آخر اب نہیں تو پھر کب؟!

ایک لمبے انتظار اور تیاری کے بعد مودی ، یوگی اینڈ کمپنی نے کھلم کھلا خونی کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے ، منافقانہ جملوں کوطاق میں رکھ کر ، سیدھے مسلمانوں پرحملے کیے جا رہے ہیں، چند سالوں پہلے بی بی سی ہندی ریڈیو اسٹیشن پر آرایس ایس کے ایک کاریہ کرتا (کارکن) کا انٹرویو سنا، جس میں مہاشے فرما رہے تھے کہ آرایس ایس دھیرے دھیرے بھارت میں اپنی جڑوں کو مزید مضبوط کر رہی ہے تاکہ وقت آنے پر وہ اپنے دوشمن (مسلمان) کا خاتمہ کر سکے۔

ایک طرف آر ایس ایس کے یہ منصوبے رہے جبکہ دوسری طرف شروع سے ہی سیکولر مفاد پرست جماعتوں نےمسلمانوں کو ہندو مسلم بھائی چارے ، گنگا جمنی تہذیب کا نشہ پلا کر گہری نیند سلائےرکھا۔نتیجتاً آج ہندوستان میں مسلمانوں کے قتل عام میں تیزی آچکی ہے، مسجدوں اور مدرسوں کو شہید کیا جا رہا ہے، آئے روز قرآن پاک کی بے حرمتی کی جا رہی ہے، نبی کرم ﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات بکنے والے دندناتے پھر رہے ہیں۔

ہندو پوری کے ساتھ دھرم یدھ (مذہبی جنگ) لڑنے مسلمانوں کے علاقوں سے جان بوجھ کر گزرتے ہیں، پولیس و انتظامیہ سے بے خوف ہو کر،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پولیس و انتظامیہ بھی انہیں کی حمایتی ہیں۔ تیز آواز میں ’ڈی جے‘ پر انتہائی فحش، بھڑکانے والے اور گندے گانے بجائے جاتے ہیں، ہتھیاروں کی نمائش کی جاتی ہے، جے شری رام جیسے مذہبی نعرے لگائےجاتے ہیں۔ اکثر اوقات مسلمان بے بس و لاچار اپنی بربادی کا تماشہ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔

ظلم و ستم کے اس تسلسل میں ’بہرایچ، اتر پردیش‘کا نام بھی درج کیا جاتا ہے، جہاں مسلمانوں کو ایک بار پھر اپنی نفرت کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

بہرائچ، اترپردیش

۱۳کتوبر، ۲۰۲۴ء: درگا مورتی وسرجن کے موقع پر ، ہندو شر پسند اپنے ناپاک مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ، ریاست اتر پردیش کے ضلع بہرائش کے علاقے مہاراج گنج پہنچتے ہیں تو اپنی حرکتوں سے مسلمانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم تمہیں مسل کر رکھ دیں گے۔ مسلمان انتہائی خوف کے عالم میں غیبی مد د کے منتظر ہیں، جلوس علاقے کی مسجد کے قریب پہنچتا ہے۔ عبدالحمید جو ہندووں کی اس حرکت سے سخت ناراض ہے فسادیوں کو ڈی جے بند کر نے کے لئے کہتےہیں۔ لیکن لاتوں کے بھوت باتوں سے کب مانا کرت ہیں؟ نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ ہندو بلوائی جیسے اسی موقع کی تلاش میں تھے، ہندوہجوم آپے سے باہر ہو جاتا ہے، رہائشی علاقہ میدان جنگ میں بدل جاتا ہے ، ۲۲ سالہ بھگوہ دہشت گرد ’گوپال‘ عبدالحمید کے گھر کی چھت پر چڑھ جاتا ہے اور وہاں لگے ہرے رنگ کے جھنڈے کو اتنی زور سے گراتا ہے کہ چھت کی گرِل تک ٹوٹ جاتی ہے۔ ہندو خوشی اور جوش میں گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے لگتے ہیں، مانوکو ئی بڑی فتح حاصل کر لی ہو۔ گوپال بے قابو ہو جاتا ہے اور بھگوہ رنگ کا جھنڈا لہرادیتا ہے ۔

ہندوؤں نے شاید یہ سوچا ہوگا کہ ہمیشہ کی طرح مسلمان کسی کونے کھدرے میں دبک گئے ہونگے۔مسلمان ہمیشہ کی طرح پولیس انتظامیہ کو فون کرتے کرتے تھک چکے ہونگے۔ لیکن اب تو بھگوہ پولیس ہندو بلوائیوں کی حمایت میں آگے آگے رہتی ہے، کیا کہنے اکھنڈ بھارتیہ پولیس کے! سیکولرازم کا لبادہ کتنے ہنر سے اوڑھ رکھا تھا اور اب علی الاعلان مسلمانوں کو صف ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔

بغض و عداوت میں چُور گوپال اپنے آپ کو ہندووں کا ہیرو بنانے چلا تھا ، لیکن اس کے برعکس ہوا وہ جس کی اب شد و مد سے ضرورت ہے۔ گوپال کو ایک ہی گولی نے ڈھیر کر دیا ، ہندو بزدل ہجوم سمجھ نہیں پایا کہ آخر ہوا کیا ہے؟ ہندو ڈر کے مارے ایسے تتر بتر ہوئے کہ اپنے مٹی کے شیر (گوپال) کو ہسپتال پہنچانا ہی بھول گئے یا یوں کہہ لیجیے کہ انہوں نے بس اپنی جان بچا کر دم دبا کر بھاگنا ہی غنیمت سمجھا۔ گوپال شمشان گھاٹ کی رونق بن گیا، جس کی استھیاں ہندوؤں کی گنگا ماتا کے آغوش میں بہا دی گئیں۔

گوپال کی موت کا بدلا لینے کے لئے میڈیا نے دل کھول کر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا ، تاکہ زیادہ سے زیادہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف تیار کیا جا سکے۔ بھگوہ پولیس بھی حرکت میں آگئی ، آناًفانا ً مسلمانوں کے خلاف گرفتاریوں اور اینکاونٹر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ریاستی دہشت گردی ملاحظہ کیجیے!

اتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ نے مرنے والے گوپال کو (جانباز) کا لقب دیا اور مردار کے گھر والوں کو معاوضہ اور سرکاری نوکری دینے کا اعلان بھی کیا۔ دہشت گرد و خونی یوگی مسلمانوں کے خلاف سخت سے سخت کروائی کرنے کی بات کرتا ہے، گوپال کی لاش کے ساتھ ایک بار پھر جلوس نکالا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کے خلاف فساد بھڑکایا جا سکے۔ اس ملک میں اپنے تئیں مسلمانوں کی حفاظت کرنے کا دم بھرنے والے، مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں، کیونکہ ان لوگوں کی ڈوریں وہاں سے ہلتی ہیں جو اکھنڈ بھارت کا خواب آنکھوں میں سجائے اپنے مشن پر کام کر رہے ہیں۔ سبحان اللہ، غور کیجیے! ریاست کا وزیر اعلیٰ غنڈوں و دہشت گردوں کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے اور مظلوم و بے بس مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے ۔ لیکن اب حجت تمام ہو چکی ہے مسلمانوں کو اپنے دفاع کے لیےہر وقت تیار رہنا ہوگا اور یہی ایک واحد راستہ ہے ۔

مشہور صحافی ’بھگت رام‘ اپنی طنزیہ پوسٹ کے لیے جانا جاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ آپ (مسلمانوں) کے پاس ۲ ہی راستے ہیں:

  1. بھگوہ غنڈے مارنے آئیں تو چپ چاپ ان کے ہاتھوں مر لو۔

  2. اگر ان کے ہاتھوں مرنے سے منع کروگے، ان کا مقابلہ کروگے تو سرکاری غنڈے آئیں گے اور وہ مار ڈالیں گے۔

ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ ہندو ایک بزدل قوم ہے جو نہتوں ، کمزوروں پر ظلم کرتی ہے ، مسلمانوں کو وردی والے اور بغیر وردے والے غنڈوں سے نپٹنے کے لیے تیار رہنا ہوگا، اپنی تیاری کرنی ہوگی ، یہی مسلمانوں کی نجات کا واحد راستہ ہے۔ باقی راستے ہم پچھلے ۷۷ سالوں سے اچھی طرح دیکھ اور آزما چکے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ اسی بہرائچ، اترپردیش کی سر زمین پر مردِ مجاہد ، اللہ کے بندے غازی سالار مسعود شہید ﷫، جو محمود غزنوی رحمتہ اللہ کے بھانجے تھے، کا خون گرا ہے، جس نے دینِ حق کی خاطردشمن سے لڑتے ہوئے ، جامِ شہادت نوش فرمایا اور تاقیامت مسلمانوں کو یہ پیغام دے گئے کہ عزت سے جینے و عزت سے مرنے کے لئے دشمن کے منہ میں ہاتھ ڈال کر اس کے جبڑے کو توڑ دیا جاتا ہے ناکہ دشمن کے سامنے ہاتھ جوڑ کر زندگی کی بھیک مانگی جاتی ہے،جس سے دشمن مزید دلیر اور ظلم و ستم کرنے پر مزید آمادہ ہو جاتا ہے۔

ظالمو تم خدا کے گھروں کو نہیں مٹا پاؤ گے!

آج آپ کے لیے اور میرےلیے لمحۂ فکر ہے کہ بھارت انتظامیہ یکے بعد دیگرے مساجد و مدارس پر بلا جھجک بلڈورزر چلا رہی ہے ا ورہم صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں، ہماری زبان سے صرف یہی کلمات نکلتے ہیں کہ خدارا ہم کریں تو کیا کریں؟

۱۹ نومبر ۲۰۲۴ء: سنبھل اترپردیش کی شاہی جامع مسجد کے خلاف (وشنو جین) نامی متعصب ہندو وکیل عدالت میں عرضی دائر کرتا ہے کہ نعوذ باللہ شاہی جامع مسجد کو ہٹایا جائے کیونکہ یہاں ہندووں کا مندر تھا جسے توڑ کر مسجد کی تعمیر کی گئی ہے۔ ضلعی عدالت عرضی دائر ہوتے ہی اسی دن دوپہر کو شاہی جامع مسجد کا سروے کرنے کا حکم دے دیتی ہے۔ وشنو جین (سرکاری وکیل) ہونے کے باوجود ، اس کیس میں پارٹی بھی بن جاتا ہے۔ اور لعین جج کی بد بختی دیکھیے کہ اسی دن جج نے اس سروے ٹیم کارکن وشنو جین کو ہی بنا دیا اور جلد رپورٹ داخل کرنے کا حکم بھی دے دیا۔

جمعہ کی رات کو مسلمانوں کو بغیر بتائے دو گھنٹے تک شاہی مسجد کا سروے کیا جاتا ہے۔ مسلمان اس غم سے ابھی ابھر بھی نہیں پائے تھے کہ ایک بار پھر وشنو جین ہندو غنڈوں کے ساتھ دوبارہ مسجد کا سروے کرنے کے لیے سنبھل میں داخل ہوتا ہے۔ پورے ماحول کو پولیس و انتظامیہ کی موجودگی میں خراب کیا جاتا ہے، ہندو دہشت گرد (جے شری رام) کے نعرے لگاتے ہیں اور مسلمانوں کو للکارتے ہیں کہ دیکھو تم ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، اسی اثنا میں ایک بار پھر مسلمانوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کے شیروں کا خون ابھی پانی نہیں ہوا ہے، ابھی مسلمانوں کے بازوؤں میں دم خم باقی ہے ۔

بھاری پولیس نفری کے باوجود ، مسلح ہندو پولیس کے سامنے مسلمان نہتے ہی بھڑ گئے، پتھر برساتے ، اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر دشمن کے سامنے سینا سپر ہو گئے۔ یوپی پولیس نے بغیر انتظار کیے مسلمانوں پر سیدھے فائر کھول دیے ، جس کے نتیجے میں ۶ غیرت مند مسلمان اپنے رب کے گھر کی خاطر شہادت کا جام نوش فرما گئے۔ پوری دنیا نے پولیس کی زیادتیاں دیکھیں لیکن کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ پولیس نے مزید بدبختی کا ثبوت دیتے ہوئے ، مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلائے، گرفتاریاں کی گئیں،خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا۔ نالیوں سے پولیس نے پاکستانی بنے کارتوس بھی برآمد کرنے کے دعوے کیے۔ پولیس نے اپنے تکبر کا مزید ثبوت دیتے ہوئے، شاہی جامع مسجد کے بالکل قریب پولیس چوکی بھی بنا ڈالی جہاں آئے روز مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ حال ہی میں عرفان بھائی کو لین دین کے معاملے میں اسی چوکی میں لایا گیا اور اسی رات بھائی پر اتنا ظلم و تشدد کیا گیا کہ عرفان کا انتقال ہو گیا۔ نہ کوئی سنوائی، نہ کوئی مقدمہ…… انا للہ وان الیہ راجعون۔

سنبھل سے ہی تعلق رکھنے والے عالم دین، قائدِ مجاہدین، استاد و امیر محترم مولانا عاصم عمرشہید ﷫ امت کو بھولا ہوا سبق یاد دلاتے ہیں، جو واحد عزت و عظمت کا راستہ ہے ، جو سربلندی کا راستہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

’’سوال یہ ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ جہاد میں جانے سے جان چلی جائے گی، مال چلا جائے گا، نقصان ہو جائے گا۔ کشمیر و ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ جو آج تک ہو رہا ہے ، کیا وہ کم ہے ؟آج تک جو گوایا ہے سن ۱۹۴۷ء سے اب تک، کیا وہ کم ہے؟ اس سے زیادہ اور کیا چلا جائے گا؟ حالانکہ جہاد تودفاع و حفاظت و عزت کی ضمانت ہے۔ اللہ نے اس دور میں بھی آپ کو دکھا دیا، اس وقت جو کچھ کشمیر و ہندوستان کے مسلمان کے ساتھ ہو رہا ہے ، جو جان و مال کا نقصان انہیں پہنچایا جا رہا ہے ، اگر یہی جان و مال جہاد میں لگا دیا جاتا!

آپ ذرا وہ اعداد و شمار اٹھا کر دیکھیےجو ۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان ہوا ہے، اگر یہ جہاد میں لگ جاتا تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ مسلمانوں کا نقصان جہاد میں لگنے کے بعد بہت کم ہوتا ہے، اس کے بدلے اللہ پاک جو کافروں کا نقصان کرتا ہے، وہ اعداد و شمار آپ افغانستان میں دیکھیے اور ساری دنیا میں دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ پاک اس راستے کو عزت کی زندگی اور عزت کی موت کا راستہ بنایا ہے۔ اگر آپ کو کمزوری کا عذر ہے تو قرآن اٹھا کر دیکھیےکہ جہاد کمزوروں کو ہی طاقتور بنانے کے لیے فرض کیا گیا ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بھارت بڑا طاقتور ہے تو یاد رکھیے جہاد طاقتور کا غرور خاک میں ملانے کے لیے فرض کیا گیا ہے۔

ہندوستان کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہے، اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں کے لئے، آسام کے مسلمانوں کے لئےاور خود آپ کے اپنے لیے۔ آپ کا کون سا خطہ ہے جہاں آپ کی جان و مال خطرے میں نہیں ہے یا لوٹی نہیں گئی، آپ کی املاک و کاروبار نہیں تباہ کیے گئے؟ اللہ کا وعدہ ہے، میرے مسلمان بھائیو!اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے، اللہ تمہاری مدد کرے گااور تمہارے کمزور قدموں کو جما دےگا۔ تم نہتے ہوگے اللہ تمہیں بہادر بنا دے گا، تمہارے ہاتھ میں پتھر ہونگے اللہ انہیں بم بنا دےگا،تمھارے ہاتھ میں چھوٹا اسلحہ ہوگا ، اللہ اس چھوٹے اسلحے کے ذریعے تمہیں بڑے اسلحے والوں پر غالب کر دے گا۔‘‘

كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ؁

’’نہ جانے کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں، جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئیں ہیں، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

٭٭٭٭٭

Exit mobile version