سن ذرا اے ابن قاسم!

ہمارے پیارے نبی ﷺ کا حکم ہے:

فُکُّوا الْعَانِيَ (رواه البخاري)

قیدی کو چھڑاؤ

قیدی کو چھڑانا ایک ایساا فریضہ ہے ، جو نہایت اہم اور بہت بڑا فریضہ ہے، اس کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ پیارے نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے ۔

من فدى أسيرا من أيدي العدو فأنا ذلك الاسير (عن ابن عباس)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’ جو شخص کسی قیدی کو دشمن کے ہاتھوں سے چھڑائے تو گویا کہ اس نے مجھے آزاد کیا ۔‘‘(طبرانی صغیر)

آج امت مسلمہ کی کتنی بیٹیاں اور بیٹے کفار اور مرتدین کی جیلوں میں پڑے طرح طرح کے ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ انہیں قیدیوں میں ایک ہماری ایسی بہن بھی ہے جنہیں دنیا عافیہ صدیقی کے نا م سے جانتی ہے جو آج بھی صبر و استعقامت کا پہاڑ بنی اللہ کے آسرے کے بعد ہم مسلمانوں سے ہی امید باندھے ہوئے ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم نے اپنی بہن کو تنہا چھوڑ دیا۔

ہمارا فرض

البتہ ہم نے اپنی بہن کی رہائی کے لیے پوری کوششیں کی اور آج تک کرتے آ رہے ہیں ہم میں سے کچھ نے تو واٹس اپ اسٹیٹس لگا کر تو کچھ نے آنسوں بہا کر تو کچھ نے لمبے لمبے مظاہرے اور جلسے جلوس کر کے ہر سال اپنا فریضہ ادا کیا لیکن اصل راہ راہِ جہاد سے ہم فرار رہے کیونکہ ہمیں خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں ہمارے اوپر بھی دہشت گردی کا ٹھپہ نہ لگ جائے۔

لیکن یاد رکھیں یہ لمبے لمبے مظاہرے اور جلسے جلوس امت کے کسی فائدے کے لیے نہیں ہیں ۔ یہ صرف دھوکہ ہے اور امت کے اموال اور توانائی کو لایعنی اور لاحاصل کام میں مشغول رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔ نہ نبی کریم ﷺ ، نہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے اور نہ ہی سلف صالحین میں سے کسی نے مظلوم مسلمانوں کی مدد و نصرت کے لیے یہ طریقہ و اسلوب اختیار کیا تھا۔ نبی کریمﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے کو اپنائیں اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر لبیک کہیں:

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْن (التوبة: 41)

(جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہو، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال و جان سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔

اور یہ عزم کر لیں کہ اس وقت تک جہاد جاری رکھیں گے کہ جب تک ایک ایک مسلمان بہن بھائی کو کفار کی قید سے چھڑا نہیں لیتے ، توہینِ رسالت کے مرتکب ممالک سے بدلہ نہیں لے لیتے اور تمام دنیا پر اللہ تعالی کا کلمہ بلند نہیں ہو جاتا۔ کیونکہ اللہ تعالی کا حکم ہے:

وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ (الانفال: 39)

اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارے کا سارا اللہ کا ہو جائے۔

ہماری امیدیں فوج اور حکمرانوں سے……

ہم میں سے اکثر نے تو آج بھی بہن عافیہ صدیقی کی رہائی کی امید وطن عزیز کے حکمرانوں اور فوجی جرنیلوں سے لگا رکھی ہے۔ وہ حکمران اور جرنیل جنہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی قوم کی بیٹی کو ڈالروں کے عوض امریکی درندوں کے خونی پنجوں کے حوالے کر دیا…… وہ رہا کروائیں گے؟

وہ جنہوں نے خود اپنے وطن میں ہزاروں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو نافذ کرنے کی خاطر کیے جانے والے جہاد کےسنگین جرم کی پاداش میں پابندِ سلاسل کر رکھا ہے۔

وہ جن کے بارے میں عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کہتی ہیں کہ امریکہ نے اپنی غلطی تسلیم کر لی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان بھیجنے کو تیار ہیں، امریکی کہتے ہیں پاکستان حکومت خود ڈاکٹر عافیہ صدیقی کولینا نہیں چاہتی ۔

وہ جنہوں نے جامعہ حفصہ کی بہنوں کی حرمت پامال کی…… وہ جو اسلامی ملک کی فوج ہونے کے باوجود اسلام سے کوسوں دور ہیں…… وہ فوج جن میں قادیانی، شیعہ، اسماعیلی ، عیسائی، سکھ، مشرک سب موجود ہیں۔

ان سے عافیہ صدیقی سمیت امت مسلمہ کی مظلوم بہنوں اور بھائیوں کو رہاکروانے اور اسلام کے نفاذ کی امید رکھی جا سکتی ہے؟ یہ فوج و حکمران ہمارے نہیں بلکہ امریکہ کے غلام اور اس کی حفاظت کے لیے کام کرتے ہیں، انہیں ملک سے یا عوام سے کوئی غرض نہیں۔ انہیں ملک کا خیال ہوتا تو ملک کو امریکہ کے حوالے نہ کرتے۔ عوام کا خیال ہوتا تو قوم کی بیٹیوں کو امریکہ کے ہاتھ فروخت نہ کرتے…… قبائل پر ظلم نہ کرتے…… مسجدیں اور مدارس تباہ نہ کرتے۔

مغرب کا اصلی چہرہ!

ہماری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ۸۶ سال قید کی سزا سنائی گئی اور آج تک ہر قسم کا ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے لیکن کوئی نہیں بولا…… کسی کے ہونٹ نہیں ہلے…… کسی کا قلم نہیں چلا…… کیوں کہ مغرب، اس کے غلام، صیہونی، ہندو، نصارٰی ، اقوام متحدہ ان میں سے کسی کو بھی اس وقت تک حقوقِ نسواں و انسانیت یاد نہیں آتی جب تک کہ وہ عورت یا مرد کافر، ملحد، منافق، مرتد یا زندیق نہ ہو۔

مجھے اس جہنم سے نکالو!

حال ہی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ انکی بہن اور وکیل نے ملاقات کی، ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے ان کے وکیل نے بتایا ہے کہ آج خوفناک حد تک اداس ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے اختتام پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی رو رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ میں اس سیل اور جنسی شکاریوں میں واپسی نہیں جانا چاہتی…… میں بے قصور ہوں…… مجھے یہاں سے نکالو…… مجھے اس جہنم سے نکالو……

چین آیا نہیں زندگی میں کبھی
مجھ کو اتنا جہاں میں ستایا گیا
اب مجھے سر ہلانے کی طاقت نہیں
اتنا ظلم و ستم مجھ پر ڈھایا گیا

 

ہمیں سبق سیکھنا چاہیے

فلسطین اور افغانستان کے مجاہدین سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ فلسطینی مجاہدین نے اپنی خواتین اور مظلوم قیدیوں کو رہا کروانے کے لیے تین سو کے قریب یہودیوں کو گرفتار، ہزاروں کی تعداد میں قتل و زخمی کیا اور اپنے مظلوم قیدیوں کو رہائی دلوائی۔

افغانستان میں مجاہدین اسلام نے بھی کتنے امریکیوں اور نیٹو کے اہلکاروں کو گرفتار کر کے اپنے قیدیوں کو آزاد کر وایا۔ حال ہی میں بدنام ِ زمانہ جیل گوانتنامو میں قید آخری دو قیدی بھی امارتِ اسلامیہ کی ثمر بار کوششوں سے آزاد ہونے کے بعد افغانستان کی مبارک سرزمین اپنے وطن و گھر میں پہنچ کر آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔

عمر ثالث ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ اپنے ساتھیوں کو آخری دنوں میں یہ وصیت کرتے تھے کہ ہر قیمت پر اپنے قیدی ساتھیوں کو رہا کرواؤ ، آج امارت اسلامیہ کی قیادت نے عملا ًاس وصیت کو ثابت کر دکھایا، واللہ الحمد۔

ہماری غیرت

ایک بہن کے قلم سے ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں ایک مفصل تحریر لکھی نظر سے گزری جس کا خلاصہ کچھ یوں تھاکہ کاش ہم بھی اہل افغانستان کی طرح اپنے ملک کی اس بیٹی کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے، امریکہ سے اسے آزادی دلاتے لیکن یہ غیرت مند قوموں کا کام ہوتا ہے…… ہماری غیرت تو عرصے سے امریکہ کے در پر سر جھکائے کھڑی ہے ۔( الی اللہ المشتکی)

غیور افغان قوم نے تو اپنے قیدی رہا کروالیے۔آج بھی وقت ہے کہ ہم ان سے سبق حاصل کریں۔ کفار اور ان کے غلاموں کی قید میں موجود عافیہ صدیقی اور دیگر تمام اہل حق کی رہائی بھی اس طرح ممکن ہے۔

اے ابنِ قاسم!

اگر صرف دعاؤں اور مظاہروں سے رہائی ممکن ہوتی تو محمد بن قاسم ایک عورت کی پکار پہ سندھ فتح نہ کرتے، طارق اندلس کی بندرگاہ پر کشتیاں نہ جلاتے۔

خدارا آنکھیں کھولیں اب بھی نہ جاگے تو پھر کب جاگے گیں؟ کب تک یوں دعاؤں اور مظاہروں پر اکتفا کرتے رہیں گے؟ کیا ایک بہن کی رہائی کے لیے شریعت ہم سے صرف دعاؤں اور مظاہروں کا تقاضہ کرتی ہے؟

ہماری بہن، ہماری عزت ڈاکٹر عافیہ صدیقی آج بھی قید میں پڑی کسی محمد بن قاسم کی راہ تک رہی ہے……کیا وطن عزیز میں کوئی محمد بن قاسم نہیں ؟ کوئی معتصم باللہ نہیں ؟ جو اپنی بہن کی پکار پر لبیک کہے؟

سن ذرا اے ابنِ قاسم، بھیڑیوں کی قید میں
کہہ رہی ہے تم سے کیا امت کی بیٹی عافیہ
خون روتی ماؤں بہنوں کو سسکتا دیکھ کر
کب تلک یونہی دعاؤں، احتجاجوں پر کرو گے اکتفا؟

 

٭٭٭٭٭

Exit mobile version