اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | نویں قسط

سورۃالعصر کی روشنی میں

کامیاب گروہ: حزب الرحمٰن

﴿اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا﴾: ایک اللہ کا ہوجانا، اس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عزم۔ جینا بھی اسی کے لیے مرنا بھی اسی کے لیے، الحب للہ والبغض للہ، اللہ کے دوستوں سے دوستی اور اللہ کی شریعت کے دشمنوں سے دشمنی۔

﴿وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ﴾: اللہ کے اوامر و نواہی کی پابندی،﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾: نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون اور گناہوں اور اللہ کی بغاوت کے کاموں میں کوئی تعاون نہیں۔

﴿وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ﴾: روئے زمین سے شیطانی نظاموں کو ختم کر کے سارا کا سارا نظام صرف اللہ کے لیے، پورے قرآن کے نفاذ کے ذریعہ، انسانیت کو کفر کی تاریکیوں سے نکال کر آخرت کے اجالوں کی طرف لے آنے کی کُڑھن۔

﴿وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾: یعنی پور ے دین کی نبی ﷺ والی دعوت پر استقامت سے ڈٹ جانا، کٹ جانا، مٹ جانا، اور باطل سے ڈر کر اس دعوت میں کوئی کمی یا زیادتی نہ کرنا بلکہ اسی پر اپنا سب کچھ قربان کر دینا۔

کامیابی کے درجات

پھر کامیاب لوگ بھی درجات کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ چنانچہ کون کتنا کامیاب رہا، کس نے کتنا اپنے آپ کو اس خسارے سے بچا لیا، کس نے کتنا اپنے سرمایے کو نفع بخش بنا لیا، قرآن کریم اسے بیان کر رہا ہے:

﴿وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۝ اُولٰۗىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ۝ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ؀﴾ (سورۃ الواقعۃ:10-12)

’’اور جو سبقت لے جانے والے ہیں، وہ تو ہیں ہی سبقت لے جانے والے ۔ وہی ہیں جو اللہ کے خاص مقرب بندے ہیں۔ وہ نعمتوں کے باغات میں ہوں گے۔‘‘

﴿وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ ڏ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝﴾(سورۃالواقعۃ:27)

’’اور وہ جو دائیں ہاتھ والے ہوں گے، کیا کہنا ان دائیں ہاتھ والوں کا۔‘‘

﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ؁﴾(سورۃالتوبة: 100)

’’اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے، اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہو گیا ہے ، اور وہ اس سے راضی ہیں، اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔‘‘

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ؀﴾ (سورۃالصف:10)

’’اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے دے۔‘‘

﴿تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝﴾ (سورۃالصف:11)

’’(وہ یہ ہے کہ ) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ یہ تمہارے لیے بہترین بات ہے ، اگر تم سمجھو۔‘‘

﴿يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ۝﴾ (سورۃالصف: 12)

’’اس کے نتیجے میں اللہ تمہاری خاطر تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں ان باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ایسے عمدہ گھروں میں بسائے گا جو ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں واقع ہوں گے۔ یہی زبردست کامیابی ہے ۔‘‘

﴿اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ ۣ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ ۭ وَذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ؁﴾ (سورۃالتوبة: 111)

’’واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات کے بدلے خرید لیے ہیں کہ جنت انہی کی ہے۔ وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ یہ ایک سچا وعدہ ہے جس کی ذمہ داری اللہ نے تورات اور انجیل میں بھی لی ہے، اور قرآن میں بھی۔ اور کون ہے جو اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو؟ لہٰذا اپنے اس سودے پر خوشی مناؤ جو تم نے اللہ سے کر لیا ہے ۔ اور یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔‘‘

﴿فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِيْ رَحْمَتِهٖ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِيْنُ ؀﴾ (سورۃالجاثية: 30)

’’سو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، ان کا رب انہیں اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا، یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔‘‘

﴿يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝﴾ (سورۃالحدید:12)

’’اس دن جب تم مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا (اور ان سے کہا جائے گا کہ ) آج تمہیں خوشخبری ہے ان باغات کی جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں تم ہمیشہ ہمیشہ رہو گے۔ یہی ہے جو بڑی زبردست کامیابی ہے۔‘‘

﴿يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ ۚ قِيْلَ ارْجِعُوْا وَرَاۗءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا ۭ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ ۭ بَاطِنُهٗ فِيْهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ۝﴾ (سورۃالحدید:13)

’’اس دن جب منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے کہ: ذرا ہمارا انتظار کر لو کہ تمہارے نور سے ہم بھی کچھ روشنی حاصل کر لیں۔ (ان سے) کہا جائے گا کہ : تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ، پھر نور تلاش کرو۔ پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہو گا جس کے اندر کی طرف رحمت ہو گی، اور باہر کی طرف عذاب ہو گا۔‘‘

﴿تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ؀﴾ (سورۃالنساء: 13)

’’یہ اللہ کی حدود ہیں اور جس نے اللہ اور اس کے رسول() کی اطاعت کی، اسے ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ أُرَاهُ فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّة۔1

’’بیشک جنت میں سو درجات ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار کیا ہے، دو درجوں کا آپس کا فاصلہ اتنا ہے جتنا کہ آسمان و زمین کا فاصلہ، سو جب تم اللہ سے مانگو تو اس سے فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا بیچ و بیچ اور سب سے اونچا حصہ ہے، اس کے اوپر رحمٰن کا عرش نظر آتا ہے، اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔‘‘

انسانوں کا بنایا ہوا جمہوری نظام: خسارہ ہی خسارہ

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا

قرآن ِ کریم کی اس چھوٹی سی سورت کی چھوٹی سی آیت ﴿إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴾ دانشورانِ مغرب، ہند کے برہمنوں اور جدید جاہلی نظام (جمہوریت) کی قیادتوں کے لیے آج بھی چیلنج ہے کہ اے انسانیت کی قیادت کے دعویدارو! جیسے اللہ کی کتاب کو چھوڑ کر پہلی اقوام باوجود ترقی کے خسارے میں رہیں، تمہارا حال بھی ایسا ہی ہے، تم بھی گھاٹے میں جا رہے ہو، کامیابی کے سارے دعوے جھوٹے ہیں، تم نے دنیا سے اللہ کی شریعت کا خاتمہ کر کے اپنا گھڑا ہوا نظام مسلط کیا، تم نے محمد ﷺ کے لائے طرزِ زندگی کے مقابلے اپنا جاہلی طرزِ زندگی دنیا پرتھوپا، انجام کیا ہوا؟

آج تم خود دیکھ رہے ہو، ترقی یافتہ یورپ و امریکہ غربت و بے روزگاری ،فساد و بدامنی اور معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، زندگی میں چین و سکون نام کی کوئی چیز نہیں، اخلاص و وفا، ایثار و قربانی اور محبت و ہمدردی مغربی طرزِ زندگی میں کوئی چیز ہی نہیں، صرف ایسا معاشرہ ہے جو مفادات کی بنیاد پر کھڑا ہے،کوئی کسی کا نہیں، صرف مفادات کی دنیا ہے۔ بیوی اس وقت تک بیوی ہے جب تک شوہر کے ساتھ مفاد ہے، اور شوہر اس وقت تک شوہر ہے جب تک بیوی کے لیے قابلِ فائدہ ہے، حالت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر پر بھروسہ نہیں کر سکتی، ماں اپنے بیٹے پر اعتماد نہیں کر سکتی، بہن کو اپنے بھائی پر بھروسہ نہیں۔

حالانکہ مغربی فلسفہ حیات کا دعویٰ ہی صرف اور صرف دنیا سنوارنا تھا، دانشورانِ مغرب نے مذہب سے بغاوت کراتے وقت اپنی اقوام کے سامنے نعرہ ہی یہ لگایا تھا کہ ان کے پاس جو فلسفۂ حیات ہے، جو طرزِ زندگی وہ لے کر آئے ہیں، اس پر چل کر قومیں ترقی و خوشحالی کی ایسی شاہراہ پر گامزن ہوں گی کہ بدحالی کبھی قریب بھی نہیں آئے گی، ان کے نظامِ حیات کو قبول کر لینے کے بعد قوموں کا معیارِ زندگی ایسا بلند ہو گا کہ ہر طرف رزق کی فراوانی، آسودگی و فارغ البالی ہوگی، ایک ایسا معاشرہ جہاں امن و سکون، عزت و احترام اور رشتوں کا تقدس ہو گا، غرض دنیا ہی جنت بن جائے گی۔

لیکن بغیر خالق کی مانے اس کی مخلوق کیوں کر چین و سکون حاصل کر سکتی ہے؟ اس کے دین کو بطورِ طرزِ زندگی اختیار کیے بغیر دنیا کا امن و سکون، آسودگی و خوشحالی کیونکر نصیب ہو سکتی ہے؟جس شریعت کو رحمۃ للعالمینﷺ کو دے کر بھیجا گیا، اسے نافذ کیے بغیر رحمتیں کہاں قریب آسکتی ہیں؟

دانشورانِ ہند اور برہمن مفکرین کیا ا س حقیقت کا انکار کر پائیں گے کہ ہند میں اسلام کا نور پھیلنے سے پہلے ہندوستانی معاشرہ کیسی بدتر اخلاقی حالت میں مبتلا تھا؟ ہندو معاشرہ طبقاتی تفریق، چھوت چھات اور عورت کو منحوس سمجھنے کے عقیدے پر قائم تھا۔ انتہا یہ تھی کہ شوہر کے مرنے کے ساتھ ہی اس کی بیوی کو شوہر کے ساتھ ہی ’چتا‘ میں جلا کر ’ستی‘ کر دیا جاتا تھا۔

عام آدمی کو جاگیر داروں، مہاراجوں اور برہمن پنڈتوں نے اپنا غلام بنایا ہوا تھا، چنانچہ نسل در نسل غلامی ان کا مقدر تھی۔ انہیں اتنے حقوق بھی حاصل نہ تھے جتنے آج کتے بلی کو دئیے جاتے ہیں۔

یہ تو رحمۃ للعالمینﷺ کا رحمت والا دین ہی تھا جس نے ہندو معاشرے کو انسانیت سکھائی، انسانی احترام اور ذات پات کی قباحت سمجھائی، برہمنِ ہند کو یہ سمجھایا کہ انسان کا خون جانور کے خون سے کہیں زیادہ مقدس ہے، اسے یہ راز بتایا کہ عورت ذات بھی مرد ہی کی طرح اللہ ہی کی پیدا کردہ ہے، اور اس کے شوہر کی موت میں اس کا کوئی قصور نہیں کہ اسے زندہ ہی ’سَتی‘ کر دیا جائے۔

ہندوستان سے شریعت کے خاتمے کے بعد یعنی انگریزوں کے دہلی پر قبضہ کرنے کے بعد سے اب تک یہ معاشرہ کس ناگفتہ بہ حالت کا شکار ہے۔ زناکاری، رشوت، سود، کمزوروں پر ظلم اور طبقاتی تفریق (اس بار اگرچہ اس کا رنگ مختلف ہے) جیسی اخلاقی بیماریاں ناسور کی طرح اس معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔

عقل حیران ہے کہ اس جدید دور میں بھی جبکہ ہندو خود کو دنیا کی بڑی طاقت کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اسی دنیا میں ایسی قوم بھی بستی ہے جو اپنے ہاتھوں سے تراشے پتھروں کو اپنا معبود بنا لیتی ہے، خود ہی اپنے پرانے معبودوں کے اختیارات کبھی کم کبھی زیادہ کرتی رہتی ہے، کبھی ایک کے اختیارات دوسرے کو، کبھی تین کے اختیارات ایک میں ضم کر دیتی ہے، سائنس و ٹیکنالوجی ،علم و ادب میں ترقی کے دعویدار مفکرینِ ہند کیا کبھی یہ غور کرنے کی جرأت نہیں کرتے کہ آخر اس جدید دور میں بھی جہالت کی وہی پرانی تاریکیاں؟ ٹی وی پر بڑے بڑے نعرے لگانے والے دانشور کیا کبھی اپنے اندر جھانکنے کی ہمت نہیں کر پاتے یا آج بھی ان کی سوچوں پر برہمن کی علمی اجارہ داری کے وہی پرانے پہرے ہیں جو اسلام کے آنے سے پہلے تھے؟ کیا ہندو عقیدے کے بارے میں بات کرنا آج بھی اتنا ہی جرم ہے جتنا کہ تاریک دور میں ہوا کرتا تھا؟

یہ سوال کسی سطح پر تو اٹھایا جانا چاہیے!

ان تمام خرابیوں اور برائیوں کی ایک ہی وجہ ہے۔ اپنے خالقِ حقیقی کو نہ پہچاننا، اس کے نازل کردہ نظام کو چھوڑ بیٹھنا۔

سو مشرق و مغرب اللہ سے بغاوت کا انجام آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، تاریخِ انسانیت میں کیا انسان کبھی اتنا ذلیل ہوا تھا جتنا تمہارے اس جدید نظام کے ذریعہ ہوا، تم نے انسانوں سے ان کا امن و سکون چھین لیا، تم نے ان کو معبودِ حقیقی سے کاٹ کر اپنے ہاتھوں سے تراشے معبودوں کا بندہ بنادیا، کہیں جمہوریت کے نام پر، کہیں آمریت کے نام پر، کہیں اشتراکیت کے ذریعہ تو کہیں سرمایہ داری کے ذریعہ۔

تم نے انسانی معاشرے کو اس جنگل سے بھی بدتر بنا دیا جہاں کے حیوان بھی شرم و حیاء اور اخلاقیات کا خیال کرتے ہیں، تم نے خاندانوں کو توڑ کر قطع رحمی کے ایسے بیج بوئے کہ گھر بار اور خاندان تباہ و برباد ہو گئے، اولاد والدین کو بھول گئی اوروالدین اولاد کو، مغرب کے بازاروں میں ماؤں کی ممتا کا جنازہ نکال دیا گیا، بھائی بہنوں کے مقدس رشتے پامال کرنے والے تم ہی ہو، یہ تم ہی ہو جنہوں نے بے شرمی و بے حیائی اور عصمت فروشی کو ایسی صنعت بنایا کہ تمہاری بعض ریاستیں اسی عصمت فروشی کے رزق پر پلتی ہیں، تمہاری بے حیائی دیکھ کر عزت دار گھرانے حیاء و پاکدامنی پر نوحہ کناں ہیں، ہنگاموں سے بھرے ا ن شہروں میں شرم و حیاء در بدری کا ایسا شکار ہوئی کہ اسے کہیں جائے پناہ نہیں ملتی، تم اپنی عوام کو حقِ حکمرانی کیا دیتے تم نے تو اپنی عوام کی ایک بڑی تعداد کو ان کے باپ کے شجرے سے ہی محروم کر دیا۔ پھر بھی بڑے زعم سے کہتے ہو کہ تمہارا لائف اسٹائل ہی انسانیت کو عزت دے سکتا ہے!

تمہاری ذخیرہ اندوزی کی حرص نے بازاروں سے ایمانداری چھین کر بے ایمانی و دھوکہ دہی کا ایسا بازار گرم کیا کہ نہ کسی وعدے کا پاس رہا نہ زبان کا اعتبار، رزق کے نام پر تم نے ساری انسانیت کو سود ی نظام میں مبتلا کیا اور روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کا محتاج بنا دیا۔ تمہارے اس سودی نظام کے نتیجے میں انسانوں کو سوائے مہنگائی و کساد بازاری اور ملاوٹ و جعل سازی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔

اس میں شک نہیں کہ مغرب نے اپنی مشینوں کے سہارے آسمان کو چھوتی بلند و بالا عمارتیں تعمیر کر لیں، لیکن ان کے مکین اخلاقی پستیوں کے ایسے گڑھے میں جا گرے جہاں انسانیت شرمندہ ہو رہی ہے، یہ صحیح ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے مغرب کے باسیوں کی زندگی کو اتنا تیز کر دیا کہ ایک نوجوان اپنے کمرے میں بیٹھ کر ساری دنیا سے باخبر رہتا ہے، لیکن یہ انسانیت سے اتنا دور ہوا کہ ساتھ والے کمرے میں موجود بوڑھی ماں کی اس کو خبر نہیں ہوتی جو ایک گلاس پانی کے انتظار میں سوکھ رہی ہوتی ہے، صنعتی ترقی اور تیز تر معیشت نے نوجوانوں کی مزدوری میں اضافہ ضرور کر دیا، لیکن سودی نظام میں جکڑا نوجوان بینکوں اور ملٹی نیشنلز کے سودی قرضے اتارتے اتارتے بوڑھا ہو گیا، زراعت کے جدید جینیاتی مصنوعی طریقوں سے کسانوں کی پیداوار کو تیز تو کر دیا لیکن اس زمین پر اللہ کا نظام نہ ہونے کے سبب زمین نے اپنی پیداوار کی غذائیت کو رو ک لیا، اب زمینیں ہیں کہ انتہائی مشکل سے بہت تھوڑا اگاتی ہیں اور وہ بھی ایسا کہ فائدہ بہت کم، غذائیت سے خالی جھاڑ جھنکاڑ ہی اگاتی ہیں، دیکھنے میں ہر چیز پہلے سے بڑی اور موٹی ہے لیکن اس میں غذا نام کی کوئی چیز نہیں۔

غرض یہ کہ تمہاری تہذیب و فلسفہ، تمہاری اقدار و طرزِ زندگی اور تمہارا تعلیمی و مالی نظام، جمہوری و پارلیمانی نظام سب ناکام ہو چکے ہیں، وقت نے ثابت کر دیا کہ دانشورانِ مغرب نے جو آشیانہ بنایا تھا، وہ شاخِ نازک پر ہی تھا، اور آسمان گواہ ہے کہ تمہاری تہذیب اپنے ہی خنجر سے آپ ہی خودکشی کر رہی ہے، جس تہذیب کو تم نے لیپا پوتی کے ذریعہ خوبصورت بنا کر دنیا کو دھوکہ دیا تھا، آج اس کی لاش میں کیڑے ابل رہے ہیں جس کی سڑاند یہاں سات سمندر پار بھی شرفاء کی زندگی کا سکون برباد کر رہی ہے۔

تم انسانوں کو مثالی اخلاقیات اور اعلیٰ اقدار کیا سکھاتے ، حقیقت یہ ہے کہ تم نے ابلیس کے خیال، اس کی امیدوں اور تمناؤں ہی کی تکمیل کی اور ابھی بھی تم اسی کے مشن کی تکمیل کے لیے دنیا کو جنگوں کی بھٹی میں جھونکے ہوئے ہو کہ شاید تم مزید انسانی خون بہا کر عالمی اقتدار کی ہاری بازی جیت سکو اور اس طرح ہاتھ سے نکلتی دنیا کی قیادت تمہارے ہاتھ میں باقی رہ جائے۔

لیکن اب یہ مجنون کا خواب ہی ہے۔

؏ ایں خیال است و محال است و جنوں

تمہاری عقل و دانش، تمہاری سائنسی ترقی، تمہارا شب و روز دنیا بھر میں دوڑے پھرنا، یہ سب ابلیس کے گمان ہی کو سچا ثابت کرنے کے لیے ہے:

﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ؀ ﴾ (سورۃ سبأ:20)

’’اور واقعی ان لوگوں کے بارے میں ابلیس نے اپنا خیال درست پایا، چنانچہ یہ اسی کے پیچھے چل پڑے، سوائے اس گروہ کے جو مومن تھا۔‘‘

اللہ کی کتاب آج اکیسویں صدی میں بھی تمہیں جھنجھوڑ رہی ہے کہ اے جدید جاہلی تہذیب کے اسیر انسان! تو خسارے میں ہے۔ تیرا ہر لمحہ خسارے و گھاٹے میں گزر رہا ہے، تو سمندر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہو یا خلاؤں میں مارا مارا پھرتا رہے، تیری مادی ترقی، صنعت و ٹیکنالوجی، جگمگاتے شہر، ان سب کے باوجود، تیرا ایک ایک لمحہ، ایک ایک پل، اور ہر ہر سانس تیرے گھاٹے و نقصان میں اضافہ ہی کر رہا ہے، اگر چہ تیری کوتاہ نظری ہے اور تو یہ سمجھ رہا ہے کہ جدید جاہلیت ترقی کر رہی ہے، تو تخلیق ِ کائنات کے رازوں کی کھوج میں آگے جا رہا ہے، تیری معیشت ترقی کر رہی ہے، زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ سب نظروں کا دھوکہ و خود فریبی ہے۔

سیکولر ازم اور جمہوریت: ایک خطرناک کفر

واضح رہے کہ جمہوریت (خواہ مشرقی ہو یا مغربی یا اسے اسلامی کہا جائے) کی اصل اور روح سیکولر سیاست ہی ہے۔ اس کے اندر داخل ہو کر کسی کا یہ گما ن کرنا کہ وہ اسلامی سیاست کرتا ہے، یا جمہوریت کو اسلامی اور سیکولر میں تقسیم کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ شراب کو اسلامی اور سیکولر میں تقسیم کرنا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید جاہلی دور دجل و فریب کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ جمہوریت کے نام پر سیکولرزم کے جس کفر میں دنیا کو مبتلا کیا گیا ہے، اس کی گہرائی و گیرائی کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ابلیس نے اپنی ساری زندگی کا تجربہ اس میں نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس نے اپنے دشمن انسان کو اس بار ایسے کفر میں مبتلا کیا ہے جس کا انسان کو احساس بھی نہیں ہوتا۔

یہ کفر ماضی کے کفر سے بہت مختلف ہے۔ ماضی میں جتنے کفر رہے، ان میں کفر کی صورتیں یہ رہیں کہ انسان اپنے سابقہ دین سے نکل کر کسی نئے دین میں داخل ہوتا تو اسے کافر کہا جاتا تھا۔

لیکن اس جدید کفر (جمہوریت) میں نہ اللہ کا صریح انکار کرایا جاتا ہے، نہ اللہ کے بھیجے نبی ﷺ کا۔ نہ ان پر نازل کی گئی کتاب کا اور نہ قیامت و آخرت کا، یہ ایسا کفر ہے جو نہ تو نماز و روزے پر پابندی لگاتا ہے اور نہ ہی ان کے فرض ہونے کا عقیدہ رکھنے دیتا ہے، بلکہ جمہوری ریاست میں نماز فرض کے بجائے مباح کے درجے میں ہوتی ہے جو چاہے پڑھے جو نہ چاہے نہ پڑھے، یہ نیا دین اپنے مخاطب سے اس کے پرانے مذہب سے انکار کا مطالبہ نہیں کرتا اور نہ کسی مذہب کی رسومات و عبادات سے بغاوت کرائی جاتی ہے، بلکہ انہیں ادا کرتے ہوئے اجتماعی زندگی ایک نئے دین و نظام (سیکولرزم اور جمہوریت) کے مطابق گزارنے کا پابند کیا جاتا ہے۔

مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے ’تکملہ فتح الملہم‘ میں اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’مکانۃ السیاسۃ في الدین:

قد اشتهر عن النصاریٰ أنهم یفرقون بین الدین والسیاسۃ بقولهم: ’’دع ما لقیصر لقیصر وما للہ للہ‘‘، فکان الدین لا علاقۃ لها بالسیاسۃ، والسیاسۃ لا ربط لها بالدین، وإن هذۃ النظریۃ الباطلۃ قد تدرجت إلی أبشع صورًا في العصور الإخیرۃ باسم ’’العلمانیۃ‘‘ أو ’’سیکولرإزم‘‘ التي أخرجت الدین من سائر شؤون الحیاۃ حتیٰ قضت علیها بتاتًا۔

وإن هذہ النظریۃ في الحقیقۃ نوع من أنواع الإشراک باللہ، من حیث أنها لا تعترف للدین بسلطۃ في الحیوۃ المادیۃ، فکأن الإلٰہ لیس إلٰہا إلا في العبادات والرسوم، وأما الأمور الدنیویۃ فلها الٰہ أخر، والعیاذ باللہ‘‘۔

’’نصاریٰ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ دین اور سیاست کو الگ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’جو کچھ بادشاہ کا ہے بادشاہ کو دے دو اور جو اللہ کا ہے وہ اللہ کو دے دو‘‘۔ گویا دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور سیاست کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ باطل عقیدہ آخری ادوار میں سیکولر ازم کے نام سے اپنی بدترین صورت تک جا پہنچا جس نے دین کو زندگی کے تمام شعبوں سے نکال دیا، یہاں تک کہ اسے مٹا کر رکھ دیا۔

یہ نظریہ در حقیقت شرک کی ایک قسم ہے کیونکہ یہ مادی زندگی میں دین کی حاکمیت (Authority) کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ نظریہ دین کے صرف اتنے کردار کو تسلیم کرتا ہے جو انسان اپنی تنہائی یا اپنے عبادت خانے میں ادا کرتا ہے۔ سو گویا دین صرف عبادات او رسومات کا نام ہے۔ رہے دنیاوی معاملات تو ان کے لیے کوئی اور معبود ہے۔(العیاذ باللہ)‘‘

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ چونکہ اس جدید کفر میں یہ صورت نہیں تھی کہ اپنے سابقہ دین کو چھڑوایا جاتا، اس لیے بہت سے لوگ اس دینِ کفر کا کفر ہی نہیں سمجھ پائے، انہوں نے اپنے سابقہ دین پر ہوتے ہوئے ایک نئے دین کو بھی اپنی زندگی میں داخل کر لیا۔ عیسائی اس بات پر ہی خوش رہے کہ وہ اتوار کے دن گرجا چلے جاتے ہیں کیونکہ اس نئے مذہب نے ان کی اس عبادت پر پابندی نہیں لگائی تھی۔ انہیں اس کی پرواہ نہیں تھی کہ ساری اجتماعی زندگی یہود کے بنائے سیکولر نظام کے تحت گزارتے رہیں۔

اسی طرح مسلمانوں کو اس دین میں داخل کرنے کے لیے پہلے خلافت توڑی گئی، تاکہ قرآن کا نظام ان کی زندگی سے نکل جائے اور وہ صرف انفرادی عبادات کو دین سمجھ بیٹھیں، اس کے لیے مستشرقین اور نام نہاد ترقی پسندو ں اور روشن خیالوں کے ذریعہ مسلسل محنت کی گئی،شرعی اصطلاحات کے معنیٰ و مفہوم کو تبدیل کیا گیا، مثلاً دین کی آزادی فقہاء کے نزدیک کچھ ہے لیکن فقہائے افرنگ و مفتیانِ قادیان نے اسے نئے معنیٰ پہنائے، اسی طرح دار الحرب و دار الاسلام کا تصور، شریعت کی حاکمیت و موالات کا تصور، اللہ کے قانون سے فیصلہ اور غیر اللہ کے قانون سے فیصلہ، ان سب کو وہ معنیٰ پہنا ئے گئے کہ فقہاء کی عبارات قدیم کتب ہی میں دب کر رہ گئیں۔

مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے مشرقی جمہوریت نے شرعی اصطلاحات کو انتہائی مکاری کے ساتھ استعمال کیا اور جہاں جمہوریت کا کفر ظاہر ہونے کا خطرہ تھا وہاں نئی اصطلاحات وضع کی گئیں۔ 2

مسلمانوں کو چند رسومات اور مخصوص عبادات کی اجازت دی گئی جبکہ ان کی اجتماعی زندگی سے نہ صرف دین کو نکال دیا گیا، بلکہ اجتماعی معاملات کے لیے جدید کفر کے بانیوں نے اس کے لیے الگ دین ایجاد کر دیا تھا جس کے مطابق زندگی گزارنا اقوامِ متحدہ کے تمام رکن ممالک کے شہریوں پر لازمی قرار دے دیا گیا۔ کفری قوانین و طرزِ زندگی کو باقاعدہ قانون و نظام کے طور پر مسلمانوں پر مسلط کیا گیا، احساس اس وجہ سے نہیں ہو سکا کہ انہیں نماز پڑھنے، روز ہ رکھنے اور حج پر جانے کی اجازت تھی، اور اسلامی نام رکھنے پر بھی پابندی نہیں لگائی گئی تھی،کیونکہ ان کے نزدیک کفر تو اسلام سے مکمل نکل جانے کا نام تھا، کوئی نیا مذہب اختیار کر لینے کے بعد نام تبدیل کرنے کو کفر سمجھا جاتا تھا، جبکہ جدید دور کا کفر ان سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کر رہا تھا۔

لیکن جمہوریت یا سیکولر نظام میں ذرا بھی غور کیا جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ یہ خود ایک دین ہے۔ اس کے اپنے حلال و حرام ہیں۔ اس کے اپنے فرائض و واجبات ہیں۔ اس میں دوستی و دشمنی کا اپنا معیار ہے۔ یہی سب تو ایک دین میں ہوا کرتا ہے۔

لیکن اس کا دجل و فریب دیکھیے، اس نے دعویٰ ہی یہ کیا کہ جمہوریت یا سیکولرز م میں کسی مذہب کی پابندی یا کسی مذہب پر پابندی نہیں ہوتی، اس میں ہر مذہب آزاد ہوتا ہے، حالانکہ غور کیا جائے تو یہ اس نظام کا دجل ہے جو پر فریب اصطلاحات کو مکار ی سے استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو دیا گیا ہے۔

کفر خواہ کسی بھی قسم کا ہو وہ خود ایک دین ہوتا ہے، اگرچہ اسے لادینیت، سیکولرزم، اباحیت، کیمونزم یا اسلامی جمہوریت ہی کا نام کیوں نہ دیا گیا ہو۔

اس بارے میں علامہ ابو الحسن علی ندوی﷫ نے بہت جامع بات بیان فرمائی ہے:

’’کفر صرف ایک سلبی چیز نہیں ہے، بلکہ ایک ایجابی اور مثبت چیز بھی ہے۔ وہ صرف دین اللہ کے انکار کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک مذہبی اور اخلاقی نظام اور مستقل دین ہے۔ جن میں اپنے فرائض و واجبات بھی ہیں اور مکروہات و محرمات بھی، اس لیے یہ دونوں دین ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے، اور ایک انسان ایک وقت میں ان دونوں کا وفادار نہیں ہو سکتا۔ ‘‘3

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 صحيح البخاري (9/354) باب درجات المجاھدین في سبیل اللہ

2 بندے نے اس کی تفصیل اپنی کتاب ’ادیان کی جنگ؛ دینِ اسلام یا دینِ جمہوریت‘ میں تحریر کی ہیں۔

3 دینِ حق اور علمائے ربانی؛صفحہ ۲۶

Exit mobile version