کس کے منتظر ہیں سب، معجزہ کہ زلزلہ؟

اِس مارچ میں سقوطِ خلافت کو پورے سو سال ہو گئے۔ ان سو سالوں سے قبل، خلافت کی کرسی پر طرح طرح کے روز و شب آتے رہے، لیکن خلافت کی کرسی بہر حال و کیفیت قائم رہی۔ خلافت مسلمانوں کے لیے کس قدر اہم ہے ،اس کے لیے حضور سرورِ کونین (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کی رحلت کا واقعہ اور حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے ہاتھ پر خیر الخلائق بعد الأنبیاء حضراتِ صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم کی بیعت کا واقعہ کافی ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ تنصیبِ امام یا تنصیبِ خلیفہ مسلمانوں کے یہاں اس قدر اہم مسئلہ تھا کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم رحلت فرما چکے ہیں، غم و اندوہ (جو نہایت چھوٹے الفاظ ہیں) سے صحاؓبہ کا برا حال تھا، لیکن حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو آپ کی لحدِ مبارک میں بھی اتارنے سے قبل صحاؓبہ نے بیعتِ خلافت منعقد کی اور حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ’خلیفۃ الرسول‘ بن کر منبرِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر تشریف فرما ہوئے، وہ منبر جہاں سے دینُ اللّٰہ کے ہر شعبے کی امامت کی جاتی تھی۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہاں ہمیں حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللّٰہ عنہم کا فہمِ دین بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے رحلتِ خیر الخلائقؐ کے بعد، محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو روضۂ جنت لحد ِ مبارکہ میں بھی اتارنے سے قبل سب سے پہلے کیا کام کیا: بیعتِ خلافت و تنصیبِ امام!

خلافت محض ایک ’سیاسی نظام‘ نہیں، نہ ہی جدید ’institutesکی دنیا میں یہ محض ایک ’ادارہ‘ ہے، نہ ہی یہ مسلمانوں کا محض ’romanceیا ’عشق‘ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ دراصل یہ سات آسمانوں کے اوپر سے نازل کیے گئے دینِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا عائد کردہ ایک فریضہ ہے۔ اللّٰہ کا دین محض سیاسی نظام و ادارہ نہیں کہ چند قوانین و آئین وغیرہ کا نفاذ ہو جائے تو اس کو خلافت کہا جانے لگے، البتہ بے شک نفاذِ شریعت و اقامتِ حدود اس خلافت و امامت کا ایک اہم جزو ہیں۔ خلافت زمین پر اس امر کا اظہار ہے کہ اللّٰہ کی عبادت ہی حیات و ممات کا مقصد ہے، یہ قوت و شوکت کا اظہار ہے، جلال و جمال ہے۔ خلافت ہی وہ چھتری ہے جس کے تحت اللّٰہ کی عبادت احسن و کامل انداز میں کی جا سکتی ہے۔ خلافت کے بنا کئی عبادات ایسی ہیں جن کی ادائیگی ممکن ہی نہیں!

خلافت کو ختم کرنے کی خاطر کفار خاص کر یہودِ نا مسعود نے کتنی کوششیں کیں، آج اس امر کی سب سے بڑی اور واضح مثال ’اسرائیل‘ ہے۔ خلافت جب سلطنتِ عثمانیہ کی صورت میں قائم تھی، اور انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں اپنے آخری زمانے میں داخل ہو چکی تھی تو اسی زمانے میں جدید صہیونی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کا مقصدِ محض قبلۂ اول، سرزمینِ اسراء و معراج، انبیاء و رسل علیہم السلام کے دار الہجرت و وطن فلسطین اور خصوصاً شہرِ القدس کو یہودیوں کا مسکن و وطن بنانا، ایک ایسی یہودی اسرائیلی ریاست کا قیام جس کی انتہا عظیم تر اسرائیل اور بعداً پوری دنیا پر یہود کی عالمی حکومت کا قیام تھا۔ اس تحریک کے بانی ’تھیوڈر ہرزل‘ نے کئی طریقوں اور سازشوں سے ارضِ قدس پر قبضہ کرنے کی کوششیں کیں۔ ان سبھی کوششوں کی راہ میں واحد رکاوٹ ’خلافت‘ تھی۔ آخری خلیفہ1 سلطان عبد الحمید ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے کئی اقوال موجود ہیں جو انہوں نے صہیونی ’ہرزل‘ کو یا تو بالمشافہ ملاقات میں کہے یا اپنے خطوط میں لکھے یا اس کے ایلچیوں کو کہے۔ سلطان عبد الحمید ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے یہ اقوال اس امر پر شاہد ہیں کہ کس طرح ’خلیفۃ المسلمین‘ اور ’خلافت‘ اسلام، مسلمانوں، ارضِ قدس اور تمام مسلم خِطّوں کا دفاع کرتی رہی۔

جب ہرزل کا نمائندہ، سلطان رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سامنے فقط صہیونیوں کے سرزمینِ القدس میں رہائش پذیر ہونے کا چارٹر، اس پیشکش کے ساتھ لے کر گیا، کہ اس رہائش پذیر ہونے کی اجازت کے بدلے، ہرزل سلطنتِ عثمانیہ کے قرض کا ایک ضخیم حصہ پندرہ کروڑ پاؤنڈ بصورتِ طلائی سکے ادا کرے گا (جبکہ سلطنتِ عثمانیہ کی مالی حالت بھی اس وقت بہت خراب تھی) تو سلطان نے ہرزل کے نمائندے ’نیولنسکی‘ کو یہ پیشکش یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ:

’’(میں) ہر گز بھی القدس کو (یہود کے) حوالےنہ کروں گا اور حضرتِ عمر رضی اللّٰہ عنہ کی مسجد کو ہمیشہ مسلمانوں کے قبضے میں رہنا چاہیے!‘‘2

اور کہا:

’’میں زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی نہیں بیچوں گا، کیونکہ یہ ملک میری ذاتی ملکیت نہیں۔ یہ ملک میری ملت کے لوگوں کی ملکیت ہے۔ میری ملت نے اس سرزمین کو اپنے خون سے سیراب کیا ہے…… میرے سوریہ اور فلسطین کے سبھی سپاہی پلیونا کے محاذ پر شہید ہو گئے ہیں، وہ سبھی، بغیر کسی استثنا کے میدانِ جنگ میں ڈٹے رہے اور پسپائی اختیار نہ کی۔ میں سلطنتِ عثمانیہ کے کسی چھوٹے سے حصے کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔ یہودی اپنے کروڑوں پاؤنڈ اپنے پاس رکھیں…… میں ایک زندہ جسم پر جراحی کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘ 3

سلطانؒ نے کہا:

’’جب تک میں زندہ ہوں ، ہمارا جسم تقسیم نہیں ہونے دوں گا، (جب میں نہ رہوں تو) تبھی ہماری لاش کے ٹکڑے کیے جا سکتے ہیں۔‘‘4

سلطان رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مزید کہا:

’’صہیونیوں کا لیڈر ’ہرزل‘ مجھے اپنے خیالات سے قائل نہیں کر سکتا۔ (میں جانتا ہوں کہ) صہیونی فلسطین میں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اپنے سیاسی نمائندے منتخب کرنا چاہتے ہیں، اور وہ وہاں زراعت کا فروغ نہیں چاہتے(یہ محض ایک بہانہ ہے)۔ میں ان کے ہوسناک ارادوں سے واقف ہوں اور وہ بہت ہی سادہ ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میں ان کی بات مان لوں گا۔ میں فلسطین میں ان کی ہر سازش کا مکمل مخالف ہوں۔‘‘5

سلطان رحمۃ اللّٰہ علیہ کے واشنگٹن میں تعینات سفیر ’علی فرخ بے‘ نے ۲۴ اپریل ۱۸۹۹ء کو ایک امریکی اخبار میں سلطان عبد الحمید ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا:

’’ہماری حکومت کا کوئی ارادہ نہیں کہ اپنے عرب علاقوں میں سے کوئی بھی علاقہ فروخت کریں۔ ہم اپنے اس عزم سے کبھی پیچھے ہٹنے والے نہیں، چاہے وہ ہماری جیبیں کروڑوں طلائی سکوں سے ہی کیوں نہ بھر دیں۔‘‘6

مختلف کوششوں اور سازشوں کی ناکامی کے بعد یہود اس نتیجۂ قطعی پر پہنچے کہ جب تک ’خلافت‘ موجود ہے ارضِ قدس پر یہودی ریاست کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ پھر اس مکروہ مقصد کے لیے انہوں نے سلطان عبد الحمید ثانی جو کہ خلافت کے علمبردار و علامت تھے پر کئی قاتلانہ حملے کروائے، ان حملوں کی بھی ناکامی کے بعد یہود اور دنیا بھر کے صہیونیوں نے مل کر ایک ایسی سازش بُنی جس کے نتیجے میں سلطان عبد الحمید ثانی ؒ کو تختِ خلافت سے الگ ہونا پڑا اور یوں کچھ ہی سال بعد خلافت کا مکمل سقوط ہو گیا۔ سلطان عبد الحمید ثانی نے تختِ خلافت سے علیحدگی کے بعد اپنے شیخ، ابو شامۃ محمودکو ۲۲ ستمبر ۱۹۱۳ء کو لکھے ایک خط میں لکھا:

’’میں ’نوجوان ترکوں‘ کے ظلم و جبر اور دھمکیوں کے سبب تختِ خلافت سے الگ ہو گیا ہوں۔ اس گروہ کا مطالبہ تھا کہ میں فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی اجازت دوں۔ میں نے اس منصوبے کو ٹھکرا دیا۔ پھر انہوں نے مجھے پندرہ کروڑ برطانوی طلائی سکوں کی پیشکش کی۔ میں نے اس کو بھی ٹھکرا دیا اور ان سے کہا ’ پندرہ کروڑ برطانوی طلائی سکے کیا؟ اگر تم مجھے پوری دنیا کا سونا بھی لاکر دے دو، تب بھی میں تمہاری بات نہ مانوں گا۔ میں نے امتِ مسلمہ کی تیس سال خدمت کی ہے۔ میں نے اپنے آباؤ اجداد کا نام مٹی میں ملنے نہیں دیا‘۔ میرے آخری ردِّ عمل کے بعد انہوں نے میری معزولی کا فیصلہ کر لیا اور مجھے سالونیکا میں ملک بدر کر دیا۔ میں اللّٰہ کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ارضِ فلسطین، ارضِ سلطنتِ عثمانیہ اور امتِ مسلمہ کی سرزمین پر ایک نئی یہودی ریاست کے قیام کو منظور نہیں کیا ۔‘‘7

ہم بچشمِ سر دیکھتے ہیں کہ خلافت کے سقوط کے بعد، یہود کی دیرینہ آرزو یعنی امتِ مسلمہ کی سرزمین پر، سرزمینِ فلسطین پر ایک یہودی ریاست قائم کر دی گئی۔ پھر یہ یہودی ریاست پچھلے ستر سالوں سے زائد فلسطین واہلِ فلسطین کے ساتھ کیا روا رکھے ہوئے ہے، یہ سب بھی ہم بچشمِ سر دیکھ رہے ہیں۔آج امتِ مسلمہ جس سانحے سے غزہ میں گزر رہی ہے، کشمیر و برما جس سانحے کی چند اور تصویریں ہیں، اس ظلم و عدوان کو روکنے کا طریقہ پھر سے وہی خلافت کا دوبارہ قیام ہے، جس کا ایک والی محمد بن قاسم کو سندھ کی ایک بیٹی کی نصرت کی خاطر روانہ کرتا ہے، جس خلافت کا ایک خلیفہ معتصم باللّٰہ ایک مسلمان بہن کی پکار پر عموریہ کو سلطنتِ اسلام میں داخل کر دیتا ہے۔ بے شک اس ظلم و عدوان کو روکنے کا طریقہ خلافت ہے، وہ خلافت جہاں کوئی ظلم نہیں ہوتا، جہاں اللّٰہ کی بندگی آسان اور شیطان کی بندگی مشکل ہوتی ہے، کلمۃ اللّٰہ بلند ہوتا ہے اور سفرِ آخرت کا شعور ہر جگہ عام ہوتا ہے۔ صد سال قبل جب خلافت کا سقوط ہوا تو ایک ہندوستانی شاعر نے امتِ مسلمہ کی ماؤں کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک شہرۂ آفاق نظم کہی تھی۔ آج بھی امت میں ایسی ماؤں اور انہی ماؤں کے دلارے جیالے بیٹوں کی ضرورت ہے جو خلافت کے قیام کی خاطر جان دے دیں:

بولیں اماں محمد علیؔ کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ساتھ تیرے ہیں شوکتؔ علی بھی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
گر ذرا سست دیکھوں گی تم کو
دودھ ہرگز نہ بخشوں گی تم کو
میں دلاور نہ سمجھوں گی تم کو
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
غیب سے میری امداد ہوگی
اب حکومت یہ برباد ہوگی
حشر تک اب نہ آباد ہوگی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
کھانسی آئے اگر تم کو جانی
مانگنا مت حکومت سے پانی
بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا
کلمہ پڑھ پڑھ خلافت پہ مرنا
پورے اس امتحاں میں اترنا
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ہوتے میرے اگر سات بیٹے
کرتی سب کو خلافت پہ صدقے
ہیں یہی دین احمدؐ کے رستے
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
حشر میں حشر برپا کروں گی
پیش حق تم کو لے کے چلوں گی
اس حکومت پہ دعویٰ کروں گی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو

 

ہمارا ارادہ ماہِ ’مارچ‘ کی نسبت سے پہلے خلیفہ ، خلیفۃ الرسول حضرتِ صدیقِ اکبر رضی اللّٰہ عنہ کی بیٹی عافیہ صدیقی پر کچھ لکھنے کا تھا، لیکن غزہ سے ایک بہن بیٹی کے شوہر کا یہ روح فرسا پیغام ہمارے رونگٹے کھڑے کر گیا:

’’انہوں(اسرائیلی فوجیوں) نے اسے اپنے کپڑے اتارنے کا حکم دیا اور اسے مارنے لگے۔ اس نے فوجیوں سے کہا کہ ’میں پانچ ماہ کی حاملہ ہوں، مجھے مت مارو‘۔ وہ اسے مارتے رہے اور کئی گھنٹے بعد انہوں نے باقی سب عورتوں کو وہاں سے نکال دیا، سوائے اس حاملہ عورت اور اس کے بچوں کے۔ پھر وہ اس عورت کو اس کے شوہر، اس کے رشتہ داروں اور اس کے بچوں کے سامنے لے آئے اور اس کی عصمت دری کی اور مردوں کو حکم دیا کہ کوئی آنکھیں بند نہ کرے ورنہ وہ انہیں گولی مار دیں گے!‘‘

کس کے منتظر ہیں سب، معجزہ کہ زلزلہ
تا وہ دخترانِ دین بازیاب ہو رہیں

اے کاش کے راقم و قاری کی آنکھیں یہ واقعہ سن پڑھ کر آنسو بہانے لگیں اور پھر ہمیں کوئی آکر کہے ’خون جہاں بہنا ہو وہاں اشکوں کا کیسا بہنا؟‘۔ آج دو ارب امت نے غزہ کی بہن بیٹیوں کو یہودی درندوں کے سامنے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ کاش ہم میں کچھ غیرت ہو، کاش!قرآن کی آیتوں، احادیث و آثار، فقہی عبارتوں اور فتاویٰ کے پوچھنے کا وقت گزر گیا، ایسے وقت میں دلیلیں حمیت والے نہیں بے غیرت منافقین مانگا کرتے ہیں۔

ایک طرف غزہ میں ہر موجود ذریعے (بارود سے جبری قحط تک) سے اہلِ ایمان کا قتلِ عام ہو رہا ہے، عزتیں تار تار ہو رہی ہیں تو دوسری طرف صہیونی یہودیوں نے پانچ عدد سرخ گائیں خرید رکھی ہیں جو سر تا پا سرخ رنگ کی ہیں اور سنہ ۲۰۲۲ء سے مغربی کنارے میں جوارِ بیت المقدس میں ایک یہودی چراگاہ میں چر کر فربہ ہو رہی ہیں۔ یہودیوں کے سامرائی 8،شیطانی، صہیونی، دجالی، مشرکانہ تحریف شدہ عقائد کے مطابق وہ ان سرخ گائیوں کو ذبح کر کے تین یا ان تین میں سے ایک کام کا آغاز کرنا چاہتے ہیں، وہ تین کام ہرمجدون کی جنگ، مسجدِ اقصیٰ پر یہود کا قبضہ اور ہیکل کی تعمیر ہے (لا قدر اللّٰہ)۔ لیکن یہود اور صہیون کے غلاموں کو’خوش خبری‘ ہو کہ خدانخواستہ اگر ایسا کوئی واقعہ رونما بھی ہوا تو اس کا انجام یہود کا اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نابود ہوجانا ہو گا کہ آخر الزمان کی جنگوں الملحمۃ الکبریٰ یا الملحمۃ العظمیٰ جسے دیگر ہرمجدون(Armageddon) کہتے ہیں میں فتح و ظفر اہلِ ایمان کا مقدر ہے اور اس فتح و ظفر کی بشارت صادق و مصدوق نبی الملاحم محمد رسول اللّٰہ ( علیہ ألف صلاۃ وسلام) کی زبانِ مبارک سے دی گئی ہے، وہی محمد رسول اللّٰہؐ جن کا انکار اور جن سے حسد کرنے کے سبب یہودی کافر اور مغضوب ہیں۔ ان ملاحم یعنی گھمسان کی جنگوں میں جہاں فتح و ظفر کی یہ نوید ہے وہیں ہم کلمہ گوؤں کے لیے وعید کا سامان بھی ہے، اس لیے کہ جنگوں میں شرکت و لڑائی اور قربانی و جواں مردی وہی دکھا سکتا ہے ،جو جنگوں کی تیاری کرنے والا ہو، سوال آج راقم و قاری کے سامنے یہ ہے کہ ہم نے ان جنگوں کی کس قدر تیاری کی ہے؟ بطورِ امتِ مسلمہ اقصیٰ و القدس کے دفاع کے لیے کیا سامان ہم نے جمع کیا ہے اور کیا اسباب ہم نے اختیار کیے ہیں؟ اہلِ غزہ تو بے شک یہ جنگ دہائیوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن القدس و اقصیٰ صرف غزہ و فلسطین کے لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ الشیخ المجاہد محمد صلاح الدین زیدان [(سیف العدل) حفظہ اللّٰہ ونصرہ اللّٰہ ] اپنی ایک حالیہ نشر شدہ تحریر ’ھذہ غزّۃ‘ میں فرماتے ہیں:

’’آج ہم جس صورتِ حال کا غزہ میں مشاہدہ کر رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں، ہمیشہ استعمار کا کمزورں کے خلاف یہی وطیرہ رہا ہے۔ اہلِ غزہ سنہ اڑتالیس سے قبل بھی یہی جہاد کرتے رہے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ استعمار کی پوری تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ مظاہروں، مذمتی قراردادوں اور جلسے جلوسوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کا واحد راستہ اور منصفانہ حل جہاد فی سبیل اللّٰہ کے علاوہ اور کچھ نہیں!‘‘

اسی صورتِ حال میں جب مجاہدینِ غزہ و غزہ کے مجاہد عوام (بشمول عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے) اس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں، تو مجاہدینِ فلسطین کے ایک مجاہد قائد اور صہیونیوں کو ارضِ قدس میں مطلوب ترین شخص، شیخ محمد الضیف ابو خالد (حفظہ اللّٰہ)، پوری امت کو نفیرِ عام دے رہے ہیں:

’’ اے اردن و لبنان، مصر و الجزائر، مراکش اور پاکستان، انڈونیشیا و ملائیشیا اور کل عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں بسنے والے ہمارے لوگو!

آج ہی نکلو اور فلسطین کی طرف چلنا شروع کردو ۔ کل نہیں! آج اور ابھی!آج ہی روانہ ہو جاؤ! ان سرحدوں، حکومتوں اور پابندیوں میں سے کوئی بھی تمہیں جہاد میں شرکت اور مسجدِ اقصی کی بازیابی کا شرف حاصل کرنے سے محروم نہ کر سکے!

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝

’’(جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہو، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال و جان سے اللّٰہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘

آج ہی وہ دن ہے (کہ جب جہاد کے لیے نکل کھڑا ہوا جائے)۔ پس جس کسی کے پاس بندوق ہو تو وہ اسے لے کر نکلے، کہ یہی اس کا وقت ہے۔ اور جس کے پاس کوئی بندوق نہیں تو وہ اپنے خنجر اور چاقو، ہتھوڑے اور کلہاڑے لے کر نکلے، یا اپنے دیسی ساختہ بم، یا اپنے ٹرک اور بلڈوزر یا اپنی گاڑی… …کہ آج کا دن ہی وہ دن ہے(کہ جب جہاد کے لیے نکل کھڑا ہوا جائے)!

تاریخ نے اپنے سب سے روشن، ممتاز اور ذی عزت و شرف صفحات پھیلا دیے ہیں، تو کون ہے جو نور و سعادت کے ان صفحات میں اپنا، اپنے خاندان اور اپنے علاقے کا نام لکھوائے؟

اے ہماری ملّت کے بیٹو! اور اے پوری دنیا کے مردانِ حُر!……وہ حکومتیں جنہوں نے غاصب اسرائیل کے ساتھ اپنی حمایت و تعاون جاری رکھ کر اسرائیل کے جرائم کی پردہ پوشی کی اور خود بھی اس کے جرم میں شریک رہے، ان کا راستہ روکو!

آج کا دن عظیم انقلاب کا دن ہے۔ اس دنیا میں قائم آخری قابض اور نسلی تعصب پر مبنی آخری نظام کو ختم کرنے کے لیےاٹھنے کا دن آج ہی کا دن ہے!‘‘

پس جو حمیتِ اسلامی اور غیرتِ انسانی رکھتا ہو اور شعور و بصیرت اور دماغ و بصارت رکھتا ہو تو وہ طاغوتِ اکبر امریکہ اور اس امریکہ کی پروردہ ناجائز ریاستِ اسرائیل، ان کے مفادات اور باشندوں کو جہاں پائے نشانہ بنائے ، بے شک اسرائیل کی امریکہ کے بغیر حیثیت اس باؤلے کتے کی سی ہے جو شکار پر جاتے بھیڑیوں کے غول کا حصہ بن جائے اور خود بھی بھیڑیوں کی سی آواز نکالنے لگے۔

اے دنیا بھر کے اہلِ ایمان!اگر فلسطین پہنچنا مشکل ہے تو صومالیہ و مالی اور برِّ صغیر و یمن کے محاذ فرضِ عین جہاد کی ادائیگی کے لیے آج ہر شخص کے سامنے کھلے ہیں! اور جو اہلِ ایمان مغربی ممالک خاص کر امریکہ، فرانس اور برطانیہ میں موجود ہیں وہ وہیں رہتے ہوئے ان صلیبیوں اور صہیونیوں کو نشانہ بنائیں! جو بندوق پائے تو بندوق لے کر نکلے، جو بندوق نہ پائے تو خنجرو چاقو، ہتھوڑے و کلہاڑے، دیسی ساختہ بم لے کر نکلے، ورنہ اپنے ٹرک، بلڈوزر اور گاڑی سے ان غاصبوں کو کچلے!

پس خلافت کے قیام، اپنے مقدسات کی بازیابی خصوصا اقصیٰ و القدس کی آزادی، مظلومین خصوصاً اہلِ غزہ کی نصرت اور امریکہ ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے خلاف زبان و قلم اور چاقوو کلاشن کوف سے جہاد فرضِ عین ہے! جو اس جہاد کی ادئیگی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو دعوت اس کا میدان ہے اور جو یہ بھی استطاعت نہ پائے تو دعوت و جہاد میں سرگرم ہونے کے لیے اعداد و تیاری اس پر لازم ہے۔ کیا قتال، جہاد، دعوت اور یہ نہ ہونے کی صورت میں اس کی ’تیاری‘ کے بعد بھی کوئی درجہ ہے جو ہمیں قیامت کے دن ربّ ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی مظلوم امت کے سامنے سرخروئی دلا سکے؟

اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!

اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭


1 آخری بایں معنیٰ کہ سلطان مرحوم ہی آخری با اختیار خلیفہ تھے اس کے بعد جو لوگ بظاہر متمکن ہوتے رہے ان کے پاس فی الحقیقت کوئی اختیار نہ تھا۔

2 A letter between Herzl and Newlinski, published by Institute for Palestine Studies

3 Palestine: Politics of Poverty and Dependance, Professor S R Sonyel, Impact International, Vol. 15:20, 25 October 1985 (10 Safar 1405), pp. 10-11

4 Herzl Diaries, Mossad Bialik Publishing House, p. 332

5 Palestine: Politics of Poverty and Dependance, Professor S R Sonyel, Impact International, Vol. 15:20, 25 October 1985 (10 Safar 1405), pp. 10-11

6 Palestine: Politics of Poverty and Dependance, Professor S R Sonyel, Impact International, Vol. 15:20, 25 October 1985 (10 Safar 1405), pp. 10-11

7 The Palestine issue that cost Sultan Abdül Hamid II the Ottoman throne, By Ekrem Buğra Ekinci

8 سامری کی نسبت سے

Exit mobile version