ماہِ مارچ کی آمد کے ساتھ پچھلی ڈیڑھ دو دہائی سے جو خیال ذہن میں آتا ہے، وہ بس ’عافیہ صدیقی‘ ہی کے بارے میں ہوتا ہے، اس لیے کہ ۲۰۰۳ء کے مارچ کی ۳۰ تاریخ کو امریکی آقاؤں کے حکم پر، اپنے ہی وردی پوش بھائیوں نے کراچی سے اس کو اٹھا لیا تھا، پھر باگرام پہنچایا، وہاں سے غزنی اور پھر امریکہ اور پھر چھیاسی سال کی قید۔ عافیہ صدیقی کو اٹھا کر بیچنے والا جنرل احتشام ضمیر تھا، ۲۰۱۵ء میں جب گالف کھیل کر گھر لوٹا تو گھر میں گیس کے پائپوں میں لیکج کے سبب گیس بھری ہوئی تھی، ایک بلب روشن کیا تو پورا گھر آگ سے جل اٹھا، احتشام ضمیر جعفری جھلسا اور بعداً سی ایم ایچ راولپنڈی میں موت سے دوچار ہوا، صدیقِ اکبر رضی اللّٰہ عنہ کی بیٹی کو اغوا کر کے بیچنے والے کا انجام دنیا میں جلنے سے ہوا، خدا ایسے ظالموں کو اگلے جہان میں بھی جلتا رکھے۔ حیرت کی بات ہے کہ احتشام ضمیر جعفری کے انجام کے بعد آج بھی پاکستان کے خائن کور کمانڈر و جرنیل کہتے ہیں کہ عافیہ صدیقی کسی القاعدہ والے کے ساتھ فرار ہو گئی تھی اور اسی نے عافیہ سے بے وفائی کی، قاتلھم اللّٰہ، ایسی افترا بکتے ہوئے ان جرنیلوں کو ذرا حیا نہیں آتی! انہی جرنیلوں میں کیسے ممکن ہے کہ پرویز مشرف کو بھلا دیا جائے۔ اس بد بخت کو جامعہ حفصہ کی عفیفات کی بدعائیں لگیں۔ جامعہ حفصہ کی اس عفیفہ کی بات آج بھی ہمارے ذہن میں گونجتی ہے جب اس نے کہا کہ قیامت کے دن میں خود پرویز مشرف کو گھسیٹ کر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤں گی اور کہوں گی کہ یا رسول اللّٰہ! اس کو اپنے ہاتھ سے دھکا دے کر جہنم میں پھینک دیں! مشرف کی زندگی کے آخری مہ و سال اسی جہنم کی ابتدائی تپش تھے!
عافیہ صدیقی اور ان جیسی دیگر امت کی بیٹیاں،ذاتی طور پر جو قید و بند اور وحشت و تعذیب کی صعوبتوں سے گزرتی ہیں، تو یہ بھی کچھ کم تکلیف دہ معاملہ نہیں ہے۔ لیکن، عافیہ صدیقی جیسی امت کی بیٹیاں اصل میں ایک کسوٹی ہیں، ایک معیار ہیں۔ ایک ایسی کسوٹی جس پر ایمان کسا جاتا ہے، ایک ایسا معیار جس پر غیرت پرکھی جاتی ہے۔
ماہِ مارچ کے زیرِ نظر اداریے کے لیے یہ سطور ابھی لکھی تھیں کہ غزہ سے پھر سے تباہی، بمباریوں، شہادتوں کی خبریں آنے لگیں۔ ہم ’لا الٰہ الا اللّٰہ‘ کا اقرار کرنے اور ’محمد رسول اللّٰہ‘ کے عشق کا دم بھرنے والوں نے ایک نہیں ہزاروں عافیاؤں کو غزہ میں اکیلا چھوڑا ہے۔ہزاروں عافیاؤں کے سہاگ وہاں اجڑ رہے ہیں۔ ہزاروں عافیاؤں کے بچے عافیاؤں کے شہید و قتل ہونے کے سبب بلک رہے ہیں، آپ نے اس نونہال کی ویڈیو دیکھی ہو گی، جس کے پیٹ سے اس کی آنت باہر کو نکلی ہوئی ہے اور اس کا سانس نہ چل رہا ہے نہ بند ہو رہا ہے، وہ ایک عجیب برزخی کیفیت میں ہے، اس کی ماں اس کے پاس نہیں ہے، تبھی تو اس کی یہ حالت ہے۔ کہیں عافیہ تو ہے لیکن بنین و بناتِ عافیہ نہیں ہیں، اب غزہ کی یہ مائیں سوچتی ہیں کہ سہاگ پہلے اجڑ گئے اور اب بنا اولاد کے ہمارا جینا بھی کوئی جینا ہے؟ فلسطینی تنظیم جہادِ اسلامی کے ترجمان ابو حمزہ کی شہادت کی خبر ملی، معلوم ہوا کہ طوفان الاقصیٰ کے معرکے سے ایک ہفتہ قبل اس نے عروسی کی تھی، پھر ابھی وہ اپنی زوجہ کے ساتھ ہی اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گیا۔ ایک دن میں چار سو لوگ اسرائیل نے ابھی چند دنوں قبل غزہ میں شہید کیے۔ عافیہ کیا، ہمارے پاس تو عافیاؤں کی طویل فہرست ہو گئی ہے۔ ایک آدھ عافیہ ہوتی اور اس کا ٹیکساس کی جیل میں وجود ہمارے ایمان و غیرت پر سوالیہ نشان ہوتا، تو ہم کہتے کہ شاید ہماری گلو خلاصی ہو جائے، یہاں تو ہماری غفلت کے سبب ایک طویل فہرست ہے۔ یہ غفلت تو ویسے ہی کہہ دیا، دراصل بے حمیتی کہنا تھا، بے غیرتی لکھنا تھا!
ہمارے پاس بھی کہنے کو کچھ نیا نہیں ہے۔ غزہ کے شہیدوں کی تعداد کیا ہے، ایک عدد ہے جو ہم روز پڑھتے ہیں کہ زیادہ ہو گیا ہے۔ وہاں کوئی ہسپتال نہیں ہے۔ نوے فیصد سے زیادہ انفرا سٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ رمضان کی یہ آخری آخری گھڑیاں ہیں، جب ہم اپنے پیاروں کے ساتھ بیٹھ کرے متنوع دسترخوانوں پر افطاریوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے تو اہلِ غزہ اپنے ہی خون سے بھوک و پیاس سے سحری کیے ہوئے روزوں کو افطار کر رہے تھے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ہم کیسے بخشے جائیں گے؟
جہاد و استشہاد سے ہمیں کچھ لگاؤ نہیں ہے، ہمارا رونا سوشل میڈیا پر سٹیٹس لگانا، سٹوریاں لگانا، ٹویٹس کرنا ہے اور جو خود نہیں کرتے تو بس ان کا کام ٹک ٹاک اور ریلز دیکھنا ہے، کیا ہمارے چھوٹے اور کیا بڑے، سبھی کی زندگی بس یہی رہ گئی ہے۔جس قوم کو جہاد و استشہاد سے لگاؤ نہ ہو تو اس میں اور مُردوں میں کوئی فرق نہیں۔ جب ایک بار بسببِ مرگ روح بدن سے جدا ہو رہے تو اب یہ روح لاکھ چیخے، لاکھ چلائے لیکن اس کے ان مظاہروں اور احتجاجوں سے پیچھے رہنے والے باز آکر اس جسد کو مٹی میں اتارنے سے رکتے نہیں ہیں۔ ہمارے ان مظاہروں اور احتجاجوں کی صورت میں آہ و بکا کا نتیجہ کچھ نہیں اور اہلِ غزہ جنگ بندی سے قبل اور جنگ بندی کے بعد ویسے ہی تہہ تیغ کیے جا رہے ہیں۔
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاۗءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّـۢا ڌ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا (سورة النساء: 75)
’’اور (اے مسلمانو) تمہارے پاس کیا جواز ہے کہ اللّٰہ کے راستے میں اور ان بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجیے، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجیے۔ ‘‘
آج جہاد فرضِ عین ہے۔ یقین مانیے! ہمارے اس جہاد کے لیے گھروں سے نکلنے سے اہلِ غزہ اس وحشت سے بچ سکیں یا نہ سکیں، اس سے زیادہ بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ قیامت کے دن، آج جہاد کے لیے اپنے گھروں سے نکل آنے کا فعل، ہمارے لیے مقبول عذر بن جائے اور اہلِ غزہ ہمیں ہمارے گریبانوں سے پکڑ پکڑ کر نہ گھسیٹیں اور ہم جب حوضِ کوثر پر پہنچیں تو ہماری شکایت رسولِ محبوب (علیہ ألف صلاۃ وسلام) سے نہ کریں کہ یا رسول اللّٰہ! آپ نے فرمایا تھا کہ میری امت جسدِ واحد کی مانند ہے لیکن یہ تو ہماری حمایت میں اپنے گھروں سے نکلتے، ان کی کو نیند تک نہ خراب ہوئی۔
جن کو اللّٰہ نے اقتدار دیا، حکومتیں، فوجیں، ٹینک، میزائل دیے ان سے ان کی مکلفیت کے بقدر سوال تیار ہے اور کم ترین درجے پر بس جو صرف دعا ہی کر سکے اور بالکل تہی دامن ہو تو یہی اس کی مکلفیت ہے۔راہِ وفا کو اختیار کرنا اور پھر بے شک دھیمی دھیمی رفتار سے اس پر چلتے رہنا مطلوب ہے، یہ راہِ نجات ہے۔
عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی صاحبہ سناتی ہیں کہ عافیہ نے ٹیکساس کے اس زندان میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔ عافیہ کا یہ خواب کراچی کی عافیہ صدیقی سے غزہ کی عافیاؤں تک کا حال بیان کرتا ہے:
’’عافیہ صدیقی نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ’آقا! میں کب تک یہاں پر رہوں گی؟ میرا امتحان کب ختم ہوگا؟‘
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسکرا دیے اور فرمایا، ’ارے بیٹی! تمہارا امتحان تھوڑا ہے یہ!‘
عافیہ صدیقی نے فرطِ جذبات میں آکر پوچھا، ’میرا امتحان نہیں ہے تو میں کیوں بند ہوں؟ میرے ساتھ یہ اتنا برا کر رہے ہیں کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔‘
عافیہ صدیقی نے جب یہ کہا تو دیکھا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آنکھیں پُرنم ہوگئیں اور وہ خاموش ہو گئے۔ یہ دیکھ کر عافیہ صدیقی نے رونا شروع کر دیا کہ میں نے یہ سوال کیوں کیا۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بہت آہستہ سے فرمایا کہ ’یہ امت کا امتحان ہے!‘۔‘‘
پس یہی حقیقت ہے، امتحان میں عافیہ بھی کامیاب ٹھہری اور غزہ کی عافیائیاں بھی، اصل امتحان تو میرا اور آپ کا ہے! اٹھیے فرضِ عین کی پکار پر لبیک کہیے، گھروں میں بیٹھنے والیوں کے ساتھ بیٹھ کر رونے اور دعائیں مانگنے سے کچھ نہیں ہو گا، کچھ کرنا ہے، کوئی غیرت اگر باقی ہے، عشق و وفا کا دعویٰ ہے تو اللّٰہ کے راستے میں اپنے سر ڈالیے، اس سے قبل کہ قافلہ چھوٹ جائے!
راہ روی کا سب کو دعویٰ، سب کو غرورِ عشق و وفا
راہِ وفا پر چلنے والے ہم نے لیکن پائے کم!
اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!
اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭