مغرب اسرائیل کی اندھادھند حمایت میں جو بیسیوں منطقیں جھاڑتا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسرائیل عرب آمریتوں کے سمندر میں جمہوریت کا سرسبز جزیرہ ہے، وہاں نہ کوئی بادشاہ ہے نہ سول و فوجی ڈکٹیٹر، تبدیلی ہمیشہ ووٹ کے ذریعے آتی ہے،اگرچہ آئینی لحاظ سے اسرائیل ایک یہودی وطن ہے مگر اس کی حدود میں جو انیس فیصد عرب رہتے ہیں وہ بھی پارلیمانی سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور پارلیمنٹ میں ان جماعتوں کا ایک اتحاد ’’ عرب بلاک ‘‘ کے نام سے موجود ہے۔
جہاں تک مقبوضہ مغربی کنارے کا معاملہ ہے تو وہ چونکہ اسرائیل کا باقاعدہ حصہ نہیں اس لیے وہاں کی آبادی پر فوجی قوانین اور اسی مقبوضہ علاقے میں قائم یہودی آباد کار بستیوں پر سویلین قوانین لاگو ہیں۔ اگر اس تضاد کے بارے میں جرح کی جائے تو مغربی دانش آئیں بائیں شائیں چونکہ چنانچہ پر اتر آتی ہے۔
لیکن جو عرب اسرائیلی برابر کے شہری بتائے جاتے ہیں کیا انہیں وہی مساوی حقوق حاصل ہیں جو اسرائیل کے کسی بھی یہودی باشندے کو ؟
[ یہاں میں بار بار ’’ عرب اسرائیلی ’’ کی اصطلاح یوں استعمال کر رہا ہوں کیونکہ اسرائیل کے قوانین میں مملکت ِ اسرائیل اور جوڈیا سماریا ( مغربی کنارہ ) کا تو تذکرہ ہے مگر فلسطین یا فلسطینیوں کا کوئی وجود نہیں]۔ ریاستی صہیونی آئیڈیالوجی کے مطابق جب سو سوا سو برس پہلے یہودیوں کی اپنے ’’ اجدادی وطن ’’ واپسی شروع ہوئی تو یہاں چند عرب خانہ بدوش قبیلوں کے کوئی نہیں تھا۔ویسے بھی صہیونیت کے باوا آدم تھیوڈور ہرزل کے بقول ’’ ایک غیر آباد سرزمین ایک بے سرزمین قوم ( یہودی ) کی ملکیت ہے‘‘۔
اسرائیلی قیادت فلسطینیوں کو سینہ ٹھونک کر نیم انسان اور دو ٹانگوں پر چلنے والا چوپایہ کہتی ہے۔ البتہ اسرائیل کو کوئی مغربی سامراج کی ناجائز اولاد کہہ دے تو پھر یہود دشمنی کا ماتم شروع ہو جاتا ہے۔
اس تناظر میں اسرائیل میں نافذ کچھ قوانین کا تذکرہ ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ یہ ریاست کس قدر جمہوری ، غیر نسل پرست اور انسانیت دوست ہے۔
برطانوی تسلط کے دور ( ۱۹۱۷ تا ۴۸ء) کے کئی قوانین اسرائیل نے جوں کے توں اٹھا لیے۔جیسے ۱۹۳۹ء کا یہ قانون کہ ’’دشمن ممالک سے تجارت یا سفری تعلق‘‘ ممنوع ہے۔ اس قانون کے دائرے میں وہ عرب اور مسلم ممالک آتے ہیں جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ چنانچہ اسرائیل کے عرب شہری بھی ان ممالک سے کسی بھی طرح کا براہِ راست یا بلاواسطہ ثقافتی ، مذہبی ، معاشی تعلق نہیں رکھ سکتے۔نہ ہی وہ ان ممالک سے مذہبی لٹریچر سمیت کوئی شے منگوا سکتے ہیں۔
ہنگامی دفاعی قانون نمبر ۱۲۵ بھی برطانوی دور کی یادگار ہے۔اس کے تحت کسی بھی خطے کو حساس فوجی علاقہ قرار دے کر وہاں شہریوں کی نقل و حرکت ممنوع قرار دی جا سکتی ہے۔ اسرائیل نے مئی ۱۹۴۸ء میں اسی قانون کے تحت ملک میں مارشل لا نافذ کیا اور ساڑھے سات لاکھ عربوں کو ’’حساس فوجی علاقوں‘‘ سے نکال باہر کیا اور واپسی پر پابندی لگا دی۔
اسی قانون کے تحت جون ۱۹۶۷ء کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ حساس قرار دے دیا گیا۔ایریا سی نامی اس علاقے میں کوئی فلسطینی مقامی فوجی کمان کے اجازت نامے کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا،بھلے وہاں اس کی املاک ہی کیوں نہ ہوں۔
اسرائیل کے متروکہ املاک قانون مجریہ ۱۹۵۰ء کے تحت۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کے بعد جس شہری نے کسی بھی وجہ سے اپنا گھر، کھیت یا بینک اکاؤنٹ ترک کر دیا وہ غیر حاضر تصور ہوگا اور اس کا اثاثہ ریاستی کسٹوڈین کی ملکیت تصور کیا جائے گا۔۱۹۵۰ء کے اس قانون کی زد میں عملاً صرف فلسطینی عرب ہی آتے ہیں۔
اس کے برعکس ۱۹۵۰ء کے قانونِ واپسی ( شہریت) کے تحت دنیا میں کہیں بھی آباد یہودی باشندہ ، اس کی اولاد ، اولاد کی اولاد اور زیرِ کفالت افراد اسرائیلی شہریت کے اہل ہیں۔گھر واپسی کا یہ قانون اپنے گھروں سے جبراً نکالے گئے لاکھوں فلسطینیوں پر منطبق نہیں ہوتا۔
۲۰۰۸ء میں قانونِ شہریت میں یہ ترمیم کی گئی کہ کسی بھی شخص کی اسرائیلی شہریت منسوخ ہو سکتی ہے اگر ثابت ہو جائے کہ وہ ریاستِ اسرائیل کا وفادار نہیں یا اس نے ممنوعہ فہرست میں شامل نو عرب ممالک بشمول غزہ میں عارضی سکونت اختیار کر لی ہے۔( جب کہ ان نو عرب ممالک میں آباد یہودی شہریوں پر یہ شرط لاگو نہیں ہوتی )۔شہریت کے قانون کے تحت اگر کوئی غیر ملکی یہودی اسرائیل میں عارضی قیام بھی کرتا ہے تو اسے بھی اسرائیلی شہریوں کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔
( اس رعایت کے سبب اکثر غیر ملکی یہودی اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دیتے رہتے ہیں یا پھر اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں کی آبادکار بستیوں میں املاک خرید رہے ہیں مگر ان کی دوہری شہریت برقرار ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے پر جو سات لاکھ یہودی آباد ہیں ان میں ساٹھ ہزار امریکی شہری ہیں )۔
۱۹۵۲ء کے بین الاقوامی تنظیمی قانون کے تحت عالمی صہیونی ادارے جیویش ایجنسی کو نیم سرکاری ادارے کا درجہ دیا گیا ہے ( جیویش ایجنسی لگ بھگ ایک صدی سے باقی دنیا میں آباد یہودیوں کو اسرائیل کی جانب ہجرت کی ترغیب اور انتظام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے )۔
متروکہ املاک قانون مجریہ ۱۹۵۰ء اور حصولِ زمین اور معاوضے کے قانون مجریہ ۱۹۵۳ء کے ذریعے حاصل کی گئی فلسطین کی۹۳ فیصد زمین صہیونی ریاست یا جیویش نیشنل فنڈ کی ملکیت ہے (جیویش نیشنل فنڈ ۱۹۰۱ء میں قائم کیا گیا تھا،تاکہ عربوں سے زمین خریدنے کے لیے چندہ جمع کیا جا سکے۔یہ ایک ٹیکس فری ادارہ ہے اور ہزاروں ایکڑ غصب شدہ زمین کا مالک ہے)۔
سنیچر ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کے دن جب ۵۲ رکنی اقوامِ متحدہ نے سوویت یونین اور امریکہ کی حمایت سمیت تیرہ کے مقابلے میں چھتیس ووٹوں سے فلسطین کو دو حصوں میں بانٹا تو۴۸ فیصد زمین فلسطینی اکثریت کو اور ۵۲ فیصد زمین یہودی اقلیت کو دے دی گئی۔جن تین ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ان میں فلسطین پر قابض ’’ بالفور ڈکلریشن ‘‘ کا خالق برطانیہ بھی شامل تھا۔
مگر اسرائیل کے وجود میں آنے کے پانچ برس کے اندر اندر فلسطینیوں کو ملنے والی اڑتالیس فیصد زمین سکڑ کے محض ساڑھے تین فیصد تک رہ گئی۔ یہ زمین ۳۴۹ عرب اکثریتی دیہاتوں اور قصبوں سے ’’ قانوناً ‘‘ ہتھیائی گئی۔ صرف ۶۸ فلسطینی گاؤں اس ریاستی ڈاکے سے بچ پائے مگر وہ بھی چوطرفہ یہودی آبادیوں سے گھیر لیے گئے۔
زمین کے انتظام و انصرام کے قانون مجریہ ۱۹۶۵ء کے تحت ریاستی کونسل میں سرکار کے علاوہ جیویش ایجنسی ، یہودی مذہبی اداروں اور جیویش نینشل فنڈ کی نمائندگی ہے۔کسی مقامی عرب شہری یا تنظیم کو اس کونسل میں کبھی شامل نہیں کیا گیا۔
اب تو پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ اسرائیل نسل پرست اور اپارتھائیڈ ریاست ہے۔اگرچہ انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ کے انٹرنیشنل کرائم کورٹ نے گرفتاری وارنٹ بھی نکال دیے ہیں مگر یہ مجرم قیادت اور اس کے اتحادی ممالک بضد ہیں کہ یہ سب الزامات یہود دشمنی کا نتیجہ ہیں۔
اسرائیلی ریاستی ضابطے کے آرٹیکل اٹھارہ اے کے تحت صرف یہودی مذہبی تہواروں پر عام تعطیل ہو گی۔ واحد غیر مذہبی چھٹی چودہ مئی (یومِ آزادی) ہے۔
۲۰۱۱ء میں بدنامِ زمانہ نکبہ قانون کے تحت وزارتِ خزانہ کو اختیار دیا گیا کہ وہ ایسے کسی بھی ثقافتی، تعلیمی یا آرٹ ادارے کی سرکاری مالی امداد ختم کر سکتی ہے جو چودہ مئی کو یومِ آزادی کے بجائے بطور یومِ نکبہ یا یومِ سوگ منائے یا اسرائیل کو ایک یہودی جمہوری ریاست ماننے سے انکار کرے۔
تعلیم ایکٹ مجریہ ۱۹۵۳ء کے تحت جدید اسکولوں اور مذہبی مدارس میں ایسا نصاب پڑھایا جاتا رہا ہے جس سے صرف یہودی ثقافت اور صہیونی نظریہ اجاگر ہو۔۲۰۰۰ء میں اس ایکٹ میں یہ اضافہ کیا گیا کہ سرکاری سطح کی تعلیم میں اسرائیل کے عرب اور دیگر شہریوں کی ثقافت، روایات اور تاریخ کے پہلوؤں کو بھی تسلیم کیا جائے۔
یہ شق دیکھنے میں تو بہت اچھی لگتی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قومی نصاب میں یہودی ثقافت اور صہیونی نظریے کی طرح دیگر ثقافتوں اور ان کی تاریخ بھی لازماً شامل کی جائے۔چنانچہ اب تک یہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔
۲۰۰۰ء سے پہلے تک اسرائیل کی دو سرکاری زبانیں تھی۔ عبرانی اور عربی۔مگر دوسرے انتفاضہ(۲۰۰۰ء تا ۰۵ء ) کے ردِعمل میں عربی سے سرکاری درجہ واپس لے لیا گیا۔اس تبدیلی کے بعد درس گاہوں میں غیر یہودی سماج کی تاریخ و ثقافت کیسے اجاگر ہو ؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔
ویسے بھی اسرائیل کے سرکاری اسکولوں میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس میں نقبہ کا ذکر سرے سے غائب ہے ( نکبہ ۱۹۴۸ء تا ۵۲ء کے اس دور کو کہتے ہیں جب ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو جبراً اپنا گھر اور زمین چھڑوانے کے لیے کئی جگہ قتلِ عام کر کے دہشت زدہ کیا گیا)۔
بظاہر اسرائیل کی عرب اقلیت کو سرکاری فنڈنگ سے کمیونٹی اسکول کھولنے کی اجازت تو ہے مگر عرب اسکولوں میں اگر نقبہ پر بات ہو تو فنڈنگ روکی جا سکتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ اسرائیلی یہودی مورخ جو سرکار کے تاریخی بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں ان کی ریسرچ فنڈنگ بھی منسوخ ہو جاتی ہے۔
۱۹۹۴ء سے یہ قانون بھی لاگو ہے کہ نئی پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا تاسیسی اعلان پڑھا جائے گا تاکہ ریاست کے صہیونیت سے تعلق کا اعادہ ہو سکے۔
۱۹۸۰ء میں فاؤنڈیشن آف لا ایکٹ نافذ ہوا۔اس کے تحت اگر عدالتیں موجودہ قانونی نظام میں کسی سوال کا تسلی بخش جواب تلاش نہ کر پائیں تو تورات پر مبنی ضابطہِ قانون ہلاخا سے رجوع کر سکتی ہیں۔یعنی شریعتِ موسوی کو اسرائیلی قانونی نظام میں مساوی درجہ حاصل ہے۔
مقدس مقامات کی دیکھ بھال کے قانون مجریہ ۱۹۶۷ء کے تحت وزارتِ مذہبی امور اسرائیلی حدود میں واقع مقدس مقامات کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہے۔وزارت کی فہرست میں ایک سو پینتیس یہودی مقامات ہیں مگر ایک بھی غیر یہودی مقام شامل نہیں۔اس بابت انسانی حقوق کی ایک اسرائیلی تنظیم عدالہ کی درخواست عدالت نے مسترد کر دی۔
یہودی مذہبی امور کے قانون مجریہ ۱۹۷۱ء کے تحت مذہبی اداروں اور قبرستانوں کی دیکھ بھال کے لیے وزارتِ مذہبی امور نے ہر یہودی بستی ، قصبے اور شہر میں مذہبی کونسلیں بنائی ہیں جنہیں سرکاری امداد ملتی ہے۔البتہ کسی غیر یہودی آبادی میں ایسی کوئی کونسل نہیں ۔
۱۹۶۷ء میں غربِ اردن پر قبضے کے بعد مشرقی یروشلم کے اردگرد کی ساڑھے سترہ ہزار ایکڑ دیہی زمین یروشلم کی شہری حدود میں شامل کی گئی۔ ۱۹۸۰ء میں پارلیمنٹ نے یروشلم کیپیٹل ایکٹ منظور کیا جس کے تحت متحدہ یروشلم ( مغربی و مشرقی یروشلم ) اسرائیل کا دارالحکومت قرار پایا۔
باالفاظِ دیگر مقبوضہ یروشلم کو باقاعدہ اسرائیل میں شامل کر لیا گیا۔۲۰۱۷ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اس دعوی کو تسلیم کر لیا۔حالانکہ اوسلو سمجھوتے کے تحت مشرقی یروشلم فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بننا تھا۔۱۹۸۱ء میں ایک اور قانون کے تحت مقبوضہ گولان کو اسرائیل میں ضم کر لیا گیا۔
۲۰۰۳ء میں شہریت کے قانون میں خاندانی تعلق سے متعلق ترمیم کی گئی کہ اگر کسی شہری کی بیوی یا شوہر کا تعلق اسرائیل سے باہر ( بشمول مقبوضہ مغربی کنارہ اور غزہ ) سے ہے تو انہیں اسرائیل میں ایک ساتھ رہنے کے لیے خصوصی عارضی اجازت نامہ درکار ہو گا بشرطیکہ عورت کی عمر پچیس برس اور مرد کی عمر پینتیس برس سے کم نہ ہو۔
البتہ گیارہ برس تک کی عمر کے بچوں پر اس قانون کا اطلاق نہ ہو گا۔اس قانون کے سبب ہزاروں فلسطینی خاندان جن کے رشے ناتے مقبوضہ فلسطین میں ہیں مسلسل قانونی پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔اس قانون کی روح دراصل یہ ہے کہ منقسم خاندان تنگ آ کر ملک چھوڑ دیں۔
۱۹۷۹ء میں ایمرجنسی قانون میں یہ ترمیم کی گئی کہ کسی بھی شہری کو غیر معینہ انتظامی حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔مگر ہر چھ ماہ بعد اس حراست کی عدالتی تجدید کرانا ہو گی۔اس قانون کے تحت ہزاروں فلسطینی نوجوان ، بوڑھے ، بچے اور خواتین غیر معینہ مدت کے لیے جیل میں ہیں۔
۲۰۰۶ء میں قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے افراد ( یعنی فلسطینیوں) کے لیے فوجداری قانون میں پہلے سے موجود تحفظات کو اور کم کر دیا گیا۔ترمیم سے پہلے گرفتار شخص کو اڑتالیس گھنٹے کے اندر جج کے سامنے پیش کرنا لازم تھا۔یہ مدت بڑھا کے چھیانوے گھنٹے ( چار دن ) کر دی گئی۔ ترمیم سے پہلے ملزم کو اڑتالیس گھنٹے کے اندر وکیل فراہم کیا جانا لازم تھا۔
ترمیم کے بعد ملزم کو اکیس دن تک وکیل تک رسائی سے محروم رکھا جا سکتا ہے۔ اس قانون میں ۲۰۰۸ء میں مزید تبدیلی کی گئی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ( فوج اور پولیس ) تفتیشی عمل کا مکمل آڈیو وڈیو ریکارڈ رکھنے کے پابند نہیں۔چنانچہ تفتیش میں تشدد کے استعمال کا راستہ قانونی طور پر کھل گیا۔
۲۰۱۱ء میں جیل قوانین میں مزید ترمیم کی گئی کہ وہ ملزم جو قومی سلامتی کے قانون کے تحت زیرِ حراست ہیں انہیں محکمہ جیل خانہ جات کی سفارش پر سپریم کورٹ وکیل تک رسائی کے حق سے غیر معینہ مدت تک محروم کر سکتی ہے اگر محکمہ یہ سمجھے کہ وکیل اس ملزم کا کوئی پیغام کسی دہشت گرد تنظیم تک پہنچا سکتا ہے۔اس قانون کا بنیادی مقصد فلسطینی قیدیوں کو وکیل اور سماعت سے زیادہ سے زیادہ مدت تک محروم رکھنا ہے۔
۲۰۰۹ء میں اقتصادی ترقی کے لیے ترجیحاتی علاقوں کے تعین کے قانون میں ترمیم کے بعد حکومت اپنی صوابدید پر کسی بھی آبادی کے لیے جتنا چاہے ترقیاتی فنڈ مخصوص کر سکتی ہے۔
چنانچہ ۵۵۳ یہودی قصبوں کے مقابلے میں عرب اسرائیلیوں کے صرف چار قصبوں کے لیے تعلیمی و ترقیاتی فنڈز مختص کیے گئے۔شہری حقوق کی تنظیم العدالہ نے جب اس ترمیم کو چیلنج کیا تو عدالت نے یہ درخواست اٹارنی جنرل کی اس یقین دہانی کے بعد مسترد کر دی کہ حکومت فنڈز کی فراہمی میں آئندہ امتیاز نہیں برتے گی۔ عملاً یہ امتیازی پالیسی آج بھی برتی جا رہی ہے ۔
غیرملکی فنڈنگ کی شفافیت کے قانون مجریہ ۲۰۱۱ء کے تحت این جی اوز پر لازم ٹھہرا کہ وہ غیر ملکی مالی امداد کی تفصیلات اور مقاصد اپنی ویب سائٹس پر مشتہر کریں تاکہ چور دروازے سے دہشت گردی کی ممکنہ مالی مدد پر ریاست نظر رکھ سکے۔
مگر چالاکی یہ ہے کہ اس قانون کا اطلاق غیر ملکی نجی اداروں اور افراد پر نہیں ہوتا تاکہ مقبوضہ علاقوں میں قائم یہودی بستیوں کے لیے امریکی و یورپی یہودیوں سے ملنے والی مالی مدد متاثر نہ ہو۔اس کے علاوہ ورلڈ زائیونسٹ آرگنائزیشن ، جیویش ایجنسی فار اسرائیل ،جیویش نیشنل فنڈ اور امریکن ایوانجلیکل فرقے کی یونائیٹڈ اسرائیل اپیل پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہے۔
اس قانون کا بنیادی ہدف اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین میں سرگرم انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں جن کا دارومدار نجی امداد کے بجائے زیادہ تر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں، ریاستی اداروں، اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کے ذیلی اداروں پر ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد بہت سے بیرونی اداروں نے اپنی امداد روک لی یا کمی کر دی۔
ایک اور قانون کے تحت اسرائیل کے اقتصادی، ثقافتی، سفارتی، تعلیمی بائیکاٹ کی اپیل یا مطالبے کی سزا بھاری جرمانے اور سرکاری امداد کی معطلی کی صورت میں بھگتنا ہو گی۔ اس قانون کا مقصد حکومت مخالف شہریوں کو اسرائیل کے بائیکاٹ کی بین الاقوامی تحریک بی ڈی ایس کی حمایت سے روکنا ہے۔
ایڈمیشن کمیٹی قانون مجریہ ۲۰۱۱ء کے تحت چار سو سے زائد مکانوں پر مشتمل آبادی اپنی ایڈمیشن کمیٹی بنا سکتی ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ کمیونٹی میں اگر کوئی نیا کنبہ بسنا چاہے تو کیا اس سے مقامی سماجی ہم آہنگی تو متاثر نہ ہو گی۔اس قانون کا مقصد عرب اسرائیلیوں کو یہودی آبادیوں میں بسنے سے روکنا اور مخصوص علاقوں تک محدود رکھنا ہے ۔ اس کے برعکس مقبوضہ غربِ اردن کے فلسطینی اکثریتی شہر ہیبرون ( الخلیل ) کے بیچوں بیچ دو سو یہودی گھرانے اسرائیلی فوج کے پہرے میں کئی برس سے دھڑلے سے رہتے ہوئے اکثریتی شہریوں کی روزمرہ زندگی اجیرن کر رہے ہیں۔ اپارتھائیڈ کی اس سے بہتر مثال نہیں ملے گی۔
تحویلِ اراضی کے قانون مجریہ ۱۹۱۱ء کے تحت وزارتِ خزانہ کو سرکاری مقاصد کے لیے کوئی بھی زمین پچیس برس کے لیے قبضے میں لینے کا اختیار اس شرط پر دیا گیا کہ مذکورہ اراضی جس مقصد کے لیے حاصل کی گئی ہے اگر وہ معینہ عرصے میں پورا نہیں ہوتا تو زمین اصل مالکان کو لوٹا دی جائے گی۔مگر اس قانون کی آڑ میں مقبوضہ علاقوں میں ہزاروں ایکڑ زمین جیویش نیشنل فنڈ کے حوالے کر کے یہودی آبادکار رہائشی اسکیموں کا اعلان کر دیا جاتا ہے تاکہ زمین کے عرب مالکان واپسی کا دعوی دائر کر بھی دیں تو ’’نئے زمینی حقائق‘‘ کی روشنی میں عدالت یہ دعوی باآسانی مسترد کر دے۔
اسی طرح جنوبی اسرائیل کے صحراِ نجف میں صدیوں سے بسے لگ بھگ ایک لاکھ بے زمین بدو قبائلی معاشی خودکفالت کے لیے زمین کی الاٹمنٹ کے قانوناً ترجیحی حقدار ہیں۔ مگر صحراِ نجف کی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے مقامی بدوؤں کے فطری حق کو نظرانداز کرتے ہوئے بندوبستِ اراضی کے قانون مجریہ ۲۰۱۰ء کے تحت بیس ہزار ایکڑ زمین ساٹھ یہودی آباد کاروں کو کمیونٹی ویلفئیر کے نام پر الاٹ کر دی۔
۲۰۱۲ء میں ایک اور عجیب و غریب قانون انکم ٹیکس میں ترمیم کی شکل میں نافذ کیا گیا۔اس کے تحت مقبوضہ علاقوں کی یہودی آبادکار بستیوں میں تعلیمی و فلاحی اداروں کی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ قرار پائی۔اس قانون کا اطلاق مقبوضہ فلسطینی بستیوں پر نہیں ہوتا۔
۲۰۱۲ء کے ایک قانون کے تحت کسی دشمن علاقے ( بشمول غزہ و غربِ اردن ) میں دہشت گردی کے خلاف فوجی کارروائی کے دوران کسی غیر اسرائیلی شہری کے جان و مال کے نقصان کے ازالے کی حکومت یا فوج ذمہ دار نہیں ہے۔
یہ قانون ستمبر ۲۰۰۵ء کی سابقہ تاریخ سے لاگو کیا گیا جب اسرائیل نے غزہ سے فوجی انخلا کیا اور یہاں بسے تقریباً نو ہزار یہودی آبادکاروں کو مغربی کنارے پر بسا دیا۔اس کے بعد سے غزہ پر وقفے وقفے سے فوج کشی جاری ہے۔اس قانون کے تحت غزہ میں اسرائیلی فوجی ایکشن کے دوران مرنے یا زخمی ہونے والے سویلینز یا ان کی املاک کے نقصان کی بھرپائی کی ذمے داری سے فوج اور اسرائیلی حکومت مستثنیٰ ہے۔
۲۰۱۵ء کے ایک قانون کے تحت ریاستی املاک کو نقصان پہنچانے والے بچوں کو نہ صرف عدالت کا سامنا کرنا ہو گا بلکہ ان کے والدین کو نقصان کی قیمت کے برابر جرمانہ بھی بھرنا ہو گا۔جب کہ نیشنل انشورنس ایکٹ کے تحت اسرائیل یا مشرقی یروشلم کی حدود میں کوئی بچہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں عدالتی سزا پاتا ہے تو اس کی دیکھ بھال کا سرکاری الاؤنس بھی منسوخ ہو جائے گا۔
اسرائیلی فوجداری قانون کے تحت پتھراؤ سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی زیادہ سے زیادہ سزا بیس برس ہے۔اس قانون میں مزید ترمیم یہ کی گئی ہے کہ ایسے کسی بھی مقدمے میں عدالت کو کم ازکم تین برس کی سزا لازماً سنانا ہو گی۔
۲۰۱۸ء میں کاؤنٹر ٹیررازم قانون میں ترمیم کی گئی کہ کوئی بھی فلسطینی جو دہشت گردی کے شبہہ میں پولیس کے ہاتھوں مارا جائے،اس کی لاش پولیس دس روز یا تب تک قبضے میں رکھ سکتی ہے جب تک اہلِ خانہ تحریری حلف نامہ نہ دیں جس میں تفصیل ہو کہ تدفین کب اور کہاں ہو گی اور کتنے لوگ شریک ہوں گے۔ اس بارے میں پولیس احکامات کو مدِ نظر رکھنا ہو گا اور بطور ضمانت ایک مخصوص رقم بھی جمع کرانا ہو گی جو شرائط پر مکمل عمل نہ ہونے کی صورت میں ضبط ہو سکتی ہے۔
۲۰۲۳ء میں پولیس کو اختیار دیا گیا کہ وہ غیرقانونی ہتھیاروں یا سرگرمیوں کے شبہہ میں کسی بھی عمارت یا گھر کی کسی بھی وقت بلاوارنٹ تلاشی لے سکتی ہے اور کوئی بھی مشکوک شے ضبط کر سکتی ہے۔
شہریت کی منسوخی کے ترمیمی قانون مجریہ ۲۰۲۳ء کے مطابق اگر کسی اسرائیلی شہری ( عرب ) کو دہشت گردی یا اعانت یا حمایت کے جرم میں سزا سنائی جاتی ہے اور دورانِ قید اسے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے وظیفہ ملتا ہے تو ایسے فعل کو ریاستِ اسرائیل سے عدم وفاداری تصور کرتے ہوئے مجرم کی سزا مکمل ہونے کے بعد اس کی اسرائیلی شہریت منسوخ کر کے ملک بدر یا فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ انتظام علاقے (مغربی کنارے یا غزہ) میں بھیجا جا سکتا ہے۔
ان قوانین کے مطالعے کے بعد بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسرائیل ایک نارمل جمہوری ریاست ہے تو اس کی مرضی۔
[یہ مضمون ایک معاصر روزنامے میں شائع ہو چکا ہے۔ مستعار مضامین، مجلے کی ادارتی پالیسی کے مطابق شائع کیے جاتے ہیں۔ (ادارہ)]
٭٭٭٭٭