اسرائیل کا آج تلک ہے کون بھلا رکھوالا؟!

بندۂ مومن کی زندگی کا مقصد اللّٰہ کو، رسول اللّٰہ (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کے بتائے طریقے کی اتباع کرتے ہوئے راضی کرنا ہے، إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي، کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اپنی زندگی بس اپنے مالک کو راضی کرنے ہی میں گزری۔اسی رضا کے حصول میں، حضورِ انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم راتوں کو جاگے اور ایسا جاگے کہ مالک کے سامنے کھڑے رہ رہ کر پاؤں مبارک پر ورم آ جاتا۔ مالک جس نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اپنی رضا کا اعلان ہمیشہ ہمیشہ سے کر رکھا تھا، اس مالک کو مناتے مناتے ایسا روتے کہ آنسوؤں سے داڑھی تر ہو جاتی، کپڑے بھیگ جاتے اور سینے سے بسببِ گریہ ایسی آواز ظاہر ہوتی گویا ہانڈی کھول رہی ہو۔ جن کی نصرت کو پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا جاتا اور پوچھا جاتا کہ حکم دیں تو جس بستی کے لوگوں نے آپؐ کو ایذا پہنچائی ہے، ان کو ان دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیا جائے۔ جن کی انگلی کے اشارے میں مالک لا شریک لہ نے ایسا اثر رکھا کہ چاند دو ٹکڑے ہو جائے۔ انؐ پر ہماری جانیں اور ہماری اولادیں سو سو بار فدا ہوں، انہوں نے سیاست کی اور سکھائی، سیادت کی اور سکھائی، معیشت و معاشرت، سونے لیٹنے کے آداب و طریقے سے لے کر وہ کیا معاملہ اس جہانِ عظیم کا تھا جو نہیں برتا اور جس کے متعلق کچھ مخلوق کو سکھایا نہیں؟ بس سبھی اس مالک کی رضا کی خاطر!

اسی کی رضا میں، ضبط کے پیکر کے دل سے ایسی آرزو نکلی، زبانِ مبارک نے ایک ایسی خواہش کے بیان میں حرکت کی کہ ’’وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ‘‘، کہ قسم اس ذات کی کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، میری شدید دلی آرزو ہے کہ میں اللّٰہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں! یہ فی سبیل اللّٰہ قتل ہو جانا کیا ہے؟ اور یہ فی سبیل اللّٰہ کیا ہے؟ لکھنے اور پڑھنے والے اس فی سبیل اللّٰہ کے معنیٰ و مفہوم سے خوب خوب واقف ہیں۔ یہی وہی فی سبیل اللّٰہ ہے جس کی خاطر اسی اولاً مذکور فرمان کا پہلا حصہ ہے، فرمایا ’’ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلَا أَنَّ رِجَالًا مِنْ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَطِيبُ أَنْفُسُهُمْ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنِّي وَلَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُهُمْ عَلَيْهِ مَا تَخَلَّفْتُ عَنْ سَرِيَّةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ‘‘ کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہےاگر مسلمانوں کے دلوں میں اس سے رنج نہ ہوتا کہ میں ان کو چھوڑ کر جہاد کے لیے نکل جاؤں ، جبکہ مجھے خود اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کر کے اپنے ساتھ لے چلوں تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے ایسے لشکر کے ساتھ جانے سے بھی نہ رکتا جو اللّٰہ کے راستے میں جنگ کے لیے جا رہا ہوتا ۔ اسی مالک کی رضا تلاشتے بلکہ ان سے تو رضا کا اعلان تو ہمیشہ ہمیشہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تھا، تو وہ شکر گزار بندہ بنتے ہوئے اور راقم و قاری کو یہ درس دیتے ہوئے، عبادتوں اور ریاضتوں کو محراب اور جائے نماز تک محدود نہ کرگئے بلکہ اپنی جان کو ہر ہر خطرے میں اتارا، چہرۂ انور کہ جس چہرے کی خاطر سبھی مخلوق سو سو بار قربان ہو جائے، اس پر لوہے کے خود کی کڑیاں لگ کر گڑ گئیں، دانت مبارک جس دہنِ مبارک کے شہید ہوئے۔ کس کی خاطر؟ رضائے الٰہی کی خاطر، اس خاطر کہ میں اور آپ اس دین کا منہج اور مزاج سمجھ جائیں کہ اللّٰہ کی رضا کس کس طریق سے حاصل ہوتی ہے اور میری زندگی کے ہر ہی پہلو سے یہ حاصل ہوتی ہے اور اس لیے بھی کہ یہ بتا جائیں کہ میرے دین کے دفاوع و نفاذ کا طریق انہی ذوالفقار و بتار1 سے ہو کر گزرتا ہے، انہی کے ذریعے حتی لا تکون فتنۃ اور ’لیظہرہ علی الدین کلہ‘کا مشن شرمندۂ تعبیر ہو گا!

یہی محبوب، علیہ ألف صلاۃ وسلام، جس مسجد کی طرف، جس قبلے کی طرف رخِ انور کر کے نمازیں پڑھتے رہے، وہی قبلۂ اول سو سال سے زیادہ سے ان نامسعودوں کے قبضے میں ہے جو روزِ اول سے آپؐ سے برسرِ جنگ تھے۔ وہی مسجدِ اقصیٰ جہاں تک براق نے آپ کو پہنچایا تھا، وہی مسجد جہاں انبیاء و رسل علیہم وعلی نبینا ألف صلاۃ وسلام نے آپؐ کی اقتدا میں نماز ادا کی تھی، وہی جائے اسراء جہاں سے آپ نے ساتویں آسمان کے لیے سفر شروع کیا تھا، سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے بلائے گئے تھے اور مالکِ کون و مکاں، ربّ العالمین، مالکِ یوم الدین سے ہم کلام ہوئے تھے ۔اسی مسجدِ اقصیٰ کو یہودِ نا مسعود اپنے وجود سے ناپاک کر رہے ہیں! اس کی بازیابی کا طریقہ تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم بتا گئے۔ پھر آپ کے اصحابِ ذی وقار خاص کر خلفائے راشدین رضی اللّٰہ عنہم نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ورثے میں حاصل ہونے والی تلواروں ہی سے بیت المقدس کو فتح فرمایا۔ یہ بیت المقدس جب صلیبی جنگوں کے نتیجے میں ایک بار پھر نصرانیوں کے قبضے میں چلا گیا تو آپؐ ہی کے اسوے پر عمل پیرا ایک رات کے راہب اور دن کے شہسوار صلاح الدین ایوبیؒ نے اس القدس کو صلیبیوں کے قبضے سے چھڑایا، بیت المقدس کے جغرافیے میں بسمتِ شمال حطین کا میدان آج بھی اس کا گواہ ہے، بلکہ گواہ نہیں ہمارے لیے حجت بھی ہے اور آج پھر ہمیں پکار رہا ہے کہ ہے کوئی صلاح الدین جیسا فہمِ دین رکھنے والا، ہے کوئی صلاح الدین جیسی غیرت رکھنے والا ؟

فلسطینی عرب سے مخاطب ہو کر سو سال قبل اقبالؒ نے امتِ مسلمہ کے ہر ہر فرد کو کہا تھا:

تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے

عالمِ اسلام کا دل القدس کے ساتھ دھڑکتا ہے اور اسی قدس میں موجود مسجدِ اقصیٰ کی بازیابی کے لیے جوارِ قدس میں رہنے والے طائفۂ منصورہ کو آج سو دن سے زیادہ ہوئے کہ ایک معرکہ ’طوفان الأقصیٰ‘ کے نام سے بپا کیے ہوئے ہیں۔ یہ معرکہ اقصیٰ کی آزادی ہی کے لیے نہیں نیو ورلڈ آرڈر کے شکنجے سے ہماری آزادی کا معرکہ بھی ہے۔ ہماری آزادی کا پہلا قدم ہماری ذہنی آزادی ہے، ہمارے قلب و ذہن اور فکر و نظر کی آزادی۔ وہ آزادی جس کے بعد ہم جان پائیں گے کہ ہم پر عقلاً و شرعاً کیا فریضہ عائد ہوتا ہے اور یہ بھی کہ جس نظام کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے اس کو گرانے اور توڑنے کے لیے کس دشمن کو ترجیحِ اول پر نشانہ بنانا ضروری ہے۔

یہ فرنگی نظام یہودیوں کے قبضے میں ہے اور اسرائیلوں کی قوت اور ارضِ قدس پر وجود آج کے نئے فرنگیوں (امریکیوں) کی طاقت پر منحصر ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کو گھیرے ہوئے اسرائیل اور اس اسرائیل کے پشت پناہ امریکہ کا تعلق کیسا ہے اور کیسے ان کو نشانہ بنایا جائے تو اس کو سپاہ سالارِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ ایسے بیان کر گئے ہیں:

 

’’اگر ایک شخص کان کاٹنے سے کمزور ہوتا ہو اور یہ اس کے مرنے پر منتج ہو۔ اب آپ اس کا دایاں کان کاٹیں یا بایاں، وہ مر جائے گا۔ پس امریکہ اور ا سرائیل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

اگر آپ کا دشمن اپنے دائیں کان پر ہاتھ رکھ کر اسے اچھی طرح ڈھانپ کر محفوظ کر لے تو آپ اسی دائیں کان کو کاٹنے کی کوشش میں اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کریں اور اسی کو نہ مارتے رہیں، بلکہ اس کے بائیں کان پر حملہ کریں اور اس کو کاٹ دیں، دشمن بایاں کان کٹنے سے بھی مر جائے گا۔ گویا نتیجہ ایک ہی حاصل ہو گا۔

امریکی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہودیوں کی طرح اُن کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ وہ فلسطین ہی میں رہیں۔ اگرچہ وہ یہودیوں کے حامی ہیں۔ جب امریکیوں پر خُبر (سعودی عرب) میں حملہ ہوا تو اخباری چینل سی این این نے ہلاک شدگان کے دوست و احباب اور حملے میں متاثر ہونے والے افراد سے انٹرویو کیا۔ یہ لوگ رو رہے تھے۔ انٹرویو لینے والے نے ایک سے پوچھا : ’تمہارا کیا نام ہے؟‘ اس نے کہا ’فلاں ابنِ فلاں’۔’بُش ابنِ بُش‘۔ پوچھا : ’تمہاری آرزو کیا ہے؟‘۔ اس نے جواب دیا: ’میں واپس اپنے وطن جانا چاہتا ہوں‘۔ بس ……یہ اس کی آرزو تھی! ابھی انہیں ایک چھوٹی سی چوٹ لگی اور اسی پر ان کا ایک قدم آپ کے سامنے ہے اور دوسرا قدم اپنے وطن میں ہے!

یہ جنگ دراصل امریکیوں کی اپنی جنگ نہیں ……نہ ہی مقبوضہ فلسطین میں اور نہ ہی ارضِ حرمین جزیرۂ عرب میں……ذاتی سطح پر میدان میں لڑنے والے ایک عام امریکی کے لیے۔ اگرچہ ان کے آقاؤں کے سامنے ایک ہدف اور مقصد ہے۔ لیکن عام امریکی تذبذب کا شکار ہے۔ ساتھ ہی امریکیوں کے مفادات بھی کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کو مارنا آسان ہے۔

جتنا ہم انہیں ماریں گے، اور جلد ماریں گے اتنا ہی مسلمانوں کا مورال بلند ہو گا……اور مسلمانوں کو فخر محسوس ہو گا، کہ اسلام طاقتور ہے، کہ اسلام ان کافروں پر غالب آ سکتا ہے۔ میں خوشخبری کے طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ باذن اللّٰہ جلد ہی یہودیوں پر بھی حملے ہونے والے ہیں۔

دیکھیےغیر ملکی شخص پہچانا جاتا اور کمزور ہوتا ہے، تو بھائیو! جب کسی غیر ملکی کو دیکھو کہ وہ یہود ی ہے یا امریکی ہے، تو بس بسم اللّٰہ!‘‘2

معرکۂ طوفان الأقصیٰ سے پہلے اور اس کے بعد جو اسلحہ اور گولہ بارود اسرائیل مسلمانانِ فلسطین پر برسا رہا ہے، یا تو وہ ’امریکی ساختہ‘ ہے یا پھر امریکی عسکری امداد سے خریدا یا بنایا گیا ہے۔ غزہ میں ہونے والے قتلِ عام کو قانونی جواز بخشنے کے لیے اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی حمایت میں اٹھا وہ واحد ہاتھ ایک امریکی عہدے دار ہی کا تھا!

اسرائیل کا آج تلک ہے کون بھلا رکھوالا
انگریزوں کی اس اولاد کو امریکہ نے پالا

القدس کی آزادی کی ایک جنگ آج ارضِ فلسطین کے اندر لڑی جا رہی ہے اور یہ جنگ تب تک انجامِ فتح تک نہیں پہنچ سکتی جب تک اسرائیل کے رکھوالے امریکہ کو ضربیں لگا کر اس قدر کمزور نہ کر دیا جائے کہ یہ اسرائیل کے دفاع میں نکلنے کے قابل نہ رہے۔ آزادیٔ قدس کی ایک جنگ میں فتح کا راستہ تل ابیب سے جاتا ہے اور اسی جنگ کے ایک اہم تر محاذ میں فتح کا راستہ واشنگٹن سے ہو کر گزرتا ہے! پس جہاں کوئی غیر ملکی نظر آئے کہ وہ یہودی ہے یا امریکی ، تو بسم اللّٰہ!

 

سب سے بڑا جو دشمن اس سے سب سے پہلے جنگ
پوری ملتِ ایماں جس کے کرتوتوں سے تنگ
غزّہ تا کابل جب ایک ہے پانی خون کا رنگ
طاغوتِ اکبر سے لڑنے میں ہوں ہم آہنگ

 

اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ
علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭


1 آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی تلواروں کے نام۔

2 بشریات للشیخ أسامۃ، منشورہ ادارہ السحاب(مرکزی)

Exit mobile version