خلافت کن صفات کے حامل لوگوں کے ہاتھوں قائم ہوتی ہے؟

زیرِ نظر تحریر ستمبر ۲۰۱۰ء میں مجلۂ حِطّین کے شدمرہ ۶ میں شائع ہو چکی ہے۔ اس تحریر کے آغاز میں مجلۂ حِطّین کے مدیر قاری عبد الہادی (استاد احمد فاروق) نے ایک ادارتی نوٹ بھی شامل کیا تھا، جسے یہاں تحریر میں بطورِ مقدمہ شامل کیا جا رہا ہے۔


یہ دین ، اللہ کا دین ہے۔ اسی نے ہر حاسد کے حسد اور ہر شریر کے شر سے اسے محفوظ رکھنے کا ذمہ لیا ہے۔ اسی نے اعلان کیا ہے کہ یہ دین ہر دوسرے دین پر غالب آ کر رہے گا۔ ’ولو کرہ الکافرون‘! اسی کے بھیجے ہوئے نبی (علیہ الصلوٰۃ والتسلیم) کی بشارت ہے کہ یہ دین شرق و غرب کے ہر کچے پکے گھر میں داخل ہو کر رہے گا خواہ اعدائے اسلام اس کے آگے کتنے ہی بند کیوں نہ باندھیں۔

اسی ربِ کریم نے بتایا کہ:

وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۝ (سورۃ العنکبوت۶)

’’اور جس نے جہاد کیا تو اس نے اپنے (بھلے ہیکے لیے جہاد کیا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔‘‘

پس اللہ اور اللہ کے دین کو ہماری ادنیٰ سی بھی حاجت نہیں۔ ہم سب فنا ہو جائیں، یہ بڑی بڑی جہادی تنظیمات، مجموعے اور ترتیبات ختم ہو جائیں، نمایاں ترین قائدین اور سپہ سالار شہید یا گرفتار ہو جائیں، اللہ کی ذاتِ عالی کو، اس کی شان و شوکت اور قوت و جبروت کو تنکا برابر بھی نقصان نہیں پہنچے گا۔ وہ چاہے تو ہواؤں اور فضاؤں کو حکم دے، سمندروں اور بادلوں کو، زمین اور پہاڑوں کو، سورچ، چاند، ستاروں کو اشارہ کرے، اور آن کی آن میں کفر و اہلِ کفر کی جھوٹی شان و شوکت پیوندِ خاک ہو جائے۔ اس ربِ قہار و جبار کا دین ہمارا محتاج نہیں! ہاں ہم یقیناً اس بات کے محتاج ہیں کہ اللہ ہم سے اپنے دین کا کام لے، ہمیں اپنے دین پر استقامت بخشے اور اپنی راہ میں جہاد وقتال کی توفیق دے۔ محتاج تو دراصل ہم ہیں اور وہ غنی و حمید:

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ ۚ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ؀ (سورۃ فاطر۱۵)

’’اے لوگوتم سب اللہ کے محتاج ہو، اور اللہ بے نیاز ہے، ہر تعریف کا بذاتِ خود مستحق۔‘‘

ہم جہاد کرتے ہیں تو اپنے نفع کے لیے، اپنی آخرت کے لیے، حصولِ جنت اور دیدارِ الٰہی کے لیے۔ اسی لیے ہمیں اصل فکر بھی اسی بات کی ہونی چاہیے کہ ہم اللہ کے یہاں قبول و مقبول ہو جائیں اور اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کر لیں جو اس کی رضا دلانے کا باعث ہوں۔ ہمیں ہر وقت یہ غم لاحق رہنا چاہیے کہ کہیں ہم رب کی ’’سنت استبدال‘‘ کی لپیٹ میں نہ آ جائیں اور ہماری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آیا جائے، ’’جن سے اللہ محبت کرے اور جو اللہ سے محبت کریں، مومنوں کے حق میں نرم ہوں اور کافروں پر نہایت شدید، اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف نہ کھائیں‘‘۔

ذیل میں شیخ عبد اللہ عزام شہید ﷫ کے ایک آڈیو بیان بعنوان ’الخلافۃ کیف ومتی؟‘‘ کے ایک اہم حصے کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس بیان میں آپ ﷫ نے مجاہدین کو مخاطب کرتے ہوئے یہ حقیقت یاد دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی اقامت اور خلافت کے قیام کی عالی خدمت انہی لوگوں سے لیتے ہیں جو اپنے اندر مومنانہ اوصاف اور اسلامی سیرت و کردار زندہ کریں۔ نیز آپ ﷫ یہ حقیقت بھی واضح کرتے ہیں کہ مجاہدین کی دینی تربیت پر توجہ دینا نہ صرف جہاد بلکہ پوری امت کے مستقبل کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ مجاہدین کے ذمہ داران اور امت کے علماء و مربی حضرات کو مجاہدین کی دینی اور اخلاقی تربیت پر اپنی خاص توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اللہ کی رضا اور اس کی تائید و نصرت حاصل ہو سکے اور وہ نسل وجود میں آ سکے جس میں آنے والے مراحل کا بوجھ سنبھالنے کی اہلیت موجود ہو۔

(استاد احمد فاروق ﷫)


اس سے قبل کہ مجاہدینِ اسلام اس زمین پر اللہ کے احکامات نافذ کریں، لازم ہے کہ پہلے یہ اپنی زندگیوں میں ان احکامات کو زندہ کریں۔ اس سے قبل کہ دینِ اسلام اور شریعتِ محمدی ﷺ کی بھاری امانت انہیں دنیا میں قائم کرنے کے لیے تھمائی جائے، لازم ہے کہ یہ ان اموالِ مسلمین کے معاملے میں امانت داری کا ثبوت دیں ، جب کہ یہ اپنے گھروں سے نکلے ہی ساری امت کی عزتوں کا دفاع کرنے ہیں۔ پس اگر ان مجاہدین کی تربیت اس درست نہج پر نہ ہو سکی تو اس امت کے ہاتھ بربادی کے سوا کچھ نہ آئے گا جس پر ان بنیادی ایمانی اوصاف سے محروم لوگ حکومت کریں گے!

میرے مجاہد بھائیو! اگر آپ واقعتاً یہ چاہتے ہیں کہ آپ دنیا بھر میں اللہ کے دین کو غالب کریں، تمام انسانیت تک اللہ کا دین پہنچائیں اور انسانیت اس دین میں داخل ہو، تو لازم ہے کہ سب سے پہلے آپ اپنے ارد گرد موجود مسلمان بھائیوں کو محبت و شفقت کی نگاہ سے دیکھیں، ان کے ساتھ عفو درگزر کا معاملہ کریں اور خوب سمجھ لیں کہ ان میں سے ہر ایک کی جان، مال اور عزت آپ پر حرام ہے اور یہ سب آپ کے حسنِ معاملہ اور نیکی و بھلائی کے مستحق ہیں۔ اسلحے کے حامل لوگوں کا اس بنیادی دینی تربیت سے عاری ہونا سب سے پہلے خود ان کے اپنے لیے خسارے کا باعث ہے۔ پھر ایسے لوگوں کا قوت و اقتدار پا لینا پوری امت کے لیے تباہی کی وعید ہے کیونکہ دینی تربیت سے عاری لوگوں کا قوت و اقتدار پا لینا لا محالہ ناحق خون بہنے، اموال چھننے اور عزتیں لٹنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ چنانچہ تمام تر قربانیوں کے بعد بھی نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ ایک پرانے ’’قیصر‘‘ کی جگہ ایک نیا ’’قیصر‘‘ آ جاتا ہے۔ ہاں اس نئے قیصر کی حکومت بظاہر دینی نعروں اور اسلامی دعووں میں ملفوف ہوتی ہے۔

اگر آج آپ کے ساتھ موجود آپ کا مجاہد بھائی جو اس سفر میں آپ کے ساتھ پوری طرح شریک ہے، آپ بھی جان ہتھیلی پر لے کر نکلے ہیں اور وہ بھی، آپ کو بھی تعاقب، گرفتاری، تعذیب، ہجرت اور شہادت کا سامنا ہے اور اسے بھی، آپ کا اور اس کا مقصد بھی ایک ہے اور انجام بھی ایک، اگر یہ مجاہد بھائی بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ آپ اس کی عزت نہیں اچھالیں گے، اس کی غیبت کر کے اس کا گوشت نہیں کھائیں گے، ناحق ذرائع سے اس کا مال نہیں ہتھیائیں گے، اس کی جان نہیں لیں گے، اگر اس کے ساتھ آپ کا یہ معاملہ ہے تو کل آپ ان یہود و نصاریٰ کے ساتھ کیا سلوک کریں گے جن پر آپ کو مکمل غلبہ حاصل ہو گا؟ ان عامۃ المسلمین کے ساتھ، ان دینی اعمال میں کمزور مسلمانوں کے ساتھ آپ کیسا سلوک کریں گے جب اقامتِ دینِ حق کے سفر میں شریک مجاہد بھائی بھی آپ کے شر سے محفوظ نہیں؟ اگر ایک مجاہد بھائی کے ساتھ آپ کا یہ معاملہ ہو کہ بظاہر تو آپ اس کے ساتھ نہایت خندہ پیشانی سے ملیں، اسے چوم کر گلے لگائیں، اور گرمجوشی سے بغل گیر ہوں، لیکن اسے آپ سے جدا ہوئے چند لمحے بھی نہ گزریں اور آپ اس کا گوشت کھانے لگیں، اس کی عزت اچھالنے لگیں، تو بتائیے کہ بھلا یہ کونسی شریعت ہے جسے آپ اس دنیا میں نافذ کرنا چاہتے ہیں؟ یہ کونسا دین ہے جس کی طرف آپ دوسروں کو دعوت دیتے ہیں؟

اگر آج جبکہ آپ کی تعداد بھی نسبتاً تھوڑی ہے، آپ باہم محبت، الفت، اور وحدت سے نہیں رہ سکتے، ایک مسلمان کا بنیادی حق، یعنی اس کے پیٹھ پیچھے اس کی حفاظت و نصرت کا حق، نہیں ادا کر سکتے تو کل جب آپ کی تعداد بھی بڑھ جائے گی اور پوری امت سے واسطہ درپیش ہو گا تو آپ کیا حرکتیں کریں گے؟ ہمارا دین تو ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ان کے سامنے نصیحت و خیر خواہی کا تعلق رکھیں اور ان کے پیٹھ پیچھے ان کی حمایت و نصرت کریں۔ لیکن آج ہمارے اندر وہ مذموم اوصاف پیدا ہو گئے ہیں جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیدنا حذیفہ بن یمان ﷜ نے سیدنا معاذ بن جبل ﷜ کو کہا:

’’میں نے ایک ایسا زمانہ پایا تھا جب ہم سب کے سب ظاہر میں بھی ایک دوسرے کے بھائی تھے اور باطن میں بھی ایک دوسرے کے بھائی۔ لیکن پھر ہم پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا جب ہم نے بہت سے ایسے لوگ دیکھے جو ظاہر میں تو بھائی بھائی تھے لیکن باطن میں ایک دوسرے کے سخت دشمن۔‘‘

اس کی عملی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ ایک شخص بظاہر مجالس میں تو ما شاء اللہ ایک نیک، پرہیزگار، مومن، مجاہد نظر آئے، لیکن اس کے مسلمان بھائی کو اس سے جدا ہوئے ابھی چند لمحے بھی نہ گزریں تو وہ اس پر تہمت، بہتان اور الزامات کی بوچھاڑ کر کے اس کی کمر توڑ ڈالے، یہ ہے ظاہر میں بھائی اور باطن میں دشمن!

پس یہیں سے دینی تربیت کی اہمیت واضح ہوتی ہے! بلاشبہ (مجاہدین کی) دینی تربیت خلافتِ اسلامیہ کے قیام کی طرف اٹھنے والے اہم ترین اقدامات میں سے ہے۔ اس دینی تربیت کے ذریعے وہ ’’مضبوط بنیاد‘‘ تیار ہوتی ہے جس پر کل کو پورا اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور جس پر ایک شرعی خلافت کا ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ ’’مضبوط بنیاد‘‘ سبقت لے جانے والے اور نصرتِ دین اور ادائے فریضۂ جہاد میں پہل کرنے والے مہاجرین و انصار کا وہ طبقہ ہے جو اگر درست شرعی تربیت حاصل کر لے تو ان کی تعداد تھوڑی ہونے کے باوجود ان کے اعمال نہایت عظیم الشان اور وزنی ہوتے ہیں! ہمیں آج اگلے مراحل کے لیے یہی مضبوط بنیاد تیار کرنی ہے! ہمیں ایسے اوصاف والے لوگ درکار ہیں جنہیں دشمن کے خلاف جنگ کے لیے پکارا جائے تو وہ سب بجلی کی سی سرعت کے ساتھ آ پہنچیں اور غنیمت اکٹھی کرنے کا مرحلہ آئے تو ان میں سے کم ہی کوئی موجود پایا جائے۔ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ایسے لوگ بہت ڈھونڈنے ہی سے ملتے ہیں، جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ ہے:

تجدون الناس كإبل مئة لا يجد الرجل فيها راحلة.1

’’تم انسانوں کو ان سو (۱۰۰اونٹوں کی طرح پاؤ گے جن میں سے سواری کا بوجھ اٹھانے کے قابل کوئی ایک اونٹ بھی نہیں ملتا۔‘‘

پورے سو اونٹوں میں کوئی ایک بھی سواری کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ملتا! آج بھی ہمیں کسی جمِ غفیر کی تلاش نہیں، ہمیں تو ان چنیدہ لوگوں ہی کی تلاش ہے جو لاکھوں میں ایک ہیں، لیکن اپنے کندھوں پر امت کے غموں کا بوجھ اٹھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ وہ جن کے قلوب اس دین کی فکر میں گھلتے ہیں، جو مسلمانوں کی حالتِ زار سے بے چین ہو کر اپنے بستروں میں کروٹیں بدلتے ہیں، جو یہ سوچ کر ہی تڑپ اٹھتے ہیں کہ آج دنیا کے کتنے مختلف خطوں میں مسلمان بہنوں کی عصمتیں پامال کی جا رہی ہیں، جو ان سب امور پر سوچنے اور ان غموں کا مداوا کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے میدانِ عمل کا رخ کرتے ہیں۔ مجھے یہ حدیث کبھی پوری طرح سمجھ نہیں آئی تھی کہ ’’تم انسانوں کو سو (۱۰۰) اونٹوں کی طرح پاؤ گے جن میں سواری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ایک اونٹ بھی نہیں ملتا‘‘، یہاں تک کہ میں فلسطین اور افغانستان کے جہاد میں شریک ہوا اور اس حدیث کی عملی تشریح اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔ واقعتاً سینکڑوں انسانوں میں سے محض چند رجالِ کار اور مٹھی بھر مردِ میدان ہی برآمد ہوتے ہیں۔

ایک دن حضرت عمر ﷜ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک اپنی تمنا بیان کرے۔ تو ان میں سے ایک نے یہ تمنا کی کہ انہیں اتنا سونا مل جائے جس سے پورا گھر بھر جائے اور وہ اللہ کے رستے میں خرچ کریں۔ جبکہ دوسرے صحابی ﷜ نے یہ تمنا کی کہ انہیں اتنے غلام مل جائیں جن سے پورا گھر بھر جائے اور وہ انہیں اللہ کی راہ میں آزاد کریں۔ یوں ان میں سے ہر ایک نے اپنی تمنا بیان کی۔ پھر انہوں نے حضرت عمر ﷜ سے کہا کہ اے امیر المومنین! آپ اپنی تمنا بھی بیان فرمائیں۔ عمر فاروق ﷜ نے فرمایا:

أتمنى أن يكون لي مل ء هذا البيت مثل أبي عبيدة.2

’’میری تمنا ہے کہ مجھے ابو عبیدہ ﷜ جیسے اتنے رجالِ کار مل جائیں جن سے یہ پورا گھر بھر جائے۔‘‘

اسی سے تربیت یافتہ رجالِ کار کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ بلاشبہ تربیت کے مرحلے سے گزر کر تیار ہونے والی مضبوط بنیاد ہی آئندہ مراحل میں پورے دین کی اقامت اور پوری امت کے احیاء کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ زمنِ نبوی ﷺ میں یہ مضبوط بنیاد مدینہ میں موجود سابقون الاولون انصار و مہاجر صحابہ ﷢ تھے۔ اسی مضبوط بنیاد سے اسلام آگے پھیلنا شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا جزیرۃ العرب مسلمانوں کے زیرِ نگیں آگیا۔ پھر جب عراق، فارس اور روم کی فتوحات کے مراحل آئے، جب کبھی دعوتی وفود یا جنگی لشکر بھیجے گئے تو بنیاد کا کام دینے والے اسی مبارک طبقے سے قائدین و رہنما چنے گئے۔ قاضی بھی انہی میں سے نکلے، مفتی، سپہ سالار اور قائدین بھی انہی سے! یہ تربیت یافتہ حضرات ہی اس امت کا مرکز و محور اور اسلامی معاشرے کی روح ثابت ہوئے۔ یہی لوگ امت کی قوت کو دو چند کرنے، اس کے افراد میں بجلیاں بھرنے، دین کی سرحدات کو محفوظ کرنے اور محاذوں کو آباد رکھنے کا باعث بنتے ہیں۔ یہی اپنی سرفروشی سے باقی سب کے جذبے جوان کرتے ہیں، ان میں سے کتنے ہی اپنے پاکیزہ لہو سے اسلام کی عمارت کو سیراب کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں اور جو پیچھے رہ جاتے ہیں وہ اس امت کو دین پر قائم رکھنے اور جہاد و قتال پر استقامت بخشنے کا باعث بنتے ہیں۔ پھر یہی وہ خوش بخت ہیں جن کو اللہ رب العزت زمین میں غلبہ و تمکین بخشتے ہیں اور انہیں اپنے دین کے نفاذ کی بھاری امانت تھماتے ہیں، کیونکہ یہ ثابت کر چکے ہوتے ہیں کہ یہ اپنی ذاتی و اجتماعی زندگیوں میں احکاماتِ الٰہی کے پابند اور شریعت کے امین ہیں، لہذا اللہ رب العزت زمین پر اپنے دین کے نفاذ کی مبارک امانت بھی انہی کے کندھوں پر ڈالتے ہیں، انہی کو اس عظیم خدمت کے لیے چنتے ہیں!

٭٭٭٭٭

1 مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ عنہم، باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: تجدون الناس کإبل مئۃ……

2 بغية الطالب في تاريخ الحلب، لإبن العديم

Exit mobile version