!امتِ واحد بن جائیے

آپریشن سندور کو لے کر بہت ساری باتیں گردش میں رہیں ، لیکن ایک تصویر جو خاصی سرخیوں میں رہی ، وہ کرنل صوفیہ قریشی کی تھی، ان پڑھ، غریب اور پسماندہ (کہے جانے والے) مسلمانوں کے درمیان سے آئی صوفیہ قریشی کو سوشل میڈیا پر کافی لائکس ملے اور بہت سے بھارتیہ مسلمان صوفیہ قریشی کی ہندو غلامی دیکھ کر اپنی پیٹھ تھپتھپاتے نظر آئے، کرنل صوفیہ قریشی آپریشن سندور کی ایک ترجمان تھی، جس کا خاندان ۱۶۵ سالوں سے رائل انڈین آرمی کی خدمت سرانجام دے رہا ہے ، صوفیہ قریشی آپریشن سندور کی کارروائیوں کے بارے میں بڑے اعتماد کے ساتھ بریفنگ دیتی نظر آئی۔

لیکن یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہنود اپنے مفاد کے لیے چند وفادار، اندھ بھکت مسلمانوں کو شہرت و عہدوں سے نوازتے ہیں اور باقی کروڑوں مسلمانوں کے ساتھ دلتوں اور جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں، یہی بات جب پروفیسر علی خان نے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں یوں کہی :

’’صوفیہ قریشی کی تعریف دیکھ کر میں خوش ہوں ، لیکن یہ لوگ اسی طرح ماب لنچنگ میں قتل کیے گئے مسلمانوں، من مانے ڈھنگ سے بلڈوزر چلانے اور بی جے پی کی نفرت پھیلانے کے شکار لوگوں کو لے کربھی آواز اٹھا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کو بھارتیہ شہری ہونے کے ناتے تحفظ فراہم کیا جائے، دو فوجی عورتوں کا معلومات دینا اہم ہے ، لیکن اس نظریہ کو حقیقت میں بدلنا چاہیے ، ورنہ یہ صرف ’پاکھنڈ‘ ہو گا۔ سرکار جو دکھانے کی کوشش کر رہی ہے، اس کے مقابلے میں عام مسلمانوں کے سامنے زمینی حقیقت الگ ہے ۔‘‘

سچائی کڑوی ہے اور ظالم کے خلاف خاموش رہنا بھی حماقت ہے، ظالم کے منہ پر اس کے جرائم گنوانا اپنے آپ میں ایک بہادری ہے ، لیکن ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے ۔

۱۲ مئی کو ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے پروفیسر کے خلاف شکایت درج کر وائی۔

۱۸ مئی کو شکایت کی بنیاد پر ہریانہ پولیس نے پروفیسر کو سلاخوں کے پیچھے اندھیر ی کال کوٹھڑی میں دھکیل دیا۔

یہ کیسا نظام ہے، یہ کیسا قیام ہے؟
جہاں قاتل آزاد، مظلوم بے کلام ہے!

پولیس انتظامیہ نے پروفیسر کے خلاف دو ایف آئی آر درج کیں۔ دونوں شکایتوں میں ’’بھارت کی یکجہتی، سالمیت اور خود مختاری کو خطرے میں ڈالنے اور دو فرقوں کے بیچ دشمنی بڑھانے‘‘ سے جڑی دھارائیں لگائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ پروفیسر علی پر ’’عورتوں کی شرم و حیا خراب کرنے اور مذہب کی بے حرمتی کرنے‘‘ کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے ۔

بھارت میں کروڑوں لوگ سوشل میڈیا سے جڑے ہیں اور لاکھوں لوگ آئے روز سوشل میڈیا پر قابل اعتراض زبان استعمال کرتے ہیں، عدلیہ پر بات کرتے ہیں، اسلام و مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں، خواتین کے خلاف نازیبا باتیں بناتے ہیں، تو کیا ان سب کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا؟ یا پھر آزادیٔ اظہارِ رائے کا عذر دے کر انہیں نظر انداز کیا جائے گا؟

ہند میں آپ کا مسلمان ہونا ہی کافی ہے کہ قانون کی دھاراؤں (دفعہ )کے ساتھ آپ کا منورنجن (انٹرٹین) کیا جائے، آپ کا استحصال کیا جائے، پھر سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ آپ نے کسی کی بے عزتی کی ہے یا نہیں، یا آپ نے کسی کے خلاف بات کی ہے نہیں، آپ کا خود اپنے حق کے لیے، مظلوموں کے لیے آواز اٹھانا ہی وبالِ جان بن جاتا ہے ۔

سپریم کورٹ نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی کو ’عبوری ضمانت‘ تو دے دی لیکن ان پر سخت شرائط بھی لگا دیں، پروفیسر علی کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا، متعصب عدلیہ نے حکم دیا کہ اس معاملے کی جانچ جاری رکھی جائے گی، کورٹ نے اسپیشل ٹیم بھی بنائی ، جو اس معاملے کو دیکھے گی اور ساتھ ہی پروفیسر کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ آئندہ بھارت پاکستان معاملے پر کچھ نہیں کہیں گے۔

عجیب بات یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ آخر سپریم کورٹ کو اس پوسٹ میں کیا سمجھ نہیں آ رہا یا سپریم کورٹ کیوں کچھ سمجھنا نہیں چاہتی جو وہ اس معاملے کو طول دے رہی ہے؟

عدلیہ نے کہا کہ پروفیسر علی خان کی پوسٹ کا پورا مطلب سمجھنے کے لیے سینئر پولیس افسروں کی ’ایس آئی ٹی‘ کی ضرورت ہے ۔ جبکہ نیوٹرل لوگ یہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ جو بات پولیس آفیسر سمجھیں گے، وہ سپریم کورٹ کے ججوں کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی؟ یا جج سمجھنا ہی نہیں چاہتے؟

دہلی یونیورسٹی کے سابق ڈین پروفیسر انیتا رام پال نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:

’’نہ طلباء کو اور نہ ہی اساتذہ کو پروفیسر علی کی پوسٹ میں کوئی بات قابل اعتراض لگی، ایک پوسٹ کی بنیاد پر ملک اور خواتین کمیشن کا اس طرح سے کاروائی کرنا اور فورا ہی گرفتاری ہو جانا، یہ ایک پورا منصوبہ دکھ رہا ہے ۔ ‘‘

ایک سینئر ایڈوکیٹ وراگ گپتا نے لکھا:

’’پولیس نے غلط ایف آئی آر درج کی، سپریم کورٹ کو یہ معاملہ فوراً ختم کر دینا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا اور انٹیرم ضمانت دے کر اس معاملے کو لمبا کیا گیا ہے ۔‘‘

دوسری طرف اگر ہم دیکھیں تو بھارت ماتا کی سیوہ (خدمت) میں جُتی ، دھرتی ماتا کی سپوت (اولاد) صوفیہ قریشی کو بھی نہیں بخشا گیا ، مدھیہ پردیش کے بی جے پی وزیر ’وجے شاہ‘ نے صوفیہ قریشی کو پہلگام حملہ کرنے والوں کی بہن کہہ کر یہ بات ایک بار پھر ثابت کر دی کہ ہنود آپ سے کبھی رازی نہیں ہو ں گے، جس کے بعد سوشل میڈیا پر کافی واویلا تو مچا ، لیکن فوری طور پر نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی اور نہ ہی کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا۔

اسی طرح اگر دیکھا جائے تو بی جے پی کا ’کپل مشرا‘ نے، جو اس وقت دہلی کا قانون وزیر ہے، ۲۰۲۰ء میں دہلی دنگوں سے ٹھیک ایک دن پہلے مسلمانوں کے خلاف، ہندوؤں کو بھڑکانے کے لیے اشتعال انگیز تقریر کی، جس کے بعد دہلی میں مسلمانوں کے خلاف دنگے پھوٹ پڑے اور تقریباً ۵۰ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا، نہ پولیس نے صحیح طریقے سے تحقیق کی اور نہ مشرا کے خلاف کوئی کاروائی کی گئی۔

۲۰۲۰ء میں شہریت بل کے خلاف احتجاج کر رہے مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کے وزیر انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما نے کھلم کھلا صاف لفظوں میں دھمکیاں دیں ، لیکن آج تک ان کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہو پائی ہے

ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے الگ اور باقیوں کے لیے الگ قوانین ہیں۔ مسلمانوں کو بدترین صورتِ حال کا سامنا ہے ، دیش دروہی (ملک مخالف) ، ملک کی سالمیت و اتحاد و یکجہتی کو خطرہ جیسی دسیوں دفعائیں مسلمانوں کے لیے تیار کی گئیں ہیں ۔ جس میں آئے دن مسلمانوں کو پھنسایا جاتا ہے، ملک کے حفاظتی ادارے، امن قائم کرنے والے ادارے، عدالتیں ، سیاست دان، میڈیا سب مسلمانوں کے خلاف کمر بستہ ہیں ۔ اکھنڈ بھارت کے فریم میں مسلمان انفٹ ہیں، جنہیں فٹ کرنے کے لیے ہر لحاظ سے تراشہ جا رہا ہے ۔

ہندوستان میں بسنے والے غیور مسلمانوں کو اب یہ ثابت کر کے دکھانا ہو گا کہ ہم امت واحد ہیں۔

اگر گجرات ، ممبئی و مہاراشٹر میں مسلمانوں کے خلاف دنگا ہو گا تو ملک کا ہر مسلمان اپنے بھائیوں کے لیے جو کر سکتا ہے وہ کرے گا۔

اگر بہار، بنگال ، آسام و اڑیسہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو بے گھر کیا جائے گا تو ملک کے کونے کونے سے مسلمان اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے تیار ہوں گے۔

اگر دہلی ، اترپردیش ، اتراکھنڈ و کشمیر میں مسلمان ستائے جائیں گے تو ہم ایک آواز بن کر ظلم کے پہاڑوں سے ٹکرائیں گے۔

اگر کیرالا ، مدھیہ پردیش و کرناٹک میں مسلمانوں کو جھوٹے کیس میں پھنسایا جائے گا، تو حتی الامکان مسلمان ان کی مدد کے لیے پہنچے گے۔

ہر متاثر مسلمان کا درد محسوس کیجیے، اپنی قوم کا درد اپنا درد بنا لیجیے، سوشل میڈیا پر ، سڑکوں پر، میدانوں میں اپنے بھائیوں کا دفاع کیجیے ۔ جب ہم ایک ہوں گے ، تب ہی ہم اپنا اور اپنوں کا دفاع کر سکتے ہیں ۔

اِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ڮ وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ ؀ (سورۃ الانبیاء۹۲)

’’بیشک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو میری ہی عبادت کرو۔‘‘

٭٭٭٭٭

Exit mobile version