اس سیکولرزم اور سنودھان نے ہمیں کیا دیا؟

سوزش یگانہ یوں ہی سرد ہو جاتی تو کیا تھا

شورش زمانہ یوں ہی گرد ہو جاتی تو کیا تھا

وہ سرزمینِ ہند جو کبھی ایک خوبصورت پھلتا پھولتا دار الاسلام ہوا کرتی تھی آج اسی اسلام کے لیے دشتِ دہشت اور احساسِ وحشت کا سنگین مظہر بنتی جا رہی ہے، جس زمانے میں شاعرِ مشرق علامہ اقبال مرحوم نے ہندوستان کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اپنا مشہور زمانہ شعر کہا تھا کہ:

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

اس وقت تو حالات قدرے غنیمت تھے، ہندوستان علمی و عملی میدان میں ایک نوعیت کی مرکزیت و قیادت کا حامل تھا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کے موجودہ حالات کو اگر علامہ اور ان جیسے غیور دانشور دیکھ لیتے تو کیا نقشہ کھینچتے؟ کیونکہ اب تو مُلَّا سے واقعتاً سجدے کی بھی اجازت سلب کی جانے کی کوشش جاری ہے۔

یوپی اتر پردیش کا ڈی ایس پی افسر کہتا ہے:

’’عید کے دن جو لوگ ’اپنے گھر کی چھت پر‘ نماز ادا کریں گے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘‘

اتر پردیش کی سرکاری انتظامیہ نے مزید اس رمضان میں اول تو ہولی کے تہوار پر، جو جمعہ کے دن کے ساتھ ٹکرا رہا تھا، جمعہ کی نماز گھر پر پڑھنے کی تجویز کی ورنہ آخری درجے میں وقتِ مقررہ سے مؤخر کرنے کا فرمان جاری کیا تاکہ ہندو اطمینان کے ساتھ سڑکوں پر ہولی کا تہوار منا سکیں، لیکن اسی انتظامیہ کو جب مسلمانوں کی نمازِ عید سڑکوں پر پڑھنے کی بھنک لگتی ہے تو کہتی ہے سڑک پر نماز پڑھنے والوں کے خلاف کڑی کاروائی ہو گی، ان کے پاسپورٹ ضبط کر لیے جائیں گے لائسنس سلب کر لیے جائیں گے، اس کے علاوہ اذانوں پر پابندی کی سختی میں دن بدن اضافہ و زیادتی، یہاں تک کہ سحری و افطار کے وقت ختم ہونے کا اعلان کرنے پر 6 مارچ 2025ء کو ضلع رامپور میں مسجد کے امام سمیت 9 لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

اور حالیہ دنوں وقف ترمیمی بل کا تازہ المیہ یہ بات چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مُلا کو ایک زمانے تک ہند میں سجدے کی اجازت تو تھی لیکن اب وہ بھی سلب کی جا رہی ہے، نہ نمازی کو چھوڑا جا رہا ہے نہ جائے نماز (مساجد) برداشت کیا رہا ہے اور نہ خود نماز کو، وقف ترمیمی بل کا قانون لا کر حکومتِ ہند نے نام نہاد حقوق بردار جمہوری آئینی اصولوں کو بھی پسِ پشت ڈالتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ اب یہ کسی زمانے میں بہترین دار الاسلام کہلانے والا خطہ بدترین دار الحرب ہوتا جا رہا ہے، دن بدن حالات بخارا و سمرقند، اندلس و قرطبہ کے نقشۂ تخریب کے مطابق چلتے جا رہے ہیں، جس طرح بخارا و سمرقند میں اوقاف کی زمینوں کو اپنے قبضے میں لے کر کمیونسٹ پارٹی نے نذرِ کھنڈر کر دیا اسی طرح ہندی سنگھی حکومتِ وقت تہ خاک کرنا چاہتی ہے، اس قانون کے تحت نہ مسلمانوں کے مدارس محفوظ ہیں نہ قبرستان، نہ خانقاہیں نہ مساجد، اوقاف کے متعلق قواعد و ضوابط کی ترتیب بندی اب ہندوتوا و آر ایس ایس کے اسلام و مسلمان دشمن نجس افسران کریں گے جو کہ شرمناک، ہیبت ناک اور حد درجہ حیران کن بات ہے حساس طبیعتوں کے لیے۔

یہ قضیہ کوئی یکبارگی و یکایک حادثاتی طور پیش آ جانے والا معاملہ نہیں ہے، بلکہ 100 سالہ مضبوط منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے جو ہندو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس نے کی تھی، جس منصوبے کا اصل الاصول مقصد تھا اسلام و مسلمانوں کا جنوبی ایشیا سے مکمل خاتمہ کرنا، پھر دیکھا جائے تو اس آر ایس ایس کی بھی اصل آج سے تقریباً چار سو قبل پڑ چکی تھی، جس وقت ’شیوا جی‘ ابھرا تھا علاقہ مہارشٹر سے ہندوستان کے نظامِ اسلام کو الٹنے کے لیے، سلطان اورنگزیب عالمگیر ﷫ کو زیر کرنے کے لیے، لیکن دال نہ گل سکی، عالمگیر ﷫ کی زندگی میں اپنا ناپاک ارادہ اپنے سینے میں رکھ کر مر گیا اور حضرت عالمگیر کی زندگی کا طویل زمانہ اس کے خلاف جد و جہد میں گزر گیا، پھر ان کی وفات کے بعد دوبارہ اسی مہاراشٹر کے علاقے سے اسی ’شیوا جی‘ کی قوم ’مراٹھا‘ کھڑی ہوئی اور اپنے غلیظ جالوں اور چالوں کو ملک کے طول و عرض میں اچھے خاصے پیمانے پر پھیلانے میں کامیاب ہوتی چلی جائے گی، یہاں تک کہ جب اسلام کا تختہ الٹنا ایک معمولی سے اقدام کا ثمرہ نظر آنے لگاتھا کہ امام زمانہ علامۃ الدہر شاہ ولی اللہ دہلوی ﷫نے اپنی بیدار مغزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے قلم کو تحریکِ جہاد کے قصد سے جنبش دی، نواب نجیب الدولہ کو متوجہ کیا اور فوجی اتحاد قائم کر کے احمد شاہ ابدالی کو فریضہ جہاد کا سبق سنا کر مدعو الی القتال کیا جس کے نتیجے میں وہ مراٹھا جو لال قلعے تک قابض ہو کر اپنی فتح کا خواب دیکھ رہے تھے تار تار ہو کر ڈھیر ہوگئے۔ (بنصر اللّٰه،ينصر من يشاء)۔

اب دوبارہ پھر سے وہی خطہ ہے، وہی سرزمین ہے جہاں سے شیوا جی ابھرا تھا، جہاں سے مراٹھا نکلے تھے وہی مہاراشٹر کا علاقہ ہے جہاں آر ایس ایس پنپ رہی ہے، بلکہ اپنی دولت و حاکمیت کا خواب سجا چکی ہے اور مسلمانان ہند کے خلاف ان کے خاتمے کے لیے تاریخی صف بندی کر چکی ہے، کیا مرد کیا عورت، کیا بچے کیا بوڑھے، قریب ہر ایک کے ذہن و دماغ میں مسلمانوں کو دہشت گرد منوا کر بد ترین زہر بھر دیا گیا ہے، جس کی بناء پر آج وہ مسلمانوں کے خون کے ایسے پیاسے ہو چکے ہیں کہ فلسطین پر اسرائیل کی انسانیت سوز عدیم المثال بربریت کی کھلے عام طرف داری کرتے دکھائی دے رہے ہیں، معصوم بچوں کے قتل عام پر ’’اسرائیل زندہ آباد‘‘ کے نعرے بلا جھجک لگاتے پھر رہے ہیں، حتیٰ کہ ان بچوں کی دل سوز تصاویر پر ہنستے اور میمز بناتے ہیں جو محض ابلیسی عداوت کے علاوہ اور کچھ نہیں، دہلی سے تعلق رکھنے والا ملک کا مشہور سائنسدان ڈاکٹر آنند رگگناتھ کہتا ہے: “We need an Israel like solution for Kashmir”. (ہمیں کشمیر کے لیے اسرائیل جیسا حل درکار ہے۔)۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس بار کے ان مراٹھا ظالموں کی نسل بی جے پی، آر ایس ایس کے شیطانوں کے تئیں مسلمانانِ ہند سر تسلیمِ خم کر دیں گے؟ اپنی اسلامی تاریخ کو مٹتا دیکھنا گوارہ کر لیں گے؟ ہندوستان کا اندلس و بخارہ کی طرح کا اجڑنا برداشت کر لیں گے؟

اگر نہیں تو پھر اس حال کا حل کیا ہے؟

کیا وہ دجالی طاغوتی ادارے حل ہیں جن کے یہاں الحادی نظریہ رکھنے والی لبرل ملالہ کو عالمی اقدار سے نوازا جاتا ہے اور اسلامی اصولوں کی پابند ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے؟

یا وہ جمہوری نظم جس میں اکثریت کے ووٹ کی بناء پر ہر اسلام مخالف بل جو خود اپنے آپ میں غیر آئینی قرار پاتے ہیں آسانی سے پاس ہو جاتے ہیں؟

یا وہ سپریم کورٹ اور اس کے ججز جو بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے جواز کا فیصلہ کرتے ہوئے کہتے اور اقرار کرتے ہوئے کہ ’’مسجد کے مقام پر مندر کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں بس یہ ملک کی اکثریت عوام کے جذبات کی رعایت میں فیصلہ ہے۔‘‘؟

یا وہ سنودھان جو اپنی بعض دفعات میں تو اسلام کو حقوق فراہم کرتا ہے اور بعض دفعات میں اسلام کے دشمنوں کو اسلام سے دشمنی کا حق دیتا ہے؟

کیا یہ پر تعصب سسٹم جو بابو بجرنگی جیسے ناہنجار غنڈے کو ضمانت فراہم کرتا ہے، جس نے گجرات میں 36 مسلم خواتین کی عزت و آبرو کو تار تار کیا اور بعض خواتین کا پیٹ چیر کر رحم مادر میں موجود حمل کو باہر نکال پھینکا اور پھر فخر سے کہتا ہے کہ اس وقت میں نے اپنے آپ کو راجہ مہا رانا پرتاب محسوس کیا (اس کے اس فخریہ اقرار کی ویڈیو آج تک یوٹیوب پر موجود ہے)، اور دوسری طرف یہ سسٹم مولانا کلیم صدیقی صاحب جیسے بزرگ و بے قصور عالم دین کو تبلیغ اسلام کی بناء پر عمر قید کی سزا سناتا ہے؟

صاحبو!

آقا ﷺ کا فرمان ہے:

لا يلدغ المؤمن م جحر واحد مرتين

’’مومن ایک سوراخغ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔‘‘(متفق علیہ)

ہندی مسلمانو!

تم ایک سوراخ سے کب تک ڈسے جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟

رام مندر فیصلہ، تین طلاق بل، یکساں سول کوڈ، شہریت ترمیمی بل اور اب وقف قانون اور نہ جانے آگے کیا کیا۔

میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

تقسیم ہند کے بعد مرتب کیے گئے بھارتی قانون کی فقہی اور مذہبی حیثیت بقولِ علمائے وقت ایک معاہدے سے بڑھ کر کچھ نہیں، جس طرح صلح حدیبیہ کے وقت طے کی گئی قراردادیں ایک عقدی معاہدہ تھیں بالکل اسی طرح۔

پھر ان معاہدوں کا انداز یہ تھا کہ ان میں سے کوئی ایک شق بھی ٹوٹے گی تو اہل کفر کو خود کومامون سمجھنے کا حق نہیں ہوگا، جیسا کہ فتح مکہ کا سبب بننے والی غداری اور عہد شکنی کے موقع پر رسالت مآب ﷺ نے اپنے عمل سے ظاہر فرمایا، جب قریش مکہ کے ماتحت قبیلہ بنو بکر نے اہل مدینہ مسلمانوں کے ما تحت قبیلہ بنو خزاعہ پر اچانک ایک شب خون مارا تو نبی ﷺ نے اسی وقت نقض عہد کا اعلان کر دیا اور فتح مکہ لیے لشکر و عسکر کی تشکیل شروع فرما دی اور یہی حکم خداوندی ہے:

وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ ۙ اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ ؀ اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَهُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ اَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ؀(سورۃ التوبۃ۱۲، ۱۳)

’’اور اگر ان لوگوں نے اپنا عہد دے دینے کے بعدا پنی قسمیں توڑ ڈالی ہوں، اور تمہارے دِین کو طعنے دیے ہوں، تو ایسے کفر کے سربراہوں سے اس نیت سے جنگ کرو کہ وہ باز آ جائیں، کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی قسموں کی کوئی حقیقت نہیں۔ کیا تم ان لوگوں سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑا، اور رسول کو (وطن سےنکالنے کا ارادہ کیا، اور وہی ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف (چھیڑ چھاڑ کرنے میں پہل کی؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ (اگر ایسا ہےتو اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اُس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔‘‘

اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوال کریں کیا ہندوستان کے موجودہ حالات میں قرآن کریم کی یہ آیات مسلمانانِ ہند کی طرف متوجہ نہیں ہو رہیں، کیا عہد توڑ نہیں دیے گئے ؟ کیا شہریت ترمیمی بل کے ذریعے ملک بدر کرنے کے منصوبے پاس نہیں کر دیے گئے ؟ کیا دین اسلام کے خلاف پروپیگنڈے اور پیغمبر ﷺ کی ارفع و اعلیٰ شان میں گستاخی کا چلن عام ہونا شروع نہیں ہوا؟ اگر ہاں تو کیا یہ احکام اہلِ ہند کے لیے اعلان نسخ لے کر اترے ہیں؟

الغرض جب معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے اور قانونی ہتھکنڈے اسلام و مسلمانوں کے خلاف اپنے بازو آزمانا شروع کر دیتے ہیں تو ’’القول قول الصوارم‘‘ لاتوں کے بھوتوں کے سامنے پھر باتیں نہیں چلتیں۔

اے ملت ہندیہ کے قائدین و راہنما! کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ہندوستان کو دار الامن کی فہرست سے نکال کر دار الحرب کی فہرست میں شامل کیا جائے ؟ کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ شاہ ولی اللہ دہلوی ﷫کی بصیرت و سیاست کو اصل حل اور منہج شہیدین کو اصل منہج جانا جائے؟ کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ شیخ الہند کے وارثین دوبارہ ان کے عزائم و افکار لے کر کھڑے ہوں اور تحریک ریشمی رومال کو اپنے موقوف کردہ مقام سے آگے بڑھاتے ہوئے احیائے خلافت کے ساتھ ہندوستان میں غلبۂ اسلام کی جد و جہد شروع کریں ؟

شاہ عبد العزیز دہلوی ﷫نے مسلمانوں کے پاس اقتدار اعلیٰ کے عہدے ہونے کے باوجود اور انگریزوں کے ایوان پر ناقص دست اقتدار کے باوجود دار الحرب کا فتویٰ دیا تھا اور آج نمازوں پر مساجد پر پابندیاں عائد ہونا شروع ہو گئیں، ہندو بلوائی سر عام مساجد پر حملہ آور ہونا شروع ہو گئے، تلواروں سمیت جلوس نکال کر مساجد کے سامنے آ کر اسلام کے خاتمے کی دھمکی دینے پر اتر آئے اور ان کے ساتھ حکومتی پشت پناہی کسی سے ڈھکی چھپی نہ رہی پھر بھی یہ ملک دار الامن ہے ؟

تاریخ ہو یا عقلی، فلسفہ،سیرت ہو یا فقہ بقاء و غلبۂ اسلام کے لیے علاوہ جہاد فی سبیل اللہ کے کوئی حل نہیں ملتا اگر انصاف کی نظر سے دیکھنے والا دیکھے تو۔

قرآن تو واضح حقیقت بیان کرتا ہے کہ:

وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا ۭوَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ (سورۃ الحج۴۰)

’’اور اگر اللہ لوگوں کے ایک گروہ (کے شرکو دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں اور کلیسا اور عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے، سب مسمار کردی جاتیں اور اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جواس (کے دین کی مدد کریں گے۔‘‘

چنانچہ دفاعی عزم کے علاوہ کوئی اور حکمت عملی کا راستہ ہوتا تو قرآن کیوں نہ تجویز کرتا،

اللہ تو خود کہتے ہیں:

مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓي۝ ۙ (سورۃ طہ۲)

’’ہم نے قرآن اس لیے نہیں کہ تم (بے جامشقت میں پڑ جاؤ۔‘‘

لیکن جو چیز اپنی فطرت میں ہی مشقت لیے ہوئے ہے تو اس کے بغیر چارہ بھی نہیں، تو وجود کی بقاء، ظلم کا خاتمہ، یہ اس مبنی بر مشقت دفاع کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں ہو سکتا۔

نبی ﷺ نے قرب قیامت مختلف قوموں کے غلبے اور مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کو دعوت دینے کی جو پیش گوئی فرمائی اس میں اور کیا وجہ بتائی سوائے اس کے کہ تم میں وہن (بزدلی آ جائے گی) دنیا کی محبت اور شہادت سے کراہت کے نتیجے میں؟(رواه أحمد و أبو داود)

چنانچہ یہی حلِّ حال ہے،اسی میں اصلاح مآل ہے۔

قرب قیامت ہونے والے غزوہ ہند کی جو بشارت ہے اس میں سوائے مسلح جد و جہد کے اور کون سے حل کا اشارہ ہے؟(رواه النسائي بإسناد صحيح)

بہرحال، اب صاحبِ فکر و اثر قاری کے ذہن میں یہی سوال آتا ہے کہ ہم کیا کریں اور کیسے کریں؟ہمارے پاس کوئی قائد نہیں، کوئی تحریک نہیں، نیز علماء و صالحین کی طرف سے اشارہ و اجازت بھی نہیں؟

تو گراں قدر بھائی! اول تو یہ یاد رکھیں کہ اپنے دفاع کی تیاری کے لیے آپ کو نہ کسی قائد کی ضرورت ہے نہ تنظیم و تحریک کی نہ کسی فتوے کی، یہ بات نقلا ً(قرآن و سنت سے) بھی ثابت ہے اور عقل و حکمت کے اعتبار سے بھی مسلم ہے اور دنیا کا کوئی قانون اجازتِ دفاع سے مانع نہیں بن سکتا۔

آپ کو اگر پتہ چلے کہ کوئی چور آپ کی دکان پر لوٹ مار کا ارادہ رکھتا ہے تو کیا آپ اس کے لیے قائد یا تحریک یا فتویٰ تلاش کریں گے یا اپنے دفاع کا نظم و بندوبست اپنے طور پر کریں گے؟

بس اسی طرح اپنی اسلامی املاک، علاقے اور دیگر منتسبات کا معاملہ سمجھ لیں، جیسے وہاں آپ اپنی بساط کے بقدر جو کوشش کر سکیں گے کریں گے ایسے ہی یہاں فرمان باری ہے :

وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ (سورۃ الانفال۶۰)

’’اپنی کوشش و بساط کے بقدر جو طاقت و نظم تیار کر سکتے ہو کرو۔‘‘

اپنے پاس چھوٹے چھوٹے معمولی اوزار کا بندو بست کر سکتے ہو تو کرو، اسکریو ڈرائیور، ہتھوڑی، تالا باندھنے والی زنجیریں، کیلیں، کڑک کرکٹ بال، اسی طرح کرکٹ بیٹ، اسٹمپ کی ڈنڈیاں وغیرہ جیسے کئی طرح کے اوزار و ادوات ہیں جس سے آپ خود کو غیر مشکوک انداز میں مسلح کر سکتے ہیں تو یہ اختیار کریں بطور ’مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ ‘ کے۔

اگر ہندوتوا فسادی بلوائی حملہ آور ہوں تو اپنے گھریلو سامان میں کافی چیزیں آپ پائیں گے جس سے اپنا دفاع کر سکیں گے، تدبیر کریں اپنے اور اسلام و مسلمانوں کے تحفظ کے طور جہادِ دفاعی کی نیت سے، جس کے لیے ایسی صورت میں خود قرآن نے فتوائے جواز دیا ہے، ارشاد باری ہے:

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ؀ ۙ (سورۃ الحج۳۹)

’’جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے ، انہیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ اپنے دفاع میں لڑیں کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، اور یقین رکھو کہ اللہ ان کو فتح دلانے پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘

لہذا مذکورہ ہنگامی دفاعی صورت میں کسی فتوے کی ضرورت نہیں۔

پس اپنی ذات سے ترتیب کا آغاز کریں اور موقع محل کو سامنے رکھتے ہوئے ترغیب کا، مناسب معلوم ہونے پر موقع و محل کے اعتبار سے اس فکر کو دوسروں میں بھی عام کر کے ماحول بنانے کی ممکن کوشش کریں، نصرت باری کی دعا و امید کے ساتھ، بعید نہیں کہ آپ اکیلے ہی چلیں اور پھر لوگ پیچھے آتے جائیں، کارواں بنتا چلا جائے، یہی نوعیت ہر تنظیم و تحریک کی ہوتی ہے، ابتداء میں، کوئی جماعت و تنظیم ابتداءً افراد و اسباب سے لیث تھوڑے ہی ہوتی ہے، خود اسلام کی غرابت بھی اسی داستان سے تو گزری ہے۔

کم از کم اس نوعیت سے چلنا شروع کریں، ان شاء اللّٰہ رب کریم آگے کی راہیں خود فراہم کرتے جائیں گے۔

فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ وَاللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْكِيْلًا؀ (سورۃ النسآء۸۴)

’’لہٰذا تم اللہ کے راستے میں جنگ کرو، تم پر اپنے سوا کسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے، ہاں مومنوں کو ترغیب دیتے رہو، کچھ بعید نہیں کہ اللہ کافروں کی جنگ کا زور توڑ دے ۔ اور اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست ہے اور اس کی سزا بڑی سخت۔‘‘

٭٭٭٭٭

Exit mobile version