سورۃ الانفال | بارہواں درس

خواطر، نصائح اور تفسیر

الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و ذریتہ اجمعین اما بعد

فقد قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم

﴿وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ ۙ اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ؀وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ؀ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ؀وَمَا لَهُمْ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَهُمْ يَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوْٓا اَوْلِيَاۗءَهٗ ۭاِنْ اَوْلِيَاۗؤُهٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ؀﴾ (سورۃ الانفال: ۳۱ تا ۳۴)

صدق اللہ مولانا العظیم

رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ

اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا اور جب ان کے اوپر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں، یعنی اللہ کی کتاب کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں کافروں کے سامنے، قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا تو وہ کہتے ہیں یا وہ کہنے لگے کہ ہم نے سن لیا، لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَا اگر ہم چاہتے یا اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسی باتیں کر سکتے ہیں یعنی ہم بھی (نعوذ باللہ) ایسا ہی قرآن جیسا کلام کہہ سکتے ہیں، اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ یہ کچھ نہیں ہے سوائے گزرے ہوئے وقتوں کی کہانیوں کے یا گزرے ہوئے وقتوں کے افسانوں کے یا پرانی فرسودہ باتوں کے۔

اس آیت میں اور اس سے اگلی آیات میں اللہ رب العزت کفار کے رد عمل کو یعنی اہل ایمان کی جانب سے دعوت ملنے کے جواب میں کفار کا جو رد عمل ہوتا ہے اس کو بیان فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کفار کی نفسیات ہمیں سمجھاتے ہیں۔

اپنے دشمن کو پہچانیں!

عزیز بھائیو! اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی کتاب میں کفار کی مختلف اصناف کے ظاہری اعمال کا تفصیل سے بیان کیا وہیں ان کی داخلی نفسیات، ان کے سوچنے کے طریقے، ان سب کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے کھول کر بیان کیا ہے۔ اس لیے کہ ایک انسان کی زندگی میں اپنے دشمن کی پہچان اور اس کو سمجھنا زندگی کے اندر کامیاب ہونے کے لیے ، درست فیصلے کرنے کے لیے اساسی چیز ہوتی ہے۔ تو مسلمانوں کے لیے، جو ان کی خارجہ پالیسی ہے اور مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ جو تعامل کرنا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک مسلمان پہلے اللہ کی کتاب کی طرف لوٹے اور جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہود و نصاری کے بارے میں مختلف تفاصیل بیان کی ہیں، ان کے درمیان جو مشترک نکات ہیں وہ بیان کیے ہیں، ان کے آپس میں جن امور پر اختلاف ہیں وہ بیان کیے ہیں ، ان کے جن اوصاف میں فرق پایا جاتا ہے وہ بیان کیے ہیں، ان کے سوچنے کا طریقہ، ان کے دلوں میں آنے والے خیالات، ان کی حجتیں اور دلائل، ان سب کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کے اندر کھول کھول کر ہمارے سامنے بیان فرمایا ہے۔ تو جب تک یہ سامنے نہ ہو تب تک ان لوگوں کے ساتھ ہمارا تعامل ویسا نہیں ہو سکتا جیسا ہونا چاہیے، جیسا اللہ کو مطلوب ہے ، جیسا شریعت کو مطلوب ہے اور جس میں ہمارا اپنا نفع اور ہماری بھلائی ہے۔ تو یہاں بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کافروں کے اوصاف بیان کیے۔

کیا باطل پر چلنے والے محض جہالت یا تاویل کی بنا پر ایسا کرتے ہیں؟

بہت سے بھائی جن کی آنکھ اس جدید تہذیب سے رنگے ہوئے معاشرے میں کھلی ہو تو وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ جب ان کے سامنے کافروں کا بیان ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ان بے چاروں کے ذہن میں بھی کوئی نہ کوئی تاویل ہو گی یا وہ بھی کوئی نہ کوئی اچھی نیت رکھ کر ہی یہ کام کر رہا ہو گا۔ فوج کی بات آئے کہ جس کے ہاتھ سے سالہا سال سے مسلمانوں کا خون ان علاقوں میں بہتا رہا تو ان کے بارے میں بھی کہیں گے کہ وہ بھی بے چارے ہیں، یا وہ جاہل ہو گا یا اس کے ذہن میں بھی کوئی اور بات ہو گی۔ تو یہ سادہ لوحی پر مبنی تصور ہے کہ لوگوں کے کفر پہ چلنے یا اللہ کے دین سے منہ پھیرنے کی واحد وجہ ان کی جہالت، لاعلمی یا ان کا کوئی تاویل کرنا ہوتا ہے۔ ایک آدھ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کے علاوہ ایسا گروہ بھی پایا جاتا ہے کفار میں اور اللہ کے دین سے منہ پھیرنے والوں میں جو باطل کو باطل جانتے ہوئے اس کا ساتھ دیتا ہے اور حق کو حق جانتے ہوئے اس سے منہ پھیرتا ہے۔ تو تکبر اور عناد و سرکشی پر مبنی یہ رویے قرآن میں جا بجا بیان کیے گئے ہیں۔ اور جو قرآن پہ نگاہ رکھتا ہو وہ کبھی بھی یہ عمومی بات اس طرح سے نہیں کر سکتا کہ جو بھی کفر پہ کھڑا ہوا ہے لا محالہ اس کے پاس بھی کوئی نہ کوئی اچھی نیت یا کوئی وجہ ہو گی یا وہ کسی جہالت کی وجہ سے ایسا کر رہا ہو گا، نہیں! شیطان کے ایسے پیروکار بھی ہوتے ہیں جیسا کہ شیطان خود تھا کہ اس نے، جب اللہ رب العزت نے اسے دھتکارا تو جرأت کرتے ہوئے کہا کہ ﴿ قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ …… لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ﴾ اے میرے رب! جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا،(نعوذ باللہ) جس طرح تو نے مجھے رستے سے ہٹایا اسی طرح میں تیرے بندوں کو رستے سے ہٹاتا رہوں گا ، اور پھر مہلت مانگی کہ ﴿قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِيْٓ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ﴾، اے میرے رب! جس دن لوگوں کو دوبارہ اٹھایا جانا ہے اس دن تک مجھے مہلت دے دے تاکہ میں لوگوں کو گمراہ کر سکوں، اور پھر کھل کے بیان کیا کہ ﴿ وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ ……﴾ میں انہیں گمراہ کروں گا اور ان کے دلوں میں تمنائیں ڈالوں گا اور کیسی کیسی بدعات و شرکیات میں ان کو سجھاؤں گا، تو وہ ایک ایک چیز اس نے کھل کر وہاں کہی۔ پس وہ باطل کو جانتا تھا اور وہ حق کو بھی جانتا تھا، رب کو ’ربی‘ کہہ کر پکار رہا تھا، اس کے باوجود رب کے ساتھ دشمنی بھی لگا رہا تھا اور رب کے بندوں کو رستے سے ہٹانے کا چیلنج بھی دے رہا تھا۔ اسی شیطان کے ایسے پیروکار انسانوں میں بھی ہوتے ہیں کہ جو باطل کو خوب پہچانتے ہیں، جیسے اللہ فرماتے ہیں کہ ﴿ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ ﴾، اللہ کے نبی ﷺ کو وہ اس طرح بخوبی پہچانتے ہیں جس طرح اپنی سگی اولاد کو پہچانتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انکار کرتے ہیں اور اس کے باوجود حق سے منہ پھیرتے ہیں، تو ایسی ہی کچھ نفسیات کا ذکر یہاں پر بھی فرمایا۔

اللہ فرماتے ہیں:

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا جب ان کافروں کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں، قَالُوْا تو وہ کہتے ہیں قَدْ سَمِعْنَا کہ بس ہم نے سن لیا، لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَا اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسی بات کرسکتے ہیں……

یہ سراسر جھوٹ، عناد اور تکبر پر مبنی بات ہے، حالانکہ قرآن ان کو چیلنج بھی دے چکا ہے کہ اس قرآن جیسی کتاب لے آؤ، اس جیسی دس سورتیں لے آؤ، اس جیسی ایک سورت لے آؤ، لیکن وہ نہیں لا سکے، وہ عاجز ہوئے، وہ کوشش کرنے کے باوجود عاجز ہوئے۔ انہوں نے اپنے میں سے لوگوں کو فارغ کیا اس کام کے لیے کہ کچھ لوگ بیٹھیں اور قرآن کے مقابلے کے لیے کچھ آیتیں اور کچھ سورتیں بنا کر لائیں۔ نہیں لا سکے وہ اس کے مقابلے میں۔ اس کے باوجود جب اللہ کی آیتیں پڑھی جاتیں تو تکبر میں یہ بات کہتے کہ یہ تو ہم بھی کر سکتے ہیں مگر ہم خود ہی نہیں کر رہے۔ ہم چاہیں تو ہم بھی کر سکتے ہیں اس کا مقابلہ لیکن ہم خود نہیں کر رہے، یہ کون سا مشکل کام ہے۔ تو یہ کبر پر مبنی رویہ ہے کہ کافروں کی ایک صنف ایسی ہوتی ہے کہ جو حق کو پہچانتی ہے خوب اور اپنا باطل پہ ہونا جانتی ہے لیکن رویہ ایسا متکبرانہ اختیار کرتی ہے۔

اور کیا کہا کہ اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ یہ کچھ بھی نہیں ہے سوائے گزرے وقتوں کی کہانیوں کے۔ پرانے افسانے ہیں، پہلے سے باتیں چلی آرہی ہیں، اور اسی بات کا دیگر جگہوں پر بھی قرآن نے ذکر کیا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ رسول اکرم ﷺ نے جا کر ، اللہ تعالیٰ جس کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ، ﴿ لِسَانُ الَّذِيْ يُلْحِدُوْنَ اِلَيْهِ اَعْجَمِيٌّ …﴾ ، کہ یہ جس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جو شام کے سفر پر گئے تو وہاں انہوں نے اہل کتاب سے اور دیگر لوگوں سے کہانیاں سنیں ان کی اور ان کو اکٹھا کر کے ایک اور انداز میں ہمارے سامنے پیش کر دیا۔ تو یہ بھی ایک الزام تھا جو رسول اکرم ﷺ پر وہ جھوٹ بول رہے تھے ، ان کو خود بھی بخوبی یہ بات پتا تھی لیکن یہ جھوٹا الزام لگاتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ جو کتاب لے کر آئے ہیں وہ کتاب ادھر ادھر سے آپ نے جمع کی ہے نعوذ باللہ اور دیگر لوگوں سے وہ پرانے وقتوں کی باتیں سنیں اور ان کو ہمارے سامنے نقل کر دیا۔ اور پھر اپنی اس دلیل میں بھی وہ جھوٹے تھے اس لیے کہ کسی جگہ پہ یہ کہتے تھے کہ اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اور کیا کہتے تھے ﴿ مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ …﴾ کہ ہم نے تو یہ بات پہلے کبھی سنی ہی نہیں ہے۔ صرف مقصود یہ تھا کہ جہاں بھی اللہ کے دین کی دعوت آئے تو اس وقت کوئی بھی بات پھینک کے، خواہ وہ کتنی ہی بے سر و پا ہو، اللہ کے دین کی دعوت سے منہ پھیرا جائے۔ تو یہ وہ رویہ ہے جس کو آج آپ کفر کے میڈیا میں یا عالمی اور مقامی میڈیا میں دیکھتے ہیں کہ انہوں نے حق کا انکار کرنا ہی کرنا ہے ، حق بات کو کسی طرح نیچا دکھانے کی کوشش کرنی ہے چاہے کوئی بھی بات پھینک کے۔ ایک ہی بندے کے ایک ہی ٹاک شو میں بیٹھ کر وہ ایک بات کر رہا ہو گا اور کسی دوسرے سوال میں پھنس کر کوئی دوسری بات کر رہا ہو گا، مقصد بس ایک ہو گا کہ حق سے منہ پھیرا جائے اور حق سے جی چرایا جائے اور کوئی نہ کوئی حجت، خواہ وہ کتنی ہی بودی کیوں نہ ہو، پیش کر کے حق سے جان چھڑائی جائے۔ تو یہ ان کا رویہ تھا جو یہ کہتے تھے کہ یہ پچھلے وقتوں کی کہانیاں ہیں۔ اور نعوذ باللہ اللہ کے نبی نے دوسروں سے سن کے اسی کو نئے انداز میں پیش کر دیا۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ نبی کریم ﷺ اُمی ہیں اور جانتے تھے کہ آپ ﷺ نے کبھی بھی ساری زندگی جھوٹ نہیں بولا ۔ چھوٹے چھوٹے ذاتی امور میں نہیں بولا تو وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹ باندھ سکتے ہیں۔ تو یہ ساری باتیں جاننے کے باوجود وہ یہ جانتے تھے کہ جو کلام وہ لائے ہیں اس کا مقابلہ کرنے سے وہ عاجز رہے ہیں ، سارے مل کر ایک اُمی کے پیش کردہ کلام سے، جو قطعی دلیل ہے اس بات کی کہ ایسا معجزانہ کلام اللہ کے سوا کسی کی طرف سے نہیں ہو سکتا ، اس کے باوجود اس سے انکار کرتے تھے اور پھر یہیں پہ نہیں رکے بلکہ:

وَاِذْ قَالُوا اور جب انہوں نے کہا کہ اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ اے اللہ اگر یہ تیری طرف سے حق ہے ، یعنی جو دعوت نبی کریم ﷺ لائے، جو کتاب آپ لائے، اگر یہی حق ہے اور رسول اللہ ﷺ خود برحق ہیں تو دعا کیا ہونی چاہیے؟ یعنی یہاں پر آیت روکیں تو اصولاً کوئی جو اس حق اور خیر کا طالب ہو اور واقعتاً وہ جاہل ہو اور حق کو جاننا چاہتا ہو تو اس کی دعا تو یہ ہونی چاہیے کہ اے اللہ! ہمیں اس کی اتباع کی توفیق دے، لیکن ان کی دعا کیا ہوتی تھی کہ اے اللہ! اگر یہ حق ہے تو فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ جرأت اللہ کی شان میں دیکھیے ، کہ پھر آسمان پر سے ہمارے اوپر پتھر برسا دے۔ یہ دعا کرنے کے لیے اللہ کے سامنے جس درجے کا تکبر چاہیے اور جس درجے کا عناد چاہیے وہ اس جملے سے واضح ہے کہ اے اللہ! اگر یہ حق ہے تو ہمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا دے اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ اور یا ہمیں دردناک عذاب دے دے۔ نعوذ باللہ من ذلک۔

یہاں تک ان کا اللہ کے دین سے منہ پھیرنا پہنچا کہ انہوں نے جانتے بوجھتے اللہ کے دربار میں ایسی جرأت کی اور کہا کہ اے اللہ! ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے۔

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے والے نہیں جب کہ تو ان کے اندر موجود ہے، یعنی اے محمد ﷺ! جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں اور اپنی نبوت کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، دعوت دے رہے ہیں ۔ یہ اللہ کی سنت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی کے کام کرنے کی مہلت پوری ہونے سے قبل اور حجت تمام ہونے سے قبل عذاب اتار دیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کی ان کے درمیان موجودگی کے سبب ان پہ سے عذاب کو ٹالا اور وہ بدبخت اس کو نہیں پہچان سکے کہ ان سے جو عذاب رکا ہوا ہے وہ عین اسی ہستی کی وجہ سے رکا ہوا ہے جس کے وہ سب سے زیادہ مخالف ہیں، جس پہ وہ تھوکتے ہیں ، جس کو وہ گالیاں دیتے ہیں، جس کی راہوں میں کانٹے بچھاتے ہیں، جس کو پتھر مارتے ہیں، وَاَنْتَ فِيْهِمْ ، کہ جب تک وہ موجود ہے ان کے درمیان تب تک اللہ کا عذاب ان سے رکا ہوا اور ٹلا ہوا ہے۔

استغفار کا ثمرہ

وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دینے والے جب کہ یہ لوگ استغفار کررہے ہیں۔

اس حوالے سے میری نگاہ سے مفسرین کے دو اقوال گزرے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ استغفار کر رہے ہیں سے مراد یا تو یہ ہے کہ یہ لوگ خود بھی دل میں جانتے تھے ، اتنے متکبرانہ، جری اور کفریہ جملے بولنے کے بعد کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں، اور یہ جانتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ ناراض ہوئے تو واقعی عذاب اتار دیں گے۔ تو سامنے سامنے اکڑ اپنی برقرار رکھتے اور ناک اونچی رکھنے کے لیے اس قسم کے جملے کہتے تھے گویا وہ سو فیصد حق پہ کھڑے ہوئے ہیں اور گویا ان سے زیادہ کوئی برحق ہے ہی نہیں تبھی اتنے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ عذاب اتر آئے آسمان سے اور پیچھے لوٹ کے استغفار کیا کرتے تھے اور اللہ سے معافی مانگا کرتے تھے اپنے اس قول پہ۔ تو ایک یہ تفسیر مفسرین نے بیان کی اور ایک تفسیر یہ بیان کی کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ ان کو عذاب دینے والا نہیں جب تک کہ ان کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو استغفار کر رہے ہیں اور یہ اشارہ ہے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی طرف کہ وہ اپنی قوم کی ان حرکتوں کو دیکھ کے اللہ سے استغفار کیا کرتے تھے اور اللہ کے عذاب سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ تو اللہ نے ان صالحین کی موجودگی اور ان اصحاب ایمان کی موجودگی کی وجہ سے اس قوم کے اوپر عمومی عذاب مسلط نہیں کیا۔ تو صالحین کی موجودگی کسی اجتماعیت کے اندر، کسی معاشرے کے اندر عذاب کے ٹلنے کا سبب ہوتی ہے۔ عموماً یہی ہوتا ہے کہ معاشرے کی اکثریت گمراہی کے رستے پر جا رہی ہوتی ہے اور ان کو برا بھلا کہہ رہی ہوتی ہے، ان کو طعنوں سے نواز رہی ہوتی ہے لیکن معاشرہ نہیں جانتا کہ انہی صالحین کی برکت سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان پر سے عذاب کو روکے رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر ہلاکت اور بربادی نہیں مسلط کرتے۔

آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَمَا لَهُمْ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَهُمْ يَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ،ان میں ایسی کیا خوبی ہے یا ان میں ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہ دیں جب کہ یہ مسجد حرام سے روکتے ہیں ۔ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ یہ آیات مدینہ میں نازل ہو رہی ہیں، اس وقت تک نبی کریم ﷺ مکہ والوں کو چھوڑ کر مدینہ تشریف لا چکے تھے، جبکہ مخاطب آیات میں بنیادی طور پر ذکر مکہ والوں کا ہو رہا ہے، تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ اب کیونکر اللہ تعالیٰ ان سے عذاب روکے رکھے، اب کیوں نہ ان کے اوپر عذاب اترے جب کہ اللہ کے نبی بھی وہاں سے نکل آئے اور صحابہ بھی وہاں سے نکل آئے اور دوسری یہ بات کہ ان کے اپنے اندر تو پہلے بھی کوئی ایسی صفت تھی ہی نہیں کہ جس کی وجہ سے یہ عذاب سے بچتے۔ عذاب رکا ہوا تھا تو اس کی وجہ ان کے سوا تھی، وہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کی وجہ سے رکا ہوا تھا، اب جب نکل آئے ان میں سے وہ صالحین تو اب ان میں ایسی کون سی خوبی ہے کہ اب انہیں اللہ تعالیٰ عذاب نہ دیں جب کہ یہ مسجد حرام سے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کو روک رہے ہیں اور مسلمانوں کو اس میں داخل نہیں ہونے دے رہے، وَمَا كَانُوْٓا اَوْلِيَاۗءَهٗ، اور یہ اس کے جائز متولی بھی نہیں ہیں، اس کے حق دار بھی نہیں ہیں کہ یہ مسجد حرام کی تولیت سنبھالیں اور یہ مسجد حرام کا انتظام کریں۔ اِنْ اَوْلِيَاۗؤُهٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ اس کے اولیا یا اس کے متولی یا اس کی ولایت کے مستحق تو صرف متقی لوگ ہیں۔ اللہ کی جو محترم ترین عبادت گاہ دنیا کے اندر موجود ہے اس کی تولیت کا کوئی حق دار بنتا ہے تو وہ متقی ہیں، وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ لیکن ان کی اکثریت اس بات کا علم نہیں رکھتی۔

تو پیارے بھائیو! اس دور میں بھی مسجد حرام کی تولیت ایک طویل عرصے تک، یعنی تقریباً بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہے کہ جس میں دین موجود تھا، اللہ کے نبی موجود تھے، صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین موجود تھے لیکن مسجد حرام اللہ کے دشمنوں کے ہاتھ میں تھی۔ اور آج ایک دفعہ پھر ایک اعتبار سے اس سے مشابہ صورت ہے۔ یعنی بعینہ وہ صورت تو نہیں لیکن اس سے مشابہ صورت موجود ہے کہ جو اپنے آپ کو خادم حرمین شریفین کہتا ہے وہ اللہ کے دین کا سب سے بڑا دشمن ہے ، اس خطے کے اندر وہ سب سے بڑا طاغوت ہے اس سرزمین کے اوپر جس نے اللہ کے نبی ﷺ کی وصیت کی صریح مخالفت کرتے ہوئے اللہ کے دشمنوں کو، یہود و نصاری کی فوجوں کو وہاں گھسنے کا موقع دیا اور ان کو وہاں مراکز قائم کرنے کا موقع دیا۔ بلکہ دہائیوں سے جس خاندان نے یہ سلسلہ جاری کر رکھا ہے کہ امت کا تیل انتہائی سستے داموں، عملاً مفت بیچا جا رہا ہے اپنی ذاتی ملکیت کے طور پہ اللہ کے دشمنوں کو اور پورا مغربی اقتصاد، جس کے بل پہ وہ آج ہمیں دبا رہے ہیں، وہ اسی تیل کے سہارے چل رہا ہے یا کھڑا ہوا ہے۔ اور انہوں نے اللہ کے نبی ﷺ کی اس سرزمین کے اوپر یہود و نصاری کی عورتوں کو ساحلی علاقوں میں فحش کاریاں کرنے کی اجازت دی ہے ، بدکاری کے اڈے کھولنے کی اجازت دی اور عین اسی حرم کے اندر جہاں ایک جانور تک کے شکار سے منع کر دیا گیا وہاں اللہ کے محبوب بندوں کا، اللہ کے رستے میں جہاد کرنے والوں کا ڈھونڈ ڈھونڈ کہ شکار کیا گیا، ان کا خون بہایا گیا، ان کے قتل کے فتاوی جاری کیے گئے علمائے سلاطین کی طرف سے ۔

مسجد حرام کی تولیت حاصل کر لینا تقوی کا معیار نہیں

تو عزیز بھائیو! آج بھی جو لوگ واقعتاً اس کی تولیت کے حق دار ہیں وہی شاید وہاں نہیں جا سکتے ، باقی دنیا کا ہر مجرم وہاں جا سکتا ہے، پرویز مشرف اس میں داخل ہو سکتا ہے اور قذافی جیسا بڑے سے بڑا طاغوت وہاں جا سکتا تھا لیکن اللہ سے ڈرنے والے اور اللہ کے رستے میں لڑنے والے ، اللہ کے دین کی خاطر اپنی جانیں لگانے والے نہیں جا سکتے۔ یہ کوئی فضیلت کی چیز اس وقت مشرکین کے لیے نہیں تھی جب وہ اس دور میں قابض تھے ، فضل سارے کا سارا اللہ کا اپنے نبی ﷺ کی جماعت سے جڑے رہنے کے اوپر تھا اور جو ان سے جڑا رہا ، چاہے وہ مکہ میں داخل نہیں ہو سکا سالوں تک ، چاہے مسجد حرام کی تولیت اس کے ہاتھوں میں نہیں آ سکی، اس کی افضلیت اپنی جگہ برقرار رہی ۔ اسی طرح آج بھی یہی کیفیت ہے کہ وہ خود کو خادم حرمین شریفین کہلوائے اور قرآن کے نسخے پرنٹ کروا کروا کر اس کے اوپر اپنا نام لکھے ، اس سے اس کا کفر و ارتداد درست نہیں ہو سکتا اور اس سے اللہ کے ہاں اس کی بخشش نہیں ہو سکتی، الا یہ کہ وہ توبہ کرے اور جس باب سے دین سے خارج ہوا ہے اسی باب سے دین میں دوبارہ داخل ہو۔ اور نہ یہ مجاہدین کی اللہ کے یہاں قبولیت میں کوئی کمی ہونے کی نشانی ہے کہ مجاہدین اس سرزمین کا آزادانہ رخ نہیں کر سکتے۔ ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں کہ جس طرح فتح مکہ کے دن مسلمان داخل ہوئے اور کوئی ان کو نہیں روک سکا مکہ میں داخل ہونے سے اور انہوں نے اللہ کے گھر کو آزاد کروایا تو اسی طرح وہ دن دور نہیں ہے کہ ایک دفعہ پھر اللہ کے صالح بندے جو ہیں وہ اللہ کے رستے میں جہاد کرنے والے وہاں عزت کے ساتھ داخل ہوں گے اور اللہ کے دشمن وہاں ذلیل و رسوا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ وہ دن اور قریب لے آئے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی آنکھوں سے وہ سعادت دیکھنے کی توفیق دے ۔

سبحانک اللھم و بحمدک ونشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی

٭٭٭٭٭

Exit mobile version