تبدیلی کا راستہ

وطن عزیز کے ناگفتہ بہ حالات اور ان میں منعقد ہونے والے انتخابات، کیا ہونا چاہیے اور کیا ہوگا؟ اس موضوع پر اس وقت سبھی طبقات کی طرف سے بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ کئی مرتبہ سوچا گیا کہ کچھ لکھا جائے، مگر ہر دفعہ اس خیال کے سبب یہ سوچ عمل میں نہ ڈھل سکی کہ زبان وبیان کی اس ہنگامہ خیزی میں کیا اضافہ کرنا؟ اور کیا ہمارا اضافہ کچھ افادیت بھی رکھے گا یا نہیں؟تاہم پھر ابلاغِ دین کی مسؤولیت اور الدین النصیحہ کے حکم نبوی [علی صاحبہ الصلوۃ والسلام] نے مجبور کردیا کہ جس بات کو دین اور عقل کے لحاظ سے درست اور برحق جانا ہے، اسے اپنی قوم اور ملت تک پہنچایا جائے۔

بات کو مختصر رکھتے ہوئے دو نکات بیان کرنے کا ارادہ ہے۔ ایک نقطہ تو سیاست سے تعلق رکھنے والے حضرات کو مخاطب ہے، جبکہ دوسرانقطہ وطنِ عزیز کے اہلِ دین [جماعات، علماء ومدارس، عوام] سے مخاطب ہے، اگرچہ دونوں نکات ہر دو طبقات کے لیے ہیں۔

پہلا نقطہ ایک حقیقت کا بیان ہے جسے اگرچہ ہر ایک پاکستانی جانتا ہے، مگر بعض وقتی مصالح اور شخصی مفادات کی خاطر اس حقیقت سے صرفِ نظر کرلیا جاتا ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں جمہوری انتخابات، جمہوریت کی روح سے عاری، اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور من مانی کو نافذ کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں الیکشن کے نتیجے میں وہی حکومت قائم ہوتی ہے اور وہی لوگ حکمراں بنتے ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ پہلے سے منتخب کرچکی ہوتی ہے، تاکہ اسٹیبلشمنٹ کی دھونس اور استبداد کو جاری رکھنے کے لیے عوامی مہرے دستیاب ہوجائیں۔ اور اسٹیبلشمنٹ ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جو ان ریاستوں سے اوپر موجودہ عالمی طاقتوں کی خواہشات اور پالیسیوں کو جاری رکھنے کا دم بھرتے ہیں۔ آج کی عقلیت اور صحافتی آزادی کے دور میں یہ ایک معلوم حقیقت ہے، مگر تعجب ہے کہ جمہوریت کا دم بھرنے اور جمہوری اقدار کی بالادستی کا دعویٰ کرنے والے افراد اور جماعتیں سب سے پہلے، اپنے نظریات کا خون کرکے، اس حقیقت سے نظریں چراتی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے دامِ فریب میں جا پھنستی ہیں۔ بعض لوگوں کا مطمع نظر تو شخصی مفاد ہی ہوتا ہے، جمہوری اقدار اور ملک وقوم کے خوشحالی کے منشور ایسوں کے یہاں وہ دعوے ہوتے ہیں جنہیں استعمال کرکے اپنا شخصی مفاد پورا کرلیا جائے۔ تاہم بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو یہ سوچ کر مداہنت کرلیتے ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ اسٹیبلشمنٹ کا زور توڑ دیں گے، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ایسا آج تک کہاں دیکھنے میں آیا ہے؟ خود پاکستان کی تاریخ میں ایسا کب ہوا؟ آج تک کی جمہوری حکومتوں نے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کی مرضی چلائی ہے اور جہاں اس سے ہٹنے کی کوشش کی گئی تو خود حکومت ہی باقی نہ رہی۔

انتہائی افسوس کی بات ہے کہ یہ تجربہ رکھنے والے خود دوبارہ تجربہ کرنے کو، بلکہ تجربہ بننے کو آمادہ ہوتے ہیں، اور ملک کے حالات بدتر سے بدترین ہوجاتے ہیں۔ کیا سمجھنے کی بات یہ نہیں کہ ہمارے ملکوں میں تبدیلی کا راستہ یہ نہیں ہےجو اپنایا جاتا ہے اور در حقیقت یہ ایک نا کام تجربہ دہرایا جاتا ہے؟ بلکہ تبدیلی کا راستہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو تبدیل کیا جائےاور ہر اس شخص کو جو ملک و قوم کا غدار اور غیروں (عالمی طاغوتوں ) کا وفادار ہو، اس سے چھٹکاراحاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ وطنِ عزیز میں موجود اس قوت کا پہلے مقابلہ کیا جائےجو اپنے وطن سے مخلص نہیں ہے، اور اس کی جگہ ایسی صالح قوت فراہم کی جائے جو اسلام سے بھی مخلص ہو اور اپنے ملک و قوم کا مفاد بھی اسے عزیز ہو۔ الیکشنوں میں چہروں کی تبدیلی سےکچھ حاصل نہ ہو گا، بلکہ الٹا انفرادی اور اجتماعی سطح پر مزید آفتوں، حادثات اور کوارث کا شکار ہوں گے، والعیاذ باللہ۔

دوسرا نقطہ اہلِ دین سے مخاطب یہ ہے کہ آج پھر سے ہمیں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ دین کے نقطۂ نظر سے ہم ملک میں کیا تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور اس تبدیلی کے لیے ملک میں رائج انتخاباتی سیاست کا راستہ کتنا کارگر ہے؟ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر ہی بنا ہے اور اسے اسلام کا گہوارہ بنانے کی بنیادی ذمہ داری بھی اہل ِدین طبقہ پر ہی عائد ہوتی ہے، اس لیے ذرا تفصیل سے اس نقطے پر بات کرتے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ بہت سے اہلِ دین حضرات اور اہلِ علم جمہوری نظام کو موجودہ دور میں جائز متبادل کے طور پرقبول کر رہے ہیں۔ یہ سوچ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بنتی گئی۔ ہمارے خطے ہی کو دیکھیں تو آغاز میں علمائے کرام اضطرار اور أھون البلیتین کے اصول کے تحت اس میں شامل ہونے پر مجبور ہوئے تھے1، جیسا کہ شیخ الاسلام حضرت مدنی﷫2 اور شیخ الاسلام علامہ عثمانی﷫3 کی تصریحات موجود ہیں۔ بعد میں علمائے کرام نے چاہا کہ جمہوریت کے اسلام مخالف اصولوں کو تبدیل کر کے اسلام موافق بنایا جائے اور اس کے سبب انتخابِ ممبران اور قانون سازی کے باب میں قدغنیں لگائی گئیں، مگر واقعاتی حقیقت یہ رہی کہ ایسی کوئی تبدیلی عملاً رونما نہ ہوئی، گو اس کے باوجود جمہوری نظام ’اسلامی‘ ہو گیا۔ یہ دیکھتے ہوئے بہت سے اکابر علمائے کرام اس کھیل تماشے سے لا تعلق ہو گئے۔

مسئلہ تکفیر کا یا کفر کے فتووں کا نہیں ہےکہ جسے بہانا بنا کر جمہوریت کے حامی بعض حضرات مسئلے کو جذباتی رنگ دے دیتے ہیں، الحمد للہ داعش جیسے گروہوں کے زوال کے ساتھ تکفیریت بھی دم توڑ چکی ہے۔ مسئلہ کہیں زیادہ حساس ہے، اسلام کے حقیقی اقتدار کے حصول کا ہے،اسلام اور مسلمانوں کے مصالح کے حصول کا ہے۔جمہوری انتخابی سیاست میں شمولیت اضطرار اور أھون البلیتین کے اختیار کے سبب ہوئی تھی، مگر اسےاسلامی حکومت کے قیام کا راستہ قرار دے کر اور خود ساختہ آئین سے ہٹ کر ہر قسم کی جد و جہد کو نا جائز قرار دے کر یہ مسئلہ أضر البلیتین بن گیا ہے۔ علمائے کرام اور اہلِ دین کے سامنے دردِ دل کے ساتھ گزارش ہے کہ اس پہلو سے ضرور اپنے مواقف پر نظرِ ثانی کی جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اقتدار بغیر قوت کے حاصل نہیں ہوتا، اور اسلام کا اقتدار اور شریعت کا حاکمانہ نفاذ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کے پیچھے اسلام اور شریعت سے مخلص قوت نہ ہو۔ پارلیمان تک پہنچنے والے افراد کے پاس کوئی قوت نہیں ہوتی، قوت تو ریاست کے محافظ اداروں کے پاس ہوتی ہے۔جب وہ قوت اسلا م اور شریعت سے مخلص نہیں توپھر پارلیمان میں اہلِ دین کی اکثریت بھی ہو جائےتو وہ اسلام کو حاکم نہیں کر سکتی۔الجزائر اور مصر کے تجربات اس کے واقعاتی شاہد ہیں۔ لہذا یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں اسلام مخالف قوت کچلے اور اسلام سے مخلص قوت پیدا کیے بغیر اسلامی نظامِ حکومت کا قیام نا ممکن ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج وطنِ عزیز میں قوت کے حامل فوجی ادارے ایسی قیادت کے ہاتھ میں ہیں جوفکر و عمل کے لحاظ سےاسلام سے مخلص نہیں ہیں، بلکہ مغربی طاقتوں کی مرضی کے پابند ہیں۔پھر نظام بھی اس طریقے پر قائم ہے کہ ان کی قیادت پر صالح لوگ فائز ہو بھی نہیں سکتے۔ملک کی ۷۵ سالہ تاریخ اس پر گوا ہ ہے۔

ایسی قوت کے ہوتے ہوئے یہ خیال کرنا کہ پارلیمان میں اکثریت جمع کر لینے سے اسلامی نظام ِ حکومت عمل میں آ جائے گا، محال ہے۔

لہذا شریعت اور عقل، ہر دو اعتبار سے، تبدیلی کا راستہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وطنِ عزیز میں اسلام اور مسلمانوں سے مخلص قوت پیدا کی جائے اور اسلام مخالف قوت کو کمزور کیا جائے۔ یقیناً ملک کے عسکری اداروں کے تمام لوگ ایک سے نہیں ہیں، تاہم ۷۵ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ آج تک جو قیادت بھی آئی ہےوہ غیروں کی وفادار تھی۔ اور نتیجتاً ہر چڑھتے سورج کے ساتھ یہ ملکِ عزیز انحطاط کا شکار ہوا اور یہاں اسلام اور اہلِ دین پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہوئے۔ ۷۵ سال گزرنے کے بعد آج ملک اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہےاور دفاعی طور پراس قدر کمزور ہے کہ کسی بھی پڑوسی ملک کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

تبدیلی کا راستہ یہ ہے کہ ملک میں اسلام سے مخلص اور صالح قوتِ نافذہ پیدا کی جائے اور یہ قوت بغیر جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے پیدا ہونا ممکن نہیں، جس کے ذریعے ملک میں موجود باطل عناصر کا صفایا کیا جائے گا۔اگر اس بات پر اتفاق ہو جائے تو پھر جو شخص جس جگہ اور جس پلیٹ فارم متحرک ہے، اس کی جدو جہدسے اسی قوت کا حصول ممکن ہو گا۔ یہ قوت سب اہلِ خیر کی مشترکہ قوت ہو گی۔

اللہ تعالیٰ وطنِ عزیز میں ہم سب کو اسلام کی حکومت دکھائیں، جہاں شورائیت سے فیصلے ہوں، عدل کا نفاذ ہو، ظالم کا راستہ رکے اور مظلوم کی حمایت ہو، نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے، آمین۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی حکومت کے قیام کی جد و جہد کی توفیق عطا فرمائیں، اہلِ دین کو متحد و متفق فرمائیں اور اہلِ باطل کو نابود فرمائیں، آمین۔

و آخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ تعالیٰ علی نبینا الأمین۔

٭٭٭٭٭


1 جب مغرب کے سیاسی غلبے کے زیرِ اثر جمہوری نظام غالب ہوگیا تو اہلِ دین کی ایک تعداد اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے چار وناچار اس نظام میں شامل ہو گئی ، وگرنہ اس سے پہلے وہ عدم موالات اور جنگ وجہاد کے راستے سے ہی کوشاں تھے۔ آج کے اہل دین کے سامنے یہ تاریخ بیان ہونا ضروری ہے، تاکہ وہ جان سکیں کہ یہ من پسند راستہ نہیں تھا اور نہ ہوسکتا ہے۔ پھر جب ایک صدی کی تاریخ سے معلوم ہوگیا کہ اس راستے سے کسی ایک ملک میں بھی اسلامی نظام قائم نہیں ہوسکا، الٹا اس نظام سے اسلام انحطاط پذیر ہے، تو اب وقت کا تقاضا ہے کہ دوبارہ عدمِ موالات اور قوت پیدا کرکے اسے گرانے کی طرف لوٹا جائے۔

2 حضرت مدنی﷫ کا موقف ان کے ملفوظات ومکتوبات میں کئی جگہوں پر واضح ہوتا ہے، وہاں متعلقہ جگہوں پر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں ایک اقتباس کا کچھ حصہ نقل کرتا ہوں جو آپ کے نواسے مولانا سلمان منصور پوری﷾ نے فتاوی شیخ الاسلام میں مخطوطات سے ذکر کیا ہے جو حضرت کی وفات سے چند ماہ قبل [یعنی جولائی ۵۷ء میں] لکھا گیا ہے:

’’میں نے کسی جگہ کتاب مذکور میں [اشارہ نقشِ حیات کی طرف ہے] اس سیکولر اسٹیٹ کو دار الاسلام نہیں لکھا، نہ جمہور کے قول پر، نہ حضرت شاہ [عبد العزیز] صاحب کے قول پر۔ پھر میں نہیں سمجھتا کہ آپ کا اعتراض کس طرح وارد ہوتا ہے۔ جو وجوہ موجودہ حکومت کے شرمناک کارناموں کے آپ ذکرفرما رہے ہیں، مجھ کو انکار نہیں ہے۔ پھر میں کس طرح اس کو دار الاسلام قرار دے سکتا ہوں۔ اور کسی جگہ موجودہ سیکولر اسٹیٹ کی تائید کرنے کے الفاظ سے آپ نے اس کو سمجھا ہے تو وہ از قبیل أھون البلیتین ہے، نہ بحیثیت دار الاسلام۔… آپ کا یہ اعتراض ہے کہ حضرت سید صاحب [یعنی سید احمد شہیدؒ] کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کا ارادہ کرنے والا اور صرف انگریزوں کا نکالنے والا میں قرار دیتا ہوں، بالکل خلافِ واقع اور تصریحات سے روگردانی ہے۔ بہر حال یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے۔ اور اگر بالفرض کوئی عبارت ایسی ہے جس کی دلالت مطابقی یہی ہے، دوسری توجیہ اس میں نہیں ہوسکتی، تو وہ غلط ہے، میں اس سے رجوع کرتا ہوں‘‘۔ [فتاوی شیخ الاسلام، ص ۲۲۶، جمعیۃ پبلیکیشنز، لاہور]

یہاں اس عبارت سے مقصود اتنا ظاہر کرنا تھا کہ حضرت مدنی﷫ کی سیاست اسی اصول کے تحت تھی، اسے اصل قرار دے دینا، ان کے ساتھ بھی ناانصافی ہے اور خود اپنے ساتھ بھی۔ ’نقشِ حیات‘ کی طباعت کرنے والے کاش کہ آئندہ کتاب کے آخر میں حضرت مدنی﷫ کے اس رجوع کو بطور ضمیمہ نشر کیا کریں، تاکہ مسلمانوں … بالخصوص مسلمانانِ ہند… کے سامنے راستہ واضح ہوجائے۔

3 علامہ عثمانی﷫ کی سیاست اول روز سے شیخ الہند﷫ کے خطوط پر استوار تھی، اور وہ تھی عدم موالات۔ یہاں تک کہ جب کانگریس کے زیرِ اثر ۱۹۲۰ء میں جمعیۃ علمائے ہند میں نظامِ جمہوریت میں شامل ہونے کا مسئلہ اٹھا، تو علامہ عثمانی﷫ نے کھل کر اس کی مخالفت کی۔ یہ واقعہ آنکھوں دیکھا علامہ سید سلیمان ندوی﷫ نے بیان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۴۵ء کے الیکشن میں مسلم لیگ کی حمایت کے دوران آپ نے فرمایا:

’’آج کل الیکشن کی ہماہمی بڑے زوروں پر ہے۔ اس معاملے میں اصل بات تو یہ ہے کہ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کونسلوں کے متعلق جس مسئلے پر ہم نے بیس پچیس سال پہلے دستخط کیے اور بحثیں کی ہیں، اس سے کسی وقت رجوع نہیں کیا۔ لیکن ہندوستان بلکہ دنیا میں جو طرزِ حکومت رائج ہے، اس کی لپیٹ میں طوعاً یا کرہاً سب آرہے ہیں۔ بہت مشکل ہے کہ دریا کی موجوں میں گھر کر تردامنی سے اپنے آپ کو بچایا جائے۔ اب جبکہ لوگ ناگزیر طور پر الیکشن میں مبتلا ہوگئے یا مبتلا کر دیے گئے تو دیکھنا یہ ہے کہ کون سا پہلو قومی حیثیت سے ہمارے حق میں مفید اور باعتبار نتائج کے محفوظ ومامون ہے‘‘۔ [خطبات عثمانی، مرتبہ پروفیسر انوار الحسن شیرکوٹی، ص ۸۴، نذر سنز، لاہور]

اور آج نتائج کے اعتبار سے واضح ہے کہ اس شمولیت میں دین، ملک اور قوم کے کتنے مفاسد ہیں۔ مضمون میں اختصار کو ملحوظ رکھاگیا تھا، مگر یہاں حوالوں میں تطویل کرلی گئی کہ آج ہندوستان اور پاکستان کی موجودہ سیاست میں شامل اہلِ دین انھی دونوں شخصیات کو دلیل سمجھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح فکر اور صائب عمل کی طرف ہدایت دیں، آمین۔

Exit mobile version