الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امام المرسلین و قائد المجاہدین،امابعد
غزہ کی جنگ ہر اُس فرد کے لیے انتہائی اہم معانی پیش کرتی ہے جس کو تھوڑا بھی شعور ہو کہ امت مسلمہ کی جو آج ناگفتہ بہ حالت بنی ہوئی ہے اس سے اس کو نکالنے کی جدوجہد اس پر فرض ہے، اس تحریر کا مقصد انہی اہم پیغامات پر روشنی ڈالنا ہے۔ اس میں پہلے بعض اُن حقائق پر بات ہو گی جو اس جنگ نے دکھائے ہیں اور پھر اس سوال کا جواب دیا جائےگاکہ یہ امور ہم سے بطورِ فرد اور گروہ کیا تقاضا کرتے ہیں، وہ کیا شعور و آگہی ہے کہ جس کو عام کرنا آج ضروری ہے اور وہ کیا راستہ ہے کہ جس کو اپنائے بغیر نہ ہم مسجد اقصی آزاد کرا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے ممالک میں غلبۂ دین کے ہدف تک پہنچ سکتے ہیں۔
اہل غزہ کا درس
مگر آگے بڑھنے سے پہلے یہ ذکر ضروری ہے کہ اہل غزہ نے ان پندرہ مہینوں میں صبر و ثبات کا پیکر بن کر جس ایمان و یقین اور اللہ پر توکل کا ثبوت دیا،اس نے مادیت کے اس دور میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان کی ایک عظیم مثال قائم کی ہے، اللہ پر یہ ایمان و توکل اور پھر اس رب کریم کی طرف سے مدد و نصرت اگر شامل حال نہ ہو تو گوشت پوست کا انسان کب ایسی آزمائشوں کو جھیل سکتا ہے اور کیسے ان میں کامیاب ہو سکتاہے؟ قیدیوں کو چھڑانے کے لیے جو شرائط انہوں نے رکھی تھیں، ان میں سے کسی ایک سے بھی الحمدللہ وہ پیچھے نہیں ہٹے، جبکہ خدائی کا دعوی کرنے والے شیاطین اپنی کوئی ایک بات بھی ان سے منوا نہیں سکے۔ اس جنگ نے امت مسلمہ کو ایمان، جہاد کی فرضیت، فکرِ آخرت اور حبِ شہادت کے بہت ہی انمول دروس دیے، اس نے شیاطینِ مغرب کے انتہائی غلیظ چہرے سے ان کے جھوٹ کے نقاب نوچ بھی ڈالے اور انہیں یہ پیغام بھی دیا کہ محمد عربی ﷺ کی امت دنیا کے پیچھے چلنے کے لیے نہیں، بلکہ دنیا کو اپنے پیچھے چلانے کے لیے بھیجی گئی ہے اور ان کے سامنے اہم ترین چیز، ان کا دین، مقدسات اور رب کریم کی رضا ہے۔
راستہ جو اب واضح ہوا!
اس جنگ کا بہت اہم پہلو یہ ہے کہ اس نے فکر و عمل کی صحیح سمت اب بالکل واضح کردی ہے، اگر آنکھیں کھلی اور دل صاف ہوں تو آزادیٔ امت کی راہ سمجھنے میں اب کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ راستے کے آسان یا مشکل ہونے کا سوال وہی لوگ کریں گے جنہیں امت مسلمہ کی موجود حالت زار کا شعور یا احساس نہ ہو اور جو اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہوں کہ آج جہادِ فی سبیل اللہ نماز روزے کی طرح فرض، بلکہ ان سے بھی شاید زیادہ ہی اہم ہے اور وہ جہاد ہی اب ایمان و اعمال کی حفاظت کا ذریعہ بنے گا جس میں بیعت موت پر کی جاتی ہے، جہاں فتح و نصرت کی خواہش سے زیادہ رب کی رضا کی امید پر زندگی کا سودا کیا جاتا ہے اور بدلے میں فقط جنتوں کی بشارت ہی دیکھی جاتی ہے1۔ یہ سودا کل بھی امت کی کامیابی کا ضامن تھا اور یہ آج بھی ہے۔ کل بھی بطورِ فرد اس کا امتحان تھا اور آج بھی ہے اور کل بھی اللہ رب العزت ایسے اہل ایمان کی نصرت پر قادر تھا اور آج بھی ہے۔
لہٰذا جب تک ہم آسانی طلب کرنے کی جگہ، ’اللہ کو مجھ سے کیا مطلوب ہے‘ کی تلاش شروع نہ کریں اور یہ نہ دیکھیں کہ حقائق و حالات کس راستے کے رُخ بہ منزل ہونے پر دلالت کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ ہم اُس صحرائے تیہ میں ہی سرگرداں رہیں گے جس سے نکلنے کی شرط اللہ رب العزت نے قربانی کے لیے تیار ہونا رکھا ہے۔ بنی اسرائیل کی صحرائے تیہ میں اسارت، کسی مادی حصار، جیل یا قید کی وجہ سے نہیں تھی، وہ خود اپنی نیت و عمل میں کھوٹے تھے اور یہی ان کے بھٹک جانے کی اصل وجہ تھی۔ پس اگر ہم بھی فکر و عمل اور راستے و سفر میں غلطی پر مُصر رہیں تو ہمارا انجام بھی صحرائے تیہ ہی ہو گا، منہج کی اس گمراہی میں حرکت و محنت کے باوجود بھی ہم جانب منزل سفر نہیں کر پائیں گے۔
اہل غزہ تنہا ہی کیوں رہے؟
کیا وجہ ہے کہ اس سارے عرصہ میں ہم اہل غزہ کے اصحاب ِ اخدود بننے کا بس تماشہ ہی دیکھتے رہے، جبکہ ان کی مدد ہم سے کچھ نہ ہو سکی؟ ہم میں اہل دل و دین کم نہیں ہیں، دینی تحریکات بھی بہت ہیں مگر اس سب کے باوجود وہ اول سے آخر تک تنہا کیوں رہے؟ وہ کھڑے تھے کہ امت بھی ان کے پیچھے کھڑی ہو مگر کسی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔ فاصلے یا سرحدات اگر رکاوٹیں تھیں تو یہ کب اور کیوں رکاوٹیں بنیں؟ وہ کیا گرفت اور کس قسم کا تسلط تھا کہ جس نے ہمیں قدم قدم پر مجبور کیے رکھا؟ پھر وہ کونسی طاقت ہے کہ جس نے اسرائیل کو کھوکھلا ہونے کے باوجود کھڑا رکھا؟ اسرائیل کا بے جڑ اور بے بنیاد ہونا اس جنگ میں مزید واضح نظر آیا مگر اس کے باوجود وہ اب بھی کیوں تن کر کھڑا پوری امت کو دھمکیاں دے رہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں کہ اگر ان کے ساتھ جنگِ غزہ کا ہم جائزہ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ کون ہم پر مسلط ہے؟ اس طاقت کی قوت، تسلط اور وجود کی وسعت کیا ہے؟ اس کا مقابلہ کیوں ضروری ہے اور یہ مقابلہ کیسے ہو پائے گا؟ یہ وہ نکات ہیں کہ جو واضح ہوں گے تو پھر یہ سمجھنا آسان ہو گا کہ مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کا راستہ کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کن راہوں سے گزرتا ہے۔
غزہ کی جنگ میں امریکی کردار
اس جنگ نے دکھادیا کہ اسرائیل کی بقا، ہمارے مقدسات پر اس کا قبضہ اور اہل اسلام پر اس کے وحشیانہ مظالم امریکہ کی طرف سے اس کی مددو دفاع کے مرہون منت ہیں۔ امریکہ نے اسرائیل کی کیسے اور کتنی مدد کی؟ یہاں ہم اختصار کے ساتھ اس کی چند جھلکیاں رکھ دیتے ہیں۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ ہوا، مگر ماتم امریکہ میں مچ گیا، رات کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی جھنڈے والی روشنیاں جلا کر دکھایا گیا کہ امریکہ اسرائیل سے دور نہیں۔ پھر امریکی صدر، اس کے وزرائے خارجہ و دفاع اور فوجی قیادت بھی اسرائیل پہنچ گئی۔ امریکہ عسکری، سیاسی، سفارتی اور میڈیا سمیت ہر ہر محاذ پر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو گیا، اور ایسا یک جان دو قالب کا مظاہرہ کیا کہ جیسے اسرائیل ایک علیحدہ ریاست نہیں، بلکہ امریکہ ہی کا حصہ ہو۔
صدرِ امریکہ نے اعلان کیا:
’’اس میں کوئی ابہام نہیں کہ ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں، ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں، ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں۔‘‘
اور کہا:
’’ ہم اسرائیل کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑیں گے، جب تک امریکہ ہے، اور امریکہ ہمیشہ رہے گا، وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہے گا۔‘‘
صدر بائیڈن نے تکرار کے ساتھ جھوٹ پر جھوٹ بول کر اسرائیلی مظالم کا کچھ ایسا دفاع کیا کہ جیسے وہ امریکی صدر نہیں، بلکہ اسرائیل کا ترجمان ہو۔
وزیر خارجہ بلنکن بھی غم زدہ چہرے کے ساتھ جب تل ابیب گیا تو بہت کچھ کہنے کے ساتھ یہ بھی کہا :
’’اسرائیل یہ جنگ اکیلے لڑ سکتا ہے مگر جب تک امریکہ ہے، اسرائیل کو جنگ اکیلے نہیں لڑنی پڑے گی۔‘‘
اس نے اسرائیل کو یہ ’ خوش خبری ‘سنائی کہ اس کو اسلحے کی سپلائی شروع ہوگئی ہے اور یہ کبھی نہیں رکے گی۔ اور عملاً بھی یہی ہوا، پندرہ مہینوں میں ایک دن بھی یہ سپلائی منقطع نہیں ہوئی۔2
امریکہ نے اپنے دو طیارہ بردار بحری بیڑے (بحری فورسز کے دو گروپ)مشرق وسطیٰ میں لا کھڑے کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بیس ہزار سپاہی بھی اسرائیل کے اندر تعینات کیے جنہوں نے اسرائیلی فوج کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنا تھی۔3
واشنگٹن پوسٹ نے اوائل جنگ میں لکھا کہ جنگ کے ابتدائی ۵۴ دن اسرائیل نے غزہ پر جو ۲۲ہزار بم گرائے، یہ سب امریکی تھے۔ اسرائیلی ٹی وی، چینل12 کے مطابق امریکی امداد میں بڑے بم اور دو ہزار پاؤنڈ وزن کے بنکر بسٹر گولوں کے علاوہ درجنوں ایف ۳۵ جہاز اور اپاچی ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں۔ 4
ایک امریکی ادارے کے مطابق غزہ کی جنگ میں ایک سال کے دوران امریکہ نے اسرائیل کو کم از کم 22.76ارب ڈالر تک کی امداد دی ہے، یہ اسرائیل کے کل مصارف کا 70فیصد بنتی ہے،5 جبکہ 4.86ارب ڈالر اس نے خود ان دنوں اسرائیل کے دفاع میں اپنی کارروائیوں میں صرف کیے ہیں۔6
ایک مغربی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں اسرائیل نے جتنے ہتھیار استعما ل کیے، اس میں ۶۹ فیصد امریکی، ۳۰ فیصد جرمن اور اپنا صرف ایک فی صد صرف کیا ہے۔ یا د رہے کہ جرمنی کی طرف سے ہتھیار کی یہ فراہمی بھی امریکہ کے جرمنی پر اثر و رسوخ کی وجہ سے ہے۔ امریکہ نے یہ اعلان بھی کیا کہ اسرائیل کے اسلحے کے ذخائر میں جو کمی بھی آرہی ہے وہ امریکہ ساتھ ساتھ پورا کرتارہے گا۔ 7
اس پر بھی بس نہیں، بلکہ امریکہ نے اسرائیل میں اسّی کی دہائی کے دوران اسلحے کے بہت بڑے ڈپو بنائے اور مستقل انہیں بھرتا بھی رہا۔ یہ ڈپو WRSA: (War Reserve Stock Allies-Israel)کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا مقصد مشرق وسطی میں بوقت ضرورت سہولت کے ساتھ یہاں سے ہتھیاروں کی فراہمی ہے۔ بش سینئر کے دور میں امریکہ نے اسرائیل کو بھی ان سے ہتھیار نکالنے کی اجازت دے دی، اس لیے اب اس جنگ میں اسرائیل نے اس اسلحے سے بھی استفادہ حاصل کیا۔ 8
اس قدر بے تحاشہ اور نہ رکنے والی امداد کی یہ تاریخ نئی نہیں، پروفیسر تھامس اسٹوفر (Thomas Stauffer) ایک امریکی ماہر معاشیات ہے، اس نے مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں اور ان کے معاشی اثرات پر تحقیق کی ہے۔ اس نے اپنی رپورٹ “The Costs to the U.S. of the Israeli-Palestinian Conflict” میں لکھا ہے کہ 1948ء سے 2006ء تک، امریکہ نے اسرائیل کو مجموعی طور پر ۳۰ کھرب ڈالر (3 ٹریلین ڈالر) کی امداد فراہم کی ہے۔
امریکہ ہر کچھ عرصہ بعد کسی نہ کسی معاہدےیا مد کے تحت اسرائیل کی عسکری امداد کرتارہا ہے، ۲۰۱۶ء میں دونوں کے بیچ ایک دس سالہ معاہدہ ہوا جس کے تحت امریکہ نے اسرائیل کو سالانہ تین ارب اسّی کروڑ (3.8بلین) ڈالر کی فوجی امداد دینا طے پایا اور اس کا آغاز ۲۰۱۹ء سے ہوچکا ہے۔
اسرائیل و امریکہ تعلق کی حقیقت
کسی نے کہا ہے اور سچ کہا ہے کہ امریکہ سے باہر، امریکہ کی ایک بہت بڑی فوجی چھاؤنی ہے، جس کا نام اسرائیل ہے، یہی پچھلے پندرہ مہینوں کی اس جنگ نے بھی واضح کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ امریکہ کی نظر میں اسرائیل کی اس حد تک زیادہ اہمیت کیوں ہے؟ وہ اسرائیل کی خاطر اتنا کچھ کیوں لُٹا رہاہے؟ اسرائیل کے لیے خطرے کو خود اپنے لیے خطرے کے برابر کیوں سمجھتاہے؟
سابق امریکی صدر جمی کارٹر اپنے ایک انٹرویو میں کہتا ہے کہ امریکی عیسائی ہونے کی وجہ سے یہود کی مدد اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں،اس لیے اسرائیل کی مدد کے متعلق امریکہ میں بڑی یکسوئی ہے۔ نیز امریکہ میں اسرائیلی لابی اےپیک (AIPAC)کا قوی اثر و رسوخ بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے،اس لابی کا مقصد امن قطعًانہیں ہے، بلکہ اس کے مدنظر اسرائیل کے لیے وائٹ ہاؤس، کانگریس اور میڈیا سے زیادہ سے زیادہ امدادکا حصول ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے، مگر امریکہ اسرائیل تعلق کی گرہ کو دکتور عبدالوہاب مسیری نے اچھی طرح کھولا ہے۔ ڈاکٹر مسیری صہیونیت کے متخصص اور اس موضوع پر اتھارٹی سمجھے جانے والے پروفیسر ومصنف ہیں، دکتور اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:
’’اسرائیل کے لیے امریکی امداد کو اقتصادی زاویے سے مت دیکھیں، یہ اصل میں امریکہ کے اسٹریٹیجک مصارف ہیں، کیوں کہ سچ یہ ہے کہ امریکہ کو خود اسرائیل کی ضرورت ہے۔ آپ اسرائیل کو امریکہ کا ایک جنگی بیڑا ہی سمجھیں۔ (نہ کہ ایک علیحدہ ملک!) دیکھیں! صہیونی کہتے ہیں کہ اسرائیل امریکی سلامتی کا ایک اہم ستون ہے، اگر اسرائیل نہ ہوتا تو امریکہ کو عرب دنیا کو قابو کرنے کے لیے بحیرۂ عرب میں پانچ بڑے جنگی بیڑوں کو ضرورت پڑتی،جبکہ ایک جنگی بیڑے پر دس ملین ڈالر سالانہ خرچہ آتا ہے۔ گویا بالفرض اگر اسرائیل نہ ہوتا تو امریکہ کو خطہ قابو میں رکھنے کے لیے سالانہ پچاس ملین ڈالر خرچ کرنے پڑتے جبکہ اب وہ اسرائیل کو سالانہ صرف دس ملین ڈالر دیتا ہے۔ اس لیے میں اس حقیقت کو بار بار دہراتا رہا ہوں کہ صہیونی ایجنڈے کی کامیابی کا سبب اس کا امریکہ کے اوپر تسلط نہیں، بلکہ اس کا سبب خود امریکہ کی اپنی استعماری ضرورت ہے۔ ہرزل (بانی صہیونی تحریک)نے دیکھ لیا تھا کہ مغرب و امریکہ کا جو استعماری ایجنڈا ہے، اس میں ہمارا صہیونی منصوبہ اچھی طرح فِٹ بیٹھتا ہے، اس نے ان کی یہ چاہت دیکھ کر اپنی ضرورت ان کے سامنے رکھ دی اور یوں ہی وہ کامیاب ہو گیا‘‘۔9،10
دکتور مسیری سے الجزیرہ کے نمائندے نے جب پوچھا کہ’’ کیا امریکی امداد کٹ جانے سے اسرائیل ختم ہو جائے گا؟‘‘ تو دکتور مسیری نے جواب میں کہا:
’’یقینی طور پر اسرائیل ختم ہو جائے گا اور اس کا احساس خود صہیونیوں کو بھی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اگر کبھی ہمارے اخراجات زیادہ ہوئے اور ہماری حفاظت امریکہ کے لیے مشکل ہوگئی تو اسرائیل ختم ہو جائے گا۔‘‘
دکتور مسیری نے یہ بھی کہا کہ ’’اسرائیل کی زندگی کے مکونات(اساسی اجزاء) اس کے داخل میں نہیں، بلکہ خارج یعنی امریکہ میں ہیں‘‘، نیز ’’میں کہتا ہوں کہ اسرائیل داخل سے تباہ نہیں ہو گا، بلکہ باہر جو اس کو کھڑا کرنے اور زندہ رکھنے والے مکونات ہیں، وہ تباہ ہوں گے تو اسرائیل تباہ ہوگا! ‘‘11
استعمار ی دور ختم نہیں ہوا
گویا فلسطین پر اسرائیل کا ہی صرف قبضہ نہیں، بلکہ امریکی قبضہ بھی ہے، اور امریکہ نہ ہو تو اسرائیل کا وجود ممکن نہیں۔ پھر امریکہ کے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کا ایک بڑا مقصد دنیا پر اپنا نظام قائم رکھنا بھی ہے۔ وہ نظام جو امریکہ کے عسکری، معاشی اور سیاسی غلبے سے عبارت ہے اور جو عالم اسلام پر بہت منظم انداز میں اپنے سیاسی فیصلے نافذ کرتا ہے۔ گویا سچ یہ ہے کہ عالم اسلام اٹھارویں صدی عیسوی میں برصغیر تا افریقہ جس استعمار کے تحت چلا گیا تھا اور جس سے بالآخر خلافت عثمانیہ بھی ختم ہوئی، وہ استعمار آج بھی موجود ہے۔ برطانیہ، اٹلی اور فرانس کے استعمار کا دور تو ختم ہوا، مگر دوسرا دورِ استعمار جاری ہے۔ پہلے اگر سات سمندر پار سے انگریز آ کر ہم پر حکمرانی کرتا تھا ،جبکہ ہمارے عوام کو احسا س تھا کہ وہ مغلوب اور محکوم ہیں، تو آج عین وہی استعمار امریکہ کی صورت میں ہم پر مسلط ہے، مگر بتایا یہ جا رہا ہے کہ ہم آزاد اور خود مختار ہیں، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی کوئی ایک بھی ایسی زمین نہیں جو امریکی تسلط کے تحت نہ ہو۔ افغانستان اس میں استثناء ہے کہ جہاں بیس سال کے جہاد کی برکت سے ہی امریکہ اپنا بوریا بستر گول کرنے پر مجبور ہوا۔
عالمی نظام اور امریکی اثر و رسوخ
امریکہ کی دنیا بھر کے سمندروں پر صحیح معنوں میں بادشاہی ہے۔ اس میدان میں چین و روس بھی اپنی جگہ قوی ہیں، مگر امریکہ کی نسبت ان کا اثر و رسوخ بہت کم ہے۔ عالمی طور ۷۰ فی صد سمندر پر امریکہ ہی کی حکمرانی ہے اور تمام تر اہم گزر گاہوں پر امریکہ کا قبضہ ہے۔ جبکہ یہ اصول ہے کہ جس کے قبضہ میں سمندر ہو، اس کے لیے فضا اور زمین پر پھر تسلط جمانا کوئی مشکل نہیں۔ 12
ہنری کسنجر نے سمندری طاقت کے بل بوتے پردنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کی اس حکمت عملی کو Diplomacy of a Hundred Thousand tons ’’لاکھوں ٹن وزنی سفارت کاری‘‘ کا نام دیا تھا کیونکہ بحری طاقت کے ذریعے آپ دنیا سے اپنی بات منوا سکتے ہیں ۔ 13
امریکہ دنیا کی واحد ایسی طاقت ہے کہ جس کے، اپنی زمین سے باہر، اس قدر بڑی تعداد میں فوجی اڈے اور افواج موجود ہیں حتیٰ کہ بعض دفعہ اس کے کانگرس اراکین تک کو بھی علم نہیں ہوتا کہ ان کے فوجی کہاں کہاں تعینات ہیں۔ اندازہ کریں کہ دنیا کے 80 ممالک میں اس کے 800 سے زیادہ فوجی اڈے ہیں، جبکہ اس کے مقابل روس و چین وغیرہ کا اپنے ملک سے باہر فوجی وجود بہت ہی محدود، نہ ہونے کے برابر ہے۔14 اس طرح امریکہ کے دنیا کے 159 ممالک میں کم از کم ایک لاکھ83 ہزار فوجی تعینات ہیں 15، جبکہ سی آئی اے اور دیگر استخباراتی اداروں کے خفیہ افراد، نیز پرائیویٹ فورسز اس تعداد کے علاوہ ہیں جو دنیا میں امریکی مفادات کی خفیہ جنگ لڑتے ہیں۔
امریکہ نے اپنی بیرونی فوجی طاقت کو عالمی طور پر گیارہ کمانڈ زمیں تقسیم کیا ہے، ان میں سے پانچ کمانڈز جغرافیائی لحاظ سے ہیں جبکہ پانچ عملیات کی نوعیت کے مطابق۔ ہر ہر خطے کے لیے علیحدہ فورس، الگ ہیڈ کوارٹر اور جدا آپریشنل بیس ہوتی ہے، اس طرح ہر فورس کی اپنی فوج، اپنے بحری اور فضائی جہاز اور اپنی استخبارات، یوں یہ پورے کے پورے گلوب کو کنٹرول کرتا ہے۔ مثلا ً CENTCOM مشرق وسطی، وسطی ایشیا، افغانستان اور پاکستان کو کوَر کرتا ہے، اس کا مرکزی دفتر فلوریڈا میں ہے جبکہ اس کی آپریشنل بیس قطر میں ہے۔ قطر میں Al Udeid Air Base کے نام سے اس کا بہت بڑا فوجی اڈہ ہے، یہ مشرق وسطی میں اس کا سب سے بڑا فوجی مرکز ہے جو عالمی طور پر اس کا پانچواں بڑا اڈہ ہے، اس اہمیت کی بیس کسی بھی اور ملک کے پاس نہ اپنی زمین پر ہے اور نہ باہر۔ اسی طرح سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، عمان، اردن، عراق، بحرین، ترکی اور شام میں بھی اس کے فوجی اڈے ہیں، جبکہ پاکستان و مصر وغیرہ کے فوجی اڈوں کو بھی امریکہ استعمال کرتا رہا ہے، کیونکہ ان ممالک کے ساتھ اس کا انٹیلی جنس شیئرنگ، لاجسٹک سپورٹ اور دیگر باہمی تعاون کا تعلق ہے۔
سیاسی اثر و رسوخ کا جہاں تک سوال ہے تو یہ بات مشہور ہے کہ پاکستان اور مصر جیسے ممالک میں شاید ہی کوئی آرمی چیف امریکہ کی رضامندی کے بغیر بن سکتا ہو۔ سیاسی دھاک بٹھانے کے لیے یہ معیشت و اقتصاد کو بھی بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ اس تسلط کا ایک اہم ذریعہ ڈالر ہے اور باوجود یہ کہ بعض ممالک نے اس کے اثر سے نکلنے کی کوشش کی مگر چونکہ تا حال دنیا میں 60%زر مبادلہ کے ذخائر ڈالر میں ہیں، اس لیے تجارت بھی زیادہ تر ڈالر میں ہوتی ہے۔ اسی طرح قرضہ دینے والے عالمی ادارے، جیسے World Bankاور IMF امریکی زیر اثر ہیں اور یہ ادارے صرف ان ممالک کو قرضہ دیتے ہیں جو ان کی شرائط پوری کرتے ہوں، جبکہ یہ شرائط زیادہ تر امریکی مفاد دیکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ امریکہ قرضوں کے ذریعے ممالک کے داخلی امور میں بھی مداخلت کرتا ہے اور اپنی مرضی مسلط کرتا ہے۔ یہ مداخلت حکومتی و انتظامی امور سے لے کر تعلیم، قانون اور سیکورٹی تک کے امور میں ہوتی ہے۔ سزا دینے کے لیے یہ تجارتی و مالیاتی پابندیاں بھی لگاتا ہے۔ اس طرح حکومتوں کو تبدیل کرنے اور ممالک میں انقلابات لانے کے معاملے میں امریکی کردار اتنا مشہور ہے کہ اس متعلق ایک امریکی رکن کانگرس کا لطیفہ بھی مشہور ہے کہ جب اس سے پوچھا گیا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں سیاسی یا فوجی انقلابات آتے رہے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ امریکہ میں کوئی انقلاب ابھی تک نہیں آیا، تو اس کا جواب تھا کہ اس لیے کہ امریکہ میں امریکی سفارتخانہ موجود نہیں ہے۔
عالمی سیاست کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کے پاس ایک اہم ذریعہ اقوام متحدہ بھی ہے۔ اقوام متحدہ میں فیصلوں کے لحاظ سے کلیدی اور اساسی ادارہ سیکورٹی کونسل ہے، اس کے پانچ مستقل اراکین ہیں جن کے پاس ویٹو کی صلاحیت ہے۔ یعنی اگر پوری دنیا ایک بات چاہتی ہو مگر ان پانچ میں سے کسی ایک نے بھی اس کے خلاف رائے دی تو پھر دنیا بھر کی بات رد ی کی ٹوکری میں جائے گی۔ (یہ جمہوریت ہے !) امریکہ چونکہ اقتصادی، عسکری اور سفارتی لحاظ سے زیادہ طاقت ور ہے اس لیے امریکہ کا اثر دیگر چار اراکین کی نسبت عالمی فیصلوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ غزہ جنگ کے دوران جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ میں جتنی دفعہ بھی قرار دادیں پیش ہوئیں، امریکہ نے انہیں ویٹو کر دیا۔ مزید یہ کہ اقوام متحدہ دنیا بھر میں تعلیم و آگاہی، ثقافتی فروغ، مہاجرین کی امداد، صحت اور غربت کے خاتمہ جیسے کئی اہم اور عالمی طور پر مؤثر منصوبے بھی چلاتا ہے۔ ان اداروں کو بھی یہ اپنے خاص ایجنڈا کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ’اونروا‘ (UNRWA) کا ادارہ ہے کہ جو ۱۹۴۹ء میں فلسطینی مہاجرین کی امداد کے لیے بنایا گیا تھا۔ پہلے بائیڈن نے اسرائیل کی خواہش پر اس کا فنڈ کم کر دیا، جس سے یہ کمزور ہو گیا جبکہ صدر ٹرمپ نے آتے ہی اس کا فنڈ مکمل طور پر روک دیا۔ اقوام متحدہ کے ان اداروں کے علاوہ امریکہ نے اپنے بین الاقوامی امدادی ادارے USAID کے تحت براہ راست غیر سرکاری تنظیموں NGOsکا جال بھی اکثر ممالک میں بچھایا ہوا ہے،اس سے پاکستان جیسے ممالک میں گاؤں تک کی سطح کے عام فرد سے لے کر ملک کے اہم میڈیا پرسنز اور پارلیمنٹ اراکین تک پر وہ اثر ڈالتا ہے اور انہیں ملک میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔
امریکہ کا دنیا پر کتنا اثر ہے، اس کا انداز ہ غزہ کی اس جنگ سے اس لحاظ سے بھی واضح ہوا کہ غزہ میں بدترین اور انتہائی انسانیت سوز قسم کے روح کو لرزا دینے والے جرائم کیمروں کے سامنے جاری رہے، مگر اس کے باوجود اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی ایک ایسا اقدام نظر نہیں آیا کہ جس سے اہل غزہ کو کوئی فائدہ ملا ہو۔ کتنی دفعہ اقوام متحدہ کو امریکہ نے فیصلہ کرنے سے روکا اور کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ اقوام متحدہ کو تو اس نے فیصلہ کرنے دیا مگر عملاً اس فیصلے پر عمل نہیں کرنے دیا۔ اسی طرح اس جنگ نے یہ بھی دکھا دیا کہ انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق جیسے خوش نما نعرے جو اقوام متحدہ اور امریکی مدد سے چلنے والی این جی اوز کے ذریعے لگوائے جاتے ہیں، ان کی حقیقت امریکہ و مغرب کے لیے ہتھیار سے زیادہ نہیں ہے۔
یہ ہے امریکہ کا عالمی نظام جو اسلام اور عالم اسلام کے حق میں باقاعدہ جنگ لڑ رہا ہے، اور اس جنگ کے سبب امت کی جو آج حالت ِ زار ہے، اس میں امت کے حکمرانوں اور افواج کا بھی کوئی کم اہم کردار نہیں، یہ کردار کیا ہے؟ اس کے لیے یہاں اسرائیل کے ساتھ روز اول سے ان ممالک کا تعامل دیکھنا مفید ہو گا، نیز یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ یہ ممالک خود کس طرح وجود میں آئے، انہوں نے مسجدِ اقصی پر اس یہودی قبضے میں کیا کردار ادا کیا ہے اور اس کے بعد امریکی استعمار کے دفاع و تقویت میں ان کا اب کیا رول ہے؟
امت کی افواج و حکام کا کردار
اوپر ہم ذکر کر چکے ہیں کہ استعمار کی شکل تبدیل ہوئی ہے، استعمار ختم نہیں ہوا ہے۔ برطانیہ وغیرہ کے لیے بین الاقوامی حالات کے باعث عالم اسلام پر براہ راست قبضہ برقرار رکھنا جب مشکل ہوا تو ہمارے یہ ’آزاد‘ ممالک معرض وجود میں لائے گئے۔ ان ممالک نے یہ آزادیاں چھینی نہیں، بلکہ یہ انہیں مشروط طور پر، اطاعت و پاسداری کی شرط پر عطا کی گئی ہیں۔ ا س پر بعض مغربی مصنفین نے لکھا بھی ہے۔ مثلاً امریکہ کے معروف مصنف David Fromkin نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’پہلی جنگ عظیم کے بعد جو عرب حکومتیں قائم کی گئیں، انہیں علم تھا کہ ان کے قیام کی شرط فلسطین کو یہود کے حوالے کرنے میں ان کی سہولت کاری ہے‘‘۔16 ان مملکتوں کے بننے کے تھوڑے ہی عرصہ، یعنی ۱۳ سے ۲۶ سال بعد، برطانیہ نے فلسطین پر یہودیوں کو اپنا جانشین بنایا اور اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا۔ فلسطین پر یہ یہودی قبضہ عالم اسلام کے لیے چونکہ بہت ہی نازک واقعہ تھا، اس کے ساتھ مسلمانوں کا بہت کچھ وابستہ تھا، جس کو یہ حکام و افواج بھی جانتے تھے، اس لیے انہوں نے بھی اس پر برہمی کا اظہار کیا اور ان کی متحدہ فوج فلسطین کے اندر ۱۹۴۸ء شریک جنگ بھی ہوئی، مگر اس جنگ میں انہوں نے اصلًا کیا کردار ادا کیا؟ یہ جاننے کے لیے شیخ مصطفی سباعی کی ایک کتاب سے یہاں چند اہم واقعات اور یادداشتیں نقل کرتے ہیں۔
دکتور مصطفی سباعی (۱۹۱۵ء۔۱۹۶۴ء)شام کے اخوان المسلمین کے امیر تھے۔ آپ نے ۱۹۴۸ء کی جنگ میں بطورِ قائد و مجاہد حصہ لیا اور جنگ کے خاتمے پر اپنی یادداشت ’’جہادُنا فی فلسطین‘‘ مرتب کی۔ اس میں آپ نے بتایا کہ ہم بطورِ امت کیسے بدترین دشمن اور غلیظ ترین غداروں کے دو پاٹوں کے بیچ پِس رہے ہیں۔ یہ کتاب اس لحاظ سے بھی مفید ہے کہ ہمیں برصغیر میں بھی بعینہ اسی قسم کے کرداروں کا سامنا رہا ہے اور یہ پڑھ کر ہمیں اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہو گی کہ فلسطین پر قبضے کی یہ جنگ پورے عالم اسلام میں جاری ہے اور ہر جگہ ایک ہی قسم کے کرداروں کو مغرب نےہم پر مسلط کر رکھا ہے۔
۱۹۴۸ء کی جنگ
قیام ِ اسرائیل (۱۹۴۸ء) کے ساتھ ہی اخوان المسلمین نے جہاد کی صدا بلند کی۔ جواب میں عرب دنیا سے رضاکاروں نے اخوان کا رُخ کیا۔ یہ دیکھ کر عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ (الجماعۃ الدول العربیہ، جو ۱۹۴۵ء میں قائم ہوئی تھی ) بھی میدان میں آ گئی۔ اس نے اعلان کیا کہ فلسطین کی آزادی کے لیے وہ ’جیش الانقاذ‘ کے نام سے اپنی فوج قدس بھیجے گی۔ ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ جس نے جہاد کرنا ہے وہ غیر سرکاری لوگوں کے ساتھ نہ جائے بلکہ ’جیش الانقاذ‘ ہی میں رضاکار کے طور پر بھرتی ہو۔ اخوان نے اس اعلان کو شک کی نگاہ سے دیکھا مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنے نظم سے بھرتی کے بجائے، فوج کے نظام میں اپنے ساتھی جمع کرنا شروع کیے۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد فوج کی تربیت و نظریات اور اخلاق و عادات دیکھ کر انہیں شدید پریشانی ہوئی۔ ایک دفعہ ’ جیش الانقاذ‘ کے مرکزی افسر نے ڈاکٹر سباعی کو بلا کر کہا:
’’تم لوگ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کو ساتھ شامل نہ کرو، پھولوں جیسی ایسی جوانیوں کو ہم اُدھر مرنے نہیں بھیجیں گے۔ ان کے برعکس جرائم پیشہ اور سزا یافتہ افراد کو بھرتی کیا کرو، وہ جنگ کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔‘‘
یہ سن کر شیخ سباعی کو جواب دینا پڑا کہ یہ معرکہ جسموں اور پٹھوں کی مضبوطی سے زیادہ شعور، قربانی اور ایمان کی مضبوطی کاہے اور یہود نے اس لحاظ سے اپنے بہترین لوگوں کو جنگ میں بھیجا ہے۔
اخوانی قیادت نے بالآخر حکومتی نظام سے علیحدہ نظم چلانے کی اجازت مانگی، اجازت تو دے دی گئی مگر ساتھ ہی یہ مژدہ بھی سنا یا گیا کہ اپنے ہتھیار کا تم نے اب خود بندوبست کرنا ہے! دکتور سباعی کے مطابق عرب لیگ نے اس کام کے لیے خطیر فنڈ مقرر کیا تھا۔ ہمیں ہتھیار فراہم کرنا ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا، مگر مقصود چونکہ ہمارا راستہ روکنا تھا، سو ہمیں ہتھیاروں سے لے کر طعام و پوشاک تک سب ضروریات کا انتظام خود ہی کرنا پڑا اور ایسا کرنا ناممکن حد تک مشکل تھا۔ دوسری طرف جو رضاکار فوج کے پاس گئے انہیں ہر ہر چیز انتہائی اعلیٰ قسم کی دی جانے لگی۔
فلسطین میں مجاہدین جنگوں پر جنگیں لڑنے لگے جبکہ عرب لیگ کی جیش الانقاذ اور ان کے تحت رضا کاروں کو شاذ ہی کوئی کارروائی ملتی۔ انہیں ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے باہر کی قیادت سے اجازت لینی ہوتی تھی۔ دوسری طرف مجاہدین کی کارروائیوں کے دوران جہاں بھی کہیں یہودیوں کو سرنڈر ہونا پڑتا تو وہ مجاہدین کی بجائے جیش الانقاذ کے ہاتھ گرفتاری کی شرط رکھتے تھے اور یہ اس لیے کہ اس میں انہیں فائدہ نظر آتا تھا۔
ا یک دفعہ شہرِ قدس میں ایمونیشن کی بہت زیادہ کمی پیدا ہوئی۔ دکتور مصطفی کو گولیاں لینے کے لیے دمشق جانا پڑ ا، وہاں متعلقہ فوجی جرنیل کے سامنے بیت المقدس کی نازک صورت حال بتا دی اور آنے والے خطرے سے انہیں آگاہ کیا۔ جرنیل نے یہ کہہ کر گولیاں دینے سے انکار کر دیا کہ آپ لوگوں کے ہتھیار جرمنی کے بنے ہوئے ہیں جبکہ ہماری گولیاں برطانوی مارکہ ہیں۔ شیخ مصطفی شام کے صدر صاحب کے پاس گئے، صدرِ جمہوریہ صاحب نے متعلقہ افسر کو گولیاں دینے کا حکم بھیجا۔ افسر نے محض پانچ ہزار گولیاں شیخ کے ہاتھ میں یہ کہہ کر رکھ دیں کہ ہمارے پاس گولیاں کم ہیں مگر چونکہ صدرِ جمہوریہ کی سفارش ہے، اس لیے مجبورًا دے رہا ہوں! شیخ مصطفی نے افسر کو جواباً کہا کہ یہ گولیاں اگر میں مجاہدین میں تقسیم کروں تو فی مجاہد فقط دس گولیاں ہی آئیں گی۔ اس سخت جنگ میں ایک مجاہد ان دس گولیوں کا کیا کرے گا؟
شہر قدس کے سقوط کا خطرہ ایک دفعہ زیادہ ہوا اور نظر آیا کہ ایسا اگر ہوا تو عوام کا بڑا قتل عام ہو گا، سو شیخ مصطفی نے جیش الانقاذ کے وہاں کے ذمہ دار کے ذریعے ایک عرب دارالحکومت فون کرایا، ان کے سامنے صورت حال کی سنگینی رکھ دی، فوری طور پر فوجی مدد بھیجنے کا مطالبہ کیا اور بتایا کہ اگر مدد نہیں آئی تو خواتین و بچوں کا بدترین قتل عام نظر آ رہا ہے۔ قیادت کو غلط فہمی ہوئی اور وہ سمجھے کہ قدس میں لڑنے والے اس کے اپنے فوجی ہیں، اس نے اس افسر کو فورًا حکم دیا،’’أنا آمرك بالإنسحاب وأنتم عندنا أغلى!‘‘ ’’میں تم لوگوں کو فوراً نکل آنے کا حکم دیتا ہوں، ہمارے نزدیک تم قیمتی ہو (فلسطینی مسلمان نہیں)! ‘‘یعنی فلسطینی مسلمانوں کو چھوڑو، قتل ہونے دو، بس تم بچ کر آ جاؤ!
مجاہدین کم وسائل و تعداد کے باوجود ثابت قدم رہے، یہاں تک کہ عرب لیگ نے معاہدہ ۱۹۴۹ءکرلیا،جس کے تحت قدس کو جیش الانقاذ کے حوالے کرنے اور مجاہدین کو واپس دمشق کی طرف نکلنے کا حکم دیا گیا۔
دکتور مصطفی سباعی نے کتاب کے آخر میں درج ذیل نکات لکھ کر عرب افواج کے کردار کا خلاصہ لکھ دیا ہے:
اولًا: عرب لیگ کا فلسطین میں فوج بھیجنے کا مقصد فقط اپنی غضب ناک عوام کو ٹھنڈا کرنا تھا۔ ان کا مقصد لڑنا یا فلسطینی عوام و زمین کا دفاع قطعًا نہیں تھا۔
ثانیًا: جیش الِانقاذ کی جس عسکری قیادت نے جنگ میں فوج کی سرپرستی کی، وہ فلسطین کے اندر نہ صرف یہ کہ کسی ایک معرکے میں شریک نہیں ہوئی، بلکہ وہ فلسطین میں سرے سے داخل ہی نہیں ہوئی، انہیں فلسطینی علاقوں کا علم تک نہیں تھا، وہ اس سارے عرصہ میں اصلًا فلسطین سے باہر عرب زمین پر خیمہ زن رہی اور دمشق اور قاہرہ کے چکر لگاتی رہی۔
ثالثًا: جیش الانقاذ کا بنیادی کام مجاہدین کو ناکام کرنا تھا۔ فلسطینی مجاہدین کے امیر شہید عبدالقادر حسینی نے جیش الانقاذ سے انتہائی سخت وقت میں جا کر ہتھیار مانگے مگر فوج نے انہیں انکار کردیا۔ شہید عبدالقادر نے اس پر ہمیں مخاطب کر کے کہا تھا:’’ میں نے ان سے فقط ایک عدد توپ مانگی، انہوں نے انکار کیا اور ایسی بےکار بندوقیں میرے حوالے کر دیں جنہیں بس جلایا ہی جا سکتا ہے۔‘‘ دکتور مصطفی کے مطابق یہ بندوقیں پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہوئی تھیں جو مکمل طور پر خراب تھیں۔ بندوقیں دکھانے کے بعد عبد القادر نے کہا کہ ’’ میں اپنی موت تک فلسطین میں لڑوں گا اور دشمن کے لیے اسے تر نوالہ کبھی نہیں بننے دوں گا۔‘‘
عبدالقادر نے قاہرہ عرب لیگ کی مرکزی قیادت کے نام پھر خط لکھا۔ آپ نے اس میں لکھا :’’تم لوگوں نے بیچ جنگ میں میرے مجاہدین کو بغیر مدد اور ہتھیار کے چھوڑا، میں اس کی تمام تر مسؤولیت تمہارے اوپر ڈالتا ہوں۔‘‘ اس خط کے دو دن بعد آپ شہید ہو گئے جبکہ اس کے بعد دیر یاسین کا سقوط ہوا اور اسرائیل نے وہاں انتہائی بڑا قتل عام کیا۔
’تمہاری افواج‘ ہی تمہاری قاتل ہیں !
شہید سید قطب نے ۱۹۵۲ءمیں بیت المقدس میں منعقد القدس کانفرنس میں شرکت کی تھی، اس میں ان افواج کے متعلق آپ نے فرمایا تھا:
’’تمہارا خیال ہے کہ یہ عرب افواج اسلام او رمسلمانوں کے دفاع کے لیے لڑیں گی؟ ایسا قطعًا نہیں ہے، یہ تمہارے ہی قتل کے لیے تشکیل دی گئی ہیں،یاد رکھو ! یہ یہود پر ایک گولی بھی نہیں چلائیں گی۔‘‘17
سید قطب کی یہ بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ ان کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے اور ابھی غزہ کی جنگ نے ایک دفعہ پھر اس پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ یہ اسرائیل کے خلاف زبانی جمع خرچ، کانفرنسز اور قراردادوں وغیرہ کے ڈرامے تو اچھے کر لیتی ہیں مگر عملاً یہ اسرائیل و مغرب ہی کے مفادات کے تحفظ کا کام کرتی ہیں، ان کی ذمہ داری اپنے عوام کو دبانا اور ریاست اسرائیل کو ان کے ردِّعمل سے محفوظ رکھنا ہے۔ اس جنگ میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور اردن کی طرف سے دوران جنگ اسرائیل کو سامان اور تیل کی ترسیل جاری رہی۔ اسرائیلی میڈیا 18 خبریں دیتا رہا کہ عرب حکومتیں حماس کو ختم کر نے کی مکمل تائید کرتی ہیں۔19 جنگ کے سارے عرصے میں مصری فوج نے غزہ کا محاصرہ رکھا۔ مصری وزیر دفاع کو یہ کہتے ہوئے کوئی شرم نہیں آئی کہ سرحد کھولنے، بند کرنے اور اس سے کسی کے آنے جانے کا فیصلہ ہم نہیں، اسرائیلی کرتے ہیں اور وہ ہمیں پھر اطلاع دیتے ہیں۔ یہ دل خراش منظر بھی کیمروں نے محفوظ کیا کہ غزہ سے ایک نوجوان جب مصر کی طرف دیوار پھلانگتا ہے تاکہ بھوک و بمباری سے بچ جائے، تو مصری فوجی اُس پر گالیوں کے ساتھ برستے ہیں اور اسے مار مار کر بے حال کر دیتے ہیں۔ 20
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنی ڈائری (نشر شدہ کتاب21) میں لکھا ہے کہ ۱۹۹۶ء میں اس نے اردن کے شاہ حسین کے ساتھ ملاقات کی، اس میں اس نے اُس سے کہا کہ تمہاری حکومت کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، اگر تمہیں کسی داخلی یا خارجی خطرے کا سامنا ہوا تو اسرائیلی فوج اردن میں داخل ہو کر تمہاری حکومت بچائے گی۔
اسرائیل کے سامنے ان حکومتوں کے جھکنے کا راز کیا ہے؟ اس کا جواب قطر کے سابق وزیراعظم حمد بن جاسم نے ۲۰۱۷ء میں اپنے ایک انٹرویو میں بڑا اچھا دیا ہے، اس نے کہا:
’’ذرا کھل کے بات کروں؟ امریکہ کے ساتھ تعلق رکھنا سب کی خواہش ہے، ہر ایک اس کی کوشش کرتا ہے اور امریکہ نے وائٹ ہاؤس کا دروازہ اسرائیل میں رکھا ہے۔‘‘22
یعنی امریکہ تب ہی کسی کو منہ لگاتا ہے اور اس کے لیے اپنا دروازہ کھولتا ہے جب وہ اسرائیل کے آگے جھک جائے۔
یاد رہے کہ امریکہ نے اسرائیل کے قیام سے پہلے بھی عرب دنیا میں باقاعدہ عسکری طور پر قدم رکھنے کی جگہ بنا لی تھی۔ ۱۹۴۵ء میں اس نے سعودی عرب کے اندر دہران کے علاقے میں Dhahan Air Base کے نام سے اپنا فوجی اڈہ قائم کیا تھا۔23، گویا اسرائیل کے قیام سے پہلے سے امریکہ یہاں عملاً موجود رہا اور پھر یہ اس کی ’ محنت‘ کا نتیجہ ہے کہ تمام تر عرب ممالک آج اسرائیل کو خطے کا تھانیدار تسلیم کر رہے ہیں اور باہر تو باہر اپنے اپنے ممالک میں بھی اسرائیل کے تجویز کردہ منصوبوں پر عمل کر رہے ہیں۔
گویا ان حکمرانوں کو اسرائیل کے آگے امریکہ نے جھکایا، مگر کس چیز نے انہیں خود امریکہ کا غلام بنایا؟ ان کی اپنی خود غرضی و عیاشی نے انہیں امریکہ کا غلام بنایا۔ اس کی خاطر انہوں نے مقدسات کا سودا کیا اور اسی کے سبب یہ امت کے وسائل لوٹنے میں ان ڈاکوؤں اور چوروں کے سہولت کار بن گئے۔ ٹرمپ آج علی الاعلان کہتا ہے کہ میں نے سعودی بادشاہ سے کہا: شاہ! تمہارے پاس کھربوں ڈالر ہیں، مگر ہم نہ ہوں تو یہ تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ ہماری حفاظت کے بغیر تمہاری حکومت دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی،…… تمہیں ہمارا حصہ دینا ہو گا۔ 24
فلسطین سے باہر فلسطین کی جنگ
ایسے میں یہ سوال کہ اہل غزہ کی نصرت کیوں نہیں ہو سکی، کیوں نہیں ہو رہی، اور آگے بھی اس نصرت کے راستے کیوں مسدود ہیں؟ اس کا جواب اس کے علاوہ کیا ہے کہ اس کا باعث ہمارے ان ممالک /نظاموں کی وہ عشروں پر محیط جنگ ہے جو یہ امریکی سرپرستی میں اسلام و اہل اسلام کے خلاف اپنے ہاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیمانہ بڑا سادہ اور آسان ہے، جو فوج و نظام اپنی تاریخ میں جتنا امریکہ کا اتحادی رہا، امریکی مفادات کا اس نے اپنے ہاں جتنا دفاع کیا، اس کو راضی رکھنے کے لیے اہل اسلام کے خلاف جتنا لڑے، اُتنا ہی اہل غزہ کو محصور کرنے اور انہیں آج یہودی درندوں کے آگے باندھ کر ڈالنے میں اس کا کردار ہے۔ جنگِ غزہ سات اکتوبر کو شروع ہوئی، جبکہ یہ افواج اپنی زمینوں پر فلسطین کے خلاف اپنی جنگ کئی عشروں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بہت ہی بے شرم ہیں وہ لوگ جو ایک طرف ’دہشت گردی ‘ کے خلاف جنگ کے نام پر، اہل اسلام کے خلاف امریکہ کے دل و جان سے اتحادی ہوں، اپنی زمین امریکیوں کے فوجی اڈوں کے لیے پیش کرتے ہوں، اجرتی قاتل بن کر اس سے اربوں ڈالر بٹورتے ہوں،25 اپنے عقوبت خانوں کو دفاع امت کی خاطر لڑنے والے مجاہدین سے بھرتے ہوں اور اپنے ہر داخلی و خارجی معاملے میں امریکہ کی غلامی کرتے ہوں اور اس کے بعد پھر جب اہل غزہ کا قتلِ عام ہو تو مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں، کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں اور غزہ کے حق میں تقریریں کر کے داد وصول کرتے ہیں۔
ترکی و پاکستان ہویا عرب کے یہ خلیجی ممالک، ہر جگہ یہی ایک قسم کی دورنگی و چالاکی ہے۔ کیا پاکستانی فوج کی طرف سے امریکہ کی خدمات کوئی ڈھکی چھپی ہیں؟ بہت ہی افسوس کی بات ہو گی کہ ہمارے بعض دینی سیاسی قائدین غزہ کی تباہی پر غم زدہ اور غضبناک ہوں، مگر ساتھ ہی امریکیوں کا دفاع کرنے والی اس فوج کو اپنی فوج بھی کہتے ہوں، امریکہ کو امت کا دشمن بھی قرار دیتے ہوں، اسے برا بھلا کہتے ہوں اور دوسری طرف پھر جو مجاہدین امریکہ کے خلاف لڑنے نکلے تھے، ان کے خلاف پاکستانی فوج کی امریکی جنگ کو جہاد کا نام بھی دیتے ہوں۔
کیا غزہ کی مدد اس طرح ہو پائے گی؟ کیا امریکہ کی غلام امت مسلمہ کی غدار فوج کو اس طرح عذر دے کر ہم اسرائیل کو کبھی کمزور کر لیں گے؟ اہل غزہ کی قربانیوں و صبر و ثابت اور بعد ان کی فتح پر شادیانے بجانا اور ان کی تعریفوں کے پل باندھنا جبکہ اپنے ہاں اہل غزہ کے خلاف جرائم کی مرتکب مجرم فوج کو عزت و تحفظ دینا اور ان کی امریکی سرپرستی میں لڑی جانے والی جنگ کو دین و ملت کے مفاد میں ثابت کرنا،یہ’ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا‘ والا رویہ نہیں تو اور کیا ہے؟ ضروری ہے کہ ان تضادات سے اب ہم باہر نکل آئیں، اپنی تائید و حمایت اور براءت و عداوت کی بنیادیں اب ہم وطنیت اور قومیت کے سیکولر اصولوں کی جگہ اسلامیت کے اصولوں پر استوار کریں اور شریعت ِ مطہرہ کے مطابق انہیں ڈھالیں۔
یہ سوچنا کہ غزہ کی جنگ اور مسجد اقصی کی آزادی کا معرکہ بس فلسطین میں ہی لڑا جا سکتا ہے جبکہ دور بیٹھ کر یہ ہمارے بس میں نہیں، ایسا سوچنا سادگی نہیں بلکہ امت کے حق میں جرم ہو گا، اس لیے کہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ فلسطین میں یہ اہل غزہ کا معرکہ تب ہی کامیاب ہو گا، جب اس سے باہر ہم اپنی اپنی زمینوں پر، جہاں ہم واقعی کچھ کر سکتے ہیں، اس کو اپنا سمجھیں اور اُن قوتوں کو کمزور کرنے کے لیے متحد ہو جائیں جو اسرائیل کی جان و روح بنی ہوئی ہیں۔ ضروری ہے کہ انگریز کی تشکیل کردہ صہیونی غلام فوج کو اپنا کہنے کی بجائے خود اپنے اسلامی لشکر ہم تشکیل دیں، مساجد و مدارس اور منبر و محراب کو اپنی تحریک کے محور بنائیں اور اپنی زمین پر حزب اللہ بن کر حزب الشیطان، اس صہیونی اتحاد کے خلاف صف آرا ہو جائیں۔
پس وقت آگیا ہے کہ:
سامنے کھڑے کوہ ہمالیہ جتنے اونچے اور واضح حقائق کو ہم کھلی آنکھوں سے دیکھیں اور ان کی موجودگی کا اعتراف کریں۔ غزہ کی تباہی اور مقدسات پر تسلط کا ذمہ دار صرف اسرائیل نہ تھا اور نہ ہے، اس میں بنیادی و مرکزی کردار جب امریکی اتحاد کا ہے تو ضروری ہے کہ اب ہم چار و ناچار اس حقیقت کو تسلیم کر لیں، اور پھر اس نکتہ پر امت کو متحد و متفق کر لیں کہ امریکہ امت پر مسلط وہ عالمی استعمار ہے کہ جس کو نظر انداز کرنا، خود فریبی ہے، اہل غزہ کے ساتھ زیادتی ہے، ان مظلومین کو اس صہیونی طاقت کے سامنے اکیلے چھوڑنا اور امت مسلمہ کے مصائب اور اس کی غلامی کی رات کو طول دینا ہے۔
یہ حقیقت بھی قبول کرنی چاہیے کہ یہ افواج صہیونی استعمار کے جنود ہیں اور انہیں اپنا سمجھ کر ہم نہ اسرائیل و امریکہ کے قبضے سے امت و اس کے مقدسات چھڑا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے ہاں نفاذِ شریعت کی طرف کوئی قدم بڑھا سکتے ہیں۔ جب یہی سچ ہے تو پھر ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا ہماری ایسی کوئی جدوجہد جس میں اُلٹا انہی افواج کو اپنا سمجھا جاتا ہو، انہیں ہٹانے اور ان کی جگہ خوف خدا رکھنے والی مجاہد قوت لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ ہو، بلکہ جس جدوجہد میں الٹا استعمار کے کھینچے گئے دائروں میں گھومتے رہنے تک ہی ہم محدود ہو جاتے ہوں، کیا ایسی کوشش امت مظلومہ کی کوئی دوا بن سکتی ہے؟ کیا دنیا میں ایسی پرامن اور جمہوری جدوجہد کو کبھی کامیابی ملی ہے؟ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ایسے دائروں کو راستے سمجھ لینا جو امریکی رینڈ کارپوریشن کے تیار کردہ و تائید کردہ ہو ں، ان پر چل کر ہم چاہیں یا نہ چاہیں صہیونی استعمار کو ہی فائدہ دیں گے اور یہ بالحقیقت آنکھیں بند کر کے ایسا چلنا ہے جس کا خمیازہ پوری امت بھگت رہی ہے۔
آزادی ٔ قدس کا راستہ
امریکہ کے خلاف جہاد کے لیے کھڑا ہونا امت کا انتخاب نہیں، بلکہ اس کی مجبوری ہے۔ باقی یہ سوال کہ یہ جہاد ممکن بھی ہے یا نہیں؟ تو واقعہ یہ ہے کہ یہ جہاد مشکل ضرور ہے مگر ناممکن قطعاً نہیں۔ تیس سال قبل محسن امت، شیخ اسامہ بن لادن نے اپنے گھر بار، وطن، مال و اولاد اور ساتھیوں کی قربانی دے کر امریکہ کے خلاف جہاد کی اہمیت و ضرورت امت پر واضح کر دی۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں بالخصوص شیخ ایمن الظواہری نے دلائل کے ساتھ انتہائی تفصیل میں اس کے خلاف جہاد کی ضرورت اور پھر اس کا طریقہ کھول کر بتا دیا۔ اس سارے عرصہ میں کسی ایک واقعے نے بھی ان کی اس دعوت و پکار کو غلط ثابت نہیں کیا۔ یہاں تک کہ غزہ کی اس جنگ نے سانپ کے سر، اس عالمی ناسور کے خلاف اٹھنے اور امت کو اٹھانے کی ضرورت پر مزید مہر تصدیق ثبت کردی ہے اور یہ دکھا دیا ہے کہ عقل و دلیل کی بنیاد پر امت مسلمہ کو اس ذلت سے نکالنے کے لیے کوئی بھی سوچے گا تو اس کو اس کے خلاف جہاد کے سوا کوئی راہ نہیں ملے گی۔
ایسے میں اس پکا ر کو اگر ہم فقط اس وجہ سے نظر انداز کر کے اس کی مخالفت شروع کر دیں کہ یہ مشکل ہے، اس پر عمل کی قیمت بڑی ہے تو کیا اس سے ہم حقیقت کو تبدیل کر لیں گے؟ کیا امت مسلمہ کی مشکل آسان ہو جائے گی؟ یا تلخ نوائی معاف، خدانخواستہ ہماری اور امت کی منزل مختلف ہے؟ پھر اگر مشکل و آسان ہی پیمانہ و کسوٹی بن جائے تو اہل غزہ کی پھر ہم کیوں تعریف کریں؟ انہوں نے کیا مشکل و آسانی دیکھ کر طوفان الاقصیٰ کا راستہ چنا؟ اگر ہم کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا اور وہ اس جنگ کے اندر کودنے میں حق بجانب تھے تو ہمارے پاس کیا آج کوئی ایسا راستہ بچا ہے کہ جس پر چل کر ہم فلسطین کی کوئی مدد کر سکیں؟ کیا امریکہ اور اس کے اتحاد کو چھیڑے بغیر، کوئی فرد یہ ثابت کر سکتا ہے کہ آج نہیں تو کل اسرائیل کا وجود ہم ختم کر لیں گے؟
امریکہ ناقابل تسخیر نہیں!
یہ بھی عرض کریں کہ امریکی غلام افواج و نظاموں کے خلاف جہاد اور بذات خود امریکہ کے خلاف یہ جہاد، ایک دوسرے کی ضد اور مخالف قطعًا نہیں ہیں، یہ دونوں متوازی ہیں، بلکہ ایک دوسرے کو مواقع اور تقویت دینے والے ہیں، لہذا جہاں کہیں بھی جہاد کی مصلحت ہو، ان غلام نظاموں کے خلاف جہاد کی آگ بھڑ کانا ضروری ہے کہ اس کا نتیجہ ان شاء اللہ عالمی استعمار پر عسکری ضربوں اور اقتصادی نقصان کی صورت میں نکلے گا مگر اس سارے میں امریکہ کی اہمیت اور اس کو نقصان پہنچانے کی ضرورت بہر حال نظروں میں رہنا لازمی ہے، کہ یہ حکام و افواج غلام اور آلۂ کار ہیں جبکہ امریکہ اسرائیل سمیت ان تمام کو تحفظ و دفاع فراہم کرنے والا ہے، ان نظاموں میں سے کسی ایک کا سقوط بھی، امریکہ کے اس سے پیچھے ہٹنے پر منحصر ہے جس کی حالیہ واقعات میں مثالیں دنیا نے دیکھ بھی لی ہیں۔
امریکہ کی عسکری طاقت اور اس کی وسعت یقیناً بہت زیادہ ہے مگر یہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کے اذن سے یہ ناقابل تسخیر قطعاً نہیں ہے ! اس کے سالانہ عسکری اخراجات آٹھ سو ارب ڈالر ہیں، جو دنیا کے کل عسکری مصارف کا ۴۱ فی صد ہے، مگر یہ قوت امریکہ کی کمزوری بھی بن سکتی ہے، بالخصوص اس لحاظ سے کہ اس کی یہ طاقت روایتی جنگ(Conventional Warfare) میں تو کارآمد ہے مگر غیر روایتی جنگ(Unconventional Warfare) میں یہ غیر مؤثر ہے، اور مجاہدین کا میدان یہی غیر روایتی جنگ ہے، اسی سے اللہ نے امریکہ کا کبر توڑا ہے، پس اس جہاد کے ذریعہ جب اس کے سیکورٹی مصارف بڑھائے جائیں گے تو اس کا اقتصاد امت کی بیداری اور اس جہاد کے سبب کمزور ہو جائے گا، اور ایسا ہونا ناممکن قطعاً نہیں ہے، بلکہ اللہ کی نصرت اور امت مسلمہ کے جہاد و ثبات سے یہی ان شاء اللہ ہونا ہے، تو ایسی صورت میں امریکہ کا یہ عسکری حجم اس پر الٹا بوجھ بن جائے گا، یہی ان شاء اللہ اس کے گرنے کا سبب بنے گا اور یہی وہ وقت ہو گا کہ جب اسلامی لشکروں کو بڑھنے سے پھر دنیا کی کوئی قوت نہیں روک پائے گی۔
پس ضروری ہے کہ:
یہ شعور و آگہی ہم پھیلائیں کہ :
-
مسجدِاقصی کو آزاد اور اپنی زمین پر دین اسلام کو غالب کرنے کی سعی فرض عین ہے اور یہ سعی مطلوب صورت میں تب ہی ہو پائے گی جب ہم جہاد فی سبیل اللہ کو اپنے اوپر فرض سمجھیں اور اس کو اپنی تحریکی جدوجہد میں کلیدی اہمیت و فوقیت دیں۔ اگر تو ہماری جدوجہد میں جہاد بمعنی قتال فی سبیل اللہ نہ ہو، اس میں شرکت اور اس کو قوی کرنے کا مقصد نہ ہو، تو یہ امت کی مشکلات حل کرنے کے بجائے، اس کو بڑھا دینے والی ہو گی اور اللہ کے ہاں فرض عین جہاد چھوڑنے کی جوجو وعیدیں اللہ کی کتاب میں موجود ہیں، العیاذ باللہ ہم پر صادق آسکتی ہیں۔
-
امریکی استعمار، عالمی نظام کا امریکہ کے ہاتھ میں ایک ہتھیار، اسلام و مسلمانوں کے خلاف اس کا کردار، اسرائیل کے دفاع میں اس کی کلیدی اہمیت اور پھر خود ہمارے ہاں دین اسلام کی حاکمیت میں مشکلات، ان افواج و نظام پر امریکہ کا اثر، یہ سمجھنا اور سمجھانا ضروری ہے تاکہ ہم اپنے دشمن کو سمجھیں اور حق و باطل کی اس جنگ میں فکری و عسکری طور پر رُخ بہ منزل مطلوب مقابلہ کریں۔
-
امریکی مفادات کے خلاف جہاد کی اہمیت ہم خود سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں اور جتنا ہم سے ہو سکے اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالیں اور یہ کوشش بھی پھر کریں کہ اس جہاد میں اپنے ساتھ امت کے زیادہ سے زیادہ طبقات کو شریک کر لیں۔ امریکہ اس جنگ کو سکیڑنا اور ختم کرنا چاہتا ہے ہم اس کو اس سے کہیں زیادہ پھیلانے والے بن جائیں۔
-
اپنے ممالک میں افواج و حکام، اور نظاموں کے مبنی بر باطل ہونے اور امت کو غلام رکھنے میں اس کے خطرناک کردار کو عام کریں، اس کے خلاف جہاد و قتال کی فرضیت شرعی و واقعاتی دلائل کے ذریعے ثابت کریں۔ پھر اس قتال میں، ضروری ہے کہ ایسی تمام تر ظاہری و باطنی غلطیوں سے بچیں کہ جن کی وجہ سے شیطان اکبر کے مفادات کو کسی قسم کا تحفظ پہنچ رہا ہو، یہ امر نظر میں رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اس شیطان کو اپنے ممالک سے نکالے او ر مایوس کیے بغیر ان نظاموں کا گرنا مشکل ہے۔
-
مسجدِ اقصی و اہل غزہ کی مدد و نصرت کی یہ جنگ کیسی ہو؟ اس کا اس لحاظ سے شعور پھیلانا ضروری ہے کہ یہ غزہ و فلسطین میں جتنی لڑی جاتی ہے اس کے برابر یہ فلسطین سے باہر لڑنا بھی ضروری ہے اور فلسطینی مجاہدین تب ہی اس میں فتح یاب ہو سکتے ہیں جب فلسطین سے باہر امت کی طرف سے اُس صہیونی شیطان کے خلاف دنیا بھر میں کامیاب جہاد ہو جو اہل غزہ کے خلاف اسرائیل کو کھڑے رکھے ہوئے ہے۔
-
یہ جنگ عسکری میدان میں ضروری ہے اور عسکری جنگ سے ہی معاشی و سیاسی نتائج نکلیں گے، مگر یہ عسکری جنگ تب ہی اچھی ہو پائے گی اور نتائج دے گی جب فکر و دعوت کے میدان میں اسے صحیح طرح لڑا جائے، دشمن کی پہچان اور اس کے مکر و فریب، اس کا عالمی نظام اور اس نظام کی دجالی اصطلاحات، نعروں اور سازشوں کی صحیح پہچان، پھر عالمی نظام اور علاقائی نظام کا آپس میں ربط، اس نظام کے معاشی حربے یہ سب ہم جتنا زیادہ امت کے سامنے واضح کریں اسی قدر عسکری، سیاسی اور ثقافتی میدان میں اس کے خلاف مزاحمت بڑھے گی اور ساتھ ہی ساتھ، اس کے نتیجے میں امت کی اپنی داخلی تعمیر و اصلاح میں پیش رفت ہو گی۔
ذکر کردہ باتوں کے متوازی یا اس سے بھی اہم نکتہ یہ ہے کہ:
-
ہم قوت و ضعف اور فتح و شکست کے امور میں وہ ایمان و یقین اور توکل و بھروسہ کرنے والے بن جائیں جو اللہ کو ہم سے مطلوب ہے، اور وہ یہ کہ ﴿وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ﴾ فتح و نصرت من جانب اللہ ہوتی ہے،اور ﴿ إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴾، پس طاقت و قوت کے دنیاوی پیمانے بالکل ایک طرف رکھیں اور یکسو ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہو جائیں کہ وہ رب اگر ہماری مدد کرے، تو پھر دنیا کی کوئی قوت ہمیں جھکا نہیں سکے گی، ہم کسی کی طاقت سے مغلوب نہیں ہوں گے، لیکن خدانخواستہ اللہ کو ہم نے ناراض کیا تو پھر چاہے بہت کچھ ہمارے پاس ہو تو بھی ہم ناکامی و نامرادی سے نہیں بچیں گے۔
-
پس قلب و قالب کے ساتھ خود اللہ کے ساتھ ہم جڑ جائیں اور دوسروں کو جوڑنے والے بن جائیں، اللہ کا تقوی اختیار کریں اور ہر قسم کے ظلم سے بچیں، اللہ کی نافرمانی کرنے سے بطورِ فرد بھی ہم اللہ کی رحمت و نصرت سے محروم ہو سکتے ہیں اور اس کا وبال پوری کی پوری اجتماعیت ا ور امت پر بھی پڑ سکتا ہے، لہٰذا غزہ کی نصرت کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے مطیع اور محبوب بننے کی کوشش کریں، اس کے دین کی نصرت کرنے والے بن جائیں، اس میں اپنی شخصی خواہشات و تمناؤں کو اللہ کے محبوب بنانے سے لے کر محبت و نفرت اور دوستی و دشمنی کے پیمانوں تک، یہ سب وہی رکھیں جو اللہ کو مطلوب ہوں، اسی کے تحت پھر جہاد فی سبیل اللہ آتا ہے اور اسی کے تحت امت مسلمہ کے تمام طبقات، مجاہدین و غیر مجاہدین کے ساتھ تعامل بھی آتا ہے، لہذا ان سب میں ہم اللہ کو راضی کرنے والے بن جائیں، یہ کریں گے تو اس سے اللہ کی رضا اور پھر اس کی نصرت نصیب ہو گی اور اسی سے اللہ کے اذن سے مسجد اقصی کی مدد پھر ہم کر سکیں گے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭٭٭
1 ﴿ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ﴾
2 الجزیرۃ
3 ایضًا
4 ایضًا
5 Watson Institute for International & Public Affairs (Brown University) COST OF WAR
6 Associated Press
7 الجزیرۃ
8 حوالہ: برطانوی اخبار گارڈین؛الأربعاء، 27 ديسمبر 2023
9 احمد منصور کے ساتھ انٹرویو، الجزیرۃ
10 امریکہ کے لیے اسرائیل کی اہمیت بائیڈن کے ایک پرانے بیان سے بھی واضح ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اسرائیل اگر نہ ہوتا تو ہم اسے خود ایجاد کر دیتے۔
11 احمد منصور کا دکتور عبد الوہاب مسیری سے انٹرویو، الجزیرۃ
12 ’’جس کے پاس بحری قوت ہو، وہ عالمی تجارت، جنگ اور سیاست پر کنٹرول رکھتا ہے۔‘‘ معروف امریکی اسٹریٹیجسٹ الفریڈ ماہان نے یہ نظریہ ۱۸۹۰ء میں پیش کیا۔
13 Kissinger: A Biography
14 روس کے اپنے ملک سے باہر صرف ۹ جبکہ چین کا ایک فوجی اڈہ ہے، باقی فرانس کے ۱۵ و برطانیہ کے ۱۲ ہیں مگر وہ بالاصل امریکی اتحادی ہیں۔
15 الجزیرۃ
16 Creating the Middle East, 1914-1922
17 مجلہ انصار النبی ﷺ مقالہ للأستاذ ابراهيم غوشه رحمه الله
18 مثلًا اسرائیلی اخبارGlobes اورeuro news۔
19 صدر ٹرمپ کے پچھلے دور سے اب تک سعودیہ کے وزرائے خارجہ نے کئی دفعہ مجاہدین غزہ کو دہشت گرد کہا، ۲۰۱۸ء میں سعودی وزیر خارجہ نے بروکسل میں یورپی یونین کی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی، نیز ابھی حال ہی میں سعودی شہزادہ ولید بن طلال نے صحافی Tucker Carlsonکے ساتھ انٹرویو میں اہم امریکی اقدامات، جو اس نے اٹھائے اور مزید جن کے اٹھانے کا ارادہ ہے کا ذکر کیا، ا س کے تحت اس نے کہا کہ امید ہے امریکہ حماس کو مکمل طور پر ختم کر دے گا۔
20 ۲۰۱۵ میں ہونے والے اس واقعے کی بھی ویڈیو موجو دہے جب ایک ذہنی طور پر معذور نوجوان غزہ کے ساحل پر نہاتے ہوئے مصری سمندری حدود میں داخل ہو جاتا ہے تو مصری فوج گولیوں سے بھون کر اسے شہید کر دیتی ہے۔
21 A Place Under the Sun: A Memoir
22 ۲۵ اکتوبر ۲۰۱۷ء کو الجزیرۃ ٹی وی چینل
23 کتاب Desert Kingdomاز Toby Craig Jones
24 ویڈیو کلپ جس میں ٹرمپ ایک جلسے سے تقریر کررہاہے۔
25 ۲۰۰۲ سے ۲۰۱۸ تک امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے زمرے میں ۳۳ ارب ڈالر پاکستان کو عطا کیے، یہ اعلانیہ مدد ہے جبکہ غیر اعلانیہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔