We are talking about a very unique figure. What we know is that this is a very intelligent terrorist.
(Executive Director of International Institute of Counter Terrorism, Israel)
’’ہم ایک بہت ہی انوکھی شخصیت کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ہم اس کے بارے میں اتنا جانتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی ذہین دہشت گرد ہے۔‘‘
(ایگزیکیٹو ڈایریکٹر، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کاؤنٹر ٹیررازم، اسرائیل)
امت کی مظلوم بیٹی عافیہ صدیقی کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے اکیس سال گزر گئے لیکن ملک کی مقتدر قوتیں، حکمران و اشرافیہ بے غیرتی کی چادر تانے اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں۔ ڈالروں کے عوض اپنی ہی بیٹی کو کفار کے ہاتھوں فروخت کر دینے کی ایسی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
بلاشبہ عافیہ صدیقی بہت ذہین تھی، ایم آئی ٹی سے گریجوئیٹ، نیورو سائنس میں پی ایچ ڈی، خدا ترس اور دین سے محبت رکھنے والی……
۲۰۰۳ء میں جب انہیں اغوا کیا گیا تو ساتھ ہی ’لیڈی القاعدہ‘ کہہ کر دنیا کے مطلوب افراد کی فہرست میں ڈال دیا گیا، بچوں سے دور کیا گیا اور چار سال تک بگرام میں ظلم و تشدد کے تمام حربے اپنائے گئے، پھر جب صحافی یووان ریڈلے نے پاکستان میں عافیہ صدیقی کے حق میں تحریک شروع کی کہ بدنامِ زمانہ بگرام جیل میں قیدی ۶۵۰ کے نام سے عافیہ صدیقی قید ہیں تو ایک ڈرامہ رچا کر عافیہ صدیقی کو صوبہ غزنی میں ان کے بیٹے کے ہمراہ میڈیا پر پیش کیا گیا۔ (غزنی میں کیا ہوا اور کیسے ہوا ؟ اس حقیقت سے پردہ اب تک نہ اٹھ سکا اور اسی سلسلے میں عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سٹیفرڈ سمتھ (Clive Stafford Smith) نے گزشتہ دنوں تحقیق کی غرض سے غزنی کا دورہ کیا تاکہ عافیہ کے حق میں مضبوط دلائل اکٹھے کر سکیں۔ )
پھر پس پردہ ایک اور ڈرامہ بھی رچایا گیاجس میں عافیہ پر الزام لگایا گیا کہ دوران تفتیش نحیف و نزار عافیہ نے امریکی فوجی سے اس کی گن چھین کر امریکیوں پر فائر کیا، جس سے کسی کو تو کوئی نقصان نہیں ہوا البتہ جوابی فائر میں عافیہ صدیقی زخمی ہو گئیں۔ یہ الزام انتہائی احمقانہ اور بے بنیاد ہے۔ کوئی بھی شخص جو کبھی تفتیشی مرحلے سے گزرا ہو یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ دوران تفتیش کمرہ تفتیش میں اسلحہ نہیں رکھا جاتا بلکہ کمرے کے باہر سکیورٹی پر مامور عملے کے پاس اسلحہ ہوتا ہے۔ لیکن اسی بنیاد پر عافیہ صدیقی کو امریکہ لے جایا گیا اور وہاں عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔
عافیہ صدیقی پر القاعدہ سے وابستگی اور دہشت گردی سے متعلق تمام الزامات چھوڑ کر امریکی فوجی پر اقدام قتل کا کیس بنایا گیا جس میں کسی بھی ٹھوس ثبوت کے بغیر چھیاسی (۸۶) سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
اس حوالے سے یووان ریڈلے کہتی ہیں:
’’امریکی اہلکار کے قتل کی کوشش پر چھیاسی سال قید کی سزا شرمناک اور بے مثال ہے۔ ایک دوسری چیز جسے میں بہت عجیب سمجھتی ہوں وہ عدالت کی قانونی حیثیت ہے۔ ایک جرم جو مبینہ طور پر افغانستان میں ہوا ہے اس کا ٹرائل نیو یارک میں کیوں چلا؟ اس کی کوئی تک نہیں بنتی۔‘‘
چھیاسی سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد عافیہ صدیقی کو بدنامِ زمانہ جیل ایف ایم سی کارز ویل (FMC Carswell) میں رکھا گیا، جہاں خطرناک جرائم میں ملوث عورتوں کو رکھا جاتا ہے اور اس کا عملہ قیدی خواتین کے ساتھ جنسی ہراسگی میں بدنام ہے۔
بیس سال بعد بہن سے ملاقات کی اجازت
بیس سال بعد کافی کوششوں کےنتیجے میں عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو ۲۰۲۳ء میں عافیہ صدیقی سے ملاقات کی اجازت ملی۔ اس ملاقات سے متعلق ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بتایا کہ عافیہ اس قدر برے حال میں ہیں کہ پہچانی نہیں گئیں۔ جیل میں دیگر قیدیوں اور عملے کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنیں، جس کی وجہ سے ان کے آگے کے دانت ٹوٹ چکے ہیں اور ایک کان کام نہیں کرتا۔
ملاقات کے لیے عافیہ کو دوسرے کمرے میں رکھا گیا اور فوزیہ کو دوسرے کمرے میں۔ سامنے شیشہ تھا اور ٹیلی فون کے ذریعے بات کی، ایسے میں بہنیں ایک دوسرے کو گلے لگانے کو ترس گئیں۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی عافیہ سے دوسری ملاقات چار دسمبر ۲۰۲۳ء کو ہوئی۔ جس کے متعلق ڈاکٹر فوزیہ بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔
’’وہ پہلے سے زیادہ برے حال میں مجھے لگی۔ اور اس دفعہ اسے چھوڑتے ہوئے میرا دل بہت بیٹھ رہا تھا۔ اس دفعہ ہم دونوں مل کر روتے رہے۔ وہ شیشے کے اس طرف اور میں شیشے کے اس طرف۔ تقریباً آدھا گھنٹہ تو ہم روتے ہی رہے۔‘‘
اس ملاقات کے بعد عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سمتھ کی بھی عافیہ سے طویل ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے ان پر کیے گئے تشدد اور ریپ کی تفصیلات اپنے وکیل کو بتائیں۔ کلائیو نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں بتاتے ہیں:
’’ایک امریکی کی حیثیت سے میں اس بات پر شرمندہ ہوں، جو ہمارے جیل کے نظام نے عافیہ کے ساتھ کیا۔ میں نے عافیہ کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی سے متعلق رپورٹ بھی جمع کروائی ہے۔ جو سلوک عافیہ کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ جنسی بدسلوکی کے لحاظ سے ناقابل بیان ہے۔ عافیہ نے مجھے تفصیل سے بتایا کہ اس کے ساتھ کس طرح زیادتی ہوئی۔ عافیہ کو جو شکایات ہیں وہ انتہائی تشویش ناک اور ساری سچ ہیں۔ اس وقت امریکی جیلوں میں دس ہزار دو سو پچاس خواتین ہیں۔ ان تمام خواتین میں جس خاتون کے ساتھ سب سے برا سلوک کیا گیا ہے وہ عافیہ ہیں۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ ایف ایم سی کارزویل میں عافیہ صدیقی کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ جیل کے محافظوں کی جانب سے کم از کم دو بار لیکن دوسرے قیدیوں کی جانب سے ان گنت بار۔ میں نے حکومت پاکستان کو عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے متعلق بتایا ہے اور میں یقینی طور پر انہیں تمام لرزہ خیز تفصیلات سے بھی آگاہ کروں گا۔ یہ اس کی حکومت ہے، عافیہ کی حفاظت کرنا ان کا فرض ہے۔ میں جو کر سکتا ہوں کر رہا ہوں۔ اور میں ایک امریکی ہوں۔ عافیہ کے ساتھ جو کچھ ہوا میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں، لیکن آخر کار یہ حکومت پاکستان کا کام ہے۔ یہ حکومت پاکستان کی ناکامی ہے کہ وہ عافیہ کو واپس نہیں لا سکی۔‘‘
عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ہونے والی کوششیں
عافیہ صدیقی کے لیے پاکستان میں ہر درد مند دل دکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ پچھلے بیس سالوں میں حکمران بننے کے خواب دیکھنے والے ہر سیاست دان نے عوامی حمایت کے لیے عافیہ کارڈ استعمال کیا۔ عافیہ صدیقی کے گھر والوں سے جھوٹے وعدے اور عافیہ کو واپس لانے کے بلند و بانگ دعوے کیے، لیکن یہ سب دعوے جھوٹ، فریب اور سیاسی چال کے سوا کچھ نہ تھے۔
بہت سے عام شہریوں نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی، دینی جماعتوں اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے ہمراہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے آواز اٹھائی۔ ایک ادارہ ’’عافیہ فاؤنڈیشن‘‘ عافیہ کی رہائی کے لیے ’’فری عافیہ‘‘ تحریک کی شکل میں ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھا رہا ہے۔ یہ ادارہ نا صرف عافیہ کی رہائی، وکالت اور تمام معاملات کے لیے فنڈ اکٹھے کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر کانفرنسیں کر کے طاقت ور لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے۔ اس سلسلے میں عافیہ کو پاکستان واپس لانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ بھی زیر سماعت ہے۔
اس سلسلے میں جہادی تحاریک نے نا صرف امریکیوں پر متعدد حملے کیے جنہیں خصوصاً عافیہ صدیقی پر ہونے والے ظلم کے بدلے سے منسوب کیا، بلکہ متعدد مواقع پر قیدیوں کے تبادلے کے طور پر عافیہ صدیقی کو واپس لانے کی کوششیں کی گئیں۔ تنظیم القاعدہ کے امیر شیخ ایمن الظواہری نے وارن وائن سٹائن (چچا اسحاق رحمہ اللہ) کے بدلے عافیہ صدیقی کے تبادلے کی کوشش کی، جنہیں امریکہ نے ڈرون حملے میں شہید کر دیا۔
اسی طرح تحریک طالبان پاکستان کے رہنما ولی الرحمن محسود رحمہ اللہ نے اپنی قید میں ایک سوئس جوڑے کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
اسی طرح کی دیگر کوششوں میں قابل ذکر امارت اسلامیہ افغانستان کی قید میں امریکی فوجی بو برگڈال (Bowe Bergdahl) کی عافیہ صدیقی کے تبادلے میں رہائی کی کوشش ہے۔ اس متعلق مذاکرات میں یووان ریڈلے نے اہم کردار ادا کیا۔ عین اس وقت جبکہ ڈیل آخری مراحل میں تھی اور امریکی حکام بھی عافیہ صدیقی کے تبادلے میں اپنے فوجی کو لینے میں بخوشی راضی تھے، پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی نے مداخلت کر کے اس تبادلے کی ناصرف بھرپور مخالفت کی بلکہ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر عافیہ واپس آ گئیں تو وہ یہاں اڑتالیس گھنٹے بھی زندہ نہیں رہیں گی۔ لہذا یہ تبادلہ بھی ممکن نہ ہو سکا۔
اس معاملے پر یووان ریڈلے نے عافیہ صدیقی سے متعلق ایک دستاویزی فلم میں پردہ اٹھایا۔ وہ کہتی ہیں:
’’شاید امریکیوں کے لیے عافیہ کی کوئی اہمیت نہ ہو، مگر آئی ایس آئی کے لیے وہ بہت اہم ہے۔ جب بھی وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کے خلاف کوئی احتجاج ہو، وہ قوم کی بیٹی کا نام استعمال کرتے ہیں اور ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں، اور امریکہ کے جھنڈے جلاتے ہیں……
بدقسمتی سے ریاست پاکستان کے عناصر نے عافیہ کو امریکہ مخالف مظاہروں کے لیے استعمال کیا۔ امریکیوں کو اس (عافیہ) میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، مگر وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے استعمال کے لیے ایک بہترین اثاثہ ہے…… ‘‘
عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے چھڑانے کے لیے جہادی تحریکوں کی مسلسل کوششیں اور آواز بلند کرنے کی وجہ سے امریکی ’دانشور‘ عافیہ صدیقی کو جہادی تحریکوں کے لیے ’قیمتی اثاثہ‘ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن ان بد بختوں کو کیا معلوم کہ معاملہ یہاں امت کی غیرت و عصمت کا ہے۔ کفار کی قید میں امت کی بیٹی کا ہے، جس کے لیے تاریخ میں معتصم باللہ اور محمد بن قاسم کھڑے ہوئے اور اسی لیے آج کے غیور مجاہدین اپنی مقدور بھر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی حکومت پاکستان کی دسترس میں ہے، اور ماضی میں ایسے کئی واقعات ہوئے جن کی بدولت مقتدر حلقے اگر چاہتے تو عافیہ صدیقی کو واپس لا سکتے تھے۔
۲۰۱۰ء میں دو پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کے بدلے عافیہ صدیقی کا مطالبہ کر سکتے تھے۔ سی آئی اے کا ایجنٹ شکیل آفریدی، جس نے ایبٹ آباد میں شیخ اسامہ رحمہ اللہ کی جاسوسی کی تھی، کے بدلے عافیہ صدیقی کو واپس لا سکتے تھے۔ لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، آئی ایس آئی اور خفیہ ایجنسیاں عافیہ صدیقی کی رہائی کے بارے میں بدنیت ہیں اور شاید وہ خائف ہیں کہ عافیہ صدیقی واپس آگئیں تو انہیں اغوا کر کے امریکہ کو دینے میں جو قوتیں کار فرما تھیں ان کی حقیقت سامنے آجائے گی۔
بہن عافیہ صدیقی محض ایک نام یا قید و بند کی صعوبتیں جھیلتی ایک ذات نہیں، بلکہ عافیہ صدیقی ایک علامت بن چکی ہیں۔ کفار کے ظلم و جبر کے آگے ڈٹی ہوئی اور اپنی امت کی راہ تکتی مظلومیت و بے بسی کی علامت! عافیہ صدیقی سینکڑوں مسلمان بہنوں کی علامت ہیں جو کہیں کفار اور کہیں کفار کے آلۂ کاروں کی قید میں ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی ہیں۔ یہ تو بس عافیہ پر بیتی ظلم کی ایک جھلک ہے، ورنہ عافیہ صدیقی اور ان جیسی دیگر قیدی بہنوں میں سے ہر ایک کی داستان اس قدر لرزہ خیز اور اس قدر تکلیف دہ ہے کہ زبان کہہ نہیں پاتی اور قلم لکھنے سے گریزاں ہے۔ امت مسلمہ جسے ٹکڑےٹکڑے کر کے قومی ریاستوں میں بانٹ دیا گیا ہے، عافیہ صدیقی اور ان تمام بہنوں کو آزاد کروانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ہمیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان مظلوم بہنوں کی آہیں دنیا میں ہماری تباہی اور آخرت میں بربادی کا ذریعہ نہ بن جائیں۔
ڈالروں پر پلنے والی امریکی غلام فوج اور دین فروش آئی ایس آئی سے تو کوئی امید نہیں، البتہ امت کے جری و بہادر مجاہدینِ اسلام جو ان ظالموں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹے ہوئے ہیں، چاہے ان کی تعداد قلیل اور وسائل محدود ہیں، لیکن ان بہنوں کی آزادی کے لیے وہی امید کی ایک کرن ہیں۔
٭٭٭٭٭