غزہ، مجھے معاف کر دو

میں ’’مجھے معاف کر دو‘‘ لکھ رہا ہوں نہ کہ ’’ہمیں معاف کر دو‘‘، اس لیے کہ یہ احساس جرم انتہائی ذاتی نوعیت کا ہے۔ یہ ایک ایسا بوجھ ہے جسے میں اپنے گھر کی آسودگی میں رہتے ہوئے اٹھاتا ہوں، جب میں صاف پانی پی رہا ہوتا ہوں جبکہ غزہ کے بچے گندے پانی کے کنوؤں سے سیوریج میں ملا ہوا پانی پیتے ہیں، ان کے ننھے جسم پانی کی کمی اور بیماری سے مرجھائے جاتے ہیں، چاہے انہیں پانی مل بھی جائے تب بھی۔

میں اپنے گھر کے عقبی حصے سے جنگلی خبازی کے پتے توڑ سکتا ہوں، بھوک مٹانے کے لیے نہیں، بلکہ ایک صحت مند غذا کی عیاشی کے لیے۔ میں اپنا بچا ہوا کھانا پھینک دینے کا مجرم ہوں جبکہ غزہ میں ماں باپ تباہ شدہ گھروں کے ملبے سے کھانے کا کوئی ڈبہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں جو شاید اسرائیلی بمباری سے کہیں بچ گیا ہو۔ یا وہ گڑھوں میں موجود کھیتوں میں رینگ کر جانے کی ہمت کر لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کے خالی پیٹوں کی آواز کو خاموش کروانے کے لیے کچھ جنگلی سبزیاں اکٹھی کر سکیں، لیکن اس طرح وہ صرف اسرائیلی ڈرونز کی سرد نگاہوں میں ایک متحرک ہدف بن جاتے ہیں۔

مجھے معاف کر دو، میرے پاس اپنے بچوں کو گرم رکھنے کے لیے گھر ہے، ہیٹر ہے، کمبل ہیں۔ جبکہ غزہ میں، والدین جاگتے رہتے ہیں، صرف سردی سے نہیں، بلکہ اس اذیت سے بھی کہ وہ اپنے بچوں کے ننھے، سردی سے جمتے پیروں کو گرمائش نہیں دے سکتے۔

مجھے معاف کرنا جب میں اپنی بیٹی کو اس کی سالگرہ پر چومتا ہوں اور اس کی ہنسی میرے کانوں میں گونجتی ہے، جبکہ تمہارے کانوں میں صرف اسرائیلی ڈرونز کی بھنبھناہٹ گونجتی ہے۔ وہ خوشی سے سانس کھینچ کر موم بتیاں بجھاتی ہے جبکہ تم اندھیرا دور کرنے کے لیے موم بتیاں جلاتے ہو، ایک ایسی دنیا میں سانس لینے کے لیے ہانپتے ہو جو تمہیں سانس لینے کی بھی اجازت نہیں دیتی۔

میں اپنی بیٹی کو تھام سکتا ہوں، جبکہ تم اپنی بیٹی کو ملبے کے نیچے سے نکال بھی نہیں سکتے۔ اسے آخری بار گلے لگانے کے لیے اس کی باقیات بھی جمع نہیں کر سکتے کیونکہ امریکی ساختہ اسرائیلی بموں نے ریت کے ذروں کی طرح اسے ہوا میں بکھیر دیا اور تمہیں خالی ہاتھ دکھ اور گرد سے بھرا چھوڑ دیا۔

تمہارے ہسپتال، ڈاکٹر، طبی عملہ اور ابتدائی امدادی کارکن، جنہوں نے اپنا پیشہ زندگیاں بچانے کے لیے چنا تھا، وہ خود نشانہ بن گئے، اس لیے کہ ایک فلسطینی کی زندگی بچانا اسرائیلی وجود کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ میں ہر اس صحافی سے معافی کی بھیک مانگتا ہوں جس کے جنگی جرائم کو بے نقاب کرنے والے الفاظ گولیاں بن گئے اور جن کے کیمرے اسرائیل کے لیے توپوں سے زیادہ خطرناک تھے۔

اس دنیا کو معاف کر دو جو تمہاری بھوک کو، سکولوں اور یونیورسٹیوں کی تباہی کو اور تمہارے اساتذہ کے قتل کو، اسرائیل کا ’ذاتی دفاع‘ کہتی ہے۔

غزہ کے پیارے لوگو! انہیں معاف کر دو اگر تم نے کبھی یہ یقین کیا تھا کہ انسانیت نے افریقی غلامی، مقامی آبادی کے قتلِ عام یا یورپی ہالوکاسٹ کے گناہوں سے کبھی سبق سیکھا تھا۔ غزہ! میں توبہ کرتا ہوں اگر تم نے کبھی یہ سوچا کہ (ہالوکاسٹ کے بعد) ’’دوبارہ کبھی نہیں‘‘ (Never Again)کے نعرے میں تم بھی شامل تھے۔

میں شرمندہ ہوں کہ ’’دوبارہ کبھی نہیں‘‘ سے متاثر لوگوں کی اولاد نے ADL، AIPAC اور سیاسی صہیونیت کے تحت منظم ہو کر ایک نسل کشی کو جائز قرار دیا، جو یہودیت کے نام پر کی جا رہی ہے۔ پیارے غزہ! ’’دوبارہ کبھی نہیں‘‘ سب کے لیے نہیں ہے، یہ صرف گوری چمڑی والے مغرب اور خود کو ’’منتخب لوگ‘‘ کہنے والوں کے لیے ہے۔

نظریاتی ’’سامی مخالف‘‘ (anti-Semites) اب اسرائیل کے سب سے قریبی اتحادی ہیں۔ آج ’’سامی مخالف‘‘ (anti-Semites) کا مطلب وہ لوگ نہیں رہے جو یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں، بلکہ وہ لوگ ہیں جو اسرائیلی قتل عام کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ ’’دوبارہ کبھی نہیں‘‘ پر اب پیشہ ور ’’متاثرین‘‘ کی اجارہ داری ہے، جو ماضی کی یورپی ظالمانہ تاریخ کو فلسطین میں موجودہ اسرائیلی نا انصافی کے جواز کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

غزہ! میں شرمندہ ہوں، فلسطینی اتھارٹی نے تمہارے ساتھ غداری کی۔ تمہاری حفاظت کرنے کی بجائے وہ تم پر ظلم کرنے والے کا بازو بن گئی۔ جب جنین، نور شمس اور بلاطہ کے مہاجر کیمپ تمہاری حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے، تو انہوں نے صرف اسرائیلی فوج کا ہی سامنا نہیں کیا بلکہ فلسطینی اتھارٹی کی گولیوں اور ڈنڈوں کا بھی کیا۔ اور جن شہروں اور قصبوں نے بغاوت نہیں بھی کی، وہاں بھی فلسطینی اتھارٹی ان کی یہودی آباد کاروں کے حملوں سے ان کی حفاظت نہ کر سکی، جو گھروں اور باغات کو جلا رہے ہیں، مویشیوں کو مار رہے ہیں اور کسانوں پر گولیاں چلا رہے ہیں۔

غزہ، مجھے معاف کر دو! عرب اتحاد کے وہم پر یقین کرنے پر، یہ گمان کرنے پر کہ تم ایک عظیم تر عرب قوم کا حصہ ہو۔ اس پر کہ قاہرہ، عمان، دمشق، بغداد، ریاض اور دیگر حکمران تمہاری خاطر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ میں سمجھتا تھا کہ ہمارا درد ہماری جدوجہد مشترک ہے۔ مجھے یقین تھا کہ عرب دنیا تمہیں کبھی بھوکا نہیں چھوڑے گی۔ میں غلط تھا!

اس کی بجائے، وہ تمہارے محاصرے کا حصہ بن گئے۔ رفح کی ناکہ بندی صرف اسرائیلی فوجیوں نے نہیں بلکہ مصری کنکریٹ کی دیواروں اور پہرے کے ٹاورز نے بھی کی ہے۔ امرائے عرب ان سے ہاتھ ملاتے ہیں جو تمہارے ہسپتالوں پر بمباری کرتے ہیں۔ عرب خلیج کے امیر حکمران وہ اسرائیلی ٹیکنالوجی خریدتے ہیں، جو پہلے تمہارے محلوں میں آزمائی جاتی ہے۔

غزہ، مجھے معاف کر دو! یہ سمجھنے پر کہ جن حکمرانوں نے فلسطین کے ساتھ ۱۹۴۸ء میں غداری کی تھی وہ کبھی تمہارا دفاع کریں گے۔ جس طرح ان کے آبا ؤ اجداد نے ۹۰۰ سال قبل صلیبیوں کے لیے دروازے کھول دیے تھے، اپنی بقا کی خاطر فلسطینیوں کے خون کا سودہ کیا تھا، آج پھر وہ یہی کر رہے ہیں۔

غزہ، تاریخ خود کو دہراتی ہے! وہ بادشاہ و امراء جنہوں نے حملہ آوروں کا تب استقبال کیا تھا، آج بھی اسرائیل کو گلے لگا رہے ہیں، بھنے ہوئے اونٹوں پر شکم سیر ہو تے ہیں جبکہ تمہارے بچے بھوک سے مرجھا رہے ہیں۔ ان کے دارالحکومت موسیقی کے تہواروں کی روشنیوں سے جگمگاتے ہیں جبکہ غزہ کی راتیں امریکی ساختہ ۲۰۰۰ پاؤنڈ کے بموں کے شعلوں سے جل اٹھتی ہیں۔

عرب ظالم حکمرانوں سے، جو اب بھی اپنے نو آبادیاتی آقاؤں کے سامنے جھکتے ہیں، میں کہتا ہوں:

یورپی صلیبیوں نے فلسطین پر قبضہ کرنے کے بعد تمہارے آباؤاجداد کو نہیں بخشا۔ انہوں نے اپنی تلواروں کا رخ انہی کی طرف موڑ دیا جنہوں نے ان کی مدد کی تھی، اور ان کی چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کو ایک ایک کر کے نگل لیا۔

غزہ، میں معذرت خواہ ہوں ! کہ جب یمن کے لوگ تمہارے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، اسرائیلی بندر گاہ پر ترسیل روک کر تمہارے بچوں کے لیے خوراک کا مطالبہ کیا، تو ان کے اپنے بچوں کو اسرائیلی امریکی پراکسی جنگ میں قتل کر دیا گیا۔ تمہاری طرح ان کا دکھ بھی بے آواز ہے، ان کی تکلیف پر بھی کوئی شہ سرخی نہیں بنتی۔

غزہ! تمہارا خون ایک آئینہ ہے جس کا دنیا سامنا کرنے کی جرأت نہیں کرتی۔

لیکن میں نظریں نہیں چراؤں گا۔

میری بے بسی کے لیے مجھے معاف کر دو!

ہر گھونٹ پانی پر، کھانے کے ہر نوالے پر، ہر اس سانس پر جو میں لے رہا ہوں جب کہ تمہارا دم گھٹ رہا ہے۔

اگر ان لوگوں نے، جن سے میں غزہ میں برسوں پہلے ملا تھا، کبھی یہ سمجھا کہ میں انہیں بھلا چکا ہوں تو مجھے معاف کر دو!

مجھے معاف کر دو اگر میں ہر مدد مانگنے والے کی مدد نہیں کر پایا!

میرے آرام پر مجھے معاف کر دو!

میرے امن پر مجھے معاف کر دو!

میں تم سے معافی کا خواستگار نہیں……

بس اتنا چاہتا ہوں کہ تم جان لو:

تمہیں بھلایا نہیں گیا!

[یہ مضمون ایک معاصر آن لائن جریدے میں شائع ہو چکا ہے۔ مستعار مضامین، مجلے کی ادارتی پالیسی کے مطابق شائع کیے جاتے ہیں۔ (ادارہ)]

٭٭٭٭٭

Exit mobile version