سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں

بلوچستان میں بلوچ آزادی پسندوں کی تحریک اپنے زوروں پر ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب بلوچ قوم پرست عسکری تنظیموں کی جانب سے سکیورٹی فورسز پر حملے نہ ہوں۔ اب تو ہر چند دن بعد کسی مخصوص علاقے کا گھیراؤ کر کے وہاں گھنٹوں تک علاقے کو کنٹرول میں رکھا جاتا ہے جس کے دوران پولیس سٹیشنز کو نذر آتش کیا جاتا ہے۔ ان واقعات کی وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عوام کسی خوف کا مظاہرہ نہیں کرتے اور اکثر مزاحمت کاروں کے ساتھ تصاویر تک بنا رہے ہوتے ہیں۔ یہ تحریک ماضی کی بلوچ مزاحمت تحریکوں سے یکسر مختلف ہے۔ ایک تو یہ سیکولر تحریک ہے، دوسرا یہ اس قوم پرستی کو فروغ دے رہی ہے جسے اسلام میں مذموم قرار دیا گیا ہے۔ نسلی بنیادوں پر کھڑی کی جانے والی تحریکیں اگر عوام کو ظلم سے نجات دلا سکتیں تو مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان ( پاکستانی جرنیلوں) سے آزاد ہونے کے بعد ایک نئے ظلم کے دور کی شروعات نہ کرتا ۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان پاکستان سے آزادی حاصل کر بھی لے تو لوگوں کی تکلیفیں اور مسائل کم نہیں ہوں گے۔ دوسری اہم بات یہ کہ یہ قوم پرست مزاحمتی تحریکیں علی الاعلان سیکولر منشور پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کا نظام حکومت سیکولر ہو گا۔ ایک عام بلوچ شاید اس کا مطلب ہی نہ جانتا ہو کہ سیکولر ریاست کے زیر سایہ رہنے کے کیا معنی ہیں؟ بلوچستان کا اصل حل تو خالصتاً اسلامی مزاحمت تھی۔ یہ بلوچستان میں کیوں نہ پنپ سکی اور اس خلا کو سیکولر مزاحمت کی جانب سے پر کرنا، یہ ہر اہل ایمان کے لیے فکر اور پریشانی کا باعث ہونا چاہیے۔ چہ جائیکہ مستقبل میں یہ کوئی بڑی مصیبت بن کر مسلمانوں پر مسلط ہو جائے اور پھر اس وقت ہم حیران و پریشان ہوں کہ یہ سب کیسے ہوا اور کون اس کا ذمہ دار تھا؟ بلوچستان آج اس حالت کو پہنچا کیسے؟ یہ تاریخ جاننا بھی اشد ضروری ہے ۔ کیونکہ یہ تاریخ جانے بغیر ، ان مسائل کی جڑ جانے بغیر ، لوگوں کی نفسیات اور مزاج جانے بغیر انہیں ایسے حل کی جانب آمادہ کرنا جو ہمارا دین اسلام تجویز کرتا ہے ، ہمارا کام اور سفر مشکل بنا دے گا۔

صحافی حامد میر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ لاپتہ افراد اور بلوچ عوام کے حقوق کی بات کرنے کے سبب ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کبھی انہیں ملازمت سے نکلواتی ہے تو کبھی نامعلوم افراد کے ذریعے ان پر قاتلانہ حملہ کروا دیتی ہے۔ بلوچستان کی تاریخ کے حوالے سے ان کا ایک ویلاگ (شاید چینل اسے ائیر کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا ) یوٹیوب پر موجود ہے۔ اس پروگرام میں انہوں نے مستند حوالوں سے جو تاریخی حقائق سامنے رکھے ہیں وہ ہوش ربا انکشافات ہیں۔ حامد میر ایک جگہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کی بلوچوں سے دشمنی انگریزوں سے وراثت میں انہیں ملی ہے۔ بلوچستان کی تاریخ کے حوالے سے کیے گئے پروگرام میں حامد میر کہتے ہیں برطانوی افسر جنرل ڈائیر جس نے 1919ء میں جلیانوالہ باغ میں نہتے ہندوستانیوں پر فائر کھولنے کا حکم دے کر قتل عام کروایا تھا، تین سال قبل بلوچستان میں بھی بدترین خونریزی کروانے کا ذمہ دار تھا۔ دراصل اسے اس خونریزی کے انعام میں ہی پروموشن ملی اور وہ جلیانوالہ باغ میں قتل عام کا مرتکب ہوا ۔ جنرل ڈائر نے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک کتاب لکھی جس میں اس نے اس جنگ کے حالات و واقعات بیان کیے ہیں جو اس نے قبائلی بلوچوں کے خلاف لڑی ۔ جنرل ڈائر کی اس کتاب کا اردو ترجمہ گل خان نصیر نے کیا ہے کتاب کا نام ہے ’’بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار‘‘ ۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کو ہندوستان سے فوجی بھرتی کرنے تھے ۔ پورے مقبوضہ ہندوستان سے بھرتیاں ہو رہی تھیں لیکن بلوچستان کے بعض علاقوں نے، جن میں مینگل، سنجرانی، مری اور بگٹی قبائل شامل ہیں، بھرتی ہونے سے انکار کر دیا ۔ جنگ چونکہ برطانیہ جرمنی اور ترکی کے خلاف لڑ رہا تھا اس لیے بلوچ سرداروں نے ایران کے راستے سے ترکی اور جرمنی سے رابطے بنا لیے۔ اس کے نتیجے میں انگریز سرکار نے جنرل ڈائر کو ان بلوچ قبائل کے خلاف جنگ کے لیے بھیجا ۔ جنرل ڈائر اپنی کتاب میں واضح لکھتا ہے کہ اس نے سازشیں کیں ، ان میں پیسے تقسیم کر کے مختلف بلوچ قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف لڑایا ۔ جنرل ڈائر نے ہزارہ قبیلے کے افراد کو بلوچوں کے خلاف اس لیے استعمال کیا کیونکہ وہ مذہبی انتقام کے جذبے سے لڑتے تھے اور بلوچوں کی لاشوں کی بے حرمتی کرتے تھے۔

قیام پاکستان کے وقت صوبہ بلوچستان برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا۔ 47ء تک بلوچستان، قلات، خاران، مکران اور لس بیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا، جن پر برطانوی ایجنٹ نگران تھا۔ ان میں سب سے بڑی ریاست قلات کی تھی جس کے حکمران خان آف قلات میر احمد یار خان نے پاکستان کے ساتھ خصوصی تعلقات پر مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ خان آف قلات بلوچستان کی علیحدہ حیثیت برقرار رکھنا چاہتے تھے لیکن پاکستان نے خان آف قلات کے اس اقدام کو بغاوت سے تعبیر کیا اور پاکستانی افواج نے خان آف قلات اور ان کی ریاست کے خلاف کارروائی کی۔ آخر کار مئی ۱۹۴۸ء میں خان آف قلات کو شکست تسلیم کرنا پڑی اور وہ پاکستان میں شمولیت پر مجبور ہو گئے۔ یہ پاکستانی فوج کی بلوچوں کے خلاف پہلی کارروائی تھی اور یوں بلوچوں اور پاکستان فوج کے درمیان تعلقات کی بنیاد ہی نفرت و دشمنی کے بیج بو کر ہوئی۔ اس کے بعد دوسری مسلح مزاحمت نواب نوروز کی جانب سے ہوئی۔ اسکندر مرزا کے دور میں ایک دفعہ جب نواب نوروز خان آف قلات میر احمد یار خان سے ملاقات کے بعد واپس روانہ ہوئے تو خان آف قلات کو گرفتار کر کے لاہور منتقل کیا گیا۔ خان آف قلات کے بعد مسلح بغاوت شروع ہو گئی۔ ایوب خان نے مشرقی پاکستان کے معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو ون یونٹ یعنی ایک صوبہ بنانے کا تجربہ کیا، اسے بلوچستان میں سخت ناپسندیدگی سے دیکھا گیا۔ نواب نوروز اور ان کے ساتھی کسی صورت ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

کتاب ’نواب نوروز خان اور ان کے ساتھی‘ میں لکھا ہے کہ بریگیڈیئر ریاض حسین نے، جو کہ اس وقت آپریشن کمانڈر تھا، مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے ہوئے وعدہ کیا کہ حکومت پاکستان کے ساتھ کامیاب مذاکرات اور سمجھوتے کے نتیجے میں سوراب تا لسبیلہ ایک نئی ریاست تشکیل دے کر اسے نواب نوروز کے ماتحت کیا جائے گا اور ان کی حیثیت ایک با اختیار حاکم ( یعنی نواب آف مکران) کے برابر ہو گی اور مقامی انتظامیہ اور دیگر ریاستی امور ان کے ماتحت ہوں گے۔

ایک جرگہ نواب نوروز کے پاس بھیج دیا گیا اور جرگے کی گود میں قرآن کو بطور ضامن رکھ کر بھیجا گیا کہ وہ اس کی ضمانت پر پہاڑوں سے اتر جائیں۔ سرکاری وفد ان کو مسلسل قرآن کا واسطہ دے کر یہ یقین دلاتا رہا کہ حکومت اپنے وعدے پر قائم ہے۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ نواب نوروز اور بلوچوں نے کہا کہ جب قرآن کو ضامن بنا رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر کیا ضمانت ہو گی اس لیے جب وہ نیچے آئے تو حکومت اپنے وعدوں سے پھر گئی اور ان کو گرفتار کر لیا گیا۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری کے مطابق گرفتاری کے بعد نواب نوروز خان سمیت بڑی تعداد میں لوگوں کو کوئٹہ کے قلی کیمپ منتقل کر دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ چھوٹی سی جگہ تھی لیکن اس وقت جب نواب نوروز خان کو لایا گیا تو اس میں سات سو افراد کو رکھا گیا تھا۔ کوئٹہ کینٹ میں واقع یہ جیل آج بھی بلوچستان کے ایک بہت بڑے خفیہ عقوبت خانے کی صورت میں موجود ہے ۔ یہ جیل ساؤنڈ پروف ہے، باہر کی کوئی آواز قیدی نہیں سن پاتے حتی کہ دن رات اور وقت کا بھی اندازہ نہیں ہو پاتا1۔ فوجی عدالت نے بڑی عمر کے سبب نواب نوروز کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ ان کے بیٹے سمیت سات افراد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اپنے بیٹے سمیت سات افراد کی پھانسی کے پانچ سال بعد نواب نوروز 25 دسمبر 1965ء کو حیدر آباد جیل میں وفات پا گئے ۔ حیدر آباد جیل کے اس وقت کے سپریٹنڈنٹ راشد سعید کے بقول انہوں نے حکومت سے معافی مانگ کر رہائی کے ساتھ سرداری اور جاگیر کی آفر کو بھی مسترد کیا۔

نواب نوروز کے بعد مسلح مزاحمت شیر محمد مری نے شروع کی۔ شیر محمد مری کے والد کو 1918ء میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کے جرم میں پورے خاندان سمیت جلاوطنی کی سزا دی گئی تھی۔ شیر محمد خان مری نے 1946ء میں بلوچستان میں ’مظلوم پارٹی‘ کی بنیاد رکھی، جس کے قیام کا ایک بڑا مقصد سرداروں کے جبری ٹیکسوں اور مبینہ لوٹ کھسوٹ کے رواج کا خاتمہ تھا۔ اس پارٹی کے پہلے ہی کنونشن کے بعد شیر محمد کو گرفتار کر لیا گیا۔ پھر ان کے حامیوں نے مشتعل ہو کر فوجی کیمپ پر حملہ کر دیا اور فوج کو کافی نقصان پہنچایا۔ شیر محمد مری کو سبی جیسے گرم ترین مقام کی جیل میں رکھا گیا جہاں ان سے آٹا پسوایا جاتا۔ شیر محمد مری 1948ء کی بغاوت میں بھی شریک رہے ۔ اور جب ایوب خان نے ون یونٹ کا نفاذ کیا تو شیر محمد مری نے دوبارہ گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ جنرل ایوب نے ان کی گوریلا کاروائیوں کے جواب میں فضائی طاقت استعمال کی جس میں مری علاقے میں شیر محمد اور ان کے رشتے داروں کے 13 ہزار ایکڑ پر مشتمل باغات تباہ ہو گئے۔1969ء میں جب یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال کر ون یونٹ کے خاتمے اور جنگ بندی کا اعلان کیا تو شیر محمد بالآخر پہاڑوں سے اتر آئے۔ اس نرمی کی ایک وجہ مشرقی پاکستان کے حالات تھے جس سے نمٹنا حکومت اور فوجی قیادت کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔

بھٹو کے دور حکومت میں پاکستانی فوج نے کوہستان، مری اور جھالاوان سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ظلم و بربریت کا آغاز کیا۔ ہزاروں بلوچوں کو قتل اور گرفتار کیا گیا۔ جنگی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سول آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا اور بلوچ نوجوانوں کو کئی فٹ بلندی سے ہیلی کاپٹروں سے نیچے پھینکا گیا، اس طرح بلوچ قتلِ عام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا۔

موجودہ بغاوت کی تحریک کی ابتدا اکبر بگٹی کے قتل کے بعد سے ہوئی ہے ۔ اکبر بگٹی کا ماضی ایسا نہیں تھا کہ اسے بلوچوں کی ہر دلعزیز شخصیت کہا جاتا ۔ ایک امریکی صحافی سلویا میتھس جس نے اپنی کتاب کی تصنیف کے لیے بگٹی قبائل میں پانچ سال گزارے ۔ اپنی کتاب میں وہ اکبر بگٹی کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ اکبر بگٹی نے اسے خود بتایا :

’’جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے اپنی زندگی کا پہلا قتل گیارہ سال کی عمر میں کیا تھا، لیکن ضروری نہیں کہ وہ میرا پہلا ہی قتل ہو۔‘‘

بی بی سی کے لیے ایک مضمون میں صحافی حسن مجتبیٰ لکھتے ہیں:

’’ان کے علاقے میں لوگ بتاتے ہیں کہ ان کے قبیلے کا ایک بگٹی ان کے پاس آیا اور ان سے اپنے بھائی کے قتل کا انتقام لینے کا کہا، نواب نے اپنے محافظ سے بندوق مانگی اور موقع پر ہی اس بگٹی کو ہلاک کرتے ہوئے کہا: ’اس شخص کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں جو اپنے بھائی کے قتل کا انتقام نہ لے سکتا ہو‘۔ ‘‘

۱۹۷۳ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کرنے پر اکبر بگٹی بلوچستان کا گورنر مقرر کیا۔ نیپ کی حکومت ختم ہونے کے ردعمل میں بھٹو حکومت کے خلاف بلوچ بغاوت کرنے کے لیے پہاڑوں پر چلے گئے۔ بلوچستان میں ۱۹۷۳ء کے فوجی آپریشن کے دوران بلوچ قوم پرستوں نے اسے ’غدار بلوچستان‘ قرار دیا تھا۔ بہرحال وہ بلوچستان کی سیاست کا حصہ رہا۔

ڈاکٹر شازیہ خالد پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کی ایک ملازم تھیں اور 18 ماہ سے کمپنی کے سوئی ہسپتال میں کام کر رہی تھیں ۔ انہیں کمپنی کی جانب سے رہائش دی گئی تھی۔ 2005ء میں 2 اور 3 جنوری کی درمیانی رات انہیں تشدد اور ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعہ کے بعد ڈاکٹر شازیہ کو 3 دن تک بے ہوشی کی حالت میں رکھا گیا اور پھر اسے اور اس کے شوہر کو زبان بند رکھنے کے لیے دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ اس واقعہ میں الزام فوج کے کیپٹن حماد پر لگایا گیا مگر مشرف نے کسی تفتیش یا تحقیقاتی کمیشن کی بجائے خود ہی منصف بن کر فیصلہ کر دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مارچ کے وسط میں بگٹی قبائل اور ایف سی اہلکاروں میں جھڑپیں شروع ہو گئیں جو بالآخر اکبر بگٹی کے قتل تک جا پہنچیں۔

اکبر بگٹی کے قتل کے بعد جو مزاحمتی قوم پرست تحریک اٹھی وہ آج سب کے سامنے ہے۔ قوم پرست اور سیکولر تحریک جہاں بھی اٹھے گی یہ یقینی بات ہے کہ اس میں ظلم کا عنصر شامل رہے گا۔ کیونکہ فقط اسلام ہی وہ مذہب ہے جو جنگ کے دوران بھی شرعی اصولوں کی پابندی اور ظلم سے باز رہنے کو لازمی قرار دیتا ہے۔

اس نئی مزاحمت کو کچلنے کے لیے فوج اور اس کے خفیہ اداروں نے جو کچھ بلوچستان میں کیا ہے ان سازشوں اور ظلم کو بیان کرنے کے لیے شاید کتابیں درکار ہوں۔ شاید ہی کوئی گھر ہو جس کے خاندان کا کوئی فرد خفیہ اداروں نے لاپتہ نہ کیا ہو۔ اور یہ اتنے بڑے پیمانے پر کیا جاتا رہا ہے کہ اب ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایک کیس میں ایک فوجی افسر اغوا کیے شخص کے اہل خانہ سے ساٹھ لاکھ روپے سے زائد رقم اینٹھ چکا ہوتا ہے۔ مغوی شخص جس کے پاس رکھواتا ہے وہ اسے مغوی کے دشمنوں کو بیچ ڈالتا ہے جو اسے قتل کر ڈالتے ہیں۔ فوج اپنی حمایت کے لیے سرداروں کو منشیات اور اغوا سمیت جرائم کا لائسنس دیے رکھتی ہے ۔ سردار عبدالرحمن کھیتران کی مثال کس سے پوشیدہ ہے ۔ اس کا بیٹا گواہی دہتا ہے کہ میرا باپ فلاں غریب شخص کے اہل خانہ کو یرغمال بنائے ہوئے اس کی بیٹی کے ساتھ ریپ کر رہا تھا بیٹی کی ماں قرآن ہاتھ میں لے کر فریاد کرتی ہے کہ مجھے اس خبیث کی قید سے رہائی دلواؤ ۔ وہ ویڈیو وائرل ہوتی ہے جسے دیکھ کر پورا ملک دہل کر رہ جاتا ہے ۔ لیکن کچھ دن کے شور شرابے کے بعد سب کچھ نارمل ہو جاتا ہے ۔ فوج کی ڈھٹائی دیکھیے کہ وہ اسی بد کردار ظالم شخص کو اسمبلی کا ممبر بنوا دیتی ہے۔

جیسا کہ میں نے اس مضمون کے شروع میں لکھا کہ بلوچستان کے منظرنامے میں اسلامی مزاحمت کا خلا پایا جاتا ہے اور اس کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم دعوتی سطح پر بھر پور کوشش کی جائے ۔ وہ افراد جو اس مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور براہوی اور بلوچی زبان پر عبور رکھتے ہیں یہ ان کا فرض بنتا ہے کہ سیکولرزم کے مضمرات سے بلوچ قوم کو آگاہ کریں ۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ بلوچ قوم پر ظلم کی بنیاد ڈالنے والے انگریز اور مغربی استعمار کے نظام کو ہی اپنا لیا جائے ۔ اور انہی کے طور طریقوں ، احتجاج حتی کہ عسکری مزاحمت کا راستہ بھی انہی کے اصولوں کے مطابق اپنایا جائے ۔

٭٭٭٭٭

1 اس عقوبت خانے کی قید میں کچھ وقت گزارنے کا راقم کو بھی تجربہ ہوا۔

Exit mobile version