تمہید
جب بھی فلسطین میں صہیونی ریاست کو نقصان پہنچا، مغرب نے اس کا تدارک کیا، پورے مغرب نے، یہ مدد محبت یا انسانیت کی بنیاد پر نہیں تھی، کیونکہ ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ شرمناک ہے۔ یہ صرف اس لیے تھا کہ مسلمان ایسی طاقت نہ بن جائیں جو دنیا کو خدائی رنگ میں ڈھال سکیں۔ اس شیطانی اتحاد نے اس مرحلے پر امت مسلمہ کے سلیم الفطرت افراد اور مظلوموں کو بیدار کیا ہے، اور اب مسلمانوں کو یقین ہو گیا ہے کہ دنیا ان کے چنگل سے اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتی اور نہ ہی امت مسلمہ کی عظمتِ رفتہ حاصل کی جا سکتی ہے جب تک مغرب کو شکست نہ دے دی جائے اور اسے عالمی سیاسی فیصلوں سے الگ تھلگ نہ کر دیا جائے۔
آج مغرب جو کچھ انسانوں کے ساتھ انسانیت کے نام پر کر رہا ہے اور گزشتہ دو صدیوں میں امت مسلمہ کے جن وسائل پر قبضہ کیا ہے، وہ ناقابل معافی جرم ہے، جس کی تاریخ میں کوئی مثال ملنی مشکل ہے۔ انہوں نے اپنے جھوٹے عالمی اسٹیج پر اخلاقیات اور اقدار کے بلند دعوے کیے، حالانکہ حقیقت میں وہ انصاف اور عدل کے بجائے حق کو اپنی ہی من مانی تعبیر سے غصب کر چکے ہیں اور عدل و انصاف کے نام پر دوسروں سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ ان کے پاس دنیا کو دینے کے لیے سوائے مغربی یورپ، شمالی امریکہ اور دیگر ممالک کی غلامی و حکمرانی کے کچھ نہیں۔ اگرچہ انہوں نے اپنے مقبوضہ ممالک سے اپنی افواج واپس بلا لی ہیں، مگر وہاں حکمرانوں کے نام پر ایسے افراد کو مسند اقتدار بٹھا دیا ہے جو انہی کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں، مسلمانوں کو ذلیل کرتے ہیں، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں اور مسلمانوں کی دولت کو وحشیانہ طریقے سے لوٹتے ہیں یا پھر اسے دشمنوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
جب تک فتنہ اور ظلم جاری ہے، اللہ کے لشکر ان کا خاتمہ کرنے کے لیے آتے رہیں گے۔ یورپ کی حالت بدتر ہو رہی ہے، اور امریکہ جو افغانستان میں عبرتناک شکست کے بعد بھی خلیجی ممالک سے خفیہ تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ دنیا ہمیشہ ان کی غلامی میں رہے، اب اس کا یہ تعاون کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے معاون و مدد گاروں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو مغرب کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور اپنے ضمیر، ایمان، اور یقین کو بیچ چکے ہیں۔ یہ وہ بدبخت افراد ہیں جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور جن کی آنکھوں کو اندھا کر دیا گیا۔ اس ذلت و عار میں تمام مسلم سیاستدان اور حکمران شریک ہیں، خاص طور پر خلیج کے حکام، اور ان میں سب سے آگے عرب امارات کے شیاطین ہیں۔
نیتن یاہو اس راستے پر چل رہا ہے جس پر اس سے پہلے کے تمام یہودی قصاب چل چکے ہیں۔ ان سے کبھی بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ سنجیدگی سے اپنے یہودی قیدیوں کو مجاہدین کے قبضے سے چھڑانے کے لیے مذاکرات کی کوشش کریں گے، کیونکہ مجاہدین کے ہاتھوں میں یہودی قیدیوں کا وجود ہی فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے سب سے بہترین بہانہ بن جاتا ہے۔ اگر قیدیوں کا تبادلہ ہو بھی گیا تو جنگ کا مقصد اور وجہ ختم ہو جائے گی، اور اس وقت (بعض) اندرونی یہودی حلقے ان پر حملہ کر دیں گے۔
اسی لیے نیتن یاہو کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذاکرات کو مؤخر کرتا رہے تاکہ وہ کوئی نیا بہانہ تلاش کرے جس سے وہ اس تصادم کو مزید طول دے سکے، اپنے اقتدار کو برقرار رکھ سکے، اور اپنے صہیونی مخالفین سے بچا رہ سکے۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا وہ اس خطے کو ایک ایسے تصادم میں دھکیلنے میں کامیاب ہو پائے گا جس کی انتہا کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا؟ اور کیا یہ مشرق و مغرب کے درمیان تیسری عالمی جنگ کی بنیاد بنے گا؟
اہم سوالات
-
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دنیا پر مسلط طاقتیں عالمی نقشے میں تبدیلی کو ضروری سمجھتی ہیں؟
-
کیا جنگ ہی واحد ذریعہ ہے اس تبدیلی کے لیے، یا وہ دیگر ذرائع کو ترجیح دیتے ہیں؟
-
کیا دنیا کی ریاستیں اس جنگ کے لیے تیار ہیں؟
-
کون سی ریاستیں واقعی ایسی جنگ میں ملوث ہونے کی خواہش رکھتی ہیں، جس کا کوئی اختتام نہ ہو؟
-
چین اور بھارت جیسی طاقتیں کس حد تک اس میں شامل ہوں گی؟
-
چونکہ یورپی ممالک نے افریقہ میں اپنی بہت سی دولت کھو دی ہے، کیا وہ اپنی زوال پذیر حالت کے باوجود افریقہ پر دوبارہ قابض ہو سکتے ہیں؟
-
کیا امریکہ کے زوال پذیر غلام (یعنی افریقی ممالک) اب اسے چھوڑ دیں گے یا پھر ہمیشہ کی طرح اس کی پشت پناہی اور غلامی میں جیتے رہیں گے؟
-
کیا تیل کا بہاؤ اسی طرح جاری رہے گا یا یہ کہ مخالف قوتیں اپنی حکمتِ عملی کے تحت تیل کے ذخائر کو تباہ کرنے یا ان پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گی تاکہ بڑی طاقتوں کو اس نعمت سے محروم کر دیا جائے؟
-
آخر کار، ایسی غیر اخلاقی اور بے لگام جنگ کے بعد دنیا کی صورت حال کیا ہو گی؟
یہ بہت بڑی غلطی ہو گی کہ ہم واقعات کو محض عسکری زاویے سے دیکھیں۔ ضروری ہے کہ ہم ہر واقعے کو اس کے تمام پہلوؤں، سیاسی، معاشی، سماجی، اور اسٹریٹجک، سے سمجھیں۔ یہ محدود سوچ ہے کہ ہم حالات کو صرف کسی خاص ریاست یا خطے کی سرحدوں میں قید کر کے دیکھیں۔ در حقیقت، ہمیں ان عالمی اتحادوں اور بلاکوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے جو تیزی سے تشکیل پا رہے ہیں، اور ان چھوٹی لیکن مؤثر طاقتوں کو سمجھنا ہو گا جو کسی بھی وقت کسی بھی بلاک کی طرف جھک سکتی ہیں، جیسے کشش اور دفع کی قوتیں کسی سیارے کے گرد اجسام کو گھماتی ہیں۔
راہ انقلاب کے سنگِ میل
معلومات اور اس کی تجدید
تمام تجربات اس بنیادی اصول پر زور دیتے ہیں کہ کامیابی کی اصل بنیاد تیاری اور میدانِ عمل میں فتح کے لیے معلومات کی فراوانی ہے۔ کسی بھی تصادم اور جنگ کی کامیاب تیاری کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں بنیادی معلومات حاصل ہوں، جن کی مدد سے ہم تصادم کا ایک واضح اور مفصل نقشہ تیار کر سکیں۔ یہ معلومات تصادم سے پہلے، دورانِ تصادم، اور بعد از تصادم حاصل کرنے کی مسلسل کوشش ہونی چاہیے، اور یہ عمل بغیر کسی وقفے کے جاری رہنا چاہیے۔ ان معلومات کا دائرہ صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس میں سماجی ڈھانچے اور قیادت کرنے والے افراد کی معلومات بھی شامل ہونی چاہئیں۔
آج کے دور میں تصادم صرف ہتھیاروں تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبے میں پھیل چکا ہے۔ درست فیصلے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس معلومات اکٹھی کرنے کا ایسا نظام ہو جو اس تصادم کی شدت اور وسعت کے مطابق ہو، کیونکہ اب پوری دنیا کا ہر خطہ اس تصادم کا ایک میدانِ جنگ بن چکا ہے۔
ضروری ہے کہ ہم دشمن کے بارے میں جتنی ممکن ہو سکے معلومات حاصل کریں، خاص طور پر اس کے عسکری ، سیاسی، سماجی اور اقتصادی معاملات کے حوالے سے۔ ہمیں اس کے اڈوں، بالخصوص ہوائی اڈوں، خفیہ و علانیہ ذخائر، ایندھن کے گوداموں، طاقت اور کمزوری کے نکات، اور اس کے اتحادیوں پر اس کے اثرات کا بغور تجزیہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح، دشمن کے مخالفین، غیر جانبدار ممالک، اور ہمارے دیگر دشمنوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت، ان کے مفادات اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کی حکمتِ عملی پر بھی گہری نظر رکھی جانی چاہیے۔ اپنے اتحادیوں کی پوزیشن اور طاقت کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے، اور یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ہماری اپنی اقوام کی جدوجہد کے لیے تیاری، ان کا صبر اور قربانی دینے کی استعداد کس حد تک ہے۔
یہ ایک زندگی اور موت کا معرکہ ہے، جس میں بقاء یا فناء کا سوال ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اسے ممکنہ حد تک اعلیٰ حکمتِ عملی اور مکمل احتیاط سے لڑا جائے، تاکہ ہر نوع کے لوگوں کے ساتھ مناسب طریقے سے برتاؤ کیا جا سکے۔ ہمیں حیلہ، فریب، سیاسی و اقتصادی چالوں کے ذریعے دشمن کے اتحادیوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور نہ صرف اتحادی گروپوں کے درمیان بلکہ ایک ہی گروہ کے اندر بھی اختلافات کی بیج بونے چاہئیں۔ کیونکہ یہ لڑائی صرف لوہے اور آگ کے زور پر نہیں لڑی جاتی۔
صاف الفاظ میں کہا جائے تو بعض گروہوں کو براہِ راست نشانہ بنانا، بعض دیگر گروہوں میں حسد بھڑکاتا ہے، ان کے درمیان عداوت پیدا ہوتی ہے، اور یہ ان کی ظاہری وحدت کو توڑنے اور ان کی طاقت کو کمزور کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
یہودیوں کے درمیان سیاسی کشمکش سے متعلق معلومات کی کمی کی وجہ سے جنگ توقع سے زیادہ طویل ہو گئی، اور یہودی عوامی تحریکوں کے اثر و رسوخ کے بارے میں معلومات کی کمی کی بدولت قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ جیت کے لیے کامیاب حربہ نہ بن سکا۔ جنگ کے 200 دن گزرنے کے بعد قیدیوں کے تبادلے سے کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ ہوا، جب کہ نیتن یاہو غزہ میں اس دوران مسلمانوں کی نسل کشی کرتا رہا۔
لہذا اب مجاہدین پر لازم ہے کہ وہ نیتن یاہو اور اس کے متعصب گروہ کو سبق سکھائیں اور انہیں اس جنگ میں شرمندہ و ذلیل کریں۔
اتحاد
اتحاد ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے، جو وقت کی مناسبت سے کسی سے بھی کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ بڑی جنگوں کا آغاز عموماً مختلف عقائد رکھنے والے گروہوں کے درمیان اتحاد کے ٹوٹنے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ دشمن کے ساتھ تصادم کے لیے ضروری ہے کہ منظم منصوبہ بندی کی جائے اور اپنے سابقہ اتحادیوں کے ساتھ مستقبل میں ممکنہ ٹکراؤ کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔
وہ فریق جو دشمن بنانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ دوست بنانے کی مہارت رکھتا ہو، اور جو سیاسی حکمتِ عملی کے ساتھ مضبوط اتحاد قائم کرنے اور باقی ماندہ حریفوں کو غیر مؤثر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ طویل مدتی جنگ کو مناسب حد تک رکاوٹوں کے ساتھ جاری رکھنے اور اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
کوئی بھی منصوبہ یا جدوجہد منفی عوامل سے خالی نہیں ہوتی، اور ان منفی عوامل میں سب سے بدترین وہ ہوتے ہیں جو جماعت یا ادارے کے بعض افراد کی خود پسند شخصیت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، جو داخلی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ایسے افراد کو ابتدائی طور پر صف سے نکال دینا ضروری ہے تاکہ ہماری یکجہتی برقرار رہے اور ہم جنگ و جدل، اختلافات اور ناکامی سے بچ سکیں۔ انہیں اپنے ساتھ رکھ کر تبدیلی کی امید باندھنا ایک خطرناک فیصلہ ہوتا ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم انہیں زیادہ موقع دیں گے تو گویا ہم اپنی صف میں دراڑ ڈالنے کا راستہ کھول دیں گے، اور یہ دراڑ دشمنوں کے لیے ہماری جاسوسی تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
سیاست میں اتحادیوں کے درمیان علیحدگی کا وقوع یقیناً ایک ناگزیر حقیقت ہے، چاہے وہ عارضی ہو یا طویل المدتی۔ وسائل، معاہدات، بازاروں اور بری و بحری راستوں پر باہمی مسابقت ہمیشہ سے ایک لازمی حقیقت ہے جو بالآخر دشمنوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ غرور، تکبر، گھمنڈ اور اختیار کی خواہش انسان کو اس طرف مائل کرتی ہے کہ وہ کسی چیز پر مکمل کنٹرول حاصل کرے، جس کے نتیجے میں وہ مشترکہ مفادات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس لیے یہ تنازعات ہمیشہ جاری رہیں گے اور قیامت تک ختم ہونے کا نام نہیں لیں گے۔
ہماری مسلم امت کا باہمی اتحاد و اتفاق وہ منصوبہ ہے جسے ہم نے محنت، تنظیم اور کامیابی کے ساتھ استوار کرنا ہے۔ ہمارے درمیان موجود اسبابِ اتحاد ہمارے دشمنوں کے درمیان موجود عواملِ اتحاد سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہم ایک امت ہیں جس کا رب ایک ہے، دین ایک ہے، رسول ایک ہے، قبلہ ایک ہے، کتاب ایک ہے، اور ہمارا سیاسی طریقہ بھی مغرب اور بت پرستوں کے دنیا بھر کے لوگوں سے روا رکھے جانے والے تعلقات کے مقابلے میں بے شمار خوبیوں سے مالا مال اور بلند ہے۔
ان شاء اللہ وہ وقت قریب ہے جب ہم اپنے نفس اور اس کے ساتھ جڑی خواہشات پر قابو پائیں گے، اور پھر ہمارے علاقائی و عالمی دشمن کی شکست ہمارے لیے فقط چند لمحوں کا معاملہ بن کر رہ جائے گی۔
جدید جنگیں
غیر روایتی جنگی حکمت عملیوں جیسے میزائل حملوں اور ڈرونز کے ذریعے قتل کی سب سے خطرناک خصوصیت یہ ہے کہ یہ عوام کے استحکام کو متزلزل کر سکتی ہیں اور افراد کے مستقبل کو برباد کر سکتی ہیں۔ اس لیے مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ایسے اسباب ایجاد و مہیا کریں جن کے ذریعے دشمن کو ان ہتھیاروں کے استعمال سے روکا جاسکے اور ان کے مذموم عزائم خاک میں ملا دیے جائیں۔
دشمن کو روکنے کا پہلا قدم یہ ہے کہ مسلمان اس کی سیاسی اور اقتصادی سرگرمیوں پر کاری ضربیں لگائیں، اس کے فوجی اڈوں کا محاصرہ کریں، اس کے ایجنٹوں کو بے اثر کریں اور اس کے جاسوسوں کو مکمل طور پر ختم کر دیں۔ یہ سب ہمارے علاقوں میں اور ان مقامات پر ہونا چاہیے جہاں سے دشمن اپنے حملے کرتا ہے۔ یہ ایک لازمی حکمت عملی ہے جو دشمن کو تیز تر زوال کی طرف دھکیل سکتی ہے، چاہے اس کا ردعمل جو بھی ہو۔ یہ قدم ہر مسلح فرد، مظلوم، باعزت، غیرت مند اور آزادی کے متوالے کے لیے ممکن ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہو۔
متوازی ا قدام
یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کا مقصد ایک سیاسی نظام کی تشکیل ہے جو ایک چھتری کی مانند کام کرے، قوموں کو اپنے جھنڈے تلے متحد کرے، ان کی کوششوں کو ہم آہنگ کرے اور ان کے لیے ادارے قائم کرے۔
اگلے مراحل میں، یہ سیاسی نظام اپنی ذہین اور باصلاحیت نسل کی رہنمائی کرے گا تاکہ وہ فضائی دفاعی ہتھیار تیار کر سکیں، ایسے میزائل اور ڈرون حاصل کر سکیں جن کی تباہ کن صلاحیت دشمن کے میزائلوں اور ڈرونز سے کم نہ ہو، اور حقیقی ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے امن و خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
امت مسلمہ کی ملکیت میں بیش بہا دولت اور بے شمار وسائل ہیں، بشرطیکہ یہ وسائل امت کے اپنے کنٹرول میں ہوں۔ اس امت کی بیداری اور ترقی ان افراد کے ہاتھوں میں ہے جو اپنے عقیدے، اقدار، ثقافت، روایات اور اصولوں سے وفادار ہیں۔ ایسے مخلص افراد جنہوں نے امت کی ترقی کے لیے اپنے وسائل صرف کیے ہوں، اور جو ان وسائل کا ضیاع نہ کرتے ہوئے انہیں اس طرح استعمال کریں کہ امت کو ان سے فائدہ پہنچے۔ ایسے مخلص افراد جو وہی اشیائے ضرورت درآمد کریں جن سے کھپت سے زیادہ استفادے کے مواقع زیادہ سے زیادہ میسر ہوں۔
کچھ بنیادی حقیقتیں ایسی ہیں جنہیں بدلنا دشوار ہے۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ زمینی جنگ ہمیشہ مقامی لوگوں کے حق میں ہی ختم ہوتی ہے، چاہے انہیں کتنی ہی تکالیف اٹھانی پڑیں یا دشمن کا قبضہ کتنے عرصے تک کیوں نہ قائم رہے، اس کا خاتمہ بہرحال ہو گا۔ جہاں تک جوہری بمباری کا سوال ہے، اس کا واحد حل یہ ہے کہ یا تو خود جوہری ہتھیار حاصل کیے جائیں یا ایسے دفاعی ہتھیار تیار کیے جائیں جن کے اثرات دشمن کے لیے ناقابلِ برداشت ہوں۔ اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب ہمارے پاس یہ دفاعی ہتھیار آ جائیں تو ہمیں ان کے استعمال کی جرأت بھی ہونی چاہیے، تاکہ ہم اپنے دفاع میں کامیاب ہو سکیں۔
جہاں تک اقتصادی جنگ کا تعلق ہے، تمام مسلم اقوام کو مغربی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ اگر مسلم ممالک میں مغربی مصنوعات کا کوئی متبادل موجود ہو، چاہے وہ کم معیار کا ہی کیوں نہ ہو، ہمیں اسی متبادل کو ترجیح دینی چاہیے۔ کیونکہ جو شخص مغربی گاڑی خریدتا ہے، وہ دراصل غزہ میں مسلمانوں کے قتل میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ ایسی تمام مصنوعات جن کا متبادل اسلامی ممالک میں دستیاب ہو، چاہے وہ مہنگی ہوں یا سستی، انہیں یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا، بھارت، چین اور ان تمام ممالک سے خریدنا حرام ہے جو سیاسی، عسکری یا معاشی طور پر اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔
فضائی حملے اور ان کا حل
ہوائی جہاز اور فضائی حملے مجاہدین کے لیے مسلسل ایک بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں جب تک کہ ہم انہیں لڑائی سے نکالنے میں کامیاب نہ ہو جائیں، اور اس کے لیے ان کی متعدد کمزور نقطوں کو نشانہ بنانا ضروری ہے۔ ان میں سر فہرست: ہوائی اڈے، فوجی اڈے، گولہ بارود کے ذخائر، جہاز ران، اسلحہ فراہم کرنے والی ٹیمیں، زمینی عملہ، اور ان سے منسلک تمام انتظامی امور پر تعینات ادارے شامل ہیں۔
-
ڈرون طیارے
ان کی کئی کمزوریاں ہیں۔ یہ سست رفتار ہوتے ہیں، کم بلندی پر پرواز کرتے ہیں، ریڈار پر آسانی سے نظر آ جاتے ہیں، اور ان سے نمٹنا گولیوں یا خلل اندازی (جیمِنگ) کے ذریعے یا ان پر کنٹرول حاصل کر کے ممکن ہوتا ہے۔
ان کی مزید کمزوریاں درج ذیل ہیں:
ان کے اڈے، انہیں چلانے والے آپریٹرز، تکنیکی کمرے جہاں سے یہ کنٹرول کیے جاتے ہیں، اور وہ جاسوس جو انہیں معلومات فراہم کرتے ہیں یا وہ مخصوص آلات جن کے ذریعے ان کی رہنمائی کی جاتی ہے، وغیرہ۔
جتنے زیادہ عناصر ان سے منسلک ہوں گے، اتنی ہی زیادہ کمزوریاں پائی جائیں گی، جنہیں ہم اپنی طاقت کے مطابق نشانہ بنا سکتے ہیں۔
پہلا قدم دشمن کو اندھا کرنا ہے، یعنی جاسوسوں کو ختم کرنا، اور خصوصی کاروائیوں کے ذریعے ان کے اڈوں یا کنٹرول رومز کو نشانہ بنانا۔ اسی طرح ان زمینی پائلٹوں کو اغوا یا قتل کرنا جو ان طیاروں کو چلاتے یا کنٹرول کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کے گوداموں اور گولہ بارود کے ذخائر کو تباہ کرنا، اور انہیں تیار کرنے والے تکنیکی ماہرین کو اغواء یا قتل کرنا بھی شامل ہے۔
اس طرح ہم اس خطرناک ہتھیار کو ناکارہ بنا سکتے ہیں حتیٰ کہ وہ خود کش ڈرون طیارے جو ابتدا سے الیکٹرانک طریقے سے کنٹرول ہوتے ہیں، چونکہ ان کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے، اس لیے ان کا ذخیرہ اور کنٹرول کے مقامات اکثر قریب اور قابلِ رسائی ہوتے ہیں۔ ان کو نقصان پہنچانا ممکن ہے، خاص طور پر ان معلومات کی بنیاد پر جو ہماری انٹیلی جنس ہمارے علاقے میں اکٹھی کرتی ہے، اور ہمارے وہ تربیت یافتہ عناصر جو دشمن کے خلاف کاروائیاں انجام دیتے ہیں، نیز دشمن کی صفوں میں موجود ہمارے ہمدرد عناصر بھی جو ہمیں معلومات فراہم کرتے ہیں یا طیاروں کے سسٹم میں خرابیاں پیدا کر کے ناکارہ بنا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ تمام محاذوں پر مجاہدین کے درمیان رابطے کی ضرورت ہے، اسی طرح امت مسلمہ کے با صلاحیت افراد سے مؤثر رابطے، ان کی تعلیم و تربیت، ڈرون طیارے بنانے اور انہیں چلانے، بارودی مواد تیار کر کے اُسے گولہ بارود میں تبدیل کرنے کی مہارت سکھانا ضروری ہے، کیونکہ ہماری جنگ بقاء کی جنگ ہے، اور یہ مشرق سے مغرب تک امت کے ہر اُس فرد کی مہارت کی محتاج ہے جو اس میدان میں تخصّص رکھتا ہو، تاکہ آپس میں تجربات، اختراعات، اور تحقیقات کا تبادلہ ہو، اور اس خطرناک ہتھیار کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی کو عام کیا جا سکے۔
-
جیٹ طیارے اور ہیلی کاپٹرز
ان جہازوں کا توڑ کندھے پر رکھے جانے والے میزائلوں یا زمینی لانچنگ سسٹمز کے ذریعے کیا جا سکتا ہے، لیکن ان میزائلوں کو خریدنا، اسمگل کرنا اور استعمال کے قابل بنانا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ یہ ریڈارز اور اعلیٰ سطح کی تکنیکی مہارت سے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
تاہم ان سے زمینی طور پر نمٹا جا سکتا ہے کہ ان کے ہوائی اڈوں تک رسائی، ان پر خود کش ڈرونز سے حملہ، ہوائی اڈوں کے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانا، پائلٹس اور فنی عملے کو نشانہ بنانا یا ان کے خاندانوں کو دھمکانا، گولہ بارود کے ذخائر اور ایندھن کے اسٹورز کو تباہ کرنا۔
بلکہ طیارہ بردار جہازوں سے بھی چالاکی سے نمٹا جا سکتا ہے جیسا کہ پچیس سال قبل عدن میں ایک چھوٹی کشتی نے، جس میں ایک ڈیڑھ ٹن بارودی مواد تھا، ایک امریکی طیارہ بردار جنگی بحری جہاز کو ناکارہ بنا دیا۔
یقیناً اسلامی انقلاب اور اس کی عملی خواہش اور دشمن و اس کے اتحادیوں پر کاری ضرب لگانے کی کوشش، ایک وسیع فکری اُفق اور ایسے دلیر افراد کی محتاج ہے جو اپنے دین اور امت کی نصرت کے لیے قیمتی ترین چیزیں قربان کرنے کو تیار ہوں۔
-
ہیکنگ کے ماہر امت مسلمہ کے مخلص بیٹے
امت مسلمہ کے مخلص بیٹے جو ہیکنگ کے ماہر ہیں جو دشمن کے سکیورٹی اور عسکری سسٹم میں نقب لگا سکتے ہیں اور انہیں تباہ کر سکتے ہیں، یہ ہمارے پاس موجود ایک ایسی قوت ہے جو ابھی تک اس انداز میں استعمال نہیں ہوئی جو دشمن کے لیے مؤثر رکاوٹ بن سکے۔
ایسے افراد دشمن کے حملوں کا رخ موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، چاہے وہ ڈرونز ہوں، میزائل ہوں یا جیٹ طیارے، کیونکہ اگر وہ نیوی گیشن سسٹمز کو غیر فعال کر دیں، یا ان میں خلل ڈال دیں، یا اہداف کی پروگرامنگ میں مداخلت کریں، تو یہ ساری مشینیں ہمارے ہاتھوں میں خود ایک ہتھیار بن جائیں گی، اور اس طرح جادوگر پر اسی کا جادو الٹا جا سکتا ہے۔
ان پر لازم ہے کہ وہ سکیورٹی اور انفارمیشن کے میدان میں حقیقی تخریبی کاروائیاں انجام دیں، اور دشمن کے اداروں کو، خصوصاً ان سول اداروں کو جو بجلی، پانی، زمینی، بحری اور فضائی نقل و حمل سے متعلق ہیں، غیر فعال کر دیں۔
اسی طرح دشمن کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنا بھی ناگزیر ہے، وہی جو دن رات ہمیں دھمکانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، ان کا خاتمہ اور انہیں ناقابلِ استعمال بنانا ضروری ہے۔
اسی طرح دشمن کی معیشت کو غیر مستحکم کرنا اور اس کے بینکوں اور مالیاتی اداروں میں خلل ڈالنا بھی ضروری ہے۔
یہ چند صفحات دستیاب اہداف یا ممکنہ منصوبوں کی وسعت کو بیان نہیں کر سکتے، لیکن یہ بیج ہیں جو بوئے جا رہے ہیں، اور پودے ہیں جو آزادی کے راستے پر لگائے جا رہے ہیں۔
-
امت مسلمہ کے مؤثر ترین ہتھیار
ہماری توجہ امت مسلمہ اور اس کے مخلص افراد کے پاس موجود سب سے مؤثر اور دشمن پر کاری ضرب لگانے والے ہتھیار کی طرف ہونی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس ہتھیار کو اس کی نوعیت کے مطابق ترقی دیں اور اسے بروئے کار لائیں، خواہ وہ اسٹریٹیجک کاروائیوں میں استعمال ہو یا ٹیکٹیکل مقاصد کے لیے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ امت مسلمہ کے پاس تین ایسے ہتھیار ہیں جن کا مقابلہ دشمن نہیں کرسکتا:
-
استشہادی کاروائیاں
یہ کاروائیاں صرف اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے استعمال ہونی چاہییں، کیونکہ اس طرح کے حملے عسکری لحاظ سے درست ہیں نہ ہی سیاسی اعتبار سے کہ ایک ایسے ہدف کے لیے کسی پاک روح کو قربان کیا جائے جسے ایک عسکری کاروائی سے بھی ختم کیا جا سکتا ہو۔
-
بارودی مواد
یہ دوسرا ہتھیار ہے جو ہمارے پاس موجود ہے اور ٹیکٹیکل سطح پر مؤثر انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعے ہم بم نصب کرنے، ٹارگٹ کلنگ، چھاپے اور گھات لگا کر حملوں جیسی کاروائیاں انجام دے سکتے ہیں جو دشمن کو مفلوج کر دیں، خاص طور پر جب یہ دشمن کی سرزمین پر اور جائز اہداف کے خلاف ہوں۔ ایسی کاروائیاں دشمن کے اندر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرتی ہیں اور داخلی انتشار میں اضافہ کرتی ہیں۔ ایسے حملے اور کاروائیاں ان تمام حکومتوں کو کمزور کرنے کا اہم اسباب میں سے شمار کی جاسکتی ہیں جو فلسطین کے حوالے سے صہیونیوں اور یہودیوں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔
-
ایک پرانا مگر مؤثر ہتھیار: پستول
یہ ہتھیار انفرادی ٹارگٹ کلنگ کے لیے بہت کارآمد ہے اور ہر کسی کی دسترس میں بھی ہے۔ اگر اس کے ساتھ سائلنسر لگا دیا جائے، اور اسے استعمال کرنے والا دلیر ہو تو دشمن کی سیاسی، معاشی اور میڈیا کی قیادت کو نشانہ بنانا ممکن اور آسان ہو جاتا ہے۔
اور دشمن کے خلاف سب سے مہلک ہتھیار تو ہمارے اندر حوصلے و عزم جیسی معنوی قوت کا وجود ہے جو دینِ مبین کے لیے قربانی سے جنم لیتا ہے۔ اس روحانی قوت کو اقوال و افعال کے ذریعے ہمیشہ زندہ رکھنا چاہیے، کوئی بھی ایسی کاروائی جو عزت و وقار کی علامت ہو اور شرف و ناموس کی حفاظت کے لیے انجام دی جائے، وہ امت کی توانائیوں کو بیدار کر دیتی ہے۔ منظم الفاظ اور پڑھے گئے اشعار شاید لوگوں کو مادی ہتھیار نہ دے سکیں، لیکن وہ ہر فرد کو خود ایک ہتھیار میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
تربیت اور بھرتی
اگرچہ اس میں کچھ مسائل ہیں، لیکن اجباری بھرتی کا نظام کسی بھی قوم و ملت کے افراد کے لیے ایک اہم خدمت فراہم کرتا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے وہ مختلف قسم کے ہتھیاروں کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ بہت ضروری ہے کہ جو لوگ اسلامی انقلاب کے خواہشمند ہیں اور جو سچے دل سے اس میں شریک ہیں، وہ اپنی بھرتی کے دوران اس موقع سے فائدہ اٹھائیں، اسے سنجیدگی سے لیں، اور جو ہتھیار ان کے پاس ہوں، ان میں مہارت حاصل کریں۔ یہ موقع سچے اور سنجیدہ افراد کے لیے ہے، غیر سنجیدہ اور ناراض لوگوں کے لیے وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے، جو اس وقت بہت پچھتائیں گے جب جنگیں ان کے دروازے پر دستک دیں گی، یا جب ان پر سکیورٹی یا پولیس کا ادارہ قابو پائے گا، یا جب کسی متکبر آمر کی جانب سے ان کی جائیدادیں اور زمینیں چھینی جائیں گی اور ان کی بے عزتی کی جائے گی۔ بحیثیت امت یہ لازمی اور اجباری عسکری بھرتی ہمارے لیے ایک بہترین موقع ہے جس سے خوب استفادہ کرنا چاہیے۔
اور بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جبری فوجی بھرتی کے دوران فوج، اس کی صلاحیتوں، منصوبوں اور اس کے کمانڈروں کے بارے میں بھی بہت سی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اور ہماری بہت سی ریاستوں میں فوج کے کمانڈر ہی ہمارے اصلی دشمن ہیں۔ ان کے بارے میں اندرونی خفیہ معلومات اکٹھی کرنا ایک آئندہ ممکنہ ٹکراؤ کے لیے نہایت اہم ہے، خاص طور پر ان نظریاتی اور کرپٹ افواج اور ان کے قائدین سے نمٹنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
فوج کے اعلیٰ افسران اسے اپنی ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور اس کی وجہ بھرتی، تربیت اور سروس کے دورانیے کے نظام میں موجود متعدد خرابیاں ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کا حل ممکن ہے، اگر ہم اپنی مسلح افواج سے بدعنوان قیادت کا خاتمہ کر دیں۔ خاص طور پر ان افسران کے بیٹوں کی بھرتی کا مسئلہ، جو سمجھتے ہیں کہ فوج ان کی خاندانی میراث بن چکی ہے، صرف اس بنیاد پر کہ ان کے آباؤ اجداد نے کبھی بہادری دکھائی تھی۔ یہ بے حیثیت لوگ، جنہوں نے نہ کوئی جنگ لڑی، نہ ہی کبھی دشمن کے خلاف ہتھیار اٹھائے، بلکہ ہمیشہ اپنے ہی عوام پر بندوق تانی ہوئی ہے، ان کی پوری زندگی کا حاصل دراصل قوت کے مراکز پر قبضہ اور وسائل کی لوٹ مار ہے، جو کسی بھی طور جائز نہیں۔ اور جب تبدیلی کا پہیہ حرکت میں آئے گا تو ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا۔
پس اے باشعور اور مسلح نوجوان! فوجی سروس سے فرار اختیار نہ کرو، بلکہ اسے ایک موقع سمجھ کر استعمال کرو، اور وہ وقت آئے گا جب تم اس پر اللہ کا شکر ادا کرو گے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭