ہمیشہ سے بپا اک جنگ ہے ہم اس میں قائم ہیں!

معرکۂ خیر و شر کی تاریخ مخلوق کی پیدائش سے جڑی ہوئی ہے ، اللّٰہ نے اپنی حکمتِ بالغہ کے تحت خیر و شر کو پیدا کیا، موت و حیات کو زندگی بخشی اور ان سبھی چیزوں کو انسانوں کی آزمائش سے جوڑ دیا۔ کچھ نے آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے راستے کی پیروی کی، رضائے رب انہیں ملی، ان کی دنیوی زندگی حیاتِ طیبہ قرار پائی اور آخرت میں جناتِ نعیم ان کا مقدر ٹھہریں۔ کچھ نے اپنے ازلی دشمن ابلیسِ لعین و مردود کی راہ اپنائی، دنیوی زندگی میں ہزار ہزار سال جینے کی تمنا کی وہ بھی ادھوری رہ گئی، ابراہیم و اسحاق و یعقوب علیہم السلام کی با برکت نسل میں آنے والے انبیاءُ اللّٰہ کو قتل و شہید کیا، پھر ان پر خدا تعالیٰ نے بختِ نصر سے لے کر ہٹلر تک عذاب مسلط کیے اور آخرت میں ان کے لیے سراسر خسارہ اور عذابِ الیم ہے۔

حق و باطل کا یہ معرکہ، جغرافیہ، تاریخ، سیاست، ثقافت، معاشرت، معیشت، حکومت، فکر و نظر، قلب و ذہن، غرض ہر ہر میدان میں آج بھی برپا ہے، بلکہ یہ جنگ آج جس طرح گھر گھر میں داخل ہو چکی ہے تو اس کی نظیر شاید دنیا میں پہلے کہیں نہیں ملتی۔ یہ دجّالی صلیبی صہیونی فساد دنیا میں اس قدر بڑھا کہ ازلی و ابدی، فطری و صادق دین’اسلام‘ کے مقدسات تک اسی کے قبضے میں آ گئے۔ بہت سوں نے ان قبضوں کے بعد یہی درس دینا شروع کیا کہ بس اب جو بچا ہے اسی پر صبر شکر کر لو۔ کچھ نے واقعی صبر شکر کر بھی لیا، لیکن کل سو سال پہلے جو القدس صہیونی قبضے میں گیا تھا تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حرمین میں آج یہودی دندناتے ہیں، گریٹر اسرائیل کی بات ’سازشی نظریات‘ سے نکل کر صلیب و صہیون کے پجاریوں کی جھوٹی زبانوں پر سچ کی مانند آ گئی ہے۔

غزہ کی پٹی میں ہزاروں لاکھوں کا خون بہنے کے بعد آج ایک جنگ بندی معاہدہ نافذ ہوا ہے، لیکن معرکہ جس کا نام فلسطینی مجاہدوں نے ’طوفان الاقصیٰ‘ رکھا تھا، جاری ہے اور اس دم تک جاری رہے گا جس دم ہم اہلِ اسلام مسجدِ اقصیٰ میں فاتح بن کر دوبارہ سے داخل نہ ہو جائیں۔ کہنے کو یہ بات بڑی جاذب، ہنگامہ آرا، جذباتی اور جذبات کو مہمیز دینے والی ہے، لیکن دراصل یہ معرکہ ہوش کا معرکہ ہے، ایک طویل جنگ، جس کا نتیجہ بے شمار سروں کی فصلیں کٹنے اور لاکھوں کے خون بہنے کے بعد سامنے آئے گا۔ بھلا فتح و نصرت کبھی بھی کسی بھی قوم کے حصے میں لڑے بغیر، قربانیاں دیے بغیر اور خون بہائے بغیر آئی ہے؟

آج کی یہ جنگ عسکری میادین میں جاری ہے۔ اسرائیل امریکہ ہے اور امریکہ اسرائیل ہے۔ شمارۂ ہٰذا میں بعض مضامین اسی موضوع کی بابت بڑی تفصیل سے موجود ہیں۔ ہم ان سطور میں انتہائی اختصار کے ساتھ اس جنگ کے چند تقاضوں کا بیان کریں گے۔ ایسے امور جن پر عمل اس امت کی فلاح اور جنگ میں کامیابی کا راستہ ثابت ہو گی:

معرکۂ خیر و شر جاری ہے، خیر کی جیت کا فیصلہ ہو چکا ہے، پس امتحان اس بات کا ہے کہ راقم و قاری، میں اور آپ اس جنگ میں خیر و اہلِ خیر کا ساتھ دے کر خود بھی کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟!

اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!

اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!



Exit mobile version