شام: نئے حکمرانوں کے نام

شام دوراہے پر ہے، جہاں اس کا انجام لیبیا جیسا ہو سکتا ہے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور درود و سلام ہو اللہ کے رسول ﷺ پر، ان کے اہلِ بیت، صحابہ کرام، اور ان کی پیروی کرنے والوں پر، اما بعد!

قرآن و سنت کی نصوص اس بات کی واضح دلیل فراہم کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان قوموں اور مملکتوں کو ہلاک کر دیتا ہے جو ظلم کرتی ہیں۔ یعنی ان کی ہلاکت کا سبب ان کا ظلم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس حالت میں ہلاک نہیں کرتا جب وہ نیک ہوں اور اصلاح کرنے والے ہوں۔

یہ مفہوم قرآن میں کئی مقامات پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى يَبْعَثَ فِيْٓ اُمِّهَا رَسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِــكِي الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ؀(سورۃ القصص: 59)

’’ اور آپ کا رب بستیوں کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک ان کے مرکز میں کوئی رسول نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیات سنائے اور ہم بستیوں کو اسی وقت ہلاک کرتے ہیں جب ان کے رہنے والے ظالم ہوں۔‘‘

اور فرمایا:

وَتِلْكَ الْقُرٰٓى اَهْلَكْنٰهُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَّوْعِدًا؀ (سورۃ الکہف: 59)

’’ اور یہ بستیاں ہم نے اس وقت ہلاک کیں جب انہوں نے ظلم کیا۔‘‘

یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ کسی قوم کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک وہ ظلم نہ کریں۔ اور ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی قوم اللہ کی اطاعت کرتی ہے اور تقویٰ اختیار کرتی ہے تو وہ آسمان و زمین سے ان پر برکتیں نازل فرماتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ الاعراف میں ہے:

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ؀ (سورۃ الاعراف: ۹۶)

’’اور اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے، تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے جھٹلایا، پس ہم نے انہیں ان کے اعمال کی سزا میں پکڑ لیا۔‘‘

یہاں ’’القرى‘‘ کا مطلب قرآن کی اصطلاح میں ’’قومیں‘‘ یا’’مملکتیں‘‘ ہیں جیسا کہ امام شیخ عبد الحمید بن بادیس ﷫نے اپنی تفسیر میں بیان فرمایا ہے۔

قرآن کی اصطلاح میں ’’القرى‘‘ (بستیوں) کا مطلب وہی ہوتا ہے جسے ہم آج کل ’’قومیں‘‘ یا’’مملکتیں‘‘ کہتے ہیں۔ بلکہ ممکن ہے کہ ’’دولت‘‘ یعنی ملک یا اس کی جمع ’’دول‘‘ ممالک، قرآن کی ’’قرى‘‘ لفظ کے سب سے زیادہ قریب الفاظ ہوں، چاہے لغت کے لحاظ سے ہوں یا قرآن کے سیاق و سباق کے اعتبار سے۔

قرآن کریم میں اس بات کی بہت سی واضح مثالیں موجود ہیں اور یہ مفہوم قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ جب کوئی ’’بستی‘‘ یعنی مملکت یا کوئی انسانی معاشرہ جس کے پاس زمین میں اقتدار، اختیار اور طاقت ہو، اللہ کی اطاعت پر قائم ہو، نیک ہو اور اصلاح کرنے والا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو قائم رکھتا ہے، اس کے وجود کو دوام دیتا ہے، اس کی حفاظت فرماتا ہے، اس میں برکت عطا کرتا ہے اور اس پر آسمان و زمین سے اپنی برکتیں نازل فرماتا ہے۔

اور اگر کوئی قوم ظالم ہو یا اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرے، جیسا کہ سورۃ النحل میں فرمایا:

وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ؁ (سورۃ النحل: ۱۱۲)

’’اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن و امان میں تھی، اس کے پاس ہر طرف سے کشادگی کے ساتھ رزق آتا تھا، مگر اس نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا، تو اللہ نے انہیں ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس(مزہ) چکھایا۔‘‘

تو جب کوئی قوم اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرے، غرور اور تکبر میں مبتلا ہو جائے، زمین میں فساد مچائے اور اللہ کی اطاعت سے نکل کر نافرمانی اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔

جیسا کہ فرمایا:

وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا؀(سورة الإسراء: 16)

’’اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، تو وہ نافرمانی کرتے ہیں، پس ان پر عذاب کا فیصلہ واجب ہو جاتا ہے، پھر ہم اس کو پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔ ‘‘

چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کو تباہ کر دیتا ہے، چاہے وہ قوم کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا (سورۃ یونس: ۱۳)

’’اور ہم نے تم سے قبل کی قوموں کو ہلاک کیا جب انہوں نے ظلم کیا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی ہلاک کیا، اور اگر آج ہم یا موجودہ انسان، یا یہ جدید مملکتیں ، جتنی بھی طاقتور ہو جائیں، اگر وہ اللہ کے حکم سے روگردانی کریں، تو اللہ تعالیٰ انہیں بھی انہی پچھلی عظیم قوموں کی مثالوں سے تنبیہ فرماتا ہے جنہیں اس نے ماضی میں ہلاک کیا۔

اللہ تعالیٰ ہر چیز کو ہلاک کرنے پر قادر ہے، اللہ کا حکم جب آ جائے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔

نہ کوئی چیز اللہ کو عاجز کر سکتی ہے، وہ غالب ہے، کوئی اسے مغلوب نہیں کر سکتا اور اس کی قدرت اور علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت قرآن مجید میں نہایت ہی خوبصورتی، وضاحت اور حکمت کے ساتھ بیان فرمائی ہے۔

بستیوں اور ریاستوں یعنی اقوام و ممالک کی بقا، حفاظت، دوام اور استحکام صرف اس وقت ممکن ہے جب وہ نیکی پر قائم ہوں، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں اور اس کے رسولوں کی پیروی کریں، لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کریں، اس کے رسولوں کی مخالفت کریں، اس کے دین اور احکام کا انکار کریں، ظلم میں مبتلا ہوں، تو اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کر دیتا ہے، ان کا وجود مٹا دیتا ہے اور ان کی جگہ کسی دوسری قوم کو زمین میں خلیفہ بنا دیتا ہے۔

اسی لیے ہمارے علماء نے اور خاص طور پر ابن خلدون ﷫نے اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: ’’ظلم بربادی کا پیش خیمہ ہے۔‘‘

یعنی ظلم انسانی معاشروں کی تباہی اور بربادی کا سبب بنتا ہے۔ ’’عُمران‘‘ سے مراد انسانی معاشرہ اور اس کا استحکام ہے اور اس انسانی معاشرے کی مکمل اور طاقتور شکل ’’ریاست‘‘ ہوتی ہے۔ چنانچہ جب ظلم عام ہو جائے تو وہ مملکت تباہی کی طرف بڑھتی ہے۔

تو اس کا مطلب بالکل واضح ہے، لیکن بعض لوگ سوال کرتے ہیں، مثلاً: ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی مملکتیں مثلاً امریکہ جیسی، وہاں ظلم بھی ہے، غرور و تکبر بھی، فسق و فجور بھی، اللہ کی نافرمانی بھی اور رسولوں کی مخالفت اور انکار بھی انتہا درجے تک موجود ہے۔ اس کے باوجود وہ زمین میں غالب ہیں، دوسری قوموں اور ملتوں پر مسلط ہیں، انہیں ذلت میں ڈال رکھا ہے، اور دنیا میں ان کا غلبہ باقی ہے؟

یہ ایک اہم اشکال ہے اور ان شاء اللہ اس کا جواب دیا جا سکتا ہے، بلکہ یہ جواب سادہ اور آسان ہے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو فوراً ہلاک نہیں کرتا، یعنی ضروری نہیں کہ ظلم، کفر یا نافرمانی کے فوراً بعد ہی اللہ کا عذاب آ جائے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ انہیں ایک مدت تک مہلت دیتا ہے، انہیں ڈھیل دیتا ہے، ان کو وقت دیتا ہے اور اس مہلت میں بڑی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کامل حکمت والا ہے، اس کی حجت بھی مکمل ہے۔ وہ ان قوموں کو لوگوں کے لیے آزمائش بنا دیتا ہے اور ان پر اپنی حجت پوری کرتا ہے، انہیں بار بار خبردار کرتا ہے، انہیں نصیحت کا موقع دیتا ہے، عمر دراز کرتا ہے، موقع فراہم کرتا ہے، شاید وہ باز آ جائیں، شاید وہ توبہ کر لیں، شاید حق کی طرف لوٹ آئیں۔

پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انہی ظالم قوموں کی نسل سے کچھ لوگ ایسے پیدا ہوتے ہیں جو اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کرتے ہیں، اور اس کے رسولوں کی پیروی کرتے ہیں۔ اسی طرح جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، اللہ تعالیٰ ان کفار و ظالمین کو کبھی مسلمانوں کے لیے آزمائش بنا دیتا ہے، جیسا کہ آج کل امریکہ کو مسلمانوں پر مسلط کیا گیا ہے۔ یہ ہمارے لیے آزمائش ہے، امت مسلمہ کے لیے امتحان ہے۔

یہ ان کے لیے بھی آزمائش ہے، اور ہمارے لیے بھی اور ان کے لیے مہلت بھی اور مزید عذر و حجت کا موقع بھی۔

اسی طرح ان کے باقی رہنے میں، ان کی وقتی طاقت میں اللہ تعالیٰ نشانیاں، عبرتیں اور سبق رکھتا ہے تاکہ لوگ اس سے کچھ سیکھیں اور عبرت حاصل کریں۔ چنانچہ ان کی مہلت میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں۔

لہٰذا اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں فوراً ہلاک کرے گا، بلکہ ممکن ہے کچھ وقت انہیں مہلت دی جائے۔ مگر ان کا انجام بہرحال ہلاکت ہی ہے، چاہے جتنا وقت لگے۔

آج جب ہم امریکہ کی بات کرتے ہیں تو واقعی، امریکہ نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی ہے، غرور و تکبر میں مبتلا ہے، ظلم کا پیکر ہے، اور وہ تمام اسباب جو قرآن میں اقوام کی ہلاکت کے لیے بیان کیے گئے ہیں، وہ سب امریکہ میں موجود ہیں۔ اس لیے ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ امریکہ کا انجام بھی زوال اور ہلاکت ہے۔

اب جو تھوڑا بہت وقت اسے ملا ہے، وہ صرف مہلت ہے، وہ مہلت جس میں اللہ تعالیٰ اپنی حکمتیں پوری کرتا ہے جیسا کہ ہماری آزمائش، ہمارے صبر، جہاد، اور ہمارے مؤقف کو آزمانا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی مملکت ہلاک و تباہ ہونے والی ہے، یہ اٹل حقیقت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے ذریعے آزمائش میں ڈالا ہے اور انہیں بھی ہمارے ذریعے آزماتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ذٰلِكَ ړ وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ (سورۃ محمد: ۴)

’’ اور اگر اللہ چاہتا تو خود ان سے بدلہ لے لیتا، مگر وہ تمہیں ایک دوسرے کے ذریعے آزماتا ہے۔‘‘

یہی حال تقریباً تمام کفریہ ریاستوں کا ہے حتیٰ کہ بہت سی ایسی مملکتیں بھی جو اسلام سے منسوب ہیں، وہ بھی اپنے اندر زوال اور ہلاکت کے اسباب لیے ہوئے ہیں، البتہ ان میں یہ اسباب مختلف درجوں میں پائے جاتے ہیں۔

اسی لیے اگر کوئی یہ سوال کرے، جیسا کہ لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ کیا مثلاً امریکہ میں جو معاشی بحران آیا یا جو حالات چل رہے ہیں، کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ کوئی نیا بحران آئے جو امریکہ کو تباہ کر دے، اسے ہلا دے اور وہ ملک بکھر جائے؟

تو دیکھیں، میں کوئی ماہرِ اقتصادیات نہیں ہوں۔ لیکن الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو علمِ قرآن، علمِ سنت اور اسلامی اصول دیے ہیں، ان کی روشنی میں ہم کچھ بنیادی حقائق جانتے ہیں، جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔

مسلمانوں کے پاس وہ علم اور بصیرت ہے جو کفار کے پاس نہیں، وہ برسوں، بلکہ صدیوں تحقیق کرتے ہیں، ریسرچ سینٹر بناتے ہیں، مختلف مطالعات کرتے ہیں، پھر جا کے کسی چھوٹے سے نتیجے پر پہنچتے ہیں۔

جبکہ ہم مسلمان ان بنیادی اصولوں کو بچپن سے جانتے ہیں۔ ایک بچہ جب تھوڑا سا قرآن پڑھ لیتا ہے، تو وہ جان لیتا ہے کہ جو قوم ظلم کرتی ہے، وہ ہلاکت کی راہ پر چل پڑتی ہے۔

یعنی وہ حقائق جو کفار ہزاروں کوششوں کے بعد سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ہمیں وہ قرآن سے سادہ انداز میں سمجھا دیے گئے ہیں۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امتِ مسلمہ، ایک عظیم امت ہے، جس کے پاس نہایت نافع علوم، درست عقائد اور مفید نظریات و مفاہیم موجود ہیں جو دنیا کو حقیقی فہم و بصیرت دیتے ہیں۔

یقیناً امتِ مسلمہ کے پاس ایک گہری بصیرت اور سمجھ بوجھ ہے، جو دوسری اقوام کے پاس نہیں۔ دیگر اقوام ایک معمولی نتیجے تک پہنچنے کے لیے سخت محنت اور لمبی جدوجہد کرتی ہیں، جبکہ ہم مسلمان بعض اوقات ان نتائج سے پہلے سے واقف ہوتے ہیں۔

اس بات کو ہمارے علماء نے بھی واضح کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫نے اس بارے میں بہت عمدہ بات کہی ہے کہ:

’’یہ امت (امتِ مسلمہ) قلیل وقت میں نافع علم، درست تجربات اور پختہ حکمت حاصل کر لیتی ہے، جو دوسری اقوام بڑے عرصے میں بھی حاصل نہیں کر سکتیں۔‘‘

یہ بات بالکل ظاہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ چاہے امریکہ کی موجودہ معاشی بحران کی کیفیت ہو، ہو سکتا ہے اس سے ان پر سختی آئی ہو، پھر وقتی طور پر کچھ سنبھل بھی گئے ہوں۔ لیکن ہمارا ظن اور ہمارا عقیدہ یہ ہے واللہ اعلم کہ یہ سب وقتی بہتری ہے۔

بلکہ ان کے اپنے ماہرین اور دیگر اقوام کے ماہرین، حتیٰ کہ مسلمانوں میں سے بھی جو ماہرین معاشیات ہیں، وہ سب یہی کہتے ہیں کہ یہ معاشی بحالی ایک وقتی معاملہ ہے اور یہ کہ آئندہ تین سے پانچ برس کے اندر (یعنی دو ہزار پندرہ تک) امریکہ ایک نئے شدید معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔

یعنی یہ توقع کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں ایک اور بڑا معاشی بحران آئے گا، جو ممکن ہے کہ امریکہ اور دیگر بڑی مغربی طاقتوں کو شدید متاثر کرے اور جو چھوٹی چھوٹی مملکتیں ان کے اثر میں ہیں، وہ بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گی۔

لیکن جو بات ہم کہنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، غالب گمان یہی ہے کہ امریکہ کی تباہی اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کے ہاتھوں لائے گا۔

یعنی امتِ مسلمہ ہی وہ امت ہو گی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ امریکہ کو ہلاک کرے گا۔

جب سے امریکہ نے امتِ مسلمہ کے خلاف کھلی جنگ کا آغاز کیا ہے، اسی دن سے اس کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے یعنی زوال اور خاتمے کا سلسلہ واقعی طور پر شروع ہو گیا ہے اور اس کے اثرات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

کیونکہ امریکہ کی جنگ کسی خاص تنظیم مثلاً القاعدہ یا کسی مخصوص جہادی گروہ یا مسلمانوں کی کسی خاص جماعت یا افراد کی ایک قلیل تعداد کے خلاف نہیں ہے۔ یہ جنگ صرف چند افراد یا کسی ایک جماعت کے خلاف نہیں، بلکہ یہ جنگ پورے عالمِ اسلام کے خلاف ہے، اسلام کی تہذیب و تمدن، دینِ اسلام، اسلامی فکر، اسلامی سوسائٹی اور اسلامی شناخت کے خلاف ہے۔

امریکہ نے ایک پوری تہذیب، ایک مکمل ثقافتی اور دینی نظام اور ایک عالمی انسانی قوت سے ٹکر لی ہے، وہ قوت جو آپس میں اسلام کے نام سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ ایک متحد انسانی اجتماع ہے جو مختلف طاقتوں پر مشتمل ہے، لیکن اس سب کو اسلام کا رشتہ جوڑتا ہے۔

اے امتِ مسلمہ! اس وقت امریکہ درحقیقت پوری امت مسلمہ کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے۔ یہ ایک حقیقی جنگ ہے۔ ہم مجاہدین، یا القاعدہ جیسی تنظیموں کے افراد، ہم دراصل صرف نیزے کی نوک ہیں، محاذ پر کھڑے وہ سپاہی ہیں جو امتِ مسلمہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

یہی معنیٰ ہے ’’طلیعہ‘‘ (پیش رو) کا کہ ہم مجاہدینِ امت کی پیش رو جماعت ہیں۔ لیکن یہ مجاہدین، یہ چند افراد جو میدان میں ہیں، ان کے پیچھے لاکھوں کی تعداد میں امت کے وہ لوگ ہیں جو ان کے ساتھ محبت کرتے ہیں، ان کے لیے دعا کرتے ہیں، ان کی حمایت کرتے ہیں، یہی لوگ اصل طاقت ہیں، یہی مدد ہیں، یہی سہارا ہیں، یہی پشت پناہ ہیں۔

اور ہم چند مجاہدین، ان کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ کیا ہم بغیر اس امت کے جو ہمارے پیچھے کھڑی ہے، جہاد کر سکتے ہیں؟ نہیں۔

مثلاً مصر کو دیکھیں، جس کی آبادی آٹھ ساڑھے آٹھ کروڑہے۔ اگر ہم کہیں کہ صرف نصف آبادی مجاہدین کو پسند کرتی ہے، اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری اور دوسرے مجاہدین سے محبت رکھتی ہے، کیا یہ بات سچ نہیں؟

پھر اگر پورے عالمِ عرب کی بات کریں، جس کی آبادی تقریباً بیس سے پچیس کروڑ ہے، تو کم از کم نصف لوگ تو مجاہدین کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ بلکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ نصف سے بھی زیادہ امت کے افراد مجاہدین کے ساتھ ہیں۔

ہاں، ممکن ہے بعض لوگ مجاہدین کے کچھ طریقوں پر اعتراض کریں جیسے: ’’ہمیں پسند نہیں کہ اسامہ بن لادن سعودی عرب میں داخل ہو‘‘ یا ’’ہمیں القاعدہ کے وہ حملے پسند نہیں جن میں سعودی عرب کے اندر مسلمان مارے گئے‘‘، لیکن وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں: ’’ہم مجاہدین کے ساتھ ہیں، وہ جو امریکہ اور اسرائیل کو نشانہ بناتے ہیں، ہم ان کو دعائیں دیتے ہیں، ان کے لیے نیک تمنائیں رکھتے ہیں اور ان کی کامیابی کے خواہش مند ہیں‘‘۔

یہی وہ عوام الناس ہیں، یہی امتِ مسلمہ کے عام مسلمان ہیں جو عرب ہوں یا غیر عرب، اکثر و بیشتر اسامہ بن لادن، القاعدہ اور مجاہدین کے حامی ہیں۔

اور حقیقت یہی ہے۔ لوگ کہتے ہیں : ’’ہمیں یہ پسند نہیں کہ وہ فلاں جگہ دھماکے کریں، لیکن ہم مجاہدین کے ساتھ ہیں، اللہ ان کو جزائے خیر دے، اس لیے کہ وہ امریکہ کو نشانہ بناتے ہیں، اسرائیل کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں، اور شاید کبھی کبھار انہوں نے ایسا کیا بھی ہے اور ان شاء اللہ وہ مزید کوشش کریں گے‘‘۔ یہ عوام الناس کا عمومی رویہ ہے۔

عالمِ اسلام کے عام مسلمان، عرب ہوں یا غیر عرب، اکثریت اسامہ بن لادن، مجاہدین اور القاعدہ کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔

حتیٰ کہ جو لوگ تنقید کرتے ہیں، وہ بھی بعض مخصوص پہلوؤں پر ہی اعتراض کرتے ہیں۔

لیکن مجموعی طور پر وہ ان سے محبت رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ لوگ مسلمان ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں اور وہ دل سے ان کے ساتھ ہیں، چاہے بعض باتوں سے اختلاف رکھتے ہوں۔

کوئی کہتا ہے: ’’مجھے ان کی فلاں بات پسند نہیں، میں چاہتا ہوں کہ وہ اس کو درست کریں۔ ہم ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ فلاں طریقہ درست کریں، لیکن وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم ان کے ساتھ ہیں‘‘۔

تو امت مسلمہ ہی مجاہدین کی پشت پر کھڑی ہے۔

مجاہدین اور ان کے رہنما اگر ان کی پشت پر امت کھڑی نا ہوتی، تو وہ جہاد نہیں کر سکتے تھے۔

یہی مطلب ہے ’’طلیعہ‘‘ (پیش رو) کا: ہم امت کے نیزے کی نوک ہیں، ہم اس امت کی طلیعہ (صفِ اول) ہیں۔لیکن ہم خود پوری امت نہیں ہیں، ہم صرف امت کا ایک حصہ ہیں، کوئی الگ وجود نہیں۔ہم امت کا نہ متبادل ہیں، نہ اس سے الگ کوئی گروہ بلکہ ہم اسی امت کا ایک جز ہیں، اور اس کی پیش رو جماعت ہیں۔اور امت ہماری پشت پر ہے، اللہ تعالیٰ کے بعد امت ہی ہمارا سہارا اور پشت پناہ ہے۔

اور الحمدللہ! جہادی تحریک، جہادی فکر، جہادی شعور اور امت میں جہاد کے احیاء کا جذبہ روز بروز بڑھ رہا ہے، یہ سوچ اور نظریہ ہر روز پھیل رہا ہے اور امریکہ اس پوری امت سے برسرِپیکار ہے۔اگرچہ امریکی حکام ہمیشہ یہ کہنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ بش، اوباما، اور دوسرے امریکی رہنما بار بار کہتے رہے ہیں:

’’ہم مسلمانوں کے خلاف نہیں، ہم اسلام کے خلاف نہیں، ہم صرف دہشت گردوں سے جنگ کر رہے ہیں، ان سے جو مذہب کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘

اور وہ (امریکہ اور اس کے حواری) یہی بات کہتے رہتے ہیں، یہی تصور پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، یقیناً مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں، وہ یا تو جاہل ہیں یا ان لوگوں میں سے ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے ۔ یہ امت کے زندیق، فاسد، فاجر اور بدکار لوگ ہیں، اور ایسے لوگ امت میں موجود ہیں، یہ حقیقت ہے۔

لیکن امت کی اکثریت، امت کا عام طبقہ، بڑا اور وسیع طبقہ، ایسا جھوٹ ہرگز نہیں مانتا۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ امریکہ ایک کافر ریاست ہے، عیسائی، یہودی، صہیونی، لادین، فاجر، بدکار، صلیبی، جارح، دشمن، ظالم، غاصب اور امتِ مسلمہ پر مختلف جگہوں پر حملہ آور ہے۔

یہ وہی ریاست ہے جو:

یہ بات امت کے تقریباً تمام افراد کو معلوم ہے، بلکہ ہم کہیں کہ امتِ مسلمہ کے اکثر مرد، عورتیں، بڑے، چھوٹے، سب کے دلوں میں یہ عقیدہ بیٹھا ہوا ہے۔

ہاں، ان میں سے کچھ ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے اس عقیدے کو عمل میں بدلتے ہیں اور وہ جہاد کی راہ میں نکل پڑتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر عزم، انقلابی سوچ، صبر، اور یقین جیسی صفات ہوتی ہیں، اور بالعموم ان میں زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں، یہ دنیا کی تمام اقوام میں ایک فطری حقیقت ہے۔

یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم پوری امت مثلاً عالمِ عرب یا عالمِ اسلام کے ان لاکھوں کروڑوں افراد سے کہیں کہ یہ سب افغانستان یا کسی اور مقام پر آ کر ہماری صفوں میں شامل ہو جائیں، یا سب ہی القاعدہ میں شامل ہو جائیں، یہ ممکن ہی نہیں۔اور ہم ان سے یہ چاہتے بھی نہیں۔

الحمدللہ! ہم خود کفیل ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مقام سے ہمارا سہارا بنیں، ہماری پشت پناہی کریں، جو وہ کر رہے ہیں۔

ہر شخص اپنے اپنے مقام پر جو کچھ ممکن ہو، وہ کرے، ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ جو کچھ کر سکتا ہے وہ کرے، بلکہ کہتے ہیں کہ جو کچھ آسانی سے ہو سکتا ہے، وہی کر لے۔

الحمد للہ! اہم بات یہ ہے کہ امت ہمارے ساتھ ہے، امت مجاہدین کے ساتھ ہے یعنی امتِ مسلمہ ایک مجاہد امت ہے اور امریکہ کے خلاف کھڑی ہے۔

تو مطلب یہ ہوا کہ امریکہ ایک ایسی جنگ میں داخل ہو چکا ہے جو امتِ مسلمہ کے خلاف ہے اور یہ جنگ اب ترقی کر رہی ہے، آگے بڑھ رہی ہے۔ ہم جو کہ مجاہدین کی قیادت میں ہیں جیسے القاعدہ اور دیگر مجاہد تنظیمیں، ہم اس جنگ میں امت کی جانب سے دفاع کا فریضہ و نمائندگی سرانجام دے رہے ہیں۔ تو ہمیں چاہیے کہ:

اسی کے ساتھ ہمیں چاہیے کہ کفار اور امریکیوں کی طرف سے پھیلائے گئے شبہات کا جواب دیں، اور امت کو ہمیشہ صحیح نظریات اور درست تصورات سے روشناس کرائیں۔

یہی دعوت ہے، یہی جہاد ہے، دعوت اور جہاد ایک ساتھ چلتے ہیں اور اس معرکہ میں شمولیت اور اس میں کامیابی دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

امت کی تمام مؤثر قوتوں کو چاہئے کہ اس مقصد میں باہم تعاون کریں۔

امریکہ کے بارے میں خوش خبری ہے کہ ان شاء اللہ جلد زوال پذیر ہونے والا ہے۔ امریکہ ختم ہونے والا ہے، زائل ہونے والا ہے۔

بس یہ چند آزمائشیں ہیں، یہ زوال کا درمیانی وقت ہے، بس تھوڑا صبر، تھوڑی قربانی اور پھر وہ اپنی سرزمین تک محدود ہو جائے گا، وہیں سمٹ جائے گا۔

امتِ اسلام عروج کی جانب بڑھ رہی ہے اور امریکہ اور اس کے دشمن زوال اور پسپائی کی طرف، اب امت مسلمہ بیدار ہو چکی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اسے بیداری، آگہی، اور انقلابی روح دی ہے۔ اور کفار ان شاء اللہ پسپا ہوں گے۔

یہ ایک انتہائی اہم نظریہ ہے، ہمیں چاہیے کہ جہاں بھی ہوں، جس حالت میں ہوں، مسلمانوں کو اس نظریے سے باخبر رکھیں، سمجھائیں۔

جہاں تک عرب انقلابات اور لیبیا کا تعلق ہے تو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ امریکہ نے ان انقلابات پر کیسا ردعمل دیا؟

امریکیوں کی گھبراہٹ، ان کی بے چینی اور ان کی مختلف حکمت عملیوں کے ذریعے ان انقلابات سے نمٹنے کی کوششیں، یہ سب مراحل، یہ سب ردعمل، ان پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور ان پر بہت سی باتیں مشاہدے میں آئی ہیں۔

یعنی ہمیں ہمیشہ ہوشیاری اور بیداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور انقلابات، نئی شروع ہونے والی تحریکوں کے بارے میں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ وہ لوگ جو اس وقت پیچھے ہٹ رہے ہیں، ان شاء الله، یہ ایک اہم بات ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ مسلمانوں کو سمجھائیں، جہاں بھی ہم ہوں اور جہاں بھی موقع ملے۔ عرب بہار اور لیبیا کے بارے میں، ہم نے دیکھا کہ امریکہ نے کیسے رد عمل ظاہر کیا اور ان انقلابات سے خوفزدہ ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ ان کا رد عمل مختلف مراحل سے گزرا۔ ابتدا میں، وہ حکام کا ساتھ دیتے تھے، جو ان کے اتحادی تھے، ظالم حکمران، پھر جب انہیں احساس ہوا کہ عوام جیت رہے ہیں اور یہ ظالم حکومتیں زوال پذیر ہیں، تو انہوں نے عوام کے ساتھ ہونے کا مظاہرہ کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ عوام کے ساتھ ہیں اور جمہوریت، آزادی، اور عوامی حق میں ہیں۔ ان سے پوچھا جاتا کہ اب آئے ہو، پہلے کس کے ساتھ تھے؟

پچھلے کئی عشروں سے تم ہی ان ظالم حکمرانوں کے حمایتی تھے، تم نے ہی ان ظالموں کو مضبوط اور محفوظ رکھا، انہیں طاقت دی، اور لوگوں کے خلاف ظلم و ستم، تشدد اور جبر کیا۔ تم ہی ان کی حمایت کرتے رہے اور بہت سے عوامی تحریکوں کو دبایا۔ مثال کے طور پر، الجزائر اور شام کی تاریخیں ہمارے سامنے ہیں اور دیگر چھوٹی چھوٹی کوششیں بھی۔ لیکن اب امریکہ پریشان اور مشکل میں ہے اور اسے سمجھ نہیں آ رہا کہ آگے کیا ہو گا۔ وہ بے بس ہیں، اور ہم اللہ کے فضل سے، مجاہدین اور امت مسلمہ اور امتِ جہاد ان انقلابوں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہم خوش ہیں اور ان کی حمایت کر رہے ہیں، جیسا کہ علی بابا(امریکہ) نے بھی اعلان کیا کہ: ’’ہم ان انقلابات کی تائید کرتے ہیں۔‘‘

الحمد لله، ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس میں حصہ دار ہیں اور ہم اس میں حصہ لیتے رہیں گے، اسے درست کریں گے اور اس کی اصلاح کریں گے۔ ہمیں سب کو اس کی اصلاح کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور ہمیشہ اسے اللہ کی اطاعت اور اس کی راہ پر قائم رہنے کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی راہ پر قائم رہنے اور اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یعنی توحید کا قیام، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کرنا اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔ مکمل آزادی، جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اور اس کی راہ پر قائم رہنے میں ہے۔ یہ مکمل آزادی ہے۔

اے مسلمانو! مکمل بندگی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قسم! نہ امریکہ، نہ مغرب، نہ کوئی اور تمہاری مدد کر سکتا ہے۔ لہٰذا لیبیا کی عوام، انقلابیوں اور بن غازی میں موجود عبوری کونسل کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں، اس کی طرف رجوع کریں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ، اسلام اور اپنے دین، امت، قوم اور مسلمانوں کی تہذیب کے ساتھ رہیں اور اسلام ہی کو ترجیح دیں۔ اسلام غالب آنے والا ہے اور کوئی شک نہیں کہ یہ اس صدی میں ہی غالب آئے گا، ان شاء الله۔ یہ صدی غلبۂ اسلام کی صدی ہے، طاقت، ظہور، فتح اور اسلام کے لیے تمکین کی صدی ہے اور اللہ کے حکم سے اسلام ہی غالب آئے گا۔ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ مستقبل دینِ اسلام کا ہے، چاہے یہ کسی کی عزت کے ساتھ ہو یا ذلت کے ساتھ، انجام کار اسلام ہی غالب ہو گا۔

اہالیانِ لیبیا کو چاہیے کہ وہ اسلام کو منتخب کریں، مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہیں اور امریکیوں سے دور رہیں، ان سے جدا ہو جائیں۔ ان سے پیچھے ہٹ جائیں۔ آپ کو ان سے کچھ بھی نہیں چاہیے۔ اللہ کی قسم، چاہے یہ مدد دیں۔ نیٹو کے اتحادی بھی اب تھوڑا الجھ گئے ہیں، اگر وہ سمجھدار ہوتے اور اللہ سے مدد مانگتے، تو بہتر ہوتا۔ اب یہی مرحلہ ہے کہ وہ رک جائیں۔ انہیں شکریہ کہہ کر راستے سے ہٹا دیں اور ان کی باتوں میں نہ آئیں نہ ہی ان کی کسی پیش کش کو قبول کریں۔

اور ان سے کہہ دیں کہ چلے جاؤ، ہماری مدد نہ کرو، نہ ہمارے شہریوں کا دفاع کرو اور قذافی کو مارنا بھی ٹھیک ہے کیونکہ وہ ظالم تھا اور انسانی حقوق کے خلاف جرائم کا مرتکب ہے۔ بس، آپ نے جو کچھ کیا، نیک کام کیا ہے، ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں، بس اب چلے جاؤ۔ کھلے الفاظ میں کہہ رہا ہوں، اگر وہ مغرب اور امریکہ کے ساتھ تعلقات جاری رکھیں، خاص طور پر ان کے ساتھ سازشیں کریں اور ان کے وفادار بنیں، تو خدا کی قسم لیبیا اور اس کے مجاہدین خسارے میں پڑیں گے۔ اور عبوری کونسل بھی دو راہے پر ہے۔ یا تو وہ صحیح راستہ منتخب کریں، یعنی اللہ تعالیٰ، اس کے دین، اپنی امت، اسلام، تہذیبِ اسلامی، اپنی مسلم قوم اور مجاہدین کے ساتھ رہیں یا پھر ان لوگوں کا انتخاب کریں جو امریکہ کے ساتھ ہیں۔

اللہ کی قسم! اگر انہوں نے امریکہ کا انتخاب کیا تو وہ کامیاب نہیں ہوں گے اور نہ ہی آرام پائیں گے۔ کیونکہ انسان اپنی کمزوری اور جہالت سے اکثر جلد بازی کرتا ہے، طاقتور کے ساتھ ہو جاتا ہے اور غالب کے پیچھے چلا جاتا ہے، تاکہ آرام کرے، مگر خدا کی قسم، یہ جہالت اور غفلت ہے۔ تمہیں کبھی بھی سکون نہیں ملے گا اگر تم نے امریکہ کا ساتھ دیا۔

اللہ کی قسم! تمہارے لیے صرف غم، مشقت اور بے انتہا جنگیں آئیں گی، جو ختم ہونے کا نام نہیں لیں گی۔ اللہ کی قسم، اس حوالے سے اگر تم نے کوئی اقدام اٹھایا تو تمہیں لیبیا کے مجاہدین، القاعدہ، امت مسلمہ کے مجاہدین، آنے والی نسلیں اور تحریکِ جہاد نہیں چھوڑیں گی، یہ سب تمہارے مقابل آئیں گے۔ یہ تمہارے پاس آ رہے ہیں۔

ہم ابھی خاموش ہیں اور آپ کو موقع دے رہے ہیں اور مجاہدین بھی خاموش ہیں اور آپ کو موقع دیتے ہیں، ہر جگہ آپ کو یہ موقع مل رہا ہے اور آپ سکون سے رہیں۔ ہم تیار ہیں کہ آپ کے ساتھ ہوں، شرط یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں اور سیدھے راستے پر رہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان اللہ کی کتاب، اللہ کا دین، اور اللہ کی شریعت ہے۔ یہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہیں۔ یہ علمائے اسلام ہر جگہ موجود ہیں، الحمدللہ۔ وہ ہمارے اور آپ کے درمیان اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق فیصلے کریں گے۔ ہم کسی پر زبردستی کچھ نہیں ڈال رہے اور نہ ہی کوئی طالبان کی شریعت یا ان کا تصورِ اسلام زبردستی مسلط کر رہے ہیں، نہ القاعدہ کا کوئی تعلق ہے۔ ہم سب کا دین، شریعت الہٰی، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہے۔

یہ علمائے مسلمین، علمائے اسلام، دنیا بھر میں موجود ہیں اور جب آپ تھوڑا سکون لیں گے تو وہ ہمارے اور آپ کے اور لوگوں کے درمیان فیصلے کریں گے اور سب کے لیے اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ ﷺ کی بنیاد پر فیصلے کریں گے۔ مثلاً، کوئی چیز حلال ہے یا حرام، وہ بتائیں گے۔

ان کا اصول صرف اللہ کے کتاب اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔

امریکہ سے دھوکہ کھانا سمجھداری نہیں، پروفیسر محمود جبریل اور دیگر لوگ، جو تعلیم یافتہ، معتبر، اور انسانی، سماجی، اور اسٹریٹیجی کی تعلیم میں ماہر ہیں، ان سے دھوکہ نہ کھائیں۔ ہم محمود جبریل اور اس کونسل کے ذریعے مجاہدین اور عوام کو دھوکہ دینے یا ان کی باتوں پر یقین کرنے کا کسی طور پر مشورہ دینے کے قائل نہیں۔

آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے دین، اپنی امت اور اپنے مسلم بھائیوں کے ساتھ رہیں۔ اسلام کو اختیار کریں، کیونکہ امریکہ آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ محمود جبریل اور دیگر افراد امریکہ کے ساتھ ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ وہ آپ سے کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن، القاعدہ اور مجاہدین برے ہیں اور وہ قتل و غارت گری، فساد اور جرائم کرتے ہیں اور صرف قتل و غارت گری پر یقین رکھتے ہیں، اگر آپ نے ان کی بات مان لی اور ان کی تصدیق کر دی تو اللہ کی قسم! آپ باطل پر یقین کر رہے ہیں۔

اس کے برعکس امت کے بیٹے جو اللہ کی عبادات اور فریضہ جہاد کو پورا کرنے والے ہیں، جو انہوں نے اپنی صلاحیت اور قربانی سے انجام دیے ہیں اور یہ امت کے نمائندہ ہیں۔ انہوں نے یہ فرض ادا کیا ہے اور پوری امت کی جانب سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود کہ آپ معقول فکر و نظر کے مالک اور آپ ایک تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ اگر آپ نے انہیں چھوڑ کر امریکہ کا ساتھ دیا تو خدا کی قسم، روز قیامت آپ کی سٹریٹیجک پلاننگ، آپ کا علم کوئی کام نہیں آئے گا۔ آپ کو یہاں اس موڑ پر صحیح راستہ چننا ہے اور وہ ہے اللہ اور آخرت کا راستہ۔

آپ اللہ، آخرت، اور اللہ کے حضور کامیابی کو منتخب کریں۔ کل آپ قبر میں ہوں گے، اور قیامت کے دن آپ کو کوئی ڈگری، کوئی اسٹریٹیجی، نہ لکھی گئی کتابیں اور نہ ہی شہرت کام آئے گی۔ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔

ہم ان انقلابیوں، قائدین، تعلیمی اور فکری شخصیات، وکلاء، قاضیوں، مفکرین، صحافیوں اور دیگر عوامی نمائندوں سے جو اس عبوری کونسل، مجاہدین یا لیبیا کی نئی صورتحال میں شامل ہیں، کہنا چاہتے ہیں کہ یہ مناسب وقت ہے کہ آپ نے کس راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس پر غور کریں، سوچیں، اور تدبر سے فیصلہ کریں۔

واللہ! ہو سکتا ہے کوئی کمزور، غریب، سادہ سا انسان آ جائے، جس نے نہ کبھی کچھ پڑھا ہو، نہ لکھا ہو، نہ سیاہ و سفید کا فرق جانتا ہو، ایک معمولی کسان ہو، لیکن وہ اللہ کا مددگار بن جائے، اللہ کے دین کی نصرت کرے، مجاہدین کی مدد کرے اور تمہارے (باطل) راستے سے نفرت کرے، امریکہ سے لڑے، اور پھر ایک گولی آئے اور وہ شہید ہو جائے۔ ایسا شخص کامیاب ہے، فلاح پانے والا ہے، اور اعلیٰ ترین درجات کا حامل ہے۔

اور اس وقت تم؟ تم جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہو گے، اللہ کی پناہ، تم اگر بچ گئے یعنی اگر تم ہمیشہ والی جہنم سے بچ بھی گئے، تب بھی نافرمانوں کے لیے مخصوص آگ میں عذاب ہے۔

اور اگر تم نے، اللہ نہ کرے، اللہ کی شریعت کا انکار کیا اور امریکیوں کا ساتھ دیا، تو پھر تم ابو جہل، اُبی بن خلف، فرعون، ہامان، قارون، بُش، اور شارون جیسے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہو گے۔

یہی ہے آج کی ’’اسٹریٹیجک پلاننگ‘‘! تم سمجھتے ہو کہ تم بہت ذہین اور ہوشیار ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تمہیں سمجھدار مانتے ہیں۔ لیکن اصل اسٹریٹیجک پلاننگ یہ ہے کہ اپنی آخرت کی منصوبہ بندی کرو۔

اے محمود جبریل! یہ تمہارے لیے سب سے بڑا امتحان ہے۔ اور اگر تم سن رہے ہو، یا جو بھی سن رہا ہے، تو یہ پیغام سب کے لیے ہے۔

میں نے تمہیں اس لیے مخاطب کیا کہ تم ایک نمایاں شخصیت ہو، بڑے استاد ہو، مفکر ہو، عقلمند اور منصوبہ ساز سمجھے جاتے ہو۔

تو بس، یہی اصل امتحان ہے، یہی اصل کسوٹی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے تمہیں کھڑا کیا ہے۔

اب تمہاری عقل، تمہارا علم، تمہارا شعور، سب کی حقیقت سامنے آ رہی ہے۔ اب تمہارا فیصلہ ظاہر کرے گا کہ تم نے ان سب چیزوں کا کیا نتیجہ نکالا۔ اب فیصلہ ہے کہ تم کیا چنتے ہو؟

تو میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے دین کا ساتھ دو، اللہ کا ساتھ دو، اللہ کے دوستوں کا ساتھ دو۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ؁ (سورۃ التوبۃ: ۱۱۹)

’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔‘‘

اللہ کے ساتھ ہو جاؤ، اللہ کے دوست بن جاؤ، اللہ کے اولیاء کے ساتھی بن جاؤ اور اللہ کے دین کی نصرت کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ تاکہ تم دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب رہو۔

اور اگر تم نے دوسرا راستہ چنا یعنی امریکہ کا ساتھ دیا تو واللہ یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں کوئی سکون ملے گا، یا تم کوئی سول سوسائٹی بن جاؤ گے جیسا کہ تم کہتے ہو، یا کوئی جدید اور ترقی یافتہ مملکت بن جاؤ گے یا مغرب سے اچھے تعلقات قائم کر لو گے اور نہ جانے کیا کچھ خواب دیکھ رہے ہو۔

تم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کودو گے، دوسرے مسائل میں پھنسو گے، مغرب سے ٹکراؤ ہو گا اور مجاہدین کے مدِ مقابل آ جاؤ گے۔ واللہ! تمہیں پریشانی، دکھ، مصیبت اور مسلسل رنج و عذاب کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ واللہ! تمہیں ہم سے بھی چین نہیں ملے گا، اور نہ ہی دوسروں سے، یہ بات بالکل واضح ہے، ہمارے اور تمہارے درمیان حق کا معاملہ ہے، اس میں کوئی ڈر یا مداہنت نہیں۔

ہمارے نزدیک لیبی اور غیر لیبی میں کوئی فرق نہیں۔ نہ میرا باپ، نہ میرا بھائی، نہ میرا چچا، میرے نزدیک سب ایک جیسے ہیں۔ ہمارا معیار صرف اللہ کی شریعت کی بنا پر دوستی اور دشمنی ہے بس!

اگر کوئی دور دراز کا غیر مسلم، مثلاً ایک امریکی، ایمان لے آئے اور کلمہ شہادت پڑھ لے تو وہ ہمارا بھائی، ہمارا قریبی، ہمارا دوست، ہمارا محبوب، ہمارا حقیقی بھائی بن جاتا ہے۔ اور اگر میرا اپنا باپ، ماں، بھائی کفر پر قائم رہیں، اللہ ہمیں محفوظ رکھے، تو وہ ہمارے دشمن بن جاتے ہیں۔

اللہ ہمیں اور تمہیں اور اُنہیں عافیت میں رکھے، آمین۔

پھر وہ کافر ، خواہ بش ہو یا شیرون، سب ہمارے دشمن ہیں، جن سے ہم بیزاری کا اعلان کرتے ہیں، اُن سے لڑتے ہیں، اُن کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔ یہی اللہ کے دین اور اس کے احکامات کے تقاضے ہیں۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَــوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَكَفَرَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ ۚ فَاَيَّدْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلٰي عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِيْنَ؀ (سورۃ الصف: ۱۴)

’’ اے ایمان والو! اللہ (کے دین) کے مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا: اللہ کی خاطر میرے مددگار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں، تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے انکار کیا، تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد کی تو وہی غالب ٹھہرے۔‘‘

تو آج ہم بھی یہی پیغام انقلابیوں کو دے رہے ہیں کہ یہ فیصلہ کن وقت ہے، جیسا کہ ہم نے کہا، راستہ تمہارے سامنے ہے۔ اگر تم نے درست راستہ چن لیا، تو اللہ سے مدد مانگو۔ تم تو کہتے ہو کہ ’’ہر رائے سنی جائے، بات چیت ہو، کسی کو الگ نہ کیا جائے اور ہم نے ماضی میں ظلم و جبر برداشت کیا ہے‘‘۔ تو لو! اب تمہارے سامنے موقع ہے۔ فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔

ہم یہاں بیٹھے تمہارا انتظار کر رہے ہیں، ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ ہم اپنے طریقے سے، آرام سے کام کر رہے ہیں۔ ہم نے تمہیں موقع دیا ہے کہ دیکھیں تم کیا فیصلہ کرتے ہو، اگر تم نے اللہ کا راستہ، دینِ اسلام کا راستہ اور امتِ مسلمہ کے ساتھ ہونے کا انتخاب کیا، تو ہم تمہارے ساتھ ہیں، خوش آمدید۔

چاہے کچھ کمی ہو، کچھ کوتاہی ہو، کچھ نرمی ہو، حتیٰ کہ اگر کوئی معذرت بھی درکار ہو، تو بھی راستہ کھلا ہے۔ لیکن اگر تم نے امریکہ کا راستہ چُنا اور ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے، اور کل کو ہم تمہیں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘میں دیکھیں اور نہ جانے کیا کچھ تم کرو، تو سن لو، ہمیں کوئی پریشانی نہیں، ہم نے تو پہلے ہی فیصلہ کیا ہوا ہے، ہمارے لیے یہ معمول کی بات ہے۔ تم ہو یا کوئی اور، حتیٰ کہ اگر سو ممالک بھی امریکہ کے ساتھ شامل ہو جائیں، ہم تب بھی ان کے خلاف لڑتے رہیں گے۔

اور لیبیا نہ کچھ بڑھاتا ہے نہ گھٹاتا ہے، لیبیا ہمارے لیے نیا میدان نہیں، بلکہ یہ تو ہمارے حق میں زیادہ مفید ہے، یہ تو اللہ کی طرف سے ہمارے لیے ایک نئی فتح ہے۔ یعنی جب اسلام اور امریکہ کی جنگ ہے، تو تمہارا مقام اہم ہو جاتا ہے۔

میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں۔ واللہ، دل سے، محبت سے، خیر خواہی سے،اللہ کے ساتھ ہو جاؤ، اللہ کے دین کے ساتھ ہو جاؤ، اللہ کے اولیاء اور مجاہدین کے ساتھ ہو جاؤ۔

مختصر بات یہ ہے کہ اگر تم یہ کہو کہ ہم امریکہ سے نہیں لڑ سکتے، مغرب سے ٹکر نہیں لے سکتے اور ان کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کر سکتے تو ہم نے تم سے جنگ کا مطالبہ نہیں کیا، نہ ہم کہتے ہیں کہ ان سے جنگ کرو، لیکن ایک درمیانی راستہ ضرور ہے، تم اس پر تو عمل کر سکتے ہو، تم ان کے ساتھ مل کر مجاہدین کے خلاف مت لڑو۔ ان سے علیحدگی اختیار کرو، ان سے دُور رہو۔

ان سے کہو، خدا حافظ، تم اپنی جگہ ہم اپنی جگہ، ہم خود ہی ان سے لڑنے کے لیے کافی ہیں، ہم انہیں تباہ کر سکتے ہیں، ہم اپنی اسلامی مملکت قائم کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے نوجوانوں سے خود بات کریں گے، ہمارے پاس اپنی طاقت اور وسائل موجود ہیں۔

تم بس الگ ہو جاؤ اور اگر امریکہ سے تمہارا تعلق بگڑ بھی جائے، تو کوئی مسئلہ نہیں ،تم ایک کمزور مملکت بن کر بھی جی سکتے ہو، جیسے باقی کئی کمزور مملکتیں جی رہی ہیں۔

تم بس گزارہ کرو، چلتے رہو، لیبیا الحمدللہ ایک زرخیز ملک ہے۔ اگر زراعت پر توجہ دی جائے تو خود کفیل بن سکتا ہے۔ اللہ کی قسم! ماضی میں بھی لیبیا خود کفیل رہا ہے۔ تیل بھی تمہارے پاس ہے، تم اسے کسی بھی طریقے سے استعمال کر سکتے ہو، بیچ سکتے ہو اور اس سے بہترین فائدہ اُٹھا سکتے ہو، خواہ امریکہ سے تعلقات کشیدہ ہی کیوں نہ ہوں، امریکہ تمہیں روک نہیں سکتا۔

دنیا میں جو تضادات ہیں، تم ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ لیبیا کی تمام معدنی اور قدرتی دولت تمہارے فائدے میں لائی جا سکتی ہے۔

اگر عوام تمہارے ساتھ ہو یا عوام کی بڑی تعداد تمہارے ساتھ ہو تو پوری امت مسلمہ تمہارے پیچھے ہے، مجاہدین تمہارے پیچھے ہیں، چاہے وہ مغربِ اسلامی ہو، مصر ہو، وسطی افریقہ ہو، یا پوری دنیا، سب پر اسلام ہی غالب آنے والا ہے۔ یہی صحیح انتخاب ہے۔

لیکن اگر تم امریکہ اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہو گئے، تو یاد رکھو، تمہیں کبھی سکون نصیب نہیں ہو گا۔ نہ تم کوئی ’’جدید ریاست‘‘ قائم کر سکو گے، نہ کوئی ماڈرن حکومت بنا پاؤ گے، یہ سب بس ایک دھوکہ ہے۔ نہ کفار کی طرف سے سکون ملے گا، نہ مسلمانوں کی طرف سے، تو پھر بہتر ہے کہ تم ایسی مشقت برداشت کرو جو تمہیں آخرت کی کامیابی دے، کیونکہ آخرت کی کامیابی سب سے اہم ہے۔

اور دنیا میں بھی اگر تمہارا دل مطمئن ہو، تب ہی تمہیں سکون اور حقیقی خوشی نصیب ہوگی۔

خوشی کیا ہے؟ خوشی یہ ہے کہ تم خود اپنے دل میں سکون محسوس کرو۔ خود کو مطمئن سمجھو، اللہ کا شکر ادا کرو کہ تمہیں کوئی بڑا خوف یا فکر لاحق نہیں اور اگر تم اپنی آخرت کے بارے میں پُر امید ہو، مسلمان ہو، اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔

اور جنت، جہنم، حساب، قیامت، اور دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان رکھو۔ تم جب اپنی آخرت کی ضمانت لے لو اور اللہ تعالیٰ کے وعدے پر اطمینان ہو کہ قیامت کے دن تم کامیاب لوگوں میں ہو گے تو تم سب سے زیادہ خوش اور کامیاب انسان ہو گے، چاہے دنیا میں تم سب سے کمزور اور غریب ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے امریکہ تم پر بمباری کرے (جو کہ نہیں کر سکتا) وہ کچھ نہیں کر سکتے۔

واللہ، امریکہ کے پاس اب کچھ باقی نہیں رہا۔ وہ خود مسائل میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس پر ہر طرف سے محاذ کھل چکے ہیں اور مزید کھلنے والے ہیں۔ شام میں جنگ شروع ہو چکی ہے، افریقہ میں بھی اور ممکن ہے کہ پاکستان میں بھی بڑا محاذ کھلے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ایسا ہو۔

افغانستان، عراق سب جگہ جنگ جاری ہے اور ان شاء اللہ شام بھی بہت جلد فتح ہو جائے گا، ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ شام میں مسلمانوں کو فتح دے تاکہ اسلام کا پرچم بلند ہو۔

صومالیہ، یمن، جزیرۃ العرب ان تمام خطوں میں امریکہ کے خلاف محاذ کھل چکے ہیں، امریکہ ختم ہو چکا ہے، دنیا کے ہر کونے میں اس کے خلاف دروازے کھل چکے ہیں۔ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، دیکھ لو اس نے صومالیہ میں کیا کر لیا؟ کچھ بھی نہیں، امریکہ زوال پذیر ہے۔ اور یورپی ممالک جیسے اٹلی، فرانس پہلے سے ہی کمزور ہو چکے ہیں، تمہیں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔

لہٰذا تمہارا انتخاب آزادی، مردانگی اور غیرت ہونا چاہیے جو تمہارے ایمان، دین، امت اور تمہارے خیر خواہوں کے ساتھ ہو۔

یہی صحیح انتخاب ہے۔ امریکہ سے مرعوب ہونا، بس ایک دھوکہ ہے۔ امریکہ کا سورج غروب ہو چکا ہے، وہ شکست کھا رہا ہے۔ تم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہو؟ اور اُس سے ڈر رہے ہو؟

یہ میں سادہ زبان میں، اپنے دل کی بات آپ سے کر رہا ہوں، کوئی لکھی ہوئی تقریر نہیں،لیکن دعا ہے کہ یہ بات لوگوں تک پہنچے، وہ سمجھیں اور میری بات کو ایک خیر خواہ کی نصیحت سمجھیں۔

یہیں پر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے خیر کا طالب ہوں۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version