۔ کیونکہ بی جے پی نچلی ذات کے ہندو،جین، بدھ اور سکھوں کو بھی شامل کر کے ہندوؤں کی آبادی ۸۰ فیصد دکھاتی ہے اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ۲۰ فیصد کہتےہیں۔ حقیقت میں یہ بیانیہ اپنا کر یہ بدھ، جین، سکھ اور نچلی ذات کے ہندوؤں کا استحصال کرتے ہیں، انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کا اصل ہدف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی حکمرانی ہے۔ اگر پورے ہندوستان میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ہوتی ہے اور یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ حکمرانی کرنے والے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی اصل تعداد ہندوستان میں ۱۰ فیصد بھی نہیں تو اس سے بی جے پی کے ارادوں کے سامنے رکاوٹ کھڑی ہو سکتی ہے ۔

اس موضوع پر چند کالم نگاروں کی تحاریر سے اقتباسات ملاحظہ ہوں:

جس کی جتنی آبادی اُس کی اتنی حصہ داری | ندیم عبد القدیر

’’نتیش کمار نے یہ رپورٹ جاری کر کے ملک میں سیاست کو نیا رخ دیا ہے۔ اگر اس کا صحیح استعمال ہوا تو یہ ملک کی سیاست میں تاریخی تبدیلی لا سکتی ہے۔ ابھی صرف بِہار کی ہی رپورٹ جاری ہوئی ہے تو سنگھ پریوار بوکھلا گیا ہے، اب اگر دیگر ریاستوں میں بھی اسی طرح کی رپورٹ جاری ہونے لگے تو کیا ہو گا؟ جس کے مطالبات ہونے لگے ہیں۔ کانشی رام کا دیا نعرہ پھر سے گونجنے لگا ہے۔

’جس کی جتنی آبادی اس کی اتنی حصہ داری‘‘‘

[روزنامہ اردو ٹائمز]

جڑے گا بھارت جیتے گا انڈیا؟ | ڈاکٹر شجاعت علی صوفی

’’اس سروے کے منظرِ عام پر آنے کے بعد بے حد پسماندہ طبقات میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ آبادی کے اعتبار سے اقتدار میں حصہ داری کا دیرینہ خواب تھا جو اب شرمندۂ تعبیر ہو رہا ہے۔

سار ے ملک میں ان طبقات کی جانب سے یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ اس طرح کی مردم شماری قومی سطح پر کی جائے تاکہ غریب عوام کی خوشحالی کا کام کیا جا سکے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بِہار میں نتیش کمار نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاسی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ پچھلے دنوں آر ایس ایس کے ترجمان ’آرگنائزر‘ نے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ ہندو، مسلم خلیج اور مودی کا چہرہ اب بی جے پی کو کامیاب نہیں کر سکتا۔

کانگریس نے دعویٰ کیا کہ بہار میں ذات پات کی مردم شماری کے اعداد و شمار منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم مودی کی راتوں کی نیند اُڑ گئی ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ ان چونکا دینے والے اعداد و شمار کے سامنے آنے کے بعد پورے ملک میں ذات پات کی مردم شماری کروانے کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے۔ یہاں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ کانگریس نے اس نکتہ کو اپنی پالیسی میں شامل کر لیا ہے۔‘‘

[روزنامہ منصف]

بِہار: کیا بَہار آنے کو ہے؟ | اداریہ

’’بی جے پی اس کو بسر و چشم قبول نہیں کرے گی، مگر اس کی مخالفت بھی نہیں کر سکتی، اس لیے وزیر اعظم نے اس پر الگ ڈھنگ سے سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر حصہ داری دینے کا مطلب ’’اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنا اور انہیں ان کے حقوق سے محروم‘‘ کر دینا ہوگا۔ یہ اس سروے کو دیکھنے کا نیا زاویہ ہے جس کا اظہار گزشتہ روز وزیر اعظم نے ایک ریلی کے دوران کیا۔ یہ نیا زاویہ کیوں وضع کیا گیا ہے، یہ سمجھنا مشکل ہے۔ حصہ داری کا ایک مطلب اقتدار میں حصہ داری ہے اور بی جے پی نہ تو مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہے نہ ہی انہیں وزیر بناتی ہے۔ کوئی مسلمان بی جے پی کا رکنِ پارلیمان ہے نہ ہی رکنِ اسمبلی۔ اس پسِ منظر میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات اس لیے کہی گئی ہے کہ زیرِ بحث سروے کی وجہ سے حکمران جماعت شدید دباؤ میں آگئی ہے؟

ہمارے خیال میں جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جائیں گے ویسے ویسے بی جے پی سیاسی بیانیہ کو تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی جبکہ اپوزیشن پارٹیوں کی کوشش ہو گی کہ ’’جس کی جتنی بھاگیداری، اس کی اتنی حصہ داری‘‘ کے فارمولہ پر سختی سے جمی رہے۔ کس کی کوشش کتنی کامیاب ہوگی یہ کہنا مشکل ہے۔‘‘

[روزنامہ انقلاب]

انڈیا

انڈیا کینیڈا تنازع

نریندر مودی کے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری گزشتہ ماہ جی ۲۰ کے اجلاس سے پہلے ماضی میں بھی دیکھی گئی۔ لیکن یہ سرد مہری تنازع کی شکل اس وقت اختیار کر گئی جب کینیڈا کے وزیر اعظم نے مودی حکومت پر سکھ علیحدگی پسند رہنما ’ہردیپ سنگھ نجر‘ کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ اور کہا کہ خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے کینیڈا کے اندر قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں، اور یہ کینیڈا کی خود مختاری کی ناقابلِ قبول خلاف ورزی ہے۔ اس پر دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہو گئے۔ امریکہ اور یورپی یونین نے بھی اس واقعہ پر کوئی خاص ردِّ عمل نہیں دیا جس کی وجہ سے کینیڈا اپنی ہی مغربی برادری میں تنہا رہ گیا۔ چونکہ مغربی طاقتیں انڈیا کے ساتھ کھڑی ہیں اور ایشیا میں چین کی ابھرتی طاقت کے مقابل انڈیا کو کھڑا کر رہی ہیں تاکہ انڈیا کے ساتھ مل کر چین کے مقابلے میں طاقت کا توازن قائم کر سکیں۔ چنانچہ وہ انڈیا سے کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں قائم کرنا چاہتیں۔

اس سلسلے میں جہاں عالمی میڈیا نے کینیڈا کو تنہا چھوڑ رکھا ہے وہیں بھارتی میڈیا چاہے مسلمانوں کے اخبارات ہوں یا ہندوؤں کا میڈیا سب کے سب بڑھ چڑھ کر کینیڈا کے خلاف لکھ رہے ہیں۔

اس حوالے سےذیل میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتل ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان شدید سفارتی تناؤ | مسعود ابدالی

’’یہ تنازع ہے تو خاصا سنگین، اور نجر کے ہندوستانی ایجنٹ کے ہاتھوں قتل کو کچھ کینیڈین اہلکار ریاستی دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔ کینیڈا کے تین معتمد اتحادی امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا بظاہر کینیڈا کی پشت پر ہیں، لیکن مغربی دنیا کوشش کر رہی ہے کہ کینیڈا اور بھارت کے درمیان سفارتی تنازع دوسرے ممالک کے بین الاقوامی تعلقات کو خراب نہ کرے۔ بڑھتی ہوئی معاشی قوت کے ساتھ بھارت کا عالمی بساطِ سیاست پر کردار اہم ہو گیا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے لیے بھارت، چین کی پیش قدمی کو روکنے والا ہراول دستہ ہے۔ افغانستان پر روسی حملے کے وقت صدر ضیاء الحق پاکستان کو کمیونسٹ یلغار کے سامنے Front Line State کہا کرتے تھے۔ اب مغربی دنیا بھارت کو چین کے امنڈتے سیلاب کے آگے مضبوط بند سمجھتی ہے۔

چنانچہ امریکہ اور یورپی یونین نہیں چاہتے کہ بھارت کینیڈا تنازع چین کے خلاف اتحاد کو کمزور کر دے۔ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کو قتل کے ان الزامات پر ’گہری تشویش‘ ہے، وہ اس تنازع کے حل اور بھارت کینیڈا کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ لیکن اگر تحقیقات کے نتیجے میں بھارتی دامن و خنجر خود بول پڑے تب بھی ان ممالک کے لیے دہلی کی سرزنش و مذمت ممکن نہیں کہ :

؎انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو! ‘‘

[روزنامہ منصف]

دنیا میں واحد پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس کے میڈیا پر ہندوستان کے اس اقدام پر تنقید کی جا رہی ہے۔ لیکن یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اگرچہ پاکستانی تجزیہ نگار کینیڈا میں بھارتی کارروائی کی مذمت کر رہے ہیں لیکن یہ بات شاید کم ہی لوگوں کے علم میں ہو کہ جن دنوں کینیڈا میں خالصتان تحریک کے رہنما کا قتل ہوا انہی دنوں پاکستان کے شہر لاہور میں بھی خالصتان کے ایک رہنما کا قتل ہوا۔ لیکن میڈیا، حکومت اورفوج سب کو اس معاملے میں سانپ سونگھ گیا۔ ایسا ظاہر کیا جا رہا ہے جیسے ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔

بہرحال انڈیا کینیڈا تنازع کے حوالے سے ایک پاکستانی کالم نگار کی طرف سے بھارت پر کی گئی تنقید سے اقتباس ملاحظہ ہو:

ہندوستان، کینیڈا مناقشہ اور خفیہ ایجنسیوں کے بیرون ملک آپریشن | افتخار گیلانی

’’آج جب کینیڈا نے نجر کے قتل کے معاملے میں ہندوستان کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، تو میجر اوتار سنگھ اور قانون دان جلیل اندرانی کا ذکر لازمی تھا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ راء جس نے سری لنکا اور میانمار میں شورشوں کی حمایت کی ہے اور ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے لیے لڑنے والے گوریلوں کی مدد کی ہے، کینیڈا میں قاتلانہ حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مگر کیا چین کو قابو کرنے کے نام پر مغربی دنیا ہندوستان کو دوسرا اسرائیل بننے دینے کی متحمل ہو سکتی ہے؟ کیا جنوبی ایشیا دوسرا مڈل ایسٹ بننے جا رہا ہے؟ کسی نے چند سال قبل لکھا تھا کہ ہندوستان ، مغربی دنیا کے بگڑے ہوئے چھوکرے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ کیا اس بگڑے چھوکرے پر لگام لگانے کا وقت نہیں آیا ہے، جو اس خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے؟ استحکام اور پائیدار امن کے لیے سنجیدہ اقدامات اور بات چیت کی ضرورت ہوتی ہے، جو سیاسی قوتوں کا ہی خاصہ ہوتا ہے۔‘‘

[دی وائر]

انڈیا

ہندوؤ ں کی ’سائنسی ایجادات و دریافتیں‘

ہندو ایک ایسی قوم ہے جو اپنی ’عظمت‘ بیان کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے اور جھوٹ کے پل باندھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔ نہ ہی بلنگ و بانگ دعوے کرنے والوں کو کوئی دقت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی ان دعووں کو قبول کرنے والوں کو کوئی جھجک محسوس ہوتی ہے۔ ان کے تو سائنسدان تک بڑے وثوق سے دعویٰ کر لیتے ہیں کہ گائے کا گوبر خود پر لیپ لینے سے ایٹم بم کی تابکاری سے بچا جا سکتا ہے کیونکہ گاؤ ماتا کے گوبر سے تابکاری نہیں گزر سکتی۔

اس سے ہی ملتی جلدی ایک حرکت جی ۲۰ کے اجلاس میں بھی کی گئی۔ اجلاس کے اختتام پر تمام شرکا اور صحافیوں کو ایک فولڈر دیا گیا جس میں دو کتابیں اور کچھ پمفلٹ تھے جن میں اسی قسم کے مضحکہ خیز دعوے کیے گئے ہیں۔

ان مضحکہ خیز دعووں کا ذکر ایک کالم نگارنے کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

جی ٹوئنٹی اجلاس اور مذاق کا سامان | روہنی سنگھ

’’شاید اس اجلاس کی گہما گہمی کی وجہ سے اُن کو ان کتابوں کے مطالعہ کا موقع دہلی میں نہیں ملا، مگر گھر واپس پہنچ کر جس بھی غیر ملکی مندوب نے ان کتابوں کو پڑھا، ان کو تو مذاق کا ایک موضوع مل گیا ہے۔ کئی افراد تو میسج کر کے کہہ رہے ہیں کہ ان کو پتہ نہیں تھا کہ بھارت میں فائٹر جیٹ پتھر کے زمانے میں ہی ایجاد ہوگئے تھے، جبکہ ابھی لوہا اور حتیٰ کہ آگ بھی دریافت نہیں ہوئی تھی۔

……اس کتاب میں غیر ملکی مندوبین کو بتایا گیا ہے کہ کئی ہزار سال قبل بھارتی سائنسدان مہاراشی بھاردواج نے اپنی کتاب Science of Aeronautics میں خلائی سوٹ اور اسے بنانے والے مواد کے بارے میں لکھا تھا۔

……کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت کے ایک ماہرِ فلکیات نے پہلی صدی قبل مسیح میں مریخ کی سطح پر پانی کاہونا دریافت کر لیا تھا۔ اب یہ حضرت مریخ پر کیسے پہنچ گئے تھے، اس کے بارے میں تفصیل نہیں ہے۔

اس میں مزید لکھا ہے کہ مہا بھارت کے دور کے کردار ’کورو‘ بھائیوں کی پیدائش ’ٹیسٹ ٹیوب‘ کے ذریعے سے ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ مہابھارت کی جنگ پانچ ہزار سال قبل ہوئی تھی۔ اب ان کو کون بتائے کہ خود شیشے کی دریافت ہی چار ہزار سال قبل ہوئی تھی۔ ایک اور انکشاف ہے کہ بھگوان کرشن کے بڑے بھائی بلرام کی پیدائش ’سروگیسی‘ (Surrogacy) کے ذریعے سے ہوئی تھی۔

……مزید بتایا گیا ہے کہ کششِ ثقل کے تصور کی وضاحت سب سے پہلے ایک بھارتی سائنسدان نے کی تھی۔ جان ڈالٹن سے ۲۵۰۰ سال قبل ایک ہندوستانی اسکالر نے ایٹم دریافت کر لیا تھا۔ اب اگر ایٹم دریافت کر لیا تھا تو شاید ایٹم بم بھی بنا لیا ہو گا۔ مگر آخر اس کو دریائے سندھ کے راستے آئے دن آنے والے حملہ آوروں کے خلاف کیوں استعمال نہیں کیا گیا؟ یہ حملہ آور تو چند سو گھوڑوں پر سوار دہلی تک دندناتے چلے آتے تھے۔

مندوبین کے فولڈر میں “Bharat – Mother of Democracy” اور “Bharat – Ancient Culture” نامی کتابچے بھی تھے۔ ان میں واضح انداز میں تحریر ہے کہ قدیم زمانے سے بھارت میں جمہوری روایات موجود ہیں۔ ایک دستاویز میں بھارت کی جمہوری روایات کو ۶۰۰۰ قبل مسیح بتایا گیا ہے۔

……کتاب میں کہا گیا ہے کہ قدیم جمہوری روایت بھارت میں رامائن اور مہا بھارت کے دور میں موجود تھی۔ اس میں وادیٔ سندھ کی کی تہذیب کو سندھو سرسوَتی تہذیب بتایا گیا ہے۔ کتاب کے مطابق مراٹھا لیڈر شیواجی اور مہاراجا پرتاب اس ملک کے حقیقی ہیروز تھے نہ کہ دہلی سلطنت کے حکمران۔

……ستم ظریفی یہ ہے کہ ان دونوں کتابچوں میں بھارت میں مسلم حکمرانی کے ۱۰۰۰ سال کے اہم دور کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ باہر سے آنے والے مہمان کانفرنس کی مصروفیت سے وقت نکال کر مسلم دور کی یادگاروں کو ہی دیکھنے چلے گئے۔ کئی سربراہانِ مملکت نے تو دہلی کی شاہی جامع مسجد جانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا، مگر ان کو بتایا گیا کہ سکیورٹی کی وجہ سے ان کا جانا مناسب نہیں ہے، مگر وفد کے دیگر افراد ان جگہوں پر حاضری دے سکتے ہیں۔‘‘

[ڈی ڈبلیو اردو]

٭٭٭٭٭

Exit mobile version