مجھے اس جہنم سے باہر نکالو!

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا (النسآء: 75)

’’اور (اے مسلمانو) تمہارے پاس کیا جواز ہے کہ اللہ کے راستے میں اور ان بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجیے، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجیے۔ ‘‘

چند ماہ قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ان کی بہن اور وکیل سے ملاقات ہوئی جبکہ اختتام پر انہوں نے روتے ہوئے کہا: مجھے یہاں سے نکالو! مجھے اس جہنم سے نکالو!!!

۳۰ مارچ، ۲۰۰۳ ء، امت مسلمہ کی تاریخ کا وہ دن ہے جب پاکستان کے دین و ملت فروش حکمرانوں اور جرنیلوں نے اس قوم کی بہن و بیٹی کو، جو اس امت کا بہترین سرمایہ تھی، اس امت کے دشمن خاص صلیبیوں کے ہاتھوں چند ڈالروں کی خاطر بیچ ڈالا۔

عافیہ صدیقی وہ نام ہے جس سے ہمارا بچہ بچہ واقف ہے۔ کچھ لوگ محبت و عقیدت سے تو کچھ ایک عام سی خبر کے طور پر ان کی خبریں پڑھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ جب افسوس زیادہ بڑھ جائے تو کچھ نعرے اور ریلیوں کا انتظام کیا جاتا ہے اور پھر وقتی جذباتی تقاریر سے جذبات کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں اپنی جگہ صحیح، ہر انسان کا اپنا انداز ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کتنا ہے؟ اور یہ طریقہ کتنا مؤثر ہے؟

جب بھی ہم کوئی کاروبار شروع کرتے ہیں تو اس کے حوالے سے ہم چھان بین کرتے ہیں، علم حاصل کرتے ہیں ، سمجھنے میں وقت اور پیسہ خرچ کیا جاتا ہے، تب جاکر ہم اپنے کاروبار میں پیسہ لگاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب ہم اپنے دین کے حوالے سے کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس کے صحیح طریقے کی چھان بین کیوں نہیں کرتے ؟ کیا یہ اتنا غیر اہم اور سستا کاروبار ہے کہ اس کے لئے ہم کم از کم اتنا بھی نہ سوچیں کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ ہمارا عمل مؤثر بھی ہوگا یا نہیں،یا یہ کفار کے لئے ایک ہنسی مذاق سے بڑھ کر کچھ نہیں ہو گا؟

کسی بھی قوم کے آگے بڑھنے کے لئے اسکی تاریخ بہت اہمیت کی حامل ہے، خصوصا امت مسلمہ کے لیے۔ وہ امت جس کی ایک بیٹی کی پکار پر امت کے ابطال نہ مسافت دیکھتے ہیں نہ اسباب…… بغداد سے اٹھ کر سندھ میں راجہ داہر پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

جس طرح امت محمدیہ ﷺ کا عروج اپنے اسلاف کے طریقے پر چلنے سے مشروط ہے، اسی طرح اس امت کا زوال اسلاف کے طریقے کو بھلانے کا نتیجہ ہے ۔

جب اس امت پر سانحوں میں سب سے بڑا سانحہ ہمارے پیارے محبوب ﷺ کی وفات کا گزرتا ہے تو ا س وقت بھی ہمارے رہبر صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس غمگین حالت میں بھی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لشکر کی روانگی کی فکر ہوتی ہے۔ کوئی تو وجہ ہے کہ ایسے کڑے وقت میں بھی آپ رضی اللہ عنہ لشکر کو روانہ کر دیتے ہیں؟ جہاں جہاں نظر دوڑائیں امت مسلمہ کے عروج کی تاریخ جہاد فی سبیل اللہ سے ہی منسلک ہے۔

سندھ میں قید ہماری بہن کس امید سے اپنے بھائیوں کو پکارتی ہے اور ابطالِ امت کیسے اس کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے چل پڑتے ہیں……

اور آج ۲۱ سال سے قید ہماری بہن عافیہ جو کیسے کیسے ظلم و ستم سہہ رہی ہے کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں ، وہ کیسے لمحہ لمحہ کسی محمد بن قاسم کی منتظر ہو گی، تو ان کی مدد کے لئے کیا صرف جلسے جلوس یا نعرے بازی سے فائدہ ہوگا؟

جہاں خون کے قطروں کی ضرورت ہو وہاں آنسوؤں کے قطرے کیا کام کریں گے؟ امت کی تاریخ دیکھیں تو کہیں حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا (اسلام کی پہلی شہیدہ)نظر آئیں گیں تو کہیں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ(جو غزوہ خیبر میں خیمیے کی چوب سے یہودی کا سر قلم کر کے یہودیوں پر ہیبت طاری کر دیتی ہیں )، کہیں خولہ بنتِ ازور ہیں (جو اپنے بھائی کی رہائی کے لئے مردانہ لباس میں میدانِ جہاد میں اتر آتی ہیں ) ، تو کہیں حضرت خنساء رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو ایک ہی محاذ میں اپنے پانچ بیٹوں کو جہاد پر ابھارتے ہوئے میدان میں اتارتی ہیں )……

تو اے امت مسلمہ! کیا وہ وقت نہیں آیا کہ آج ہم اپنے اسلاف کے طریقے پر چلتے ہوئے اپنے دل میں عافیہ کا درد محسوس کرسکیں؟ یا یہ محسوس کر سکیں کہ ڈاکٹر فوزیہ اپنی بہن کو وحشیوں کی قید میں دیکھ کر کیسے سسکتی ہونگی؟ یا اس ماں کا درد محسوس کر سکیں جو بیٹی کی رہائی کی خواہش دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں؟ اگر یہی سب کچھ ہماری بہن یا بیٹی کے ساتھ ہوتا، تو کیا ہم یہ خبر پڑھ کر یوں ہی گزر جاتے؟ یا یوں ہی آنسو بہانے پر اکتفاء کرتے؟

جہاد کی فرضیت کی شرائط میں سے ایک شرط ہے ، جب تک ایک بھی مسلم خاتون کافروں کی قید میں ہو ، پوری امت پر جہاد فرض ہے……نماز ، روزے کی طرح۔

ہم ایک فرض کو نبھاتے ہیں اور دوسرا چھوڑ دیتے ہیں، جبکہ قرآن پاک کا حکم ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَافَّةً (البقرة: 208)

اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤز

یہ پاکستان جسے حاصل کرنے کے لئے لاکھوں لوگوں نے لاالہ الاللہ کے نام پر اپنی جانیں نچھاور کیں، جن کا صرف اور صرف مطالبہ اور ارمان شریعت کے لئے الگ زمین تھی، یہاں شروعات سے ہی جمہوریت کو شریعت پر فوقیت دی گئی اور قوانین کے احترام کے نام پر عوام کے دل میں اللہ حاکمِ بالا کے حکم کی اہمیت کم اور ملک کے قانون کو برتریت دی گئی۔ جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ملعون آسیہ مسیح (گستاخ رسول ﷺ) کو کس طرح محبانِ رسول ﷺ سے بچا کر با حفاظت کینیڈا پہنچایا گیا۔ اسی طرح شریعت کے احکامات کا مذاق اڑانے والی ملا لہ یوسف زئی کو کس طرح سیکیورٹی فراہم کی گئی اور اسی طرح خواتین مارچ کے نام پر بے حیائی پھیلانے والے عناصر اس ملک میں مظبوط سے مضبوط تر ہوتے نظر آ رہے ہیں……

دوسری طرف حیا اور عفت کے دائرے میں رہتی ایک مؤمنہ پاکباز بہن عافیہ صدیقی ہے جس کو اس کی دین و شریعت سے محبت کی سزا دینے کے لئے نمونہ عبرت بنانے کے لیے صلیبیوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے…… اور جامعہ حفصہ کی پاکیزہ طالبات ہیں، جن کا جرم شریعت کے مطالبے سے بڑھ کر اور کچھ نہیں، ان کو فاسفورس بموں کی بارش سے جلا ڈالا جاتا ہے……

کیا یہ تمام حقائق ایک ذی شعور مسلمان کو یہ سوچنے پر مجبور نہیں کرتے کہ کیا یہ وہی ملک جو شریعت کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ؟

اے میرے دین کے پاسبانوں اٹھو!
اس نظامِ بدی سے بغاوت کریں

٭٭٭٭٭

Exit mobile version