ذرا سوچیے، پلیز!

چلیں فرض کرتے ہیں… کہ مصر کے چند نوجوان اُن مصری جلادوں کے خلاف حملے شروع کردیتے ہیں جو غزہ کا بارڈر سیل کیے ہوئے ہیں۔جو غزہ کے بمباریاں سہتے معصوموں پر روٹی کا ایک ٹکڑا بھی بند کیے بیٹھے ہیں۔ اگر غزہ کے اپنے بھائیوں کی مدد کی خاطر یہ مصری نوجوان سیسی کی افواج کے خلاف جہاد شروع کردیں، تو کیا ہوگا؟ پوری دنیا کے لیے یہ نوجوان رول ماڈل بن جائیں گے۔ لوگ ان کی مدحتوں میں قصیدے کہیں گے۔ ان کو ابطالِ اسلام کہیں گے۔ اور وہ یوں کیوں نہ کریں کیونکہ یہی تو غزہ کو آزادی دلوانے کا عقلی اور شرعی راستہ ہے۔

چلیں مصر نہ سہی آپ اردن کا تصور کر لیں۔ اردن کی فوج بھی مصر سے کسی صورت کم نہیں۔ اگر حکومتِ اردن کی اسرائیل کی خاموش حمایت کے سبب اس کے خلاف مسلمان عوام داخلی طور پر جہاد شروع کر دیں … تو پھر وہی مدحتیں ، قصیدے اور واہ واہ ہوگی۔ یہی صورت شام ، لبنان اور دائیں بائیں کے دیگر ممالک میں جہاد کی صورت میں بھی دیکھنے کو ملے گی۔ اللہ ان نوجوانوں کو فتوحات عطا کرے۔ مگر ایک چیز کا خدشہ رہے گا کہ سیسی، شاہ عبد اللہ اور بشار کے خلاف کھڑے ہونے والے نوجوانوں کے خلاف اپنے ہی ممالک سے چند بکے ہوئے درباریوں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو جائیں گی۔’ یہ اس ملک کا امن خراب کر رہے ہیں۔ اپنے ہی فوجیوں کو مارنا کہاں کا اسلام ہے۔ اسلام ہمیں تشدد کا راستہ نہیں سکھاتا۔ ہمیں بھی فوج کی پالیسیوں سے اختلاف ہے لیکن یہ طریقۂ کار ٹھیک نہیں۔‘ پھر کچھ عرصے بعد شاید ان درباریوں کی زبانیں اور کھل جائیں۔ شاید پھر مصر میں اس نعرے کی بازگشت ہونے لگے کہ ’یہ لوگ خوارج ہیں… ان کو قتل کرنا چاہیے۔ ‘الغرض ہر قسم کا شور شرابا آپ کو سننے کو مل سکتاہے۔ لیکن اس شور شرابے کے پیچھے اگر حق آواز کچھ دیر کے لیے دب جائے تو وہ حق کہیں باطل نہیں بن جاتا ہے۔ بلکہ حق تو ہوتا ہی باطل کے ازالے کے لیے ہے۔

یہ واقعہ بیس سال سے کچھ پہلے کا ہے۔ایک ملک تھا افغانستان جہاں اسلام کی حکومت تھی۔ ادھر بھی غزہ کی طرح چند نوجوان جذبے والے تھے۔ جذبے کوعربی میں حماس کہتے ہیں۔ ان متحمسین نے بھی طوفان الاقصیٰ کی طرح امریکا میں ایک طوفان مچایا تھا۔ امریکہ کے پوری دنیا پر قبضے کو مستحکم کرنے والے ادارے کے ہیڈکوارٹر پینٹاگون سے ان نوجوانوں نے طیارہ ٹکرایا تھا۔ اس کے سب سے بڑے اقتصادی مرکز ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو تباہ کیا تھا۔ پھر امریکہ بھی اسرائیل کی طرح افغانستان پر چڑھ دوڑا ۔ جس طرح مصر کی افواج نے آج غزہ کے مسلمانوں پر ہر قسم کا امدادی سامان بند کر دیا ہے، اسی طرح افغانستان کے ہمسایہ ملک پاکستان نے بھی افغانستان سے تمام تعلقات بند کر لیے تھے۔ صرف تعلقات ہی بند نہیں کیے بلکہ بندے بھی بند کردیے۔ انہیں امریکا کے حوالے کیا۔ کچھ کو قتل کر دیا۔ امریکا کو اپنے ہوائی اڈے فراہم کیے۔ اپنی بندرگاہوں پر امریکی جہاز اسلحے اور گولہ بارود سمیت لنگر انداز ہونے دیے۔ صلیبیوں کے قافلے در قافلے پاکستان کی زمینوں کو روندتے ہوئے افغانی مسلمانوں کے قتل کے لیے جانے لگے۔کہتے ہیں کہ جو طیارے افغانستان کے مسلمانوں پر گرجتے اور برستے تھے انہوں نے وطنِ عزیز کی زمین کو ستاون ہزار مرتبہ پروازوں کے لیے استعمال کیا۔

پھر چند نوجوان یہ سب کچھ برداشت نہ کرسکے۔ ان کی غیرتِ ایمانی نے جوش کھایا اور انہوں نے اس ظالم فوج اور حکومت کے خلاف جہاد شروع کردیا جو کفر کی فرنٹ لائن اتحادی تھی۔ ان کی ان ضربوں کی برکت سے افغانستان پر امریکیوں کی گرفت کم ہونے لگی۔ اُدھر موجود ’مزاحمتی تحریک‘ کو ان نوجوانوں کے جہاد سے بے شمار فائدے حاصل ہونے لگے۔ شروع میں ان نوجوانوں کی بھی بہت واہ واہ ہوئی لیکن کچھ عرصے کے لیے پھر سے ان درباریوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ’یہ تو سلطانِ مسلمین کے خلاف خروج ہے‘۔ ’ہمیں بد امنی پھیلانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹنا ہوگا‘۔ الغرض بھانت بھانت کی بولیاں تھیں اور نِت نئے منہ! لیکن یہ نوجوان اپنوں کے نشتر اور غیروں کے میزائل برداشت کرتے رہے۔ اللہ ان نوجوانوں کو بھی جزائے خیر دے جنہوں نے پاکستان کے مقدس جہاد کی بنیاد رکھی اور ان نوجوانوں کو بھی جزائے خیر دےجو مصر، اردن، لبنان اور فلسطین کے دیگر ہمسایہ ممالک میں مقدس جہاد کی بنیاد رکھنے جارہے ہیں۔

یہ دونوں ہی ان شاء اللہ کامیاب ہوں گے۔ مشکلات لاکھوں آئیں… مصیبتیں در مصیبتیں جھیلنی پڑیں لیکن راستہ یہی ہے۔ ان خائن و بے ناموس اور بکے ہوئے غلاموں کے سروں کی فصلیں جب تک کاٹی نہیں جائیں گی… نہ تو غزہ و فلسطین آزاد ہوسکتے ہیں اورنہ ہی افغانستان اس کے بغیر آزاد ہو پایا ہے۔ پاکستان فوج کی خیانتیں ہوں یا افغانستان کی غدار ملی فوج کی خباثتیں … امریکہ کے ساتھ ساتھ ان دونوں خائنین کے خلاف قتال ہی سے افغانستان کو آزادی ملی ہے۔

۱۵ اگست ۲۰۲۱ … یومِ فتح کابل تک اور پھر فتحِ پنج شیر تک ایک دن کے لیے بھی ان مقامی خائنوں کے خلاف قتال نہیں روکا گیا۔ کیا اس سب قصے میں عقل والوں کے لیے کوئی رہنمائی موجود ہے؟!!ذرا سوچیے، پلیز…!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version