تحریکِ ختم نبوت سے ڈی چوک گرینڈ آپریشن تک

Policemen fire tear gas shells to disperse supporters of Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) party during a protest to demand the release of former prime minister Imran Khan, in Islamabad on November 26, 2024. Thousands of protestors calling for the release of Pakistan's jailed ex-prime minister Imran Khan defied roadblocks and tear gas to march to the gates of the nation's capital on November 26. (Photo by Aamir QURESHI / AFP) (Photo by AAMIR QURESHI/AFP via Getty Images)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوكل عليه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلله فلا هادي له، ونشهد أن لا إله إلا الله ونشهد أن محمدًا عبده و رسوله. ربِّ اشرح لي صدري، ويسّر لي أمري، واحلل عقدة من لساني، يفقھوا قولي، واجعلي وزيرا من أهلي، أما بعد!

یہ جملہ اب کہاوت کی صورت اختیار کر گیا ہے کہ ’ہر ملک کے پاس ایک فوج ہوتی ہے اور پاکستان فوج کے پاس ایک ملک ہے‘۔ پاکستان میں بسنے والے سیاسی شعور کے ابتدائی درجے کے حامل سے لے کر پاکستان کی سیاست و حکومت کو جاننے والے دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود فرد تک، ہر ایک بخوبی جانتا ہے کہ پاکستان فوج بلا شرکتِ غیرے پاکستان کی حکمران نہیں، بلکہ اس ملک کی مالک ہے۔ ہر ملک کو ایک خاص اسٹیبلشمنٹ چلاتی ہے۔ کہیں اس کو ڈیپ سٹیٹ کہتے ہیں جس کی مرضی کے بغیر کوئی اوبامہ اور کوئی ٹرمپ کوئی کلیدی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ کہیں کسی پارٹی کا اقتدار ہوتا ہے اور پارٹی چیئر مین اس قدر طاقت ور ہو سکتا ہے کہ وہ مؤسس چیئر مین ماؤ کے فیصلوں کو بھی حرفِ غلط قرار دے دے۔ کہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اقتدار گھوم پھر کر اسی برہمن کے پاس آ رہتا ہے جو بقول ویدوں کے بھگوان کے سر سے پیدا کیے گئے ہیں (نعوذ باللہ)۔پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی یہاں کی ڈیپ سٹیٹ، کمیونسٹ پارٹی، برہمن، اسٹیبلشمنٹ ، پاکستان فوج بن گئی۔

اس اسٹیبلشمنٹ نے روزِ اول سے اپنے آپ کو اس ملک کا بے تاج بادشاہ جانا اور پھر اپنے افسروں کی تربیت بھی اسی بادشاہی کے لیے کی، پھر یہی افسر کبھی بے تاج بادشاہ رہے اور کبھی تاج ور بھی۔ ماضی کے چند چیدہ چیدہ واقعات کا ذکر لازمی ہے، لیکن اس سے قبل آج کے پاکستان کی صورتِ حال ، جدید ریاست کے پانچ ستونوں کے ساتھ موازنے کی شکل میں دیکھ لیجیے۔

پاکستان میں جدید ریاست کے پانچ میں سے چار ستون مکمل طور پر اسی فوج کے باج گزار ہیں، بلکہ ایک ستون تو یہاں دراصل خود یہ فوج ہی ہے۔

  1. پہلا ستون: مقننہ۔ یعنی پارلیمان۔ کیا سیاست کی ابتدائی درجے کی سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ دعویٰ کر سکتا ہے پاکستان کی حالیہ پارلیمان آزاد ہے اور اس پارلیمان کے ارکان جمہوری لحاظ سے بنا ووٹوں، بیلٹ بکسوں یا فارم ۴۵ و ۴۷ کی دھاندلی کے ایوانِ اقتدار میں پہنچے ہیں؟ پاکستان کے آئین میں ہونے والی حالیہ چھبیسویں ترمیم، پاکستان ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہی کے حکم پر ہوئی۔ بلکہ کتنے سیاست دان آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ اس کا ابتدائی مسودہ تک ’کہیں‘ سے آیا۔ ہارس ٹریڈنگ اور لوٹوں کی اصطلاح سے کون پاکستانی واقف نہیں؟

  2. دوسرا ستون: انتظامیہ یا ایگزیکٹیو۔ یعنی قانون نافذ کرنے والے ادارے اور بیوروکریسی۔ اول الذکر تو عملاً خود یہی فوج ہے اور مؤخر الذکر بیوروکریسی اور پولیس سِول سطح پر اسی فوج کی خدمت گار، سہولت کار، معاون اور اسی فوج کے ساتھ پارٹیز سے لے کر مراعات تک سے محظوظ ہونے والا طبقہ ہے۔

  3. تیسرا ستون: عدلیہ۔ اس ستون کا کام آئین و قانون کی تشریح اور عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک پاکستان کے عدالتی سسٹم ہی کے تحت میرٹ پر آنے والے ججوں میں بھی اکثر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے مثلِ بیوروکریسی خدمت گار، سہولت کار، معاون اور اسی فوج کے ساتھ پارٹیز سے لے کر مراعات تک سب کچھ سے محظوظ ہونے والا ایک طبقہ تھا۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد اب یہ مکمل طور پر فوج کا باج گزار ستون و ادارہ بن گیا ہے۔ اب انصاف کی فراہمی ان ججوں کی ذمہ داری ہے جنہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر درجن ڈیڑھ درجن پارلیمان میں بیٹھے سیاست دان چنیں گے۔

  4. چوتھا ستون: میڈیا۔ اس کا کام شفاف رپورٹنگ کے ذریعے نظام کی نگرانی اور تعمیری تنقید کے ذریعے معاشرے اور حکومت کے مابین توازن قائم رکھنا ہے، تاکہ عوام میڈیا کے ذریعے حقائق جان کر، صحیح لوگوں کو چن کر، پارلیمان میں بھیج سکیں اور ریاستی مشینری آزادی، مساوات اور ترقی کی جانب گامزن محنت و خدمت کر سکے۔ لیکن اس میڈیا کی حالت کون نہیں جانتا۔ لفافوں، دھمکیوں اور تعذیب و قتل جیسے ہتھکنڈوں سے یہاں کا میڈیا مکمل کنٹرولڈ ہے۔ ۲۶ نومبر ۲۰۲۴ء کو ڈی چوک میں ہونے والی فوجی کارروائی کو دکھانے یا بتانے کی میڈیا کو اجازت نہیں تھی۔ اس ستون کی حقیقت کو جاننا ہو تو سلیم شہزاد سے ارشد شریف اور مطیع اللہ جان اسی صحافت کا نام ہے۔

  5. پانچواں ستون: عوام۔ یہ قوت کا سرچشمہ ہیں، ریاست کی اتھارٹی کی بنیاد اور اس کا جواز۔ اس ستون کودوسرے الفاظ میں ’بلڈی سویلین‘ کہتے ہیں۔ اگرچہ باقی تین ساڑھے تین ستون بھی ستون نمبر دو کے مقابل آ جائیں اور ریاست کے آئین و دستور کی ’بالادستی‘ کی بات غلطی سے کر دیں تو بلڈی سویلین ہی کے زمرے میں مثلِ شودر و دلت قرار پاتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے، افتخار چودھری کو نکالنے کی کوشش اور نواز شریف ثم عمران خان کا بیانیہ ’مجھے کیوں نکالا ‘ تک اسی کی ایک جھلک ہے۔

نظامِ پاکستان میں قوت کا حقیقی سرچشمہ یا اسی نظامِ پاکستان کا مساوی نام ملٹری اسٹیبلشمنٹ یا پاکستان فوج ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ یہاں کا ریاستی کلٹ (Cult) ہے، جس کو سات قتل معاف ہیں اگرچہ کچھ تحقیق کی جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ ریاستی کلٹ شاید آج تک سات نہیں، سات لاکھ قتل اپنے ہی عوام کے کر چکا ہے۔ ماضی کے چند واقعات کو دیکھتے ہیں، اگرچہ ان واقعات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان فوج نے ردِ عمل میں جو کارروائی کی اس کے نتیجے میں ایسا ہوا اور دیگر فریق بھی اس کا سبب تھے، لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ نظامِ پاکستان کا دوسرا نام یہی فوج ہے ، یہی فوج اس ملک کی ’مائی باپ‘ ہے، جب بھی لفظِ ریاست یا ریاستی ادارے آتا ہے تو یہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ مراد ہوتی ہے، تو بھلا کیا کبھی کوئی ریاست اپنے ہی لوگوں کے خلاف ایسے ’ایکشن‘ لیتی ہے؟

یہاں کچھ دیگر نکات بیان کرنا از حد ضروری ہے اور ہماری پچھلی بات ان نکات کے بنا بالکل ادھوری ہے:

  1. پشتون علاقوں میں پاکستان فوج نے پشتونوں کے خلاف جنگ کو اس لیے روا نہیں رکھا کہ وہ صرف ’پشتون‘ ہیں، بلکہ پشتونوں کے کے خلاف جنگ کا اصل سبب پشتون اور قبائلی علاقوں کے باسیوں کی اسلام سے وابستگی ہے (جیسا کہ پچھلی سطور میں بھی بیان ہو چکا ہے)۔ یہ جنگ پنجابی اور پشتون کے درمیان جنگ نہیں بلکہ امریکی غلام فوج اور اہلِ اسلام کے مابین جنگ ہے۔ دراصل اس جنگ میں پشتون کے خلاف پشتونوں نے ہی جنگ لڑی ہے، اور دشمن کی طرف سے جنگ لڑنے والے یہ فوجی پشتون نہیں بلکہ ’ملٹری اسٹیبلشمنٹ‘ کے چہرے مہرے تھے۔

  2. نہایت قلیل تحقیق سے جن اعلیٰ پشتون جرنیلوں (تھری سٹار و فور سٹار)کے نام معلوم ہو سکے ان میں جنرل رحیم الدین خان آفریدی، جنرل اختر عبد الرحمن خان ککے زئی، جنرل فاروق فیروز خان برکی، جنرل جہانگیر کرامت ککے زئی، جنرل احسان الحق خان(مردان)، جنرل اسد درانی، جنرل یحییٰ خان، جنرل گل حسن خان، جنرل فاروق شوکت خان لودھی، جنرل علی قلی خان خٹک، جنرل عبد الوحید کاکڑ، جنرل طارق خان شامل ہیں۔ ان مذکورہ جرنیلوں میں لیفٹیننٹ جنرل طارق خان، آئی جی ایف سی بھی رہا، اس نے ۲۰۰۴ تا ۲۰۰۵ء امریکی سینٹ کام (CENTCOM) میں پاکستان کی نمائندگی کی جہاں اس کی خدمات کے اعزاز میں اسے امریکی فوجی اعزاز Legion of Merit دیا گیا، ۲۰۰۶ء میں جنوبی وزیرستان میں آپریشن کی کمان کی اور اس کے سر آئی جی ایف سی ہونے کے زمانے میں ایف سی کو دہشت گردوں کے خلاف وزیرستان اور خیبر پختون خوا میں پیشہ ور فورس بنا نے کا اعزاز بھی ہے، سب سے بڑھ کر طارق خان کا تعلق وزیرستان کی سرحد سے جڑے نیم قبائلی علاقے ٹانک سے ہے۔ علاوہ ازیں وزیرستان، سوات اور باقی خیبر پختون خوا میں ہونے والے قریباً تمام ہی آپریشنز میں ایف سی صفِ اول میں لڑی اور یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ ایف سی میں اکثریت پشتونوں کی ہوتی ہے اور اس کے اکثر (پچانوے فیصد) سربراہان پشتون رہے ہیں۔

  3. جس طرح پاکستان فوج نے پشتونوں یا بلوچوں پر ظلم کیا ہے تو اسی طرح (جیسا کہ اولاً مذکور دو نکات میں ذکر آیا) پاکستان فوج نے ایسا ہی ظلم خود پنجابیوں کے ساتھ بھی روا رکھا ہے، بلکہ تحریرِ ہٰذا میں بیان ہونے والے اکثر ظلم کے واقعات و سانحات خود اس فوج کی جانب سے پنجابیوں کے ساتھ کیے گئے ہیں۔ مکرر، یہاں اصل مسئلہ کسی قوم کے خلاف جنگ نہیں بلکہ اسلام کے خلاف جنگ ہے۔

  4. پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ظلم اور بے دین و لادین پالیسیوں کے نتیجے میں، للاسف ، ایسے بد نصیب لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے قوم پرستی (بلوچ و پشتون) کے نام پر ایک ایسا علاج قوم و ملت کے سامنے پیش کیا جو بجائے خود ’دواء‘ نہیں ’داء‘ ہے، مرض کا علاج نہیں بلکہ سرطان ہے۔ ماضی میں یہی کھیل مشرقی پاکستان میں کھیلا گیا، بنگالی قومیت کے نام پر بنگ بندھو (دوستِ بنگال) شیخ مجیب کی تحریک پر مکتی باہنی نے ایک ایسا حل تجویز کیا جس کے نتیجے میں اسلام کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل ہونے والا ملکِ پاکستان دو لخت ہو گیا، اہلِ بنگال کو پاکستان کی ظالم ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تو نجات حاصل ہو گئی لیکن وہ پانچ دہائیوں تک کے لیے سیکولر ہندو کے غلام ہوگئے ، جن حقوق کے حصول کی خاطر بنگالیوں میں بنگالی قوم پرستی کو جگا کر مکتی باہنی نے تخریب کی تھی، وہ بنگالی اسی مکتی باہنی کے اقتدار میں آ جانے کے بعد بھی حقوق سے محروم رہے۔ جیسے انگریز کے جانے کے بعد ہندوستان پر کالے انگریز مسلط ہو گئے اور یہی مقامی کالے انگریز برِّ صغیر کی عوام کا خون چوسنے لگے ، اسی طرح مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد وہاں کے مقامی حکمران اہلِ بنگال کے حق میں ثابت ہوئے۔

  5. پس پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے جو آگ آج پاکستان کے جس بھی علاقے میں بھڑکائی ہے اس کا حل بلوچ، پشتون، سندھی، کشمیری، سرائیکی اور اب نہایت ابتدائی درجے میں پنجابی قوم پرست تحریکات نہیں۔ آگ کو آگ سے بجھایا نہیں جا سکتا۔ برائی کو برائی نہیں مٹایا کرتی۔ بلکہ اس ظلم کا علاج اسلام کی عادلانہ آغوش میں ہے جو رنگ، نسل، قوم کی تفریق کے بنا صرف اسلام کی بنیاد پر تمام انسانیت کے ساتھ رویہ رکھتا ہے۔

  6. پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ظلم سے نجات کا طریقہ قوم پرست تحریکات، قوم پرست نعروں، امریکہ و سوئٹرز لینڈ یا روس و بھارت کے ’سپانسرڈ ‘رویوں اور حل میں نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قوم پرست ہوں یا ان کے سہولت کار یا کئی صورتوں میں ان قوم پرستوں کے غیر ملکی آقا یہ سبھی ان اقوام کے مسیحا نہیں قاتل ہیں۔

فرازؔ نے جس فوج کی مدحت میں کسی زمانے میں قصیدے لکھے تھے، وہی بنگال کے بعد مہران و بولان میں ہونے والے ظلم و ستم پر نوحہ کناں تھا:

اب مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی بندوق کی نالی ہے مری سمت کہ جو
اس سے پہلے مری شہہ رگ کا لہو چاٹ چکی

پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر مرے شہر میں بارود کی بو پھیلی ہے
پھر سے ’’تُو کون ہے‘‘ ’’میں کون ہوں‘‘ آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ من و تُو پھیلی ہے

مری بستی سے پرے بھی مرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر مری جانب لپکے
مرے سینے میں سدا اپنا ہی خنجر اترا

اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبحِ وحشت کی طرح شامِ غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشۂ دل کی طرح، آئینۂ جاں کی طرح

اپنے ہی لوگوں کے خلاف لڑنے اور انہیں قتل کرنے کی، یہ ڈیپ سٹیٹ کی وہ برہمنی ذہنیت ہے جو اپنے مقابل آنے والے اور اپنے سے اختلاف کرنے والے ہر فرد کے خلاف فرعون سے بدتر ثابت ہوتی ہے۔ ہم نے اس تحریر میں نہایت اختصار کے ساتھ پاکستان فوج کے ظلم و سَربِیَّت کے چند نمایاں واقعات کا ذکر کیا ہے۔ یہ فوج اس ملک پر کیسے قابض ہے کہ یہی ریاستی کلٹ آج اس ملک کا بطورِ گروہ سب سے بڑا سرمایہ دار کاروباری ادارہ ہے، کیسے یہ اس ملک کا سب سے بڑا جاگیر دار گروہ ہے اور کیسے یہ اس ملک کی سب سے بڑی پس پردہ سیاسی جماعت ہے کہ فوجی فاؤنڈیشنز، فوجی دلیہ، ڈیری فارمز، عسکری سیمنٹ، عسکری بینک، ڈیفنس و عسکری ہاؤسنگ سکیمیں اور اتھارٹیاں، ملک بھر میں کینٹ ایریاز، آئی جے آئی سے مسلم لیگ ق اور پی ڈی ایم تک، ابھی ہمارا موضوع نہیں۔ پاکستان فوج کے خلاف جرائم کی چارج شیٹ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے یا شاید اس کی تعداد لاکھوں میں ہو، اس لیے کہ صرف ۲۰۱۱ء تا ۲۰۲۲ء ساڑھے آٹھ ہزار افراد کی جبری گمشدگیوں ہی کی چارج شیٹ کم از کم ساڑھے آٹھ ہزارصفحات پر مشتمل ہے۔ اس فوج کے جرائم پر سیکڑوں کتابیں موجود ہیں اور اتنی ہی مزید لکھی جا سکتی ہیں۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ وطنِ عزیز پاکستان کے اہلِ دین و دانش، فہیم سیاست دان و اہلِ صحافت، خصوصاً علمائے کرام، دینی جماعتوں کے قائدین و کارکنان اس حقیقت کا ادراک کریں کہ اس ملک میں نفاذِ اسلام سے لے کر عام آدمی کو انصاف اور روٹی نہ ملنے میں سب سے بڑا کردار اسی ’ریاستی کلٹ‘ یعنی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ہے اور اس فوج سے چھٹکارا ایک منظم تحریک کے بِنا، ناممکن ہے۔ ایک ایسی منظم تحریک جس کی پشت پر حقیقی مسلح قوت اور مضبوط شرعی و سیاسی فکر موجود ہو۔ یہ تحریک دنیا کے ہر انقلاب کی طرح خون اور قربانی مانگتی ہے۔ جو قوم قربانی دینے سے دریغ کرے اور اپنے گھروں، دو وقت کی روٹی اور ظلم کی چکی میں پسنے پر قناعت اختیار کر لے، وہ کبھی تبدیلی نہیں دیکھ سکتی۔ آج کسی ایک جرنیل کی جگہ کسی دوسرے کو لا بٹھانا حل نہیں، بلکہ یہ تو وہی musical chair کا کھیل ہے جو یہاں آٹھ دہائیوں سے جاری ہے(سیاست دانوں اور وزیرِ اعظموں اور صدورِ مملکت کا تو ذکر ہی کیا کہ وہ یا تو کٹھ پتلی ہوتے ہیں یا بے اختیار حکمران)۔ چہرے نہیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔ اپنے دین و ایمان کی خاطر، اپنی عزت و ناموس کی خاطر، اپنے قوم و وطن کی آزادی اور بہبود کی خاطر، دنیا میں اسلامی حلال باعزت روٹی و معاشرتی زندگی اور آخرت میں کامیابی کی خاطر، نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔ نظام کا دوسرا نام ملٹری اسٹیبلشمنٹ، کور کمانڈر جرنیل اور ان کے پالے ہوئے فرعون صفت برہمن افسروں کا طبقہ ہے، جس نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف اپنی بندوق کی نالی سیدھی کر رکھی ہے۔

پاکستان کے دین پسند عوام سے، اسلام سے لے کر ان کی روزی روٹی تک قوت سے چھینی گئی ہے اور پھر انہیں ایسے جھنجھنے تھما کر اول الذکر جدید جمہوری ریاست کے ستونوں کے درمیان گھری ایسی ’گھمن گھیریوں‘ میں بھٹکا دیا گیا ہے، جہاں سے نکلنے کا طریقہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حقیقت کو جاننا اور پھر ان کے خلاف بغاوت کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ جو چیز قوت سے چھینی جاتی ہے وہ قوت سے ہی واپس لی جا سکتی ہے۔ تقدیر بدلنے کے لیے عزم و ارادہ اور قوت و تحریک کی ضرورت ہوتی ہے، یہ آفاقی قانون ہے کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اور شاعر نے شاید انہی حالات کے پیشِ نظر کسی وقت کہا تھا:

اپنی رفتار کو اب اور ذرا تیز کرو
اپنے جذبات کو اب اور جنوں خیز کرو
ایک دو گام پہ اب منزلِ آزادی ہے
آگ اور خوں کے ادھر امن کی آبادی ہے
خود بخود ٹوٹ کے گرتی نہیں زنجیر کبھی
بدلی جاتی ہے، بدلتی نہیں تقدیر کبھی……

اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

[۲۹ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۶ ھ ؍یکم دسمبر ۲۰۲۴ء]

٭٭٭٭٭


1 اوریجنز (www.origins.osu.edu)، ساؤتھ ایشیا جرنل، ورکرز لبرٹی (www.workersliberty.org)، آزاد دائرۃ المعارف وکی پیڈیا، وغیرہ۔

2 جنہیں بعد میں پاکستان فوج کی دین دشمن پالیسیوں پر آواز بلند کرنے کے سبب ان کے اپنے ہی ادارے ’پاکستان فوج‘ کے امریکی مفادات کے لیے کام کرنے والے افسروں نے دین و ملک کے ساتھ ساتھ ادارے کی وفا کو بھی پامال کرتے ہوئے اغوا ثم شہید کر دیا، رحمہ اللہ۔

3 افشا و نشر کردہ: ادارہ السحاب برِّ صغیر

4 In the Line of Fire, Pervez Musharraf

5 جنرل کیانی کا آن ریکارڈ ویڈیو بیان موجود ہے جس میں وہ اس بات کا اظہار و اقرار کرتا ہے۔

Exit mobile version