لبیک یا اقصیٰ!
نسوانی چیخوں سے پورا محلہ گونج اٹھا تھا۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ رات کے ۱۲ بجے اچانک یہ آواز کہاں سے سنائی دی تھی۔
’’صلاح! صلاح! دیکھو کون چیخ رہا ہے؟‘‘ ام صلاح گھبرا کر اپنے کمرے سے باہر نکلیں۔
صلاح اس وقت اپنے موبائل پر کچھ پڑھ رہا تھا۔چیخوں کی آوازیں اس نے بھی سنیں تھیں مگر وہ اس کو محلے میں بچوں کی شرارت سمجھ کر نظر انداز کرگیا تھا۔ اچانک فضا میں گولیوں کی تڑتڑا ہٹ اور گولے پھٹنے کی آواز آنے لگی۔
’’یا رب!‘‘ صلاح اپنا موبائل رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا، ’’لگتا ہےاسرائیلی فوجی پھر مخیمات میں چھاپہ مارنے آئے ہیں‘‘۔
صلاح نے پاؤں میں چپل پہنی اور باہر لپکنے لگا ہی تھا کہ ام صلاح نے اس کو واپس کھینچ لیا۔
’’صلاح باہر نہیں جاؤ! بلاوجہ زد میں آجاؤ گے، تمہیں پتہ تو ہے کہ یہودی جب آتے ہیں تو کسی کو بھی محض شک کی بنیاد پر اٹھا کر لے جاتے ہیں!‘‘ ام صلاح نے پریشانی سے کہا۔
’’مگر اُمی! ابو عکرمہ اور ابو دجانہ کل رات ہی گھر پہنچے ہیں، یقیناً کسی مخبر نے اسرائیلی فوجیوں کو خبر کردی ہوگی کہ عرین الاسود کے دو مجاہدین اس محلے میں آئے ہیں!‘‘ ،صلاح بے چینی سے اپنی ماں سے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کررہا تھا۔
وہ نکل کر جانا چاہتا تھا مگر اس کی ماں کا خوف بھی حق بجانب تھا۔ کوئی بھی اس وقت باہر نکلتا تو دھر لیا جاتا۔ اچانک باہر سے عجیب قسم کی آوازیں آنے لگیں، گویا دو گروہوں میں سخت قسم کی لڑائی چھڑ گئی ہو۔
’’امی! سب نوجوان باہر نکل آئے ہیں! مجھے بھی جانے دیں!‘‘ وہ بے تاب ہوگیا۔ ’’مجھے ابو ذر اور حسن کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں! وہ اسرائیلیوں پر پتھر برسا رہے ہیں!‘‘
اب کی بار اس کی ماں نے اس کا بازو چھوڑ دیا اور وہ لپکتا ہوا باہر پہنچ گیا۔ باہر کا منظر ویسا ہی تھا جیسا اس نے گمان کیا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں نے ابو عکرمہ اور ابودجانہ کے گھروں پر چھاپہ مارا تھا۔ان کے گھر کی عورتیں چیختی ہوئی اسرائیلی فوجیوں سے ابو عکرمہ اور ابودجانہ کو چھڑانا چاہ رہی تھیں۔ محلے کے چند لڑکے پتھراؤ کر کے اسرائیلی فوجیوں کو منتشر کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ جدید ترین اسلحے سے لیس ان کی فوج کے سامنے یہ پتھر بردار چند لڑکے یقیناً مضحکہ خیز ہی لگ رہے تھے مگر اسرائیلی فوجی اتنے ڈرپوک واقع ہوئے تھے کہ پتھر لگنے سے بھی منتشر ہوجاتے تھے۔ پھر جیسے ہی لڑکے پیچھے ہٹتے وہ دوبارہ بندوقیں سیدھی کیےان کی طرف بڑھتے۔ لڑکے دوبارہ پتھروں کی بوچھاڑ کرتے تو اسرائیلی فوجیوں میں ایسے بھگدڑمچ جاتی گویا بکریوں کے ریوڑ میں شیر گھس آیا ہو۔
’’ابو ذر! حسن! کیا ہورہا ہے!‘‘ صلاح چلّاتا ہوا اپنے دوستوں کے پاس پہنچ گیا۔
وہ دونوں لڑکے ۱۶ اور ۱۷ سال کے لگ بھگ تھے۔
’’ابو عکرمہ اور ابو دجانہ کے گھر پر چھاپہ آیا ہے! ان کو بچ کر نہیں جانے دینا، کسی نہ کسی کا کام ضرور تمام کرنا چاہیے!‘‘ ابو ذر نے یہ کہتے ہی زمین سے ایک بڑی اینٹ اٹھائی اور قریب میں کھڑے ایک اسرائیلی فوجی کو دے ماری۔
صلاح نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ دو تین پتھر یکے بعد دیگرے برسا دیے۔ دو تین اسرائیلی اس کی زد میں آکر زخمی بھی ہوگئے۔اتنے میں اسرائیلی فوجیوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔
’’پیچھے چلو! پیچھے چلو!‘‘ ایک لڑکا چلایا۔اور وہ سب اوٹ میں ہوگئے۔کسی کو بھی گولیوں سے کوئی نقصان نہ ہوا ۔
اسرائیلی فوجی دونوں مجاہدین کو گھسیٹ کر بکتر بند گاڑیوں تک لے آئے۔ عورتیں ابھی بھی چیخ رہی تھیں۔ اچانک ایک اسرائیلی کو نجانے کیا سوجھی، وہ غصے سے بپھر کر ایک عورت کی طرف جھپٹا اور اس کے منہ پر دو تھپڑ جڑ دیے۔ عورت چیخ کر پیچھے جاگری۔ اردگرد کھڑے مزید دو اسرائیلی اس عورت پر جھپٹ پڑے۔ پھر اس سے پہلے کہ کسی کی سمجھ میں کچھ آتا، اسرائیلی فوجی اس عورت کو بھی بکتر بند گاڑی میں ڈالنے لگے اور وہ چیخ چیخ کر اہل محلہ کو پکار رہی تھی۔
’’ہمیں ان کو بچانا ہوگا! وہ ہماری بہن کو لے جارہے ہیں!‘‘ یہ دیکھ کر صلاح بپھر کر آگے بڑھا۔
اس کو دیکھ کر باقی سب لڑکے بھی دوبارہ میدان میں آگئے اور اسرائیلیوں پر پتھراؤ کرنے لگے۔ اسرائیلی فوجیوں نے دوبارہ فائر کھول دیا۔ اس دفعہ لڑکوں میں سے کئی اس کا نشانہ بن گئے۔ محلے کی سڑک پر ہر طرف خون بہنے لگا۔ لڑکے پتھراؤ چھوڑ کر زخمی اور شہید اٹھانے لگے۔ اسی افراتفری کا فائدہ اٹھاتے اور مزید فائرنگ کرتے اسرائیلی فوجیوں نے اپنی گاڑیاں محلے سے باہر نکال لیں۔
’’وہ چلے گئے! وہ لے گئے! ہمارے مسلمان بھائیوں کو لے گئے! ہماری بہن کو لے گئے!‘‘ صلاح جو ایک زخمی کو اٹھا رہا تھا غم سے نڈھال ہوکر چیخا۔
’’صلاح! اس کو جلدی ہسپتال لے جانا ہے! جلدی چلو ورنہ یہ راستے میں ہی شہید ہوجائے گا!‘‘ ابوذر نے صلاح کو بد حواسی سے بچانے کو کہا۔
صلاح کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے مگر وہ مرد تھا۔ اس طرح رو نہیں سکتا تھا۔ پھر اس کے ذمے ان زخمیوں کو ہسپتال پہنچانا بھی تھا۔ وہ جلدی سے اس کام میں جت گیا۔ مگر اس کے دوران بھی اس کے ذہن سے ایک لمحے کو بھی وہ چیخیں اور ابو دجانہ کے گھر کی اس خاتون کی پکار نہ ہٹی تھی۔
٭٭٭٭٭
صلاح فلسطین کے علاقے نابلس کا باسی تھا۔ اس کا گھر مسجد اقصی کے ہمسائے میں واقع بلاطۃ کی خیمہ بستی میں تھا۔۱۹۴۸ء میں دربدر ہونے والے فلسطینی پناہ گزینوں کی یہ خیمہ بستی اب ’خیمہ بستی‘ نہ رہی تھی۔ بلکہ اب تو اس میں لوگوں نے جوڑ توڑ کر کے گھر بھی بنا لیے تھے۔ یہ علاقہ یہاں کے مسلمان کی غیرت اور اسرائیلی یہودیوں سے نفرت اور عداوت میں مشہور تھا۔
وہ بچپن سےان حالات کا عادی تھا۔ اس کے اپنے محلے سے بارہا مجاہدین گرفتار ہوئے تھے۔ مگر آج تو اس کا دل و دماغ غصے سے پھٹنے کو تھا۔ وہ کتنی ہی بار اپنی آنکھوں کے سامنے مسجد اقصیٰ کے صحن میں مسلمان بہنوں پر اسرائیلی فوجیوں کی جارحیت دیکھ چکا تھا۔ کئی دفعہ تو وہ ان کے دفاع میں ان سے بھڑ بھی چکا تھا جس کے نتیجے میں اس کو چھ ماہ قید بھی رہنا پڑا تھا۔ قید سے واپسی کے بعد وہ بجائے خوفزدہ ہونے کے مزید نڈر ہوگیا تھا۔ وہ اپنی مسلمان امت کے لیے ہر لمحہ تڑپتا تھا۔ وہ راہ چلتے فلسطین کی سڑکوں پر دندناتے یہودیوں کو دیکھتا تو اس کا خون غصے سے کھولنے لگتا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے۔
آخر وہ اتنے بے بس کیوں تھے؟ آخر اس کے سوا ارب مسلمان بھائیوں کو ان کا خیال کیوں نہیں تھا؟ فلسطین کے بارڈر کتنے مسلمان ملکوں سے ملتے تھے مگر وہ سب امن و چین کی بانسری بجا رہے تھے۔ جبکہ ان کے مسلمان بھائی مسجد اقصیٰ کے دفاع میں مسلسل خون بہا رہے تھے۔ رات میں وہ کروٹیں بدلتے بدلتے تھک گیا تھا۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا اور وہ اچھل کر کھڑا ہوگیا۔
٭٭٭٭٭
’’ان کا کچھ علاج ہونا چاہیے!‘‘ابو ذر غم و غصے کی تصویر بنا ہوا تھا۔
اگلے دن فجر کی نماز پڑھ کر ابھی نمازی مسجد سے نکلے بھی نہ تھے کہ صلاح ابوذر اور حسن کے پاس پہنچ گیا اور ان سے اپنا غم اور مسلمانوں کی بے بسی کے بارے میں بات کی۔
’’میں ان کو نہیں چھوڑوں گا! یہ سمجھتے کیا ہیں اپنے آپ کو؟ یہ دندناتے ہوئے ہمارے علاقوں میں گھس کر ہمارے مجاہد بھائیوں اور پاک باز پردہ دار بہنوں کو اٹھا کر لے جائیں گے اور ان کو اس کا خمیازہ بھی نہیں بھگتنا پڑے گا؟!‘‘ صلاح کی غصے کی شدت سے آواز کپکپارہی تھی۔
’’تم نے کچھ سوچا ہے؟‘‘ ابو ذر نے اس کے تیور دیکھ کر پوچھا۔
’’ہاں! بہت آسان حل ہے!‘‘ صلاح مسکرایا۔
’’وہ کیا؟‘‘ ابو ذر اور حسن دونوں چونک گئے، ’’ہمیں بھی بتاؤ!‘‘
صلاح ان کو اپنا پلان بتانے لگا۔
٭٭٭٭٭
مسجد اقصی میں زائرین کا رش لگا ہوا تھا۔ کافی دنوں کے بعد مسجد میں دوبارہ رونق نظر آئی تھی ورنہ تو پچھلے کئی دنوں سے خوف و ہراس اور سختی کی وجہ سے مسلمان مسجد اقصیٰ کی زیارت بھی کرنے نہ جاسکے تھے۔ صلاح بھی بہت عرصے کے بعد اپنی اس محبوب مسجد کی زیارت کو آیا تھا۔ ہر مسلمان کی طرح اس کے دل میں اس مسجد کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
یہ ان کی مسجد تھی! یہ معراج کی جگہ تھی! یہ مصلی الانبیاء تھا! یہ قبلۂ اوّل تھا! مگر عجیب بات یہ تھی کہ مکہ اور مدینہ میں تو دنیا بھر کے لوگ نظر آتے تھے مگر یہاں مسجد اقصی میں سوائے فلسطینیوں کے کوئی دوسری قوم نظر نہ آتی تھی۔ مسلمان حسرت سے ٹی وی کی سکرینوں اور تصویروں میں ہی مسجد اقصی کو دیکھ کرآنسو بہا سکتے تھے۔ اتنی زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان کیوں بے بس تھے؟
صلاح یہی سوچتا ہوا مسجد اقصیٰ کے دروازے سے باہر نکلا۔ اس نے ایک دفعہ مڑ کر بہت محبت سے اپنی پیاری مسجد کو دیکھا۔
’’یا قبلۃ الاولیٰ! گواہ رہنا! تو ہمیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہے! ہم کسی صلاح الدین کا انتظار کرنے کی بجائے خود صلاح الدین بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ہم لوگوں کی راہ نہیں تکتے بلکہ خود اپنے لیے راہ بناتے ہیں!‘‘
وہ نم آنکھوں سے اس کو دیکھتا ہوا سرگوشی میں بولا۔
پھر وہاں سے پلٹ کر حرم سے ملحقہ بازار میں داخل ہوگیا ۔اس بازار کی دکانوں اور محلے کے لوگوں کو فلسطین میں ’حراس المدینہ‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے اور بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ وہ ابھی تک اپنی یہ جگہیں یہودیوں کو دینے پر تیار نہیں ہیں!
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے صلاح بازار سے ملحقہ ایک چیک پوائنٹ پر پہنچ گیا، یہی وہ جگہ تھی جہاں وہ پہنچنا چاہتا تھا۔ یہاں پر دس اسرائیلی فوجی کھڑے تھے۔ صلاح بھی خاموشی سے تلاشی دینے والے فلسطینیوں کی قطار میں کھڑا ہوگیا۔ انسانوں کی قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی تو بے اختیار اس کا ہاتھ اپنی جیب میں رینگ گیا اور اس نے جیب کے اندر موجود چیز کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔
اچانک چیک پوسٹ کی دوسری جانب سے آتی انسانوں کی قطار میں ابو ذر نظر آیا۔ دونوں کی نظریں چار ہوئیں اور دونوں نے مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا۔
’’ہاں! تم کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘اس کی باری آنے پر ایک یہودی نے پوچھا۔
’’میں؟‘‘ صلاح ذو معنی انداز میں مسکرایا، ’’میں جنت جانا چاہتا ہو!‘‘
پھر اس سے پہلے کہ یہودی فوجی کچھ سمجھ پاتا صلاح نے اپنی جیب سے ایک بڑا چاقو نکالا اور انتہائی سرعت سے اس کے گلے، سینے اور پیٹ پر پہ درپہ وار کیے۔یہودی دوہراہوگیا۔اسی لمحے ابو ذر کو بھی موقع مل گیا۔اس نے بھی اپنے نزدیک کھڑے دو فوجیوں کو چھرا گھونپ دیا۔پہلے فوجی کو دوہرا کردینے کے بعد صلاح بھی دوسرے فوجی پر حملہ آور ہو چکا تھا۔
چند لمحے اردگرد کھڑے فوجیوں کو صورتحال کا ادراک ہونے میں لگ گئے۔ معاملہ سمجھتے ہی انہوں نے صلاح اور ابو ذر پر فائر کھول دیے۔ صلاح کو گولی لگی تو وہ زمین پر گر گیا اور اس کے چہرے پر ایک بڑی سی مسکراہٹ سج گئی۔ اس کے خون سے عجیب مسحور کن سی خوشبو اٹھنے لگی۔
’’اے اللہ تو گواہ رہنا! ہم بیٹھے نہیں رہے! ہم باقی مسلمانوں کا انتظار نہیں کرتے رہے! ہم نے تیری محبوب مسجد کا دفاع کیا ہے، جب تک ہمارے جسم میں آخری سانس ہے، ہم تیری مسجد کا دفاع کرتے رہے گے!‘‘
وہ دل ہی دل میں اللہ سے باتیں کرتا زمین پر گر گیا۔
جنت کا سفر کرنے سے پہلے دونوں لڑکوں نے چار اسرائیلی فوجی قتل اور تین زخمی کر دیےتھے۔ جبکہ اگلے دن اسرائیل کے سرکاری اخبار میں دوفوجیوں کے قتل اور ایک فوجی کے زخمی ہونے کی خبر چھپی تھی۔
٭٭٭٭٭
صلاح نے تو اپنا فرض پورا کردیا مگر صلاح اور اس جیسے بے شمار فلسطینی مسلمان ہم سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ:
-
کیا مسجد اقصیٰ کا دفاع صرف فلسطینیوں کی ذمہ داری ہے؟
-
کیا ہمیں ان کی طرح مسجد اقصیٰ محبوب نہیں؟
-
کیا ثالث الحرمین شریفین کی زیارت کو جانا ہر مسلمان کا حق نہیں؟