ایک عظیم تبدیلی کا وقت قریب ہے!

آج میں پہلی بار اس کی وضاحت کر رہا ہوں، پہلی بار۔ مجھے بالکل نہیں یاد کہ میں نے کبھی اس پہلو پر روشنی ڈالی ہو۔ مغرب کے وقت سے میرے دل میں شدید تقاضا ہوا، اور میں نے استخارہ کیا، اللہ تعالیٰ سے بہت رجوع کر کے پوچھا کہ کیا میں آج یہ بات صاف صاف کہہ دوں؟ تو مجھے بہت شرحِ صدر ہوا کہ ضرور کہہ دو۔ ایک امانت کے طور پر آپ حضرات سے یہ بات پہلی بار کہہ رہا ہوں۔ اور میرے مخاطب وہ لوگ بھی ہیں جو سامنے ہیں اور وہ ہزاروں لوگ بھی ہیں جو مختلف ملکوں میں بیٹھ کر اس مجلس کو روزانہ سنتے ہیں۔ میں ہجرِ اسود پر ہاتھ رکھ کر، خانۂ کعبہ کا کپڑا پکڑ کر یہ قسم کھانے کو تیار ہوں کہ دنیا میں بہت بڑی تبدیلی کا وقت قریب ہے، بہت بڑے انقلاب کا وقت قریب ہے۔ انسانی تاریخ میں کبھی بھی عدل و انصاف اور خیر کا اتنا غلبہ نہیں ہوا جتنا چند سال کے بعد ہونے والا ہے، میرے جملے کو یاد رکھیں۔ پوری انسانی تاریخ میں، پوری دنیا کی سطح پر، امن و انصاف اور خیر کا غلبہ کبھی نہیں ہوا جو اب چند سال کے بعد ہونے والا ہے۔

اور اس سے پہلے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کو مسترد کر کے اللہ کافروں اور دجال کی فوج میں بھیجنے والے ہیں، یہ بھی سن لیجیے۔ زبردست چھَٹائی ہونے والی ہے، اور اس چھَٹائی کے بعد اس خیر کا غلبہ ہو گا جب خالص پکے مومن دنیا میں رہ جائیں گے، اور وہ ہو سکتا ہے چند فیصد ہوں۔ احادیث میں بھی اس کا ایک اشارہ ملتا ہے کہ وہ چند فیصد سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ اور میں آج یہ بات پہلی بار کھل کر اس لیے کہہ رہا ہوں، اس امید پر کہہ رہا ہوں، اللہ اس امید کی لاج رکھ لے، اور ان علما کی گواہی کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جن کے علم اور تقویٰ پر الحمد للہ مجھ کو پورا اعتماد ہے، اور وہ فلسطین اور شام کے حالات بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں، وہ ہماری طرح دور نہیں بیٹھے، اسی سر زمین پر رہ رہے ہیں۔ اور وہاں کے جو دن بہ دن نئے حالات آ رہے ہیں ان کو وہ قرآن اور سنت کی روشنی میں سمجھ رہے ہیں، بی بی سی لندن اور سی این این کی روشنی میں نہیں سمجھ رہے۔ اور وہ بتا رہے ہیں، الحمدللہ اِس عاجز کا ان میں سے کئی سے رابطہ ہے، وہ بتا رہے ہیں کہ ہو کیا رہا ہے، اور آثار کیا ہیں، اور کن مرحلوں سے گزر کر ہم کس منزل تک پہنچنے والے ہیں۔

بہت سی احادیث میرے سامنے ہیں اس وقت لیکن میں ایک حدیث صرف پیش کرتا ہوں، بہت سی حدیثیں ہیں الحمدللہ۔ حضرت علی ابنِ طالب ﷜کرم اللہ وجہہ، وہ فرماتے ہیں، ایسے خطرناک حالات آنے والے ہیں سَتَکُونُ فِتْنَۃٌ یُحَصَّلُ النَّاسُ مِنْہَا کَمَا یُحَصَّلُ الذَّہَبُ فِي الْمَعْدِنِ،، جس طرح سونے کو آگ میں رکھ کر تپایا جاتا ہے، سارا میل کچیل اور ملاوٹ، جو کچھ اس کے اندر ہے، اس کو گندگی کی طرح بہا دیا جاتا ہے، اس طرح انسانوں کو سخت آزمائشوں کی آگ میں تپایا جائے گا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں اس کا کیا مطلب ہے۔ ہمارے اندر جتنا میل کچیل ہے، ہم میں سے جتنوں کے اندر، وہ سب الگ کر دیا جائے گا۔ اللہ اکبر! یہ سن کر چیخیں نکلنی چاہیے ہیں اور ہم بہت آرام سے سن رہے ہیں، آرام سے۔ صحابہ چیختے تھے چلاتے تھے اس قسم کی احادیث سن کر، بہت واقعات ہیں، بیہوش ہو جاتے تھے۔ اور روایت کرنے والے صحابی کے پیچھے پیچھے گھر جاتے تھے، یہ بھی ایک روایت میں ہے۔ اس کا دامن پکڑ کر کہتے تھے کہ میں ان لوگوں میں تو نہیں ہوں گا نا؟کچھ آپ بتا سکتے ہیں؟جن کوپھینک دیا جائے گا؟ ہمیں تو سن کر کوئی ڈر بھی نہیں لگتا۔

فَلَا تَسُبُّوا أَہْلَ الشَّامِ‘ جملہ سنو! سیدنا علی ﷜فرماتے ہیں کہ شام والوں کو برا بھلا مت کہا کرو۔ آپ غور کیجیے ذرا، سیدنا علی ﷜کا اختلاف کن لوگوں سے تھا؟ شام والوں سے! اور لوگوں نے کیا فسانے گھڑے سیدنا علی ﷜ اور سیدنا معاویہ ﷜ کے اختلاف کے بارے میں، کیا بکواس اور جھوٹ بکا ہے۔ اور سیدنا علی ﷜کیا کہہ رہے ہیں؟ قطعاً شام والوں کو برا بھلا مت کہنا! اللہ اکبر! وَسُبُّوا ظَلَمَتَہُمْ‘، ان میں سے جب کوئی ظالم کھڑا ہو، اس پر تنقید کرنا،عام طور سے شام والوں کو برا بھلا مت کہنا۔ یہ ہماری کمزوری ہے، کسی ایک علاقے کے دو آدمیوں سے ہم کو شکایت ہوتی ہے، ہم فوراً کہنے لگتے ہیں اس علاقے کے سب لوگ ہی ایسے ہیں۔ امام احمد ابن حنبل کا جملہ ہے کہ تعمیمِ حکم حرام ہے، یعنی ایک آدمی کی کسی غلطی کی وجہ سے اس کے خاندان کو برا بھلا کہہ دینا، اس کے قبیلہ کو برا بھلا کہہ دینا، اس کے علاقے کو برا بھلا کہہ دینا یہ حرام ہے کبیرہ گناہ ہے!

فَإِنَّ فِیہِمُ الْـأَبْدَالُ‘ حضرت علی فرما رہے ہیں، شام کے رہنے والوں میں ابدال کے مقام تک پہنچے ہوئے اولیاء اللہ پیدا ہوتے رہیں گے۔ مجھے ایک بڑے عظیم عالِم نے حدیث سنائی تھی تو اس وقت کیا کیا کہا تھا ’ابدال‘ کی تشریح میں۔ میں وہ جرات اپنے اندر نہیں پاتا کہ میں اس تشریح کو نقل کروں۔

وَسَیُرْسِلُ اللّٰہُ إِلَیْہِمْ سَیْبًا مِّنَ السَّمَائِ فَیُغْرِقُہُمْ حَتّٰی لَوْ قَاتَلَتْہُمُ الثَّعَالِبُ غَلَبَتْہُمْ’1

وَسَیُرْسِلُ اللّٰہُ إِلَیْہِمْ سَیْبًا مِّنَ السَّمَائِ فَیُغْرِقُہُمْ‘ ایسے عجیب عجیب قسم کے فتنے، آزمائشیں، عذاب، فضائیں آئیں گی کہ اللہ کی پناہ۔ یہ بھی ہو گا!

٭٭٭٭٭

1 مکمل حدیث:

سَتَکُونُ فِتْنَۃٌ یُحَصَّلُ النَّاسُ مِنْہَا کَمَا یُحَصَّلُ الذَّہَبُ فِي الْمَعْدِنِ، فَلَا تَسُبُّوا أَہْلَ الشَّامِ، وَسُبُّوا ظَلَمَتَہُمْ، فَإِنَّ فِیہِمُ الْـأَبْدَالُ، وَسَیُرْسِلُ اللّٰہُ إِلَیْہِمْ سَیْبًا مِّنَ السَّمَائِ فَیُغْرِقُہُمْ حَتّٰی لَوْ قَاتَلَتْہُمُ الثَّعَالِبُ غَلَبَتْہُمْ، ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ عِنْدَ ذٰلِکَ رَجُلًا مِّنْ عِتْرَۃِ الرَّسُولِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا إِنْ قَلُّوا، وَخَمْسَۃَ عَشْرَ أَلْفًا إِنْ کَثُرُوا، أَمَارَتُہُمْ أَوْ عَلَامَتُہُمْ أَمِتْ أَمِتْ عَلٰی ثَلَاثِ رَایَاتٍ یُقَاتِلُہُمْ أَہْلُ سَبْعِ رَایَاتٍ لَیْسَ مِنْ صَاحِبِ رَایَۃٍ إِلَّا وَہُوَ یَطْمَعُ بِالْمُلْکِ، فَیَقْتَتِلُونَ وَیُہْزَمُونَ، ثُمَّ یَظْہَرُ الْہَاشِمِيُّ فَیَرُدُّ اللّٰہُ إِلَی النَّاسِ إِلْفَتَہُمْ وَنِعْمَتَہُمْ، فَیَکُونُونَ عَلٰی ذٰلِکَ حَتّٰی یَخْرُجَ الدَّجَّالُ ۔

’’عنقریب ایک فتنہ نمودار ہو گا۔ لوگ اس سے ایسے کندن بن کر نکلیں گے، جیسے سونا بھٹی میں کندن بنتا ہے۔ تمام اہل شام کو بُرا بھلا نہ کہیں ، بلکہ ان میں سے ظلم کرنے والوں کو بُرا بھلا کہیں ، کیونکہ اہل شام میں ابدال (نیک لوگبھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اہل شام پر آسمان سے بارش نازل کرے گا اور ان کو غرق کر دے گا۔ اگر لومڑیوں جیسے مکار لوگ بھی ان سے لڑیں گے، تو وہ ان پر غالب آ جائیں گے۔ پھر اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے ایک شخص (مہدیکو کم از کم بارہ ہزار اور زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار لوگوں میں بھیجے گا۔ ان کی علامت ’أَمِتْ أَمِتْ‘ ہو گی۔ وہ تین جھنڈوں پر ہوں گے۔ ان سے سات جھنڈوں والے لڑائی کریں گے۔ ہر جھنڈے والا بادشاہت کا طمع کرتا ہو گا۔ وہ لڑیں گے اور شکست کھائیں گے، پھر ہاشمی (مہدیغالب آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی طرف ان کی الفت اور محبت و مودّت لوٹا دے گا۔ وہ دجال کے نکلنے تک یونہی رہیں گے۔‘‘

(المُستدرک للحاکم : 4/596، ح : 8658، وسندہٗ صحیحٌ)

Exit mobile version