ایک طرف سرزمین ہند پر دنیا کی عظیم الشان درسگاہ دار العلوم دیوبند وقوع پذیر ہے جہاں اعلی اسنادِ حدیث کی نسبت حاصل کرنے شرق و غرب سے عاشقان رسول، شائقین علم حدیث اپنی پیاس بجھانے آتے ہیں تو دوسری جانب اسی سر زمین ہند پر ایسے لعنت زدہ خطے بھی موجود ہیں جہاں محبوب از دل و جان،عزیز از ہر شئے آقا و مولیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شان میں بدترین درجے کی توہین آمیز وارداتیں متواتر پیش آرہی ہیں،ایک جانب اسی کرۂ ارض پر تحفظ سنت،ختم نبوت جیسی گراں قدر مہمات کو انجام دیا جارہا ہے تو دوسری طرف یکے بعد دیگرے ناموس رسالت پر کیچڑ اچھالے جانے کی داستانیں ایک غیر معمولی جرم سے ہٹ کر معمولی اور عادی سلسلہ بنتی جارہی ہیں۔
فکر طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ اس طرح اپنے اپنے کار خیر پر مطمئن و مگن ہو کر بیٹھ جانا اور ان گستاخوں و گستاخیوں کو ٹھنڈے پیٹ برداشت کر لینا کہیں قرآن کریم کے فرمان ﯚالَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًاﯙ1 کا مصداق تو نہیں بنا دے گا ہمیں؟
آخر کس بنا پر اس قدر خاموشی و بے خیالی کا مظاہرہ ہے اُس مسئلے پر جو اس قدر سنگین ہے کہ اس پر سمجھوتہ یا چشم پوشی کرنا ایمان کو مشکوک کر سکتا ہے،وقف ترمیمی کا مسئلہ ہو یا شہریت ترمیمی کا،حقوق اقلیت میں زیادتی ہو یا نت نئی ظالمانہ پابندی میں بڑھوتری، سب ناموس رسالت کے قضیے کے مقابلے میں معمولی ہیں……
بھگوا ہندتواغنڈے ایک ماب لنچنگ کے لیے سیکڑوں کو جمع کر لیتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں مئی کے مہینے میں صوبہ اتر پردیش کے علاقے علی گڑھ کا واقعہ پیش آیا کہ 3 بے قصور مسلمانوں پر الزام تراشی کر کے 300 لوگوں کی بھیڑ نے شدید بے رحمی سے مار مار کر ان کی حالت کو تشویشناک بنادیا،بے بنیاد اور معمولی معاملوں میں عبدۃ الشیاطین متحد و مجتمع ہو کر اپنا خونخوار جم گٹھا تیار کر لیتے ہیں لیکن مسلمان ناموس رسالت جیسی سرخ لکیر کو کراس کرنے پر اپنے جسم کیا زبان کو بھی جلدی حرکت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
ان چند دنوں کے دوران ہندوستان میں ناموسِ رسالت سے تعرض کے ایک دو نہیں بلکہ پانچ سے چھ واقعات پیش آچکے ہیں،جس قدر گستاخیاں ان پانچ سالوں میں ہوئی ہیں اتنی گستاخیاں بھارت میں پچاس سالوں میں نہیں ہوئیں (بلا مبالغہ) اور تعجب یہ کہ جیسے جیسے اس خطرناک و خبیث حرکت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اتنا ہی مسلمانانِ ہند کی حس و غیرت میں تنزلی آتی جارہی ہے اور اسی بڑھتی ہوئی بے غیرتی کا ثمرہ ہے کہ یہ واقعات ایک عادی رنگ اختیار کیے جارہے ہیں،اندیشہ ہے کہ اس طرح یہ پر خطیر جرم کو Normalize نہ کر دیا جائے۔ اگر واقعی ایسا ہو گیا تو اے مسلمانو! ہمارا اور تمہارا جینا کس کام کا ؟ جس نبیؐ کی محبت کا لوگوں میں پیدا کرنا ہمارا فریضہ تھا اس نبی کے خلاف نفرت کو بڑھتا دیکھ کر ہم چین سے رہ لیں تو یہ چین کس کام کا؟ اگر عظمتِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر کچھ قدم اٹھانے سے کسی مسلمان کا سکون مجروح ہوتا ہے تو پھر وہ بتائے کہ اس کو سکون آتا کیسے ہے اتنے بڑے منکر کو دیکھ کر؟ نہ ہاتھ سے اس منکر کو تبدیل کیا جا رہا ہے نہ زبان سے، باقی اب اللہ جانے دل میں بھی کس حد تک اس پر رنج ہے، دنیائے باطل کی تو یہی چاہت ہے کہ وہ آزادی رائے کے نام پر دلوں سے اس منکر کے منکر ہونے کا تاثر ہی ماند کر دے جس کے نتیجے میں انکار کی ہلکی پھلکی رمق بھی چلی جائے (لا قدر اللہ)۔
پانچ سال قبل یتی نرسنگھ آنند نامی بدبودار پنڈت نے خبیث و غلیظ ترین جملے کہے تھے شان رسالت میں جس کے رد میں کافی حد تک مسلمانوں کا عملہ حرکت میں آیا تھا،پھر اس کے کچھ عرصے بعد نپور شرما نامی عورت نے اپنی نجس زبان چلائی تو جواباً عرب و عجم میں ہر طرف طوفان مچ گیا اور ہندوستان کا معاشی بائیکاٹ کیا جانے لگا جس کے نتیجے میں بھاجپا (بی جے پی)حکومت نے اس عورت کو معزول کر کے دست برداری ظاہر کر دی،لیکن اب وہ طوفانی رنگ کہاں غائب ہو گیا؟ دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس ناقابل تجاوز جرم پر بھارت کے خلاف سخت رد عمل کا مظاہرہ کرے،سوشل اور ایکونامکل بائیکاٹ کریں،خارجہ پالیسی میں سخت اظہار سنجیدگی و بے باکی کریں جس سے کفری سرغنوں کو مسلمانوں کی زندہ دلی،باخبری اور حس و شعور کا اندازہ ہو اور یہ یاد رکھا جائے کہ یہ سب اقدامات رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے دفاع کے ادنیٰ ترین اقدامات ہیں۔
لہٰذا اے مسلمانو بالخصوص ہندی مسلمانو! ذرا بتاؤ تو سہی کب تک یہ بے ہوشی و بے غیرتی کا اظہار کرو گے؟ کیا اس حالت میں کل اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو چہرہ دکھا پاؤ گے؟ کیا محض اپنی سر سری ایف آئی آرز سے سبکدوش ہو جاؤ گے؟ کیا تحفظ سنت اور ختم نبوت کے بڑے بڑے سیمیناروں اور کانفرنسوں کا عذر کافی ہو جائے گا ؟
’’أينقص الدين و أنا حي‘‘(میں زندہ رہوں اور دین میں کمی آجائے ؟ ) یہ جملہ سب سے بڑے عاشق رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زبان سے نکلا جملہ ہے،یہ جملہ صرف ایک منشائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی متوقع تاخیر کے اندیشے پر نکلا تھا،آج تو اس رسول کا دین بلکہ عزت ہی کو تار تار کرنے کی جان توڑ کوششیں کی جارہی ہیں لیکن دعویدارانِ عشق کی جانب سے کوئی واقعی مؤثر رد عمل سامنے نہیں آرہا۔
ہوش کے ناخن لو اے مسلمانو، قبل اس کے ہوش اڑا دیے جائیں،ہندوستان کی سڑکوں کا چکا جام کرو، ملک گیر سطح پر اپنی اظہار عداوت اور حب رسالت کا عملی نمونہ پیش کرو۔
’’فداك نفسی یا رسول اللہ،فداك روحي یا حبیب اللہ‘‘، جیسے نعرے تو بہت بلند ہوگئے اب ان نعروں نے اپنے لگانے والوں سے صداقت و عدم منافقت کا ثبوت مانگا ہے۔
اٹھو اور کہو ان گستاخوں سے:
إذا كانت حرية أقوالكم لا ضابط لها فلتتسع صدوركم لحرية أفعالنا
’’اگر تمہارے اظہار رائے کی آزادی کا کوئی ضابطہ و حد نہیں تو تمہارے سینے کشادہ و تیار ہو جائیں ہمارے آزادیٔ اظہارِ عمل کے لیے۔‘‘
٭٭٭٭٭
1 ’’وہ لوگ جن کی کوششیں اکارت ہوگئیں اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بڑے خوبی کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘ فالعیاذ باللہ من ذلک!