صہیونیت انیسویں صدی میں یورپ میں پروان چڑھنے والا قوم پرست نسلی برتری کا نظریہ ہے۔ جس طرح نازیت ، فسطائیت ، سیٹلر کلونیل ازم کے نظریات یورپ کی مخصوص فضا اور حالات کی کٹھالی میں ڈھلے۔ اگرچہ سیکولر ازم ، لبرل ازم اور کمیونزم بھی مغرب میں ہی پروان چڑھے مگر ان تینوں نظریات کی پیدائشی وجوہات ، دائرۂ اثر اور عروج و زوال ایک الگ موضوع ہے۔
فی الحال ہم قوم پرستانہ نسل پرستی کے بطن سے جنم لینے والے نظریات پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے دیکھیں گے کہ نازیت ، فسطائیت و صہیونیت کتنے یکساں اور باہم کس قدر معاون ہیں۔
نسل پرستانہ نظریات کی مماثلتی بحث آگے بڑھانے سے پہلے ایک یہودی نژاد اسرائیلی اسکالر ایلان پاپے کا تعارف کرانا مناسب رہے گا۔ آپ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایگزیٹر میں مرکز برائے مطالعہِ فلسطین کے سربراہ ہیں۔ عبرانی ، عربی اور انگریزی پر یکساں دسترس ہے۔ مشرقِ وسطی کی سیاست اور اسرائیل فلسطین تنازع کے موضوع پر پندرہ سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ دنیا بھر میں توسیعی لیکچرز اور جامع گفتگو کے لیے بلائے جاتے ہیں۔ فلسطین نواز علمی حلقوں میں ان کی بات دھیان سے سنی جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں ایلان پاپے نے الجزیرہ کو ایک تفصیلی انٹرویو میں کہا کہ حالانکہ وہ مغرب کی تاریخی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں لیکن اس بار الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر نسل کشی کی براہِ راست تصویر کشی کے باوجود اس سانحے سے مغرب کی مکمل بے تعلقی نے خود مجھے بھی بھونچکا کر دیا ۔
ایلان پاپے کے مطابق:
’’اس وقت غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک نئی طرز کی صہیونیت ہے۔ یہ پرانے فیشن کی صہیونیت کے مقابلے میں زیادہ متشدد ، انتہاپسند اور بے صبر ہے اور وہ سب کچھ مختصر وقت میں لپکنا چاہتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے اس کے پرکھے بتدریج پیش قدمی کی حکمتِ عملی پر یقین رکھتے تھے۔
صہیونیوں کی موجودہ نسل انیس سو اڑتالیس کے ایجنڈے کی برق رفتار تکمیل کے لیے بگٹٹ دوڑ رہی ہے اور اپنے تئیں ایک عظیم یہودی سلطنت بننے کی ہوس میں اردگرد کے علاقوں کو سرعت سے ہتھیانے کی عجلت میں ہے۔ فوری ہدف یہ ہے کہ آس پاس والوں کے دل میں اپنی بے مہار طاقت کا اتنا خوف بٹھا دو کہ اگلے کم از کم پچاس برس تک کوئی بھی علاقائی ریاست اسرائیلی توسیع پسند ایجنڈے کی جانب آنکھ بھر کے نہ دیکھ سکے۔
مگر تاریخ کے تھوڑے بہت مطالعے سے میں نے جو کچھ سیکھا ہے۔ اس کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ہم صہیونیت کے بھڑکتے چراغ کی آخری لو دیکھ رہے ہیں ۔جیسے کسی قریب المرگ شخص کا چہرہ موت سے ذرا پہلے ہشاش بشاش سا لگتا ہے۔ صہیونیت کی نئی شکل اسی کیفیت سے گزر رہی ہے۔
کسی بھی نو آبادیاتی طاقت یا سلطنت کے ناگزیر زوال کی ایک روشن نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آخری دور میں نہائیت سخت گیر رویوں اور اندھا دھند خواہشات کے جال میں پھنس جاتی ہے اور پھر یہ ناقابلِ برداشت بوجھ سنبھالتے سنبھالتے آخری بار گڑ پڑتی ہے۔ یہ آخری مرحلہ کتنا قلیل یا طویل ہوتا ہے اس کا دارو مدار معروضی حالات کی رفتار پر ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اختتام بیس دن میں ہو جائے گا یا بیس برس میں۔ مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سفر زوال کی شاہراہ پر ہی ہو رہا ہے۔
اس وقت اسرائیل اور صہیونیت کا مستقبل امریکہ کے اندرونی و بیرونی مستقبل سے نتھی ہے۔ میں اسے اچھی خبر کہوں گا کہ حالات کا سنبھالنا ٹرمپ جیسے مسخروں اور ایلن مسک جیسے پاگلوں کے بس سے باہر ہے۔ ایسے لوگ امریکی معیشت اور اس کے بین الاقوامی اثر و رسوخ کے تیے پانچے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے زوال کے تاریخی عمل کو تیز تر کر دیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں مشرقِ وسطی کے معاملات میں امریکی کردار اور اثر و نفوذ سکڑتا جائے گا۔ اس کی پہلی قیمت اسرائیل کی نئی صہیونی سوچ اور پالیسیاں ادا کریں گی۔ مگر یہ ایک طویل المیعاد نتیجہ ہے۔ فی الحال اگلے دو تین برس خطے میں خوب دھماچوکڑی مچے گی اور اختتامی باب خاصا برا ہو گا۔
یہ مسئلہ محض غزہ میں جنگ بندی وغیرہ وغیرہ سے حل ہونے والا نہیں۔ ابھی تو ہمیں یورپ میں فسطائیت اور نیو نازی تحریک کا احیا دیکھنا ہے۔ عربوں کی اخلاقی و مادی کرپشن کا نتیجہ بھگتنا ہے۔ یہ صورتِ حال مختصر مدت کے لیے اسرائیلی صہیونیت کے لیے بھی سازگار ہے۔ جوں جوں موجودہ طاقت ور شمالی کرے ( مغربی دنیا ) کے مقابلے میں جنوبی کرہ زور پکڑتا جائے گا طاقت کے توازن کا ناگزیر بدلاؤ اسرائیل کو اور تنہا کرتا چلا جائے گا۔ ابھی جنوبی کرے میں پنپنے والی مزاحمتی تحریک منظم نہیں ہے مگر بدلتے وقت کے تاریخی تقاضے اسے منظم ہونے پر مجبور کر دیں گے۔
اب آپ یہ دیکھیے کہ مغرب میں یہود دشمنی کی احیائی تحریک اور نئے صہیونی اس پر متفق ہیں کہ یہودیوں کے لیے مغرب میں رہتے رہنے سے کہیں بہتر ہے کہ وہ فلسطین میں آباد ہو جائیں۔ دونوں تحریکیں اسلاموفوبیا کے معاملے پر بھی ہمقدم و ہم آواز ہیں۔ یورپ میں انتہا پسندوں کی ریلیوں میں اب نازی پرچموں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جھنڈے بھی نظر آتے ہیں۔
ہالوکاسٹ کے نازی تجربے کی روشنی میں بیس برس پہلے تک ایسے کسی نازی صہیونی اتحاد کے بارے میں سوچنا بھی پاگل پن سمجھا جاتا۔ انھی تضادات کے سبب امریکہ میں آباد یہودیوں کی موجودہ جوان نسل اسرائیل کے حق میں اب وہ جذبات نہیں رکھتی جو ان کے والدین کے تھے یا ہیں۔ آخر ٹرمپ اور ایلون مسک کے بعد بھی تو کوئی آئے گا۔ ضروری تو نہیں کہ وہ اسرائیل کی صہیونیت پرست توسیع پسندانہ پالیسیوں کا ہی حامی ہو۔
اسرائیلی نظامِ تعلیم اپنے بچوں کو پہلے سے زیادہ نسل پرست ، انسان دشمن اور انتہا پسند بنا رہا ہے اور اس نظامِ تعلیم سے پیدا ہونے والی نسل اپنے اور دوسروں کے لیے یکساں خطرناک ہے۔ محض یہ فرض کرنے سے اب کام نہیں چلے گا کہ اس نسل کا دل سوشل میڈیا پر تیرتی نسل کشی کی وڈیوز دیکھ کے پسیج جائے گا۔ اسرائیل چونکہ نفرت کی بنیاد پر بنا ہے لہٰذا اس کا نفرتی ڈی این اے ایک سے دوسری نسل میں کامیابی سے منتقل کیا گیا ہے اور اسی سبب ریاست کا زوال پذیر ہونا ایک لازمی حقیقت ہے ۔‘‘
آپ نے ایلان پاپے کے خیالات پڑھے۔ آگے ہم اس پر دھیان دیں گے کہ کیسے ایک نظریہ اچھے بھلے انسانوں کو غیر انسان یا نیم انسان بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ سب ہم صہیونی نظریے کے ارتقاء اور عالمی و علاقائی سیاست پر اس کے اثرات کے عدسے سے دیکھیں گے۔
صہیونی نظریے کی ابتدا
ہر یہودی صہیونی نہیں ہوتا اور ہر صہیونی یہودی نہیں ہوتا۔ مثلاً سابق امریکی صدر جو بائیڈن کرسچن ہیں لیکن خود کو صہیونی کہتے ہیں۔ نوم چومسکی یہودی ہیں مگر صہیونی نہیں۔
جب انیسویں صدی کے آخری عشروں میں روس میں یہود مخالف جذبات نے پرتشدد صورت اختیار کر لی اور ( 1881ء – 1884ء ) زار شاہی کی سرپرستی میں یہود کشی اور امتیازی قوانین کے سبب ہزاروں یہودی خاندانوں کو جان و مال کی امان کے لیے روس چھوڑ کر مشرقی اور وسطی یورپ میں پناہ لینا پڑی تو یہودی دانش مندوں میں مستقبل کے بارے میں یہ سنجیدہ بحث چھڑ گئی کہ بحیثیت قوم یورپ میں ہمارا کیا مستقبل ہے ؟
ایک طبقے کا خیال تھا کہ ہمیں الگ تھلگ رہنے کی عادت ترک کرنے، فرسودہ رہن سہن چھوڑنے ، چند لگے بندھے پیشوں کے دائرے سے نکلنے اور ہر مسئلے کے حل کے لیے مقامی رابی (مذہبی پیشوا ) سے رجوع کرنے کے بجائے خود کو بتدریج مغربی سماج میں ضم کر لینا چاہیے۔
دوسرے دانش مندوں کا خیال تھا کہ قومی لاچاری کا بس ایک مداوا ہے کہ کسی مسیحا کی آمد کا لامتناہی انتظار کیے بغیر ایک آزاد خود مختار یہودی ریاست کے لیے جدوجہد کی جائے اور یہ ریاست ارضِ فلسطین ( جوڈیا و سماریا ) ہی ہو سکتی ہے جسے یہودیوں کو لگ بھگ دو ہزار برس قبل بالجبر چھوڑنا پڑا اور جس کی واپسی کا وعدہ خدا نے بھی ہم سے کر رکھا ہے۔ تو کیوں نہ خدا کو زحمت دیے بغیر ہم اپنے زورِ بازو پر یہ کام سرانجام دیں۔
مگر کٹر مذہبی طبقہ سمجھتا تھا کہ ہمیں تورات میں کیے گئے الہامی وعدوں کی لاج رکھتے ہوئے صبر سے اس مسیحا کا انتظار کرنا چاہیے جو ہمیں دوبارہ ارض فلسطین میں بسائے گا۔ اس آسمانی وعدے کے برعکس سوچنا الہامی تعلیمات سے بغاوت و انحراف ہے۔
یہ بحث نئی نہیں تھی بلکہ مشرقی و وسطی یورپ کے یہودی چائے خانوں میں 1770ء کے عشرے سے روشن خیال اصلاح پسندوں اور تبدیلی کے خواہاں دانشوروں کے مابین چھڑی ہوئی تھی۔ اگلے سو برس میں اس نے ایک ٹھوس اور منظم شکل اختیار کر لی۔
زیون یا صہیون یروشلم کی ایک پہاڑی کا عبرانی نام ہے اور زائیونسٹ کا مطلب ہے حبیبِ زیون۔ چنانچہ روس اور رومانیہ سمیت وسطی و مشرقی یورپ کے ہم خیال دانشوروں نے ’ہوویوی زیون‘ ( حبِ زیون ) نامی تھنک ٹینک قائم کیا۔
اٹھارہ سو بیاسی میں روسی شہر اوڈیسہ میں یہود کش فسادات کے ردِّ عمل میں وہاں کے ایک رہائشی ڈاکٹر لیون پنسکرز کا ایک کتابچہ آٹو ایمنی سپیشن ( راہِ نجات ) کے نام سے شائع ہوا۔ اس میں تجویز کیا گیا کہ اپنے بل بوتے پر ایک قومی وطن حاصل کرنے میں ہی عافیت ہے ورنہ ہم ہمیشہ غیر محفوظ رہیں گے۔ اس کتابچے کو جدید صہیونیت کی پہلی بنیادی دستاویز کہا جا سکتا ہے۔ یہ کتابچہ یورپی یہودی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
ایک قومی وطن کے خیال کو منظم نظریاتی شکل دینے کے لیے نومبر 1884ء میں جرمن شہر کاٹووٹز میں ’ہوویوی زیون‘ کے بینر تلے ڈاکٹر لیون پنسکر کی زیرِ صدارت بتیس دانش مند سر جوڑ کے بیٹھے۔ ان میں سے بائیس مندوب روسی تھے۔ کانفرنس میں فیصلہ ہوا کہ یورپی ممالک میں ’ہوویوی زیون‘ کی مقامی شاخیں قائم کی جائیں تاکہ قومی وطن کی ضرورت کے نظریے کا منظم پرچار ہو سکے۔
جو یہودی خاندان فلسطین میں بسنا چاہیں ان کی ہر ممکن مالی و مادی اعانت ہو سکے۔ 1878ء سے فلسطین نقلِ مکانی کرنے والے اکادکا یورپی خاندانوں نے مستقبل کے تل ابیب کے نزدیک پیتا تکوا کے نام سے چھوٹی سی بستی کی شکل میں اجتماعی کاشتکاری کا تجربہ شروع کر دیا۔
اس تجربے نے بعد ازاں کیبوتز تحریک کی منظم شکل اختیار کی۔( کیبوتز سے مراد ایسی آباد کار بستی جو ہر اعتبار سے خود کفیل ہو اور اسے مقامی آبادی کی مدد پر کم سے کم تکیہ کرنا پڑے)۔ ’ہوویوی زیون‘ کی قیادت نے یہودی آباد کار خاندانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کچھ مالی مدد بھی بھیجی مگر بیشتر یورپی یہودیوں میں تحریکِ نقلِ مکانی ابتدا میں زیادہ مقبول نہ ہو سکی۔
البتہ ’ہوویوی زیون‘ نے یہودی برادریوں میں کام جاری رکھا۔ اور اس کے نتیجے میں سوئس شہر بیسل میں29 اگست 1897ء میں پہلی تین روزہ صہیونی کانگریس منعقد ہوئی۔
کانگریس کی صدارت ہنگری کے ایک صحافی ، وکیل ، ادیب اور سیاسی ایکٹوسٹ تھیوڈور ہرزل نے کی۔ ابتدا میں اس کانگریس کا انعقاد میونخ میں تجویز کیا گیا مگر جرمن یہودی مذہبی حلقوں اور لبرل اصلاح پسندوں کی مخالفت کے سبب اسے بیسل منتقل کرنا پڑا۔ کارروائی جرمن زبان میں لکھی گئی۔
کانگریس میں سترہ ممالک سے دو سو آٹھ یہودی مندوب شریک ہوئے۔ نصف کا تعلق روس اور مشرقی یورپ سے تھا۔ سترہ خواتین کو بطور مبصر مدعو کیا گیا (انہیں ووٹنگ میں حصہ لینے کی اجازت اگلے برس منعقد ہونے والی دوسری صہیونی کانگریس میں ملی )۔
ایک تفصیلی اعلان نامۂ باسل جاری ہوا۔ لبِ لباب یہ تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے لیے سیاسی و قانونی کوشش باضابطہ شروع کی جائے۔ یہودی کسانوں ، ہنرمندوں اور تاجروں کو فلسطین میں بسنے پر راغب کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہر ملک کی یہودی آبادی میں ایک آگہی مہم تیز کی جائے۔ تین ستمبر 1897ء کو تھیوڈور ہرزل نے کانگریس کے اختتام کے بعد اپنی ڈائری میں یہ تاریخی پیرا لکھا۔
’’ بیسل میں آج ہم نے ایک یہودی ریاست کی بنیاد رکھ دی۔ اگر آج میں یہی بات برسرِ عام کہوں تو دنیا بہت ہنسے گی۔ مگر اگلے پانچ یا زیادہ سے زیادہ پچاس برس میں ہر کوئی اسے ابھرتا ہوا دیکھے گا ۔‘‘
دوسری صہیونی کانگریس اگلے برس مئی میں جرمن شہر کاؤلون میں منعقد ہوئی۔ اس میں عوامی چندہ جمع کرنے کی خاطر جیوش کلونیل ٹرسٹ کے نام سے ایک بینک کے قیام کی منظوری دی گئی۔ 1901ء میں ہونے والی پانچویں سالانہ صہیونی کانگریس میں جیوش نیشنل فنڈ قائم ہوا۔ اس کا مقصد فلسطین میں زمینوں کی خریداری تھی۔
اسرائیل میں آباد ہونے والے یہودیوں کی سماجی و اقتصادی حالت بہتر بنانے اور انہیں یکجا کرنے کے لیے زائیونسٹ کمیشن قائم ہوا۔ اس کمیشن نے فلسطین کا ارضیاتی سروے کیا۔ کمیشن کے تحت تعلیم ، آبادکاری ، زرعی امور ، مالیات ، نقل مکانی اور بندوبست ِاراضی کے شعبے کام کرنے لگے۔
انیس سو اکیس میں صہیونی کمیشن کا نام فلسطین زائیونسٹ ایگزیکٹو ہو گیا۔ اس کے تحت قائم جیوش ایجنسی نے فلسطین میں برطانیہ کی انتدابی انتظامیہ کے لیے یہودی آبادکاروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے مشاورتی کردار ادا کرنا شروع کیا۔
صہیونی کانگریس کا دفتر 1907ء میں یروشلم میں قائم کیا گیا۔ اب یہ کانگریس اسرائیل میں ہر چار برس بعد منعقد ہوتی ہے۔
اب ہم صہیونیت کے باوا آدم تھیوڈور ہرزل کی زندگی اور نظریات کا احاطہ کریں گے تاکہ ہمیں صہیونی ذہن سمجھنے میں مدد مل سکے۔
صہیونیت کا باوا آدم تھیوڈور ہرزل
چودہ مئی انیس سو اڑتالیس کو جب ڈیوڈ بن گوریان نے مملکتِ اسرائیل کی تشکیل کا باضابطہ اعلان کیا تو اس اعلان میں صرف ایک شخص کا نام شامل تھا، اور اسی شخص کی تصویر کے سائے میں یہ اعلان پڑھا گیا۔ حالانکہ اس شخص کا انتقال چوالیس برس قبل آسٹریا میں چوالیس برس کی عمر میں ہو چکا تھا۔
اسرائیل کے قیام کے اگلے برس ( 1949ء ) اس کے جسد کو یروشلم منتقل کر کے اسی کے نام سے معنون ایک پہاڑی پر دفنایا گیا۔ اس کے پہلو میں اس کی اہلیہ اور بچوں کی بھی قبریں ہیں۔ ایک شہر اس کے نام پر ہے۔ اسے مملکتِ اسرائیل کے روحانی باپ اور صہیونیت کے باوا آدم کا درجہ حاصل ہے۔ جو بھی اہم غیر ملکی مہمان اسرائیل آتا ہے اس کے مزار پر حاضری ضرور دیتا ہے۔
وکیل ، صحافی ، ادیب اور صہیونی سیاسی مرشد تھیوڈور ہرزل ہنگری کے شہر بوڈاپسٹ میں ایک متمول یہودی کاروباری خاندان میں مئی 1860ء میں پیدا ہوا۔ یورپی اشرافیہ کا حصہ ہونے کے باوجود بقولِ ہرزل اس نے روزمرہ زندگی میں جو تعصبات محسوس کیے، ان کے نتیجے میں وہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچا کہ یورپی سماج میں یہودیوں کی ایک مساوی درجے پر مکمل قبولیت کبھی ممکن نہیں ہو گی۔ ایک ہی حل ہے کہ ایک آزاد و خود مختار یہودی ریاست ہو جہاں دنیا بھر میں بکھرے یہودی تحفظ کی فضا میں یکجا رہ سکیں۔
1896ء میں ہرزل نے ’’ یہودی قومی ریاست کے خدو خال ( دیر جوڈن شٹاٹ ) ‘‘ کے نام سے کتابچہ شایع کیا۔ یہ کتابچہ یہودی حلقوں میں پر جوش انداز میں لیا گیا اور صرف ایک برس بعد اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سوئس قصبے بیسل میں پہلی صہیونی عالمی کانگریس منعقد ہوئی۔ ہرزل کو اس کانگریس کا صدر چنا گیا اور اسے اور اس کے بنیادی نظریاتی ساتھیوں کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ نوآبادیاتی طاقتوں کے فیصلہ سازوں سے رابطہ کر کے انہیں ممکنہ طور پر فلسطین میں ایک یہودی ریاست کی افادیت پر قائل کریں۔
ہرزل نے 1898ء میں پہلی بار فلسطین دیکھا۔ یہ یاترا جرمن بادشاہ قیصر ویلہلم کے یروشلم کے دورے کی تاریخوں میں رکھی گئی۔ دونوں کی مختصر بے نتیجہ ملاقات بھی ہوئی ۔البتہ صہیونی حلقوں میں اس ملاقات کے سبب ہرزل کی سیاسی اہمیت بڑھ گئی۔
ہرزل نے استنبول جا کر عثمانی بادشاہ سلطان عبدالحمید دوم کے سامنے بھی اپنا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہاں ہرزل کی ملاقات صرف وزیرِ اعظم ( گرینڈ وزیر ) سے ہو پائی جنہوں نے ہرزل کا نقطہِ نظر ہمدردی سے سنا مگر یہ کہتے ہوئے شائستگی سے انکار کر دیا کہ فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ ہے۔ اہلِ یہود جب چاہیں زیارت کے لیے آ سکتے ہیں۔ وہاں رہ بھی سکتے ہیں مگر مقامی عرب آبادی کبھی بھی برداشت نہیں کرے گی کہ کوئی بیرونی طبقہ مستقل بنیادوں پر اپنی ایک خودمختار شناخت بنانے کی کوشش کرے۔
تاہم ہرزل نے ہمت نہ ہاری اور یورپ کے سب سے بارسوخ یہودی کاروباری خاندان روتھ چائلڈز کے ذریعے سلطنتِ برطانیہ کے ایوانوں میں لابنگ کی کوشش کی۔ روتھ چائلڈز کا معاشی و سماجی اثر و رسوخ وزیرِ نوآبادیات جوزف چیمبرلین سے ہرزل کی ملاقات کا سبب بن گیا۔
ہرزل نے تجویز دی کہ یہودیوں کو قبرص یا صحرائے سینا دے دیا جائے۔ چیمبرلین نے کہا کہ مصر پر برطانوی رسوخ کے باوجود وہاں کے پاشاؤں کو شاید اپنی آبادی کے ممکنہ ردِّعمل کے خدشے کے پیشِ نظر یہ انتظام قبول نہ ہو۔ یہی مشکل قبرص کی عیسائی اکثریت کی جانب سے بھی پیش آ سکتی ہے۔ البتہ یوگنڈا اور کینیا کی برطانوی نوآبادیوں کے درمیان پانچ ہزار مربع میل کا ایک ٹکڑا دینے پر غور ہو سکتا ہے۔( حالانکہ اس علاقے میں مسائی قبیلہ آباد تھا )۔
وہاں آپ کو آگے چل کر ( کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرح ) سلطنتِ برطانیہ کی ڈومیننین کا درجہ بھی مل سکتا ہے۔
ہرزل کو ذاتی طور پر یہ تجویز بھلی لگی۔ البتہ چیمبرلین نے یہ تجویز محض یہودیوں کی ہمدردی میں سامنے نہیں رکھی بلکہ اس کے پیچھے برطانوی نوآبادیاتی ذہن کارفرما تھا۔
روس اور مشرقی یورپ میں یہود مخالف تشدد کے نتیجے میں ہزاروں خاندان مغربی یورپ میں پناہ کے متمنی تھے۔ چیمبرلین نہیں چاہتا تھا کہ اس غول کا رخ برطانیہ کی جانب ہو جائے جہاں مقامی مزدور پہلے ہی اپنے روزگار کی صورتِ حال کے سبب بے چین تھے۔
چیمبرلین کو یہ بھی احساس تھا کہ اگر یہودیوں کو یوگنڈا میں بسایا جاتا ہے تو متمول برطانوی اور دیگر یورپی کاروباری یہودی یہاں سرمایہ کاری بھی کریں گے۔ بالخصوص مشرقی افریقہ کے ریلوے منصوبے کے بھاری خسارے کو کم کیا جا سکے گا۔ نیز روس اور مشرقی یورپ سے نکلنے والے یہودی برطانیہ عظمیٰ کے نہ صرف احسان مند رہیں گے بلکہ ان کی افرادی قوت اور یہودی بینکرز کے سرمائے سے جنوبی افریقہ میں جاری بوئر جنگ کے اخراجات میں بھی شاید مدد مل سکے۔
جب مشرقی افریقہ کے برطانوی گورے آباد کاروں کو اس منصوبے کی بھنک پڑی تو انہوں نے اور برطانیہ میں میڈیا کے ایک حصے نے اس منصوبے کی کھلم کھلا مخالفت شروع کر دی۔
دوسری جانب جب ہرزل نے 1903ء میں منعقد ہونے والی چھٹی صہیونی کانفرنس میں یہ تجویز رکھی تو وہاں بغاوت ہو گئی اور اس منصوبے کو فلسطین میں بسنے کے صہیونی خواب سے غداری قرار دیا گیا۔ ہرزل کو بادلِ نخواستہ اپنی تجویز واپس لینا پڑ گئی۔ البتہ ہرزل نے یہ جملہ ضرور کہا ’’ان لوگوں ( یہودیوں ) کی گردن میں رسہ پڑا ہوا ہے مگر یہ پھر بھی اکڑے ہوئے ہیں ‘‘۔
ہرزل کا خیال تھا کہ مشرقی یورپ میں جاری یہود مخالف لہر اور اس کے نتیجے میں دیگر ریاستوں کی جانب سے یہودی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں بسانے سے ہچکچاہٹ کے سبب یوگنڈا منصوبہ برا نہیں۔ جب یہاں ایک نیم خود مختار ڈھانچہ بن جائے گا تو اس کی بنیاد پر برطانیہ عظمی کی مدد سے فلسطین کی بابت بھی بات ہو سکتی ہے۔
یورپی مدبروں کی طرح ہرزل بھی سلطنتِ عثمانیہ کے مردِ بیمار کا بتدریج اختتام دیکھ رہا تھا۔ وہ یورپی سامراجی طاقتوں کی آپس کی رقابت اور ناگزیر ٹکراؤ کی خونی بو سونگھ رہا تھا اور اس ٹکراؤ کو صہیونی ایجنڈہ آگے بڑھانے کی سیڑھی سمجھ رہا تھا۔ مگر جو وہ دیکھ رہا تھا باقیوں کو نہ سمجھا سکا اور چند ماہ بعد تین جولائی 1904ء کو اس کا انتقال ہو گیا۔ مگر اپنی مختصر چوالیس سالہ زندگی میں ہرزل نے ایک مملکت کے حصول کے جو عملی خدو خال وضع کر دیے، بعد میں آنے والوں نے اس خاکے میں تندہی سے رنگ بھرے۔
انیس سو چودہ میں یورپ کی سامراجی طاقتیں آپس میں بھڑ گئیں۔ صہیونی تحریک کے نقطہِ نظر سے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا۔ سلطنتِ عثمانیہ ختم ہو گئی۔ فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا، اور 1917ء میں بالفور اعلان کے ذریعے اس مملکت کا دستاویزی سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا جس کا خواب ہرزل نے دیکھا تھا۔ آگے دیکھتے ہیں کہ ہرزل کیا چاہتا تھا اور اس کے جانشینوں نے اس تصویر کو مکمل کرنے کے لیے کون کون سے ہتھکنڈے استعمال کیے جن کے نتیجے میں صہیونیت ایک سفاک نسل پرست تحریک میں بدلتی چلی گئی۔
اب تک آپ کو کچھ کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بابائے صہیونیت تھیوڈور ہرزل کیسا مستقبل شناس تھا اور اس نے صہیونی نظریے کو عملی شکل دینے کے لیے آخری دن تک کیسی انتھک محنت کی۔ وہ اپنے ترکے میں ایک کل وقتی عملیت پسند ٹیم بھی چھوڑ گیا جس نے 1904ء میں چوالیس برس کی عمر میں ہرزل کی موت کے چوالیس برس بعد ( 1948ء ) ہرزل کے خواب کو ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے حقیقت میں بدل ڈالا۔
صہیونیت کی جڑیں دراصل دو ہزار برس سے جلاوطن ہر یہودی گھرانے میں روزانہ دہرائی جانے والی اس دعا میں پوشیدہ ہیں ’’ خدا نے چاہا تو اگلے برس یروشلم میں ‘‘۔یہ دعا نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔
مگر انجیل کے عہد نامہ جدید کے مطابق مقبوضہ فلسطین کے رومن گورنر کو حضرت عیسیٰ کے خلاف بھڑکا کر انہیں مصلوب کروانے کا گناہ بھی وقت کے یہودی کاہنوں کے سر پر ہے۔ لہٰذا عیسائی دنیا میں بالخصوص یہودیوں کے خلاف من حیث القوم ایک دبی دبی نفرت مسلسل برقرار رہی جسے وقتاً فوقتاً آگ میں بدلنا اور انہیں بے دخل کرنا روس سے پرتگال تک ہر سلطنت و حکومت عوام کی توجہ دیگر مسائل سے بٹانے کے لیے تاریخی طور پر بطور ہتھیار استعمال کرتی آئی۔
جب کہ مشرق بالخصوص مسلمان دنیا میں مدینہ سے یہودی قبائل کی بے دخلی کے ایک واقعہ کے بعد بغداد کے عباسی ہوں کہ قرطبہ کے اموی یا استنبول کے عثمانی۔ ہر دور میں یہودی نہ صرف عمومی طور پر محفوظ و مامون رہے بلکہ انہوں نے عرب اور مسلمان تہذیب کے ہر شعبے بالخصوص نوکر شاہی ، مالیات امورِ خارجہ ، فلسفے ، طب اور سائنس کے میدان میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اسپین سے تو 1492ء میں مسلمان اور یہودی ایک ساتھ نکالے گئے اور پھر یہ یہودی مراکش تا استنبول تا ہندوستان آباد ہوئے اور مقامی ثقافت میں رچ بس گئے۔
جب کہ صہیونیت یورپی ( اشکنازی ) یہودیوں کو درپیش مسلسل عدم تحفظ کا ردِّ عمل تھا۔ جسے انیسویں صدی کے آخری عشروں میں روسی زار نکولس دوم کی یہود دشمنی پالیسیوں کے سبب تیزی سے پنپنے کا موقع ملا ۔
مگر مشرقی یورپ کے برعکس مغربی یورپ میں انیسویں صدی کے دوسرے وسط میں تعصب اتنا شدید نہیں تھا۔ اس دور میں برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، اٹلی ، ہالینڈ ، ڈنمارک وغیرہ میں یہودی برادریوں نے روائیتی پیشے ترک کر کے نئے پیشے اپنانے کے ساتھ ساتھ مذہبی راہبوں کے چنگل سے نکلنے کی بھی سنجیدہ کوشش کی اور اس کوشش میں صہیونیت نے ایک راہِ تازہ فراہم کی۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں یہودی تناسب تیزی سے بڑھنے لگا۔ چنانچہ یورپ کے متوسط اور بالائی طبقات میں بھی ہم پلہ یہودیوں کو قبول کیا جانے لگا۔
مگر جیسا کہ ہوتا آیا ہے۔ نئی ابھرتی یہودی مڈل کلاس ہی صہیونیت کی سب سے پرجوش پرچارک بنی ( جیسا کہ نازی جرمنی اور موجودہ بھارت میں مڈل کلاس ہی نظریاتی انتہا پسندی کا ہراول طبقہ بنی )۔
اس کے برعکس مشرق میں صدیوں سے پرامن طور پر آباد یہودی اقلیت کو ابتدا میں صہیونیت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ انہیں بیسویں صدی میں اس جانب یورپی نظریہ سازوں نے دانستہ ہنکالا ۔
صہیونی نظریے کی بنیاد ارضِ فلسطین پر یہودیوں کا تاریخی دعویٰ ہے جب انہیں جبراً دو ہزار برس پہلے یہ سرزمین چھوڑنا پڑی۔ ان کی جگہ دیگر برادریاں بستی چلی گئیں اور بازنطینی شکست کے بعد یروشلم کی فتح کے نتیجے میں لگ بھگ چودہ سو برس سے یہ خطہ عرب نژاد برادریوں کا مسکن بنتا چلا گیا۔ مگر صہیونی نظریے کے مطابق یہ زمین خدا نے بنی اسرائیل کو بخشی تھی چنانچہ ان کے بعد یہاں بسنے والے سب غاصب ہیں ۔ان غاصبوں سے خدا کی وعدہ کردہ سرزمین (دجلہ تا نیل اور دمشق تا حجاز ) واگذار کروا کے سلطنتِ بنی اسرائیل کا جغرافیائی احیا ہی صہیونیت کا حتمی ہدف ہے۔
اس پورے خطے میں بسنے والے ’اغیار‘ ہیں چنانچہ ایک خالص یہودی ریاست میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ تاآنکہ وہ درجہِ دوم کے محکوموں کے طور پر رہنے کو تیار ہوں۔( نازیوں کا آریائی نسلی برتری اور ہندوتوا نظریہ بھی کم و بیش یہی ہے )۔
یورپی یہودیوں کی عمومی زبان یادش کہلاتی تھی۔ یادش کوئی خالص زبان نہیں بلکہ عبرانی اور مقامی یورپی زبانوں کا آمیزہ ہے جس طرح جنوبی افریقہ کے نسل پرست گوروں کی افریکانر زبان ڈچ اور مقامی بولیوں کا آمیزہ ہے۔
اس کے برعکس مشرق میں آباد یہودی برادریاں مذہبی معاملات میں عبرانی اور روزمرہ معاملات میں عربی ، فارسی اور ترک سے کام لیتی تھیں۔ صہیونیوں نے عبرانی کو ایک بین البراعظمی یہودی قومی اتحاد کا استعارہ بنانے کے لیے شعوری طور پر بہت اہم لسانی کام کیا۔
عبرانی کو گزشتہ سو برس میں معبدوں اور علماء کے حجروں سے نکال کے قدیم تاریخ اور جدیدیت کے مابین ایک پل بنا کر اس نہج پر پہنچا دیا کہ اسرائیل کے ہر یہودی شہری کے روزمرہ میں عبرانی کا چلن عام ہو گیا۔ یوں عبرانی نے صدیوں سے مختلف ثقافتوں میں رہنے کے عادی نووارد یہودی آبادکاروں کو ایک متحدہ قوم کی لڑی میں پرونے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ عبرانی میں جدید علوم کے تراجم تیزی سے ہوئے اور آج شاید ہی کوئی علمی شاخ ہو جس کی کوئی اہم کتاب یا تحقیق عبرانی میں دستیاب نہ ہو۔
صہیونیوں نے ایک اہم کام یہ کیا کہ ’’ خدا نے چاہا تو اگلے برس یروشلم ‘‘ کے دعائیہ عہد کو ایک سیاسی نظریاتی ہتھیار میں بدل دیا۔ چنانچہ یہودی دائیں بازو کا ہو کہ بائیں کا۔ کٹر مذہبی ہو کہ سیکولر، سب نے یہ نعرہ اپنا لیا اور اس نے قوم پرستی کی بنیاد میں سیمنٹ کا کام دیا۔
مگر اہم بنیادی سوال یہ تھا کہ فلسطین جہاں انیسویں صدی کے آخر میں یہودی آبادی ایک فیصد سے بھی کم تھی۔ وہاں اکثریت بنے بغیر ایک یہودی ریاست کیسے قائم ہو سکتی ہے؟ ہرزل نے 1896ء میں ’’ ایک یہودی ریاست ‘‘ کے نام سے جو کتابچہ لکھا، اس کے مطابق:
’’ ہمیں جو بھی علاقہ تفویض ہو گا، اس میں بڑے پیمانے پر املاک و اراضی خریدنا ہوں گی۔ غریب مقامی آبادی کے لیے ہم اپنی املاک اور اراضی میں روزگاری مواقع محدود کرتے چلے جائیں گے، تاکہ وہ تنگ آ کر بہتر معاشی مستقبل کی تلاش میں ہجرت پر آمادہ ہو جائیں۔ یہ کام بتدریج اور احتیاط سے کرنا ہو گا ‘‘۔
مگر ہرزل اور صہیونیت کا دو رخا چہرہ کچھ فلسطینیوں نے شروع میں ہی بھانپ لیا۔ عثمانی یروشلم کے مئیر یوسف الخالدی بھی انھی میں سے تھے۔ انہوں نے مارچ 1899ء میں فرانس کے ربیِ اعظم زدوک کہان کو خط لکھا کہ اگر صہیونی فلسطین میں یورپی یہودیوں کو مستقل بسانے کا سوچ رہے ہیں تو اس کا ردِ عمل عرب قوم پرستی کی شکل میں نکلے گا اور اس معاملے میں مقامی مسلمانوں اور عیسائیوں کا موقف ایک ہی ہو گا۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ یورپی یہودی قیادت اس طرح کی مہم جوئی سے باز رہے۔
زدوک کہان نے یوسف الخالدی کا خط ہرزل کو دکھایا۔ ہرزل نے اپنے جوابی خط میں الخالدی کے خدشات دور کرنے کے لیے لکھا کہ اگر یہودی فلسطین میں بستے ہیں تو ان کی صلاحیتوں کا نہ صرف سلطنتِ عثمانیہ بلکہ مقامی آبادی کو بھی فائدہ ہوگا۔ ہمیں احساس ہے کہ غیر یہودی اکثریت میں ہیں۔ لہٰذا انہیں کیسے کہیں اور منتقل کیا جا سکتا ہے ؟ اگر سلطان عالی مقام ہمیں قبول نہیں کریں گے تو وہ سب جس کی ہمیں ضرورت ہے ہم کہیں اور ڈھونڈھ لیں گے۔
اور پھر ایسا ہی ہوا۔ صہیونی قیادت نے برطانیہ کا دامن پکڑ لیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں یورپ سے جو یہودی فلسطین میں بسنے کے لیے آئے وہ ہرزل کے طے شدہ اصل خاکے کے مطابق مقامی آبادی سے میل جول بڑھانے کے بجائے قلعہ بند بستیاں ( کیبوتز ) قائم کرنے لگے۔ عام مزدوری سے لے کے ہنرمندی کے کاموں تک یہودی افرادی قوت پر مکمل انحصار کا اصول سختی سے نافذ ہوا۔ ابتدا میں کھیت مزدوری کے لیے مقامی آبادی کو اجرتی کام دیا گیا۔ رفتہ رفتہ یہ بھی محدود ہوتا چلا گیا۔
مگر یہودی آبادکاروں کی توقعات کے برعکس جب فلسطینی اکثریت نے معاشی دباؤ کے باوجود اپنی سرزمین چھوڑنے سے انکار کر دیا تو ہرزل کی ہدایت کے برعکس احتیاط کا دامن ترک کر کے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی شروع ہوئی اور اس کا اختتام نسل کشی کو جائز کرنے پر ہوا۔
خائم وائزمین
بابائِے صہیونیت تھیوڈور ہرزل کا انیس سو چار میں انتقال ہوا تب تک صہیونی تحریک کو کئی زیرک پاسبان مل چکے تھے۔ ان میں سے ایک مضبوط نام خائم وائزمین کا بھی تھا۔
وائزمین ایک روسی نژاد چوبی سوداگر کے ہاں 1874ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے جرمنی سے آرگینک کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی۔ وائزمین کے پندرہ بہن بھائیوں میں سے دو بہنوں اور ایک بھائی نے بھی کیمسٹری میں نام کمایا۔
دس بہن بھائیوں نے مختلف اوقات میں فلسطین ہجرت کی۔ جب کہ وائزمین نے 1910ء میں برطانوی شہریت حاصل کر لی جو 1948ء میں اسرائیل کے قیام تک برقرار رہی۔ وائزمین کا زیادہ تر وقت مانچسٹر میں گذرا۔ 1916ء تا 1919ء وہ برطانوی بحریہ کی ریسرچ لیبارٹریز کے ڈائریکٹر اور دوسری عالمی جنگ کے دوران جنگی سپلائی کے محکمے کے مشیر رہے۔
وائزمین کے دو بیٹوں میں سے بڑے بیٹے بنجمن نے آئرلینڈ میں بس کر ڈیری فارمنگ اپنا لی۔ چھوٹا بیٹا جو رائل ایرفورس میں پائلٹ تھا 1942ء میں ایک جنگی مشن کے دوران لاپتہ ہو گیا اور کبھی سراغ نہیں ملا۔ خائم وائزمین کا ایک بھائی موشے وائزمین یروشلم کی ہیبرو یونیورسٹی میں شعبہ کیمسٹری کا سربراہ رہا۔ 1925ء سے فعال ہیبرو یونیورسٹی کے قیام میں آئن سٹائن اور وائزمین کا بنیادی کردار تھا۔ جب کہ ان کا ایک بھتیجا ایزر وائزمین بعد ازاں اسرائیلی فضائیہ کا سربراہ اور پھر ملک کا صدر بنا۔
وائزمین نے اسرائیل کے قیام سے چودہ برس قبل تل ابیب کے نزدیک رہووٹ کی آبادکار بستی میں پوسٹ گریجویٹ سائنسی تعلیم کے فروغ کے لیے ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا۔ اسے بعد ازاں خائم وائزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز کا نام دیا گیا۔ ان کا گھر بھی اسی انسٹی ٹیوٹ کے احاطے میں تھا اور یہیں انہیں وصیت کے مطابق سپردِ خاک بھی کیا گیا۔
خائم وائزمین اپلائیڈ کیمسٹری کا ایک بڑا نام ہے۔ انہیں فادر آف انڈسٹریل فرمنٹیشن کہا جاتا ہے۔ انہوں نے نباتات سے صنعتی پیمانے پر ایسی ٹون اور ایتھونول بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔ ایسی ٹون کورڈائٹ نام کا دھماکا خیز مواد بنانے میں بنیادی ایلیمنٹ ہے۔ اس حیرت انگیز پیش رفت کے سبب برطانیہ کو پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمنی پر سبقت حاصل کرنے میں خاصی مدد ملی۔
خائم وائزمین کی سائنسی قابلیت نے برطانوی اشرافیہ کو ان کا ممنون بنا دیا اور اس تعلق کا احسان برطانوی اسٹیبلشمنٹ نے بالفور ڈکلریشن کی شکل میں چکایا۔ کنزرویٹو وزیرِ اعظم ڈیوڈ لائیڈ جارج، مانچسٹر سے منتخب رکنِ پارلیمان سابق وزیرِ اعظم اور لائیڈ جارج کابینہ میں وزیرِ خارجہ آرتھر بالفور اور بااثر وزیرِ بلدیات ہربرٹ سیموئیل وائزمین کے مداحوں میں شامل تھے۔
وزیرِ خارجہ بالفور نے انیس سو سترہ میں پہلی عالمی جنگ کے خاتمے سے چند ماہ قبل صہیونیت کے سب سے بڑے برطانوی سرپرست سرمایہ دار سر والٹر روتھ چائلڈ کی مشاورت سے مرتب کردہ دستاویز جس میں فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی برطانوی حمایت کا وعدہ تھا جنگی کابینہ کے سامنے رکھی تو لارڈ کرزن ، لارڈ ایسکوئتھ اور وزیرِ امورِ ہند مانٹیگو نے اس منصوبے پر شدید تحفظات ظاہر کیے۔ اچھا انہیں خدشہ تھا کہ ایک ایسے وقت جب جرمنوں کو اپنی شکست صاف دکھائی دے رہی ہے وہ بالفور ڈکلریشن کو برطانیہ کے خلاف عربوں کو بھڑکانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور یوں مشرقِ وسطی میں اتحادی جنگی حکمتِ عملی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مگر گرما گرم مباحثے کے بعد کابینہ نے بالفور ڈکلریشن کی توثیق کر دی ۔
خائم وائزمین کے بقول اسرائیل کے قیام سے بھی زیادہ اہم واقعہ بالفور ڈکلریشن کا اجرا ہے۔ خائم نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ سائنسی تحقیق سے جو وقت بچتا وہ صہیونی نظریے کی لابنگ میں صرف ہو جاتا۔
وائزمین نے 1907ء میں برطانوی کیمیکل کمپنی آئی سی آئی کے لیے فلسطین اور ٹرانس اردن کے درمیان واقع بحیرہ ٔ مردار میں قیمتی عناصر کی تلاش میں تحقیقی رہنمائی کی اور پہلی بار یروشلم بھی دیکھا۔ انہوں نے مستقبل کی یہودی مملکت کا تصور کرتے ہوئے فلسطین لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ بقول وائزمین:
’’ کوئی ریاست محض کاغذی ملکیت کی بنا پر نہیں ابھرتی بلکہ نسل در نسل انتھک محنت مانگتی ہے۔ یہودیوں کو نہ صرف فلسطین میں جوق در جوق بسنا ہو گا بلکہ اپنی موجودگی مستحکم کرنے کے لیے مسلسل ریاضت بھی کرنا ہو گی‘‘۔
ایک جانب برطانوی اسٹیبلشمنٹ وائز مین کے خواب کی پرورش کر رہی تھی تو دوسری جانب جرمن اتحادی ترکی کے زیرِ تسلط حجاز کے گورنر شریف حسین ہاشمی کو شیشے میں اتارنے کا کام بھی جاری تھا۔ ان سے وعدہ کیا گیا کہ ترکوں کی شکست میں مسلح تعاون کے عوض شام تا حجاز کو ہاشمی قیادت میں بطور ایک متحدہ عرب سلطنت تسلیم کر لیا جائے گا۔
تیسری جانب فرانس اور برطانیہ نے گرتی ہو عثمانی سلطنت کے عرب صوبوں کی بندر بانٹ کے لیے سائکس پیکو خفیہ معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدے کے مندرجات کا علم صرف تیسرے اتحادی زار نکولس کو تھا۔ اس بندر بانٹ کے نتیجے میں بلاد شام فرانس کو جب کہ عراق ، ٹرانس اردن اور فلسطین برطانیہ کو ملنا تھا۔
اکتوبر 1917ء میں بالشویکوں نے زار شاہی کا تختہ الٹنے کے بعد جنگ سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے جنگ سے متعلق جو خفیہ دستاویزات افشا کر دیں ان میں سائکس پیکو معاہدے کی کاپی بھی تھی۔
شریفِ مکہ اس کھلی دھوکے بازی پر بھڑک اٹھے۔ مگر انہیں برطانوی ایجنٹ کرنل لارنس (لارنس آف عربیہ ) نے یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا کہ یہ کوئی رسمی معاہدہ نہیں بلکہ برطانوی و فرانسیسی سفارت کاروں کی باہمی یادداشتوں کا ریکارڈ ہے۔ عربوں سے جو وعدہ کیا گیا وہ ضرور پورا ہوگا۔ لارنس نے شریفِ ملکہ کو یقین دلایا کہ ان کے بیٹے فیصل کو متحدہ عرب ریاست کا بادشاہ تسلیم کر لیا جائے گا۔
مگر جب جنگ کے خاتمے سے ذرا پہلے دمشق پر سائکس پیکو سمجھوتے کے دستخطی فرانس کا قبضہ ہوا اور پیرس میں 1919ء میں ہونے والی فاتحین کی امن کانفرنس اور بعد ازاں فاتحین کی کٹھ پتلی لیگ آف نیشنز نے اس قبضے کی بطور انتداب توثیق کر دی تو فرانس نے دمشق سے فیصل کو کان سے پکڑ کر نکالنے میں دیر نہیں لگائی۔
برطانیہ نے اشک شوئی کے لیے عراق کی بادشاہت فیصل بن شریف حسین کے حوالے کر دی۔ جب کہ ان کے دوسرے بیٹے کو ٹرانس اردن کا بادشاہ تسلیم کر لیا گیا۔ مگر اصل طاقت برطانیہ کے پاس ہی رہی۔
پیرس امن کانفرنس اور لیگ آف نیشنز نے فلسطین برطانیہ کو بین الاقوامی امانت کے نام پر سونپا تھا۔ یوں برطانوی چھتر چھایا میں یورپی یہودیوں کی کثیر تعداد میں آمد کا محفوظ راستہ کھل گیا۔
1933ء میں جرمنی میں ہٹلر کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد فلسطین منتقل ہونے والے یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ہٹلر سرکار کے پہلے تین برس کے دوران ایک لاکھ سے زائد نئے یہودی فلسطین میں داخل ہوئے۔ جب عربوں کی بے چینی پھٹ پڑی تو قابض برطانیہ نے بظاہر مزید یہودیوں کی آمد محدود کر دی۔
1936ء میں برطانیہ نے سر رابرٹ پیل کی سربراہی میں فلسطین کمیشن بنایا۔ عربوں نے بائیکاٹ کیا۔ پیل کمیشن نے فلسطین کی تقسیم کی سفارش کی۔ صہیونی قیادت نے جھٹ سے یہ تجویز قبول کر لی۔ برطانیہ اور مسلح یہودی تنظیموں نے عرب بے چینی کو مشترکہ طور پر کچل دیا۔ نومبر 1947ء میں اقوامِ متحدہ نے جو پارٹیشن قرار داد منظور کی وہ پیل کمیشن کی سفارشات کا ہو بہو عکس تھی ۔
انتیس اگست 1939ء کو دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر خائم وائزمین نے وزیرِ اعظم چیمبرلین کو صہیونیوں کی جانب سے مکمل حمایت کا خط بھیجا۔ 1944ء میں برطانیہ نے فلسطین میں آباد یہودیوں پر مشتمل جیوش انفنٹری بریگیڈ تشکیل دیا جو اطالوی محاز پر مسولینی کے خلاف لڑا۔ بعد ازاں اس بریگیڈ کے تربیت یافتہ ریٹائرڈ ارکان نے 1947،48 میں لاکھوں فلسطینیوں کو کھدیڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
خائم وائزمین کو 1942ء میں روزویلٹ نے واشنگٹن میں مدعو کیا۔ وائزمین نے جب روزویلٹ کو سمجھایا کہ مصنوعی ربڑ اور ہائی آکٹین گیسولین کی تیاری کیسے صنعتی پیمانے پر ممکن ہے تو عین جنگ کے دوران قدرتی ربڑ اور فضائیہ کےیہی لیے گیسولین کے بحران سے نبرد آزما امریکی صدر ششدر رہ گئے۔ اس خوشگوار شخصی چھاپ کو وائزمین نے بعد ازاں ٹرومین انتظامیہ سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے چابک دستی سے استعمال کیا۔
خائم وائزمین اسرائیل کی تشکیل کے بعد پہلے عبوری صدر اور 1949ء میں آئینی صدر بنے اور اس عہدے پر رہتے ہوئے نو نومبر 1952ء کو ان کا انتقال ہوا۔ تب تک وائزمین اور وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریان کی جوڑی اسرائیل کو اقوامِ متحدہ کے تحت ملنے والے علاقے کو دوگنا کر چکی تھی۔
بن گوریان
اگر کوئی اسرائیل میں اترتا ہے تو وہ لازماً ملک کے واحد بین الاقوامی بن گوریان ایرپورٹ پر ہی اترے گا۔
کہتے ہیں کہ ہرزل نہ ہوتا تو صہیونیت کی موجودہ نظریاتی شکل نہ ہوتی۔ وائزمین نہ ہوتا تو شاید بالفور ڈیکلریشن نہ جاری ہوتا۔ مگر بن گوریان نہ ہوتا تو شاید اسرائیلی ریاست ہی نہ ہوتی۔ بیسویں صدی کی سو با اثر ترین عالمی شخصیات کی ٹائم میگزین لسٹ میں بن گوریان بھی شامل ہیں۔
بن گوریان اکتوبر 1886ء میں ایک پولش یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایویگڈور گرون کٹر صہیونی تھے۔ یوں بن گوریان کی گھٹی میں ہی صہیونیت تھی۔دیگر صہیونی رہنماؤں کے برعکس بن گوریان کی رسمی تعلیم اسکول تک ہی محدود رہی۔
البتہ انہوں نے عبرانی زبان پر عبور حاصل کر لیا اور وقتاً فوقتاً گذر اوقات کے لیے اس کی تدریس بھی کی۔
1905ء سے انیس سالہ بن گوریان نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ان کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب تھا۔ وہ پولینڈ میں زیرِ زمین جیوش ورکرز پارٹی میں کچھ عرصے فعال رہے۔ ان سرگرمیوں کی بنا پر دو بار جیل کی سیر بھی کی۔
بقول بن گوریان انہوں نے اپنے آبائی قصبے پلونسک میں کبھی بھی بطور یہودی کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کیا۔ مگر پلونسک کے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد نے مرحلہ وار فلسطین کو اپنا وطن بنایا۔ اس لیے نہیں کہ وہ اپنی زندگی سے تنگ تھے بلکہ وہ ایک یہودی وطن کی تعمیر کے جذبے سے سرشار تھے۔
1906ءمیں بن گوریان خاندان بھی نقل مکانی کر گیا۔ انہوں نے جافا کے قریب قائم ایک یہودی بستی میں ڈیرہ ڈالا اور دیہاڑی دار مزدور بن گئے۔ ان کا مقابلہ مقامی عرب مزدوروں سے تھا جو اپنے کام میں زیادہ ماہر اور کم پیسے میں مزدوری پر بھی آمادہ رہتے تھے۔
جافا میں بن گوریان کو جیوش سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے پرانے کامریڈز بھی مل گئے۔ بن گوریان کو پارٹی کی منشور کمیٹی میں شامل کیا گیا۔ مگر پھر پارٹی کے دو دھڑے ہو گئے۔ ایک دھڑا مقامی عرب اور یہودی آبادی پر مشتمل مشترکہ ریاست کی جدوجہد کا حامی تھا۔ بن گوریان اور دیگر ساتھیوں کا خیال تھا کہ ہمیں صرف یہودی ریاست کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ مشترکہ ریاست کی صورت میں یہودی یورپ کی طرح یہاں بھی اکثریتی عرب آبادی کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ رفتہ رفتہ بن گوریان کا نظریاتی کیمپ مضبوط ہوتا چلا گیا۔
چنانچہ پندرہ رکنی پارٹی کانفرنس کی اکثریت نے اس چارٹر کی منظوری دی کہ پارٹی یہودیوں کی سیاسی و معاشی آزادی کی جدوجہد کا محور بنے گی۔ پارٹی ارکان عام لوگوں کو بھی عبرانی کے لسانی دھاگے میں پرونے کی کوشش کریں گے تاکہ ایک متحدہ قومی تصور مستحکم ہو سکے۔
1911ء میں پارٹی قیادت نے یورپی طاقتوں سے کسی تعاون کی امید نہ ہونے پر فیصلہ کیا کہ عثمانی حکومت سے راہ و رسم بڑھائی جائے۔ چنانچہ بن گوریان اور ان کے نوجوان ساتھیوں نے ترک علاقے سالونیکا کا رخ کیا تاکہ مقامی یہودی کمیونٹی میں سیاسی کام کرنے کے ساتھ ساتھ ترک زبان بھی سیکھ لیں۔
1914ء میں بن گوریان اور ان کے کامریڈ بن زیوی سالونیکا سے فلسطین جانے کے لیے بحری جہاز میں ہی تھے کہ پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی۔ بن گوریان اور بن زیوی نے یروشلم پہنچتے ہی ترک افواج کی مدد کے لیے یہودی نوجوانوں کو بھرتی ہونے پر آمادہ کیا۔ چالیس جوانوں پر مشتمل یہودی ملیشیا قائم ہوئی۔ مگر عثمانی انتظامیہ نے اس جذبے سے متاثر ہونے کے بجائے بن زیوی اور بن گوریان کو جبراً قاہرہ بھیج دیا۔
وہاں سے دونوں امریکہ روانہ ہو گئے تاکہ صہیونیت کا پرچار کریں اور فلسطین میں مزید یہودی آبادکاری اور موجود آبادکاروں کی فلاح کے لیے چندہ لے سکیں۔ یہ دورہ نظریاتی و مالی طور پر زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ مگر جب بن گوریان کی ادارات میں یہودی آبادکاروں کی جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں مضامین کا ایک مجموعہ ’’ عظیم اسرائیل ماضی اور حال ‘‘ 1918ء میں نیویارک سے شائع ہوا تو اس کتاب کی ہزاروں کاپیاں تیزی سے بک گئیں۔ بن گوریان کی بطور مستند لکھاری اور بطور ایڈیٹر شہرت پھیلتی چلی گئی۔
جب بن گوریان اور ان کے ساتھیوں پر پہلی عالمی جنگ کے وسط میں واضح ہونے لگا کہ اب عثمانی سلطنت کا وقت پورا ہو گیا اور سلطنتِ برطانیہ کا آفتاب عروج پر ہے تو انہوں نے وفاداری پلٹنے میں لمحہ نہیں لگایا اور برطانوی فوج میں بھرتی ہو گئے۔ ان کا جیوش لیجن برطانیہ کی فلسطین مہم میں عثمانیوں کے خلاف لڑا۔ فلسطین اور دیگر علاقوں سے عثمانی بوریا بستر لپٹ گیا۔ بن گوریان اور دیگر برطانیہ کی نظر میں گڈ بوائے بن گئے۔
1919ء میں فوج میں چھانٹی کے سبب جیوش لیجن کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ بن گوریان دوبارہ ٹریڈ یونین تحریک میں فعال ہو گئے۔ 1921ء میں انہیں فلسطین کی صہیونی لیبر فیڈریشن (حساردوت ) کا جنرل سیکریٹری چن لیا گیا اور اس عہدے پر وہ 1935ء تک فائز رہے۔
چونکہ یہودی آبادکاروں میں کسانوں ، محنت کشوں اور ہنرمندوں کی اکثریت تھی لہٰذا بن گوریان اس طبقے کی آنکھ کا تارہ ہو گئے۔ البتہ یورپ اور امریکہ کی یہودی بورژوازی نے دامے درمے اپنے اپنے ممالک کے حکمران طبقات تک نسلی و مذہبی قوم پرستی کی آواز پہنچانے میں ضرور کلیدی کردار نبھایا۔
بن گوریان اور ان کے ساتھیوں نے یہودی مزدور طاقت کو منظم اور یکجا رکھنے کے لیے مپائی کے نام سے سیاسی تنظیم قائم کی ( یہی جماعت اسرائیل کی تشکیل کے بعد لیبر پارٹی کے نام سے جانی گئی اور اس نے 1977ءتک بلاشرکتِ غیرے حکومت کی )۔
1935ء تک بن گوریان صہیونی تحریک کے سب سے طاقت ور رہنما کے طور پر ابھرے۔ وہ عالمی صہیونی تنظیم کے صدر اور فلسطین میں یہودی آبادکاری کی نگراں جیوش ایجنسی کے چیئرمین بن گئے۔
انہوں نے لیبر تحریک کا ایک مسلح بازو ہگانہ کے نام سے قائم کیا۔ اگرچہ ہگانہ دیگر مسلح یہودی ملیشیاؤں کے مقابلے میں اعتدال پسند سمجھی جاتی تھی۔ مگر جب یہودی آبادکاروں کو محسوس ہوا کہ 1936ء تا 1939ء کے عرصے میں فلسطینی تحریک دبانے میں برطانیہ کا بھرپور ساتھ دینے کے باوجود برطانیہ ایک یہودی ریاست کے قیام میں مدد دینے کے بجائے ٹال مٹول کر رہا ہے تو تمام مسلح ملیشیائیں عالمی جنگ ختم ہوتے ہی اس نکتے پر متفق ہو گئیں کہ ریاست کے قیام کے لیے دہشت گردی سمت ہر حربہ جائز ہے، اب یا کبھی نہیں۔
چنانچہ ارگون اور لیوی نامی مسلح جتھوں نے عرب آبادی کو جبراً شہروں سے نکالنا شروع کیا اور ہگانہ نے یروشلم میں برطانوی انتظامیہ کا ہیڈ کوارٹر کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد برطانیہ نے یہاں سے نکلنے میں عافیت سمجھی۔
چودہ مئی 1948ء کو بن گوریان نے تل ابیب میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا اور اگلے دن برطانوی اقتدار فلسطین سے ختم ہو گیا۔ تین لاکھ فلسطینی پہلے ہی نکالے جا چکے تھے۔ بقیہ چار لاکھ اسرائیل پر چار عرب ممالک کے حملے کی ناکامی کے بعد نکال دیے گئے۔ اس جنگ میں نہ صرف برطانوی اور غیر قانونی طور پر اسمگل ہونے والا امریکی اسلحہ کام آیا بلکہ سوویت یونین کی تائید سے چیکو سلوواکیہ نے بھی نوزائیدہ ریاست کی بھرپور فوجی امداد کی۔
بن گوریان 1963ء تک اسرائیل کی قیادت کرتے رہے۔ ان کی وزارتِ عظمی میں یہودی ملیشیاؤں کو ضم کر کے اسرائیلی ڈیفنس فورس تشکیل پائی۔ 1956ء کی سوئز جنگ بھی ہوئی۔ مغربی جرمنی نے ہٹلر کی نسل کشی کے ازالے کے لیے پانچ ارب ڈالر ہرجانے کی رقم اسرائیل کو مہیا کی اور آج تک کسی نہ کسی شکل میں احسان چکا رہا ہے۔
بن گوریان 1970ء میں عملی سیاست سے ریٹائر ہو کر جنوبی اسرائیل کے ایک گاؤں میں بس گئے اور وہیں یکم دسمبر 1973ء کو ان کا ستاسی برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ وہ اکتوبر 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ دیکھ کے رخصت ہوئے۔
نہوم گولڈمین عالمی صہیونی کانگریس کے 1951ء تا 1978ءصدر رہے۔ان کے بقول بن گوریان نے مجھ سے 1956ء میں ایک نجی ملاقات کے دوران کہا :
’’ میں عربوں کی جگہ ہوتا تو کبھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرتا۔ یہ ایک فطری ردِعمل ہے۔ ہم بھلے سمجھتے ہیں کہ اس سرزمین کا وعدہ ہم سے خدا نے کیا تھا۔
مگر عربوں کو ہمارے عقیدے سے کیا واسطہ؟ ہمارا خدا ان کا تو نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم بنی اسرائیل سے ہیں مگر یہ بھی دو ہزار برس پرانی بات ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہم صدیوں سے تعصب کا مسلسل شکار ہیں۔ ہمیں ہٹلر کے نسل کش کیمپوں سے گذرنا پڑا۔ مگر یہ عربوں کا تو دوش نہیں۔ وہ تو بس یہی جانتے ہیں کہ ہم آئے اور ان کا ملک چوری کر لیا۔ وہ آخر کیوں اسے قبول کریں ؟‘‘
[یہ مضمون ایک معاصر اخبار میں قسط وار شائع ہو چکا ہے۔ مستعار مضامین، مجلے کی ادارتی پالیسی کے مطابق شائع کیے جاتے ہیں۔ (ادارہ)]
٭٭٭٭٭