معرکۂ روح و بدن

اللہ نے انسان کی آزمائش کے سامان سے دنیا کو خوب آراستہ کر رکھا ہے۔ اسی سے ہی تو دنیا میں عاشقوں کی رونق ہے۔ کس کے عاشق؟ عاشق عدل کے ، عاشق حق کے، عاشق دین مبین کے، عاشق میدان کار زار کے، عاشق شہادت کے، عاشق صحابہ و اہل بیت کے، عاشق اپنے نبی ﷺکے، عاشق اپنے خالق و مالک کے۔

اگر دنیا میں خیر و شر متصادم نہ ہوں دنیا کتنی پھیکی ہو۔ خود عیاش و ہوس پرستوں کو بھی اگر کوئی روک ٹوک نہ ہوتی حق کے غلبہ اور ان کی خر مستیاں ختم ہونے کا خیال نہ ہوتا تو محض یونہی کب تک یکسانیت میں مگن رہ پاتے؟ یہ فطری ہے کہ بلآخر اکتاہٹ ہوتی۔ جبکہ دوسری جانب اللہ کے مطیع و فرمانبردار بندے ہر آن اسی فکر میں رہتے ہیں کہ کیسے اس کی رضا حاصل ہو جو اکیلا بندگی کے لائق ہے۔ مشتاق رہتے کہ کب اپنا وعدہ پورا کر سکیں اس کے عشق میں کٹ کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ اللہ اللہ، لقاء اللہ کے تصور سے ہی مسرور رہتے ہیں جب تک زندگی میں ایسے حالات نہ آئیں جو دنیا کو حیران کر دیں کہ کیا یہ گوشت پوست کے انسان ہی ہیں ایسا صبر، ایسی جرأت، ایسی وارفتگی! اور پھر شہادت کے سوا موت انہیں کہاں گوارہ ہے؟ انہیں شرم محسوس ہوتی ہے اپنے رب سے ملاقات میں کیا لے کر جائیں گے، ایسا تو کوئی مادی تحفہ نہیں ہو سکتا جو اس خالق کل کے شان شایان ہو پس اپنی یہی پونجی لٹا کر اس کے دیدار کی منتظر رہتے ہیں۔

تاریخ ایسے عاشقوں کی روداد سے پر ہے لیکن جن کی عقل پر پردے ہوں وہ پھر ان عاشقوں کو جان سے مار دینے کی دھمکی دیتے نظر آتے ہیں۔ ہے نا لطیفہ! جو ہر آن ہر گھڑی تمنائے شہادت میں مچلتے ہیں، جو رات رات بھر تہجد کے سجدوں میں اپنے رب کی ملاقات کی فریاد کرتے ہوں ان کو موت کی دھمکی۔ شہادت کی اس تڑپ کو مادی دنیا کے فرعون کیا سمجھ سکتے ہیں، انہیں تو اللہ کے وہ بندے بھی سمجھ نہیں سکتے جو صنف مخالف کے کسی فرد کی تمنا میں مشغولِ دعا رہتے ہیں۔ یہ عشق ان عشق کے دعوے داروں کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے جو مجازی میں الجھے بیٹھے ہیں، حجر و فراق کی ابجد سے بھی واقف نہیں کیونکہ ہجرت و جہاد میں جو لذت پنہاں ہے وہ ہر ایک کا مقدر کیونکر ہو۔ یہ پاکیزہ جذبات تو رب کا وہ انعام ہے جسے ایک پاکیزہ دل میں موجزن کیا جاتا ہے۔ ان جزبات کی شدت واللہ کیا پر لطف ہوتی ہے جب آنکھوں سے اشک بھی رشک کرتے ہوئے بہتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے ایک بودی عقل والا ٹینکوں کی گھن گرج اور طیاروں کی چنگھاڑوں سے ڈرانے کی آرزو لیے دھمکیاں دیتا بے بس لاچار شخص جو بظاہر امریکہ کی مسند اقتدار پر آ بیٹھا ہو، جو خود اس خوف میں مبتلا ہو کہ قتل نہ ہو جائے، جو جب اللہ کے شیروں کی للکار سنتا ہو تو کانپ جاتا ہو، اپنے قلعہ نما محلات سکیورٹی کے تہہ در تہہ دائروں میں چھپا لرزتا قابل ترس فرعون کبھی نہیں سمجھ سکتا کہ جان سے بے پرواہ ہونا کسے کہتے ہیں۔ سیف اللہ و حیدرِ کرار کے روحانی بیٹوں کی تمنائے شہادت کو سمجھنا ایسے پست دماغوں سے بہت بالا معاملہ ہے۔

فی زمانہ کفر و گمراہی کے شکار بندوں کا قبلہ امریکہ ہے اور دنیا میں برائی اور شیطانیت کی غلاظت اس منبع غلاظت سے ہی پھیلتی ہے۔ دنیا میں شیطانی منصوبہ سازوں کی آماجگاہ، گویا تمام ابلیسی ریاستوں کی گندگی ملا کر اس غلیظ ریاست امریکہ کو نہ پہنچے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ اب ایک مرتبہ پھر سے اس غلاظت کے مرکز کو شیطان کا ایسا پجاری میسر آیا ہے جس کی رگ رگ میں نجس زہر بھرا ہوا ہے۔ تاریخ میں جس طرح رینالڈ ملعون (جسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے قسم کھا کر اپنے دست مبارک سے جہنم رسید کیا) کا نام نفرت اور کراہت سے درج ہے اسی طرح موجودہ امریکی صدر ٹرمپ بھی کمینگی اور ذلالت کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ اپنے پچھلے دور حکومت میں بھی القدس کو صہیونیوں کا دارالحکومت قرار دلوانے کی سعی کرتا رہا۔ ڈیل آف سینچری کے نام سے صہیونیوں کو غدار مسلم حکمرانوں سے تسلیم کرانے کی سازش بنتا رہا۔ اب کی بار بھی اس ملعون نے اپنی ذہنیت نہیں بدلی بلکہ غزہ کو پاکیزہ خو مومنین سے خالی کروا کر بے حیائی اور عریانی کا مرکز بنانے کی بڑ ہانک رہا ہے۔ جہنم جس کے انتظار میں دہک رہی ہے، جنت نظیر اور انبیاء کی مبارک سرزمین القدس کو جہنم بنانے کی دھمکیاں دیتا منہ سے کف اڑاتا پھرتا ہے۔

دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

جیسا کہ قرآن کہتا ہے:

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا ڰ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ؁ (سورۃ آل عمران: ۱۷۳)

’’وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں۔ تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔‘‘

دوسری طرف منظر ہی الگ ہے ہزاروں شہادتوں کے بعد اتنے زخمیوں کے بعد، جن کی تعداد شہداء سے بہت زیادہ ہے، اپنے گھر اور بستیوں کو کھنڈر بنے دیکھ کر بھی مجال ہے جو اہل غزہ کے جوانمردوں حتیٰ بوڑھوں یا بچوں اور عورتوں میں سے کسی پر کوئی کمزور لمحہ بھی کسی نے دیکھا ہو۔ اللہ اللہ ایسا ایمان ! اتنا قابل رشک انسان کیسے ہو سکتا ہے؟ ایسی استقامت، ایسا حوصلہ، ایسا عزم، یہ کیا ہے آخر جس کی گرہیں عقل کھولنے سے عاجز ہے۔ کیوں نہ ہو یہ کیفیت یہ منظر بالکل ایسا ہی جچتا ہے ان پر جن کی شان میں قرآن کہتا ہے:

الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا (سورۃ إسراء: ۱)

’’مسجدِ اقصیٰ جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔‘‘

بلاشبہ یہی ہے برکت۔ اہل غزہ کا قرآن سے بےمثال تعلق پوری دنیا نے دیکھا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ایمان کا مشاہدہ بھی سب نے کر لیا۔ اللہ کی نشانیاں کھلی آنکھوں سے سب دیکھ رہے ہیں۔ یہ کیسی جنگ ہے جہاں دنیا بھر کے سامان اکٹھے کر کے ٹوٹ پڑنے والا دشمن ان بےسروسامانی کے عالم میں موجود محصور جانبازوں سے شکست کھا جاتا ہے۔ اردگرد کی مسلم ریاستیں جن سے منہ موڑے کھڑی ہیں کائنات کا خالق ان کے ساتھ ہے۔

مجاہدین کا ولولہ دیدنی ہے۔ اہل غزہ کو کہا جا رہا ہے تمہیں ان سے بہت بہتر اور عالیشان رہائش دی جائے گی۔ ان کا جواب ہے:

عیش و عشرت سے غرض ہم کو نہیں
ہم فداکاروں کی دنیا اور ہے

ان کو کہا جا رہا ہے بصورت دیگر تم پر حولناک جنگ مسلط کی جائے گی۔ وہ جواباً کہہ رہے ہیں:

بزدلوں کو جراتوں کی کیا خبر
تیر و تلواروں کی دنیا اور ہے

کچھ لوگ اپنائیت کے پردے میں مصلحت کے مشورے دے ہیں۔ عاشقوں کا جواب ان کے لیے بھی ایمان افروز ہے:

مصلحت کے نام سے واقف نہیں
ہم تو راہرو ہیں راہ اخلاص کے
جان و دل صدقے میں ہم تو دے چکے
ہم وفاداروں کی دنیا اور ہے

مال و منصب کا کوئی لالچ ان پر کارگر نہیں۔ کوئی رنج و غم انہیں توڑ نہیں سکتا وہ کہتے ہیں:

مال و منصب کی تمنا چھوڑ کر
لذت غم سے شناسا ہو چکے
ہم کو غم میں ہی سلگنے دیجیے
درد کے ماروں کی دنیا اور ہے

ٹرمپ کہتا ہے یہ الگ ہی لوگ ہیں، انکا دشمن حیران ہے کیونکہ:

گل بدن لوگوں نے یہ سوچا نہ تھا
کن چٹانوں سے وہ ٹکرانے چلے
شیش محلوں کے مکینوں سے کہو
پتھروں غاروں کی دنیا اور ہے

عیاش مسلم حکمران ٹرمپ کے منصوبوں کو روکنے کی قوت نہیں رکھتے وہ جانتا ہے اسی لیے ایسے غداروں کو بھی اہل حق کا پیغام یہی ہے:

ترجماں ہو تم تو ہر طاغوت کے
آب شر (شراب) سے ہے تمہاری دل لگی
وہ جو پیتے ہیں سدا وحدت (توحید) کی مئے
ایسے میخواروں کی دنیا اور ہے

شہادت کے متلاشی جانبازوں کا حتمی اعلان ہے:

حسن فانی کی فسوں کاری کہاں
جلوہ جاناں کی سرشاری کہاں
ظلمتوں کی آرزو کچھ اور ہے
حق کے نظاروں کی دنیا اور ہے

بے مثل و بے نظیر سرزمین القدس کے عوام کا سب کچھ لٹا کر بھی کہنا ہے:

لذت آہ و فغاں کیا چیز ہے
راحت اشک سحر گاہی ہے کیا
نیند کے ماروں کو انور کیا خبر
شب کے بیداروں کی دنیا اور ہے

دوسری طرف بیس سال طالع آزمائی کے بعد ٹرمپ ملعون خدا مست طالبان کو بھی اپنے اندر کی نجاست سے مجبور ہو کر غنیمت واپس کرنے کا کہہ رہا ہے۔ لیکن درویشوں کا جواب بڑا سادہ سا اور مختصر ہے:

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے

٭٭٭٭٭

Exit mobile version