ایمان، استقامت، فرعون اور غزہ

کرسٹوز جورجَلاس یونان کے مشہور سرجن ہیں جو سر اور گردن سے متعلقہ امراض کے علاج اور جراحی میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف نیکوسیا میں پروفیسر ہیں، اور ایتھنز کے ایک بڑے نجی ہسپتال میں خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ وہ ان چند یونانی ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ مہینوں میں غزہ میں اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کیں۔ وہ ایک برطانوی آرگنائزیشن ’میڈیکل ایڈ برائے فلسطین‘کے توسط سے ایک ویسکولر سرجن (ماہرِ رگ و شریان) اور ایک پلاسٹک سرجن کے ہمراہ غزہ پہنچے، جہاں انہوں نے ۲۱ اپریل تا ۲۱ مئی ۲۰۲۵ء، ایک ماہ جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں واقع الناصر ہسپتال میں گزارا۔

ان کی واپسی پر یونانی صحافی کوسٹاز زفیروپولوس نے ان کا انٹرویو کیا جو اخبار EFSYN کے ادارتی صفحے پر چھاپا گیا۔ ذیل میں اسی انٹرویو کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دل سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر جور جَلاس اور ان کی طرح کے دیگر اصحابِ درد کو ایمان کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا ربّ العالمین!

غزہ کے سفر کا یہ دوسرا موقع تھا، پہلا موقع ۲۰۱۲ء میں ملا جب وہ ہلالِ احمر کے ایک مشن کے ساتھ ۲ ماہ کے کے لیے غزہ گئے۔ اس دفعہ، ایک ماہ کے اس عرصے میں جو انہوں نے غزہ میں گزارا، ان کے ہسپتال کو اسرائیل کی جانب سے دو دفعہ حملوں کا ہدف بنایا گیا۔ ’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں کسی جنگی علاقے میں گیا۔ جنگ ایک بہت مختلف چیز ہوتی ہے۔ تربلِنکا میں کوئی جنگ نہیں تھی، آشوِٹز میں کوئی جنگ نہیں تھی۔ جنگ میں دو فوجیں ہوتی ہیں۔ جبکہ یہاں ایک آبادی ہے جس کی اکثریت شہریوں، عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے، جن کے پاس فرار کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ جبکہ آسمان سے ایک منظّم و باقاعدہ طریقے سے بموں کی بارش جاری ہے۔ یہ بم ہسپتالوں پر گرتے ہیں، یہ صحافیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہاں میرےکولیگز کی حالت ناقابلِ بیان حد تک الم ناک تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود ان حالات میں ایک امید افزا رخ بھی تھا۔ تصور کیجیے کہ ان حالات میں بھی ہماری کلاسز جاری تھیں! حتی کہ ہم نے زیرِ تربیت افراد (ٹرینیز) کے امتحان بھی لیے‘۔

انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’جب میں وہاں تھا، ہم نے اِنٹرنز (زیرِ تربیت ڈاکٹر) کے گروپ کے لیے ملٹیپل چوائس کوئسچنز پر مبنی امتحان تیار کیے، تاکہ وہ اپنی ڈگری مکمل کر سکیں اور اپنے تخصصات کا ٹائٹل حاصل کر سکیں ‘۔

صحافی: آپ نے غزہ جانے کا فیصلہ کیسے کیا؟ کیا ایسا فیصلہ کرتے ہوئے یہ خیال نہیں آتا کہ وہاں جا کرآپ خود کو خطرات کے منہ میں ڈال رہے ہیں؟

ڈاکٹر جورجَلاس: میرے خیال میں جو شخص یہ نہ سوچے وہ حماقت کا شکار ہے۔ تاحال غزہ میں ۱۴۰۰ ہیلتھ ورکرز قتل کیے جا چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ وہاں جانا خود کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ لیکن ……ساتھ میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہماری نسل میں یہ اہم ترین واقعہ ہے جو پیش آیا ہے۔ یہ پہلی نسل کشی ہے، جس کا ہم سب براہِ راست لائیو سٹریمِنگ پر مشاہدہ و تجربہ کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں (ایسی صورتحال میں) مشکل ترین کام یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس (نسل کشی) کا آپ سے کوئی تعلق نہیں۔ یا یہ کہ تعلق تو ہے مگر ایک فاصلے سے۔ مجھے نہیں معلوم …… میرے خیال میں اس میں یہ وجہ بھی شامل ہے کہ میں ایک طبیب ہوں، اور طب کا تمام مقصد ہی یہ ہے کہ ان لوگوں سے تعامل کیا جائے جنہیں ہماری ضرورت ہے۔ سو میں اسے اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اس کے ساتھ یہ ایک طریقہ بھی تھا، فلسطینی لوگوں کو یہ بتانے کا طریقہ کہ عوام کی اکثریت اپنی حکومتوں کے فیصلوں سے اتفاق نہیں کرتی اور ان میں شریک نہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر میں اپنی یونانی حکومت کی پالیسی کو تبدیل کرنے کی طاقت نہیں بھی رکھتا، تو بھی میں کم از کم اپنے عمل سے یہ اظہار تو کر سکتا ہوں کہ میں ان کے ساتھ متفق نہیں ہوں۔

ایک چیز جس کی مجھے توقع نہیں تھی، وہ یہ ہے کہ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ مغرب میں اس سب کو کس قدر قریبی و گہری نظر سے دیکھا جا رہا ہے، یعنی جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ میری مراد ہے، فلسطین کے حق میں کیے جانے والے مظاہرے، یہ کن ممالک میں ہو رہے ہیں، کون لوگ ہیں جو یہ مظاہرے کروا رہے ہیں، اور ان کا حجم کتنا ہے۔ انہیں بہت واضح اندازہ ہے اس سب کا جو ہو رہا ہے۔

صحافی: آپ کی واپسی ابھی چند ہی گھنٹے پیشتر ہوئی۔ فی الوقت کیا خیالات ہیں جو ذہن میں غالب ہیں؟

ڈاکٹر جورجَلاس: دو باتیں ہیں۔ پہلی بات…… جو کہ شاید آپ کو قدرے عجیب لگے…… وہ یہ ہے کہ میں اپنی واپسی پر ایک زیادہ امید افزا نقطۂ نظر اور ذہنی حالت کے ساتھ لوٹا ہوں، بنسبت اس کے جو وہاں جانے سے قبل تھی۔ جس چیز کی کسی کو توقع نہیں ہوتی وہ یہ ہے کہ عملاً اہلِ غزہ محض جنگ سے متاثر ایک مظلوم و مقہورقوم نہیں ہیں۔ بلکہ وہ ایک نہایت فعال، متحرک، یکجا و متحد اور پڑھا لکھا معاشرہ ہے، اور اس جنگ سے اگر ہدف اس معاشرت کی چادر کو تار تار کرنا تھا، تو اس میں کسی قسم کی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ بہت سے رخ اور اعتبار سے ان کی معاشرت اس معاشرت سے مضبوط تر ہے جو ہمیں یہاں یونان میں میسر ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ میرا یہ احساس ہے کہ یہ جنگ بنیادی طور پر بچوں کے خلاف ہے۔ اور میری اس بات کا ردّ اس مشہور ومعروف دلیل سے نہیں کیا جا سکتا کہ ’چونکہ غزہ کی آبادی کا ایک بڑا فیصدی حصّہ بچوں پر مشتمل ہے، لہٰذا سٹیٹس کے اعتبار سے متاثرہ بچوں کی ایک بڑی تعداد جنگ کا لازمی نتیجہ ہے‘۔ میرے خیال میں متاثرہ بچوں کی بڑی تعداد بالخصوص بچوں ہی کو ہدف بنانے کا نتیجہ ہے، ایک اسرائیلی پارلمنٹیرین نے کہا ہے کہ : ’’بچے ان کا مستقبل ہیں، لہٰذا بچوں کو نشانہ بنانا اور قتل کرنا، بڑوں کو قتل کرنے سے دو گنا اہمیت کا حامل ہے‘‘۔ بہر کیف، میں کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ میں اس پالیسی کا اس قدر شدت و برہنگی سے مشاہدہ کروں گا۔

میں نے جن مریضوں کا علاج کیا، ان میں بچوں کی تعداد بڑوں کی نسبت بے حد زیادہ تھی۔ ہم یہاں ۶، ۸، ۹، ۱۱ سال کے بچوں کی بات کر رہے ہیں…… جن بچوں کو میں نے دیکھا ان کی گردنوں پر زخم آئے تھے۔ بموں کے چھوٹے چھوٹے باریک پارچوں (شریپنل) کے ٹکرانے سے آنے والے یہ زخم محض چند ملی میٹر پر محیط ہوتے، لیکن یہ پارچے انتہائی تیز رفتاری سے جسم میں داخل ہو جاتے۔ سو آپ کو ان کی گردن پر ایک بے حد چھوٹا سا سوراخ نظر آتا، لیکن جب آپ سی ٹی سکین کے ذریعے ان کا معائنہ کرتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ ان ننھے باریک پارچوں نے ان کا لیرِنکس (حنجرہ)، ٹریکیا (وِنڈ پائپ ) اور ریڑھ کی ہڈی تباہ کر دی ہے۔ یہ در حقیقت ننھے ننھے آگ کے گولے ہیں۔ ابھی حال ہی میں یونان میں اسلحے کی ایک نمائش منعقد ہوئی، ایسی نمائشوں میں ان بچوں کو بطور ٹیسٹ سیمپل پیش کیا جا سکتا ہے، یہ دکھانے کے لیے کہ یہ بم کس قدر مؤثر ہیں! کیونکہ یہ بم جب پھٹتے ہیں تو یہ بے شمار ننھے ننھے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں جو ایک بہت بڑے علاقے پر پھیل جاتے ہیں۔ اور ہر وہ چیز جو وہاں موجود ہوتی ہے، اس میں سرایت کر جاتے ہیں۔ یہ ننھے منّے ٹکڑے حقیقتاً بچوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مردہ بچے ان زخمی بچوں کے علاوہ ہیں، جنہیں ہم روزانہ مردہ خانوں میں دیکھتے تھے۔ ہر روز تقریباً دو سو سے تین سو زخمی افراد ہسپتال لائے جاتے تھے۔ جن میں اندازاً زخمی و مردہ کا تناسب ایک اور تین کا ہے۔

صحافی: الناصر ہسپتال کی حالیہ صورتحال کیا ہے؟

ڈاکٹر جورجَلاس: میں نے وہاں جتنی مدت گزاری، اس میں دو دفعہ ناصر ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا۔ ہمارے وہاں جانے سے قبل ہماری ٹیم کو جو خدشات لاحق تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ ناصر ہسپتال کو مارچ ہی میں حملوں کا ہدف بنایا گیا تھا جب اسرائیل نے حماس کے ایک لیڈر کو نشانہ بنانے کا دعوی کرتے ہوئے ہسپتال پر بمباری کی، اور ہسپتال کے سرجیکل فلور کو نشانہ بنایا۔

میرے پہلے تین ہفتے ہسپتال کا حملوں کا ہدف بنے بغیر گزر گئے، لیکن غزہ سے نکلنے سے پہلے آخری ہفتے میں ہسپتال کو دو دفعہ نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ بدھ، یعنی ۱۴ مئی کو ہم اپنی حفاظت کی خاطر مستقل ہسپتال میں ہی رہے، حتی کہ رات بھی وہیں گزاری۔ ہسپتال سے باہر نکلنا ممکن ہی نہ تھا، حتیٰ کہ ہم ہسپتال کے احاطے میں بھی بمشکل ہی نکل سکتے تھے۔

ہم ہسپتال کی چوتھی منزل پر تھے، جہاں آپریشن تھیٹر، انتہائی نگہداشت کے وارڈز، اور غیر ملکی ڈاکٹروں کے لیے سونے کے کمرے موجود تھے۔ ہم سے عین نیچے، تیسری منزل کو نشانہ بنایا گیا، رات کے ساڑھے تین بجے، تیسری منزل پر موجود برن یونٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اصل ہدف وہاں موجود ایک صحافی تھا۔ وہ صحافی اس حملے میں قتل ہوا، اس کے ساتھ موجود دوسرے بیڈ کو بم کا نشانہ بنایا گیا، اور بہت سے نرس زخمی ہوئے۔ اس واقعے سے محض پانچ روز بعد، ہسپتال کا احاطہ جس میں ہسپتال کی فارمیسی بھی موجود تھی، کو دوبارہ بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ پہلا حملہ دو ڈرونز کے ذریعے کیا گیا تھا، دوسرا حملہ میزائل سے کیا گیا۔

صحافی: کیا آپ کبھی باہر شہر میں بھی جا پائے؟ شہر کا کیا منظرنامہ ہے؟

ڈاکٹر جورجَلاس: جی ہاں، میں باہر جایا کرتا تھا اگرچہ وہ ہمیں جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ تین ہفتوں کے بعد میرے لیے وہ سب ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا۔ تباہی کی شدت و وسعت دل دہلا دینے والی تھی۔ وہاں ایسی گلیاں تھیں جن میں موجود تمام عمارتوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت زمین کے ساتھ برابر کر دیا گیا تھا۔ اور جیسا کہ میرے کولیگ، جو کہ میرا ٹور گائیڈ بھی تھا، نے مجھے بتایا، ان سب عمارتوں کے اندر لوگ موجود تھے۔ چار چار منزلہ عمارتیں جن میں منزلیں ایک دوسرے کے اوپر گرا دی گئیں، اور تب آپ کو ادراک ہوتا ہے کہ ان عمارتوں میں کتنے افراد رہا کرتے تھے۔ میرے اس کولیگ اور ٹور گائیڈ کی بہن، جو کہ خود بھی ایک سپیشلسٹ تھی، وہ بمباری کے دوسرے مہینے میں اپنے بیٹے سمیت ایسی ہی ایک عمارت میں قتل ہوئی، اس حالت میں کہ وہ اپنے دوسرے بچے کے ساتھ آٹھ ماہ کی حاملہ تھی…… میرے کولیگز میں کوئی ایسا نہیں تھا جس کے خاندان کے لوگ اس نسل کشی کا نشانہ نہ بنے ہوں، اگر بہت قریبی رشتے سے نہیں تو ہر کسی کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد تو ضرور ایسا ہوتا، جو ان ختم نہ ہونے والی بمباریوں کو نشانہ بن چکا ہوتا۔ اسی طرح، میرے تمام کولیگز میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جواس نسل کشی کے دوران کبھی نہ کبھی اپنے گھر کو چھوڑ کر نکلنے پر مجبور نہ ہو گیا ہو۔ اور صرف ایک دفعہ نہیں، بلکہ بار بار، کئی دفعہ……ایک سینئر ڈاکٹر تو اپنے گھر کو دس دفعہ چھوڑ دینے پر مجبور ہو گئے تھے۔

صحافی:تو پھر وہ کہاں رہا کرتے تھے؟

ڈاکٹر جورجلاس: ان میں سے بعض پناہ گزینوں کی خیمہ بستیوں میں رہتے تھے۔ میرا ایک کولیگ احمد، گزشتہ پانچ ماہ سے خیموں میں رہ رہا تھا۔ دوسرے سینئر ڈاکٹر جن کا میں نے تذکرہ کیا، وہ جب کبھی اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو پھر اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے گھروں میں رہتے رہے۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ غزہ کے گھر انفرادی طور پر نہیں چلتے، لہٰذا بوقتِ ضرورت ہر کسی کو کوئی نہ کوئی ایسا گھر ضرور مل جاتا جہاں وہ رات بسر کر سکتا تھا۔ وہاں ایسی کسی سوچ کا کوئی گزر نہیں کہ ’چونکہ میرا گھر بمباری کا نشانہ نہیں بنا، اس لیے میں اپنی فیملی کے ساتھ معمول کی زندگی گزاروں گا‘، بلکہ اہلِ غزہ اپنے گھروں کے کمرے اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور آپ کے ان رشتہ داروں سے، جو گھروں سے محروم ہو گئے ہوتے، بھر لیتے تھے۔

ذرا اس بارے میں سوچیے، کہ غزہ میں اس ’جنگ‘ سے قبل کوئی بے گھر افراد نہیں تھے۔ ہمارے شہروں کے برعکس، غزہ میں سرے سے کوئی بے گھر افراد نہیں تھے۔ وہاں ایک رواج ہے، ایک فکر ہے… اور اسی وجہ سے میں دوبارہ یکجہتی کی بات کر رہا ہوں…… وہاں ایک رواج ہے جو یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص اپنے گھر میں رات کو آرام کی نیند سوئے جبکہ اس کی سڑک پر لوگ کھلے آسمان تلے رات بسر کر رہے ہوں۔ لوگ جانتے ہیں کہ وہ ہر آن بموں کی زد میں اور ان کے نشانے پر ہیں۔ جس رفتار سے آسمان سے بموں کی بارش ہو رہی تھی، وہ دلخراش ہے۔ کچھ وقت بیتنے پر آپ اس کے عادی ہو جاتے ہیں، لیکن وہاں ۵ سے دس منٹ بھی گزرنے نہ پاتے کہ آپ کو کسی بم کے پھٹنے کی آواز سنائی دیتی۔ غزہ ایک چھوٹی سی جگہ ہے۔ اور اس جگہ پر روزانہ ۵۰۰ سے ۶۰۰ بم گرائے جا رہے ہیں۔ اگر آپ اس چھوٹے سے علاقے کو چار سیکٹرز میں تقسیم بھی کر دیں تو بھی ہر سیکٹر میں فی دن کم از کم ۱۰۰ دھماکے ہو رہے ہیں۔

صحافی: آپ کے کولیگز نے آپ کے سامنے گزشتہ مہینوں کی کیا منظر کشی کی؟

ڈاکٹر جورجلاس: میرے ایک ہسپانوی کولیگ نے مجھے بتایا کہ جب اسرائیلی ہسپتال کے اس حصّے میں پہنچے جہاں ایم آر آئی مشین نصب تھی، انہوں نے وہاں موجود ہر شے تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن ایم آر آئی کی مشین ایک بہت بڑی مشین ہوتی ہے۔ کسی گاڑی کی طرح، اگر آپ اس پر فائرنگ بھی کریں، تو اس کی مرمت کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے ساتھ ایک ماہر انجنئیر کو لے کر آئے تاکہ اسے مکمل طور پر تباہ کیا جا سکے۔ کیونکہ اگر اس مشین کے بالکل ساتھ کوئی بم بھی گرایا جائے، تو بھی اس مشین کی مرمت ممکن ہے۔ لہٰذا انہیں اپنے ساتھ اس مشین کو اچھی طرح جاننے والے ایک ماہر کو لانا پڑا، تاکہ وہ اس مشین کو ناکارہ کر سکیں۔ اور یہی وہ کام ہےجو گزشتہ فروری میں انہوں نے سرانجام دیا۔

ہمارے ہسپتال میں اسرائیلی ان وارڈز میں گئے جہاں انکیوبیٹرز رکھے گئے تھے، اور بڑے منظم انداز میں انہوں نے باری باری ہر انکیوبیٹر کو توڑا اور ناکارہ بنایا۔ انہوں نےتمام انکوبیٹرز کو کَروبارز (آہنی سلاخوں) کے ذریعے تباہ کیا۔ ان کا یہ فعل میرے کولیگز نے ریکارڈ کیا۔ جس ہسپتال میں میں نے کام کیا، وہ دو ماہ اسرائیلیوں کے زیرِ قبضہ رہا، فروری و مارچ ۲۰۲۴ء میں۔ وہ ڈاکٹر جو ہسپتال میں موجود رہے، انہیں اسرائیلیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان سب کو قطار میں کھڑا کیا جاتا اور پھر ان پر شدید جسمانی تشدد کیا جاتا۔ ان میں سے ۸۰ کی تعداد کو اغوا و گرفتار کر لیا گیا، ان میں سے ۴۰ کے بارے میں ابھی تک کوئی خبر نہیں کہ وہ کہاں ہیں، آیا وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں! ان میں سے بہت سوں کو تو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا۔

اگر آپ اس امر پر ہی غور کریں کہ بعض ڈاکٹروں کو بطورِ خاص ہدف کیوں بنایا جاتا، تو اس میں بھی ایک اصول و قاعدہ نظر آتا ہے۔ یہ محض اتفاقاً نہیں تھا کہ بعض ڈاکٹروں کو چھوڑ دیا جاتا اور بعض کو خصوصی طور پر ظلم و تشدد کا ہدف بنایا جاتا۔ یہ ہدف بننے والے ڈاکٹر بالعموم وہ ڈاکٹر تھے جو اپنے اپنے میدانِ عمل میں بہترین تھے! مثال کے طور پر وہاں ایک ڈاکٹر تھا جو کاکلئیر امپلانٹ (کان کے اندر سماعت میں معاون آلات لگانے اور عملِ سماعت میں معاون جراحی کرنے) کا ماہر تھا۔ اسے ابتدا سے ہی اسرائیلیوں نے اپنا ہدف بنایا۔ بعینہ اسی وجہ سے کہ وہ اپنے فن کا ماہر تھا اور نئے سرے سے سماعت کی نعمت عطا کر سکتا تھا، لہٰذا وہ مریضوں کے علاج میں کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔ اسی طرح یونیورسٹیوں میں، ان لوگوں کو ابتدا سے نشانہ بنایا گیا جن کی علمی تحقیق و کاوشیں سب سے بہترین تھیں۔ اس پالیسی کے پیچھے کار فرما محرک یہ ہے کہ ’ہم غزہ کے مستقبل کو مٹا دینا چاہتے ہیں‘۔ وہ لوگ جو غزہ کی از سرِ نو تعمیر کی صلاحیت رکھتے ہیں، علمی اعتبار سے، طبی اعتبار سے، حتی کہ فنی اعتبار سے …… وہ سب نشانے پر ہیں۔

صحافی: لوگوں کا مورال کیسا ہے؟

ڈاکٹر جورجلاس: میں آپ کو اپنی ٹیم کے حوالے سے بتاتا ہوں، یعنی ڈاکٹروں کے حوالے سے۔ وہاں میرا ایک کولیگ یاسر تھا، جو ڈپریشن کا شکار تھا۔ بہت سے لوگ حالات کا سامنا بڑے حوصلے اور استقامت سے کر رہے تھے۔ کیا آپ جانتے ہیں ان کے ہاں بہت مضبوط نظام ہے ایک دوسرے کو سہارا دینے کا؟! اور اس کے علاوہ ان کا اپنے دین کے ساتھ جو تعلق ہے، وہ بھی ایک نہایت صحتمندانہ تعلق ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کا دین ان کی بہت مدد کرتا ہے، لیکن اس طرح کہ دوسروں کو بھی پرایا پن محسوس نہ ہو۔ ا ن کے درمیان رہتے ہوئے مجھے کبھی یہ محسوس نہ ہوا کہ میں ایک غیر مسلم ہوں۔ ان کے ہاں دین انہیں جوڑنے، ان کے درمیان یکجہتی پیدا کرنے کے کام آتا ہے، ایک دوسرے کو سہارا دینے، کسی بھی قسم کی جارحیت پر ابھارے بغیر انہیں صبر عطا کرتا ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر، وہاں تھکاوٹ اور نڈھال پن ہے۔ ہر کسی کے ذہن میں یہ فکر موجود ہے کہ اسرائیل ان سب کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ انہیں غزہ سے باہر نکال دینا چاہتا ہے،۔ وہ سارا سارا دن الجزیرہ پر خبریں دیکھتے ہیں۔ اور وہاں یہ خبریں ہی ان کی زندگی ہیں! یہ دور کہیں پیش آنے والے واقعات پر مبنی تھیوریٹِکل باتیں نہیں، یہ خبریں ان کا مستقبل ہیں۔ ‬‬‬

انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’اگر اسرائیل کی جانب سے ہمیں دوبارہ اپنے علاقے خالی کرنے کا حکم ملا، تو ہم نہیں جائیں گے۔ ہم یہیں رہیں گے۔ہم تھک چکے ہیں۔ اگر ہم اب یہاں سے نکلے تو ہم دوبارہ کبھی اپنے گھروں کو لوٹ نہ سکیں گے۔ ہم یہیں اکٹھے اپنے گھروں میں مرنے کو باہر سڑکوں پر مرنے پر ترجیح دیتے ہیں‘۔ اور وہ یہ سب بڑے تحمل سے، بڑی استقامت اور یقین سے کہتے تھے، ایسی استقامت جس میں ہیرو بننے کے شوق کو کوئی دخل نہیں تھا۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version