اسلام کا قلعہ

بچپن کی بات ہے جب میں غالبا ًدوسری یا تیسری کلاس میں پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا۔ ہماری کلاس کی ٹیچر نے سب بچوں سے پوچھا کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ کسی نے کہا ڈاکٹر بنوں گا، کسی نے کہا پائلٹ بنوں گا، تو کسی نے کہا انجینئر……

جب میری باری آئی تو میرا جواب سب سے الگ تھا میں نے کہا میں فوجی بنوں گا……

ہم بچپن ہی سے سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور یہ فوج اس کی محافظ ہے۔ یہ بھرم لگ بھگ بیس سال تک قائم رہا۔ پہلی دفعہ اس میں دراڑ اس وقت پڑی جب میں کشمیر ی معسکر میں تھا۔ وہاں کچھ مجاہدین سے ملاقات ہوئی جو مقبوضہ کشمیر سے آئے تھے اور کوٹ بلوال جیل توڑ کر نکلے تھے۔ ان کے نام خالد اور عرفان تھے۔ خالد نے اس وقت کہا کہ ہماری ایجنسیاں اور فوج کشمیر کو آزاد ہی نہیں کر وانا چاہتیں، ان کا مقصد تو صرف کشمیر میں بھارتی فوج کو مصروف رکھنا اور پاکستان میں جذبۂ جہاد رکھنے والوں کو بھی کشمیر میں مصروف رکھنا ہے اوربس۔ اس کے کچھ عرصے بعد میرا اپنے ایک عزیز کے پاس جانا ہوا جو رینجرز میں ہوتے تھے اور واہگہ بارڈر پر تعینات تھے۔ وہاں ایک نائب صوبیدار سطح کے فرد سے( رینجر میں سب انسپکٹر) کے منہ سے یہ بات سنی کہ جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کا ماحول بن گیا، یہ غالباً ۱۹۹۸ء یا ۱۹۹۹ء کی بات ہے، تو ہمارے جرنیلوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے۔ وہ کسی بھی قیمت پر جنگ روکنا چاہتے تھے ، کسی بھی قیمت پر……

یہاں مجھے تاریخ کا ایک واقعہ یاد آتا ہے جب تاتاریوں نے چنگیز خان کی قیادت میں ۲۰ ہزار کی تعداد کے ساتھ محمد شاہ خوارزم پر حملہ کیا تو محمد شاہ خوارزم کے لشکر کی تعداد تین لاکھ تھی اور وہ جنگ سے بھاگ رہا تھا اور بھاگتے بھاگتے ہی مر گیا۔ جبکہ اسی کا بیٹا جلال الدین مرتے دم تک مزاحمت کرتا رہا۔ تاریخ آج محمد شاہ خوارزم کو ایک شکست خوردہ بھگوڑہ کے طور پر ہی یاد رکھتی ہے جبکہ جلال الدین کو ایک شیر، ہیرو اور ایک بطل کے طور پر یاد کیا جا تا ہے۔ خیر بات چل رہی تھی اسلام کے قلعہ اور اس کی محافظ فوج کی۔

اور یہ بھرم مکمل طور پر اس وقت ٹوٹا جب صلیبی لشکروں نے امارت اسلامیہ افغانستان پر حملہ کر دیا اور پاکستانی افواج اس صلیبی لشکر کی اتحادی ٹھہریں، صلیبی لشکر کو ہر طرح کی مدد فراہم کی…… ہوائی اڈے دیے، رسد کے لیے محفوظ راستے دیے اور مجاہدین کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا۔

آج جب غزہ پر پھر سے ایک صلیبی صہیونی جنگ جاری ہے، تو جہاں ایک طرف امریکہ سمیت تمام صلیبی ممالک اسرائیل کی عملاً مدد کر رہے ہیں، امریکی صدر ، برطانیہ کا وزیر اعظم ، فرانس و جرمنی کے صدر و چانسلر اسرائیل کا خود دورہ کر چکے ہیں، مدد کی یقین دہانی کراچکے ہیں، بلکہ برطانیہ کا وزیراعظم تو فوجی طیارے میں جنگی سازو سامان سمیت اسرائیل آیا۔

وہیں دوسری طرف پاکستان سمیت اسلامی دنیا کے حکمرانوں کا عمل سب کے سامنے ہے۔او آئی سی اور عرب لیگ کے اجلاس ہوئے، اسرائیل کے خلاف ایک قرار داد بھی متفقہ طور پر منظور نہیں کر سکے۔

یہ مسلم ممالک کی اسّی لاکھ افواج، یہ غوری، غزنوی جیسے مختلف میزائل، ایف سولہ، جے ایف تھنڈر طیارے، یہ خالد، ضرار ٹینک کس کام کے ہیں……؟ یہ افواج لال مسجد پر شریعت کا مطالبہ کرنے والی معصوم بچیوں پر ہی شیر ہیں……انہی پر فاسفورس بم بر ساتی ہیں……

سوات و وزیرستان میں مسلم عوام پر بم برساتی ہیں……

مجاہدین کو تو الحمد للہ بہت زمانہ قبل اس بات کا ادراک ہو گیا تھا کہ یہ تمام ۵۷ ممالک کی افواج اسلام کا قلعہ نہیں ، نہ اس کی محافظ ہیں بلکہ یہ کفار کے قلعوں میں سے ایک حفاظتی قلعہ ہیں ۔

مجاہدین کو تو اس بات پر نہ حیرت ہے اور نہ افسوس کہ مسلم ممالک کی افواج کچھ نہیں کر رہیں……

مگر افسوس اس بات پر ضرور ہے کہ اب بھی ہمارے بہت سے دانشوراور پاکستانی عوام کی بڑی تعداد کو انہی افواج سے امید ہے کہ یہ کچھ کریں گے…… پتہ نہیں ان کا یہ بھرم کب ٹوٹے گا ؟ ان سے کب امید ختم ہوگی……؟

تمام دنیا کے مجاہدین اس وقت غزہ کے مجاہدین ، عورتوں ، بچوں کی مدد کو جانے کے لیے بے تاب ہیں اور یہی اسّی لاکھ افواج کفار کے لیے دفاعی قلعہ ثابت ہو رہی ہیں، مجاہدین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی افواج ہیں……

آج یہ نام نہاد اسلامی ممالک مجاہدین کو راستہ دے دیں، مجاہدین فلسطین و کشمیر میں اپنے بھائیوں کی مدد کو پہنچنے کے لیے بے تاب ہیں ۔ ہندو برما ہو یا مشرقی ترکستان کے مسلمان ، ہر محاذ پر مجاہدین مظلوموں ، مسلمانوں کی مدد کو تڑپ رہے ہیں ۔

اس دفعہ تو جہاد فرضِ عین ہونے کے فتاوٰی تمام دنیا کے علماء نے دیے ہیں جبکہ جہاد توپہلے بھی فرضِ عین تھا۔ خصوصاً پاکستان کے لوگوں پر جب امریکہ کی سرکردگی میں صلیبی لشکر افغانستان میں امارت اسلامیہ پر حملہ آور ہوا تھا۔ لیکن اس وقت میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے اس کو متنازع بنانے کی کوشش کی جس کے زیر اثر عوام رہے اس کے باوجود پوری دنیا سے مجاہدین یعنی برطانیہ، امریکہ ، آسٹریلیا ، کینڈا حتی کہ دنیا کے ہر کونے سے مجاہدین پہنچے۔ اس وقت بھی راستے نہیں تھے، مشکلات تھیں، لیکن جنہوں نے پہنچنا تھا، جن میں تڑپ تھی، وہ پہنچے، اپنا فرض ادا کیا اور اپنے خون سے اس سرزمین کو رنگین کیا اور اللہ تعالی نے شہدا کے خون کی برکت سے عظیم فتح عطا کی۔

اب تو جہاد فرض عین ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں رہ گیا اور اب یہ خوش فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ ۵۷ ممالک کی اسی لاکھ افواج حرکت میں آئیں گی۔ یہ غوری ، غزنوی میزائل یا ایٹم بم یا ایف سولہ یا جے ایف تھنڈر طیارے یا الخالد و ضرار ٹینک امت کے کسی کام کے نہیں۔

کل قیامت کے روز کیا ہم یہ عذر پیش کر سکیں گیں کہ یہ جنگ لڑنا تو فوجوں کا کام تھا اسلیے ہم نے جہاد نہیں کیا؟

٭٭٭٭٭

Exit mobile version