آخر جہاد ہی سے لاپروائی کیوں؟

آٹھ سالہ درس نظامی کی تعلیم و تربیت میں بے شک ایک طالب علم اپنے اساتذہ کے سہارے اور دعاؤں ہی کی بدولت چل پاتا ہے۔ خدا کا یہ فضل خاص ہوتا ہے کہ اساتذہ بہت فکر مند اور تربیت پر پوری توجہ دینے والے ہوتے ہیں جنہیں اپنی دنیا سنوارنے کی کوئی غرض نہیں ہوتی لیکن آخرت کے ذخیرے کے لئے وہ تمام ذاتی اغراض و مفادات سے بالاتر ہوکر طالب علم کو نصیحت کرتے اور مشورے عنایت فرماتے ہیں۔ ان خدا پرست اور خدا ترس انسانوں کے احسان کا بدلہ اس دنیا میں بالکل نہیں چکایا جا سکتا سوائے اس کے کہ ایک احسان شناس ان کے لئے تہہ دل سے ربِّ ذوالجلال کی بارگاہ میں دعا گو رہے اور ان محسنین کی خدمت میں گاہے بگاہے عجز و نیاز و تشکر کی حاضری لگائے۔

ان سب امور سے ہٹ کر ایک چیز جو قابل غور ہے وہ یہ کہ جس نظام کے تحت زندگی کا یہ پہیہ چل رہا ہے اس کی خرابیوں اور اس کے باطل ہونے سے سب ہی واقف ہیں مگر پھر بھی جب کوئی اس کے خلاف دعوتِ مقاومت تو کجا خود اپنے طور ہی ہمت کر کے حق کے اس قافلہ سے جا ملنے کا ارادہ بھی رکھے تو اس کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، یہ کہہ کر کہ یہ قدم اکابر کی منشا و فکر نہیں ہے۔ اکابر و اسلاف اور علمائے ملت کا ہم فکر ہونا بلا شبہ اچھی ذہن سازی ہے مگر ہمارے یہاں اسی کو معیارِ حق تصور کرلینا اور دوسری کسی بھی شریعت سے مستنبط فکر کو رد کردینا بھی ایک غلط روش ہے جو لاشعوری پور پر ہم اپناتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے، یہ سمجھنا کہ ہر معاملے میں موجودہ معروف و مشہور اکابر ہی کی رائے درست اور صرف درست نہیں 100 فیصد درست ہے اور خطا سے منزہ ہے، بالکل غلط نظریہ ہے۔ چنانچہ اس نظریہ کے پختہ ہو جانے کے بعد کوئی طالب علم یا فاضل 100 فیصد درست اور شرعی بلکہ عزیمت پر مبنی قدم اٹھانے سے بھی ہچکچاتا ہے اور شش و پنج کا شکار رہتا ہے کہ یہ تو اکابر کی منشا کے خلاف ہے۔ اور اگر وہ ایسا قدم نہ اٹھائے یا رجوع کر لے تو اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہو گی کہ اس نے اکابر کے ساتھ چلنے کو ترجیح دی۔ اسی نظریہ کو آڑ بنا کر ہم جیسے کمزور ایمان والے اپنی بزدلی بھی با آسانی چھپا جاتے ہیں، ساتھ ہی غیر شرعی نظام سے مفاہمت اور کفر کے حمایتی اور حمایت یافتہ حکمرانوں سے بھی کسی قدر راضی نظر آتے ہیں۔

بہت عجیب بات ہے کہ منصوص طریقے پر محنت کرنے اور عزیمت والے مبارک عمل یعنی جہاد کے لئے قدم اٹھانے (جس کا اوّل و آخر درجہ فرض ہی کا ہے) کو اکابر کی راہ سے بے راہروی اور غیر مناسب سمجھا جاتا ہے۔ ساری زندگی قرآن و سنت اجماع و قیاس پڑھنے کے بعد ایک نئی اصل کا اضافہ کیا جاتا ہے وہ ہے اکابر پرستی۔ اس اصل کو سامنے رکھ کر قرآن و سنت کے ذریعے معارضہ کرنا گستاخی تصور کیا جاتا ہے۔

جہاد آج کے عام مسلمانوں میں تو دور کی بات امت کے خاص طبقۂ اہل علم نے بھی اس سے غفلت برت رکھی ہے۔ نہ اس کا ویسا تذکرہ ہے جیسا اس کا حق ہے نہ اس پر ویسی تحریض و ترغیب ہے جیسا قرآن تقاضا کرتا ہے اور نہ ہی جذبۂ جہاد اور شوق شہادت کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ہاں قرآن میں وارد جہادی آیات کا پس منظر تو بتایا جاتا ہے، صحاح ستہ میں وارد احادیث بھی پڑھائی جاتی ہیں، صحابہ کرام کے واقعات بھی سنائے جاتے ہیں لیکن جب قربانی کا تقاضا رکھنے کی بات ہوتی ہے یا جہاد کی فقہ الواقع کے تناظر میں بات کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس طرف شاید کسی کا ذہن نہیں جاتا البتہ ان تمام منصوصات اور واقعات تاریخیہ کے بیان کے بعد دین کی خدمت کی رائج شکلوں (جن پر تنقید مقصود نہیں) کی خاطر اپنے آپ کو فارغ کرنے 40 دن، 4 مہینے، ایک سال، ساری زندگی کے لئے اپنے آپ کو متعارف شدہ تبلیغ، تدریس، سیاست جمہوریہ(جس کی شرعا کوئی گنجائش بھی نظر نہیں آتی) اور امامت و قراءت کے لئے تیار کرنے کی ترغیب چلتی ہے جبکہ یہ سارے ذرائع کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہم ان کو مقصود سمجھتے ہیں کہ یہی آخرت کی کامیابی و کنجی ہیں۔

اس عظیم عمل کی تیاری اور اس پر اقدام کے لئے اگر کوئی اپنے اساتذہ سے مشورہ کرتا ہے تو اس کو اس جرأت سے باز رہنے اور کسی اور شعبے میں اپنے آپ کو مصروف رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اور وجہ اس کی یہی ہوتی ہے کہ اکابر جب ہمیں اس میدان میں نظر نہیں آ رہے تو ہم کون ہوتے ہیں جانے والے؟ حالانکہ یہ بات سوچنے کی ہے کہ جن اکابرین نے یہ کام کیا وہ شہادت کی منزلیں پا کر جنتوں میں مزے کر رہے ہیں اور اب بھی بہت سی ایسی عظیم ہستیاں ہیں جو اس میدان میں مصروفِ عمل ہیں مگر چونکہ امت نے مجاہدین اور جہاد کو بیگانہ سمجھا لیا ہے تو ان اکابرین تک کسی کی رسائی نہیں یا ان کا پیغامِ جہاد ہم تک نہیں پہنچ پاتا اور آج کا دجالی میڈیا ہمیں اس عالی ہمت طبقہ کی سوچ و فکر سے دور رکھنے کے لئے ساری رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے اور ان کی صدا ہم تک پہنچنے سے روکتا ہے۔

بات یہ ہے کہ اکابر کا کسی عمل کا کرنا یا نہ کرنا اس کے جائز و مناسب ہونے کی دلیل نہیں اور عزیمت کی راہ کو تو بہر حال غیر مناسب کہا ہی نہیں جا سکتا۔ دلیل تو امت کے لئے عموماً اور طبقہ اہل علم اور ایک آٹھ سالہ علوم شریعت کی تعلیم حاصل کرنے والے فاضل کے لئے خصوصاً قرآن و سنت ہی ہے اس سے روگردانی کی کوئی صورت کسی صورت نظر نہیں آتی۔ میرے ناقص خیال کے مطابق اکابرین کے عمل یا ان کے طرز پر چلنے کی کوئی فضیلت یا اسی کو اختیار کرنے کی ترغیب قرآن و سنت میں وارد نہیں ہوئی ہے۔ ہاں! اعمال کی اپنی فضیلتیں وارد ہیں اور قرون اولی مشہود لہا بالخیر کی فضیلت بھی مل جائے گی۔ صحابہ کرام ﷢کی پیروی اور ان کو مقتدا بنانے کے نصوص پندرھویں صدی کے اکابرین کو (ہر صورت اور عمل میں) مقتدا بنانے کی ترغیب سے زیادہ قوی ہیں اور اس پر کامیابی کی بشارتیں بھی ملتی ہیں۔ جہاد کے سفر کی ایک شام یا ایک صبح بلکہ غبار کے اڑنے والی فضیلت کا کون منکر ہو سکتا ہے؟ اللہ کی حبیب ﷺ نے ایک مجاہد کے جہاد کے سفر کو ایسے روزے دار اور قائم فی الصلاۃ کے اعمال کو جو اس کی سفر کی مدت تک جاری رہیں جس میں فطور و فتور نہ ہو، اس سے بھی زیادہ افضل قرار دیا ہے۔ شہادت کی تمنا تو نبی الملاحم ﷺ خود کرتے نظر آتے ہیں اور معرکوں میں اسے تلاش کرنے کی ترغیب بھی دے رہے ہیں۔ عاشقان اور فدائیان رسول ﷺ کوئی ایسی فرصت ضائع نہیں ہونے دیتے کہ جس میں شہادت فوت ہو بلکہ غسل جیسی فرض طہارت اور چند کھجوروں کا کھانا بھی ان کو شوق جنت کے سامنے گراں گزرتا ہے۔

اللہ کی راہ میں لڑنا ، اپنا خون بہانا اور جان دے دینا اس سے بڑھ کر دین کی اور کیا خدمت ہو سکتی ہے؟ مگر آج اس اہم ترین فریضہ سے ہمارے مدارس میں خاموش انداز میں دوری دکھائی جا رہی ہے۔ تبلیغ و تصوف کی بات تو ہو جاتی ہے، جمہوری سیاست میں اپنے کردار کو بھی اجلا دکھا دیا جاتا ہے مگر جہاد سے راہ کترائی جاتی ہے(حالانکہ جمہوری طرز صرف مختلف فیہ ہی نہیں بلکہ اپنی تمام غیر شرعی خامیوں سمیت ہم پر عیاں ہے جو اس کے ناجائز ہونے کی روشن دلیل ہے)۔ لیکن افغانستان کی فتح کا ہار بھی اپنے گلے میں ڈالا جاتا ہے۔ کہاں وہ افغان مسلم قوم جس نے اپنا خوں بہا کر شریعت الہٰی کو نافذ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور کہاں ہم کہ جن کو ان کے ساتھ شریک ہونے سے بھی یہ کہہ کر روک دیا جاتا کہ وہاں لڑنا کارآمد نہیں، مصلحت کے خلاف ہے، حکمت کا تقاضا نہیں۔ یہ سب باتیں تو فتح سے پہلے اربابِ مدارس ہی کرتے تھے اور جب فتح ہوئی تو خوشیاں ایسے منائی گئیں جیسے اپنے سارے ہی شاگردوں کو ہم نے وہاں پر جہادِ فرضِ عین میں حصہ لینے بھیجا ہو۔

کوئی بعید نہیں کسی کا عذر ہو کہ اسباب میسر نہیں، راستہ موجود نہیں یا متعارف تحریکوں پر اعتماد نہیں، لیکن ان لوگوں کو اس خیر سے کیوں روکا جاتا ہے جو اسباب کی عدم موجودگی کا عذر نہ رکھتے ہوں؟ جن کو راستہ دکھائی دیتا ہو اور کسی قابل اعتماد تحریک کے ساتھ چلنا چاہ رہے ہوں؟ دیوبند میں موجود عظیم علمی درسگاہ کی بنیاد میں تو یہی بات شامل تھی کہ استعمار کا مقابلہ کی تیاری کا مرکز ہو گا مگر شیخ الہند اور ان کے تلامذہ کے بعد ان کے نقش قدم پر چلنا حکمت و مصلحت کے خلاف ہو چکا ہے؟ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آٹھ سال قال اللہ و قال الرسول پڑھنے کے بعد قرآن و سنت کو دیکھا ہی نہ جائے اور اپنی دانست میں صرف اکابر کا دامن تھام لیا جائے؟ اس کو زندگی کا ایسا جزوِ لازم قرار دینا کہ جس سے دیگر نصوص پر عمل فوت ہونے کی پرواہ نہ کی جائے اور اس ترک عمل کو اکابر پر تکیہ کر کے چھوڑ دیا جائے کہ ان کے فہم کے مطابق عمل کریں گے حالانکہ عمل سرے سے مفقود ہو، یہ بات ٹھیک نہیں۔

واضح رہے کہ اکابرین کا اوّلین مصداق بعد الانبیاء صحابہ کرام ﷢ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷜تو اْنہیں دنیا سے جانے والوں کی اتباع کی وصیت فرماتے ہیں کہ زندوں پر فتنے کا بہر حال اندیشہ ہے اور جانے والا بخیر و عافیت ایمان کے ساتھ دنیا سے چلا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کی فتنوں سے حفاظت فرمائیں۔ صحابہ کرام ﷢ کے نقش قدم پر کوئی چلا ہے تو وہ قرونِ اولی مشہود لہا بالخیر کے عظیم لوگ ہیں۔

اسی دور میں احادیث کی تدوین ہوئی اسی دور میں فقہ کی جزئیات کا احاطہ بھی کیا گیا اور اس کی تبویب بھی کی گئی۔ اسی دور میں جہاد، امارت و قضاء سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے مسائل و احکام اکٹھے کیے گئے اور وہی ہمارے لئے قابل عمل اور لائق تنفیذ ہیں۔ ادوار میں تبدیلی آ جانے کے بعد ان کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح جدید تجارت، سرمایہ کاری، دیوان و اوقاف کے مسائل انہی کی کتابوں کے سہارے مرتب کیے گئے ہیں اور ان پر عمل کیا جاتا ہے اسی طرح جمہوریت کے باطل نظام سے ٹکرانے کے لئے بھی فقہاء کی کتابوں کے قرآن و سنت سے مستنبط ان جرأتمندانہ فیصلوں کو ہی نمونہ و قابل عمل بنایا جائے گا۔

امام مالک ﷫فرماتے تھے کہ اس امت کے آخر کی اصلاح ویسے ہی ہو گی جیسے اس کے پہلوں کی ہوئی تھی۔ پہلوں کی اصلاح کا نصاب قرآن و سنت تھا کہ جس کو تھام کر جہاد کیا جا رہا تھا اور امت کا سر فخر سے بلند تھا۔ اس سے تو کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ امت رسوا ہی جہاد کے ترک کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے اور یہ خبر تو اللہ کے رسول ﷺ بتا چکے تھے مگر ہم اس سے شاید بے خبر ہوں۔ امید ہے اگر باخبر ہو گئے تو اس راہ کو ضرور اپنائیں گے۔ اکابر سے عقیدت تو ایک اہم چیز ہے مگر ان کے نظریہ اور عمل کو اپنا عقیدہ بنا لیناا ور اس کوکسی صورت چاہے وہ شریعت کا تقاضا ہی کیوں نہ ہو، نہ چھوڑنا اور واضح حکم شرعی کے متوجہ ہوتے ہوئے اور اس کے سمجھ آ جانے کے بعد بھی ان کی رائے اور حکم کو بلا تحقیق و فہم مقدم رکھنا درست طریقہ نہیں۔ کاش کہ اربابِ مدارس اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس فریضہ کی طرف توجہ دیں ورنہ اس امت کو مزید گمراہیاں اور زوال ہی دیکھنے کو ملے گا اور پھر ہم ہی سے روز محشر سوال ہو گا کہ آخر کیوں نہ محبوب دو عالم ﷺ کی امت کو ذلت اور پستی سے نکالنے کی سعی مطلوب و مشروع نہ کی؟ اور کیوں ان غیر شرعی وسیلوں (یعنی جمہوریت اور الیکشن)ہی کو اپنائے رکھا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرےمنتظر فردا رہے ؟

آخر میں مولانا عامر عثمانی مرحوم کے ان اشعار کے ساتھ اس تحریر کا خاتمہ کچھ حسن خاتمہ ہو گا کہ:

مانا کہ محبت کی خاطر ہم تم نے قسم بھی کھائی تھی
یہ امن و سکوں سے دور فضا پیغامِ سکوں بھی لائی تھی
وہ دور بھی تھا جب دنیا کی ہر شے پہ جوانی چھائی تھی
خوابوں کی نشیلی بد مستی معصوم دلوں پر چھائی تھی
لیکن وہ زمانہ دور گیا اب یاد نہ آؤ رہنے دو
جس راہ پہ جانا لازم ہے اس سے نہ ہٹاؤ رہنے دو
اب وقت نہیں ان نغموں کا جو خوابوں کو بیدار کریں
اب وقت ہے ایسے نعروں کا جو سوتوں کو ہشیار کریں
دنیا کو ضرورت ہے ان کی جو تلواروں کو پیار کریں
جو قوم و وطن کے قدموں پر قربانی دیں، ایثار کریں
رودادِ محبت پھر کہنا اب مان بھی جاؤ رہنے دو
جادو نہ جگاؤ رہنے دو فتنے نہ اٹھاؤ رہنے دو

٭٭٭٭٭

Exit mobile version