تقویٰ کے انعامات | پہلی قسط

زندگی کا مقصد کیا ہے؟

دنیا میں آنے کا کیا مقصد ہے؟ خالی امپورٹ ایکسپورٹ کہ خوب کھاؤ اور لیٹرین میں ایکسپورٹ کردو؟ اگر یہ مقصد ہے تو ہاتھی ہم سے زیادہ کامیاب ہے کیونکہ اس کا امپورٹ بھی زیادہ ہے اور ایکسپورٹ بھی زیادہ ہے، حالانکہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی سے پوچھو کہ آپ نے ہمیں کیوں دنیا میں بھیجا ہے؟ خالقِ حیات سے پوچھو کہ ہماری زندگی کا کیا مقصد ہے؟ اور خالقِ حیات فرما رہے ہیں کہ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً، میں نے تم کو موت اور زندگی دی ہے۔

موت کی حیات پر وجۂ تقدیم

اور موت کو مقدم کر رہا ہوں، اس لیے کہ جس زندگی نے اپنی موت کو سامنے رکھا وہ زندگی کامیاب ہوگئی، اس لیے موت کو پہلے بیان کر رہا ہوں، خَلَقَ الْمَوْتَ کی تقدیم کی وجہ یہ ہے۔ تَقْدِیْمُ الْمَوْتِ عَلَی الْحَیَاۃِ یعنی اللہ تعالیٰ نے زندگی پر موت کو اس لیے مقدم کیا کہ جو زندگی اپنی موت کو سامنے رکھے گی کہ اللہ تعالیٰ کو منہ دکھانا ہے، اللہ کے پاس جانا ہے، تو وہ سانڈ اور جانور کی طرح آزاد نہیں رہے گی، یعنی گندے کام نہیں کرے گی اور ڈرے گی اور مقصدِ حیات بتا دیا؛ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً1 تاکہ ہم تم کو دیکھیں کہ تم اچھے عمل کرتے ہو یا خراب عمل کرتے ہو۔ معلوم ہوا کہ دنیا میں آنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔

الہامِ فجور و تقویٰ کی حکمت

اور فرماتے ہیں کہ تمہارے امتحان کے لیے میں نے تمہارے نفس کے اندر دونوں مادّے رکھ دیے۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا2 ہم نے تمہارے نفس میں فجور کا مادّہ بھی رکھ دیا کہ تم گناہ کرسکتے ہو، خوب تقاضا ہوگا اور تقویٰ اور اپنا خوف بھی رکھ دیا لہٰذا جس سائیڈ کو چاہو رگڑ کر اس میں تقویت پیدا کردو۔ دیا سلائی میں دو سائیڈ ہوتی ہیں لیکن جب تک رگڑو گے نہیں جلے گی نہیں، لہٰذا ظلم نہیں ہے کہ اللہ میاں نے کیوں ہمارے اندر گناہ کا مادّہ رکھ دیا، جیب میں دیا سلائی ہوتی ہے تو کیا جیب کو جلا دیتی ہے؟ رگڑنے سے آگ لگتی ہے۔ اسی طرح نفس میں ایک طرف فجور ہے، ایک طرف تقویٰ ہے۔ اگر حسینوں سے، نمکینوں سے، عورتوں سے، لڑکوں سے میل جول کروگے تو نافرمانی کے مادّے میں رگڑ لگ جائے گی اور گناہ کی آگ بھڑک جائے گی اور اگر تم اللہ والوں کے پاس رہو گے تو فرماں برداری کے مادّے میں رگڑ لگ جائے گی اور تقویٰ کا نور روشن ہوجائے گا۔

تقدیم فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا کا راز

کئی برس پہلے ایک بڑے عالم کے ساتھ میرا سفر ہو رہا تھا۔ مولانا نے ریل میں فجر کی نماز میں یہی سورت پڑھائی۔ نماز کے بعد میں نے ان سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فجور کو کیوں مقدم فرمایا؟ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا نافرمانی کو اللہ نے کیوں مقدم کیا؟ گندی چیز کو کیوں مقدم کیا؟ فجور اور نافرمانی تو خراب چیز ہے جبکہ مقدم تو اچھی چیز ہونی چاہیے۔ مولانا نے فرمایا کہ بھائی! تم ہی بتاؤ۔ میں نے کہا دیکھیے! موقوف علیہ پہلے ملتا ہے، بخاری بعد میں ملتی ہے یعنی دورہ بعد میں ہوتا ہے، چونکہ فجور اور نافرمانی کا مادّہ اگر اللہ نہ رکھتا تو تقویٰ کا وجود بھی نہ ہوتا۔

تقویٰ کی تعریف

کیونکہ تقویٰ کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ نافرمانی کا تقاضا ہو اور پھر اس کو روکے اور اس کا غم اٹھائے۔ اس غم سے پھر تقویٰ کا نور پیدا ہوتا ہے۔ اگر مادّہ فجور نہ ہوتا تو کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْھَوٰی نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَنَھَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى3 جو نفس کی بری خواہش کو روکتا ہے وہ متقی اور جنتی ہوتا ہے۔ تو جب ھوٰی کو روکنا ہے تو ھوٰی کا وجود ضروری ہوا، ورنہ اگر ہم کہہ دیں کہ ہمارے ہاتھ میں جو چشمہ ہے اس کو دیکھنا مت، اور ہاتھ میں چشمہ نہ ہو تو کلام لغو ہوگیا اور اگر چشمہ ہے تو اب کلام صحیح ہوا۔ معلوم ہوا کہ ہر نَھِی اپنے مَنْھِیْ عَنْہُ کے وجود کی متقاضی ہے، اگر مَنْھِی عَنْہُ نہیں ہے تو نَھِی لغو ہے اور اللہ کا کلام پاک ہے لہٰذا مادہ ھَویٰ کا ہونا لازم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی جو ہمارے خاص بندے ہیں وہ بری خواہشات کو روکتے ہیں اور روکنے کا غم اٹھاتے ہیں کیونکہ نفس کا مزاج یہی ہے، اس کی غذا گناہ ہے۔

نفس دشمن کے تڑپنے سے خوش ہوجائیے

جب اس کو اپنی غذا نہیں ملتی تو تڑپتا ہے لیکن دشمن کے تڑپنے سے آپ کی روح کو خوش ہونا چاہیے۔ کیوں صاحب! اگر آپ کا دشمن تڑپتا ہے، جلتا ہے، غم اٹھاتا ہے تو آپ کہتے ہیں بہت اچھا ہے اور مرو، مُوْتُوا بِغَیْظِکُمْ، لہٰذا جب عورتوں اور لڑکوں سے نظر بچانے سے نفس کو غم پہنچے تو آپ خوش ہوجائیے کہ دشمن کو غم پہنچ رہا ہے اور اس کی وجہ سے تقویٰ پیدا ہو رہا ہے۔ اگر نافرمانی کا یہ مادّہ نہ ہوتا تو کوئی شخص متقی نہیں ہوسکتا تھا۔

فرشتے معصوم ہیں متقی نہیں

اس لیے جبرئیل علیہ السلام کو متقی کہنا جائز نہیں، معصوم کہنا چاہیے۔ فرشتوں کو ہم معصوم کہتے ہیں متقی نہیں کہہ سکتے کیونکہ متقی وہ ہے جس کو گناہ کا تقاضا ہو، اس کو روکے، اس کا غم اٹھائے۔ تقویٰ نام ہے کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْھَوٰی کا یعنی نفس کو اس کی بری خواہش سے روکنا اور فرشتوں میں بری خواہش ہے ہی نہیں لہٰذا فرشتوں کو معصوم کہنا تو جائز ہے لیکن متقی کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ پوری دنیا میں حسن میں اوّل آنے والی لڑکی کو اگر جبرئیل علیہ السلام کی گود میں بھی رکھ دو تو انہیں پتا ہی نہیں چلے گا کہ یہ لوہے کا کھمبا ہے، یا ڈنڈا ہے یا لکڑی ہے یا پتھر ہے یا کوئی لڑکی ہے، ان کو کوئی برا تقاضا ہی نہیں ہوگا۔

فرشتوں کے بجائے انسان کو شرفِ نبوت عطا ہونے کا سبب

فرشتے جانتے ہی نہیں کی گناہ کیا چیز ہے؟ ان کے اندر صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اس کو سمجھ لیں، اسی لیے پیغمبر انسان بھیجا جاتا ہے تاکہ امت کے تمام تقاضاہائے بشریت کو سمجھ سکے۔ فرشتے چونکہ تقاضائے بشریت کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، اس لیے اصلاحِ نفوسِ بشریہ کے قابل نہیں ہوتے، ان کو نبی نہیں بنایا جاتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس لیے بھیجا ہے کہ تمہارے نفس میں تقاضے ہوں، تم ان کو روکو اور غم اٹھاؤ تاکہ میدانِ محشر میں پیش کر سکو کہ ہم نے آپ کے لیے بڑے غم اٹھائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھیں کہ کیا لائے ہو تو کہہ سکو اے اللہ! گناہ کے بڑے تقاضے تھے، پریشان کرتے تھے لیکن آپ کو خوش کرنے کے لیے ہم نے آپ کے راستے میں بڑے غم اٹھائے ہیں۔ داغِ دل پیش کرو ؎

میں نے لیا ہے داغِ دل کھو کے بہارِ زندگی
اِک گل ترکے واسطے میں نے چمن لٹا دیا

مولوی کوئی ہیجڑا مخنث نہیں ہوتا، وہ تقویٰ کی برکت سے بہت طاقت ور ہوتا ہے لیکن اللہ کے لیے صبر کرتا ہے ؎

توڑ ڈالے مہ و خورشید ہزاروں ہم نے
تب کہیں جا کے دکھایا رُخِ زیبا مجھ کو

اللہ کا سچا عاشق کون ہے؟

میں کہتا ہوں کہ اصلی سالک اور اللہ کا سچا عاشق وہی ہے جو اللہ کے راستے کا غم اٹھانا جانتا ہو اور غم اٹھانے کی ہمت رکھتا ہو۔ خالی نفل پڑھ لینا، نفلی حج و عمرہ کر لینا یہ کمال نہیں ہے، کمال یہ ہے کہ زبردست نمکین شکل سامنے آجائے اور نظر اٹھا کر نہ دیکھے اور غم اٹھا لے چاہے کلیجہ منہ کو آجائے۔ اگر کلیجہ منہ کو آنے کی مشق ہوجائے اور حسینوں سے نظر بچانے کی توفیق ہوجائے تو ان شاء اللہ اس کو نسبتِ صحابہؓ نصیب ہوگی۔ ابھی اس کی دلیل پیش کرتا ہوں، چونکہ علماء موجود ہیں اس لیے قرآن پاک سے دلیل پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کو میں نے ایمان کا یہ اعلیٰ مقام کس راستے سے دیا ہے؟

وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ4

وہ ایسے سخت حالات سے گزارے گئے کہ کلیجے منہ کو آگئے گویا کہ ان کے دل اکھڑ کر حلق میں آگئے، جہاد میں کیا ہوتا ہے۔ اور ہم نے ان کو بڑے بڑے زلزلے اور جھٹکے دیے ہیں:

وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا5

وہ سخت زلزلے میں ڈالے گئے۔ پس آج بھی جو شخص گناہ سے بچنے میں ہر قسم کا زلزلہ برداشت کرے گا اور کلیجہ اکھڑ کے اس کے منہ میں آجائے پھر بھی کسی نامحرم کو نہیں دیکھے گا، ہر قسم کا غم تقوٰی کے راستے میں اٹھا لے گا اور اللہ کو راضی رکھے گا، اپنے نفس کو ناخوش رکھے گا تو کیا ہوگا؟ ان شاء اللہ! اس کو نسبتِ صحابہؓ حاصل ہوگی۔

تقویٰ کے انعامات

اب سوال یہ ہے کہ ہم سے جب اللہ میاں نے مطالبہ فرما لیا کہ گناہ چھوڑ دو اور آج کل حکومتیں کہتی ہیں کہ کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر کام چلاؤ، تو اللہ تعالیٰ نے ہم سے گناہ چھڑوا کر ہم کو کیا دیا؟ لہٰذا تقویٰ پر اللہ تعالیٰ کے انعامات دیکھیے:

پہلا انعام: ہر کام میں آسانی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر تم سب تقویٰ سے رہو گے تو ہم تمہارے سب کام آسان کردیں گے۔ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ يُسْرًا6 ہم اپنے حکم سے اس کے سب کام آسان کر دیں گے۔ کیوں صاحب! یہ نعمت نہیں ہے کہ انسان کے سب کام آسان ہوجائیں؟

ارتکابِ گناہ خود ایک مشکل ہے

گناہ سے ہمارے کام آسان ہوتے ہیں یا مشکل؟ خود گناہ مشکل ہے۔ خود گناہ اتنا مشکل ہے کہ انسان اس کے لیے کتنی تدبیریں کرتا ہے، چھپاتا ہے وَکَرِھْتَ اَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ7 ہر وقت ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں لوگوں کو خبر نہ ہوجائے اور صحت بھی خراب ہوجاتی ہے، ہر گناہ سے صحت کو نقصان پہنچتا ہے، دل کمزور ہوجاتا ہے کیونکہ مخلوق کا خوف ہوتا ہے تاکہ کوئی جان نہ جائے۔

مَعِیْشَۃً ضَنْکًا (تلخ زندگی) کی تفسیر

مَعِیْشَۃً ضَنْکًا8 کی تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے نافرمانوں کو جو مجھ کو ناخوش کرکے حرام خوشیاں دل میں امپورٹ کر رہے ہیں میں ان کی زندگی کو تلخ کر دیتا ہوں اور ان کی حرام خوشیوں کے ٹاٹ میں آگ بھی لگا دیتا ہوں۔ میں واللہ! قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کوئی بھی نافرمان ظالم ثابت نہیں کرسکتا کہ وہ آرام سے ہے۔ ان کی صورتوں پر لعنتیں برستی ہیں، قلب پر اتنے عذاب ہوتے ہیں کہ جس کی حد نہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے حرام مزے لے لیتے ہیں، اس کے بعد دل پر عذاب اور بے چینی کے جوتے پڑتے رہتے ہیں۔

حکیم الامت نے مَعِیْشَۃً ضَنْکًا کی تفسیر فرمائی کہ گناہ گاروں کی زندگی کس طرح سے تلخ ہوتی ہے:

  1. انتقام سے ڈرتے رہتے ہیں کہ جس کے ساتھ گناہ کر رہا ہوں کہیں اس کے وارثین آکر انتقام نہ لیں۔

  2. خوفِ افشائے راز، ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں کہ میرا یہ راز کہیں آؤٹ نہ ہوجائے، کسی کو پتا نہ چل جائے۔ حضرت نے یہ تو علمی تفسیر فرمائی ہے، اب میں طبی تفسیر کرتا ہوں۔

بدنظری کے طبی نقصانات

ایک بدنظری سے کئی امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ایک سیکنڈ کی بدنظری ہو، دل کو ضعف ہوجاتا ہے، فوراً کشمکش شروع ہوجاتی ہے کہ نہیں؟ اِدھر سے کش ہے اُدھر دیکھ رہا ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا، اس کشمکش سے قلب میں ضعف پیدا ہوتا ہے اور گندے خیالات سے مثانے کے غدود متورم ہوجاتے ہیں جس سے اس کو بار بار پیشاب لگتا ہے اور اعصاب ڈھیلے ہوجاتے ہیں، جس سے دماغ کمزور اور نسیان پیدا ہوتا ہے، ہر عصیان سببِ نسیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر نافرمانی سے قوتِ دماغ اور حافظہ کمزور ہوجاتا ہے، بھولنے کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے اور اس کا علم بھی ضائع ہوجاتا ہے اور گردے بھی کمزور ہوجاتے ہیں، سارے اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ زلزلے میں کیا ہوتا ہے، جب کہیں زلزلہ آتا ہے تو عمارت کمزور ہوجاتی ہے یا نہیں؟ تو گناہ نفس و شیطان کی طرف سے زلزلہ ہوتا ہے اور جو اپنے آپ کو گناہ سے بچاتا ہے، اچانک نظر پڑی اور فوراً ہٹا لیا تو بھی دل میں زلزلہ آتا ہے، جھٹکا لگتا ہے۔ مگر گناہ کرنے کے زلزلے پر لعنت برستی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے مزید لات لگتے ہیں۔

قلبِ شکستہ کی تعمیر حلاوتِ ایمانی سے

اور گناہ سے بچنے میں دل پر جو زلزلہ محسوس ہوتا ہے اور تکلیف ہوتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم ہماری نافرمانی سے بچو گے، نظر ہٹاؤ گے تو تمہارے دل پر جو زلزلہ آئے گا اس کی تعمیر ہمارے ذمہ ہے۔ حلاوتِ ایمانی کے مٹیریل سے ہم تمہارے دل کی تعمیر کریں گے۔ اگر تم نے نظر کو بچا لیا اور حرام خوشی کو مجھ پر فدا کردیا، حرام خوشی حاصل نہیں کی اور مجھ کو خوش کرلیا تو تمہارے دل میں جو صدمہ و غم آئے گا اور اس سے جو تمہارا دل شکستہ ہوجائے گا، اس کی تعمیر ہمارے ذمہ ہے۔ اور کس چیز سے ہم تعمیر کریں گے، اس کا مادّہ کیا ہوگا؟ دنیا میں جہاں زلزلہ آتا ہے تو اس علاقے کو حکومت آفت زدہ قرار دیتی ہے، مال گزاری اور ٹیکس معاف کر دیتی ہے۔ ہم تمہارے گناہ معاف کر دیں گے اور اگر دنیا کی حکومت اعلان کرتی ہے کہ ہم سرکاری بجری اور سیمنٹ سے تمہارے گھروں کی تعمیر کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے بندوں کے قلوب کی بجری اور سیمنٹ سے تعمیر نہیں کرتے، حلاوتِ ایمانی کے مادّے اور مٹیریل سے تعمیر کرتے ہیں یعنی بصارت کی حلاوت لے کر ہم ان کو بصیرت کی حلاوت دیتے ہیں اور ایمان کی حلاوت وہ اپنے قلب میں محسوس کر لیتا ہے…… يَجِدُ حَلَاوَتَهٗ فِیْ قَلْبِهٖ9۔ يَجِدُ کا لفظ ہے، یعنی حلاوتِ ایمانی اس کے قلب میں موجود ہوتی ہے اور وہ واجد ہوتا ہے۔ اس پر میرا ایک شعر سنیے، اس مضمون کو میں نے ایک شعر میں پیش کیا ہے ؎

ترے ہاتھ سے زیرِ تعمیر ہوں
مبارک مجھے میری ویرانیاں ہیں

یعنی ہم نے اپنی خواہشات کو جو ویران کیا تو آپ کی تعمیر نصیب ہوئی، اس لیے ہم اس ویرانی کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ بری خواہشات کو اللہ کی توفیق سے جو ہم نے ویران کیا، ہم اپنی اس ویرانیٔ قلب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ اگر دل کی خواہشات ویران نہ ہوتیں تو اللہ تعالیٰ کی تعمیر نصیب نہ ہو پاتی۔ کیا مبارک نصیب ہے کہ مالک اور خالقِ کائنات کے دستِ پاک سے آج قلب کی تعمیر ہو رہی ہے، يَجِدُ حَلَاوَتَهٗ فِیْ قَلْبِهٖ۔

ترکِ گناہ سے جو قرب عطا ہوتا ہے اس کا کوئی بدل نہیں

تو ایسے شخص کو نسبتِ صحابہؓ عطا ہوتی ہے، نسبتِ صدیقین ملتی ہے، بہت اونچا ایمان و یقین ہوتا ہے ان لوگوں کا جو گناہ سے بچنے کا غم اٹھاتے ہیں، تقویٰ والا غم اٹھاتے ہیں۔ یہ بات خوب غور سے سن لیجیے کہ چاہے ایک لاکھ نوافل پڑھ لو، ایک لاکھ حج کرلو مگر ایک نظر بچانے میں جو دردِ دل عطا ہوتا ہے اس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا، کیونکہ عبادت حج و عمرہ و تسبیحات و اشراق و اوّابین سے تم نے حقِ محبت ادا کیا اور یہ حقِ عظمت ادا کر رہا ہے۔

گناہ چھوڑنا حقِ عظمتِ الٰہیہ ہے اور اس کی دلیل قرآن سے

گناہ سے بچنا اللہ تعالیٰ کی عظمت کا حق ہے۔ اس پر بھی دلیل پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛ اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ10 اپنے رب کو راضی کرو، جلدی معافی مانگو۔ اس کے بعد آخر میں فرمایا کہ تم کس نالائقی سے گناہ کرتے ہو؟ تمہیں خوف نہیں آتا، میری عظمت کا خیال نہیں آتا، مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا11…… دیکھیے اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ سے اس کا کیسا ربط ہے۔ اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ سے اس آیت کا ربط یہ ہے کہ اپنے رب کو راضی کرو اور تم لوگوں نے جب گناہ کیا تو اس وقت تمہیں میری عظمت کا خیال نہیں آیا۔ مَا لَكُمْ، کیا ہوگیا تمہیں، لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا، اللہ کے وقار اور اللہ کی عظمت کا تمہیں احساس نہیں ہوتا کہ کتنے بڑے مالک کو تم ناراض کر رہے ہو۔ یہ دلیل مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی، میں نے کسی کتاب میں نہیں دیکھا، تلاوت کرتے کرتے فوراً اس آیت پر دل میں آیا کہ سبحان اللہ! ہمارے اکابر نے جو فرمایا کہ عبادت اللہ کی محبت کا حق ہے اور گناہ سے بچنا اللہ تعالیٰ کی عظمت کا حق ہے، اس کی دلیل یہ آیت ہے۔

اب بتائیے کہ گناہ اچھی چیز ہے یا خراب چیز؟ تو خراب چیز کو جلد چھوڑنا چاہیے یا دیر سے؟ لہٰذا جب خود اقرار ہے تو گناہوں کو جلدی چھوڑنا چاہیے۔ انعام کیا ملے گا؟

تقویٰ کا پہلا انعام: مشکلات میں آسانی

آپ کے سب کام آسان ہو جائیں گے؛ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ يُسْرًا12 اللہ تعالیٰ اپنے حکم سے سب کام آسان کر دیں گے۔

تقویٰ کا دوسرا انعام: مصائب سے خروج

وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا13…… اس کو اللہ تعالیٰ مصیبت سے جلد نکال دیں گے۔ اس کو مصائب سے مخرج جلد ملے گا۔

تیسرا انعام: بے حساب رزق

وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ14…… اللہ ایسے راستے سے اس کو روزی دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوگا۔ تقویٰ بے خسارہ کی تجارت ہے، یہ اللہ تعالیٰ سے تجارت ہے، بے خسارہ کی ہے اور سود بھی نہیں۔ دنیامیں اگر کسی سے تجارت کرو اور خسارے کی ضمانت لے لو کہ بھئی نقصان کے ہم ساتھی نہیں ہیں تو یہ سود ہو جائے گا جو حرام ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ قانون بندوں کے لیے ہے کہ وہ آپس میں ایسی تجارت نہ کریں، اگر تم تقویٰ سے رہو تو میں ایسی تجارت کی ضمانت لیتا ہوں کہ ہم تم کو رزق دیں گے اور بے حساب دیں گے اور اس میں سود بھی نہیں ہوگا، تقویٰ میں نفع ہی نفع ہے، اس میں کبھی خسارہ نہیں ہے، ہماری طرف سے کبھی وعدہ خلافی نہیں ہوتی۔ اگر وعدہ پورا ہونے میں کبھی تاخیر نظر آئے تو سمجھ لو کہ تم نے کہیں نالائقی کی ہے، تمہارے تقویٰ میں کمی آگئی ؎

یہ اعمالِ بد کی ہے پاداش ورنہ
کہیں شیر بھی جوتے جاتے ہیں ہل میں

متقی آدمی کو کبھی پریشانی نہیں آسکتی، جب کبھی پریشانی آئے تو جائزہ لو، کہیں آنکھ نے غلطی کی ہوگی، کہیں کان نے، کہیں دل نے گندے خیالات پکائے ہوں گے، خیانتِ عینیہ ہوئی ہو یا خیانتِ صدریہ۔ بعض لوگ خیانتِ عینیہ (نگاہوں کی خیانت، بدنظری) سے توبہ کر لیتے ہیں لیکن دل میں پچھلے گناہوں کے مزے لیتے ہیں۔ یہ خیانتِ صدریہ ہے (سینے کی خیانت)، دونوں حرام ہیں اور دونوں کا قرآن پاک میں ذکر ہے؛ يَعْلَمُ خَاىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ15 لہٰذا نگاہِ چشمی کی حفاظت بھی فرض ہے اور نگاہِ قلبی کی حفاظت بھی فرض ہے، یعنی دل کی نگاہ کو بھی بچاؤ، گندے خیالات بھی دل میں نہ لاؤ۔

تو آپ نے تقویٰ کی تین انعامات سنے۔ کیا چھوڑ رہے ہو اور کیا مل رہا ہے، خراب اور گندی چیز چھڑا کر کیا کیا نعمتیں دے رہے ہیں۔ (۱) سب کاموں میں آسانی (۲) رزق بے حساب (۳)سب مصائب سے خروج۔

٭٭٭٭٭


1 سورۃ الملک: ۲

2 سورۃ الشمس: ۸

3 سورۃ النازعات: ۴۰

4 سورۃ الاحزاب: ۱۰

5 سورۃ الاحزاب: ۱۱

6 سورۃ الطلاق: ۴

7 صحیح مسلم: ۲/۳۱۴، باب تفسیر البر والاثم، ایج ایم سعید

8 سورۃ طٰہٰ: ۱۲۴

9 کنزالعمال: ۵/۳۲۸، (۱۳۰۶۸) الفرع فی مقدمات الزنا والخلوۃ بالاجنبیۃ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، المستدرک للحاکم: ۴/۳۴۹ (۷۸۷۵)

10 سورۃ نوح: ۱۰

11 سورۃ نوح: ۱۳

12 سورۃ الطلاق: ۴

13 سورۃ الطلاق: ۲

14 سورۃ الطلاق: ۳

15 سورۃ غافر: ۱۹

Exit mobile version