پاکستان کی نئی حکومت کو کتنی جلد آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا؟
پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے جس پروگرام پر عمل کر رہا ہے وہ ختم ہونے والا ہے ۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اسے اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا۔ پاکستان کی گزشتہ مخلوط حکومت نے عام انتخابات میں جانے سے قبل آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا ایک معاہدہ کیا تھا جس سے ڈیفالٹ سے بچنے میں مدد ملی۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر اس وقت تقریباً 8 ارب ڈالر ہیں جو اس کی بمشکل دو ماہ کی درآمدی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو دو ماہ میں ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی کرنی ہے جس سے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہو جائیں گے۔
پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک 23 پروگرام ہوئے اور پہلا پروگرام دسمبر 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے ہوا۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اس کی مجموعی قومی پیدوار کے 70 فی صد سے زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف اور کریڈٹ ریٹنگ اداروں کا تخمینہ ہے کہ پاکستان کو اپنی آمدنی کا 50 سے 60 فی صد حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ کرنا ہو گا جو دنیا کی کسی بھی بڑی معیشت کے لیے بدترین شرح ہے۔پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ٹیکسوں اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں زبردست کمی کے ساتھ افراط زر کی شکل میں متاثر کر رہا ہے جو اس وقت 30 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’’موجودہ صورت حال میں حکومت بنانا زہر کا گھونٹ پینے کے مترادف ہے ‘‘۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے ایک بیان میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے معاملے پر آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے۔ بظاہر اس کا مقصد آئی ایم ایف کو قرض کی قسط جاری کرنے سے روکنا ہے، جب تک کہ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات نہیں ہوجاتیں۔ دوسرا حکومت اور فوج پر پریشر ڈلوانا تھا۔ ڈائریکٹر کمیونی کیشن آئی ایم ایف جولی کوزیک نے اس ایشو پر وضاحتی بریفنگ میں کہا کہ وہ پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے کے لیے نئی حکومت کے ساتھ پالیسیوں پر کام کرنے کے منتظر ہیں۔ اس جواب سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ آئی ایم ایف کا جھکاؤ عمران خان کے مخالفین کی جانب ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ آئی ایم ایف اور امریکہ اسی سیاسی حکومت کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار ہیں جسے فوجی اسٹیبلشمنٹ پسند کرے۔
فوج صرف دفاع کا کام کرے، کاروبار نہیں: چیف جسٹس پاکستان
سپریم کورٹ میں دفاعی زمینوں پر کمرشل سرگرمیوں کے خلاف کیس کی سماعت کےدوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’فوج نے دی گئی زمین پر شادی ہالز اور دیگر کام شروع کر رکھے ہیں‘۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یقین دہانی کرائیں کہ کاروبار نہیں کریں گے تو ٹھیک ہے، سب کو اپنے مینڈیٹ میں رہنا چاہیے، فوج اپنا کام کرے عدالتیں اپنا کام کریں۔‘ بعض مبصرین چیف جسٹس کی جانب سے فوج کے تجارتی اداروں پر تنقیدی ریمارکس کو نورا کشتی بھی قرار دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے بعض جانبدارانہ فیصلوں سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ قاضی فائز عیسی بھی جرنیلوں کے لیے سہولت کاری کررہے ہیں۔ لہذا ان نام نہاد ریمارکس سے اس تاثر کو زائل کرنا مقصود ہے۔ فوج جس بڑے پیمانے پر تجارت میں ملوث ہے اس کے خلاف ان ریمارکس کی کیا حیثیت ہے اس کا اندازہ چند سال قبل کے ایک عدالتی حکم نامے پر فوج کے ردعمل سے لگائیے جب سپریم کورٹ نے فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے دی جانے والی زمینوں کے کمرشل استعمال کے عمل کو ‘شرمناک‘ قرار دیا تھا۔اور اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ تمام کنٹونمنٹ زمینیں جو وفاقی یا صوبائی حکومت نے الاٹ یا لیز کر کے دی ہیں وہ صرف دفاعی مقاصد ہی کے کام میں استعمال میں لائی جا سکتی ہیں اور ان کا کسی اور مقصد کے لیے استعمال کنٹونمنٹ ایکٹ 1924، لینڈ ایڈمنسٹریشن کنٹرول رولز 1937 اور آئینی دفعات کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔اگلے ہی روز پاکستان کے شہر کراچی کی مصروف ترین شاہراہ فیصل پر سفر کرنے والوں نے ایک مضحکہ خیز منظر دیکھا جب ڈِرگ روڈ فلائی اوور کے قریب کئی برسوں سے زیرِ تعمیر ’فالکن شاپنگ مال‘ پر ’ایئر وار کالج انسٹی ٹیوٹ‘ لکھا ہوا نظر آیا جس پر پاکستان کی فضائیہ کا لوگو بھی موجود تھا۔
یوکرین کے لیےپاکستانی اور سعودی امداد
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق، یوکرینی عوام کے لیے امداد لے کر جانے والا سعودی امدادی طیارہ جنریٹر اور بجلی کے آلات سمیت 58 ٹن سامان لے کر روانہ ہوا۔ سعودی عرب کی امدادی ایجنسی KSrelief کی زیر نگرانی یہ اب تک مملکت کی طرف سے یوکرین کو بھیجا جانے والا چھٹا امدادی طیارہ تھا۔ مجموعی طور پر سعودی عرب نے 350 ٹن سے زیادہ امداد بھیجی ہے۔ 15 اکتوبر 202۳ء کو، سعودی عرب نے یوکرین کے لیے 400 ملین ڈالر کی انسانی امداد کا وعدہ کیا، جس میں KSrelief اور یوکرین کے اشتراک سے 100 ملین ڈالر کی انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے مشترکہ تعاون کا پروگرام شامل تھا۔ یہ امداد ایسے وقت میں یوکرین کو بھیجی جارہی ہے جب غزہ میں پیدا ہونے والے خوراک کے بحران اور بچوں کی اموات نے پوری دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ امدادی سامان کی کھیپ پاکستان بھی یوکرین کو بھیجتا رہا ہے لیکن جو ایشو پاکستان اور یوکرین کے متعلق میڈیا میں زیر بحث آیا وہ یوکرین کو گولہ بارود کی فراہمی ہے۔ پاکستان تاحال اس کی تردید کرتارہا ہے ۔ بی بی سی کے پاس موجود دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگست 2022ء میں پاکستان نے دو پرائیویٹ امریکی ملٹری کمپنیوں کے ساتھ 364 ملین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کے معاہدے کیے جس کے تحت ان کمپنیوں کو پاکستان کی جانب سے 155 ایم ایم گولے بیچے گئے۔25 فروری کو امریکی محکمہ خارجہ کی اردو زبان کی ترجمان مارگریٹ مکلاؤڈ نے ایک تبصرے میں کہا ہے کہ یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ پاکستان کس ملک کو ہتھیار دے گا اور کسے نہیں؟ یہ فیصلہ اسے خود کرنا ہے۔
پاکستان سپر لیگ 9 کے دوران مقبوضہ فلسطین کے حق میں نعروں اور بینرز پر پابندی
سکیورٹی اہلکاروں نے میچ دیکھنے آنے والی خاتون کو گیٹ پر روک دیا کیونکہ انکے ہاتھوں میں موجود بینرز پر فلسطین کے حق میں نعرے درج تھے۔ خاتون نے سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس طرح روکا گیا جیسے میں ساتھ ہتھیار لائی ہوں۔ سکیورٹی اہلکاروں نے خاتون کو سمجھایا کہ کیونکہ یہ سیاسی و متنازع پیغام ہے ، کچھ لوگ برا مانتے ہیں۔ اگر اندر جانا ہے تو یہ بینرز باہر چھوڑ دیں۔ خاتون نے کہا کہ سکیورٹی گارڈز کے رویے سے میرے چھوٹے بہن بھائی خوفزدہ ہو گئے جو میرے ساتھ آئے تھے۔ میں نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ سکیورٹی گارڈز سے جو کہا گیا تھا، انہوں نے وہی کیا اور یہی ان کا کام بھی ہے۔ یہ واضح رہے کہ پی ایس ایل میں کے ایف سی کو بطور سپانسر لینے کے سبب پی ایس ایل کے بائیکاٹ کی مہم کئی روز تک ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ رہی ۔ اب اتنی سوشل میڈیا کیمپین کے باوجود حکومت اور انتظامیہ کی یہ حالت ہے کہ انہیں میچ کے دوران فلسطینیوں کی حمایت کے لیے نعرہ بھی متنازع معلوم ہوتا ہے۔
دیوالیہ ہوتے پاکستان کے نئے سمندری گشت کے جہاز ، مگر کس کی فرمائش پر ؟
آئی ایس پی آر کے مطابق جہاز کے افتتاح کی تقریب کا انعقاد رومانیہ کے ڈامن شپ یارڈ میں ہوا، جس میں وائس چیف آف نیول اسٹاف وائس ایڈمرل اویس احمد بلگرامی مہمانِ خصوصی تھے جنہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ پی این ایس یمامہ جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس ہو گا، اس جہاز کی شمولیت سے میری ٹائم سکیورٹی کے لیے صلاحیت بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ بحریہ سمندر میں تجارتی راستے محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پہلے یرموک کلاس جہاز کے بعد پی این ایس تبوک پاک بحریہ میں شامل ہوا تھا۔ یرموک کلاس کے آخری 2 جہاز پی این ایس حنین اور پی این ایس یمامہ ہیں۔ اب یہ غور وفکر کا مقام ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف اور دوسرے ممالک سے امداد کے راستے تلاش کررہا ہے، ایسے وقت میں بحریہ نئے بحری جہازوں کی لانچنگ کیوں کررہی ہے؟ اس کے لیے ہمیں گزشتہ ماہ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ مارگریٹ میکلاؤڈ کا بیان دیکھنا ہوگا جنہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان یمن میں حوثیوں سے نمٹنے کے لیے تعاون کرے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان نیوی انٹرنیشنل کمبائن میری ٹائم فورس کی مؤثر رکن ہے۔ حوثیوں کے حملوں سے خطے کی تجارت متاثر ہورہی ہے خطے کے دیگر ممالک حوثیوں کے خلاف ٹاسک فورس میں شامل ہوں تو خوش آمدید کہیں گے۔ اسرائیل سمیت خطے کے تمام ممالک کو غذائی قلت سے بچانا چاہتے ہیں۔ بحری جہازوں کی آمد و رفت کو محفوظ بنانے کیلئے یمنی گروپ کے خلاف آپریشن کررہے ہیں، خطے کے تمام ممالک بشمول پاکستان کو امریکہ اور برطانیہ کی نئی ٹاسک فورس کے تحت قائم کیے جانے والے خوشحالی محافظ آپریشن کا ساتھ دینا چاہیے۔ بس امریکیوں نے خواہش کا اظہار کیا اور افواج پاکستان نے فوری عملدرآمد کیا ۔ یہ وہی فوج ہے جس کا جرنیل کچھ عرصہ قبل دو درجن صحافیوں کو بلا کر بریفنگ دے رہا تھا کہ بھارت کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے تو ٹینکوں کے لیے ڈیزل بھی نہیں ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں پولیس کی شروع کی گئی عجیب و غریب ’مردم شماری‘
’’دو ہفتے قبل مقامی تھانے سے ایک ٹیم گھر میں داخل ہوئی۔ انہوں نے ایک رجسٹر میں میرے اور دیگر افرادِ خانہ کے نام، عمر، پیشہ اور آدھار کارڈ (شناختی کارڈ) کے نمبر اور دیگر تفصیلات لکھیں۔ اس کے ساتھ ہی میرا موبائل فون نمبر اور ہم سب کے باقی کوائف درج کرلیے۔ میرے پاس گاڑیوں کی تعداد اور ان کے نمبر پوچھے اور جاتے جاتے ہمارے گھر کی تصویر بھی کھینچی۔‘‘ سرینگر کے شہری مدثر میر (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے نشریاتی ادارے کو یہ تفصیلات بتاتے ہوئے یہ بھی اضافہ کیا کہ انہیں مقامی مسجد کی انتظامیہ نے پولیس کی طرف سے جاری کیا گیا ایک ’سروے‘ فارم دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے پُر کرکے ایک ہفتے کے اندر اندر مقامی تھانے میں جمع کرانا ہے۔ بھارت کی طرح جموں و کشمیر میں بھی باقاعدہ مردم شماری شروع نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ملکی سطح پر ہونے والی مردم شماری میں اتنی باریک بینی سے تفصیلات جمع کی جاتی ہیں۔ لیکن پولیس کی شروع کی گئی ’مردم شماری‘ میں کئی باتیں مختلف ہیں۔ اس کے دوران پولیس اور فوج کے اہل کار گھر کے تمام افراد کی تصویریں جمع کرنے، موبائل فون نمبر پوچھنے کے علاوہ عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط کے بارے میں بھی سوالات کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ جموں و کشمیر میں مقامی آبادی پر ریاست کی گرفت کو مضبوط تر بنانے کی ایک کوشش ہے جس میں لوگوں کی نجی زندگی میں دخل اندازی ہورہی ہے۔ پولیس کے دیے گئے فارم میں کنبے کے ہر فرد کے نام، عمر، پیشے اور دیگر کوائف درج کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے سوالات بھی شامل کیے گئے ہیں کہ آیا خاندان کا کوئی فرد عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے میں رہا ہے یا نہیں؟ وہ سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے ساتھ ہوئے کسی مقابلے یا انکاؤنٹر میں کسی طرح ملوث تو نہیں رہا ہے؟ خاندان کے ہر فرد کے غیر ملکی سفر کی تفصیلات بھی فارم میں درج کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اگر خاندان کا کوئی فرد بیرون ملک مقیم ہے تو یہ بتانا بھی لازم ہے کہ وہ وہاں کس مقصد کے تحت قیام پذیر ہے۔ گھر میں سی سی ٹی وی لگا ہوا ہے تو اس کے انداراج بھی فارم میں ضروری ہے۔ مدّثر میر کا کہنا ہے:’’مجھے اس فارم نے فکر میں ڈال دیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ مجھے ہمارے گھرانے کے خواتین کی تصویریں اور موبائل فون نمبر پولیس کے ساتھ شئیر کرنے چاہییں یا نہیں کیوں کہ اس کی کوئی گارنٹی نہیں دی جارہی کہ ان کا غلط استعمال نہیں ہوگا۔‘‘ بھارتی فوج نے اس سے پہلے 2019ء میں جموں و کشمیر کے کئی علاقوں اور بالخصوص لائن آف کنٹرول کے قریب واقع آبادیوں میں اس طرح کے سروے یا ’مردم شماری‘ کا آغاز کیا تھا اور حالیہ ہفتوں میں اس کی یہ سرگرمی پھر مشاہدے میں آرہی ہے۔ فورسز کے اہل کار ہر گھر کو ہندسوں کے ساتھ نشان زد کر رہے ہیں اور خاندان کے تمام افراد کی تفصیلات طلب کرکے گھر کو جیو ٹیگ کرتے ہیں۔
گوگل ایغور مسلمانوں کے ایشو پر تنقید کی زد میں
ایک رپورٹ کے مطابق گوگل سرچ میں جب آپ انگریزی زبان میں ایغور مسلمانوں کے متعلق کچھ سرچ کرتے ہیں تو آپ کو ایغور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے متعلق خبروں اور ویڈیوز پر مبنی بہت سا مواد مل جاتا ہے لیکن جب آپ چینی مینڈرین زبان میں کچھ سرچ کرتے ہیں، تو آپ کے سامنے ہنستے مسکراتے رقص کرتے ایغور مسلمانوں کی تصویریں ہی سامنے آتی ہیں۔ چینی حکومت بھی ایغور مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے خود پر لگنے والے الزامات کے جواب میں یہی پراپیگنڈہ ویڈیوز پھیلاتی ہے کہ دیکھیے ایغور مسلمان تو بہت خوش ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گوگل چین میں اپنے تجارتی مفادات کو بچانے کے لیے یہ سب کچھ کررہا ہے ؟ اور چین میں وہی سرچ رزلٹس دکھا رہا ہے جس پر چینی حکومت کو اعتراض نہ ہو ۔
ایغور مسلمانوں کی جبری مشقت میں ملوث کمپنیاں
ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ جنرل موٹرز، ٹیسلا، بی وائی ڈی، ٹویوٹا اور ووکس ویگن سمیت عالمی کار ساز ادارے اپنی ایلومینیم سپلائی چینز میں ایغور جبری مشقت کے استعمال کے خطرے کو کم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے آن لائن چینی سرکاری میڈیا آرٹیکلز، کمپنی کی رپورٹس، اور حکومتی بیانات کا جائزہ لیا اور اس بات کے قابل اعتماد شواہد ملے کہ سنکیانگ میں ایلومینیم تیار کرنے والے مزدوروں سے جبری مشقت لی جارہی ہے۔ 2023ء میں، چین میں ملکی اور غیر ملکی صنعت کاروں نے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ کاریں تیار کیں اور برآمد کیں۔ 2017ء سے، چینی حکومت نے سنکیانگ میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے، جن میں من مانی حراست، جبری گمشدگیاں، اور ثقافتی اور مذہبی ظلم و ستم شامل ہیں، اور سنکیانگ کے اندر اور باہر ایغوروں اور دیگر ترک مسلم کمیونٹیز کو جبری مشقت کا نشانہ بنایا ہے۔ چینی حکومت نے سنکیانگ کو ایک صنعتی مرکز بنانے کی کوشش کی ہے اور ایغوروں کے خلاف بدسلوکی کو بڑھایا ہے۔ سنکیانگ کی ایلومینیم کی پیداوار 2010ء میں تقریباً ایک ملین ٹن سے بڑھ کر 2022ء میں چھ ملین ٹن ہو گئی ہے۔ چین میں پیدا ہونے والے ایلومینیم کا 15 فیصد سے زیادہ، یا عالمی سپلائی کا 9 فیصد، اب اس خطے سے آتا ہے۔ ایلومینیم درجنوں آٹوموٹیو پرزوں میں استعمال ہوتا ہے، انجن کے بلاکس اور گاڑیوں کے فریموں سے لے کر پہیوں اور الیکٹرک بیٹری کے ورق تک۔ اسے چین میں مینوفیکچررز استعمال کرتے ہیں اور عالمی کار سازوں کو برآمد کرتے ہیں۔
سنکیانگ پولیس لیکڈ فائلز
لیک ہونے والی پولیس فائلوں کے نئے تجزیے میں 400 سے زائد خواتین کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا ہے جن میں سے کچھ کی عمر 80 سال سے زیادہ تھی جن کو چینی پولیس نے مذہبی لباس پہننے اور مذہبی علم حاصل کرنے یا پھیلانے کے جرم میں سزا سنائی تھی۔ زیادہ تر کو قرآن کا مطالعہ کرنے پر سزا سنائی گئی، امریکہ میں قائم ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ کے محققین نے کہا، جنہوں نے فائلوں کے تجزیے سے یہ معلوم کیا کہ ممکنہ طور پر لاکھوں خواتین کو حراست میں لیا گیا تھا۔ 2017ء میں 70 سالہ پتھان امین کو چھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس کے ’جرائم‘ میں اپریل اور مئی 1967ء کے درمیان قرآن کا مطالعہ کرنا، 2005ء اور 2014ء کے درمیان قدامت پسند مذہبی لباس پہننا، اور ایک الیکٹرانک قرآن پڑھنے والی ڈیوائس کو گھر میں رکھنا شامل تھا۔ ایک اور خاتون، ایززگل میمت، پر فروری 1976ء میں، جب وہ محض پانچ یا چھ سال کی تھیں، تین دن تک اپنی والدہ کے ساتھ غیر قانونی طور پر قرآن کا مطالعہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اسے 6 جولائی 2017ء کو حراست میں لیا گیا اور اسے 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ پولیس فائلوں کو ابتدائی طور پر بی بی سی سمیت متعدد میڈیا اداروں نے 2022ء میں شائع کیا تھا، لیکن یہ پہلا موقع ہے جب محققین نے اویغور خواتین مذہبی رہنماؤں کے ساتھ سلوک کا تجزیہ کیا ہے۔ سنکیانگ کے کیمپوں میں قید خواتین کی پچھلی شہادتوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انہیں چینی حکومت نے مبینہ طور پر جبری نس بندی، اسقاط حمل، جنسی زیادتی اور جبری شادی کا نشانہ بنایا ہے۔ ریکارڈ کی گئی سب سے طویل سزا 35 سالہ عطیلا روزی کو سنائی گئی، جنھیں 2007ء میں اندرون چین میں کام کرتے ہوئے قرآن پڑھنا سیکھنے کے ساتھ ساتھ 2009ء کے درمیان خواتین کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ قرآن پڑھانے اور پڑھنے کے لیے 20 سال کی سزا سنائی گئی۔ اور 2011ء کی رپورٹ میں کہا گیا کہ دیگر الزامات میں ’’غیر قانونی مذہبی لباس‘‘ پہننا، مذہبی کتابیں خریدنا یا گھر میں رکھنا، ’’غیر قانونی مذہبی اجتماعات‘‘ میں شرکت کرنا، اور یہاں تک کہ موسیقی کے بغیر شادی کا اہتمام کرنا بھی جرم تصور کیا جاتا ہے، اور سرکاری طور پر مذہبی انتہا پسندی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭