اسلام کا مسافر! | دوسری قسط

وارن وائن سٹائن سے اسحاق بن سڈنی تک

اسحاق صاحب کے روزمرہ معمولات

اسحاق صاحب عام طور پر اپنا سارا دن دین سیکھنے میں صرف کرتے ہیں۔ فجر کے وقت بیدار ہوتے ہیں، اپنے ساتھ موجود محافظ ساتھیوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتے ہیں ، اور جو اذکار وہ اب تک یاد کرچکے ہیں انہیں پڑھ کر ہلکی پھلکی سی ورزش (سٹریچنگ اور واک وغیرہ) کرتے ہیں۔

ورزش کے دوران، وہ عام طور پر شیخ انور العولقی ﷫کے لیکچر ز’سیرتِ رسول اللہﷺ‘ سنتے ہیں۔ شیخ انور العولقی کی سیرت والا پورا دورہ وہ پہلے بھی ایک بار ختم کر چکے ہیں اور اب دوبارہ شروع کر چکے ہیں۔ سیرت شروع کرنے سے پہلے وہ ’الرحیق المختوم ‘کتاب بھی مکمل پڑھ چکے ہیں۔ اس کے بعد وہ تقریباً۹بجے ناشتہ کرتے ہیں اور پھر عام طور پر عربی زبان سیکھنا شروع کر تے ہیں۔ ان کے پاس عربی زبان کا ایک مکمل کورس ہے جو مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی کی جانب سے (غیر عرب افراد) کے لیے تیار کردہ ہے۔

چچا اسحاق ﷫نے اپنے قبول ِ اسلام کے ابتدائی مہینوں ہی میں ’اللغۃ العربیۃ لغیر ناطقین بھا‘ کا کورس مکمل کر لیا تھا۔ یہ کورس ویڈیو کلاسز پر مشتمل تھاجو کہ ٹورنٹو۔ کینڈا میں عربی زبان کے مایہ ناز استاد پروفیسر آصف علی مہر نے کروایا تھا۔ یہ کورس انٹرنیٹ پر بہت عام ہے۔ چچا اسحاق کی بہت خواہش تھی کہ اگر میں اپنے وطن واپس گیا تو کینڈا جاکر پروفیسر آصف علی مہر سے ضرور ملاقات کروں گا اور ان کا شکریہ ادا کروں گا کہ ان کی محنتوں کی بدولت میں عربی زبان اور اسلام کے بہت سے احکام سیکھ پایا۔ یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ پروفیسر آصف علی مہر اور ان کے ادارے کا القاعدہ یا کسی بھی جہادی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ فقط اتفاقاً ایک مجاہد بھائی نے انٹرنیٹ پر عربی سیکھنے کی غرض سے سرچ کی تو انہیں ان محترم پروفیسر صاحب کے لیکچرز مل گئے،جنہیں وہ بھائی لے کر وزیرستان آگیا۔ مگر کچھ ہی عرصے میں ان کے لیکچرز مجاہدین کی صفوں میں اتنے ’وائرل‘ ہوئے کہ بیسیوں غیر عرب مجاہدین نے ان کی بدولت عربی زبان سیکھی۔ اللہ تعالیٰ پروفیسر صاحب کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔

الحمدللہ، اسحاق صاحب نہ صرف عربی زبان سیکھتے ہیں ، بلکہ اپنے اردگرد کے بھائیوں کو بھی سکھاتے ہیں! لہذا، یہ جگہ کسی تعلیمی ادارے کا تاثر دیتی ہے۔ پھر ظہر سے پہلے تھوڑا سا آرام کرتے ہیں اور پھر جماعت سے ظہر ادا کرتے ہیں۔ ظہر کے بعد تمام ساتھی اجتماعی تعلیم میں انگریزی زبان میں ریاض الصالحین کا کچھ حصہ مطالعہ کرتے ہیں۔

چونکہ اسحاق صاحب کم از کم دو مرتبہ سیرت ختم کر چکے ہیں، اس لیے جیسے ہی کوئی ساتھی حدیث سناتا ہے تو اسحاق صاحب اکثر حدیث سے حاصل ہونے والے عملی اسباق پر گفتگو کرتے ہیں۔ تمام ساتھی پھر سے عربی زبان کی تعلیم میں لگ جاتے ہیں جو تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہتی ہے۔ اسحاق صاحب عام طور پر عصر سے پہلے کچھ آرام کرتے ہیں اور پھر جماعت سے نمازِعصر ادا کرتے ہیں۔ اور اگر تھوڑی دیر کے لیے وہ سستانے کو لیٹ جاتے ہیں تو تب بھی کان میں مستقل سیرت النبی ﷺ کے دروس سنتے رہتے ہیں۔ اسی طرح روز مرہ کی واک (جو کہ وہ گھنٹوں کرتے ہیں) اس میں بھی وہ وقت سے استفادہ کرتے ہوئے مستقل دروس سنتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دن میں وہ کم از کم ایک مرتبہ ایک ساتھی کے سامنے (اونچی آواز سے) نماز پڑھتے ہیں تاکہ نماز میں اگر اب بھی کوئی غلطی رہ گئی ہو تو دور ہوسکے۔ اپنی تلاوت بہتر بنانے کے لیے وہ اسی بھائی کو قرآن کا کچھ حصہ بھی پڑھ کا سناتے ہیں۔ تمام ساتھی مغرب اور عشاء کی نماز بھی باجماعت ادا کرتے ہیں۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد، وہ عام طور پر سیرت النبی ﷺ سنتے ہوئے ایک یا دو گھنٹے پھر سے واک کرتے ہیں اور تقریباً ساڑھے دس بجے سو جاتے ہیں۔

ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد، ان کے اور ان کے ارد گرد بھائیوں (محافظوں) کے درمیان تعلقات بہت دوستانہ اور محبت بھرے ہوچکے ہیں۔ ساتھی ان کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے ہیں اور اسحاق صاحب انہیں نصیحتیں بھی کرتے رہتے ہیں اور وہ چیزیں سکھاتے رہتے ہیں جو عموماً معمر حضرات اپنی عمر کے تجربوں سے سیکھتے ہیں۔ بعض اوقات سب ساتھی مل کر اسحاق صاحب کے کمرے میں ان کی ہدایت کے مطابق کھانا بھی پکاتے ہیں۔ لہٰذا مجموعی طور پر بحمدللہ ان کا ماحول اچھا اور صحت مند ہے۔

یہ مزمل فیصل بھائی کا خط ہے جو انہوں نے چچا اسحاق کو رمضان کی آمد پر ان کی زندگی کا پہلا روزہ رکھنے کے موقع پر لکھا :

’’پیارے اسحاق بھائی!آپ کا پہلا روزہ کیسا ہے ؟ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے آپ کے لیے آسان بنائے گا۔ پیارے بھائی صبر کے بہت ثواب اورفائدے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘۔ روزہ عبادت کی ایک ایسی قسم ہے جس میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے، اور (اس کے بدلے) ہم اللہ سے اجر کی امید رکھتے ہیں، جو سب کچھ دیکھنے اور جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ صحت و تندرستی عطا فرمائے۔ وہ آپ کو اس فانی دنیا میں اور آخرت کی کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی میں بہترین اجر سے نوازے۔ ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔

آپ کے اسلامی بھائی ‘‘

اور یہ چچا اسحاق کی جانب سے اس خط کا جواب ہے:

’’اے دین اسلام کے میرے بھائیو، میں آپ کے خط لکھنے کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرا پہلا روزہ تقریباً مکمل ہونے والا ہے۔ الحمدللہ یہ بہت اچھا گزرا ۔ میں روزے کے دوران مطالعہ اور تلاوت کے لیے اپنا قرآن اور اپنی عربی کتابیں ساتھ رکھنا چاہتا تھا لیکن یہ ابھی تک ہماری نئی جگہ پر نہیں لائی گئیں۔ اس جگہ پر کوئی کمپیوٹر بھی نہیں ہے اور میرا کمپیوٹر خراب پڑا ہوا ہے۔ ماشااللہ، یہ نئی جگہ… اُس جگہ سے بہت بہتر ہے جہاں ہم پہلے تھے۔ میرے کمرے میں ایک ایئر کنڈیشنر بھی ہے جو بجلی آنے پر کام کرتا ہے۔ اس سے میرے دمہ کے مرض میں کافی مدد ملتی ہے۔ اس کو میری خوش قسمتی کہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے روزے کے لیے صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ میں آپ سب کو اپنی دعاؤں میں روزانہ یاد کرتا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو سنے گا اور ان کا احسن طریقے سے جواب دے گا کیونکہ ہم سب اس کے ہاتھ میں ہیں۔ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا ۔ آپ کااسلامی بھائی اسحاق! ‘‘

یہ فیصل مزمل بھائی (عرف عثمان) کی طرف سے چچا اسحاق کے نام ایک اور خط ہے جس میں ان کی نئی جگہ پر شفٹنگ کے حوالے سے بات کی گئی ہے:

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم

پیارے اسحاق بھائی ! السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں آپ کو بتانے آیا تھا لیکن شاید آپ سو رہے تھے۔ ایک ساتھی نے آکر بتایا ہے کہ آج رات افطار کے بعد ہم اپنی نئی جگہ منتقل ہو جائیں گے۔ اگر آپ کو پیکنگ کے لیے کوئی مدد درکار ہو تو یہ بھائی اور مجھ سمیت دیگر ساتھی موجود ہیں۔ والسلام… عثمان

جب میں ان سے ملنے گیا تو میں نے بھائیوں سے کہا کہ وہ میرا بستر اسحاق صاحب کے کمرے میں ہی لگادیں اور یہ گیارہ راتیں میں ان کے کمرے میں ہی سوتا رہا۔ اپنے دن کا بڑا حصہ میں ان کے کمرے میں ہی گزارتا تھا ۔

میں نے ان کے لیے ایک آسان سا ابتدائی نصاب بنایا ہے جو درج ذیل ہے:

اسی طرح میں نے سیدنا ابوبکر ﷜پھر سیدنا عمر بن خطاب ﷜کی سیرت شروع کرنے کا بھی ان کو کہا ہے… دونوں شیخ انور العولقی ﷫ کی آواز میں موجود ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ جلد ہی یہ دونوں سیرتیں بھی مکمل کرلیں گے۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آگے کے لیے کیا نصاب بنانا ہے۔ تمام ساتھیوں سے گزارش ہے کہ اپنی تجاویز بھیجیں۔انہوں نے صلاح الدین ایوبی کی تاریخ بھی پڑھ لی ہے جو میرے ملنے سے پہلے ہی کسی بھائی نے انہیں دی تھی۔

ان کی تربیت کے حوالے سے، میری خواہش ہے کہ ان کو تدریج کے ساتھ بڑھنا چاہیے۔ اس لیے شروع میں پیچیدہ اور بڑے درجے کی کتابیں ان کے سامنے رکھنے کی بجائے، میں انہیں بنیاد سے لے کر چلنا چاہتا ہوں۔ اور جس طرح وہ آگے بڑھ رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ ہم جلد ہی ان کو ایسی کتابیں دینے کے قابل ہوجائیں گے جو جدید مسائل سے متعلق ہیں۔ ہم صرف اس وقت ان کی بنیاد مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جدید دور کے مسائل پر ان کی گرفت بآسانی ہوسکے۔

ایک شبہ!

بھائیوں کے ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ’کیا اسحاق صاحب یہ سب افعال اخلاص سے کر رہے ہیں ؟ ‘جیسا کہ میں نے اوپر بھی بیان کیا کہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ انسان کمزور ہے اور اس کی بصارت محدود ہے۔ اور سب کچھ جاننے والا اور دیکھنے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔ ہم اپنی تمام صلاحیتوں، مشوروں اور استخاروں کے باوجود بھی صرف ایک محدود حد تک ہی چیزوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس کے بعدہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی سے ہدایت اور بصیرت کے طلب گار ہوتے ہیں اور اسی پر ہمیں توکل ہے۔ اس دنیا میں کوئی نہیں جان سکتا کہ کسی اور کے دل میں دراصل کیا پنہاں ہے ؟! اسی لیے ہمیں لوگوں کے ساتھ ان کے ظاہر کے مطابق پیش آنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

لیکن چونکہ یہ ایک بہت ہی فطری سا سوال ہے اور مجھ سمیت ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے، اس لیے میں نے اس کے بارے میں گہرائی سے سوچا، اور جن دنوں میں اسحاق صاحب کے ساتھ ان کے کمرے میں رہ رہا تھا تو اس موضوع کی جانچ کے لیے میں بہت سی چیزیں نوٹ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ان کے ساتھ مستقل رہنے والے ساتھیوں سے بھی کھل کر اس موضوع پر مشورے میں رہا۔ ان کے کمرے میں میرے قیام نے بحمد اللہ میری توجہ بہت سے امور کی جانب مبذول کروائی جنہیں میں بعد میں زیرِ تحریر لاؤں گا۔

سب سے پہلے، اب تک کے تمام مشاہدات اور پہلے سے طے شدہ تجزیوں کے بعد، میں نے ابھی تک کوئی ایک چیز بھی اتنی ٹھوس نہیں پائی کہ میں یہ دعویٰ کر سکوں کہ اسحاق صاحب کوئی چال چل رہے ہیں … اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے! اور نہ ہی میں نے دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے سات گھنٹے روزانہ ان کے ساتھ رہنے والے بھائیوں کی زبانی کچھ بھی ان کے بارے میں ایسا سنا ہے جو مجھے شک میں ڈال دے۔

اس کے برعکس کئی چیزیں ایسی ہیں جو مجھے یہ یقین کرنےپر ابھارتی ہیں کہ اسحاق صاحب کے یہ افعال دھوکہ نہیں ہیں …اور یقیناً اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کے دلوں سے باخبر ہے! ان میں سے کچھ چیزیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:

پچھلے نومبر سے اسحاق صاحب کو بہت قریب سے دیکھ کر، ان سے بڑے پیمانے پر پوچھ گچھ کر کے اور تفتیشی سیشنوں کے دوران کے ان کے سابقہ رویے اور اس میں آنے والے تمام اتار چڑھاؤ کو دیکھ کر ، مجھے نہایت حیرت ہوگی اگر اسحاق صاحب یہ سب کچھ ہمیں دھوکہ دینے کے لیے کر رہے ہوں۔

انہوں نے راتوں رات اسلام قبول نہیں کیا! میں نے اسلام کے بارے میں ان کے رویے میں بڑھتی ہوئی ان تبدیلیوں کو باریکی سے دیکھاہے، جن کا شروع میں کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ ان میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ ان کے لوگ اخلاقی لحاظ سے نہایت پست درجے کےہیں … ابھی مذہبی نقطہ نظر شروع نہیں ہوا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے قرآنی آیات کو ذرا دلچسپی سے سننا شروع کر دیا۔ یہ دلچسپی رفتہ رفتہ بڑھتی گئی اور انہوں نے کچھ قرآنی آیات کا انگریزی ترجمہ پڑھنا شروع کردیا۔ پھر انہیں اچھا لگتا تھا جب ہم انہیں کچھ مخصوص قرآنی آیات پڑھ کر سناتے اور انگریزی مصحف سے ان کا ترجمہ پڑھ کر سناتے …یااسی طرح جب ہم انہیں رسول اللہ ﷺ اور حضرت عمر ﷜کا کوئی قصہ سناتے تو اسحاق صاحب بڑے شوق سے سنتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے خود انگریزی مصحف بھی پڑھنا شروع کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ کبھی کبھی جب انہیں ’خدا/ Godکے بارے میں کچھ بات کرنی ہوتی ہے تو وہ ’اللہ/ Allahکہہ جاتے ہیں۔ جبکہ اس سے پہلے وہ صرف ’Godکہتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو کیا وہ اپنی اہلیہ اور خاندان کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے کہ وہ اہل کتاب میں سے ہیں ؟ پھر انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ ان کے یہاں (یعنی قید میں) ہونے کی کوئی وجہ ہے اور وہ بہت سی چیزوں کے بارے میں فکر مند رہے۔ میں نے انہیں یہ قرآنی آیت دکھائی:

قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰه ِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ؀ (الزمر: 53)

’’کہہ دو کہ؛ اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔‘‘

میں انہیں مسلسل کہتا کہ اللہ سے اپنے لیے آسانیاں مانگیے اور وہ جواب دیتے کہ میں ایسا کر رہا ہوں اور قرآن بھی پڑھ رہا ہوں۔ ایک موقع پر (جو مجھے یاد ہے) میں نے ان سے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں حق کوقبول کرنے میں اپنے گھر والوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کے گھر والے انہیں قیامت کی ہولناکیوں سے نہیں بچا سکتے۔ وہ ان تمام باتوں کو بڑی سنجیدگی سے سنتے تھے۔ اور آخری دن میں نے انہیں بہت دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر اسلام قبول کیے بغیر آپ کو موت آگئی تو سیدھا جہنم میں جائیں گے۔ اور اس سب کے آخر میں ان کا یہی تبصرہ تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ہونے کی کوئی وجہ ہے‘۔ وہ اپنی قید کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

نوٹ: اگلے چند نکات وہ مشاہدات ہیں جو میں نے اسحاق صاحب کے ساتھ ان کے کمرے میں تقریباً گیارہ دن رہتے ہوئے کیے تھے۔

یہ چند نکات اور مشاہدات تھے … ان کےقبل از اسلام اور اس کے بعد کے … جو ہمیں ان کی سچائی کے کچھ اشارے دیتے ہیں۔ اور اصل بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں جان سکتا کہ کسی اور کے دل میں کیا بات ہے اور ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ ظاہری بنیادوں پر لوگوں کا فیصلہ کریں۔ ان شاء اللہ میں آپ بھائیوں کو وقتاً فوقتاً اسحاق صاحب اور ان کے معمولات سے باخبر رکھوں گا۔ میرا آپ حضرات کے لیے مشورہ ہے کہ بعض سمجھدار اور تجربہ کار بھائیوں کوپانچ سات دن کے لیے اسحاق صاحب کی جگہ پر بھیجیں تاکہ اسحاق صاحب اور ان کی زندگی کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ میرے خیال میں محب اللہ (جعفر) یا عزام مناسب ہونگیں۔ کیونکہ یہ اسحاق صاحب کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔

یہ ہمارے آپس میں باہمی مشورے کے لحاظ سے بھی ان شاء اللہ مفید ہو گا جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ اور ان (اہلِ ایمان)کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ہوتے ہیں۔

الحمدللہ! مجاہدین کی قیادت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور چچا اسحاق سے مجاہدین قیادت کی ملاقاتوں کا انتظام کیا۔ ڈاکٹر ابو خالد باقاعدگی سے ان کے پاس میڈیکل چیک اپ کے لیے جاتے اور علاج معالجے کے بعد ان کی آپس میں اسلام، یہودیت اور عیسائیت ،امریکی حکومت کی پالیسیاں، اسرائیل اور عالم غرب کے بارے میں طویل گفتگو ہوتی۔ دونوں حضرات گھنٹوں اس قسم کے مسائل پر بحث کرتے۔ استاد احمد فاروق کو بھی ان موضوعات پر اچھی گرفت حاصل تھی۔آپ بھی چچا اسحاق سے ملنے جاتے اور تزکیۂ نفس ،تعلق باللہ، اور دیگر سیاسی موضوعات پر گفتگو کرتے۔ چچا اسحاق کا یہ سن کر استاد احمد فاروق سے عجیب لگاؤ پیدا ہوگیا تھا کہ وہ بھی نیویارک میں پیدا ہوئے ہیں۔ اللہ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے!

(جاری ہے، ان شاء اللہ!)

Exit mobile version