جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو رفح ملیا میٹ ہو چکا ہے، نجانے جب یہ سطور آپ پڑھ رہے ہوں گے تو (لا قدر اللہ) شاید غزہ ہی مٹ چکا ہو گا۔ اہلِ غزہ کہہ چکے ہیں کہ ’اب اہلِ غزہ کو زمین کے جغرافیے پر تلاشنے کی کوشش نہ کرو، اہلِ غزہ جنت میں آباد ہو چکے ہیں‘ اور اہلِ غزہ میں سے چند یہ بات کہنے کے بعد مجھے اور آپ کو، اس امت کے لوگوں کو، علماء و عوام کو، ڈاکٹروں، انجنیئروں، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں، فوجیوں وغیرہ وغیرہ کو ایک بات مزید بھی کہہ گئے ہیں، ایک مخاطب کرتا عنوان راقم و قاری پر چسپاں کر گئے ہیں: ’اے تاریخ کی بدترین امت!‘۔
اے تاریخ کی بد ترین امت! جھرجھری لیجیے! روئیے! چلائیے! جو کرنا ہے کر لیجیے۔ اہلِ غزہ اب یہ کہہ کر جنت میں آباد ہو چکے ہیں اور اہلِ غزہ کی نصرت نہ کرنے کے سبب آخرت میں سخت پکڑ ہم سب سے قریب ہے۔ اہلِ غزہ نے اللہ کے دربار میں نیتن یاہو اور ٹرمپ نہیں، پیران و امیرانِ حرم، لا الٰہ الا اللہ کہنے والوں کے خلاف ایک زبردست مقدمہ داخل کر دیا ہے۔ بیس لاکھ اہلِ غزہ کے اس مقدمے کی تائید کے لیے زمین و آسمان اور پانی و ہوا تک میرے اور آپ کے خلاف بطورِ گواہ آئے ہیں۔
یہ سطور اگر دیوانگی معلوم ہوں تو اللہ گواہ ہے اسی لیے لکھی جا رہی ہیں کہ کاش ہم دیوانے ہو جائیں، سنا ہے دیوانے مرفوع القلم ہوتے ہیں، ان کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ اگر ہم دیوانے نہیں اور ہوش و حواس ہمارے قائم ہیں تو پکڑ بہت ہی سخت ہے۔
بے غیرت و بے حمیت لکھا جائے یا وہ الفاظ جو اہلِ غزہ ادا کر گئے ہیں’اے تاریخ کی بد ترین امت!‘۔ایمان و غیرت، عشق و محبت، بغض و نفرت یہ سب ایسے جذبات ہیں جو چھپ نہیں سکتے۔ لیکن یہ ہمارا کمال ایمان ہے، کمال غیرت ہے، جھوٹا عشق، دھوکے باز محبت ہے جو ظاہر ہی نہیں ہوتی۔ اور ظاہر ہوتی ہے تو بس بائیکاٹ کیجیے اور مظاہرہ کیجیے، بس! اگر بائیکاٹ و مظاہرہ بھی نہیں کرتے تب تو ایمان کی خیر منائیے، یعنی بالکل ہی پرلے درجے پر کھڑے ہیں ہم۔ ایک پیپسی، ایک کوک، ایک چپس کا پیکٹ نہیں چھوٹتا، تو یہ رونا دھونا سب ٹسوے ہیں اور کچھ نہیں۔ لیکن سچ جانیے، اب جان کوک و پیپسی کے بائیکاٹ سے نہیں چھُوٹے گی۔ اب تو اعلان یہ ہے کہ ’گر جرأت ہے تو سر ڈالو‘۔ اب مطلوب چیز دیوانگی ہے، جذبات سے سر شار ہو کر میدانِ عمل…… نہیں میدانِ عمل کی نجانے کیا کیا تاویلات ہو جائیں…… میدانِ جہاد میں سر ڈالنا ہو گا۔ جذبات کی حدت کو بڑھانا ہو گا۔
یہ سطور نری جذباتیت نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنی آنکھوں سے قیامت کا منظر دیکھ لیں کہ بیس لاکھ اہلِ غزہ ہمارے خلاف داورِ محشر کے سامنے کھڑے ہیں، میرے اور آپ کے اور شافعِ محشر (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کے درمیان حائل ہیں، شدید پیاس کا عالم ہے، سورج سوا نیزے کی بلندی پر ہے، گوشت و ہڈیاں پگھل رہی ہیں، اور اہلِ غزہ حضور ﷺ سے کہہ رہے ہیں کہ یہی ہیں وہ ظالم جنہوں نے ہمیں قتل ہوتا اور ہمارے بچوں کو سربریدہ ہوتا دیکھا اور تنہا چھوڑ دیا اور روزِ قیامت شافع ﷺ کا نظریں پھیر لینا ایک نئی قیامت کا سبب بن جائے، کیا وہاں یہ سب باتیں جذباتیت ہی لگیں گی؟
آج امت اور سیادت و قیادتِ امت کا بڑا سخت امتحان ہے۔ ایسا امتحان جو صدیوں میں کبھی کبھی متوجہ ہوتا ہے۔ امتحان انتہائی سخت ہے، لیکن اس میں کامیاب ہو جانے والوں کے درجے بھی بڑے بلند ہیں۔ حق و باطل کی جنگ سے متعلق حقائق و براہین بھی بڑے واضح ہیں، آج جس قدر یہ امور واضح ہیں، پچھلی کئی دہائیوں میں اس قدر واضح نہ تھے۔ جہاد کسی خطے میں محدود جنگ کا نام نہیں ہے، یہ ایک عالمی عمل ہے، جس کے محاذ مقامی ہو سکتے ہیں۔ عالمی جہاد مقامی محاذوں کو اور مقامی محاذ عالمی جہاد کو مضبوط کرتے ہیں۔ آج کوئی مجاہد لاکھ بھی چاہے تو غزہ کے محاذ پر پہنچنا اس کے لیے نا ممکن ہے، لیکن اگر یہ مجاہد غزہ میں لڑتے مجاہدین کی جنگ یعنی قدس کی آزای کی جنگ لڑنا چاہے، معرکۂ طوفان الاقصیٰ میں شمولیت چاہے تو اسرائیلی و امریکی مفادات پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں، دنیا کا ہر خطہ اس لحاظ سے اسرائیل و امریکہ ہے۔
اس وقت پورے عالم میں جنگ ایک ہی جنگ ہے، جیسے کسی ایک ہی صف میں موجود زید، بکر اور عمر اپنے مقابل صف میں موجود علی الترتیب، ٹام، ڈِک اور ہیری سے لڑ رہے ہوں تو اگرچہ ہر ایک کا دشمن الگ الگ دکھے گا لیکن اصلاً یہ ایک ہی جنگ ہے جس کو ہر ایک الگ الگ لڑ رہا ہے۔ہم ان سطور کے ذریعے کچھ مساویوں (equations) کی مانند کچھ امور ثابت کرنا چاہتے ہیں، جن مساویوں کے نتائج پر ہم کچھ عملی کاموں کی طرف متوجہ ہو سکیں، ومن اللہ التوفیق!
ہر ذی شعور اس وقت بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل غزہ میں پچھلے ڈیڑھ سال سے جو جارحیت برپا کیے ہوئے ہے، یہ جارحیت امریکہ کے بغیر جاری رکھنا اس کے لیے نا ممکن تھا۔ امریکہ نے سفارت و سیاست سے لے کر اقتصادی و معاشی محاذ تک اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے، اعلام و میڈیا میں حمایت تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اور عسکری مدد بھی سب پر واضح ہے، غزہ میں گرنے والے بم امریکی اسلحہ خانوں میں بنائے گئے ہیں۔ امریکی غزہ کی فضا میں موجود ہیں اور غزہ کے پانیوں میں براہِ راست امریکی بحری جہاز اور کشتیاں تیر رہی ہیں۔ یوں اسرائیل کا دوسرا نام امریکہ اور امریکہ کادوسرا نام اسرائیل ہے۔
اس وقت اگر کوئی بھی امریکہ و اسرائیل میں تفریق کرے یا امریکہ و اسرائیل کی جنگ میں تفریق کرے تو ہمیں ایسے سادہ لوحوں کو سلام کہہ کر اپنی راہ لینی چاہیے۔ جس کسی کو غزہ کے لاکھوں بے گھر، زخمی، شہید، سربریدہ بچوں کی لاشیں یہ حقیقت نہیں سمجھا سکیں، وہ تا قیامت اس امر کو سمجھ نہیں سکتا۔ پس آج جو بھی جہاد کرنا چاہے وہ بخوبی جان لے کہ اسرائیل و امریکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
دنیا بھر کے علمائے کرام اور مفتیانِ عظام نے پچھلے چند ماہ میں جہاد کے فرضِ عین ہونے کے فتاویٰ جاری کیے، جن میں ایک فتویٰ حال ہی میں پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کا اعلامیہ بھی ہے، جو اسلام آباد سے ’فلسطین اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘کے عنوان سے نشر ہوا۔یہ فتویٰ اپنی اساس میں انتہائی شاندار فتویٰ ہے اور یہ فتویٰ بھی امتِ مسلمہ پر جہاد فی سبیل اللہ کے فرضِ عین ہونے ہی کا بیان ہے۔ اسی اعلامیے کی روشنی میں، اداریۂ ہٰذا کی سطور کے ذریعے ہم امت ِ مسلمہ خصوصاً پاکستان کے فاضل علمائے کرام اور مفتیانِ عظام کی خدمت میں چند گزارشات عرض کرنا چاہتے ہیں۔
بیان کیا گیا ہے کہ غزہ میں جو ظلم و وحشت جاری ہے اس کے بعد اب زبانی جمع خرچ سے عند اللہ گلو خلاصی نہیں ہو سکتی۔ اس اعلامیے میں کہا گیا کہ مسلم حکومتوں اور ان کی افواج پر جہاد فرضِ عین ہو چکا ہے۔
[مجلّۂ ہٰذا نشر و طباعت کے لیے تیار تھا کہ ایسے میں پہلگام واقعہ رونما ہوا، ہندوستان و پاکستان کے درمیان جنگی تناؤ بڑھا اور پھر ہندوستان نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب ’آپریشن سندور‘ کے نام سے ایک حملہ پاکستان کے مختلف مقامات پر فضائی کارروائی کی صورت میں کر دیا۔ اس کارروائی کے نتیجے میں مساجد اور عوام الناس شہید ہوئے۔ پاکستان فوج نے آپریشن سندور کے جواب میں آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کیا۔
مملکتِ خداداد پاکستان ’لا الٰہ الا اللہ‘ کے نام پر وجود میں آئی۔ ہندوستان نے اگر پاکستان پر حملہ کیا تو اس کا سبب بھگوا بھارت کی اسی لا الٰہ الا اللہ سے دشمنی ہے۔ اس ’لا الٰہ الا اللہ‘ کی خاطر ارضِ پاکستان کا دفاع مجاہدینِ اسلام اپنا ایمانی فرض سمجھتے ہیں۔ مجاہدین اور دنیا بھر سے اہلِ اسلام نے اسی ’لا الٰہ الا اللہ‘ کی نسبت سے بھارتی جارحیت کا رد کیا اور جس قدر ممکن ہوا بھگوا بھارت کی عملی مخالفت کی۔
پاکستان فوج نے آپریشن بنیان مرصوص کی صورت بھگوا بھارت کے کئی لڑاکا طیاروں اور فوجی اڈوں کو تباہ کیا۔کچھ کو امید ہوئی کہ یہی پاکستان فوج شاید وہ فوج ہے جو غزوۂ ہند لڑے گی، جو بھارت کے حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑے گی۔ بنیان مرصوص جاری تھا، لیکن امریکی صدر ٹرمپ کی ایک فون کال پر ’غزوۂ ہند‘ کو معطل و منسوخ کر دینے کا فیصلہ ہوا۔ امریکہ و اسرائیل و بھارت ہوں یا انہی ائمۃ الکفر کے غلاموں کے خلاف جہاد، یہ کوئی جذباتی بات نہیں ہے۔ جنگوں میں اترنا جذباتیت نہیں، ایمان و عقیدے کے بعد جنگوں میں اترنا گہرا تجزیہ و لائحہ اور جنگی سٹریٹیجی کا متقاضی ہوتا ہے۔ لیکن اہلِ اسلام کی جنگ میں ایمان تا سٹریٹیجی کوئی ٹرمپ املا نہیں کروایا کرتا۔ اداریۂ ہٰذا کی آئندہ سطور میں اولاً مذکور ’مساویے‘ (equations ) موجود ہیں اور یہ مساویے حالیہ پاک بھارت جنگ اور پاکستان سمیت دیگر مسلم افواج کی حقیقت کو بھی عیاں کر دیں گے، اللھم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ، آمین!]
مسلم ممالک کے حکمرانوں اور مسلم ممالک کی افواج جن میں سرِ فہرست پاکستان، مصر، سعودی عرب، ترکی، عرب امارات، اردن وغیرہ کی افواج شامل ہیں، علی الاعلان، امریکی بلاک کا حصہ ہیں، یہ افواج اعلانیہ و فخریہ امریکہ و نیٹو کی فرنٹ لائن اتحادی، نیٹو اتحادی اور نان نیٹو اتحادی ہیں۔ ان میں سے اکثر مثلاً ترکی، عرب امارات اور مصر اسرائیل کے وجود کو مانتے ہیں، ان کے ساتھ سفارتی، اقتصادی و عسکری حتیٰ کہ سیاحت تک کے انتہائی قریبی تعلقات سے متمتع ہوتے ہیں۔ کیا وہ جو مشرقِ وسطیٰ تا برِّ صغیر امریکہ و اسرائیل کے اعلانیہ اتحادی ہیں، ان سے ہم مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل و امریکہ کے خلاف جہاد کریں؟
اسلام آباد میں اس تحریض علی الجہاد اور اعلانِ جہاد کے بعد اسلام آباد و راولپنڈی ہی میں جس حاکم و سپہ سالار ، فیلڈ مارشل کو جہاد کا کہا جا رہا ہے، اس کا جواب اس کے عمل سے ہمارے سامنے ہے، جہاں وہ امریکی وفد سے مل رہا ہے اور ان کا اتحادی، بلکہ اپنے آپ کو ان کا خادم باور کروا رہا ہے۔ یہی سپہ سالار جس کو بنیان مرصوص کو کم از کم اس وقت تک جاری رکھنا چاہیے تھا جب تک کہ وہ کم از کم الأقرب فالأقرب کے قاعدے کے تحت کم از کم کشمیر ہی آزاد کروا لیتا، لیکن یہی سپہ سالار ٹرمپ کی ایک فون کال پر ڈھیر ہو گیا۔ مومن سادہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مومن ایک ہی سوراخ سے دو بار ڈسا جاتا ہے۔ جہاد کے فرض ہونے کا بیان آج سے ڈھائی دہائی پہلے بھی ہوا تھا، جب امریکہ اپنے چار درجن اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان پر ٹوٹ پڑا تھا، تب بھی انہی عہدوں پر موجود کچھ لوگ تھے، یہی افواج تھیں جنہوں نے افغانستان کی اسلامی حکومت کی پیٹھ میں خنجر گھونپا تھا۔ یہی مملکتِ خداداد پاکستان کی فضا ستاون ہزار بار ٹام ہاک و ڈیزی کٹر بم، قندھار و غزنی پر برسانے کے لیے استعمال ہوئی تھی۔ اسی اسلام آباد میں امارتِ اسلامی افغانستان کے سفیر کو مادر زاد برہنہ کر کے چکلالہ ائیر بیس پہنچایا گیا تھا اور وہاں سے امریکی سی ون تھرٹی طیارے میں لاد کر گوانتانامو بھجوایا گیا تھا۔ پرویز مشرف کی کتاب ’اِن دی لائن آف فائر‘ شاہد ہے کہ اس نے چھ سو سے زیادہ مجاہدوں کو پیسوں کے بدلے امریکہ کو بیچا۔ عافیہ صدیقی سی مجروح روح سے کون واقف نہیں؟ بے شک غزہ میں جو تباہی آج صلیب و صہیون کے بیٹے کر رہے ہیں بہت ہی شدید ہے، لیکن ۲۰۰۷ء کے جولائی میں لال مسجد و جامعہ حفصہ میں جو سیکڑوں طالبات کو فاسفورس سے جلایا گیا، غزہ میں جو آج ہو رہا ہے یہی منظر ہم نے تب اسلام آباد میں بھی دیکھا تھا، آپریشن سائلنس لال مسجد کے بعد بش نے اس فوج کو شاباش دی تھی۔ یہی فوج ہے جس پر پچھلی آٹھ دہائیوں سے جہادِ کشمیر فرضِ عین تھا، لیکن اسی فوج اور اس کے جرنیلوں نے تحریکِ جہادِ کشمیر کو ’abandon‘ کیا۔ ڈرون حملوں کے لیے جیکب آباد، سبی اور شمسی ائیر بیسیں امریکیوں کو حوالے کیں، گوادر بندر گاہ پر امریکی ٹینکوں کی زنجیروں اور ہموی گاڑیوں کے دیو ہیکل ٹائروں کے نشان ثبت ہوئے۔ اسامہ بن لادن کو اسی فوج کے کیانی و پاشا نے بیچا۔ وزیرستان تا سوات اپنے ہی قبائل کو آتش و آہن کی بارش سے جھلسایا، بلوچستان کا زخم ہمارے سامنے ہے۔ یہ واضح رہے کہ یہ لکھنے والے ’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ کے نام پر بننے والی مملکتِ خداداد کے ایک لحظے کے لیے بھی مخالف نہیں رہے، حاشا وکلا! ہم تو ان وردی و بے وردی حکمرانوں اور ان افواج کے نامۂ اعمال کی انتہائی ہلکی سی جھلک آپ کو پیش کر رہے ہیں۔ کیا یہی فوج ہے، کیا یہی حکمران ہیں جن سے ہمیں جہاد کی توقع ہے؟
ہمارے یہ اپنے ہی فوجی بھائی ہیں جنہوں نے امریکہ کی خاطر ہمیں بیچا ہے، اس مملکتِ خداداد کو بیچا ہے، لا الٰہ الا اللہ کو بیچا ہے، بنگال سے لے کر نیلم تک کی بیٹیوں کو بیچا ہے۔ پھر اگر کوئی حق گو انہی میں پیدا ہوا تو انہوں نے اس کا حشر چیف آف جنرل سٹاف جنرل شاہد عزیز اور کور کمانڈر کراچی جنرل مظفر حسین عثمانی کی صورت کیا، اپنے ہی پیٹی بھائیوں نے اللہ کے بجائے امریکہ کا کلمہ پڑھ کر ان دو جرنیل مجاہدوں کو شہید کر دیا۔
جب کولن پاؤل نے پرویز مشرف کو فون کر کے پتھر کے زمانے میں دھکیل دیے جانے کی دھمکی دی 1جیسے آج تجارتی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی ٹرمپ نے عاصم منیر کو بذریہ شہباز شریف دی! (اگرچہ بعض ذرائع کہتے ہیں کہ یہ دھمکی کبھی دی ہی نہیں گئی یہ سب افسانے ہیں، مشرف پہلے ہی یہ سب کرنے پر آمادہ تھا) تو پرویز مشرف اپنے جرنیلوں اور سپاہیوں سمیت اس جنگ میں کود پڑا تھا، جنرل کیانی کی آفیسرز کے سامنے کی گئی کئی گفتگوئیں اس پر شاہد ہیں (حالانکہ وہ اس وقت میجر جنرل کے عہدے پر تھا جو کہ ایسے فیصلوں کے لیے بہت زیادہ decision making رتبہ نہیں ہے)۔ پھر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔
ہم آج غرناطہ کے ابو عبد اللہ سے، بنگال کے میر جعفر سے، دکن کے میر صادق سے کہہ رہے ہیں کہ تم پر اہلِ غزہ کی نصرت کے لیے جہاد فرضِ عین ہے! ہماری باتوں کا برا نہ مانیے! آپ تو اس امت کے طبیب ہیں، آپ ہی تو وارثِ انبیاء ہیں، اسی لیے تو یہ بپتا ہم آپ کے سامنے سناتے ہیں۔ لیکن یہ بپتا بھی تو ہماری کوئی ذاتی بپتا نہیں ہے۔ یہ تو تاریخ کے یحییٰ خانوں، نیازیوں، مشرفوں اور کیانیوں کی کہانی ہے۔ جنہوں نے اہلِ غرناطہ کے دین و ایمان اور ان اہلِ دین و اہلِ ایمان کی جانوں اور عزتوں کا سودا کیا، جنہوں نے اپنے ہی سراج الدولہ کو شہید کروایا، جنہوں نے اپنے ہی ٹیپو سلطان کو بیچا۔
شریفِ مکہ حسین جس نے خلافتِ عثمانیہ کو توڑا، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن کو گرفتار کر کے بیچا، اسی کی نسل آج اردن پر قابض ہے، اسی کا پڑ پوتا شاہ عبد اللہ دوئم اور اس کی بیوی اسرائیل میں قتل ہونے والے صہیونیوں پر آنسو بہاتے ہیں۔ یہ مصر کی سرزمین میں بیٹھا سیسی، یہی تو اہلِ غزہ کو روٹی کا ایک سوکھا ٹکڑا پہنچنے نہیں دیتا۔ یہ ابنِ سلمان ہی تو ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کی ہے، جو ٹرمپ کے حالیہ دورے میں دونوں ہاتھ سینے پر باندھ باندھ کر اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر ٹرمپ کا شکر گزار ہے۔ یہ امارات کا ابنِ زاید ہی ہے، جس نے غزہ میں زخمی ہونے والے صہیونی یہودی سپاہیوں کے لیے دبئی میں شباب و شراب کا انتظام تا دمِ تحریر کر رکھا ہے، جو اپنے ملک میں ایک فوجی یہودی رِبّی کے قاتل غیرت و عزیمت کے پاسبان ان چار ازبک نوجوانوں کو پھانسی دینے والا ہے، اسی نے عربوں کی بیٹیوں کو ننگے سر ابھی ٹرمپ کے سامنے رقص کروایا ہے۔ قطر کا تمیم چالیس کروڑ ڈالر کا جہاز امریکیوں کو تحفے میں دے رہا ہے اور اس کے پاس اہلِ غزہ کی نصرت کو کیا ہے، چند کھوٹے سکے، کچھ مونگ پھلی کے ڈبے؟ کیا ہمیں انہی سے توقع ہے کہ یہ جہاد کریں گے؟
ضرورت تو آج یہ ہے کہ سنتِ حسین ابنِ علی کو زندہ کیا جائے، سنتِ عبد اللہ ابنِ زبیر کو زندہ کیا جائے، سنتِ زین العابدین کو زندہ کیا جائے اور زین العابدین کا ساتھ دینے والے امامِ اعظم ابو حنیفہ کی سنت پر عمل کیا جائے، اور یہ پاکیزہ ہستیاں تو فاسقوں فاجروں کے خلاف عَلَمِ جہاد بلند کرنے والی تھیں، ان دو چار اموی و عباسی بادشاہوں نے کسی روم کے قیصر، کسی ایران کے کسریٰ، کسی خیبر کے مرحب کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ آج ہمارے یہ حکمران تو قیصرِ زمانہ ٹرمپ کے دوست ہیں، یہ مرحبِ وقت نیتن یاہو کو جزیرۃ العرب میں بلواتے ہیں اور اس سے سازباز کرتے ہیں، ان کا عمل تو عبد اللہ ابن ابی سلول سے بھی بدتر ہے، ابنِ سلول تو اپنا نفاق چھپاتا تھا، یہ تو یہود و نصاریٰ سے اپنی ولایت و محبت کا اعلان اعلانیہ کرتے ہیں۔ قارئینِ کرام ہماری اس بے باکی پر ہمیں عذر دیجیے، جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو مکہ مکرمہ کے پڑوس میں، شہرِ جدہ میں ایک امریکی فاحشہ جینیفر لوپز اس وقت عریانی و برہنگی کو بھی شرماتا ایک رقص پیش کر رہی ہے…… کیسی قیامت ہے کہ راقم یہ سطور لکھتے ہوئے اور قاری یہ سطور پڑھتے ہوئے زندہ ہیں، یہ جزیرۃ العرب ہے، رسول اللہ ﷺ کا وطن ہے، یہیں آپ کا روضۂ اطہر ہے، یہیں جبریلِ امین وحی لے کر اترا کرتے تھے، قدسیوں نے اسی سرزمین کو اپنے لہو سے سینچا تھا، یہ حرمین کی سرزمین ہے، یہیں اسی سرزمین کے پڑوس میں غزہ کی بیٹیاں قتل ہو رہی ہیں اور ہم بھی…… ہم بھی کیا سادہ ہیں اسی عریانی کو برپا کرنے والوں سے ہمیں امیدِ جہاد ہے؟ ہم کہہ رہے ہیں کہ تم پر جہاد فرضِ عین ہے!
اللہ کی قسم! جہاد تو خائنوں، ان فاسقوں، ان فاجروں، یہود کے حامیوں، صلیب کے محافظوں، اللہ کی شریعت کی جگہ ’حکم بغیر ما أنزل اللہ‘ نافذ کرنے والوں کے خلاف فرضِ عین ہے! یہی تو ہیں جنہوں نے اسلام آباد سے لے کر ریاض و قاہرہ تک کے زندانوں میں مجاہدوں کو قید کر رکھا ہے۔ یہی تو محمدِ مصطفیٰ نبی الملاحم ﷺ کے غلاموں کو غزہ پہنچنے نہیں دیتے، انہی کی جاسوسی پر ایل او سی پار کر کے جانے والے غزوۂ ہند کے سپاہی پیر پنجال میں جامِ شہادت نوش کر جاتے ہیں!
اب اگر ایسے حکمرانوں کے خلاف بغاوت، خوارج کا طریقہ اور دہشت گردی ہے تو اللہ کی قسم! ہمیں قیامت کے دن ابنِ سلول کی روحانی اولادوں کے مذہب سے خروج کرنے والے خوارج میں ہی ہونا پسند ہے، ہمیں دہشت گرد ہونا ہی پسند ہے، ہم غزہ کے سربریدہ بچوں کے قاتلوں کے حامی باوردی جرنیلوں اور عربی قباؤں میں ملبوس امیروں اور بادشاہوں کے ساتھ قیامت کے دن کھڑا ہونے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
بطورِ مثال مان لیا کہ یہ تکفیریت اور خوارج کا طریقہ ہے، لیکن ہمیں تو یہی حکمران ولی الامر لگتے ہیں، شرعی اولو الامر! کیا شریعت نے خوارج کے بھی کچھ حقوق بیان کیے ہیں؟ شریعت تو جانور کو بھی تیز چھری سے ذبح کرنے کا حکم دیتی ہے کہ اس کو تکلیف نہ پہنچے۔ لیکن ہمارے یہ ’اولو الامر‘، یہ کیانی، یہ باجوہ، یہ عاصم منیر، ان کے حکم پر مجاہدینِ اسلام کو پنجاب کے ڈیموں اور بیراجوں میں ان کے گیٹوں اور دیو ہیکل گراریوں میں ڈال کر قیمہ کیا جا رہا ہے۔ ڈرل مشینوں سے ان کے جسم ادھیڑے گئے ہیں۔ استریوں سے ان کو داغا گیا ہے۔ یہ مجاہد ہیں، یہ مرد ہیں، ان کی بات رہنے دیجیے۔ ان کی عفیفہ ماؤں کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے، ان کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ مجاہدوں کی بیویوں کی عصمت جیلوں میں تار تار کی گئی ہے۔ صرف سوشل میڈیا پر جہاد کی حمایت کرنے والی کتنی عفیفات کو آئی ایس آئی کے غنڈوں نے اٹھایا ہے، جن کے چہروں کو غیر محرم نے نہیں دیکھا تھا، ان کا نقاب نوچا گیا ہے، ان سے برقعے چھینے گئے ہیں۔ مانا یہ سب خوارج ہیں، لیکن کیا شریعت ان خوارج کے بھی کچھ حقوق بیان کرتی ہے؟ ان کو خوارج جس نے کہنا ہے وہ کہے، لیکن کم از کم اتنے حقوق تو دے دے جو اقوامِ متحدہ کا چارٹر بیان کرتا ہے، جن حقوق کی آواز ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ اٹھاتے ہیں۔ آمنہ مسعود جنجوعہ بھی خارجیہ ہے کیا؟ سمی دین بلوچ جن بلوچوں سے وابستہ ہے ان کے افکار و طریقِ کار پر ہزار بات ہو سکتی ہے، لیکن ہے تو وہ بھی کسی کی بیٹی، سرِ بازار اس بیٹی کا دوپٹہ نوچنا انسانیت اور غیرت ہے؟ جن کے ہاتھوں اپنی قوم کی، مشرقی پاکستان کی بیٹیاں محفوظ نہ ہوں، جو بلوچستان میں چادر چھیننے والے ہوں، جو اسلام آباد کے ڈی چوک پر لاپتہ افراد کی بیویوں، بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں کے حجاب نوچتے ہوں، کیا یہی غزہ کی نصرت کو نکلیں گے؟
اہلِ غزہ کے حق میں مظاہرہ کرنے کی جو حکومت اجازت نہ دے، جو غزہ کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں کو اپنی گاڑیوں سے کچل کر شہید کرے، ان پر جہاد فرض نہیں ان کے خلاف جہاد فرض ہے!
یہ ہے وہ مساویہ، وہ equation جس کی اولاً بات کی گئی تھی۔
گھر میں جب آگ لگی ہو تو اس کو بجھایا جاتا ہے۔ ڈاکو گھر میں گھس آئیں تو جو چھری، چاقو، ڈنڈا، ہتھوڑا ملے اس سے وہیں ڈاکوؤں کو مارا جاتا ہے یہی انسانی طرزِ تعامل ہے، مرغی سے اس کے چوزے چھینیں گے تو وہ اپنے چونچ و پنجوں سے لڑ مرنے کو تیار ہو جائے گی۔ یہ قانونِ فطرت ہے! یہی حکمِ شریعت ہے!
پس آج پوری امتِ مسلمہ کو یہ دو باتیں ازبر کر لینے کی ضرورت ہے۔ ایک، امریکہ و اسرائیل میں کوئی فرق نہیں۔ دو، امریکی اتحادیوں سے امید رکھنا ایسا ہی ہے جیسے فرعون کے مقابل قارون سے امید رکھنا، قارون حضرتِ موسیٰ علیہ السلام ہی کا ہم قوم تھا لیکن مصاحبِ فرعون تھا۔
ہم امتِ مسلمہ کے سامنے، شہیدِ اسلام، سپہ سالارِ مجاہدینِ اسلام ابو خالد محمد الضیف کا پیغام پیش کرتے ہیں:
’’ اے اردن و لبنان، مصر و الجزائر، مراکش اور پاکستان، انڈونیشیا و ملائیشیا اور کل عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں بسنے والے ہمارے لوگو!
آج ہی نکلو اور فلسطین کی طرف چلنا شروع کردو ۔ کل نہیں! آج اور ابھی!آج ہی روانہ ہو جاؤ! ان سرحدوں، حکومتوں اور پابندیوں میں سے کوئی بھی تمہیں جہاد میں شرکت اور مسجدِ اقصی کی بازیابی کا شرف حاصل کرنے سے محروم نہ کر سکے!
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
’’(جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہو، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال و جان سے اللّٰہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘
آج ہی وہ دن ہے (کہ جب جہاد کے لیے نکل کھڑا ہوا جائے)۔ پس جس کسی کے پاس بندوق ہو تو وہ اسے لے کر نکلے، کہ یہی اس کا وقت ہے۔ اور جس کے پاس کوئی بندوق نہیں تو وہ اپنے خنجر اور چاقو، ہتھوڑے اور کلہاڑے لے کر نکلے، یا اپنے دیسی ساختہ بم، یا اپنے ٹرک اور بلڈوزر یا اپنی گاڑی… …کہ آج کا دن ہی وہ دن ہے(کہ جب جہاد کے لیے نکل کھڑا ہوا جائے)!
تاریخ نے اپنے سب سے روشن، ممتاز اور ذی عزت و شرف صفحات پھیلا دیے ہیں، تو کون ہے جو نور و سعادت کے ان صفحات میں اپنا، اپنے خاندان اور اپنے علاقے کا نام لکھوائے؟
اے ہماری ملّت کے بیٹو! اور اے پوری دنیا کے مردانِ حُر!……وہ حکومتیں جنہوں نے غاصب اسرائیل کے ساتھ اپنی حمایت و تعاون جاری رکھ کر اسرائیل کے جرائم کی پردہ پوشی کی اور خود بھی اس کے جرم میں شریک رہے، ان کا راستہ روکو!
آج کا دن عظیم انقلاب کا دن ہے۔ اس دنیا میں قائم آخری قابض اور نسلی تعصب پر مبنی آخری نظام کو ختم کرنے کے لیےاٹھنے کا دن آج ہی کا دن ہے!‘‘
آج پانی سروں پر سے بھی گزر چکا ہے اور پلوں کے نیچے سے بھی بہہ چکا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جو نفیر عامِ دیتے دیتے محمد الضیف شہید ہو گئے تو اسی نفیر پر لبیک کہنے کا وقت ہے! امت کے مجاہد بیٹو!
کل نہیں آج نکلو! بڑھو فرعونِ امریکہ کے آگے، نمرودِ اسرائیل کے آگے لا الٰہ کہہ دو!
اے چاند ستارو، مہ پارو!____کچھ کر ڈالو!
اُمت کی تجوری خالی ہے
دل ،جگر ،جواہر بھر ڈالو
سوچوں سے بجھی ہے آگ کبھی؟
گر جرأ ت ہو تو سر ڈالو!
اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!
اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
- 1جیسے آج تجارتی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی ٹرمپ نے عاصم منیر کو بذریہ شہباز شریف دی!