ڈاکٹر عافیہ صدیقی امت کی مظلوم ترین بیٹی، جس کو ناحق قیدوبند اور ظلم و استبداد برداشت کرتے اکیس سال ہوچکے، بدنام زمانہ امریکی جیل میں اب بھی قید کاٹ رہی ہے۔جن دین و ملت، عزت و عفت فروش حکمرانوں نے عافیہ کو ڈالروں کے عوض امریکیوں کو فروخت کیا اور جس اسٹیبلشمنٹ (فوج اور آئی ایس آئی) نے عافیہ کو راستے سے اغوا کیا اور اسے اس کے بچوں سے جدا کر کے امریکہ کی بدنام زمانہ جیل بگرام پہنچا دیا، وہی حکمران اور وہی اسٹیبلشمنٹ اب بھی اس کی رہائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
صدارتی معافی نامہ حاصل کرنے کی مہم
عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی، عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سمتھ اور فری عافیہ موومنٹ کی ٹیم ایک عرصہ سے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے انتھک کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ کو شش امریکی صدر بائیڈن کی مدتِ حکومت پوری ہونے سے قبل عافیہ صدیقی کی سزا کے معافی نامے پر دستخط کروانا تھا۔ اس سلسلے میں فوزیہ صدیقی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں مقدمہ بھی لڑا اور عدالت کے دباؤ پر وزیر اعظم شہباز شریف سے امریکی صدر بائیڈن کے نام ایک خط بھی لکھوایا گیا جس کے ذریعے بائیڈن سے عافیہ کی سزا معافی کی درخواست کی گئی۔ لیکن بد نیتی سے لکھا جانے والا یہ خط نہ صرف بائیڈن تک پہنچا یا نہیں گیا بلکہ پس پردہ قوتوں نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ عافیہ صدیقی کو رہائی نہ مل سکے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سٹیفرڈ سمتھ نے، جو کہ اس سے پہلے بھی بدنامِ زمانہ حراستی مرکز گوانتانامو بے سے ۸۰ کے لگ بھگ قیدیوں کو آزادی دلوا چکے ہیں، پچھلے چند سالوں میں عافیہ صدیقی کے کیس پر از سر نو کام کیا اور نہ صرف عافیہ صدیقی پر لگے جھوٹے الزامات ،تشدد اور نا انصافیوں کا احاطہ کیا، بلکہ افغانستان سے عافیہ کی بے گناہی کے حق میں نئے ثبوت اور گواہوں کے بیانات بھی حاصل کیے، ۶۶ امریکی سینٹرز سے ملاقاتیں کرکے انھیں ساتھ دینے پر قائل کیا اور ۷۶،۶۰۰ الفاظ پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ بائیڈن کے دفتر بھی جمع کروائی جس میں ثابت کیا کہ عافیہ پر لگے تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ اس کے علاوہ فری عافیہ موومنٹ نے آن لائن پیٹیشن پر دستخط کی مہم چلائی جس کے ذریعے ۱۶ لاکھ لوگوں کے دستخط کروائے گئے۔
امریکی حکومت میں روایت ہے کہ ہر جانے والا صدر اپنی حکومت کے آخری دنوں میں بہت سے قیدیوں کے لیے صدارتی معافی نامے جاری کرتا ہے۔ اس دفعہ بہت امید تھی کہ کلائیو سمتھ کی کوششوں اور پاکستانی حکومت کے کہنےپر عافیہ صدیقی رہا ہو کر وطن واپس آ جائیں گی۔ لیکن بائیڈن، جس نے ہزاروں لوگوں کی، صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے، سزائیں معاف کیں(جن میں قاتل، جاسوس اور بینک ڈکیت بھی شامل تھے)، عافیہ کے حق میں دائر کی گئی درخواست کو مسترد کر دیا۔
لیکن جس شخص کو غزہ کے لاکھوں معصوم شہداء پر رحم نہ آیا اس سے عافیہ سے متعلق کوئی امید کیسے رکھی جا سکتی تھی؟
بےشک مسلمانوں کے خلاف تمام کفار اور ان کی آلۂ کار منافق حکومتیں متحد ہیں، ان کی جنگ کسی ملک یا گروہ کے خلاف نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے خلاف ہے۔ ان کے نزدیک عافیہ کا بھی وہی قصور ہے جو غزہ کے لاکھوں مظلوموں کا قصور ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جنہوں نے حتی المقدور کوشش کی اور تمام قانونی تقاضے پورے کیے، اور جو اس موقع کے چلے جانے کے بعد بھی پر امید ہیں کہ اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکالیں گے،کہتی ہیں کہ صدارتی معافی کے منصوبے کے متعلق جب عافیہ صدیقی سے بات کی تو عافیہ کہنے لگیں کہ اگر رحم کی اپیل ہی کرنی ہے تو امریکی صدر سے کیوں کروں؟ اپنے رب سے رحم کی اپیل کیوں نہ کروں جو رحمان و رحیم ہے؟ کلائیو سمتھ کے مطابق عافیہ صدیقی کے لیےکوششیں جاری رکھیں گے، ابھی پلان اے فیل ہوا ہے، پلان بی، سی، ڈی اور ای ابھی باقی ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ برصغیر کی جہادی تنظیموں نے بھی عافیہ بہن کی رہائی کے لیے ماضی میں کوششیں کی ہیں اور آخری کوشش میں ۲۰۱۴ءمیں افغان طالبان نے یووان ریڈلے کی وساطت سے ایک امریکی فوجی بوبرگڈل کی حوالگی کے بدلے عافیہ صدیقی کا مطالبہ کیا تھا ۔ قیدیوں کے تبادلے کا یہ منصوبہ جب آخری مراحل میں تھا تو اس کی بھنک پاکستانی آئی ایس آئی کو پڑ گئی اور اس نے افغان طالبان پر دباؤ ڈالا کی عافیہ کو رہا نہ کروائیں اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کی اگر عافیہ رہا ہو کر واپس آ بھی گئیں تو وہ یہاں ۲۴ گھنٹوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکیں گی۔
عافیہ صدیقی کے اغوا اور سزا کی کہانی
مارچ ۲۰۰۳ء کی بات ہے کہ عافیہ صدیقی کو پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ نے کراچی سے اس وقت اغوا کیا جب وہ اپنے تین بچوں سمیت کراچی سے اسلام آباد جانے کے لیے ائیر پورٹ جا رہی تھیں۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا سلمان محض ایک ماہ کا تھا، اسےآئی ایس آئی کے درندوں نے موقع پر ہی قتل کر دیا، ۴ سالہ بیٹی مریم کو افغانستان میں رہائش پزیر ایک امریکی عیسائی فیملی کے حوالے کر دیا ، سب سے بڑے بیٹے احمد کو، جو اس وقت ۵ سال کا تھا، افغانستان میں بچوں کی جیل میں ڈال دیا اوروہاں اسے کہا گیا کہ تمہارا نام علی ہے اور اگر تم نے کسی کو اپنا نام احمد بتایا تو تمہیں گولی مار دیں گے جبکہ عافیہ صدیقی کو بگرام منتقل کر دیا گیا جہاں پانچ سال تک ان پر بے پناہ تشدد کیا گیا۔
عافیہ صدیقی کے اغوا کے بعد ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ان کی والدہ کو نامعلوم فون کالز سے دھمکیاں ملتی رہیں کہ عافیہ صدیقی سے متعلق اپنی زبان بند رکھیں۔ لیکن ان کی بہن مسلسل ہر فورم پر عافیہ کو بازیاب کروانے کے لیے آواز اٹھاتی رہیں ۔ امریکی میڈیا نے تو عافیہ صدیقی کی گرفتاری کی خبر فوراً ہی جاری کردی۔ لیکن بیٹی فروش فوج ان کی آواز کو دباتی رہی۔
۲۰۰۶ء میں گوانتانامو سے رہا ہوئے قیدی معظم بیگ نے اپنی کتابThe Enemy Combatant میں بگرام کی ایک قیدی خاتون، قیدی نمبر ۶۵۰ کا ذکر کیا، جو The Grey Lady of Bagram سے بھی مشہور ہوئی۔
اپنی کتاب میں معظم بیگ نے اس خاتون پر ہونے والے تشدد کے باعث مدد کے لیے اس کی چیخوں کا بھی ذکر کیا۔ یووان ریڈلے نے اس متعلق کچھ تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ خاتون عافیہ صدیقی ہیں۔ پھر انہوں نے پاکستان آ کر فوزیہ صدیقی کے ساتھ مل کر بھرپور مہم چلائی اور راے عامہ ہموار کی۔
غزنی میں نمودار ہونے کی پس پردہ کہانی
اغوا کے پانچ سال بعد نحیف و نزار ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی عافیہ صدیقی اچانک غزنی میں منظرِ عام پر آئیں اور اپنے بیٹے کے ہمراہ غزنی کی جامع مسجد کے باہر سے گرفتار کر لی گئیں۔ یہ ایک معمہ تھا، جس کے پیچھے چھپی حقیقت جاننے کے لیے عافیہ کے موجودہ وکیل کلائیو سمتھ نے افغانستان جا کر حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی۔
ان کے مطابق جب عافیہ صدیقی کو پانچ سال مسلسل تشدد کا نشانہ بنا کر بھی انہیں کچھ حاصل نہ ہو سکا تو انہوں نے آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر عافیہ کے قتل کا منصوبہ بنایا تاکہ عافیہ کو افغانستان میں ہی خودکش بمبار ظاہر کر کے مروا دیا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے عافیہ صدیقی کو ان کے بیٹے کے ہمراہ یہ کہہ کر غزنی روانا کر دیا کہ وہاں خالد بن ولید مسجد کے باہر بیٹھ جاؤ، وہاں تمہاری بیٹی کو تمہارے حوالے کر دیا جائے گا، پھر اسے لے کر تم پاکستان چلی جانا۔
عافیہ حقیقت سے بےخبر اپنے بیٹے کے ساتھ چلی گئی، لیکن نہ تو خوف کے مارے بچے نے اپنا اصل نام بتایا اور نہ ہی اپنی ذہنی حالت کے پیش نظر عافیہ کو احساس ہو سکا کہ اس کے ساتھ بھیجا جانے والا بچہ اس کا اپنا بیٹا ہے۔ جس گاڑی میں عافیہ سوار تھی اسی بس میں ایک آئی ایس آئی کا ایجنٹ بھی موجود تھا جس نے عافیہ کے پاس وہ بیگ پلانٹ کر دیا جس میں بارودی اور کیمیائی ہتھیار بنانے کے طریقے اور امریکہ کے چند نقشے موجود تھےاور جولائی کی سخت گرمی میں احمد کو ایسی جیکٹ پہنائی کہ وہ خودکش بمبار لگے۔ یہ واقعہ ۱۷ جولائی ۲۰۰۸ء کا ہے۔ اس سے دو دن پہلے افغان نیشنل پولیس کو ایک کال موصول ہوئی جس میں مذکورہ مسجد کے باہر ۲ خودکش بمباروں کے آنے اور وہاں دھماکہ کرنے کی انٹیل دی گئی۔
عافیہ شام تک اس مسجد کے باہر بیٹھی رہیں، اس امید پر کہ یہاں اس کی بیٹی لا کر دی جائے گی۔ مسجد کے سامنے ایک درزی کی دکان تھی جو پاکستان میں کام کر چکا تھا اس لیے اردو سے واقف تھا، اس نے ایک لاچار عورت سمجھ کر پوچھا کہ وہ یہاں کیوں بیٹھی ہےجس پر اس نے وہی جواب دیا کہ اس کی بیٹی کو لا کر یہاں دیاجائے گا۔ اندھیرا چھانے لگا تو وہ شخص پھر عافیہ کے پاس گیا اور کہا کہ جنگ کے دن ہیں آپ یہاں سے چلیں رات میری والدہ کے پاس گزار لیں۔ عین اسی وقت افغان نیشنل پولیس نے چھاپہ مارا اور عافیہ کی جانب اپنی بندوقیں تان لیں۔ لیکن اللہ نے ان کا یہ منصوبہ اس طرح خاک میں ملا دیا کہ وہی درزی عافیہ کے سامنے آ گیا اور اس نے پولیس کو قائل کیا کہ یہ ایک بےبس عورت ہے اسے کیوں مارتے ہو۔
افغان پولیس عافیہ اور ان کے بیٹے کو غزنی پولیس ہیڈکوارٹر لے گئی، جہاں ۱۸ جولائی کی صبح امریکی عافیہ کو اپنی تحویل میں لینے پہنچ گئے۔ اس پر افغان پولیس اور امریکیوں میں بحث و تکرار بھی ہوئی۔افغان پولیس کا کہنا تھا کہ یہ آپ کا معاملہ نہیں ہے، لیکن امریکیوں نے انہیں رشوت دے کر قائل کرلیا جس کے بعد افغان پولیس امریکیوں کو اس کمرے میں لے گئے جہاں عافیہ ایک پردے کے پیچھے موجود تھی۔وہ امریکیوں کی آواز سن کر پریشان ہو گئیں، انہوں نے پردہ ہٹا کر جھانک کر دیکھا ہی تھا کی ایک امریکی اہلکار نے چیخ کر کہا “she is on the loose” اور انہیں دو گولیاں مار دیں، جس پر خود افغان پولیس اہلکار بھی پریشان ہو گئے۔ ان کا مقصد عافیہ کو اسی وقت ختم کرنا تھا، لیکن ان کی یہ چال بھی اللہ نے ناکام بنا دی۔ حقیقت کو چھپانے کے لیے انہوں نے ایک جھوٹا پراپیگنڈا کیا کہ عافیہ نے انہی کی گن (M4) اٹھائی اور دو فائر کیے اور ثبوت کے طور پر دیوار میں دو سوراخ دکھائے۔ بعد میں کلائیو سمتھ نے تحقیق کر کے اس کمرے کی پرانی ویڈیوز سے ثابت کیا کہ یہ سوراخ پہلے سے موجود تھے۔
تمام قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عافیہ صدیقی کو وہاں سے نیویارک لے جایا گیا اور وہاں کی اندھی عدالت نے، بغیر کسی ثبوت کے،عافیہ صدیقی کو ۸۶ سال کی سزا سنا دی۔
عا فیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سمتھ کی بقول اوّل تویہ تک نہ ثابت کیا جا سکا کہ عافیہ صدیقی نے گن اٹھائی تھی کیوں کہ اس کے فنگر پرنٹ ہی کسی گن پر موجود نہ تھے۔ لیکن اگر عافیہ اپنے دفاع میں گولی بھی چلاتی تو بھی قانونی طور پر اسے یہ حق حاصل تھا، کیونکہ وہ اغوا کر کے زبردستی لائی گئی تھی۔
امت کی اس بیٹی کی غم و اندوہ سے لبریز یہ کہانی اتنی طویل ہے کہ اس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔یہ ایک حافظۂ قرآن، نییورو سائنسز میں پی ایچ ڈی،امت کا درد رکھنے والی، ایک ماں اور ایک بیٹی کی کہانی ہے۔ امتِ مسلمہ کے لیے ایک لٹمس ٹیسٹ ہے۔
فوزیہ صدیقی عافیہ کا دیکھا ہوا ایک خواب بتاتی ہیں جو عافیہ نے اپنی والدہ کو فون پر بتایا تھا:
’’نبی پاک میرے خواب میں آئے۔ میں نے سوال کیا کہ آقا میں کب تک یہاں رہوں گی؟ میرا یہ امتحان کب ختم ہوگا؟ پھر میں رونے لگ گئی تو آپ ﷺ مسکرا دیےاور کہنے لگے ارے بیٹی! یہ تمہارا امتحان تھوڑی ہے۔ تو میں ایک دم حیران ہو گئی کہ یہ میرا امتحان نہیں ہے تو میں کیوں قید میں ہوں؟ یہ میرے ساتھ اتنا ظلم کر رہے ہیں کہ مجھ سے برداشت نہی ہوتا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ آبدیدہ ہو کر خاموش ہو گئے ۔ میں نے پھر رونا شروع کر دیا اور پچھتائی کہ میں نے ایسا سوال کیوں کیا کہ آپ ﷺ کو رنجیدہ کر دیا۔ پھر آپ ﷺ نے آہستہ سے فرمایا کہ یہ میری امت کا امتحان ہے۔‘‘
بےشک اللہ کے دربار میں تو عافیہ صدیقی کا مقدمہ حاضر ہے اور ہر اس شخص کا نام درج ہے جس نے اس پر ذرّہ برابر بھی ظلم کیا یا ظالم کا ساتھ دیا اور ان تمام منافق حکمرانوں کا بھی جنہوں نے طاقت و استطاعت ہونے کے باوجود اپنی بہن کو کفار کے چنگل سے آزاد نہ کرایا، عوام الناس کا بھی جن پر اپنی بہن کو چھڑانے کے لیے جہاد فرضِ عین ہے۔ اگر قیامت کے دن عافیہ نے رب کے حضور ہم سے اس بابت پوچھ لیا تو ہم کیا جواب دیں گے؟
٭٭٭٭٭