مدیر انٹرویو: اب مجھے اس حوالے سے اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں کہ یہاں ان قریب الواقع خطرات سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی شامی انتظامیہ کی موجودہ صلاحیت کتنی ہے؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: میرے پیارے بھائی! واللہ میری نظر میں یہ سوال ان سوالوں میں سے ایک ہے جن کا جواب دینا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ ان مسائل میں سے ایک ہے جو ذہن کو بے چین کر دیتے ہیں اور جہاں منظر نامے بہت مختلف ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ نئی شامی انتظامیہ کے ذمہ داران، بہت سے قائدین جو انقلاب کی علامت تھے، جہادی دستوں کے سابق کارکنان اور انقلابی تنازعات کے منتظمین نے بہت سی رکاوٹوں کو مزید گہرا کر دیا تھا اور بہت سے ایسے گڑھے کھود دیے جن سے باہم منسلک ان خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ انہیں معاف کرے، انہوں نے سبیل اللہ سے ہٹ کر انقلابی، فکری اور عملی طریقوں کی تبدیلی میں حصہ ڈالا، حالانکہ وہ سب آزادی، انصاف اور ظلم سے نجات کی خواہش رکھتے تھے اور اب بھی رکھتے ہیں۔ لیکن ان میں سے اکثر، انقلاب کے اہم موڑ پر، بھول گئے کہ آزادی کا جوہر، اس کا مرکز اور اس کے تاج کا موتی یہ ہے کہ ہم سب خدا کے بندے بنیں۔
ہمارے بہت سے انقلابی مجاہدین بھائی یہ بھول چکے ہیں کہ انقلاب اور جہاد کا سب سے بڑا مقصد، بقدر استطاعت شریعتِ اسلامیہ پر عمل کر کے، اللہ کو راضی کرنا ہے اور اسی لیے ہم نے انقلاب کے سالوں میں انہیں دین کے قیام کے لیے گمراہ کن طریقے اختیار کرتے ہوئے دیکھا۔ واللہ آپ کب سے مسلمانوں سے لڑنے، ان کا خون بہانے اور انہیں قتل کر کے ان پر قابو پانے کو اللہ کو راضی کرنے اور اس کا دین قائم کرنے کا شرعی وسیلہ بنا رہے تھے۔
ہمارے انقلابی بھائیوں نے فتح یا شکست کے دو راستوں کے درمیان خود کو کیوں محدود رکھا؟
یہ انقلابیوں کے درمیان پچھلی خانہ جنگیاں تھیں جو آئندہ بھی رہیں گی، جس کے نتیجے میں ہزاروں مجاہدین شہید ہوئے، یہ خانہ جنگیاں ان کے ایک کلمہ کے گرد اکٹھے ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئیں اور صحیح، ٹھوس اور پائیدار انداز میں ان کے درمیان اصلاح نہیں کی جا سکی۔ تاریخ میں ہمیں ایسا کوئی انقلاب نہیں ملتا جس میں خونریزی کو ہلکا سمجھا گیا ہو اور ضرورت سے زیادہ جنگ کی گئی ہو اور پھر اس کے نتیجے میں پائیدار خوشحالی اور مستحکم فتح آئی ہو۔ حالیہ دور میں نوّے کی دہائی کے اوائل میں کابل کی فتح اور سوویت یونین کی شکست پر لوگوں نے بہت خوشی منائی تھی، امت بے حد پُرجوش تھی، شاعروں نے ان کے لیے شاعری لکھی، منشدین نے ان کے لیے ترانے پڑھے، تمام جہادی گروہ ایک کلمہ کے گرد اکٹھے ہوئے اور مجاہدین کی حکومت قائم ہو گئی اور آپس میں عداوت رکھنے والے بھائیوں نے خانہ کعبہ کے دروازے پر پختہ قسمیں کھائیں کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے، اور پھر آپس میں جو کشت و خون ہوا وہ سب نے دیکھا ۔
یرے پیارے بھائی! ہر ناحق بہائے گئے خون کی ایک لعنت ہوتی ہے جو نہ تو کسی انقلابی کو اللہ کی رحمت کی وسعت میں جگہ پانے دیتی ہے اور نہ ہی کسی مجاہد کو، اس کا وبال نہ دنیا میں ہی پیچھا چھوڑتا ہے اور نہ آخرت میں، بلکہ وہ شخص جہاں بھی رہے یا جہاں بھی جائے یہ لعنت اس پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔ اس معاملے میں ہمارے لیے وہی کافی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
لَنْ يَزَالَ الْمُؤْمِنُ فِي فُسْحَةٍ مِنْ دِينِهِ، مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا۔1
’’مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں کشادہ (یعنی مغفرت کا امیدوار) رہتا ہے جب تک ناحق خون نہ بہائے۔‘‘
چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر نے اس حدیث کے نتائج کا ادراک کرتے ہوئے، جسے انہوں نے خود روایت کیا ہے، اپنا مشہور قول ارشاد فرمایا:
إِنَّ مِنْ وَرَطَاتِ الأُمُورِ، الَّتِي لاَ مَخْرَجَ لِمَنْ أَوْقَعَ نَفْسَهُ فِيهَا، سَفْكَ الدَّمِ الحَرَامِ بِغَيْرِ حِلِّهِ۔2
’’ہلاک کرنے والے امور کہ جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، ان میں سے ایک ناحق خون بہانا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔‘‘
مجھے ایسا لگتا ہے، اور اصل علم تو اللہ ہی کو ہے، کہ شام کی نئی انتظامیہ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں اور نہ ہی وہ زیادہ تر معاملات میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ یہ کوئی پیش گوئی یا قیاس آرائی یا غیب کا علم نہیں ہے بلکہ یہ ایک تاریخی مشاہدہ ہے جو ہماری اسلامی، انقلابی اور جہادی تاریخ کے مماثل اور ملتے جلتے واقعات کے مطالعے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے نوازے اور ان کو خالص توبہ کرنے کی ہمت عطا فرمائے، تاکہ وہ اپنے لوگوں کے حقوق بحال کریں، تب مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف کر دے گا اور انہیں ہدایت اور توفیق عطا فرمائے گا۔ ورنہ ایسے شخص کے لیے افق پر روشنی کی چمک دیکھنا یا ان باہم مربوط مشکلات اور نقصانات سے نکلنے کے لیے الہٰی توفیق حاصل کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ جو کوئی اللہ کی شریعت کی خلاف ورزی کرتا ہے، اللہ کی طرف سے اسی کے مثل، اس کی تادیب کی جاتی ہے اور جو کوئی خدا کی تقدیر پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے وہ مغلوب ہو جاتا ہے۔
مدیر انٹرویو: تو پھر اس حل کیا ہے؟ کیا وہ سفید پرچم لہراتے رہیں اور صہیونی – صلیبی دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیں؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: ہرگز نہیں، اور یقین کریں کہ سفید پرچم لہرانے اور دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے وہ زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ ان کے پاس صرف ایک ہی آفاقی راستہ ہے، وہ یہ ہے کہ وہ شریعت کے مطابق جہاد کرتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچیں۔ ان کے پاس خود پر کیے گئے ظلم اور رب کے بندوں کے ساتھ کیے گئے مظالم پر توبہ اور رجوع کرنے اور پھر اللہ کے ساتھ اپنے تجدیدِ عہد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پھر انہیں جہاد کی تجارت دوبارہ شروع کرنے کے لیے اللہ سے بیعت کی تجدید کرنا ہو گی، جس کے ذریعے وہ درد ناک عذاب سے نجات پا سکیں گے۔ جہاد کی ذمہ داریوں اور تقاضوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، چاہے ہم پسند کریں یا نہ کریں، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے ان کا امتحان لیا ہے اور جہاد کے تقاضوں کے ساتھ ان کا مزید امتحان لیں گے، کیونکہ ارضِ شام عظیم جنگوں کی سرزمین ہے اور اس سرزمین پر نازل شدہ مصائب اور اس کی تقدیر میں اللہ کی بڑی حکمت ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مقامی جہاد اور عالمی جہاد کے درمیان کوئی تعلق یا ہم آہنگی نہیں ہے، لیکن جب انہوں نے مقامی جہاد کو ترجیح دی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں مقامی بشاری حکومت کو تباہ کرنے اور اسے شکست دینے کی توفیق دی، تو آج وہ واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ عالمی دیوار ہر معاملے میں مقامی دیوار کے ساتھ اتنی مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے کہ جس کی انہیں توقع یا خیال بھی نہیں تھا۔ اور یہ نئی حقیقت، اب یا مستقبل میں، شامی مجاہدین کو، ان کی مرضی کے خلاف، دباؤ کے تحت عالمی جہاد کرنے پر مجبور کر دے گی نہ کہ انتخاب کے تحت۔
جبکہ آج وہ عالمی جہاد یا عالمی مزدوری کے دوراہے پر کھڑے ہیں یا تو وہ اپنے جہادی اصولوں اور بنیادوں پر ثابت قدم رہیں یا پھر عالمی صہیونی – صلیبی مہم کے ایجنٹوں کی حیثیت سے اور نصیری حکومت کی طرح صہیونی وجود کے سرحدی محافظ کی حیثیت سے محل میں اپنے قیام کو یقینی بنائیں۔ اور میں نئی شامی انتظامیہ میں اپنے بھائیوں کو محبت اور ہمدردی سے نصیحت کرتا ہوں کہ چاہے وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں، اور چاہے وہ بین الاقوامی برادری اور عالمی نظام کے سامنے کتنا ہی تنازل اختیار کریں اور ان کے تابع ہو جائیں، وہ انہیں اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک کہ وہ ان کی ملت کی پیروی نہ کریں۔ حق تعالیٰ شانہ کے قول کے مطابق:
وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَهُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ ۭ قُلْ اِنَّ ھُدَى اللّٰهِ ھُوَ الْهُدٰى ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ (سورۃ البقرۃ: ۱۲۰)
’’اور یہود و نصاریٰ تم سے اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے، کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے اور اگر تم علم آ جانے کے بعد بھی ان کی خواہشات کی پیروی کرو گے تو تمہیں اللہ کی پکڑ سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی مددگار۔‘‘
یہاں ہم اپنی آنکھوں سے عظیم تر شام کی سرزمین کے دوسرے حصے (یعنی فلسطین و غزہ) میں کتائب القسام کے اپنے بھائیوں کا جہاد دیکھ رہے ہیں، جنہوں نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا کہ ان کے جہاد کا مقامی ماڈل آہستہ آہستہ اس دیوار کی طرف بڑھ رہا ہے جو اسے عالمی جہاد سے الگ کرتی ہے۔ درحقیقت آج وہ فلسطین سے باہر کے مسلمان نوجوانوں کو اندرون و بیرون ملک صہیونیوں اور ان کے اتحادیوں کو نشانہ بنانے کی ترغیب دے کر عالمی جہاد پر اکسا رہے ہیں، جیسا کہ مصری سپاہی محمد صلاح، اردن کے ماہر الجازی اور امریکی مراکشی قاضی عبدالعزیز کی کارروائیوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔ پس ضروری ہے کہ شام کے اہلِ جہاد کو بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور ہر سطح پر اپنی حکمت عملی کا جائزہ لینا چاہیے۔
مدیر انٹرویو: آپ نے عالمی جہاد اور مقامی جہاد کے دو راستوں کے بارے میں بات کی، یہ دو راستے شامی انقلاب میں بڑے بڑے فکری اور تحریکی تنازعات اور جھگڑوں کا باعث بنے، سچ یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس بحث کو ہماری گفتگو میں گھسیٹا جائے، لیکن آپ نے جو حقیقت بیان کی ہے وہ بحث و تحقیق اور غور و فکر میں بہت اہم مقام رکھتی ہے۔ حق، علم اور انصاف کے پیمانوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، آپ کیا دیکھتے ہیں کہ اہلِ شام اس وقت دنیا سے لڑنے اور عالمی جہاد کے میدان میں داخل ہونے کے قابل ہیں جیسا کہ القاعدہ کے نظریات کے پیروکار دیکھتے ہیں؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: میرے پیارے بھائی، یقین کریں کہ شام کے دشمن وہ ہیں جو اپنی روز مرہ کی اشتعال انگیزی، ایذا رسانی، شامی سرزمین پر قبضے، اس کے وسائل کی چوری اور اس کی عسکری و تزویراتی صلاحیتوں کے خلاف جارحیت کے ذریعے اس پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ بصورت دیگر کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ معزز شامی عوام کو نیچا دکھانے اور ان کی نئی حکومت و انتظامیہ کی تذلیل روکنے کا حل کیا ہے جو روز مرہ کا معمول بن چکا ہے؟
مدیر انٹرویو: شاید شام کی موجودہ صورتِ حال کا مناسب حل یہ ہے کہ معروف سیاسی چینلز کے ذریعے بات چیت اور سفارتی مذاکرات کی میز پر جایا جائے؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: شامی عوام ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے بغاوت کر رہے ہیں اور آستانہ اور دیگر جگہوں پر بات چیت اور مذاکرات کی میز پر ہیں، لیکن کیا وہ اس عالمی صہیونی – صلیبی مہم کے ایجنٹ (بشار) کے خلاف اپنی امنگوں اور انسانی حقوق کے مطالبات کے حصول میں ایک قدم بھی آگے بڑھنے میں کامیاب رہے ہیں؟
یقیناً شامیوں نے ان بے کار ذرائع سے کچھ حاصل نہیں کیا اور اگر انہیں ان ذرائع سے کچھ حاصل ہونے کا یقین ہوتا تو وہ نصیری حکومت اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہتھیار نہ اٹھاتے۔ میرے خیال میں ہم اس نکتے پر متفق ہو چکے ہیں اور ہمیں اس پر بحث ختم کر دینی چاہیے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے درمیان نظریاتی فاصلہ وسیع ہے۔
مدیر انٹرویو: نہیں، یہ وسیع نہیں ہے، ہاں ہم اتنی بات پر متفق ہیں کہ سابقہ مقامی نصیری حکومت، خدا کا شکر ہے جس کا تختہ الٹ دیا گیا ہے، کے بارے میں یہ بات درست تھی، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اہلِ شام، اپنی کمزوری اور تقسیم کے ساتھ، بین الاقوامی برادری اور عالمی نظام کا مقابلہ کیسے کریں گے جو اب بھی شام کی سرزمین کے کچھ حصوں پر قابض ہے؟
یہ جانتے ہوئے کہ فی الحال ہم انہیں اور خطے اور دنیا کے باقی ممالک کومقامی جہاد کو اپنانے اور القاعدہ سے اس کی جڑیں کاٹنے پر نئی شامی قیادت کا زبردست خیر مقدم کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
استاذ عبدالعزیز الحلاق: میرا آپ سے ان نکات پر شدید اختلاف ہے، خطے کے ممالک اور بین الاقوامی برادری نے تنظیم القاعدہ سے کنارہ کشی پر شام کی نئی قیادت کا خیر مقدم نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے، بلکہ انہوں نے ان کا خیر مقدم اس لیے کیا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شام کی نئی قیادت اصولِ دین اور قواعدِ شرعیہ سے کنارہ کشی اور اپنے دینی، اخلاقی اور انقلابی اصولوں کو ترک کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ اس لیے آج دمشق آنے والے وفود محض ترغیبات، دھمکیوں اور ہدایات کے ساتھ وارد ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وہ گاجر پیش کرتے ہیں اور پھر دوسرے وقت میں چھڑی سے ہانکتے ہیں۔ نئی قیادت کو اب خوفناک عالمی چوری کا سامنا ہے تاکہ انہیں رام کر کے جھکایا جا سکے اور انہیں دنیا کے بین الاقوامی کلب کی شرائط پر عمل کرنے اور بین الاقوامی دائرے میں داخل کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔ اگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتےتو ہم ان کے خلاف ایک کھلی جنگ دیکھیں گے، جو شامی عوام پر اپنے دانت مسلسل ظاہر کرے گی۔ اگر میں نئی قیادت کے بھائیوں کو کوئی نصیحت کروں تو وہ یہ ہے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت پر مضبوطی سے قائم رہیں اور اپنے ایمانی اصولوں اور بنیادوں پر ثابت قدم رہیں۔
ہر وہ قدم جو نئی انتظامیہ کو لگتا ہے کہ اس سے وہ مغرب کو دھوکہ دے رہی ہے، درحقیقت اس سے وہ خود کو، اپنے عوام کو، اپنی امت کو اور اپنے نیک سپاہیوں کو دھوکہ دے رہی ہے۔ انہیں اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ انسان فطری طور پر اپنے اوہام اور خوابوں کو محفوظ رکھنے کا شوقین ہے اور واقعاتی حقائق سے دور بھاگتا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ وہ اپنے شرعی و انقلابی اصولوں کو ترک کر کے بین الاقوامی سطح پر پزیرائی حاصل کرنے کے کتنے خواہاں ہیں، انجامِ کار وہ بین الاقوامی برادری سے کچھ بھی بھلائی نہ پا سکیں گے۔ یہاں امارتِ اسلامیہ افغانستان کی قیادت میں ان کے بھائی ہیں، افغانستان کی فتح اور افغان سرزمین کی مکمل آزادی کے تین سال بعد بھی جن کا بین الاقوامی سطح پر کوئی خیر مقدم نہیں کیا گیا، لیکن اپنے ماحول میں ان کا وسیع پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا اور انہیں قبولیتِ عام حاصل ہوئی، جی ہاں! اہلِ ایمان کےخیمے میں ہر جگہ ان کا خیرمقدم کیا گیا۔ اور اگر شام کی نئی قیادت جان لے تو یہی سنہری اور حقیقی اثاثہ ہے کیونکہ مسلم ریاست تو کمزور مسلمانوں اور ان کی دعاؤں سے کامیابی حاصل کرتی ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
مدیرانٹرویو: محترم ابو اسامہ! آئیے حقیقت پسندی سے بات کرتے ہیں، جب تک ہم القاعدہ کے نظریات کے حامل رہیں گے، بین الاقوامی برادری ہمیں اقتدار اور اختیار سنبھالنے کی اجازت نہیں دے گی اور شاید آپ دیکھ رہے ہیں کہ اب شام میں کام کرنے والے القاعدہ کے ارکان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ایسے میں جبکہ ان کے مجاہدین مسلسل ہدف بنائے جا رہے ہیں، حتیٰ کہ ان کی تنظیم حراس الدین کی تحلیل کے اعلان کے بعد بھی، (ان حالات میں) آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اہلِ شام القاعدہ کے منہج کے ذریعے بڑی طاقتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: آپ کی یہ تجویز بہت عجیب ہے۔ اگر ہم اپنے قابض دشمنوں کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ ہمیں اقتدار سنبھالنے، اختیار استعمال کرنے اور ملک کو کنٹرول کرنے کی اجازت دیں تو پھر ہم نے شروع ہی سے ہتھیار اٹھائے کیوں تھے اور اس بابرکت جہادی انقلاب میں دسیوں ہزار شہداء کو پیش کیا اور اگر ہمیں واقعی یہ انتظار تھا کہ صہیونی – صلیبی قابضین ہمیں اجازت دیں گے اور ہمیں اقتدار سنبھالنے کا پروانہ دیں گے تو ہمیں تیرہ سال پہلے اپنے دین اور اسلام کو ترک کر دینا چاہیے تھا!
اس معاملے کی حقیقت کا ادراک کرنے کے لیے توجہ فرمائیں کہ آج حراس الدین نامی تنظیم کے ارکان کو اس کی تحلیل کے اعلان کے بعد بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ صہیونی – صلیبی مغرب کو ادراک ہے کہ وہ اب بھی اپنے دین کے اصولوں اور اسلام کی بنیادوں پر کاربند ہیں اور ان اصولوں میں سے کسی سے بھی انحراف نہیں کرتے۔ صہیونی – صلیبی دشمن اس کرۂ ارض پر، اپنے دین اور اس کے عظیم اصولوں پر کاربند، کسی بھی مجاہد کو نہیں چھوڑے گا چاہے وہ کسی بھی تنظیم سے تعلق رکھتا ہو، بلکہ وہ اس سے کھیلتا ہے، اس سے لاڈ پیار کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے سُدھا کر اپنے دامِ فریب میں لے آتا ہے۔ اگرچہ آپ کو لگتا ہے کہ القاعدہ سے علیحدگی مجاہدین کو صہیونی – صلیبی عذاب سے بچا لے گی، لیکن ہم سب نے دیکھا ہے کہ صہیونی – صلیبی مغرب نے علیحدگی کے فیصلے کی اجازت دینے والے یعنی شیخ ابو الخیر شہید رحمہ اللہ کو ہی نشانہ بنا ڈالا تھا، پس ہمیں ان فریب آمیز الجھنوں سے دور رہنے دیں۔
صہیونی – صلیبی مغرب اس وقت شام کے مجاہدین کو اسلامی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے امتحان میں آزما رہا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ شام کے مجاہدین اس امتحان میں ناکام ہوں گے۔ میرے پیارے بھائی آپ کو یہ جان لینا چاہیے کہ شام کے دشمن، مجاہدین کو شام کی سرزمین پر حقیقی معنوں میں کنٹرول حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اس کے بغیر تو بس خون کے سمندر ہیں، اور شوقی نے اسے اس شعر میں کہا ہے:
وللحريـــــــــــةِ الحَمْــــــــــــــرَاءِ بَابٌ
بِكُلِّ يَدٍ مُضَرَّجَةٍ يُدَقُ
آزادی کا دروازہ لہو میں تر ہے
اس پہ دستک خون میں ڈوبا ہوا ہاتھ ہی دے سکتا ہے
اسلام کے دشمن اہلِ اسلام کو، نہ حقیقی اختیار دیں گے نہ حقیقی آزادی اور نہ ہی حقیقی وطنی و قومی آزادی کی اجازت دیں گے، بلکہ وہ مسلمانوں کے سامنے، اپنی مرضی کے خلاف، صرف اس وقت جھکیں گے جب شامی مجاہدین انہیں، سیاسی، عسکری اور معاشی طور پر مقدس جنگ کی دلدل میں دھکیلنے کے بعد، تھکا کر ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، جیسا کہ افغانستان میں ہمارے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا، تب ہی دشمن مجاہدین کے کنٹرول میں آئے گا اور اپنی مرضی کے خلاف ان کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا، کیونکہ اس کے علاقائی اور عالمی مفادات کے تحفظ کی خواہش اسے مجاہدین کے ساتھ، مساوات کی بنیاد پر، تعامل کرنے پر مجبور کرے گی۔ یہ تب ہوتا ہے جب وہ میدان میں دشمن کے سامنے اپنی صلاحیتوں، قوتوں، اپنے حقوق اور اسلام کی پاسداری کو ثابت کرتے ہیں، اپنے وقار کو برقرار رکھتے ہوئے اور اپنی آزادی اور خود مختاری سے چمٹے رہتے ہیں، اور شامی مجاہدین یہ مطلوبہ صلاحیت حاصل کرنے کی زبردست قدرت رکھتے ہیں۔ اور وہ اپنی جغرافیائی سیاسی صلاحیتوں سے اپنے مفادات حاصل کر سکتے ہیں جنہیں وہ اس سلسلے میں اپنے اصولوں کے بارے میں بے قابو رعایتیں دیے بغیر استعمال کر سکتے ہیں، یا پھر اپنی، اپنے ملک کی اور اپنے نظامِ حکومت کی اسلامی شناخت کو ترک کرنے کا اعلان کر دیں، بصورت دیگر، ہم اپنے متزلزل دلوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور اپنے فرسودہ اوہام کو چاٹتے ہیں اور اپنے عوام اور ابطال کو تباہی کے مقام پر لے آتے ہیں۔
میرے پیارے بھائی، آپ کے کلام کے لہجے سے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ تنظیم القاعدہ اور امارتِ اسلامیہ کے نظریے اور دنیا پر صہیونی – صلیبی قبضے کا مقابلہ کرنے کی ان کی صلاحیتوں کو ہلکا سمجھ رہے ہیں، جبکہ فکری اور منہجی(یعنی طریقہ کار کے) لحاظ سے موجودہ شامی تجربے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ میں اس پر کچھ تبصرہ کرنا چاہتا ہوں:
-
- ہم اقتدار تک پہنچنے اور دمشق کو کنٹرول کرنے میں کامیابی کے موجودہ شامی تجربے کی طرف کیوں دیکھتے ہیں، حالانکہ ہم نے اس کے انحراف، فساد، ظلم، لڑائی اور مرحلہ وار رنگ کا تجربہ کیا ہے اور اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، جبکہ ہم اپنے نوجوانوں کو امارتِ اسلامیہ افغانستان کے تجربے سے دور کر رہے ہیں
میرا مطلب افغان تجربے کو دوبارہ پیش کرنا نہیں ہے، کیونکہ یہ تجربات ہر محاذ، خطے اور ملک کے پیچیدہ عوامل میں فرق کی وجہ سے دوبارہ پیش نہیں کیے جا سکتے، بلکہ یہاں میرا مقصد یہ ہے کہ یہ تجربات، دشمن سے تعامل، اسلوب اور طریقوں سے استفادہ اور سیاست، انتظام اور حکمرانی میں اہلِ اسلام کے طریقۂ کار سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہیں۔
ہاں، شام کا موجودہ تجربہ ایک کامیاب انقلابی نمونہ ہو سکتا ہے جس کی تقلید کی جا سکتی ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ اس تجربے کی تقلید صرف ان لوگوں کے لیے موزوں ہے جو حکمرانی، کرسی اور اختیار کے خواہش مند اور طالب ہیں، اور شاید اگر آپ ’مائلز کوپ لینڈ(Miles Copeland)‘ کی کتاب ’’دی گیم آف نیشنز(The Game of Nations)‘‘ پڑھیں (اس میں پائی جانے والی خامیوں کے باوجود اس کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا) تو آپ میرے بیان کردہ مقصود تک پہنچ جائیں گے جس کا میں اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ - ہم اپنے موجودہ بحرانوں کے بارے میں اپنی اصلاحی سوچ میں حقیقت پسندی سے کیوں بھاگتے ہیں؟ حقیقت پسندی پر قائم رہنا اور وہم، فریب اور خواہشات سے دور رہنا ہمارے اجتماعی مفاد میں ہے، جہاں تک خواب، وہم اور نعروں کا تعلق ہے تو وہ ہمیں بہت دھوکہ دیتے ہیں اور ہمارے موجودہ بحرانوں کے منطقی حل کے بارے میں ہمیں گمراہ کرتے ہیں، اس لیے ہمیں سیدھے راستے پر چلنا چاہیے اور شیطان کی راہوں اور اس کے مختلف راستوں، اور اس کے متعدد داخلی و خارجی دروازوں سے ہوشیار رہنا چاہیے جیسا کہ نسائی شریف میں بیان کیا گیا ہے:
- ہم اقتدار تک پہنچنے اور دمشق کو کنٹرول کرنے میں کامیابی کے موجودہ شامی تجربے کی طرف کیوں دیکھتے ہیں، حالانکہ ہم نے اس کے انحراف، فساد، ظلم، لڑائی اور مرحلہ وار رنگ کا تجربہ کیا ہے اور اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، جبکہ ہم اپنے نوجوانوں کو امارتِ اسلامیہ افغانستان کے تجربے سے دور کر رہے ہیں
خَطَّ رَسُولُ اللهِ اللهِ خَطَّا، وَخَطَّ عَنْ يَمِينِ الْخَطِ وَعَنْ شِمَالِهِ خُطَطًا ثُمَّ قَالَ: «هَذَا صِرَاطُ اللَّهِ مُسْتَقِيمًا، وَهَذِهِ السُّبُلُ عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ، ثُمَّ قَرَأَ: ﴿ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۵۳ ﴾(الأنعام:۱۵۳)
رسول اللہ ﷺ نے ایک لکیر کھینچی، پھر اس کے دائیں بائیں کچھ اور لکیریں کھینچیں، پھر فرمایا: ’’یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے اور یہ مختلف راستے ہیں جن میں سے ہر راستے پر شیطان بیٹھا ہے اور ان راستوں پر چلنے کی طرف بلاتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’یہ میرا سیدھا راستہ ہے سو اس کی پیروی کرو، دوسرے راستوں پر نہ چلو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کر دیں گے، ان باتوں کا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘۔‘‘
صہیونی – صلیبی مغرب ہمارے زمانے میں شیطان کے مظاہر میں سے ایک ہے اور اسی وجہ سے وہ ابلیس لعین کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جو اس نے ہمارے جد امجد حضرت آدم کو بہکانے میں استعمال کی تھی۔ اس حکمت عملی کے تین ستون ہیں:
-
- وسوسہ: (فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ) پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا۔
- قسمیں کھا کر یقین دلانا: (وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ) اور ان کے سامنے اس نے بار بار قسم کھا کر کہا کہ بے شک میں تمہارے خیر خواہوں میں سے ہوں۔
- دھوکہ دینا: (فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ) اس طرح اس نے دونوں کو دھوکے سے نیچے اتار ہی لیا۔
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وٗرِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ وَقَاسَمَهُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ ۙ فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ۭوَنَادٰىهُمَا رَبُّهُمَآ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ لَّكُمَآ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ
’’پھر شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا، تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ان سے پوشیده تھیں، ایک دوسرے کے سامنے کھول دے اور کہنے لگا تمہارے پروردگار نے تم دونوں کو اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ بن جاؤ، یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ۔ اور ان کے سامنے اس نے بار بار قسم کھا کر کہا کہ بے شک میں تمہارے خیر خواہوں میں سے ہوں۔ اس طرح اس نے دونوں کو دھوکے سے نیچے اتار ہی لیا، سو جب ان دونوں نے اس درخت کا مزہ چکھا تو ان دونوں کی شرم گاہیں ایک دوسرے پر کھل گئیں اور وہ دونوں جنت کے پتے توڑ توڑ کر اپنے بدن پر چپکانے لگے اور ان کے پروردگار نے ان کو آواز دی کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے۔‘‘
عقل مند وہ ہے جو سیدھی راہ پر چلے اور رب العالمین کی شریعت کے مطابق حکومت کرے۔ ہم اللہ سے مدد، استقامت اور توفیق مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
مدیر انٹرویو: استاذِ محترم! آپ کے ساتھ اپنے مکالمے کے پہلے حصے میں ہمارا وقت ختم ہو رہا ہے، اور صرف پانچ منٹ میرے پاس ہیں، لہٰذا یہ مناسب ہوگا کہ آپ شامی جہاد کے مستقبل کے بارے میں اپنے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے اس کا اختتام کریں، ہم آپ کے ساتھ دوسری قسط میں موجودہ سوالات اور مسائل کے بارے میں مکالمہ مکمل کریں، ان شاء اللہ۔
شام کے منظر نامے پر آپ کے منطقی خدشات کیا ہیں؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی شامی قیادت اور شامی عوام کے بارے میں اس چیز سے ڈرتا ہوں جس سے ہمارے نبی ﷺ اپنی امت کے بارے میں ڈرتے تھے، چنانچہ بزار، طبرانی، شہاب قضائی وغیرہ میں اسنادِ حسن کے ساتھ مروی ہے:
عن عمرو بن عوف المزني له قال: سَمِعْتُ رَسُولَ الله ﷺ يَقُولُ: «إِنِّي أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي مِنْ ثَلَاثٍ: مِنْ زَلَةِ عَالِمِ، وَمِنْ هَوَى مُتَبَعٍ، وَمِنْ حُكْمِ جَائِرٍ»، وفي رواية: «إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي مِن بَعْدِي أَعْمَالًا ثَلَاثَةً..»
حضرت عمرو بن عوف مزنی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’بے شک مجھے اپنے بعد اپنی امت پر تین کاموں کا خوف ہے: عالِم کے پھسل جانے، خواہشات کی پیروی اور ظالم حکمران کا۔‘‘
اور صحیح مسلم میں ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَن النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: «إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا، لِيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ، فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ، فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ فِي النِّسَاءِ»
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ دنیا بہت میٹھی اور ہری بھری ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں جانشیں بنانے والا ہے، پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو، لہٰذا تم دنیا سےبچتے رہنا اور عورتوں (کے فتنے میں مبتلا ہونے )سے بچ کر رہنا، اس لیے کہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں (کے معاملے) میں تھا۔‘‘
اور صحیح مسلم میں ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا قَالُوا: وَمَا زَهْرَةُ الدُّنْيَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «بَرَكَاتُ الْأَرْضِ» (قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، وَهَلْ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِ؟ قَالَ: «لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بالْخَيْرِ، لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ»
حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ اور اندیشہ دنیا کی اس شادابی اور زینت سے ہے جو اللہ تعا لیٰ تمہیں دے گا۔‘‘ صحابہ نے عرض کی ’’دنیا کی شادابی اور زینت کیا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’زمین کی برکات۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا خیر شر کے لانے کا سبب بن جاتی ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لاتی، خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لاتی، خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لاتی۔‘‘
اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ وَلَكِنْ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا وَتُلْهِيَكُمْ كَمَا أَهْتَهُمْ
’’اللہ کی قسم! فقر و محتاجی وہ چیز نہیں ہے جس سے میں تمہارے متعلق ڈرتا ہوں بلکہ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کر دی جائے گی، جس طرح ان لوگوں پر کر دی گئی تھی جو تم سے پہلے تھے اور تم بھی اس کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اسی طرح کوشش کرو گے جس طرح وہ کرتے تھے اور تمہیں بھی اسی طرح غافل کر دے گی جس طرح ان کو غافل کیا تھا۔‘‘
جلیل القدر شیخ اور عظیم عالم ابو قتادہ فلسطینی ﷿نے چند صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ لکھا ہے جس کا عنوان ہے ’’ورقة في البعث الحضاري وبيئته‘‘ (تہذیبی احیا اور اس کے ماحول پر ایک مقالہ)۔ اس میں انہوں نے اس عظیم حدیث کی بہترین شرح کی ہے، یہ ایک قیمتی کتاب ہے جسے اس دور کے لوگوں کو اس غیر مستحکم مرحلے پر پڑھنا چاہیے۔
میرے پیارے بھائی! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کو جس چیز کا خدشہ تھا، شام میں بہت پہلے اور دو ماہ قبل (یعنی بوقتِ انٹرویو)دمشق کی آزادی کے دوران، ہم اس تک پہنچ گئے تھے اور آج ہم بہت سے نظریاتی، شرعی اور جہادی قائدین کو خوش ہوتے ہوئے، جشن مناتے ہوئے اور وہی گاتے ہوئے دیکھتے ہیں جو امیر احمد شوقی نے مصطفی کمال اتاترک کی حمایت اور تعریف کرتے ہوئے گایا تھا:
الله أكبر كم في الفتح من عَجَبِ
يَا «أَحْمَدَ الشَّرْعِ» جَدِدْ أَحْمَدَ العَرَبِ
حَذَوْتَ حَذْوَ صَلَاحِ الدِّينِ فِي
فيه القِتَالُ بِلَا شَرْعِ وَلَا أَدَبِ
اللہ اکبر، فتح میں کتنے عجائبات ہیں
اے ’احمد الشرع‘ جدید احمد العرب
تم نے صلاح الدین کی مثال کی پیروی کی
لڑائی میں نہ شریعت کا خیال کیا اور نہ ہی اخلاق و آداب کا
پھر دھوکہ کھا جانے کے بعد، امت نے مصطفیٰ کمال اتاترک میں ارتداد، کفر اور زندقہ کی نشانیاں دیکھیں۔ میرے پیارے بھائی! میں امید کرتا ہوں کہ ہم اسے بہت دور نہیں سمجھیں گے، کیونکہ آج ہم اس زمانے میں ہیں جس کی خبر ہمیں ہمارے پیارے نبی ﷺ نے دی تھی۔
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تَكُونُ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنْ كَقِطَعِ اللَّيْلِ المُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ أَقْوَامٌ دِينَهُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا3
’’قیامت سے پہلے سخت تاریک رات کی طرح فتنے (ظاہر) ہوں گے، جن میں آدمی صبح کو مومن ہو گا تو شام میں کافر ہو جائے گا، شام میں مومن ہو گا تو صبح کو کافر ہو جائے گا، دنیاوی ساز و سامان کے بدلے کچھ لوگ اپنا دین بیچ ڈالیں گے۔‘‘
اندلس کی تاریخ نے ہمارے لیے یہ واقعہ محفوظ کر لیا ہے کہ مجاہدین کے بہت سے امراء اور قائدین نے پہلے تو قسطلیہ (ہسپانیہ) کے امراء کی چاپلوسی کی، پھر انہوں نے واضح ارتداد اختیار کیا اور اللہ کے دین سے صریحاً مرتد ہو گئے، نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے عیسائیت اختیار کر لی اور صلیب پہن لی اور غرناطہ و قرطبہ کے گرجا گھروں میں بپتسمہ لیا، جبکہ اس سے قبل وہ لوگ توحید و جہاد کے اماموں اور شہادت کے طالبوں میں شمار ہوتے تھے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی صفاتِ احسان، لطف و کرم اور رحمت کے واسطے سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اہلِ شام پر رحم فرمائے، ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم پر اور شام میں ہمارے لوگوں پر اپنا لطف و کرم عنایت فرمائے اور اقامتِ دین اور رب العالمین کی شریعت کے نفاذ کے ساتھ ہمارے خوابوں کو پورا فرمائے اور اسلامی امیدوں کو مایوس نہ فرمائے اور ہمیں اور ہماری امت کو، جس نے اس بابرکت جہاد کی مدد و نصرت کی، مایوس نہ کرے۔
میں اپنے علماء اور مشائخ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرضِ عین کو احسن طریقے سے ادا کرتے رہیں، نصیحت و ارشاد، اور احتساب و رہنمائی جیسے فرائض ادا کرتے رہیں، اور یہ یاد رکھیں کہ ہم پر، حکمران پر، حکومت پر اور عوام پر غرض سب پر علم اور علماء کی شرعی ولایت و سرپرستی ہے، لہذا انہیں اس دینی آسمانی سرپرستی کو قائم رکھنا چاہیے تاکہ ہم انہیں کل شوقی کے رونے اور پیٹنے کی طرح روتے پیٹتے نہ دیکھیں۔
وہ روتے پیٹتے کہتا ہے جبکہ قوم بھی اس کے ساتھ روتی ہے:
بَكَتِ الصَّلاةُ وَتِلْكَ فِتْنَةُ عابث
بالشرع عربيــــد القضــــاء وقـــــاح
أفتى خُزَعيلَةً وَقَالَ ضَلالَةً
وأتى بكفر في البِلادِ بَواحِ
إِنَّ الغُرور سقى الرئيس براحه
كيف احتيالك في صريع الـراح
نَقَلَ الشرائع والعَقَائِدَ وَالقُرى
هُمْ أَطلقوا يَدَهُ كَقَيْصَرَ فِيهُمُ
والناس نقل كتائِب في الساح
حَتَّى تَناوَلَ كُلَّ غَيرِ مُبــــاح
غرته طاعات الجموع وَدَولَةٌ
وَجَدَ السَوادُ لَهــا هـــوى المرتاح
فَلتَسمَعُنَّ بِكُلِّ أَرضِ دَاعِيـــــــا
يدعو إلى الكَذَّابِ أَو لِسَجاحِ
وَلتَشهَدُنَّ بِكُلِّ أَرضِ فِتَنَةً
فيها يُباع الدينُ بَيعَ سَماح
يفتى على ذَهَبِ الْمُعِزّ وَسَيفِهِ
وهوى النفوس وحقدها الملحــاح
’’نماز رونے پر مجبور ہوئی اور یہ ایک ایسا فتنہ ہے جو شریعت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والا، عدل و انصاف کا مذاق اڑانے والا اور بے حیائی سے بھرپور ہے۔
درباری مولوی نے فتویٰ دیا، گمراہی کی باتیں کیں، اور ملک میں سرِ عام کفر کو رواج دیا۔
تکبر نے حاکم کو نشے میں چُور کر دیا، پس اب تم بتاؤ، تم نشے میں گرے ہوئے شخص کے ساتھ کیسا فریب کرو گے؟
اس نے شریعت، عقائد اور مملکتوں کے اصول بدل ڈالے، وہ ایسے آزاد ہو گیا جیسے قیصر کو مکمل اختیار حاصل ہو۔
لوگوں کو فوجی دستوں کی طرح ساحل کی طرف روانہ کیا، یہاں تک کہ ہر حرام چیز کو حلال سمجھ کر استعمال کیا جانے لگا۔
اسے لوگوں کی اطاعت اور ریاست کی طاقت نے دھوکے میں ڈال دیا، اور سادہ لوح عوام نے بھی اس کو اپنا محبوب بنا لیا۔
تم ہر جگہ کسی نہ کسی منادی کو پاؤ گو جو کسی کذاب نبی یا سجاح ( جھوٹی نبوت کی دعویدار عورت) کی طرف بلاتا ہو گا۔
اور تم ہر جگہ کوئی نہ کوئی فتنہ دیکھو گے، جہاں دین کو کھلے عام بیچا جا رہا ہو گا۔
آج فتویٰ زر، تلواروں، خواہشاتِ نفس اور دل میں چھپے انتقامی جذبات کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔‘‘
مدیر انٹرویو: استاذِ محترم عبدالعزیز الحلاق اللہ آپ کی زندگی میں برکت عطا فرمائے اور اسلام اور مسلمانوں کو آپ سے فائدہ پہنچائے، حقیقت یہ ہے کہ آپ کے ساتھ مکالمہ بہت خوشگوار اور مفید رہا اور میری خواہش ہے کہ ہم جہادِ شام کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کے لیے مزید وقت نکالیں۔ لیکن ان شاء اللہ ہم اپنی ملاقات کی اگلی قسط میں آپ کے ساتھ مکالمے اور گفتگو کا انتظار کریں گے اور آنے والی ملاقات اور مکالمے تک ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں، آپ کو اور تمام مسلمانوں کو ہدایت و رہنمائی عطا فرمائے اور ہماری امت اور ہمارے شامی عوام کے لیے خیر کا معاملہ فرمائے، جس میں اطاعت کرنے والوں کو عزت نصیب ہو اور اہلِ کفر و شرک کو ذلت ملے اور نافرمانی کرنے والوں کو ہدایت عطا ہو اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
٭٭٭٭٭
1 صحیح بخاری
2 صحیح بخاری
3 الترمذي