امارت اسلامیہ افغانستان کے فلاحی و ترقیاتی منصوبے

یہ کابل کی فتح سے قبل کے ایام تھے اطراف کے سبھی علاقے طالبان کے قبضے میں جاچکے تھے اور میڈیا میں یہ بازگشت سنائی دینے لگی تھی کہ اب طالبان پورے ملک پر جلد ہی کنٹرول حاصل کرلیں گے ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی سوال اٹھایا جارہا تھا کہ طالبان کا نظام کیا ہوگا کیا وہ نظام حکومت سنبھال اور چلا بھی پائیں گے؟ شاید مغرب کے لیے یہ ڈراؤنے خواب کی مانند تھا کہ ایک اسلامی ریاست اپنے مکمل نظام کے ساتھ دنیا کے نقشے پر موجود ہوگی۔ صحافی طاہر خان کے مطابق قطر معاہدے میں بھی ‘طالبان‘ کا نام نہیں بلکہ ’اسلامی امارت افغانستان‘ کا ذکر موجود ہے۔‘ تاہم جہاں ’اسلامی امارت‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بریکٹ میں ایک لائن ’امریکہ اسلامی امارت کو تسلیم نہیں کرتا‘ لکھا گیا ہے لیکن طالبان نے امریکہ کو ’امارات اسلامی‘ لکھنے پر مجبور کیا ہے۔ طالبان کو تہذیب سے نابلد اور خواتین کا دشمن ثابت کرنے کے لیے میڈیا نے کیسے کیسے کرتب دکھائے ان میں سے کچھ تو خود انہی کا مذاق بنانے کے مترادف تھے ۔ ایک خاتون صحافی امارت اسلامی کے ایک عہدے دار سے انٹرویو لے رہی تھیں ۔ دوران انٹرویو مذکورہ صاحب خاتون کی طرف بالکل نہیں دیکھتے ۔ اس متعلق خاتون پھر لکھتی ہیں کہ وہ مجھے شر کا منبع سمجھ رہے تھے شاید جب ہی نہیں دیکھ رہے تھے، ان کی اس حرکت کے سبب میں افغانستان سے ہزاروں میل دورہوتے ہوئے بھرے مجمع میں بھی خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگی۔ آج جتنے کم عرصہ میں امارت اسلامی افغانستان نے ملک بھر میں چھوٹے بڑے ترقیاتی و فلاحی منصوبے شروع کررکھے ہیں اس پر تو دشمن بھی تعریف کیے بنا نہیں رہ سکتے ۔ ہسپتال ، سڑکوں کی تعمیر ، صنعتی زونز کا قیام، ڈیموں کی تعمیر ، آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانا، اس کے علاوہ تیل کی پیداوار غرض ہر شعبہ بہتری کی جانب گامزن ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ پورے ملک میں مثالی امن قائم ہوچکا ہے ۔ اب اس کا موازنہ اپنے ملک سے کیجیے ۔ صرف ایک شہر کراچی میں ہی اتنے موبائل چھن جاتے ہیں جن کی تعداد کا تعین مشکل ہے۔ اسی طرح پولیس و سکیورٹی فورسز کا لشکر ، عدلیہ کا نظام ، بیوروکریسی سمیت سبھی شعبے اپنی زبوں حالی کا رونا رورہے ہیں۔جبکہ دوسری جانب امارت محدود وسائل میں بھی ملک میں امن کے قیام کے بعد فلاحی و ترقیاتی کاموں میں مصروف نظر آتی ہے۔ ذیل میں ہم ان کی چیدہ چیدہ تفصیل بیان کررہے ہیں ۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version