کیا مغربی فکر و اداروں کی اسلامائزیشن ممکن ہے؟ | حصہ اول

مغربی غلبے کے بعد پیش آنے والی فکری و ادارتی صورت حال کے جواب میں مسلمان اہلِ علم نے مختلف قسم کے طرزِ عمل اختیار کیے ۔ اکیڈمک سطح پر اس وقت جو طرزِ عمل زیر بحث لانے کی کوشش کی جائے گی وہ ’’اسلامائزیشن ‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔

مسلمان اہلِ علم میں اسلامائزیشن کے دو ماڈل معروف ہیں اور انھی کی وضاحت سے ’’اسلامائزیشن کیا ہے؟‘‘ بھی واضح ہوجائے گا۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ’’اسلامائزیشن‘‘ کا تصور بالکل نیا ہے ۔ قرون اولیٰ و قرونِ متاخرہ میں اس کا نام و نشان نہیں تھا۔ دور اولین سے مابعد قرون تک مسلمانوں میں اہل ِ کفر سے ممتاز او رعلیحدہ رہنے کا طریق ، معاشرت و علمیت کا اصول رہا ۔نیز غلبے کے دور میں مسلمانوں کو ’’کفرائزیشن‘‘کی ’’اسلامائزیشن‘‘ کرنے کی کیا ضرورت پڑنی تھی؟

جیسا کہ ہم نے کہا کہ اسلامائزیشن کے دو ماڈلز ہیں ایک روایتی مدرسی فکر کے لوگوں کا ماڈل جو اپنے فقہی ادب کی روشنی میں اسلامائزیشن کرنے کے قائل ہیں۔ دوسرا جدیدمذہبی فکر کےحاملین کا ماڈل جن کے اصول بالعموم ’’مقاصدالشریعہ‘‘،’’تدریج‘‘،’’ مکی دور نبوت کے احکام ‘‘ وغیرہ ہیں۔ ا ن کے دلائل روایتی فکر کے اہلِ علم جیسے نہیں ہوتے۔ ہم یہاں روایتی فکر کے ماڈل پر گفتگو کریں گے ۔

اسلامائزیشن کی ایک جہت مغربی فکر و نظریات کی اسلامی تعریف و توضیح وضع کرکے قرآن و حدیث سے دلائل مہیا کرنا ہے۔ مثلاً جمہوریت کی یہ تعریف متعین کرنا کہ ’’جمہوریت مسلمانوں کا اپنے معاشروں میں گواہی ، وکالت ِ شرعیہ اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے دینی اصولوں کو مدنظر رکھ کر ایک صادق اور امین امیدوار کو پوری دیانت داری سے منتخب کرنا تاکہ وہ شرعی اصولوں کے مطابق نظامِ سلطنت کے چلانے میں معاون بن سکے۔ ‘‘ یہ ایک آرزو تو ہوسکتی ہے کم ازکم جمہوریت کی تعریف نہیں ہوسکتی۔ پھر جمہوریت کے حق میں قرآن سے ’’شوریٰ‘‘ کو دلیل بنانا ۔ یہ ایسی تعریف و دلیل ہے کہ مغربی مفکرین جنھوں نے جمہوریت کو ’’حق‘‘ثابت کرنے کے بہت سے عقلی و تاریخی دلائل وضع کرنے کی کوشش کی ہے ، ان کو بتلائی جائے تو اس کو’’ فدویانہ جی حضوری ‘‘ کے سوا کچھ نہیں سمجھیں گے۔اہلِ مغرب کو واضح اور یقینی طور پر معلوم ہے جمہوریت دین کی اساس پر قائم ہونے والی ہر تقسیم کو رد کرتی ہے۔ جمہوریت مغربی تصور انسانی حقوق کی روشنی میں ’’اصولِ اکثریت ‘‘ اور ’’اصولِ مساوات ‘‘ پر حتمی عقیدہ رکھنے کا نام ہے ۔

روایتی مدرسی فکر سے متعلق طبقہ عجیب تضاد فکری کا شکار ہے ایک طرف دعویٰ ’’اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ‘‘، ’’یہ ہر دور میں قابلِ عمل ہے ‘‘ ،’’ اس کے پاس سیاسیات، معاشیات اور سماجیات کا مکمل نظام موجود ہے ‘‘اور دوسری طرف عمل ’’اسلامی جمہوریت ‘‘، ’’اسلامی بینکاری‘‘۔ وہ جو اسلام میں سب کچھ موجود ہے وہ کدھر ہے؟ کیا مغربی اداروں ، سیاسی نظام اور سائنسی فکر سےادارے ادھار لے کر اس کو ‘‘اسلامائز‘‘ کرنے سےثابت ہوتا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی دیتاہے ؟کیا اسلام، مغربی نظم ِ معیشت و سیاست میں اپنی پیوندکاری کے اعتبار سے قابلِ عمل ہے ؟

اسلامائزیشن کی دوسری جہت مغربی اداروں کے ظاہری سٹرکچر میں بعض جزوی تبدیلیوں کے ذریعے ان کو اسلامائز کرنا ہے ۔مثلاً بینکوں کے کاروبار میں ان کی پروڈکٹس کے طریقۂ کار میں بعض جزوی تبدیلیاں کرکے ا ن کو اسلامی قراردیا جاتا ہے ۔اس کے لیے فقہی پیراڈائم میں ’’قیاس علی النظیر‘‘ کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے ۔ فقہی نظائر کے حصول میں بھی کسی ایک اصولِ فقہ کی پابندی نہیں کی گئی بلکہ مذاہب اربعہ میں سے جہاں کہیں کوئی جزئی ملی، اس کو ’’نظام‘‘ چلانے کے لیے قبول کیا گیا ہے ۔ ہمارے مدارس کے اہلِ علم نے اس اسلامائزیشن کے طریق پر جو تنقیدات کی ہیں وہ اس طرز کی ہیں جس سے بس یہ تاثر ملتا ہے کہ گویا ان کا اختلاف فروعی ہے جیسے شافعیہ و حنفیہ کے مابین بیوع اور ان کی شروط میں اختلاف ہے ۔ حالانکہ مغربی معیشت کی نظریاتی اساس ’’جمع و ارتکاز مال کا اصول‘‘ (Saving and Accumulation of wealth) ہے ۔جب کہ اسلامی معیشت کی نظریاتی اساس ’’اصولِ انفاق‘‘ ہے ۔ انفاق اور ارتکاز دو متضاد اصول ہیں ۔ بینک اصولِ جمع و ارتکاز پر قائم ہونے والا ادارہ ہے ۔ وقف کی اساس ’’ اصولِ انفاق ‘‘ ہے ۔ بہت عجیب بات ہے کہ اسلامائزیشن کرنے والوں کو دومختلف اساسیات پرکھڑے ادار ے جزوی تبدیلیوں کے بعد ایک جیسے نظرا ٓتے ہیں ۔ اگر اسلامائزیشن کرنے والوں کا نظریہ ہے کہ اسلامی معیشت عہد نبوی ؐوصحابہ ؓمیں ’’اصولِ جمع و ارتکاز‘‘ پر استوار ہوئی ہے تو کچھ دلائل ہمیں عنایت فرمائیں۔

اسلامائزیشن کے قبول ورد کے کے لیے ہمیں درج ذیل سوالوں کا جواب تلاشنا ہوگا۔

  1. کیا ملحدین و اہلِ کفر کے نظریات و افکار اور ان کے معاشی اصولوں کے تحت قائم ہونے والے ادارروں کی نظریاتی اساس اور اسلامی فکر و عمل سے پیدا ہونے والےنظمِ معیشت میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے ؟

  2. کیا کسی نظمِ معیشت کی بنیاد رکھنے والوں کا الحاد، نظریۂ اخلاق ، نظریۂ دنیا و آخرت، ان کے نظمِ معیشت و سیاسیات پر اصول و اساس میں اثراانداز نہیں ہوتا ؟ کیا ایک ملحد کی نظریاتی اساس سے بننے والا نظمِ معیشت و سیاست واقعی اس قدر ’’نیوٹرل‘‘ ہوتا ہے کہ محض سٹرکچرل تبدیلیوں سے اس کی بنیادیں تبدیل ہوجاتی ہیں؟

  3. کیا نظریاتی ، مذہبی ، اخلاقی اور سولائزیشنل پس منظر جو صدیوں کی اثر اندازی و اثر پذیری رکھتا ہو وہ جزوی تبدیلیوں سے غیر مؤثر ہوجاتا ہے؟ جیسے اہلِ مغرب کا سیاسی و معاشی نظام صدیوں کی ارتقا پذیری کے بعد محض چند فقہی تبدیلیوں کے بعد ’’قلبِ ماہیت ‘‘ سے گزرجاتا ہے ؟ اگر گزرجاتا ہے تو آخر اس کا نام تک کیوں نہیں بدلتا جب کہ ایک سادہ سا اصول ہے کہ قلبِ ماہیت کے بعد وجود میں آنے والی چیز کا نام ’’سابق‘‘ ہی نہیں رہتا؟

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

[مستعار مضامین کو مجلّے کی ادارتی پالیسی کے مطابق شائع کیا جاتا ہے (ادارہ)]

٭٭٭٭٭

Exit mobile version