مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)

یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)


تینتیسویں وجہ: ایسا میدانِ عمل اختیار کرنا جو مجاہد کی شخصیت اور صلاحیت کے ناموافق ہو

اس کے نتیجے میں وہ ناکام ہو جاتا ہے اور میدان عمل بدلنے کے بجائے مایوسی کا شکار ہو کر سرے سے کام ہی چھوڑ جاتا ہے۔ اور رفتہ رفتہ وہ راہ جہاد سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی مجاہد آغاز میں اعلامی یا امنیاتی ساتھیوں کے ساتھ کام شروع کرے ،لیکن ان کے ساتھ چل نہ سکے، اور نتیجتاً جہاد ہی چھوڑ جائے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ سابقہ میدان کو چھوڑ کر کوئی ایسا میدانِ عمل چنے جو اس کے موافق ہو ۔ نہ یہ کہ راہ ِجہاد سے ہی منہ پھیر لے۔

حضرت علی بن ابی طالب ﷜نے فرمایا:

انسان کی اصل قدر و قیمت اس کام کے سبب بنتی ہے جس میں وہ ماہر ہو۔“

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫ نے فرمایا:

عوام الناس کہتے ہیں کہ انسان کی اصل قدر و قیمت اس کام کے سبب بنتی ہے جس میں وہ ماہر ہو۔ جبکہ خواص الناس کہتے ہیں کہ انسان کی اصل قدر و قیمت اس کام کے سبب بنتی ہے جس کا وہ خواہش مند ہو۔ “

صحابہ بھی اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں میں منفرد تھے۔ اور ہر ایک نے وہ کام اختیار کیا جس میں وہ ماہر تھا۔ ان میں سے کسی کو بھی بے کار نہیں دیکھا گیا۔ پس حضرت خالد بن ولید ﷜ اللہ کی سونتی ہوئی تلوار تھے۔ جبکہ حضرت اُبَی بن کعب ﷜ قرآن کے ماہر قاری تھے۔ اور حضرت معاذ بن جبل ﷜ حلال و حرام کے بڑے عالم تھے۔

اور دیکھیے کہ حضرت ابو ذر ﷜ دعوت کے میدان میں مؤثر ترین شخص تھے۔ یہاں تک کہ قبیلہ غِفار کی اکثریت انہی کے ہاتھوں مسلمان ہوئی۔ اس کے باوجود وہ حکومتی ذمہ داری کے لیے موزوں نہ تھے جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے انہیں بتلایا۔

ایک مصنف نے لکھا کہ حدیث میں تو آیا ہے :

كلٌ مُيَسَّرٌ لما خُلِقَ له۔

’’ہر ایک کے لیے وہ چیز یا عمل آسان کر دیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)

جب حقیقت یہ ہے تو پھر قابلیتوں کو کیوں کچلا جاتا ہے؟ اور صلاحیتوں اور خوبیوں کی گردن کیوں موڑی جاتی ہے؟ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے اسباب بھی مہیا کرتے ہیں۔ اس شخص سے زیادہ کس کی نفسیاتی حالت ابتر ہو گی اور مزاج خراب ہو گا جو اپنا آپ چھوڑ کر کوئی اور شخص بننا چاہتا ہو؟ عقلمند اور ہوشیار وہ ہے جو اپنی خودی کا مطالعہ کرے۔ اور اس جگہ کو پُر کرے جو اس کے لیے خالی رکھی گئی تھی۔ اگر اسے لشکر کے آخر (ساقہ) میں مقرر کیا جائے تو وہ (ساقہ) میں ہی رہے۔ اور اگر اسے پہرہ داری (حراسہ) سونپی جائے تو وہ پہرہ داری (حراسہ) ہی کرے۔ شیخِ نحو ،سیبویہ کو ذرا دیکھے، انہوں نے علم حدیث حاصل کیا لیکن یہ علم ان پر بوجھل ثابت ہوا یہاں تک کہ ان کی مہارتیں مانند پڑنے لگیں۔ چنانچہ انہوں نے علم نحو کی طرف رخ موڑ دیا اور اُس میں اتنی مہارت حاصل کر لی کے حیران کن رموز و اسرار بیان کرنے لگے۔ کسی دانا نے کہا، جو شخص ایسے کام کا خواہشمند ہو جس کا وہ اہل نہیں، تو اس کی مثال اس شخص کی ہے جو دمشق کے مرغزار میں شہد کی مکھیوں کی پرورش کرنے کا خواب دیکھ رہا ہو یا پھر سرزمین حجاز میں سیب اگانے پر تلا ہو۔

حضرت حسان بن ثابت ﷜ اذان صحیح طرح نہیں دے سکتے تھے کیونکہ وہ حضرت بلال ﷜نہیں تھے۔ اور حضرت خالد بن ولید ﷜ وراثت نہیں تقسیم کر سکتے تھے کیونکہ وہ حضرت زید بن ثابت ﷜ نہیں تھے۔ تربیت کے ماہرین کہتے ہیں، ’’ اپنی جگہ خوب پہچان لو“۔

امام ابن القیم ﷫ تحفۃ المودود بأحکام المولود میں فرماتے ہیں:

یہ بھی ضروری ہے کہ لڑکے کی صورت حال معلوم کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ وہ کن کاموں کے لیے تیار اور آمادہ ہے۔ پھر جان لیا جائے کہ وہ اسی کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ جاننے کے بعد اسے کسی دوسرے کام پر مجبور نہیں کرنا چاہیے ،چاہے اس کی شرعاً اجازت ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ جس کام کے لیے لڑکا آمادہ نہیں اگر اس پر مجبور کیا گیا تو وہ نہ تو اس میں کامیاب ہو گا، اور وہ اس کام سے بھی رہ جائے گا جس کے لیے وہ مناسب تھا۔ پس اگر سرپرست دیکھے کہ لڑکا سمجھ دار ہے، چیزوں کو صحیح پہچانتا ہے، حافظہ بھی اچھا ہے اور پر مغز ہے تو یہ علامتیں ہیں کہ وہ علمِ دین کے لیے قابل اور مناسب ہے۔ تاکہ وہ اس علم کو اپنے دل پر اس عمر میں ہی نقش کر لے جب دل ابھی دیگر چیزوں سے خالی ہے۔ اس صورت میں علمِ دین اس میں متمکن ہو جائے گا۔ وہ علم سے بہرہ ور بھی ہو گا اور اِن صلاحیتوں کے سبب اس کا علم بڑھتا بھی رہے گا۔

لیکن اگر اس میں یہ صلاحیت تو نہ ہو البتہ وہ گھڑ سواری اور اس کے فنون کے لیے آمادہ ہو، مثلاً گھوڑے کی پیٹھ پر براجمان ہونا، نشانہ بازی میں ماہر ہونا اور تیر اندازی کی قدرت رکھنا، اور دوسری طرف علمِ دین کے میدان میں نہ تو اس کے پاؤں جم رہے ہوں اور نہ وہ اس کے لیے پیدا کیا گیا ہو، تو سرپرست کو چاہیے کہ وہ لڑکے کو گھڑ سواری کے لوازمات فراہم کرے اور ان پر اس کی مشق کروائے۔ کیونکہ یہ خود اس لڑکے کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا اور مسلمانوں کے لیے بھی۔

پھر اگر سرپرست پائے کہ لڑکے میں یہ خصوصیت بھی نہیں اور نہ ہی وہ اس کے لیے پیدا کیا گیا ہے، البتہ اس کی آنکھ کسی حرفت و صنعت کی طرف لگی ہے، جس کے لیے وہ آمادہ بھی ہے اور قابل بھی ہے، جبکہ وہ حرفت و صنعت مباح اور عوام کے لیے فائدہ مند بھی ہے، تو اسے چاہیے کہ لڑکے کے لیے وہ سہولیات دستیاب کرے جن سے وہ صنعت سیکھ سکے۔

البتہ یہ سب کچھ اس نا گزیر دینی تعلیم کے بعد ہو جس کی ہر لڑکے کو ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔ چونکہ اتنی تعلیم تو ہر ایک کے لیے آسان اور سہل ہے۔ تاکہ بندے پر اللہ کی حجت تمام ہو جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں پر حجت بالغہ اسی طرح حاصل ہے جیسے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سابغہ حاصل ہے۔ واللہ اعلم۔ “

٭٭٭٭٭

Exit mobile version