الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط

شیخ یحیٰ السنوار شہید رحمۃ اللہ علیہ کا شہرۂ آفاق ناول

مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ بطلِ اسلام، مجاہد قائد، شہیدِ امت، صاحبِ سیف و قلم شیخ یحییٰ ابراہیم السنوار رحمۃ اللہ علیہ کےایمان اور جذبۂ جہاد و استشہاد کو جلا بخشتے، آنکھیں اشک بار کر دینے والے خوب صورت ناول اور خودنوشت و سرگزشت ’الشوک والقرنفل‘ کا اردو ترجمہ، قسط وار شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ یہ ناول شیخ نے دورانِ اسیری اسرائیل کی بئر سبع جیل میں تالیف کیا۔ بقول شیخ شہید اس ناول میں تخیل صرف اتنا ہے کہ اسے ناول کی شکل دی گئی ہے جو مخصوص کرداروں کے گرد گھومتا ہے تاکہ ناول کے تقاضے اور شرائط پوری ہو سکیں، اس کے علاوہ ہر چیز حقیقی ہے۔ ’کانٹے اور پھول‘ کے نام سے یہ ترجمہ انٹرنیٹ پر شائع ہو چکا ہے، معمولی تبدیلیوں کے ساتھ نذرِ قارئین ہے۔ (ادارہ)


­ آٹھویں فصل

دوسری طرف ان مزدوروں کی تعداد جو صبح کے وقت 1948ء کی مقبوضہ اراضی میں کام کرنے کے لیے جاتے تھے، بتدریج بڑھنے لگی، اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر چیزیں بھی بڑھنے لگیں ، صبح سویرے مرد نکلتے تھے، ہر ایک اپنے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ یا تھیلا لے کر جس میں وہ اپنے دن کا کھانا رکھتا تھا، اور لمبی مسافت طے کر کے مزدوروں کے اسٹاپ تک پہنچتا تھا ، وہاں بڑی تعداد میں گاڑیاں، ٹرک اور بسیں موجود ہوتی تھیں، یہ یافا کے لیے، یہ اشدود کے لیے، یہ تل ابیب کے لیے وغیرہ، اور ہر ڈرائیور اپنے مسافروں کو اپنی منزل کی طرف بلاتا تھا اور مزدور اس کے پیچھے چلتے تھے، وہ گاڑیاں چڑھتے جو انہیں لے جاتی تھیں ، فلافل1، فول2 یا سحلب3 وغیرہ بیچنے والوں نے ان مزدوروں کی بڑی تعداد کو اپنے کاروبار کے لیے ایک مناسب ہدف اور منافع بخش بازار پایا، مزدور جب گاڑی کی طرف جاتے تو وہ اپنی جیب سے کچھ پیسے نکال کر فلافل خریدتے ، جلدی سے اسے کھاتے یا اپنے کھانے کے تھیلے میں رکھ لیتے اور گاڑی میں سوار ہوتے اور وہ اپنی نیند پوری کرتے جو ایک یا دو گھنٹے کے لیے منقطع ہو گئی تھی یہاں تک کہ وہ اپنے کام کی جگہ پر وہاں اپنے مقبوضہ وطن میں پہنچ جاتے ۔

یہ مزدور تعمیرات، زراعت یا صفائی وغیرہ میں کسی بھی مشکل اور پیشہ ورانہ کام کو جسے یہودی غرور کے ساتھ کرنے سے انکار کرتے ہیں، کام کرتے، وہاں یہودی مالک (معلم) ان کے سروں پر کھڑا ہوتا ، انہیں احکام دیتا اور ان کے کام کی نگرانی کرتا ، صبح دس بجے وہ آدھے گھنٹے کا وقفہ لیتے ، جس میں وہ اپنا ناشتہ یا دوپہر کا کھانا کھاتے اور اگر وہ چائے بنا سکیں تو چائے پیتے ، پھر وہ اٹھ کر اپنا دن کا کام مکمل کرتے اور شام تین یا چار بجے اپنے کام کو ختم کرتے، پھر وہ گاڑی تلاش کرتے جو انہیں غزہ یا مغربی کنارے واپس لے جاتی ، واپسی کے راستے میں سوتے اور اپنے گھروں کو پہنچتے جبکہ کام نے انہیں تھکا دیا ہوتا تھا ۔

جمعہ کے دن وہ صرف دوپہر دو بجے تک کام کرتے ، کیونکہ یہودی مالکان ہفتہ کے دن کی تیاری کرتے ، جو کہ ہفتہ وار چھٹی کا دن ہوتا ہے ، ان میں سے کچھ مزدور روزانہ کام کرتے اور دن کے اختتام پر اپنی مزدوری وصول کرتے ، اور اگلے دن دوبارہ مزدوروں کے مقامات پر جمع ہوتے ، ٹھیکیدار اور یہودی مالکان اپنی گاڑیوں میں آتے اور مزدوروں کی تلاش کرتے ، جو ان کے مطلوبہ کام کے لیے موزوں ہو ، کچھ مزدور ہفتہ وار یا ماہانہ بنیادوں پر یا مستقل طور پر کام کرتے ۔

مزدوروں اور یہودی مالکان کے درمیان تعلقات میں بہتری اور روزانہ سفر کی تھکاوٹ کے باعث، مالکان نے اپنے مزدوروں کے لیے ہفتے بھر رہنے کی جگہیں تلاش کر لیں تھی ، مزدور اتوار کی صبح اپنے گھر سے نکلتے اور جمعہ کی دوپہر تک کام کرتے ، پھر اپنے گھر واپس آتے ، ان کے جیب میں پیسے اور تھیلے میں اسرائیل سے لائے گئے سامان ہوتے ، کچھ مزدور قلقیلیہ یا طولکرم میں گھر کرائے پر لیتے ، تاکہ داخلی علاقوں میں قریب ہوں، کئی مزدور ایک کمرے یا گھر میں ہفتے بھر یا کبھی کبھی پورے مہینے رہتے ، تاکہ سفر کا کرایہ بچاسکیں اور روزانہ کے سفر کی تھکاوٹ سے بچ سکیں ، اندرونی علاقوں میں فلسطینی مزدور ایک نئی دنیا سے ملتے ، جس کی عادات، روایات اور اقدار ہمارے معاشرے سے بالکل مختلف ہوتی ، ان میں سے اکثر مزدور ان چیزوں سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، لیکن کچھ نوجوان ان چیزوں سے متاثر ہو جاتے ، کچھ شراب پینے لگتے ، زانیہ عورتوں کے ٹھکانوں اور رقص گاہوں میں جانے لگتے، شاز اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کوئی مزدور کسی یہودی لڑکی سے ملتا ، اس سے محبت کرتا اور اس کے معاشرے کی عادات کے مطابق اس کے ساتھ رہنے لگتا ۔

مزدوروں کی آمد و رفت میں اضافہ کے باعث مزید گاڑیوں کی ضرورت پڑی، جس سے نئے ڈرائیوروں کو موقع ملا ، کچھ مزدوروں نے اپنی گاڑی خرید لی اور اپنے ساتھ پڑوسی مزدوروں کو لے جاتے جو انہیں کرایہ دیتے ، اس طرح وہ صبح کے وقت پیدل چلنے اور شام کو واپسی کے سفر سے بچتے ، پیجو گاڑیاں علاقوں میں داخل ہونے لگیں اور گاڑیوں کی آمد و رفت میں اضافہ ہوا ، آپ دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کچھ مزدور اپنی گاڑی پر کچھ کرسیاں یا دیگر فرنیچر لا رہے ہیں جو ان کے یہودی مالک نے نئے فرنیچر کے بدلے میں نکال دیا ہوتا تھا یہ مزدور ان چیزوں کو اپنے گھر کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے لے آتے ، یا اپنے دوستوں ، رشتہ داروں کو تحفہ دیتے ، یاہارڈ وئیر مارکیٹ (Hardware Market) میں فروخت کرتے ۔

یہودی تاجروں نے الخلیل شہر اور دیگر قریبی علاقوں جیسے طولکرم اور قلقیلیہ میں آنا شروع کر دیا، جہاں وہ اپنی ضرورت کی اشیاء خریدتے تھے ، کچھ تاجروں نے ورک شاپس، لوہار کی دکانوں یا درزیوں کے ساتھ معاہدے کیے تاکہ وہ انہیں سو دروازے یا ہزار کھڑکیاں فراہم کریں ، انہیں یہ اشیاء اسرائیلی کارخانوں کی نسبت بہت سستی مل جاتیں ، فلسطینی کاروباری افراد قیمت بڑھا کر زیادہ منافع کماتے، اور اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتے۔

٭٭٭٭٭

حالات بہتر ہونے کے باوجود مزاحمت جاری رہی ،یہ مزاحمت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی رہی، کیونکہ یہ صرف مالی حالت سے وابستہ نہیں تھی ، بلکہ قومی وابستگی اور ذمہ داری کے احساس سے جڑی ہوئی تھی ، اگرچہ تنگ دستی ان جذبات کو مزید بھڑکاتی تھی، مزاحمتی کارروائیاں پھر بھی جاری رہتیں ،کبھی یہاں بم پھینکا جاتا، کبھی وہاں فائرنگ ہوتی ،کبھی یہاں کرفیو لگتا تو کبھی وہاں گرفتاریاں ہوتی، تفتیش ہوتی اور لوگوں کو گھنٹوں روک کر رکھا جاتا ، کبھی کوئی مخبر پکڑا جاتا تو اسے مار دیا جاتا۔

یہودی ریاست کے اندر سینکڑوں اور ہزاروں مزدوروں کے داخلے نے مزاحمت کاروں کو 1948ء سے قبضے میں لی گئی زمینوں کے اندر بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرنے کا موقع فراہم کیا، عبدالحفیظ نے جو ہماری پڑوسن ام العبد کا بیٹا تھا، اپنی ماں کو قائل کیا کہ اپنے بھائیوں کے مستقبل کے لیے اسے پڑھائی چھوڑ کر کام شروع کرنا چاہیے تاکہ اس کے بھائی تعلیم جاری رکھ سکیں اور اس کی ماں کو مشکل کاموں سے آرام مل سکے ، کئی کوششوں کے بعد اس کی ماں راضی ہو گئی ، عبدالحفیظ نے دوسرے ہزاروں لوگوں کی طرح اسرائیل میں کام شروع کر دیا ، چند ماہ بعد وہ اپنے گھر کے لیے ایک مناسب دروازہ اور ٹین کی چادریں خریدنے میں کامیاب ہو گیا ، انہوں نے گھر کی زمین کو بھی کنکریٹ سے ہموار کر دیا۔

لیکن کچھ عرصے بعد سب کو یہ علم ہوا کہ عبدالحفیظ کا مقصد صرف بہتر زندگی اور اپنے بھائیوں کی تعلیم نہیں تھا ، تقریباً دو سال بعد پتہ چلا کہ عبدالحفیظ عوامی محاذ میں شامل ہو چکا تھا اور اس کا مقصد اسرائیل میں فدائی کارروائیاں کرنا تھا ، چند ماہ بعد جب وہ کام کے دوران وقفے لیتا، تو وہ اپنے کھانے کے تھیلے میں چھپائے ہوئے بم کو یافا لے جاتا اور کسی بس، کیفے یا نائٹ کلب میں رکھ دیتا ، کام ختم کرنے کے بعد گھر واپس آتا، اور بم وہاں پھٹ جاتا، جہاں زخمی یا ہلاکتیں ہوتی تھیں۔

عبد الحفیظ اس حالت میں دو سال تک رہا، اور وہ انتہائی احتیاط اور چالاکی سے کام کرتا رہا ، اس دوران اس نے کئی کامیاب کاروائیاں کیں، مگر شین بیٹ4 مخبروں کی تحقیقات سے اس پر شک پیدا ہو گیا، ایک رات قابض فوج کی بڑی تعداد نے اس کے محلے پر چھاپہ مارا، اس کے گھر کو گھیر لیا اور اسے گرفتار کر لیا ، تحقیقات کے دوران، اسے شدید تشدد، مار پیٹ اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا، مگر اس نے کوئی الزام بھی قبول نہ کیا، آخرکار انہوں نے اس کے ایک ساتھی کو گرفتار کیا، جس نے اعتراف کیا کہ عبد الحفیظ ’’ الجبھۃ الشعبیۃ‘‘ کے ساتھ ہے، جب اس سے سامنا کروایا گیا تو اس نے صرف اتنا ہی قبول کیا، اور اسے ڈیڑھ سال کی قید کی سزا دی گئی۔

٭٭٭٭٭

جب تعلیمی سال کے اختتام پر میرے بھائی محمود کی گرمیوں کی تعطیل کی وجہ مصر سے واپسی قریب ہوتی ، تو ہم صلیب احمر کے دفتر جا کر پوچھتے کہ مصری جامعات کے طلباء کب واپس آئیں گے، یا پھر اعلانات کی تختی پر نظر رکھتے جہاں واپس آنے والے گروہوں کے نام اور واپسی کی تاریخیں لکھی ہوتی تھیں ، جس دن محمود واپس آتا، ہم سب پاسپورٹ کے دفتر کے سامنے اس کا انتظار کرتے ، وہاں بسیں طلباء کو لے کر آتی تھیں جن کے ساتھ فوجی جیپیں بھی ہوتی تھیں ، وہ پاسپورٹ دفتر میں داخل ہو کر اترتے اور انتظار گاہ میں بیٹھتے، جہاں ان کے اہل خانہ ان سے ملنے کے لیے لپکتے، انہیں چومتے اور گلے ملتے، اور پھر گھر لے جاتے۔

ہم ہر سال محمود کی واپسی پر وہاں بیٹھتے اور اس کا انتظار کرتے، وہ باہر آتا اور ہم اس کی طرف دوڑتے، پھر وہ ہمیں پیار کرتا، ہمارے حالات پوچھتا، اور میری ماں کے سر اور ہاتھ کو چومتا ، میری ماں فخر اور محبت سے اس کی طرف دیکھتیں، اور ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو ہوتے ، وہ اپنے بیٹے ’’چیف انجینئر محمود‘‘ پر فخر کرتی تھیں، ہمارے محدود وسائل کے باوجود میری ماں مختلف قسم کے کھانے تیار کرتیں تاکہ محمود کا استقبال کیا جا سکے اور اس کی ایک سال کی محرومی کو پورا کیا جا سکے۔

محمود ہمارے لیے مصری مصنوعات کے کچھ سوتی کپڑے لاتا تھا ، انہی دنوں میں ہم نئے کپڑوں کی لمس اور خوشبو سےمتعارف ہوئے، کیونکہ اس سے پہلے ہم صرف وہ کپڑے پہنتے تھے جو ہم خیرات سے لیتے یا دوسری استعمال شدہ چیزوں کی دکانوں سے خریدتے ، پہلے سال کی تعلیم کے اختتام سے ہی میری ماں نے اسے ’’چیف انجینئر‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔

٭٭٭٭٭

ایک گلی کے کونے پر کچھ نوجوان ایک سیاہ کمبل بچھاتے ، جو انہیں ایجنسی سے ملتا اور اس پر بیٹھ کر تاش کھیلتے ، ہر روز شام کے بعد وہ وہاں بیٹھ کر کچھ وقت گزارتے کیونکہ کوئی اور تفریحی ذرائع موجود نہیں تھے ، وہ اپنے کھیل کو مغرب کے بعد تک جاری رکھتے جب اندھیرا چھا جاتا تو پھر وہ اپنے تاش کے پتے سمیٹتے ، کمبل جھاڑتے اور اسے تہہ کر کے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ، کیونکہ کچھ دیر بعد کرفیو کا وقت ہو جاتا ، ایک دن جب وہ وہیں بیٹھے تھے تو شیخ احمد وہاں سے گزرے، انہیں اسی نام سے بلایا جاتا تھا حالانکہ وہ ابھی جوان ہی تھے، اور وہ مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد سے واپس آ رہے تھے ، وہ ہمیشہ کی طرح سلام کرتے ہوئے گزرے لیکن اس بار وہ ان کے پاس آئے اور ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ان نوجوانوں نے حیرانی سے کھیل روک دیا، تاش کے پتے سمیٹ لیے اور اس نئے آنے والے کی طرف متوجہ ہو گئے ، شیخ احمد ان کے پاس بیٹھ گئے اور کہا : مجھے ایک اہم بات کرنی ہے جو آپ لوگوں سے متعلق ہے ، ان کے چہروں پر حیرت واضح تھی اور انہوں نے کہا : جی فرمائیں ، پھر شیخ نے قرآن کی آیات اور احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے تفصیل سے بات کی، وقت ضائع کرنے کے نقصانات اور عبادت کی اہمیت پر زور دیا، اللہ کی نعمتوں کی یاد دہانی کرائی اور آخرت میں خسارہ اور جہنم کے عذاب سے خبردار کیا، اس سب کو بڑی نرمی سے اسلام کے مستقبل سے جوڑتے ہوئے کہا کہ ضروری ہے کہ اسلام کا جھنڈا فلسطین کی سرزمین میں جو معراج اور اسراء کی جگہ ہے، بلند ہو ، یہاں تک کہ ارض فلسطین آزاد ہو جائے اور لوگ نجات پالیں اور کوششیں کامیاب ہو جائیں ۔

چاروں نوجوان خاموشی سے شیخ کی باتیں سنتے رہے، یہ پہلی بار تھا کہ وہ ایسا کچھ سن رہے تھے ، انہیں دین اور وطنی جذبے کا یہ عجیب مرکب اچھا لگا ، فلسطینی منظر نامے کے اس عرصے میں دیکھا گیا تھا کہ شیخ یا دیندار شخص حقیقت اور قومی درد سے بے خبر ہوتا تھا جبکہ قوم پرست یا فدائی دین اور دینداری سے بے خبر ہوتا تھا۔ ان کے چہروں پر پسندیدگی اور رضامندی کے آثار نمایاں ہونے لگے، ان میں سے ایک نے پوچھا : شیخ! ہم سے کیا توقع ہے؟ شیخ احمد کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور کہا : کل ان شاءاللہ، آپ غسل کریں، پاک صاف ہوں اور وضو کریں، پھر اذان بلند ہونے پر مسجد جائیں اور نماز ادا کریں۔ نوجوانوں نے سر ہلا کر رضا مندی ظاہر کی۔شیخ احمد نے ایک ایک کر کے ان سے مصافحہ کیا اور روانہ ہو گئے۔ نوجوانوں نے اپنے تاش کے پتے سمیٹ لیے ، کمبل جھاڑا اور اسے تہہ کر لیا اور روانہ ہو گئے کیونکہ اندھیرا چھا چکا تھا اور کرفیو کا وقت قریب تھا۔

٭٭٭٭٭

سڑکیں کھودنے کی مہم کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ قابض فوج کے لیے کیمپ پر قابو پانے کا ہدف زیادہ آسان اور ہموار ہو گیا ہے، اور اس کی گشت کرنے والی گاڑیاں آسانی سے حرکت کر سکتی ہیں اور کیمپ میں ہونے والی چیزوں پر نظر رکھ سکتی ہیں، اور پھر کسی بھی مشتبہ حرکات والے علاقے کو گھیر کر تلاشی لے سکتی ہیں اور مشتبہ افراد کو گرفتار یا قتل کر سکتی ہیں۔ گشت کی گاڑیوں کی تیز رفتار حرکت اور کیمپ کے ہر حصے میں اچانک پہنچنے کی صلاحیت نے مزاحمت اور فدائیوں پر اثر ڈالنا شروع کر دیا، لہٰذا ایک نئے طریقہ کار کی ضرورت تھی تاکہ فدائیوں کو جلدی سے قابض فوج کی موجودگی کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے، تاکہ وہ اپنی حفاظت اور تیاری کر سکیں، اور ایسا ہوا کہ ہر جگہ جہاں قابض فوج کے فوجی نظر آئے اور جیسے ہی کسی بچے یا لڑکی نے یا کسی بڑے مرد اور خواتین نے بھی قابض فوج کو دیکھا، انہوں نے بلند آواز میں ’’بیعو…… بیعو……‘‘ کا نعرہ لگایا اور جس نے بھی یہ لفظ سنا، فوراً بلند آواز میں’’بیعو…… بیعو…… واتريح منو‘‘ کا نعرہ لگایا ، اس وقت مقصد قابض فوج کے فوجیوں سے اپنے ہتھیار فروخت کرنے کا مطالبہ تھا۔

یہ نعرہ بلند کرنے اور اس نعرے کو زور سے کہنے کی روایت کچھ ہی وقت میں ایک عوامی نغمے کی شکل اختیار کر گئی ، جب طلباء اور طالبات اسکول جانے اور وہاں سے واپس آنے کے دوران قابض فوج کی گشتی دیکھتے تو ان کے گلے میں ایک عوامی نغمہ گونجنے لگتا ’’بیعوبیعوواتريح منو والصندل أحسن منه‘‘ اور وہ اس نعرے کو اس وقت تک دہراتے رہتے جب تک ان کی آنکھیں اس گشتی پر پڑی رہتی اور فوجی نہیں جانتے کہ اس کے بارے میں کیسے عمل کریں اور الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتے۔ فدائی یہ آوازیں سنتے اور ان کے مقام کو جان لیتے اور اپنی حفاظت اور تیاری کرتے ، طریقہ یہ تھا کہ چھوٹے بچے یہ نعرہ دہراتے، لیکن جب چھوٹے بچے موجود نہ ہوتے اور بڑوں کے لیے یہ نعرہ دہرانا ضروری ہوتا تو وہ بھی بلند آواز میں یہ نعرہ لگانے سے گریز نہیں کرتے۔

٭٭٭٭٭

دن تیزی سے گزرتے گئے، اور ہم نے محمود کی مصر سے واپسی کے دن گننا شروع کر دیے ، وہ انجینئرنگ کالج سے فارغ التحصیل ہو کر واپس آ رہا تھا، اور ہم روزانہ ریڈ کراس کے دفتر جا کر اس کے نام کا انتظار کرتے، اور مصر سے واپس آنے والے قافلوں میں اس کا نام ڈھونڈتے ، کچھ دنوں کے بعد واپس آنے والوں کی فہرستیں اعلان بورڈ پر لٹکائی گئیں اور ہمیں تیسرے قافلے میں محمود کا نام ملا ، ہم گھر کی طرف دوڑے تاکہ اپنی ماں کو چیف انجینئر محمود کی واپسی کی خوش خبری دیں۔

اور اس کی آمد کا انتظار اور تیاری زور و شور سے شروع ہو گئی ، سب سے اہم بات یہ تھی کہ ماں نے میرے بھائی حسن سے چونا خریدنے کو کہا ، ہم نے گھر کے بیچ میں ایک گڑھا کھودا اور اس میں چونا ڈال کر پانی ڈالا تاکہ وہ ٹھنڈا ہو جائے ، پھر ہم نے اس کو چھان کر سارے گھر کو سفید رنگ سے پینٹ کیا، جس میں کچھ نیلاہٹ بھی شامل تھی ، اس کے بعد میری ماں نے کھانے پینے کی تیاری شروع کی، خاص طور پر حلوہ اور بسبوسہ جو کہ ہمارے لیے اور آنے والے مہمانوں کے لیے تھا۔

محمود کے آنے کے دن ہم نے تیاری کی اور اسے خوش آمدید کہنے کے لیے نکلے ، ہم ’’جنرل ڈائریکٹوریٹ آف پاسپورٹس‘‘ کے سامنے پہنچے، جہاں بسیں فوجی گاڑیوں کی نگرانی میں آئیں ، ہم اور سینکڑوں خاندان بے صبری سے انتظار کر رہے تھے، واپس آنے والے ایک ایک کر کے باہر آنے لگے، یہاں تک کہ محمود باہر آیا ، ہم دوڑ کر اس کی طرف گئے اور ہماری ماں ہم سے آگے تھیں ، اس نے ہمیں بانہوں میں بھر لیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، جب ہم اپنی ماں تک پہنچے تو وہ بھی خوشی سے رو رہی تھیں۔ محمود نے ان کا سر اور ہاتھ چومے اور وہ اسے گریجویشن کی مبارکباد دے رہی تھیں۔ محمود نے کہا ’’میں واپس آ گیا ہوں ماں! اور ان شاء اللہ اب محنت اور پریشانی کا دور ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا ’’الحمد للہ، الحمد للہ، ان شاء اللہ، ان شاء اللہ‘‘۔

جب ہم گھر پہنچے تو تقریباً سارا محلہ محمود کا استقبال کرنے کے لیے جمع ہو گیا ، ایک بڑے جشن کا سماں تھا، سب مرد اسے گلے لگا رہے تھے اور عورتیں میری ماں کو مبارکباد دے رہی تھیں اور کچھ زغردیں5 نکال رہی تھیں۔ گھر میں داخل ہونا مشکل ہو گیا کیونکہ گلی میں بہت بھیڑ تھی، ہمسائے گھر میں داخل ہو کر مبارکباد دے رہے تھے اور ہماری ماں اور بہن بھائی مہمانوں کو مٹھائیاں اور مشروبات پیش کر رہے تھے۔ لوگ محمود کو چیف انجینئر کہہ کر پکار رہے تھے اور اس سے مصر، یونیورسٹی، اور اس کی صحت کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔

سورج غروب ہونے کے قریب تھا اور اندھیرا چھانے لگا، جس کے ساتھ ہی کرفیو کا وقت قریب آ گیا ، ہمسائے مبارک باد کے کلمات دہراتے ہوئے اپنے گھروں کو جانے لگے، ہم سب محمود کے گرد بیٹھ گئے، ہمارا گھرانہ اور چچا ابراہیم کا گھر بھی جو کہ ہمارے خاندان کا حصہ بن چکا تھا۔باتیں شروع ہو گئیں، حسن اپنی دکان بند کر کے صرف پڑھائی پر توجہ دے گا، محمد اور میں اپنے خالو کے چھوٹے سے کارخانے میں کام کرنا چھوڑ دیں گے ، ہم گھر میں ایک نیا کمرہ بنائیں گے، جس سے دو کمروں کی چھت بلند ہو جائے گی اور اس کی دیواریں اونچی کر کے ایسبیس ٹوس (Asbestos) سے چھت ڈالی جائے گی ، اور ہم گھر کی زمین کو سیمنٹ سے پکی کریں گے۔ یہ سب منصوبے تبھی پورے ہوں گے جب محمود نوکری پر لگے گا اور اپنی تنخواہ حاصل کرنا شروع کرے گا۔

یہ واضح تھا کہ محمود کیمپ کو نہیں چھوڑے گا، اور نہ ہی علاقے کو چھوڑ کر بیرون ملک کام کرنے جائے گا۔ وہ گھر اور خاندان سے دور تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس آ کر بہت خوش تھا۔ ہم نے محمود کی واپسی اور گریجویشن کی خوشی میں دو دن مزید مبارکباد دینے والوں کا استقبال کیا ، تیسرے دن رات کو جب کرفیو کا وقت گزر چکا تھا اور ہم سو رہے تھے، تو ہم نے گاڑیوں کی آوازیں سنیں، وہ رکنے کے بعد دوبارہ چل پڑیں اور چلی گئیں، لیکن ہمیں اچانک صحن میں فوجیوں کی آوازیں سنائی دیں اور ان کی زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانے کی آوازیں آئیں اور انہوں نے ہمیں صحن میں باہر نکلنے کو کہا۔ میری ماں اور بہنوں نے جلدی سے اپنے سروں کو ڈھانپ لیا اور ہم سب باہر نکلے۔ محمود آگے آگے جا رہا تھا، تو ہم نے دیکھا کہ درجنوں فوجی گھر پر قابض ہیں اور ہر طرف سے ہم پر بندوقیں تانی ہوئی ہیں۔ میری ماں چیخ کر بولیں، ’’تم لوگ کیا چاہتے ہو؟ کیا چاہیے؟‘‘ ایک افسر نے محمود کی طرف دیکھ کر پوچھا ’’کیا تم محمود ہو؟‘‘ محمود نے جواب دیا، ’’ہاں، میں محمود ہوں‘‘ افسر نے کہا، ’’ہمیں تمہیں سرايا لے جانا ہے۔‘‘ میری ماں چیخ کر بولی ’’کیوں؟ کل ہی تو مصر سے واپس آیا ہے۔‘‘ افسر نے کہا، ’’ان سے صرف کچھ سوالات پوچھنے ہیں اور کل صبح تمہیں واپس بھیج دیں گے۔‘‘ اس نے محمود سے ان کے ساتھ چلنے کو کہا۔ محمود نے کپڑے بدلنے کی درخواست کی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور اسے اسی حالت میں چلنے کو کہا۔ جب میری ماں باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھیں تو انہوں نے اسے روک دیا اور دروازہ بند کر کے نکل گئے۔ گاڑیوں کے انجن کی آوازیں دور ہوتی گئیں۔ اس رات ہم سو نہ سکے، اور میری ماں چیخ رہی تھی، رو رہی تھی اور اپنی قسمت کو کوس رہی تھی۔ فاطمہ اور حسن اسے تسلی دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ محمود صبح تک واپس آ جائے گا، کیونکہ افسر نے کہا تھا کہ انہیں صرف کچھ سوالات پوچھنے ہیں۔ لیکن وہ کہتی رہتی، ’’کچھ سوالات؟ اگر انہیں کچھ سوالات پوچھنے تھے تو دن میں بلا لیتے، نوٹس بھیج کر ، پھر اپنی قسمت کو روتی، ’’ہائے میری قسمت، ہائے میری قسمت، محمود، تم نے کیا کیا ؟‘‘

صبح کے پہلے پہر میں اور کرفیو ختم ہونے کے بعد وہ اپنے ساتھ حسن کو لے کر سرايا چلی گئیں، وہاں گیٹ پر پہرا دینے والے فوجیوں نے انہیں روک دیا اور اندر جانے نہیں دیا جبکہ وہ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ کیا ہوا ہے اور وہ محمود سے ملنا چاہتی ہیں۔ لیکن وہ کچھ نہیں سمجھے اور صرف یہی کہتے رہے، ’’یہاں سے چلی جاؤ!‘‘ حسن نے ان کی حالت دیکھ کر انہیں سمجھایا کہ وہ انہیں اندر جانے نہیں دیں گے اور انہیں گیٹ کے سامنے انتظار کرنا ہو گا ، وہ انہیں کھینچ کر سامنے والی طرف لے گیا اور بٹھا دیا۔، ایک گھنٹہ گزرتا گیا، پھر دوسرا،محمود باہر نہیں نکل رہا تھا اور وہ جانا چاہتی تھیں۔ کبھی اندر جانے کی کوشش کرتیں اور حسن انہیں روکتا، انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتا کہ وہ انہیں اندر نہیں جانے دیں گے اور ذلیل کریں گے۔ ہم گھر میں ہنگامی حالت میں تھے اور ہم نے عام سوگ کا اعلان کر دیا تھا، اور ہم انتظار کر رہے تھے کہ ماں اور حسن محمود کے ساتھ واپس آئیں گے اور انتظار طویل ہوتا گیا۔

غروب کے قریب ماں اور حسن اپنے قدموں کو گھسیٹتے ہوئے واپس آئے، ان کے چہروں پر غم چھایا ہوا تھا، اور ماں ایسی حالت میں تھیں کہ میں نے کبھی ایسی بدتر حالت نہیں دیکھی تھی۔ حالت سے ہی سوال کا جواب مل رہا تھا اور ہم میں سے کوئی بھی ایک لفظ بولنے کی جرأت نہیں کر سکا، بلکہ ہر کوئی اپنے بستر پر بغیر کسی آواز کے جا گرا۔ حسن ان کے پاس بیٹھا تھا اور انہیں تسلی دینے کی کوشش کر رہا تھا، کہہ رہا تھا : کل میں ایک وکیل کے پاس جاؤں گا تاکہ ہم اسے محمود کے بارے میں پوچھنے اور اس کے معاملے کو دیکھنے کے لیے مقرر کر سکیں۔ اور ہم ریڈ کراس کو اس کی گرفتاری کی اطلع دیں گے ، ماں نے جواب دیا : میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ رہوں گی، تو اس نے اتفاق کیا۔

صبح سویرے دونوں دوبارہ روانہ ہو گئے تاکہ اس کام کو انجام دیں۔ ایک وکیل مقرر کیا اور ریڈ کراس کو اطلاع دی۔ انہیں اچھی طرح سمجھ آگیا کہ ہمارے اور ان کے سامنے صرف انتظار ہے، کیونکہ کوئی معلومات ایک ماہ گزرنے سے پہلے واضح نہیں ہو سکتی ، صرف انتظار اور صرف انتظار۔ ابتدائی ایام سیاہ، بھاری اور غمگین تھے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ہر مصیبت کے ساتھ جینے کی طاقت مل گئی ہے چاہے وہ کتنی ہی بڑی ہو۔ بس اس کے پہلے گھنٹوں اور دنوں کو گزارنا ہوتا ہے پھر معاملہ پہلے کی طرح عام ہو جاتا ہے، جیسے ہر پچھلی مصیبت۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پچھلے تمام منصوبے منسوخ یا حسن ظن رکھتے ہوئے ملتوی ہو گئے تھے۔ حسن کو دکان پر کام جاری رکھنا تھا، اور مجھے اور محمد کو اپنے ماموں کی فیکٹری میں صفائی اور ترتیب کے لیے جانا تھا۔

کچھ دن گزرنے کے بعد ماں حسن کو وکیل اور ریڈ کراس کے پاس باقاعدگی سے ہفتے میں ایک یا دو بار لے جاتی تھی۔ ایک ماہ سے زیادہ کے بعد وکیل نے ہمیں بتایا کہ محمود کے خلاف الزامات کی فہرست تیار کی جائے گی اور اسے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ لیکن لگتا ہے کہ معاملہ سادہ ہے اور دو یا تین ہفتوں میں واضح ہو جائے گا۔ تقریباً دو ہفتے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ محمود کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے، اور جج نے اس کی حراست میں دو مہینے کی توسیع کر دی ہے۔ دو ہفتے بعد ہمیں ریڈ کراس سے معلوم ہوا کہ محمود سے ملاقاتیں غزہ کے مرکزی جیل میں ہوں گی اور اگلے مہینے سے ہم اسے ہر مہینے کے پہلے جمعہ کو مل سکتے ہیں۔

حسن نے ثانوی تعلیم مکمل کر لی تھی اور خاندان کی معاشی حالت کے پیش نظر جو اس کے مصر یا کہیں اور پڑھنے کے لیے سفر کرنے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تھی، اس نے راضی ہو کر ’انروا‘(UNRWA) کے صنعتی اسکول میں داخلہ لے لیا اور مکینیکل فٹنگ اور مشیننگ کے شعبے میں اس کا داخلہ ہو گیا۔ اسے سال کے آغاز میں تعلیم کا آغاز کرنا تھا جہاں دو سال کی تعلیم کے بعد اسے صنعتی ڈپلومہ ملنا تھا۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

1 فلافل ایک مشہور مشرق وسطی کا کھانا ہے جو چنے یا فوا کے بیجوں سے بنایا جاتا ہے ، چنے یا فوا کے بیجوں کو پیس کر ان میں مختلف مصالحے اور سبزیاں ملائی جاتی ہیں، پھر ان کے گول یا چپٹے گولے بنا کر گرم تیل میں تل لیا جاتا ہے ، فلافل کو عام طور پر پیٹا بریڈ یا روٹی میں لپیٹ کر، سلاد، ترشی اور چٹنی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مزیدار اور مقوی ویجیٹیرین کھانا ہے جو دنیا بھر میں مقبول ہے۔

2 فول : ایک خاص قسم کا لوبیا ہے ، یہ خوراک میں استعمال ہوتا ہے اور مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیاء میں مقبول ہے فول مدامی کو مختلف طریقوں سے پکایا جاتا ہے اور یہ غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔

3 سحلب : ایک مشہور مشروب ہے جو خاص طور پر سردیوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ مشروب مشرق وسطی، ترکی، اور جنوبی ایشیا میں بہت مقبول ہے ، سحلب ایک گرم، کریمی اور میٹھا مشروب ہے جو عام طور پر دودھ، چینی، اور سحلب پاؤڈر سے تیار کیا جاتا ہے ، سحلب پاؤڈر ایک قسم کی آرکڈ (orchid) کے جڑوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔

4 شین بیت (Shin Bet) جسے اسرائیل میں عمومی سکیورٹی سروس (General Security Service یا GSS) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسرائیل کی داخلی سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کی ایجنسی ہے ، اس کا مقصد اسرائیل کی اندرونی سکیورٹی کو یقینی بنانا، دہشت گردی کو روکنا، اور جاسوسی کے خلاف اقدامات کرنا ہے ، شین بیت کی ذمہ داریوں میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف خطرات کا پتہ لگانا اور ان کا سد باب کرنا شامل ہے ، یہ ایجنسی مختلف انٹیلی جنس اور سکیورٹی آپریشنز انجام دیتی ہے تاکہ اسرائیلی عوام اور حکومت کی حفاظت کی جا سکے ، شین بیت کی تشکیل 1948ء میں ہوئی تھی، اور تب سے یہ اسرائیل کی سکیورٹی کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کی کارکردگی اور آپریشنز عموماً خفیہ ہوتے ہیں، اور ان کے بارے میں عوام کو زیادہ معلومات نہیں ہوتیں۔

5 ایک مخصوص چیخ نما آواز جو عرب ثقافت میں عورتیں خوشی کے موقع پر نکالتی ہیں۔

Exit mobile version