مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چوبیس (۲۴)

یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)


چوبیسویں وجہ: دنیا کے فتنے میں پڑ جانا

حضرت ابو سعید خدری ﷜ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إن الدنيا حلوة خضرة وإن الله مستخلفكم فيها فينظر كيف تعملون فاتقوا الدنيا واتقوا النساء فإن أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء.

دنیا بڑی شیریں اور ہری بھری ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیا میں خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا وہ دیکھتا ہے کہ تم کس طرح عمل کرتے ہو۔ پس خبردار ! تم دنیا سے بچنا اور عورتوں سے دور رہنا۔ کیونکہ بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں کے بارے میں تھا۔“ (بروایت مسلم)

علامہ سعدی ﷫ فرماتے ہیں:

نبی اکرم ﷺ نے اس حدیث میں دنیا کی حالت کا ذکر کیا ہے اور اس کی ایسی تعریف کی ہے جو دیکھنے والوں اور چکھنے والوں کو پسند آئے۔ اور پھر بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بندوں کے لیے آزمائش اور ابتلا بنایا ہے۔ اور پھر حکم دیا کہ وہ اسباب اختیار کیے جائیں جن سے اس کے فتنوں میں پڑنے سے بچا جا سکے۔ پس یہ بتانا کہ وہ شیریں اور ہری بھری ہے وہ اس کی صفات پر حاوی ہے۔ وہ اپنے ذائقہ، لذت اور شہوت کے اعتبار سے شیریں ہے۔ جبکہ اپنے ظاہری رونق اور حسن میں ہری بھری ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَاللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ؀ (سورۃ آل عمران: 14)

’’خوش نما بنا دی گئی ہے لوگوں کے لیے خواہشوں کی محبت یعنی عورتیں اور بیٹے اور بڑے بھاری مال سونے کے اور چاندی کے اور نشان لگائے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتیاں، یہ دنیا والی زندگی کا فائدہ اٹھانا ہے اور اللہ کے پاس ہے اچھا ٹھکانہ۔‘‘

اور فرمایا:

اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَيُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝ (سورۃالکہف: 7)

’’بلاشبہ زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اس کے لیے زینت بنایا ہے تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون زیادہ اچھا عمل کرنے والا ہے۔‘‘

دنیا میں مختلف لذات اور خوبصورت منظر کو اللہ تعالیٰ نے آزمائش اور امتحان بنایا ہے۔ اور بندوں کو اس دنیا میں خلیفہ بنایا ہے تاکہ دیکھے کہ وہ کیا کرتے ہیں؟

اب جو اس میں سے حلال کھائے، اور اس کے حق میں خرچ کرے، اور اللہ کی بندگی کو ادا کرنے کے لیے اس سے مدد لے، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا تھا، تو یہ دنیا اس کے لیے اس سے بہتر اور دائمی ٹھکانے کی طرف زادِ راہ اور سواری بن جاتی ہے۔ اس کے لیے دنیوی اور اخروی خوشی نصیب ہوتی ہے۔

اور جو اس دنیا کو اپنا سب سے بڑا مقصد بنائے، اپنے علم کی انتہا اور اپنی آخری مراد گردانے، تو اسے اس دنیا میں سے فقط وہی ملے گا جو اس کے لیے لکھا گیا تھا۔ جبکہ اس کے بعد اس کے نصیب میں بدبختی ہو گی۔ وہ دنیا کی لذتوں اورشہوتوں سے صرف تھوڑے عرصے کے لیے مزے لے سکے گا۔ اس کے لیے لذتیں تھوڑی اور ہم و غم لمبے ہوں گے۔“ ا۔ھ

حضرت ابو عبیدہ ﷜ بحرین سے مال لے کر لوٹے۔ انصار کو ان کی آمد کا پتہ چلا تو صبح کی نماز نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ادا کی۔ نماز کے بعد نبی اکرم ﷺ جانے لگے تو انصار سامنے آ گئے۔ آپ ﷺ انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا:

میرا خیال ہے آپ لوگوں نے سنا ہے کہ ابو عبیدہ کچھ لے کر لوٹے ہیں“۔ انہوں نے فرمایا: ’’جی اے رسول اللہ ﷺ‘‘۔ تب آپ ﷺنے فرمایا:

فأبشروا وأملوا ما يسركم، فوالله لا الفقر أخشى عليكم ولكن أخشى عليكم أن تبسط عليكم الدنيا كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها، وتهلككم كما أهلكتهم.

تمہیں خوشخبر ی دیتا ہوں۔ جس سے تم خوش ہو گے اس کی امید رکھو۔ اللہ کی قسم مجھے تمہارے فقروافلاس کا کوئی ڈر نہیں ہے بلکہ میں اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کی جائے گی جیسا کہ ان لوگوں پر دنیا کشادہ کی گئی تھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، چنانچہ تم دنیا کی طرف رغبت کرو گے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں نے اس کی طرف رغبت کی تھی اور پھر یہ دنیا تم کو اسی طرح تباہ و برباد کردے گی جس طرح ان کو تباہ و برباد کرچکی ہے۔‘‘ (بخاری ومسلم)

ابن بطال ﷫ فرماتے ہیں:

اس حدیث میں یہ فائدہ ہے کہ جس پر دنیا کشادہ ہو جائے اسے چاہیے کہ وہ اس کے انجامِ بد سے اور فتنے کے شر سے بچے۔ وہ اس کی زینت اور سجاوٹ سے مطمئن نہ ہو جائے، اور اس کے حصول کے لیے دوسروں کے ساتھ دوڑ میں نہ لگ جائے۔ اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ فقیری امیری سے بہتر ہے۔ کیونکہ دنیا کا فتنہ امیری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ امیری سے ایسے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے جس سے اکثر انسان ہلاکت میں پڑ جاتا ہے۔ جبکہ فقیر اس سے کہیں زیادہ بچا رہتا ہے۔“

امام ابن حجر ﷫ فرماتے ہیں:

”[حدیث میں مذکورہ لفظ] تنافس منافسہ سے نکلا ہے۔ جس سے مراد کسی چیز میں رغبت، اکیلے حاصل کرنے کی چاہت اور دوسروں سے اس میں آگے نکلنا ہے۔ اس کا اصل اپنی اقسام میں نفیس چیز ہے۔

اور یہ فرمانا کہ (تباہ و برباد کر دے گی) تباہی اس لیے ہو گی کہ مال و دولت مطلوب چیز ہے۔ اس کے حصول کے لیے کوشش میں انسانی نفس خوش ہوتا ہے۔ جب اسے پا لیتا ہے تو اوروں کو نہیں دیتا۔ اس سے دشمنی پیدا ہوتی ہے جس سے قتل و غارت ہوتی اور آخر کار تباہی و بربادی۔“

امام ترمذی اور امام ابو داود ﷮ ابو عمران اسلم تجیبی سے روایت کرتے ہیں:

ہم رومیوں کے شہر میں تھے۔ رومیوں نے ایک بڑا لشکر بھیجا۔ مسلمانوں نے ا ن کے برابر یا ان سے بھی زیادہ لشکر بھیجا۔ اس لشکر میں مصر کے مسلمانوں پر حضرت عقبہ بن عامر ﷜ امیر تھے۔ جبکہ ساروں پر حضرت فضالہ بن عبید ﷜ امیر تھے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص حملہ کرتے ہوئے رومیوں کے لشکر کے اندر جا گھسا، تو لوگ چیخ اٹھے: سبحان اللہ، دیکھو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔ وہاں حضرت ابو ایوب انصاری ﷜ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو!تم لوگ اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہو! یہ آیت تو ہم انصاریوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح نصیب کی اور اس کے حامی بہت زیادہ ہو گئے۔ اس وقت ہم میں سے بعض نے رسول اللہ ﷺ کو بتائے بغیر ایک دوسرے سے کہا: ہمارا مال و جائیداد تو ضائع ہو چکا ہے، اور اب تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح نصیب کی ہے اور اس کے حامی بہت ہو گئے ہیں۔ اگر اب ہم اپنے مال و جائیداد میں رہ جائیں تاکہ اس میں سے جو خراب ہوا ہے اسے دوبارہ بحال کر دیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ پر یہ آیت نازل کی تاکہ ہماری اس بات کو رد کریں:

وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ٻ وَاَحْسِنُوْا ڔ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ؁ (سورۃ البقرۃ: 195)

’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اور نہ ڈالو اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں، اور خوبی کے ساتھ کام کیا کرو، بیشک اللہ تعالیٰ خوبی کے ساتھ کام کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘

پس ہلاکت اس میں تھی کہ ہم اپنے مال و جائیداد میں رہیں اور انہیں سنبھالتے رہیں اور جہاد کرنا چھوڑ دیں۔

چنانچہ حضرت ابو ایوب ﷜ اللہ کی راہ میں لڑنے کے لیے کھڑے رہے یہاں تک کہ رومیوں کی سرزمین میں دفنا نہ دیے گئے۔“

بعض ایسے ہوتے ہیں جو روزی کمانے میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کا بیشتر وقت اسی میں گزرتا ہے۔ اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ تنگی ہے اور گھر بچوں کی ضرورت ہے۔ ایسے افراد بھول جاتے ہیں کہ ان کا رزق تو لکھا گیا ہے۔ اور روزی کمانے کی وجہ سے تو صحابہ، تابعین اور سلف امت بھی جہاد فی سبیل اللہ سے نہیں رکے۔

نبی ﷺنے فرمایا:

وإن روح القدس نفث في روعي أن نفسا لن تموت حتى تستكمل رزقها ألا فاتقوا الله وأجملوا في الطلب.

روح القدس (یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ بلاشبہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنا رزق پورا نہیں کرلیتا۔ تو دیکھو، اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے رہو اور حصولِ معاش کی جدوجہد میں نیک روی اور اعتدال اختیار کرو۔“ (بروایت ابنِ ماجہ، ابنِ حبان، حاکم)

امام ابن قیم ﷫ فرماتے ہیں کہ :

نبی اکرم ﷺ نے اس قول (فاتقوا الله وأجملوا في الطلب) میں دنیا اور آخرت کی مصلحت کو جمع کر دیا ہے۔ آخرت کی نعمتیں اور لذتیں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے سے ملتی ہیں۔ جبکہ دل اور جسم کا آرام اور دنیا کے حصول کی خاطر غم، شدید لالچ، تھکاوٹ اور مشقت کو چھوڑنا، حصولِ معاش کی جدوجہد میں نیک روی اور اعتدال سے حاصل ہوتا ہے۔ جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ آخرت کی لذتیں اور نعمتیں پاتاہے۔ اور جو حصولِ معاش کی جد و جہد میں اعتدال اختیار کرتا ہے وہ دنیا کی مشقت اور غم وہم سے بچ جاتا ہے۔ اور اللہ سے ہی مدد لی جا سکتی ہے۔

[شعر(نثری ترجمہ)]:

دنیا نے اپنے آپ کو ہی پکارا؛ اگر مخلوق میں سے کوئی سنتا ہو، کہ کتنے ہیں جنہیں اپنی زندگی پر بھروسہ ہے، انہیں میں ہلاک کر دیتی ہوں۔ اور کتنے ہیں جو مال و دولت جمع کرتے ہیں، میں ان کے مال و دولت کو بکھیر دیتی ہوں۔“

بعض لوگ مجاہدین میں شامل تھے جو کہ تجارت کرنے لگے۔ بعض تجارت میں دینی وجوہات کی بنا پر لگے۔ مثلاً تاکہ حلال روزی کماؤں اور صدقہ بھی کروں اور مسلمانوں کی مدد کروں، اس کے بجائے کہ فاسق لوگ ہی تجارت اپنائیں، میں تجارت کروں۔ لیکن وہ تجارت صحیح طریقے سے نہیں شروع کرتا، اللہ تعالیٰ کے ساتھ پکا وعدہ نہیں کرتا، لالچ سے اپنے آپ کو نہیں بچاتا۔ بلکہ وہ اپنی کمزوریوں سمیت تجارت کرتا ہے، آہستہ آہستہ بدل جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آخر کار بعض دنیا دار تاجر اس سے بہتر ہوتے ہیں اور زیادہ صدقات دیتے ہیں۔ نیز وہ تساہل برتتا ہے یہاں تک کہ حرام کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے، واجبات چھوڑ دیتا ہے، صدقہ بھی نہیں کرتا، کرتا ہے تو انتہائی کم۔ اگر آپ حساب لگائیں کہ جب وہ مجاہد تھا تو کتنے صدقے کیے تو معلوم ہو گا کہ تاجر بننے سے پہلے وہ زیادہ صدقے کرتا تھا۔

وَمِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَىِٕنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ؀ فَلَمَّآ اٰتٰىهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ بَخِلُوْا بِهٖ وَتَوَلَّوْا وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ ؀ (سورۃ التوبہ: 75-76)

’’اور ان میں بعض ایسے ہیں جو اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے عطا فرمایا تو ہم ضرور ضرور خیرات کریں گے اور ضرور ضرور ہم نیک آدمیوں میں شمار ہوجائیں گے۔ سو جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرما دیا تو اس میں کنجوسی کرنے لگے اور وہ اعراض کرتے ہوئے رو گردانی کر گئے۔‘‘

رزق حاصل کرنے کا بہترین طریقہ غنیمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے لیے بنایا ہے۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ؀ (سورۃ الانفال:41)

’’اور تم جان لو کہ جو کوئی چیز تمہیں مالِ غنیمت سے ملے سو بلاشبہ اللہ کے لیے اس کا پانچواں حصہ ہے اور رسول کے لیے اور قرابت والوں کے لیے اور یتیموں کے لیے اور مسکینوں کے لیے اور مسافروں کے لیے، اگر تم ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر اور اس چیز پر جو ہم نے نازل کی اپنے بندے پر فیصلے کے دن،جس روز بھڑ گئی تھیں دونوں جماعتیں۔ اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘

اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں آیا ہے:

جعل رزقي تحت ظل رمحي، وجعل الذلة والصغار على من خالف أمري.

میرا رزق میرے نیز ے کے سائے کے نیچے رکھا ہے۔ اور میرے حکم کی مخالفت کرنے والے پر ذلت اور رسوائی لکھ دی گئی ہے۔“

جبکہ آخری زمانے میں ایسے لوگ آئیں گے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

ليأتين على الناس زمان قلوبهم قلوب الأعاجم.

لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جس میں ان کے دل اعجمیوں کے دل جیسے ہو جائیں گے۔“

آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ عجمیوں کے دل کیا ہیں؟ فرمایا:

حب الدنيا، سنتهم سنة العرب، ما آتاهم الله من رزق؛ جعلوه في الحيوان، يرون الجهاد ضرارًا والصدقة مغرمًا.

دنیا کی محبت، ان کے طور طریقے عرب کے ہیں۔ انہیں جو رزق ملتا ہے اسے دنیا میں لگا دیتے ہیں۔ جہاد انہیں نقصان دکھائی دیتا ہے اور زکوٰۃ جرمانہ۔“ (صحیح از البانی)

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ؀ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۝ (سورۃ الصف: 10-11)

’’اے ایمان والو ! کیا میں تم کو ایسی سودا گری بتلاؤں جو تم کو ایک درد ناک عذاب سے بچالے۔ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو، یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔‘‘

سید قطب ﷫ اپنی عظیم کتاب الظلال میں فرماتے ہیں:

بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو غربت اور محرومی پر صبر کرتے ہیں۔ ان کے نفس پست نہیں ہوتے اور نہ ذلیل۔ لیکن کم ہیں جو دولت اور آسودگی پر، اور جو دولت اور آسودگی کے سبب دنیا حاصل کرنے کی رغبت، خواہشات اور حرص پیدا ہوتی ہے ، پر صبر کرتے ہیں۔

سختی کی آزمائش سے بسااوقات غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ جس سے مزاحمت پیدا ہوتی ہے، اعصاب قوی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح پوری طاقت مزید سختی اور سختی کے سامنے ڈٹ جانے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ جبکہ آسودگی اعصاب کو ڈھیلا کر دیتی ہے، اعصاب کو سلا دیتی ہے۔ اعصاب میں صلاحیت نہیں رہتی کہ وہ جاگتے رہیں اور مزاحمت کریں۔ اس لیے بہت سے ہیں جو سختی کا مرحلہ کامیابی سے گزار لیتے ہیں، لیکن جیسے ہی آسودگی آتی ہے آزمائش میں پڑ جاتے ہیں۔“

٭٭٭٭٭

Exit mobile version