اب وقت ہے ایسے نعروں کا جو سوتوں کو بیدار کریں!

ہندوستان و کشمیر کی موجودہ صورتِ حال میں چند گزارشات

 ہندوستان، مسلمانانِ عالم کے درخشاں ماضی کا امین ہے اور کشمیر زمین کا وہ جنت نظیر ٹکڑا ہے جس کے جنت نظیر ہونے کو در اصل اہالیانِ اسلام نے شرف و اعزاز بخشا ہے۔ لیکن تاریخِ عالَم شاہد ہے کہ مستقبل کا تعلق ماضی کی درخشانی اور کسی زمین کے ٹکڑے کے جنت نظیر ہونے سے جڑا ہوا نہیں ہے، کہ قرطبہ و غرناطہ بھی کچھ کم درخشاں ابوابِ تاریخ اور کچھ کم فردوس بر روئے زمیں نہ تھے! آنے والا ’کل‘، شاعرانہ خیالات اور ماضی کی یادوں سے نہیں اہلِ عزم و ہمت کے ’آج‘ کے عمل سے وابستہ ہے۔ہندوستان، مسلمانانِ عالم کے درخشاں ماضی کا امین ہے اور کشمیر زمین کا وہ جنت نظیر ٹکڑا ہے جس کے جنت نظیر ہونے کو در اصل اہالیانِ اسلام نے شرف و اعزاز بخشا ہے۔ لیکن تاریخِ عالَم شاہد ہے کہ مستقبل کا تعلق ماضی کی درخشانی اور کسی زمین کے ٹکڑے کے جنت نظیر ہونے سے جڑا ہوا نہیں ہے، کہ قرطبہ و غرناطہ بھی کچھ کم درخشاں ابوابِ تاریخ اور کچھ کم فردوس بر روئے زمیں نہ تھے! آنے والا ’کل‘، شاعرانہ خیالات اور ماضی کی یادوں سے نہیں اہلِ عزم و ہمت کے ’آج‘ کے عمل سے وابستہ ہے۔

مہاراشٹرتا سری نگر آج ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کے آثار پچھلے کئی سالوں سے واضح تھے۔ باحجاب عفیفات کے گھروں میں آر ایس ایس کے غنڈوں کے گھسنے، دوپٹہ چھیننے اور نقاب نوچنے کے واقعات، گھٹیا زبان کے استعمال، ریپ و زیادتی کی دھمکیوں اور فٹ پاتھوں پر باحجاب مسلمان خواتین اور باریش مسلمان جوانوں اور بزرگوں کو گاڑیوں سے کچلنے کے واقعات۔ کشمیر میں دین سے وابستگی کے ’جرم ‘کے سبب درجنوں گھروں کو بلڈوزروں سے پیوندِ زمین کرنا، محض چند دن میں چار ہزار کے قریب مسلم نوجوانوں کا داڑھی رکھنے، نماز پڑھنے اور دینی حلقاتِ درس میں بیٹھنے کے ’جرم‘ میں اٹھایا جانا، تلاشی کے نام پر، اکیلی رہتی مسلمان بہنوں (کہ ان کے باپ، بھائی و شوہر پہلے ہی غاصب حکومتِ ہند کی قید میں ہیں)کے گھروں میں گھس کر چادر و چار دیواری کی پامالی اور پاکستان سے ہجرت کر کے کشمیر میں اپنے شوہروں کے ساتھ بستی مسلمان خواتین سے ان کے سہاگ اور بچے چھین کر، انہیں پاکستانی قرار دے کر ، کشمیر سے دیس نکالا دے کر، پاکستان ڈی پورٹ کرنا۔ یہ سب واقعات پچھلے دس دن سے بھی کم میں رُو نما ہوئے ہیں(بوقتِ تحریر)۔ فحسبنا اللہ ونعم الوکیل!

دشمن تو دشمن ہے، ہمارے اپنے بھی ان واقعات کا محرک پہلگام واقعے کو قرار دیتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا احمد آباد گجرات میں جو کچھ ہوا، جو قصاب مودی نے کیا کروایا اور جو بابو بجرنگی نے کیا وہ سب بھی پہلگام کے اثر میں کیا؟

ان حالات میں، ہم ہندوستان میں بستے مسلمانوں اور کشمیر کے اہالیانِ اسلام کی خدمت میں کچھ گزارشات رکھنا چاہتے ہیں۔

ہندوستان میں بستے مسلمان بھائیو اور بہنو!

یہ مخاطب آواز کوئی بے گانی آواز نہیں۔ یہ آپ ہی کے ہم مذہب، ہم قوم، ہم رنگ، ہم زبان بھائیوں اور بیٹوں کی آواز ہے، جالندھر، جے پور اور پرانی دلی کے بسنے والے وارثوں کی آواز۔ عالم گیرؒ اور سلطان ٹیپوؒ کے بیٹوں کی آواز، سید احمد شہیدؒاور شاہ اسماعیل شہیدؒ، حضرت نانوتویؒ اور شیخ الہندؒ کے ساتھیوں کی آواز۔ہم آپ کو کسی ایسے خطرے سے آگاہ نہیں کر رہے جسے آپ خود ہم سے بہتر نہ جانتے ہوں۔ ایک طریقہ وہی ہے جو دہائیوں سے جاری ہے، خاموش تماشائی بن کر بھگوا دہشت گردوں کے سامنے اپنی ہی گردن اور اپنی عزتیں پیش کرتے رہنے کا طریقہ۔ کل تک ہمیں ہندوستان میں ایک فکری ارتداد کی لہرکا سامنا تھا تو اس کے بعد گھر واپسی، گھس بیٹھیے اور آج ہجومی قتل، عزتوں کے لٹنے کے واقعات عام ہو رہے ہیں۔ پرانی روش ہلاکت کی طرف لے جاتا راستہ ہے اور مطلوب ہوش و خرد سے شریعتِ مطہرہ کے بتائے طریقے کے مطابق آئندہ کی حکمتِ عملی طے کرنا اور عملی اقدامات اٹھانا ہے، وگرنہ ہندوستان کی سبھی مسجدوں کو بھگوا دہشت گرد رام مندر بنانے پر تلے ہوئے ہیں، سبھی بناتِ عائشہ آشا اور رحیم رام بن جائیں گے، فالعیاذ باللہ!

مہاراشٹرتا سری نگر آج ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کے آثار پچھلے کئی سالوں سے واضح تھے۔ باحجاب عفیفات کے گھروں میں آر ایس ایس کے غنڈوں کے گھسنے، دوپٹہ چھیننے اور نقاب نوچنے کے واقعات، گھٹیا زبان کے استعمال، ریپ و زیادتی کی دھمکیوں اور فٹ پاتھوں پر باحجاب مسلمان خواتین اور باریش مسلمان جوانوں اور بزرگوں کو گاڑیوں سے کچلنے کے واقعات۔ کشمیر میں دین سے وابستگی کے ’جرم ‘کے سبب درجنوں گھروں کو بلڈوزروں سے پیوندِ زمین کرنا، محض چند دن میں چار ہزار کے قریب مسلم نوجوانوں کا داڑھی رکھنے، نماز پڑھنے اور دینی حلقاتِ درس میں بیٹھنے کے ’جرم‘ میں اٹھایا جانا، تلاشی کے نام پر، اکیلی رہتی مسلمان بہنوں (کہ ان کے باپ، بھائی و شوہر پہلے ہی غاصب حکومتِ ہند کی قید میں ہیں)کے گھروں میں گھس کر چادر و چار دیواری کی پامالی اور پاکستان سے ہجرت کر کے کشمیر میں اپنے شوہروں کے ساتھ بستی مسلمان خواتین سے ان کے سہاگ اور بچے چھین کر، انہیں پاکستانی قرار دے کر ، کشمیر سے دیس نکالا دے کر، پاکستان ڈی پورٹ کرنا۔ یہ سب واقعات پچھلے دس دن سے بھی کم میں رُو نما ہوئے ہیں(بوقتِ تحریر)۔ فحسبنا اللہ ونعم الوکیل!

دشمن تو دشمن ہے، ہمارے اپنے بھی ان واقعات کا محرک پہلگام واقعے کو قرار دیتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا احمد آباد گجرات میں جو کچھ ہوا، جو قصاب مودی نے کیا کروایا اور جو بابو بجرنگی نے کیا وہ سب بھی پہلگام کے اثر میں کیا؟

ان حالات میں، ہم ہندوستان میں بستے مسلمانوں اور کشمیر کے اہالیانِ اسلام کی خدمت میں کچھ گزارشات رکھنا چاہتے ہیں۔

ہندوستان میں بستے مسلمان بھائیو اور بہنو!

یہ مخاطب آواز کوئی بے گانی آواز نہیں۔ یہ آپ ہی کے ہم مذہب، ہم قوم، ہم رنگ، ہم زبان بھائیوں اور بیٹوں کی آواز ہے، جالندھر، جے پور اور پرانی دلی کے بسنے والے وارثوں کی آواز۔ عالم گیر ﷫ اور سلطان ٹیپو ﷫ کے بیٹوں کی آواز، سید احمد شہید﷫ اور شاہ اسماعیل شہید﷫، حضرت نانوتوی﷫ اور شیخ الہند﷫ کے ساتھیوں کی آواز۔ہم آپ کو کسی ایسے خطرے سے آگاہ نہیں کر رہے جسے آپ خود ہم سے بہتر نہ جانتے ہوں۔ ایک طریقہ وہی ہے جو دہائیوں سے جاری ہے، خاموش تماشائی بن کر بھگوا دہشت گردوں کے سامنے اپنی ہی گردن اور اپنی عزتیں پیش کرتے رہنے کا طریقہ۔ کل تک ہمیں ہندوستان میں ایک فکری ارتداد کی لہرکا سامنا تھا تو اس کے بعد گھر واپسی، گھس بیٹھیے اور آج ہجومی قتل، عزتوں کے لٹنے کے واقعات عام ہو رہے ہیں۔ پرانی روش ہلاکت کی طرف لے جاتا راستہ ہے اور مطلوب ہوش و خرد سے شریعتِ مطہرہ کے بتائے طریقے کے مطابق آئندہ کی حکمتِ عملی طے کرنا اور عملی اقدامات اٹھانا ہے، وگرنہ ہندوستان کی سبھی مسجدوں کو بھگوا دہشت گرد رام مندر بنانے پر تلے ہوئے ہیں، سبھی بناتِ عائشہ آشا اور رحیم رام بن جائیں گے، فالعیاذ باللہ!

جہاد و شہادت کی سرزمین، کشمیر کے بھائیو اور بہنو!

آپ کی قدیم نہیں جدید تاریخ، پچھلے آٹھ عشروں کی تاریخ غیرتِ ایمانی، جہاد اور اللہ کی خاطر شہادتوں کی داستان ہے۔ آپ سے بہتر کون واقف ہے کہ غلبۂ اسلام اور حقیقی آزادی کا راستہ کیا ہے؟ یہ راستہ وہی راستہ ہے جس پر آپ ہمیشہ قائم رہے ہیں۔ ایسے میں راستے کی مشکلات، شہادتیں اور گرفتاریاں جب حائل ہوں تو ایسے ہی حالات کے متعلق اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے فرمایا:

وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ؁وَلِيُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَمْحَقَ الْكٰفِرِيْنَ؁ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ ؁ (سورة آلِ عمران: ۱۳۹-۱۴۲)

’’(مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غم گین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔ اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے۔یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور مقصد یہ تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جانچ لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید قرار دے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور مقصد یہ ( بھی) تھا کہ اللہ ایمان والوں کو میل کچیل سے نکھار کر رکھ دے اور کافروں کو ملیامیٹ کر ڈالے۔ بھلا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ( یونہی) جنت کے اندر جاپہنچو گے ؟ حالانکہ ابھی تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانچ کر نہیں دیکھا جو جہاد کریں، اور نہ ان کو جانچ کر دیکھا ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ ‘‘

آج بھارت میں ہندوؤں کا بچہ بچہ، چھوٹی لڑکیاں اور نوجوان عورتیں تک اسلحے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں، تلواریں لہرا رہی ہیں اور رام و کرشن کے باغیوں کو کاٹ دینے کی قسمیں کھا رہی ہیں، حتیٰ  ا بین الاقوامی ادارے کی بنائی گئی دستاویزی فلم کے مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ہندو لڑکی دیسی ساختہ بارود سے بم بنانے اور مسلمانوں کو اڑانے کی باتیں کر رہی ہے۔ اسی دستاویزی فلم میں سکول کی بچیوں کے ایسے مناظر ہیں جن میں چھوٹی بچیوں کو بندوق کے حصوں؍ پرزوں کی پہچان کروائی جا رہی ہے کہ یہ بندوق کی نالی (barrel) ہے، یہ لبلبی (trigger) ہے، یہ کُندہ ہے۔ اس رائفل کے کُندے کو یوں کندھے سے ٹکانا ہے، یوں نشانہ باندھنا ہے اور چہرے پر سنجیدگی کے ساتھ گولی چلانی ہے جس سے مخالف قتل ہو جائے گا۔ سکول کی بچیوں کو رائفل کی تربیت دینے والی استانی پوچھتی ہے کہ کیا ساری زندگی سبزیاں ہی کاٹتی رہو گی؟ یہ بچیاں اس کے بعد اپنی مسلح قوت کا مظاہرہ بھارت کی شاہراہوں پر کرتی ہیں جس میں نعرے لگاتی ہیں کہ’کشمیر ہمیں پکار رہا ہے! بھارت ماتا ہمیں پکار رہی ہے، اپنی پیشانی پر خون کا سِندور لگاؤ اور دشمن کا استقبال گولیوں سے کرو اور اگر اس دیش میں رہنا ہو گا، وندے ماترم پڑھنا ہو گا!‘۔

جارحیت اور جنگ کی اس قدر تیاری کو چند سیاسی و سفارتی حکمتِ عملیوں سے پچھاڑنا دیوانے کا خواب ہے۔ ہمیں اپنے بیٹوں کو ۱۸۵۷ء سے پہلے کے شاہی خاندان کی ’شہزادیاں‘نہیں بنانا کہ جنہوں نے انگریز کے حملے کے بعد جب قدم زمین پر رکھے اور بھاگیں تو ان کے ملائم پیر پھٹ گئے اور خون بہنے لگا۔ آج بھارت میں بھگوا دہشت گرد مسلمانوں کی بیٹیوں کا رقص دیکھنے اور ان کی عزتیں پامال کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جانیں کہ کشمیر نے کس کو پکارا ہے؟ ماتھے پر سرخ پٹی باندھ کر ایمان اور عزتوں کے دشمن کو خون میں نہلانا کس کی سنت ہے؟ لا الٰہ الا اللّٰہ کے کلمے کو پوری دنیا میں غالب کر کے بطورِ شعار پڑھنا پڑھانا کس دین کی تعلیم ہے؟

آج ہم اہلِ ایمان کو ہندوستان و کشمیر میں ایک چومکھی لڑائی لڑنا ہے۔ ایک طرف ہندتواوادی (ہندو دہشت گرد)ہیں جن سے مسلح دفاع و ٹکراؤ درکار ہے تو دوسری طرف وطنیت اور سیکولرازم کا بت ہے جسے فکری محاذ پر شکست سے دوچار کرنا ہے۔ ہمیں جہادِ ہند اور غزوۂ ہند کے اہم دروازے ، ’کشمیر‘ کی تحریکِ جہاد میں پورا عسکری زور ہندو بنیے پر رکھنا ہے تو ساتھ ہی رہبروں کے روپ میں رہزنوں کی چالوں سے بھی با خبر رہنا ہے، وہ ’محسن‘ جو بنیان مرصوص کا اعلان کرتے ہیں اور پھر ٹرمپ کی دخل اندازی پر ’غزوۂ ہند‘ کو مؤخر کر دیتے ہیں!

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ایمان و جہاد کی بادِ بہاری کو بر صغیر سمیت دنیا بھر میں چلائے، ہمیں غزوۂ ہند لڑنے والا، امام مہدی علیہ الرضوان اور حضرتِ مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے لشکر کا حصہ بنائے۔ ہمیں اخلاصِ نیت و عمل سے نوازے، ہمارے جہاد کو غلبۂ دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے خالص فرمائے اور سب سے بڑھ کر ہمیں اپنی رضا سے نوازے، آمین!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version