رمضان المبارک کا استقبال،قرنِ اول میں!

آل انڈیا ریڈیو سے نشر کی گئی ایک عربی تقریر کا ترجمہ، جس میں حضرت مولانا نے اپنی بات رمضان کی زبان سے کہی تھی اور سامعین کو رمضان کا مخاطب بنایا تھا، تاکہ ایک مخصوص تاثر پیدا ہو سکے۔ تقریر کا وہ ابتدائی حصہ ،جس میں سامعین کی طرف سے رمضان سے، قرن اول میں اپنے استقبال کا حال بیان کرنے کی فرمائش کی گئی تھی نذرِ قارئین ہے۔ اللہ پاک ہمیں بھی استقبال و اہتمامِ رمضان اہلِ قرنِ اول جیسا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین! (ادارہ)

میرے دوستو! تمہیں نیا رمضان مبارک! اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر پاک و بابرکت سلام! تمہاری یہ فرمائش گویا میرے دل کی خواہش ہے، پتہ نہیں کیوں خود میرا جی کچھ بات کرنے کو چاہ رہا تھا، اور ایک تقاضا تھا جو مجھے بات کرنے پر مجبور کر رہا تھا، اور میں محسوس کرتا ہوں کہ تمہارے تجویز کردہ عنوان سے بہتر اور محبوب عنوانِ گفتگو میرے لیے اور کوئی ہو نہیں سکتا۔

سنہ ہجری کے دوسرے سال میں میرا آنا، پہلے سالوں سے یکسر مختلف تھا، پہلے میں سال کے دوسرے مہینوں کی طرح ایک مہینہ تھا، اپنے دوسرے بھائیوں اور رفیقوں سے کسی قسم کا امتیاز مجھے حاصل نہیں تھا، نہ کوئی خاص بات میرے اندر تھی، نہ کسی پیغام کا میں حامل تھا، اور نہ دین کے ارکان سے کوئی رکن مجھ سے متعلق تھا۔ رجب، ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم پر مجھے حسد، استغفر اللہ، رشک ہوتا تھا، کیوں کہ یہ أشھر حرم (محترم مہینے) تھے، اور ان میں سے ذی الحجہ پر مجھے ایک اور خاص وجہ سے رشک آتا تھا ،وہ یہ کہ وہ حج کا مہینہ تھا۔ مجھے وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ مجھے کبھی اتنا بڑا اعزاز بخشا جائے گا، اور روزے جیسا اہم اور مقدس پیغام کا مجھے حامل بنایا جائے گا، لیکن یہ روز ہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ،اور وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ بہرحال ،اب سنیے!

مسلمانوں نے شعبان سے میرا انتظار کرنا شروع کیا، انہوں نے شعبان کا بھی ایک مقدمۃ الجیش اور میرے مبشر کی طرح استقبال کیا، شعبان ہی میں ایک دن رسول اللہ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور خطبہ دیتے ہیں ارشاد فرمایا:

’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ! قَدْ أَظَلَّکُمْ شَہْرٌرَمَضانَ،شَہْرٌعَظِیمٌ، شَہْرٌ مُبَارَکٌ، شَہْرٌ فِیہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ، جَعَلَ اللہُ صِیَامَہُ فَرِیْضَۃً، وَقِیَامَ لَیْلِہِ تَطَوُّعًا، مَنْ تَقَرَّبَ فِیْہِ بِخَصْلَۃٍ مِنَ الْخَیْرِ کَانَ کَمَنْ اَدَّی فَرِیْضَۃً فِیْمَا سِوَاہُ، وَمَنْ اَدَّی فَرِیْضَۃً فِیْہِ کَانَ کَمَنْ اَدَّی سَبْعِیْنَ فَرِیْضَۃً فِیْمَا سِوَاہُ، وَہُوَ شَہْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُہُ اَلْجَنَّۃُ، وَشَہْرُ الْمُوَاسَاۃِ، وَشَہْرٌ یُزَادُ فِیْہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ.‘‘ (رواہ السیوطی)

’’اے لوگو! رمضان کا مہینہ تم پر سایہ فگن ہو رہا ہے، بڑا عظیم الشان مہینہ ہے، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں، اور رات کے قیام(تراویح)کو نفلی عبادت ٹھہرایا ہے۔ جو شخص اس ماہ میں ایک نفلی نیکی کرے گا، اس کا ثواب اور دنوں کے فرض کے برابر ہو گا، اور جو کوئی ایک فرض ادا کرے گا، اس کا ثواب اور دنوں کے ستر فرضوں کے برابر ہو گا، یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ غم خواری اور غم گساری کا مہینہ ہے، اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔‘‘

تمام لوگ میرا چاند دیکھنے کے لیے بلند ٹیلوں اور مکانوں پر چڑھ گئے، غروب آفتاب کے بعد مدینہ میں کوئی شخص ایسا نظر نہ آتا تھا ،جو آسمان کی طرف نظر اٹھائے میری جستجو نہ کر رہا ہو، ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ سب سے پہلے وہ میری آمد کا مژدہ سنائے۔

پروردگارِ عالم نے ارادہ فرمایا کہ مجھے اب مزید تاخیر نہ ہو، لہٰذا اس کی طرف سے حکمِ طلوع ہوا، اور مدینہ کے اس سے کونے سے اس کونے تک ایک مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ لوگوں کی زبانوں پر ایک نغمۂ مسرت جاری ہوا:

ھِلَالَ رُشْدٍ وَخَیْرٍ،اَللّٰھُمَّ أَھِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلامَۃِ وَالْاِسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضَی!

سامعین کرام! مجھے اس کہنے میں معاف رکھیں کہ ابتدائے اسلام میں لوگوں کو میری آمد سے جو مسرت ہوتی تھی، حالانکہ میں جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ،صبر وجہاد کا مہینہ تھا، وہ اس مسرت سے بڑھ کر ہوتی تھی جو آج عید کا چاند دیکھ کر ہوتی ہے۔ میں اس کے اسباب میں نہیں جاؤں گا، کیونکہ یہ ایک طویل بات ہے، اور ویسے بھی آپ کو کڑوی لگے گی۔

(میری آمدسے) مدینہ کے لوگوں میں ایک نئی زندگی اور ایک نیا نشاطِ عبادت ابھر آیا، یہ لوگ عشاء کے بعد ایک ایک، دو دو اور ٹکڑیاں ٹکڑیاں ہو کر نوافل میں مشغول ہو گئے۔ قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور نمازیں پڑھتے، یہاں تک کہ جب رات آخر ہوئی اور سحر قریب ہوئی، تو رات کی باسی روٹی یا کھجور اور پانی میں سے، جس کو جو میسر آیا، اس نے اس سے سحری کھائی، پھر مساجد کی راہ لی اور نماز فجر ادا کی۔

یہی وہ مقام ہے ،جہاں وہ لوگ آج کل کے روزہ داروں سے ممتاز ہو جاتے ہیں۔ آج اگر آپ میں سے کوئی ،رات کو تھوڑی دیر عبادت کر لیتا ہے ،اور پھر روزہ کی نیت کر لیتا ہے ،تو وہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ دن میں جتنا چاہے سوئے، چنانچہ آج شہر میں بہت کم لوگ ایسے روزہ دار ہوں گے جو سوتے یا اونگھتے نظر نہ آتے ہوں، رات کو خواہ کتنا ہی تھوڑا قیام کریں مگر اس کے بدلے میں دن کا ایک خاصا حصہ ضرور نیند کی نذر کر دیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس صحابہ و تابعین(رضوان اللہ علیہم اجمعین) کا حال یہ تھا کہ رات کا قیام، ان کے دن کے نشاط میں کوئی فرق نہیں ڈالتا تھا، وہ رمضان میں عبادت بھی کرتے تھے اور مشقتِ حیات بھی برداشت کرتے تھے، اور کبھی تو روزے کی حالت میں بھی جہاد کرتے تھے، ان کے زمانہ میں رمضان اشیا کی طبائع نہیں بدلتا تھا اور نہ دن کو رات بناتا تھا۔ وہ اُلٹا ان میں قوت اور نشاط بڑھا دیتا تھا اور کوئی وہ نیکی ،جس کو لوگ پہلے سے کرتے تھے، رمضان کی آمد سے منقطع نہیں ہوتی تھی، میں آ کر اہل مدینہ کے اخلاق میں کوئی فرق نہیں پاتا تھا۔ مثلاً انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد سے غیبت، فحش کلامی اور بد گوئی سے زندگی بھر کا روزہ رکھ لیا تھا، تو وہ روزوں میں بھی پاک زبان ،پاک نفس اور پاک باطن رہتے تھے۔ ہاں! اگر فرق ہوتا تھا تو یہ ہوتا تھا کہ وہ ان دنوں میں جائز غصے کو بھی ضبط کرتے تھے، اگر ان میں سے کسی کو کوئی شخص گالی دیتا یا لڑنے کی باتیں کرتا تو اس کا جواب یہ ہوتا کہ:’’ میں روزہ دار ہوں‘‘۔

میری آمد پر وہ لوگ نیکی اور غم خواری کے بے حد حریص ہوگئے، یوں سمجھیے کہ ہوا سے مقابلہ کرتے تھے، ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ تھا:

’’کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجودبالخیرمن الریح المرسلۃ.‘‘ (رواہ بخاری)

’’جب رمضان آتا تو آنحضرت ﷺ امورِ خیر میں آندھی سے بھی زیادہ تیز رفتار ہو جاتے تھے۔‘‘

وہ روزہ دار کو افطار کرانے ،غلاموں کو آزاد کروانے، ستم رسیدوں کی امداد کرنے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے تھے،چنانچہ اسی وجہ سے فقرا و مساکین میری آمد کے منتظر رہتے تھے۔

لوگوں نے اپنے مشاغل میں روزہ گزارا، لیکن اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہوئے، اور نہ بیع و تجارت نے ان کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور جماعتوں کی حاضری سے غافل کیا، شام کو گھر لوٹے اور ذکرو تلاوت میں مشغول ہو گئے۔ مساجد کا حال اس وقت یہ ہو جاتا تھا کہ اگر تم جاؤ تو ذکر کی بھنبھناہٹ کے سوا کوئی آواز نہ سن پاؤ۔

آفتاب غروب ہوا، مؤذن نے اذان دی اور میں نے دیکھا کہ سید الاولین و الآخرین ﷺ نے ایک چھوہارے اور کچھ پانی سے افطار فرمایا، پھر اس پر اتنا شکر کہ انواع و اقسام کی افطاریوں پر بھی لوگوں کو یہ مقام شکر نصیب نہیں ہو سکتا، سنیے! حضور ﷺ فرما رہے ہیں:

’’ذَھَبَ الظَّمَاُ وَ ابتَلَتِ العُرُوقُ وَ ثَبَتِ الاَجرُ اِنْ شَا اللّٰہُ.‘‘

’’تشنگی دور ہوئی، رگیں تر ہوئیں، اور اللہ نے چاہا تو اجر واجب ہو گیا۔‘‘

آپ ﷺ کے اصحاب کرام ﷢نے بھی اسی طرح چند کھجوروں اور پانی کے چند گھونٹوں سے روزہ کھولا، اور اللہ تعالیٰ کی حمد کی، پھر نماز پڑھی، اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عنایت فرمایا، صرف بقدر ضرورت کھا لیا، نہ اس میں اسراف ہوتا تھا اور نہ ناک تک پیٹ بھرتا تھا۔

مہینہ بھر ان کا یہی معمول رہتا تھا، نہ اس میں کوئی فرق آتا تھا اور نہ وہ اس سے اکتاتے اور برداشتہ خاطر ہوتے ،بلکہ ہر دن نشاط کی ایک نئی کیفیت پیدا ہوتی، اور عبادت و نیکی کی حرص بڑھتی تھی، گویا روزوں سے ان کی روح کو غذا ملتی تھی، او ر مہینے کے آخر میں ان کی قوت او ران کا نشاط پہلے سے بھی بڑھا ہوا نظر آتا تھا۔

رسول اللہ ﷺ بھی ایک مسلسل نشاط اور ذوق عمل سے مخمور ر ہتے تھے۔ یہاں تک کہ جب آخری عشرہ آتا، تو بالکل ہی کمر کس لیتے تھے، رات عبادت میں گزارتے اور اہل خانہ کو بھی جگاتے اور پھر اعتکاف فرما لیتے تھے۔

میں جب اس دورِ سعادت کے روزہ داروں کا بعد کے روزہ داروں سے مقابلہ کرتا ہوں تو صورت و شکل میں تو کوئی فرق نظر نہیں آتا، بلکہ بعض بعد والے زیادہ نفل پڑھتے اور زیادہ وقت تلاوت کرتے نظر آتے ہیں، مگر خشوع و اخلاص اور ایمان و احتساب کی کیفیات میں کھلا فرق محسوس کرتا ہوں، اگر سابقین کی ایک رکعت کا وزن کیا جائے، تو بعد والوں کی بہت سی رکعتوں پر بھاری نکلے گی، کہ وہ اپنے ایمان و احتساب میں بھاری تھے۔

اور دوسرا فرق ،جو میں بتلا سکتا ہوں، یہ ہے کہ ان پر روزہ اپنے بہت گہرے اخلاقی اور نفسیاتی اثرات چھوڑ کر جاتا تھا ،یوں کہیے کہ ان کی طبیعتوں پر روزے کی ایک نہ مٹنے والی چھاپ پڑ جاتی تھی، اور اگلے سال جب میں پھر لوٹ کر آتا، تو ان میں وہی عفت، وہی تقویٰ، وہی صدق و امانت، وہی رقت، وہی کریم النفسی، وہی حرصِ اطاعت، وہی لذات ِ نفس سے نفرت، وہی آخرت کی فکر اور وہی دنیا سے بے رغبتی پاتا۔ الغرض ہر دوسری مرتبہ، وہ مجھے پہلے سے زیادہ پاک باطن وصاف دل ملتے تھے۔

قصہ مختصر! جب میرا وقت ختم ہو گیا اور روانگی کا دن آیا تو انہوں نے مجھے ایک بہت ہی پیارے دوست کی طرح رخصت کیا۔ آنسو کسی طرح تھمتے نہ تھے، اور آہیں قرار پاتی نہ تھیں، لبوں پر یہ دعا تھی کہ خدایا! یہ ملاقات آخری نہ ہو! یہ دن اس کے بعد بھی بار بار آئیں، یہ ہے خیرالقرون میں میرے استقبال کی ایک ہلکی سی تصویر!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version