وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

احکامِ اسلام کی روشنی میں

مسلمانوں کے درمیان محبت، الفت، اتفاق واتحاد قائم کرنا اور انہیں وحدت کے پیکر میں ڈھال کر ایک جان بنانا اسلام کے بنیادی احکام میں سے ایک حکم ہے۔

امام ابن تیمیہ ﷫فرماتے ہیں:

وَالِاجْتِمَاعُ والائتلاف مِنْ أَعْظَمِ الْأُمُورِ الَّتِي أَوْجَبَهَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ (مجموع الفتاوی)

’’مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اتفاق پیدا کرنا ان اہم ترین امور میں سے ہے جنہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فرض کیا ہے۔‘‘

دینِ اسلام کا علم رکھنے والا کوئی بھی عالم، دین اسلام کی تبلیغ کرنے والا کوئی بھی داعی، دین اسلام کے غلبے کی محنت کرنے والا کوئی بھی مجاہد اور دین اسلام کی اخلاقیات جاننے والا کوئی بھی مسلمان اس حکم کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ آج امت کی مغلوبیت کا بنیادی سبب بھی مسلمانوں کے درمیان اتفاق و اتحاد کی عدم موجودگی ہے۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن ﷫نے اپنی زندگی بھر کی جدوجہد کا نچوڑ بھی یہی بیان کیا تھا کہ مسلمان دو صفات سے محرومی کی وجہ سے مغلوب ہیں: ایک قرآن سے دوری اور دوسرا مسلمانوں کے درمیان وحدت کا فقدان۔ مسلمانوں کے درمیان محبتیں پیدا کرنا، اور انہیں ایک جان بنانے کی کوشش کرنا، تمام مسلمانوں پر لازم ہے، تاہم مجاہدینِ اسلام، جو اپنی جانوں کے نذرانوں کے ساتھ اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے امت کے مقدمۃ الجیش ہیں، ان پر مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کی کوشش کرنا اہم ترین ہے۔

اسی تناظر میں ہم عرض کر دیں کہ روزِ اوّل سے جہادِ پاکستان میں بھر پور شرکت کو جہاں ہم نے اپنی سعادت سمجھا ہے، وہیں خطے میں موجود تمام جہادی تنظیموں کا دلی احترام ، ان کے ساتھ نیکی و خیر کے امور میں تعاون اور انہیں جہاد میں خیر و صلاح والے راستے پر متحد و متفق کرنے کی ضرورت کا بھی ہمیں مستقل احساس رہا ہے اور اس کی خاطر کوشش کو ہم نے ہمیشہ ہی اپنا فرض سمجھا ہے۔ مگر اس مقصد ہی کی خاطر یہ سوالات اپنی جگہ اہم ہیں کہ یہ اتحاد کہاں بہر صورت نا گزیر و واجب ہے ؟کس موقع پر اس کے کیا احکام ہیں؟ جہاں کل اس کی کوئی خاص شکل واجب و فرض کی حیثیت اختیار کرے گی، اس کے لیے ابھی سے کن اصولوں پر متفق ہونا ضروری ہے اور وہ کون سے امور ہیں کہ جن کا خیال اگر نہیں رکھا گیا تو اس کے نتائج الٹا اتفاق و اتحاد ہی کے حق میں کل مضر ہوں گے؟ اس طرح وہ کیا لوازمات ہیں کہ جن کی غیر موجودگی میں مطلوب اتفاق و اتحاد پیدا کرنا چونکہ ناممکن ہوتا ہے، اس لیے پہلے خود انہیں پورا کرنے پر توجہ دینا از حد ضروری ہے، یہ سارا اہم موضوع ہے۔ اور اس موضوع کے حوالے سے حالیہ دنوں میں مجاہدینِ پاکستان کے مابین چند شبہات پیدا ہوئے تو اس کے حوالے سے محترم مولانا عبد الرحمن قاسمی حفظہ اللہ نے ایک تحریر مرتب کی، جسے ادارہ نوائے غزوۂ ہند قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری امت کو حقیقی معنی میں ایک امت بنا دیں، اور کافروں کے مقابلے میں یک جان کر دیں، تاکہ ہم اپنے مقبوضہ سرزمینوں کو آزاد کر سکیں، اور ان آزاد مسلم سرزمینوں کو یک جا کر کے خلافت علی منہاج النبوۃ قائم کر سکیں، آمین۔ (ادارہ)


بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد

ان دنوں پاکستانی مجاہدین میں اتحاد اور وحدت کے حوالے سے بہت سی باتیں چل رہی ہیں، اور ان باتوں کے سبب اہل خیر میں بہت سی غلط فہمیاں اور شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ وحدت اور اتحاد سے متعلق اسلامی احکام کو بیان کیا جائے اور پھر ان کے مطابق اپنے حالات کا جائزہ لیا جائے اور وحدت پیدا کرنے کا راستہ تلاش کیا جائے۔ ہم بطور مسلمان اس بات کے مکلف ہیں کہ ہم اپنی خواہشات، آراء اور مصالح کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لائے احکام کے تابع بنائیں، نہ کہ شرعی احکام کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالیں۔

امام وکیع ﷫ فرماتے ہیں:

مَنْ طَلَبَ الحَدِيْثَ كَمَا جَاءَ، فَهُوَ صَاحِبُ سُنَّةٍ، وَمَنْ طَلَبَهُ لِيُقَوِّيَ بِهِ رَأْيَهُ، فَهُوَ صَاحِبُ بِدْعَةٍ. (سیر أعلام النبلاء)

’’جس نے حدیث کا علم حاصل کیا، جیسا کہ وہ ہے تو وہ صاحب سنت ہے، اور جس نے حدیث کا علم حاصل کیا تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنی خواہش کو قوی کرے تو وہ صاحبِ بدعت ہے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ(رواہ ابن أبي عاصم في السنۃ عن سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضي اللہ عنہما)

’’تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میرے لائے ہوئے احکام کے تابع نہ ہوجائیں۔‘‘

اسلام میں وحدت کا حکم

اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں کئی مقامات پر مسلمانوں کو ایک ہونے اور تفرقے سے بچنے کا حکم فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ آل عمران میں فرماتے ہیں:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل عمران:103)

’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو، اور آپس میں تفرقے میں مت پڑو۔‘‘

اور گزرے ہوئے اہل دین کے باہم اختلاف کے سبب تفرقہ کرنے کو مذمت کے انداز میں بیان فرمایا ہے۔ فرمایا:

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (آل عمران:105)

’’اور ان لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جن لوگوں نے واضح نشانیاں آ جانے کے بعد آپس میں تفرقہ کیا اور اختلاف کرنے لگے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘

اسلام کے حکمِ وحدت کا مفہوم

یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں وحدت کا حکم دیا، اور تفرقہ سے منع فرمایا ہے، تو اس کے مفہوم میں دو باتیں شامل ہیں، اور یہ حکم وحدت دونوں کو مشتمل ہے۔

اول: دین میں تفرقہ نہ کرنے کا حکم

اسلام کے حکمِ وحدت میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلامی احکامات کے متعلق آپس میں اختلاف اور تفرقہ مت کرو، جیسا کہ گزری ہوئی قوموں نے کیا کہ دین کے معاملے میں مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ (الشوری:13)

’’اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کے لیے اس دین کو مشروع کیا ہے جس کی وصیت اس (یعنی اللہ) نے نوح ﷤کو کی تھی، اور جو ہم نے (اے نبی ﷺ!) آپ کی طرف وحی کیا ہے، اور جس کی وصیت ہم نے ابراہیم ﷤، موسی ﷤اور عیسی ﷤کو کی کہ دین کو قائم کرو اور اس دین کے معاملے میں تفرقہ نہ کرو۔‘‘

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ(الأنعام:159)

’’بیشک وہ لوگ جنہوں نے دین میں تفرقہ کیا اور مختلف فرقے بن گئے، (اے نبی ﷺ!) ان کے (فیصلے کے) بارے میں آپ کچھ حق نہیں رکھتے۔ ان کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

سورہ آل عمران میں جو آیات وحدت نازل ہوئیں تو ان میں بھی بنیادی مفہوم یہی ہے کہ دین اسلام کے معاملے میں فرقہ بندی نہیں کرنا۔ جیسا کہ آگے سیاق میں نازل ہوئی آیات کے تحت مفسرین نے کلام کیا ہے۔

یہی وہ فرقہ بندی کی مذمت ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے حدیثِ افتراق میں ذکر فرمایا۔ اور مسلمانوں کے تہتر فرقوں میں تقسیم ہونے کی پیشین گوئی فرمائی، اور ان میں سے صرف ایک گروہ کو نجات یافتہ قرار دیا۔ اور اس کی تعبیر ان الفاظ سے فرمائی۔

ما أنا علیہ وأصحابي (رواہ الترمذي عن سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضي اللہ عنہما)

’’(وہ گروہ نجات یافتہ ہوگا جو وہ عقیدہ رکھے گا،) جو میرا ہے اور میرے صحابہ کرام کا ہے۔‘‘

اسی وحدت کی تعبیر دین کے معاملے میں اہل السنۃ والجماعۃ سے ہونے لگی۔ اور قرن اول سے لے کر آج تک اہل السنۃ والجماعۃ کی وحدت قائم رکھی گئی، اور اس سے خارج، اسلام کا نام لینے والوں کو اہل بدعت یا گمراہ فرقے قرار دیا گیا۔

اہل السنۃ والجماعۃ وہ گروہ ٹھہرا جس نے دین کو اس کی اصل سے پکڑا اور دین کے معاملے میں اختلاف نہیں کیا۔ جبکہ جن لوگوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا، وہ گمراہ اور بدعتی کہلائے۔

اسی گروہ کو بعض احادیث میں ’الجماعۃ‘ قرار دیا گیا اور اسی گروہ کو ایک حدیث میں ’السواد الأعظم‘ کہا گیا۔

إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابَيْنِ افْتَرَقُوا فِي دِينِهِمْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَإِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً – يَعْنِي: الْأَهْوَاءَ -، كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً، وَهِيَ الْجَمَاعَةُ.(رواہ أحمد عن سیدنا معاویۃ بن أبي سفیان رضي اللہ عنہما)

’’یہودونصاری اپنے دین میں بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے، جبکہ یہ امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، وہ سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ ایک فرقہ جماعت صحابہ کے نقش پر ہوگا ۔‘‘

افْتَرَقَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ عَلَى وَاحِدَةٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً, وَتَزِيدُ هَذِهِ الْأُمَّةُ فِرْقَةً وَاحِدَةً, كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلَّا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ۔ (رواہ ابن أبي شیبۃ عن سیدنا أبي أمامۃ رضي اللہ عنہ)

’’بنی اسرائیل اکہتّر فرقوں میں بٹ گئے، اور میری یہ امت اس پر ایک فرقہ مزید بڑھا دے گی (یعنی بہتّر فرقوں میں بٹ جائے گی)، سب کے سب جہنم میں ہوں گے، سوائے سوادِ اعظم کے۔‘‘

’الجماعۃ‘ اور ’السواد الأعظم‘ کا یہی وہ مفہوم تھا جسے اہل قرون ثلاثہ (مشہود لہا بالخیر) نے بیان کیا۔ اور اسے اتباعِ سنت اور اتباعِ صحابہ سے جوڑا۔ حلیۃ الأولیاء میں امام ابو نعیم ﷫امام اسحاق بن راھویہ ﷫سے نقل کرتے ہیں:

وَذَكَرَ فِي حَدِيثٍ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُنْ لِيَجْمَعَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ عَلَى ضَلَالَةٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمُ الِاخْتِلَافَ فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا أَبَا يَعْقُوبَ مَنِ السَّوَادُ الْأَعْظَمُ؟ فَقَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ أَسْلَمَ وَأَصْحَابُهُ وَمَنْ [ص:239] تَبِعَهُ، ثُمَّ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ الْمُبَارَكِ فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَنِ السَّوَادُ الْأَعْظَمُ؟ قَالَ: أَبُو حَمْزَةَ السَّكُونِيُّ. ثُمَّ قَالَ إِسْحَاقُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ يَعْنِي أَبَا حَمْزَةَ، وَفِي زَمَانِنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَسْلَمَ وَمَنْ تَبِعَهُ. ثُمَّ قَالَ إِسْحَاقُ: لَوْ سَأَلْتَ الْجُهَّالَ مَنِ السَّوَادُ الْأَعْظَمُ؟ قَالُوا: جَمَاعَةُ النَّاسِ وَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ الْجَمَاعَةَ عَالِمٌ مُتَمَسِّكٌ بِأَثَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَرِيقِهِ، فَمَنْ كَانَ مَعَهُ وَتَبِعَهُ فَهُوَ الْجَمَاعَةُ، وَمَنْ خَالَفَهُ فِيهِ تَرَكَ الْجَمَاعَةُ. (حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء)

’’امام اسحاق بن راہویہ ﷫نے رسول اللہ ﷺ کی مرفوع حدیث ذکر فرمائی، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالی امتِ محمد (علی صاحبھا السلام) کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کریں گے۔ بس اگر تم اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سواد اعظم کو پکڑو۔ بس ایک آدمی نے کہا: اے ابو یعقوب! سواد اعظم سے کون مراد ہے؟ فرمایا: محمد بن اسلم اور اس کے اصحاب اور جو کوئی ان لوگوں کی اتباع کرے۔ پھر فرمایا کہ ایک شخص نے امام ابن المبارک ﷫سے پوچھا : اے ابو عبد الرحمن! سواد اعظم سے کون مراد ہے؟ فرمایا: اس سے مراد ابو حمزہ السکونی ہے۔ پھر امام اسحاق ﷫فرمانے لگے: یعنی امام ابن مبارک ﷫کے زمانے میں ابو حمزہ تھے، جبکہ ہمارے زمانے میں محمد بن اسلم اور ان کے متبعین ہیں۔ پھر امام اسحاق نے فرمایا: اگر تم جاہلوں سے پوچھو کہ سواد اعظم سے کیا مراد ہے؟ تو وہ کہیں گے: لوگوں کی اکثریتی جماعت، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ جماعت سے مراد وہ عالم ہے جو رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے متمسک ہے اور آپ ﷺ کے طریقے کو لازم پکڑے۔ پس جو کوئی ایسے عالم کے ساتھ ہو اور اس کی اتباع کرے تو وہی الجماعہ ہے اور جو کوئی ان کی مخالفت کرے تو وہ الجماعۃ کو ترک کرنے والا ہے۔‘‘

علمائے کرام نے بھی السواد الأعظم کی یہ تعبیر اس کے حقیقی معنی کے مطابق اس طرح بیان فرمائی کہ تاریخِ اسلام میں اول روز سے آج تک ہمیشہ، اہل السنۃ والجماعۃ کا طبقہ ہی اکثریتِ امت رہا ہے، جبکہ اس راستے سے ہٹ کر بدعت و گمراہی میں پڑنے والے لوگ امت کی اقلیت رہے ہیں۔

چنانچہ وحدت کے اس مفہوم کے مطابق اسلام کا نام لینے والا ہر وہ شخص جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب ﷢کے راستے پر کھڑا ہے، اور ان عقائد کا حامل ہے جو سلف صالحین سے نقل ہوتے چلے آئے ہیں، تو وہ دین میں تفرقہ بنانے سے محفوظ ہے۔ چنانچہ امت کا سواد اعظم اعتقادی مسائل اور عملی اجتہادی مسائل میں اہل السنۃ و الجماعۃ کے مسلک پر قائم رہا ہے، چاہے اسے اعتقادی مسائل میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور اثریہ (اس کی معاصر شکل سلفیہ) کہا جائے، اور عملی اجتہادی مسائل میں مذاہب اربعہ کہا جائے، یہ تمام مذاہب اہل السنۃ والجماعۃ کی چھتری تلے دین کے مذموم تفرقے سے امت کو بچا کر اعتصام بحبل اللہ کر کے وحدت دین کو محفوظ رکھتے رہے ہیں، اور آج بھی اللہ کے فضل سے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔

تنبیہ: اہل السنۃ سے خارج فرقوں کے ساتھ تعامل

یہاں یہ بات بھی سمجھیں کہ جن لوگوں نے اسلام کا نام لینے کے بعد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام ﷢کے طریقے کے خلاف عمل اپنایا، ان کے ساتھ دین کے سبب اہل السنۃ والجماعۃ نے تفرقہ کیا، کیونکہ یہ تفرقہ دین کے سبب ضروری تھا۔ اسلاف امت نے ایسے لوگوں کی برائی کو لوگوں میں عام کرنے اور ایسوں سے قطع تعلق کرنے کی روش اپنائی تاکہ ایسے لوگوں کی مسلمانوں کی عام شناخت میں مدغم ہونے سے مسلمانوں میں گمراہی کے پھیلنے کا راستہ روکا جا سکے۔ البتہ سیاسی وحدت کے طور پر انہیں مسلم معاشرے سے خارج نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ ان میں سے کوئی واضح کفر کا مرتکب ہو کر کافر نہ کہلایا۔ اور یہی وجہ ہے کہ کفار کے مقابلے میں ان کا ساتھ دینے اور ان کے مقابلے میں کفار کا ساتھ نہ دینے کا حکم فقہائے امت نے بیان فرمایا۔ تفصیل کے لیے کتب فقہ کی طرف مراجعت کی جا سکتی ہے۔

دوم: مسلمانوں کی انتظامی وحدت کا قیام

اسلام کے حکمِ وحدت کے مفہوم میں دوسری بات یہ شامل ہے کہ مسلمان امت ایک سیاسی اکائی کے طور پر موجود ہو اور اس اکائی کے لیے ضروری قرار دیا گیا کہ تمام مسلمانوں کا ایک حاکم ہو، جسے خلیفۃ المسلمین کا نام دیا گیا۔ اسی وجہ سے علمائے امت نے نصبِ امام کو واجب قرار دیا اور اس پر علمائے امت کا اجماع منعقد ہوا۔ امام نووی ﷫فرماتے ہیں:

أجمعوا على أنه يجب على المسلمين نصب خليفة(المنھاج شرح صحیح مسلم)

’’علمائے امت کا اس پر اجماع ہوا کہ مسلمانوں پر ایک خلیفہ مقرر کرنا واجب ہے۔‘‘

ایک امام کے نصب کو واجب قرار دیا گیا اور ایک سے زائد حاکموں کی مذمت وارد ہوئی، حتی کہ ایک امام کے ہوتے ہوئے دوسرے کی بیعت کو حرام قرار دیا گیا اور اس دوسرے کے قتل کو واجب قرار دیا گیا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ

’’اور (میرے بعد) خلفاء ہوں گے، پس وہ (ایک وقت میں) بہت سے ہوں گے۔‘‘

صحابہ کرام ﷢نے فرمایا کہ ایسے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ (متفق علیہ عن سیدنا أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ)

’’پہلی بیعت کو نبھاؤ، پس جو بھی پہلی بیعت ہو۔‘‘

دوسرے مقام پر رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ، يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ، أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ، فَاقْتُلُوهُ (رواہ مسلم عن سیدنا عرفجۃ بن ضریح)

’’جو کوئی اس حال میں مسلمانوں پر نیا حاکم بننے کی کوشش کرے جبکہ مسلمان ایک حاکم پر جمع ہوں، یہ شخص اس طرح مسلمانوں کی اجتماعیت توڑنا چاہے اور تفرقہ پیدا کرنا چاہے تو اسے قتل کر دو۔‘‘

اس قدر شدید حکم زبان نبوت ﷺ سے اسی مقصد سے نکلا کہ مسلمانوں کی اجتماعیت برقرار رہے۔ اگر یہ انتظامی اجتماعیت برقرار نہ رکھی جائے تو اول مسلمانوں میں سیاسی انتشار پھیلے گا اور دوم یہ سیاسی انتشار دینی تفرقے کا باعث بن جائے گا۔

یہی وہ حکم ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک دوسری حدیث میں ان الفاظ میں بیان فرمایا:

عَلَيْكُمْ بِالجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالفُرْقَةَ (رواہ الترمذي عن سیدنا عمر بن الخطاب)

’’(اے مسلمانو!) جماعت کو لازم پکڑو، اور آپس میں تفرقے سے خبردار رہو۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں تمام مسلمانوں کے لیے ایک واجب الاتباع حاکم کے نصب پر علمائے امت کا اجماع قائم ہوا، اور علمائے امت نے دو یا زائد حکام کے تقرر کو باطل قرار دیا۔ کیونکہ ایک سے زائد اگر مسلمانوں کے حکام ہوں تو اس سے بھی مسلمانوں کی وحدت برقرار نہیں رہ سکتی، اور مسلمانوں کی اجتماعیت دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی۔

جس طرح انتظامی و سیاسی وحدت کے لیے اسلام نے ایک خلیفہ یا حاکم کے نصب کو واجب قرار دیا ہے، وہیں مسلمانوں میں انتظامی و سیاسی وحدت کے برقرار رکھنے کے لیے نصب امام کو چند باتوں کے ساتھ مشروط کیا ہے۔

اول: امامت کے لیے بیعت اور اقتدار و اختیار دونوں لازم ہیں

اول یہ کہ امام کی تقرری کے لیے دو باتیں ضروری ہیں، اول بیعت اور دوم خطہ زمین پر اقتدار۔ اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی نہ ہو، تو ایسا شخص امام یا حاکم نہیں ہوتا۔ امام ابن نجیم ﷫ لکھتے ہیں:

قَالَ عُلَمَاؤُنَا السُّلْطَانُ مَنْ يَصِيرُ سُلْطَانًا بِأَمْرَيْنِ بِالْمُبَايَعَةِ مَعَهُ وَيُعْتَبَرُ فِي الْمُبَايَعَةِ أَشْرَافُهُمْ وَأَعْيَانُهُمْ وَالثَّانِي أَنْ يَنْفُذَ حُكْمُهُ فِي رَعِيَّتِهِ مِنْ قَهْرِهِ وَجَبَرُوتِهِ. (البحر الرائق)

’’ہمارے علماء کا قول ہے کہ کوئی بھی شخص دو باتوں سے حاکم قرار دیا جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر حکومت کی بیعت کی جائے، اور یہاں بیعت میں سر برآوردہ لوگوں کی بیعت کا اعتبار ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ اس ے اقتدار اور کنٹرول کی وجہ سے اس کی رعیت پر اس کا حکم نافذ ہو۔‘‘

یعنی اگر کوئی شخص کسی خطہ زمین پر اقتدار نہیں رکھتا، یا وہاں کے لوگ اس کی بیعت میں نہیں ہیں، تو یہ شخص حاکم نہیں کہلاتا اور حاکم کے حقوق اسے حاصل نہیں ہوتے، کہ لوگ اسی کی اطاعت کریں اور اس کی اطاعت نہ کرنے والے حرام کر مرتکب ٹھہریں۔

دوم: امام کے تعین کے لیے مشاورتِ مسلمین ضروری ہے

اسلام میں امام کے تعین کے لیے مسلمانوں سے مشورہ کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ اور مسلمانوں کا مشورہ مسلمانوں کے سربر آوردہ لوگوں کے مشورہ سے حاصل ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَوْ كُنْتُ مُؤَمِّرًا أَحَدًا دُونَ مَشُورَةِ الْمُؤْمِنِينَ، لَأَمَّرْتُ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ.(رواہ الإمام أحمد عن سیدنا علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ)

’’اگر میں کسی کو مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر امیر مقرر کرتا، تو میں ضرور ابن ام عبد (یعنی عبد اللہ بن مسعود ﷜) کو امیر مقرر کرتا۔‘‘

سیدنا عمر فاروق ﷜نے مشاورت مسلمین کے بغیر امیر کے تقرر کے مفسدے کو یوں بیان فرمایا:

مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ المُسْلِمِينَ فَلاَ يُبَايَعُ هُوَ وَلاَ الَّذِي بَايَعَهُ، تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلاَ. (رواہ البخاري عن سیدنا عبد اللہ بن عباس)

’’جس کسی نے مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی شخص کے ہاتھ پر امامت کی بیعت کی، تو خطرہ ہے کہ (اس طریقے سے مسلمانوں میں اتفاق نہ آنے کے سبب) بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی، دونوں قتل کر دیے جائیں۔‘‘

علمائے امت نے اسی اصول کی پاسداری میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے اہل الحل و العقد کی مشاورت سے امام کا تعین ہونا چاہیے۔

سوم: امامت کی از خود طلب مذموم ہے

اسلام نے اس بات کی مذمت کی ہے کہ کوئی مسلمان از خود مسلمانوں کی زمام اپنے ہاتھ میں لینا چاہے۔ کیونکہ ایک تو اس سے اسلام کے اعلی مقصد کے مقابلے میں شخصی اغراض کا حصول کا دروازہ کھلے گا، اور دوسرا اس سے مسلمانوں میں اتفاق و وحدت کی جگہ انتشار اور تشتت جنم لے گا۔ رسول اللہ ﷺ فرمایا:

سْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ.(متفق علیہ عن سیدنا أبي موسی الأشعري رضي اللہ عنہ)

’’ہم کسی بھی اس شخص کو امورِ سلطنت میں کوئی کام نہیں دیتے جو خود مسؤولیت چاہتا ہو۔‘‘

دوسری حدیث میں یہ الفاظ وارد ہوئے:

إِنَّا وَاللهِ لَا نُوَلِّي عَلَى هَذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَهُ، وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ (رواہ مسلم عن سیدنا أبي موسی الأشعري رضي اللہ عنہ)

’’اللہ کی قسم! ہم امورِ سلطنت میں سے کوئی کام اس شخص کے حوالے نہیں کرتے جو اسے مانگتا ہے، اور نہ اسے حوالے کرتے ہیں جو اس کی حرص رکھتا ہے۔‘‘

دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عبد الرحمن بن سمرۃ ﷜کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی برائی کو اس طرح بیان فرمایا:

يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ أُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا (رواہ مسلم عن سیدنا عبد الرحمن بن سمرۃ رضي اللہ عنہ)

’’اے عبد الرحمن! امامت کو طلب نہیں کرنا، پس اگر یہ تمہیں طلب کرنے پر ملی تو تمہیں اسی کے حوالے کر دیا جائے گا (اور اللہ تمہاری مدد نہیں فرمائیں گے) اور اگر یہ تمہیں بغیر طلب کے ملی تو (اللہ کی طرف سے) تمہاری مدد کی جائے گی۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے اس کی تعلیم اسی لیے فرمائی کہ اگر مسلمانوں کے افراد میں از خود حکومت کی کرسی تک پہنچنے کی حرص پیدا ہو گئی تو یہ نہ صرف خود ان افراد کے حق میں اچھا نہ ہو گا، بلکہ اس سے مسلمانوں میں اتفاق و وحدت کی بجائے بے اتفاقی اور نفرت جنم لے گی۔ حالانکہ اسلام کو امام کے نصب سے مقصود مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد و وحدت کا حصول ہے۔ یہی وہ نبوی تربیت تھی کہ جس کے سبب صحابہ کرام ﷢نے اس مقام کا خیال رکھا اور اسے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

تنبیہ: سلطانِ متغلب کی شرعی حیثیت

یہاں کسی شخص کے ذہن میں یہ خیال نہ آجائے کہ سلطان متغلب کو تو علمائے کرام نے واجب الاطاعت حاکم مانا ہے، اگرچہ وہ تغلب سے حاکم بنا ہو۔ تو جاننے کی بات ہے کہ علمائے کرام نے تغلب کو مذموم قرار دیا ہے۔ اور امام المسلمین کے مقابلے میں، بغیر کسی شرعی سبب کے، دنیوی مفاد کے لیے کسی دوسرے شخص کے خروج کو اور تغلب کی کوشش کو ناجائز قرار دیا ہے۔ یہ اصولی حکم علمائے کرام کی کتب میں واضح انداز میں منقول ہے۔ ہاں، بالفرض اگر کوئی شخص یہ ناجائز کام کر کے حاکم بن بیٹھے تو اگر وہ شریعت کے مطابق حکومت کرتا ہے تو ایسے حاکم کو انتشار و بے اتفاقی کی روک تھام کے لیے حاکم تسلیم کیا ہے، اور اس کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے۔

یعنی ان دو امور میں فرق کو واضح سمجھنا چاہیے۔ اسلام اصلا انتشار اور وحدت کی روک تھام کرتا ہے اور اسی وجہ سے تغلب کو مذموم کہا ہے۔ اور بعد از تغلب جب کوئی حاکم ہو جائے تو دوبارہ اسی علت کی وجہ سے اسے حاکم تسلیم کیا ہے، لیکن یہ محمود کام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علمائے کرام نے ایسے متغلب حاکم کو وہ تمام حقوق نہیں دیے، جو مشروع طریقے سے بننے والے حاکم کو دیے ہیں۔ امام مازری ﷫خروج علی الحکام کے مسئلے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وهذا في إمام عُقد له على وجه يصحّ ثم فَسَق وجار، وأمّا المتغلّبون على البلاد فالكلام فيهم يتّسع وليس هذا موضعه. (المعلم بفوائد مسلم)

’’اور یہ ممانعتِ خروج اس امام کے حق میں ہے جس کی امامت صحیح طریقے سے منعقد ہوئی ہو، اور اس کے بعد وہ فاسق و فاجر ہو گیا ہو۔ اور جہاں تک متغلب حکام کا تعلق ہے تو ان کے حوالے سے اس مسئلے میں گنجائش ہے، جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔‘‘

تنبیہ: ایک سے زائد اماموں کی گنجائش

یہاں یہ بھی کسی شخص کو مغالطہ ہو سکتا ہے کہ اصلاً تو اسلام نے ایک ہی امام کے نصب کو واجب قرار دیا ہے، اور تمام مسلمانوں کو ایک امام کے تحت جمع کرنے کا حکم فرمایا ہے، لیکن ایسی صورت میں جب مسلم علاقوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہو اور ایک امام کے لیے تمام علاقوں کا انتظام عملاً ممکن نہ ہو تو ایسے میں بعض علمائے کرام نے ایک سے زائد حکام کی گنجائش بیان فرمائی ہے۔ یہ بات درست ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اسلام نے اصلاً مسلمانوں کو ایک انتظامی اکائی میں جمع کرنے کی تعلیم دی ہے، اور یہی اتفاق و اتحاد و وحدت کی حقیقی صورت ہے۔ لیکن جب صورتحال یہ بنی کہ اندلس کی زمین مسلمانوں کے عمومی خطوں سے بہت دور زیر تسلطِ اسلام آئی تو وہاں الگ امیر کی گنجائش دی۔ لیکن اصولی حکم اپنی جگہ برقرار رکھا گیا، اور امام الحرمین ﷫کی توضیح کے مطابق امام کا حکم ایک ہی شخص کو حاصل ہو گا، اور دوسرے کو اگر امام نے اتباع کا حکم دیا، تو اس پر اتباع واجب ہو گی۔ تفصیل کے لیے امام الحرمین کی غیاث الأمم کی مراجعت کی جائے۔

اس تمام بحث سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ اسلام نے جس وحدت کا حکم فرمایا ہے، اس کا انتظامی حیثیت سے مفہوم یہ ہے کہ تمام مسلمانوں اور ان کے مقبوضہ خطوں کو ایک انتظامی و سیاسی اکائی میں جمع کیا جائے، اور ایک امام کے تحت لایا جائے۔ اسی صورت میں وحدت کا اسلامی حکم پورا ہو سکے گا۔ اور حقیقی معنی میں مسلمانوں میں وحدت کے قیام کے لیے اس امام کا انتخاب بھی مسلمانوں کے اہل الحل و العقد (سربرآوردہ لوگوں) کے مشورہ سے کیا جائے تاکہ تمام مسلمان دل و جان سے مجتمع ہوں۔

ہم جس صورت واقعہ میں جی رہے ہیں، اس کے حوالے سے مضمون کے آخر میں کلام کریں گے کہ آج کے دور میں اسلام کے اس حکم کو کس شکل میں عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔

تنبیہ: مسلمانوں کے درمیان پھیلنے والے دینی تفرقہ کا سبب بھی بہت سی جگہ پر سیاسی تفرقہ تھا

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ مسلمانوں کی انتظامی وحدت مسلمانوں کو دینی تفرقے سے بھی محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔ اور تاریخِ اسلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی جگہ پر دینی تفرقہ اور اعتقادی اختلاف کا سبب بھی سیاسی و انتظامی وجوہات تھیں۔ روافض کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض منافقین نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے غلط عقیدے گھڑے اور اپنی سیاسی جدوجہد کو دینی رنگ دیا، اور یوں روافض کا فرقہ وجود میں آ گیا، مرجئہ کا طبقہ بھی حاکم طبقے کی برائیوں کو صاف کرنے کے لیے وجود میں آیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی ﷫اپنی کتاب ’اہل السنۃ والجماعۃ‘ میں لکھتے ہیں:

’’سیاسی اختلافات نے مذہبی اختلافات کی بنیاد قائم کی۔‘‘ (ص ۲۱)

یعنی اگر سیاسی و انتظامی امور کو دین میں ان کا صحیح مقام نہ دیا جائے تو یہ خود اعتقادی و دینی تفرقہ کا سبب بن سکتی ہیں۔ امامت کا مسئلہ علمائے اہل السنۃ و الجماعۃ کے یہاں فقہ سے تعلق رکھتا ہے، لیکن چونکہ اہل البدع نے اسے اپنے عقیدہ کا مسئلہ بنایا تو ہمارے اہل السنۃ کے متکلمین نے اس مسئلے کو کتب عقائد میں ذکر کیا۔ یہاں یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر کوئی بھی جماعت یا گروہ اپنے سیاسی غلبے کے حصول کے لیے اپنے نکتہ نظر کو دین کا درجہ دینا شروع کرے تو بعید نہیں کہ یہ گروہ اعتقادی گمراہی میں مبتلا ہو جائے اور مسلمانوں میں وحدت کی بجائے بے اتفاقی اور انتشار کا باعث بنے۔ موجودہ دور میں ہمارے سامنے داعش کی مثال بالکل واضح ہے۔ غلو ان میں اگرچہ پہلے بھی تھا، لیکن ان کے سیاسی عزائم نے بالآخر انہیں اپنے آپ کو حق بولنے اور اپنے مخالف کو باغی قرار دینے پر مجبور کیا اور یوں وہ خوارج کی صف میں جا شامل ہوئے۔ لہٰذا غلبہ دین کی جدوجہد کرنے والی جماعتیں اور تحریکات کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسائل دینیہ کو اس انداز میں اپنائیں جس انداز میں مسلمانوں کے اہل السنۃ والجماعۃ کے طبقات میں وہ مسائل مدوّن ہیں۔ تاکہ نہ دینی مسائل میں فرقہ بندی کی صورت بنے، اور نہ مسلمانوں کی انتظامی وحدت کے راستے میں رکاوٹ بنے۔

مسلمانوں کے درمیان وحدت کا تیسرا مفہوم یا وحدت کے حصول کا سبب

اسلام نے مسلمانوں کے درمیان جس وحدت اور اتفاق کے حصول کا حکم فرمایا ہے، اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اس پہلو کو چاہے وحدت کا ایک مفہوم قرار دیا جائے، اور اسے وحدت کے حصول کا ذریعہ اور سبب قرار دیا جائے، دونوں ممکن ہیں۔ اور وہ ہے (الف)اتباع ِ شریعت اور (ب)اسلام کی تعلیمِ اخلاقیات۔ ثانی الذکر اول الذکر میں داخل ہے مگر چونکہ دونوں میں عموم و خصوص کا فرق ہے اس لیے یہاں علیحدہ ذکر کرتے ہیں۔

وحدت اس صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب شریعتِ مطہرہ پر عمل ہو۔ اللہ رب العزت نے جو اصول و ضوابط ایک فرد و اجتماع کے لیے مقرر کیے ہیں وہ جب عمل میں لائے جاتے ہیں تو منجانب اللہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور اگر ان کی خلاف ورزی ہو تو پھر اللہ ہی کی طرف سے بطورِ سزا اختلاف و افتراق کا دروازہ کھلتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی اہلِ کتاب کے متعلق فرماتے ہیں کہ جو عہدو پیمان ان سے لیا گیا تھا انہوں نے اس کی مخالفت کر دی، یعنی انہوں نے شریعت پر عمل نہیں کیا، تو عِقاب میں اللہ نے ان کے بیچ منافرت و عداوت ڈال دی۔

وَمِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓى اَخَذْنَا مِيْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ ۠ فَاَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۭ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ؀ (سورۃ المآئدۃ: ۱۴)

’’ اور جن لوگوں نے کہا تھا کہ ہم نصرانی ہیں، ان سے (بھی) ہم نے عہد لیا تھا، پھر جس چیز کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ وہ (بھی) بھلا بیٹھے۔ چنانچہ ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کے لیے دشمنی اور بغض پیدا کردیا اور اللہ انھیں عنقریب بتادے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ ‘‘

حکیم الامت حضرت تھانو ی ﷫آیت وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’تقریر مدلولِ آیت کی بلحاظ قید یہ ہے کہ تم سب اعتصام (بحبل اللہ) اختیار کرو اور اس میں تفریق نہ کرو کہ کوئی اعتصام اختیار کرے کوئی نہ کرے، پس مقصود بالذا ت اعتصام ہے نہ کہ اجتماع، اور منھی عنہ ترکِ اعتصام ہے نہ کہ تفریق۔ پس اگر اعتصام میں تفرق ہوتا ہو، اس طور سے کہ بعض نے اعتصام کیا بعض نے نہ کیا تو اس تفریق سے بچنے کے لیے اعتصام کو نہ چھوڑیں گے بلکہ اعتصام کے لیے تفریق کو گواراکرلیں گے…… اس آیت میں ایک فائدہ عظیمہ علمیہ و عملیہ متعلقہ اتفاق پر بھی دلالت ہے، یعنی اس میں اتفاق و اجتماع ِمطلوب کے حاصل ہونے کا ایک سہل اور کامیاب طریقہ بھی بتلایا گیا ہے وہ طریقہ یہ ہے کہ سب مل کر احکام الٰہیہ کا اتباع کرنے لگیں، اس سے خود بہ خود بلا کسی تدبیرِ مستقل کے لزوماً اتفاق پیدا ہو جاوے گا۔ ورنہ بدون اس کے بڑی سی بڑی تدبیر بھی ناکام ہے اول تو حدوث ہی میں ، ورنہ بقا میں تو ضرور۔ اور راز اس کا یہ ہے کہ ایسا اتفاق اغراض پر مبنی ہو گا اور اغراض میں تبدّل ہوتا رہتا ہے ، اور اسی کے ساتھ اتفاق بھی رخصت ہو جاوے گا۔ اور جو اتفاق احکامِ الٰہیہ پر مبنی ہو گا، چونکہ احکام بدلتے نہیں ہیں، اس لیے وہ اتفاق بھی باقی رہتا ہے۔ ‘‘[بوادر النوادر]

مسلمانوں کے درمیان وحدت پیدا کرنے کے حوالے سے ایک اہم امر اخلاق حسنہ کا آتا ہے اور اس پر دینِ اسلام میں بہت تاکید کی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الحجرات:10)

’’بیشک تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو۔ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘

اسلام کی اہم ترین تعلیم یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان محبت و الفت پیدا کی جائے۔ اور مسلمانوں میں وحدت میں سب سے بنیادی کردار اسی محبت کا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا۔

وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا (آل عمران: ۱۰۳)

’’اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پس اللہ نے تمہارے دلوں کو (ان میں محبت ڈال کر) جوڑ دیا، پس تم بھائی بھائی بن گئے۔‘‘

قاضی عیاض ﷫فرماتے ہیں:

والألفة أحد فرائض الدين وأركان الشريعة ونظام شمل الإسلام.(إکمال المعلم بفوائد مسلم)

’’اور مسلمانوں کے درمیان باہم محبت و الفت کا ہونا دین کے فرائض میں سے ایک فریضہ، شریعت کا ایک رکن اور اسلام کی اجتماعیت کو منظم کرنے کا ذریعہ ہے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا. (متفق علیہ عن سیدنا أنس بن مالك رضي اللہ عنہ)

’’آپس میں ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، اور ایک دوسرے سے حسد مت کرو، اور ایک دوسرے سے دشمنی نہ کرو، اور اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘

یہ وہ اخلاقی تعلیم ہے جو زبانِ نبوت ﷺ سے مسلمانوں کو دی جا رہی ہے۔ مسلمان کبھی بھی اتحاد و وحدت کو نہیں پہنچ سکتے جب تک ان اخلاق کو نہ اپنا لیں، کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے محبت کرے، دوسرے مسلمان کو برابر کے حقوق دے، جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہ دوسرے کے لیے پسند کرے، کسی سے حسد نہ کرے، کسی سے بغض نہ رکھے، کسی سے دشمنی نہ کرے۔ خود یہ وحدت کا وہ مفہوم ہے جو اسلام کو مطلوب ہے۔ وہ مسلمانوں کو ایسی وحدت میں جمع کرنا چاہتا ہے جس میں تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہوں۔

ایک دوسرے پر دنیوی برتری کی کوشش کرنا، ایک دوسرے کو نیچا کرنا، ایک دوسرے سے جھگڑا کرنا یہ اسلام میں مذموم ہیں۔ یہی وہ سبب ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو شخصی اقتدار کے حصول سے منع کیا ہے۔ اور اسلام جس اقتدار کے حصول کا مسلمانوں کو پابند کرتا ہے جس میں اعلائے کلمۃ اللہ ہو تو اس کے لیے اسلام ان اخلاق کا پابند بھی بناتا ہے۔ ورنہ انسان نعرہ تو اعلائے کلمۃ اللہ کا لگائیں گے، مگر شیطان ان کے دلوں میں برائیوں کو مزین کر کے دکھا رہا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھیں، اور اسلام کے غلبہ کی کوشش کرنے والے ہر عامل کو اپنی خصوصی رحمت سے ان برائیوں سے محفوظ و سالم رکھیں، آمین۔

شیخ عبد اللہ عزام ﷫اپنی تقریر میں فرماتے ہیں کہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کے ذریعے کریں گے جو آپس میں اسلام کے اخلاق کے پابند ہوں گے، جو لوگ دوسرے مسلمانوں کی عزت پامال کریں، غیبت کریں، چغلی کھائیں، حسد کریں، بعض رکھیں تو ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل نہیں ہوتی اور ایسے لوگوں کے ذریعے خلافت کا قیام ممکن نہیں ہے۔ (بتصرف)

لہٰذا جو مسلمان بھی اور خاص طور پر جو مجاہد بھی مسلمانوں میں اتحاد اور وحدت کا خواہاں ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اسلام کے ان اخلاق کا پابند نہ ہو۔ اگر خدانخواستہ وحدت کا داعی ان اخلاقی اوصاف سے عاری ہو تو جان لینا چاہیے کہ وہ وحدت کے نام پر اپنی خواہش کو دوسروں پر مسلط کرنے کا ساعی ہے۔

زمانہ حاضر اور مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد کے حکمِ اسلامی کی تعمیل

اس وقت مسلمانوں کی صورتحال یہ ہے کہ مسلمان پچاس سے زائد اسلامی ممالک کی صورت میں بٹے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں پر مسلط حکام اہل مغرب کے غلام ہیں جو مسلم ممالک میں نفاذِ اسلام تو درکنار، اسلامی تحریکات کی سرکوبی اور کمزوری کے لیے کوشاں ہیں۔ ہر ایک اسلامی ملک میں غلبہ دین کی تحریکات موجود ہیں، خواہ کوئی محض دعوت کی حد تک محدود ہے، کوئی جمہوری جدوجہد کے ذریعے سیاسی غلبہ چاہتی ہے، اور کوئی جہاد کے ذریعے سیاسی غلبہ کے لیے برسر پیکار ہے۔

ہمارا یہاں بنیادی خطاب جہادی تحریکات اور ان کے حامی اہل دین سے ہے، کیونکہ انھی سے امید ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے حقیقی سیاسی قوت اور منعہ حاصل کر کے اسلام کے سیاسی اقتدار کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ دعوتی اور جمہوری سیاست کے عاملین، اگرچہ ہمارے بھائی ہیں، اور ان کے ساتھ اتحاد و اتفاق کے بغیر مسلمانوں کی سیاسی قوت مکمل نہیں ہو سکتی، لیکن اس مرحلے پر ان سے اتفاق کی صورت قائم ہونا عملاً مشکل کام ہے، کیونکہ وہ مغرب کے عطا کردہ نظام کے دائرہ کار میں مصروف عمل ہیں، اور ہماری نظر میں جب تک اس نظام کو ہٹا کر اس کی جگہ اسلامی نظام نہ لایا جائے، تو اس کے علاوہ اعلائے کلمۃ اللہ کا کوئی امکان نہیں، یا یوں کہیے کہ پہلے جہادی تحریکات میں اتفاق ضروری ہے جو اس کے بعد دیگر غیر جہادی تحریکات کے ساتھ اتفاق و اتحاد کا راستہ ہموار کرے گا۔

  1. پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور مجاہدین کی قربانیوں کی برکت سے آج چند سال سے ہمیں حقیقی اسلامی حکومت دستیاب ہے۔ یہ حکومت افغانستان میں امارتِ اسلامی کی صورت میں امیر المؤمنین شیخ ہبۃ اللہ اخند زادہ حفظہ اللہ کی قیادت میں معرضِ وجود میں آئی ہے۔ یہ واحد اسلامی حکومت ہے، اور امیر المؤمنین شیخ ہبۃ اللہ حفظہ اللہ وہ واحد شخص ہیں جن کے بارے میں ’امام المسلمین‘ اور ’امامِ اعظم‘ کی شرعی اصطلاح ثابت ہوتی ہے، کیونکہ ان کے زیر اختیار پورا ایک جغرافیائی ملک ہے۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ جہاد کو اگرچہ عملی طور پر علاقائی سطح پر جاری رکھا جائے، لیکن اگر مجاہدین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آئندہ بھی غلبہ حاصل کرنے کے بعد انھی لکیروں کو برقرار رکھیں گے جو مغرب نے کھینچ دی ہیں، اور نہ صرف برقرار رکھیں گے، بلکہ اس کے سبب ایک دوسرے سے اختلاف بھی برقرار رکھیں گے، تو یقینا ًیہ اسلام کے حکمِ اتفاق و اتحاد کے منافی ہو گا۔ ہم اس کے داعی نہیں ہیں کہ اسی وقت مجاہدین ہر ملک میں غلبہ پاکر امت کی سطح پر ایک وحدت کا اعلان کر دیں، یہ تو حالات و واقعات کی مناسبت سے ہی ہو سکے گا، لیکن اگر باطن میں بھی اپنی اپنی الگ حکومتیں قائم کرنے کا عزم ہو، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے درمیان بے اتفاقی اور نفی وحدت کا سبب ہو گا۔ جیسا کہ شام کی حالیہ حکومت کا کردار بتا رہا ہے کہ وہ امت کی سیاسی وحدت کی طرف کسی بھی قدم کے اٹھانے سے نہ صرف قاصر ہے، بلکہ ممکن ہے کہ مخالف ہو۔ لہٰذا چاہیے کہ اسلامی تحریکات خود کو امارتِ اسلامیہ افغانستان کے ساتھ منسلک کریں، اور امامِ اعظم کی حیثیت سے امیر المؤمنین شیخ ہبۃ اللہ حفظہ اللہ کو قبول کریں۔
  3. یہ سوال اکثر مجاہدین کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ کسی ایک ملک میں اگر متعدد جہادی جماعات ہوں تو ان میں وحدت کیسے قائم کی جائے؟ یہ سوال اہم بھی ہے اور اس کا جواب ضروری بھی ہے۔ اول تو یہ سمجھنے کی انتہائی ضرورت ہے، اور جسے ہم نے پورے مضمون میں بھی بیان کیا ہے، وہ یہ کہ اسلام نے جو وحدت کا حکم دیا ہے، وہ تمام مسلمانوں کے درمیان سیاسی وحدت کے قائم کرنے کا ہے۔ الگ الگ اسلامی ملکوں میں مسلمانوں کے درمیان وحدت قائم کرنا اس کا صحیح مدلول نہیں ہے، اگرچہ جزو ضرور ہے۔ کیونکہ اسلام کو تین بندوں کے سفر میں بھی ایک انتظامی وحدت قائم کرنے کا حکم دیتا ہے، تو کسی بڑے خطے کے مسلمانوں اور مجاہدین میں وحدت کا حکم کیوں نہ ہو گا۔ لیکن پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جب امامِ اعظم کے ہاتھ پر امت کی وحدت کا قیام ممکن ہے، تو واجب اسے حاصل کرنا ہے، اور ایسا کرنے سے حکمِ وحدت پر عمل ہو جاتا ہے، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ ایسا کرنے والا وحدت کا تارک ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی خطے میں یہی بات اولیٰ ہے کہ اس خطے میں جہادی تحریک ایک امیر کے تحت جاری ہو اور اسے امامِ اعظم کی سرپرستی حاصل ہو۔ لیکن اگر صورت حال یہ ہو کہ اس خطے میں ابتداء سے کئی جماعتیں برسرِ جہاد ہوں اور امامِ اعظم کی طرف سے کوئی ایک متعین امیر نہ ہو، تو ان میں وحدت قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارگی اور تعاون و مناصرت کی فضا قائم کریں، پھر جہادی امور میں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد و تحالف قائم کریں، اور پھر ایک دوسرے کے افکار و کردار پر اعتماد قائم ہونے کے بعد باہمی مشورے سے ایک شخص پر متفق ہو جائیں۔

تعددِ جماعات کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک جماعت منزل ِمقصود تک پہنچنے کے لیے اپنی فکرو تجربہ کے مطابق ایک راستہ کامیاب سمجھتی ہے، اس کی نظر میں دعوت و قتال کا کوئی خاص اسلوب اور دوست یا دشمن کے ساتھ تعامل کا کوئی متعین طریقہ ہی باعث ِ کامیابی ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابل دوسری برادر تنظیم اس سے بالکل جدا راستے کے ذریعہ مقصود تک پہنچنا چاہتی ہے۔ یہاں سوال جائز ناجائز کا نہیں بلکہ کامیابی یا ناکامی کا ہوتا ہے اور یہ سوال بذات خود کوئی غیر اہم نہیں ہوتا، کیوں کہ کوئی بھی مجاہد، شریعت کی پیروی کرتے ہوئے، صرف اُسی راستے کو اپنے کے لیے منتخب کرے گا جس پر چل کر منزلِ مقصود تک پہنچنے کا اسے غالب گمان ہو اور جس پر اس کو قلبی اطمینان ہو۔

سو امامِ اعظم کی سرپرستی میں اگر کسی خطے میں فکر و منہج اور پالیسی کے اختلاف کے سبب مختلف جماعات ہوں تو جب تک صدق و اخلاص موجود ہو، ان میں سے کسی جماعت کو غیر شرعی اور وجہ تفرقہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ایسی حالت میں واجب ہے کہ ہر جماعت اتباعِ شریعت و اخلاق حسنہ کو دانتوں سے پکڑ کر نیکی و خیر کے کاموں میں دوسروں سے تعاون کرے، افہام و تفہیم، مشاورت اور باہمی نصرت کا ماحول بنائے، ایک دوسرے کے لیے احترام و محبت دلوں میں پیدا کرے اور اتفاق و اتحاد کی ایسی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرے جو تعددِ جماعات کے مفاسد کے آگے بند باندھے اور شر کا راستہ روک کر خیر پھیلانے کا باعث بنے۔ پھر بالآخر اس راستے سے یہ تمام جماعات اپنے خطے میں ایک ایسی وحدت و اتفاق کی منزل تک پہنچ جائیں جہاں باطل نظام کو ہٹا کر ایک حاکم کے تحت اسلامی حکومت قائم ہو جو اہلِ حل وعقد کے مشورے سے وجود میں آئے۔

موجودہ حالات میں متعدد ایسی جماعتوں کے ہوتے ہوئے، جو شریعت کے دائرے میں رہ کر جہاد کر رہی ہوں، اگر کوئی ایک جماعت، چاہے کسی بھی عنوان کے تحت، خود کو اپنے زعم میں امامِ اعظم قرار دے کر یا اکثریتی گروہ دکھا کر، دیگر برادر جماعتوں پر زبردستی کرے، اور اپنی بیعت کو لازم قرار دے، تو یہ اسلام کے بیان کردہ اتحاد کے حکم کے منافی ہو گا، کیونکہ اسلام نے اتفاقِ ملت کو اسلامی اخلاق کے ساتھ جوڑا ہے۔ کسی بھی شخص یا گروہ کا خود کو دوسروں پر،بالخصوص جبکہ دیگر گروہ مخلص مجاہدین کے گروہ ہیں جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے بر سر جہاد ہیں ،مسلط کرنا چاہے، تو یہ اسلام کے بیان کردہ وحدت کے قیام کے طریقے کو یقیناً متاثر کرے گا، اور اس راستے سے مجاہدین کے درمیان وحدت اور اتحاد کی جگہ بے اتفاقی اور انتشار کا حصول یقینی ہے۔ گویا ایسا کرنا اسلام کے حکمِ وحدت پر عمل کرنا نہیں، بلکہ اس کی مخالفت کرنا ہے۔ اگر کوئی ایسا گروہ اپنے اس عمل کو وحدت کا نام دے تو مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ ایسا گروہ اپنے سیاسی عزائم کے لیے اسلام کے حکمِ وحدت کو ڈھال بنا رہا ہے۔ اگر کوئی مجاہد گروہ اتحاد مجاہدین کے لیے مخلص ہے تو اسے چاہیے کہ اسلام نے امیر کے تعین کے لیے جو مشورہ کا حکم دیا ہے، اس پر عمل کرے، اور اسلام نے جن مومنانہ اخلاقیات کا حکم دیا ہے، ان کی پابندی کرے۔

تنظیم القاعدہ نے شیخ اسامہ بن لادن کے زمانے سے مسلمانوں کو ایک امت کی شکل میں جمع کرنے کے لیے کوشش کی ہے، اور اس کوشش میں ہمیشہ اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ تنظیم کا مقصد مسلمانوں کو کفار اور ان کے آلہ کاروں سے آزادی دلانا ہے، اس کے بعد جہاں تک انتخابِ امیر کا تعلق ہے، تو یہ مسلمانوں کے اہل الرائے کے فیصلے پر کھڑا ہے۔ شیخ ایمن الظواہری نے اپنے اکثر بیانات میں ایسی خلافت کے قیام کو اپنا ہدف قرار دیا ہے، جہاں معروف عام ہو، منکر کی روک تھام ہو، عدل پر فیصلے ہوں اور شوری کے مطابق حکومت قائم ہو۔

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ایک جسم و جان کی شکل میں جمع فرما دیں، اسلام کو غالب فرما دیں اور مسلمانوں کو کفار اور ان کے آلہ کاروں سے آزادی دلا کر اسلام کے حقیقی اقتدار کے تحت زندگی گزارنے کا زمانہ نصیب فرمائیں، آمین۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین!

Exit mobile version