نہ ہم بدلے، نہ گُل بدلے، نہ رنگِ گلستاں بدلا

امتِ مسلمہ آج اپنی تاریخ کے خطرناک ترین دورسے گزر رہی ہے، جس کو بھی اس مرحلے کی خطرناکی اور نزاکت کا احساس ہو اُسے سال رفتہ میں پاکستان کے اندر جو کچھ ہوتارہا دیکھ کر افسوس ہی ہوگا۔ امت کے زخم و درد اور اس کےسامنے چیلنجز و خطرات، پھر ہم پر اللہ کی طرف سے عائد ذمہ داریاں اور ان کا شعور، یہ سب جیسے ایک عالم کے غم ہوں جبکہ پاکستان میں حکومت و سیاست اور یہاں تحریکوں کی ترجیحات بالکل کسی دوسرے عالم سے تعلق رکھتی ہوں۔ ہم اہل ایمان ایک جسم کی مانند ہیں، فلسطین و پاکستان میں کوئی فرق نہیں بلکہ فلسطین کئی لحاظ سے ہمیں زیادہ عزیز اور اس کا مسئلہ ہمارے لیے زیادہ حساس ہونا چاہیے، غزہ میں بہتا خون ہمارےاپنے اور ہماری اولاد کے خون سے کسی طور ارزاں نہیں، وہاں کا درد اپنے سینے میں محسوس کرنا ہمارے اپنے زندہ ہونے کی علامت ہے اور اس تکلیف کا مداوا کرنااللہ کی طرف سے ہمارے اوپر عائد اہم ترین فرض ہے، مگر یہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی، پاکستان میں ہماری انفرادی واجتماعی، فکری و عملی اور تحریکی و قومی زندگی میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔

دوسروں کوچھوڑیےہم جو دینی شعور رکھتے ہیں، جو جانتے ہیں کہ اہل ایمان سب ایک جسم کی مانند ہیں اور جن کی خواہش بھی ہے کہ غزہ کی مدد کریں، آج یہ نصرت اگر ہمارے لیے ناممکن ہے تو یہ تو بہرحال ممکن تھا کہ ہم اپنے اس ضعف و مجبوری کے اسباب پر غور کرنے بیٹھتے، زمین پر موجود حقائق کاجائزہ لیتے اور شرعی احکامات کی رو سے اپنا یہ محاسبہ پھر کرتے کہ ہمارے سفر و سعی میں وہ کیا کمی ہے کہ جس سے آج ہم امت کے انتہائی اہم امور میں بھی بالکل بے اثر ہوگئے ہیں، ہماری بطورِ قوم وامت اور تحریک و گروہ وہ کیا کمی کوتاہی ہے کہ جس کی وجہ سے آج ہم پر ایسی قوتیں مسلط ہوگئیں جن کی وجہ سے ہم غزہ کی تباہی اور مسجداقصیٰ کی ویرانی کا تماشہ تو کررہے ہیں مگر انہیں بچانے کے لیے کسی اقدام کے قابل نہیں ؟ کیا یہ قابل افسوس نہیں کہ یہ غور وفکر یا محاسبہ ہم سے نہیں ہوااور ایسی کوئی ہل چل ہم میں نظر نہیں آئی کہ جس نے اس قوم میں فکر و احساس بیدار کرنے اور ان سوالات کے جواب تلاش کرنےکا ماحول پیدا کیا ہو؟

اچھی بس وہ شخصیات یا جماعتیں واقع ہوئیں جنہوں نے اپنے دکھ و غم کا اظہار کیا، غزہ کے حق میں احتجاج کیے، اسرائیل و امریکہ کے خلاف نعرے لگائے اور پھر یہاں کے حکمرانوں اور جرنیلوں کے سامنے مطالبات رکھ کر ان کے اوپر ہی ساری ذمہ داری ڈال دی۔ یہ طرز عمل اس لحاظ سے توقابل قدر ہے کہ خاموش تماشائی بننے سے تو بہتر تھا مگر ساتھ ہی یہ قابل افسوس بھی کچھ کم نہیں کہ ان حکمرانوں اور افواج کے سامنے یہ مطالبات رکھنا خود ہی اپنی تحریک و سعی کو بے وزن، بے ثمر اور مضحکہ خیز بنانا ہے۔آج تو وقت تھا کہ ان حکمرانوں کے سامنے مطالبات رکھنے کی بجائے خود ان کی حیثیت کے تعین کا موضوع کھولا جاتا، غزہ کے قیامت خیز مناظر نے ان افواج کے چہروں سے جو پردہ اٹھایا ہے اور استعمار کی طرف سے ہم پر مسلط نظام کی جو حقیقت واضح کردی ہے، یہ حقیقت قبول کی جاتی اور پھر ان افواج وحکمرانوں کی طرف دیکھنے اور ان کے ساتھ تعامل کرنے کا طریقہ متعین کیا جاتا۔

یہی موقع تھا کہ دین و امت کی حقیقی نصرت والی راہوں پر تبادلہ خیال کیاجاتا اور میدان ِعمل میں اتر کران راہوں پر سفر کے لیے غور و خوض ہوتا۔ ایسا ہوتا تو ہم نہ صرف امت مسلمہ کو کمزور کرنے والے عناصر و اعمال پہچان لیتے اور ان سے اجتناب کرتے بلکہ خود اپنے ملک، وطنِ عزیز پاکستان کی تباہی کے جو اسباب و وجوہات ہیں ان کابھی ادراک کر لیتے۔ مگر یہ سب کچھ یہاں نہیں ہوا، یہاں عوام اور ہم اہل ِدین خواص میں ایسی کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی کہ جس کو دیکھ کر یہ سمجھا جاسکے کہ غزہ کی قیامت خیز تباہی نے ہمیں بیدار کردیا ہے اوراس بنیاد پر یہ امید کی جاسکے کہ پچھلی ایک صدی میں بطورِ قوم وامت جو ہم سے کھوچکا، اس کی تلافی کرنے کی اب کوشش شروع ہوگی۔

بنیادی اوربالکل ابتدائی اقدام جس کی ہم سے بہرحال امید تھی وہ اس نظام کے باطل اور پُر فریب ہونے کا خود اقرار کرنااور دوسروں کے سامنے اس کے شیطانی کردار سے پردہ اٹھانا تھا۔ یہ ہم کرتے اور اس کے عالمی استعمار(استبداد) کے ہاتھ میں ایک ہتھیار ہونے کی حقیقت کو عوام کے سامنے لاتے تو یہ بھی ایک مثبت پیش رفت ہوتی، یہ وہ بنیاد ہوتی جس پر آزادی ٔ امت کی عمارت تعمیر کی جاتی، مگر افسوس کہ صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ثابت ہوئی۔ ہم اس اہم ترین اور بالکل ابتدائی قدم کے اٹھانے سے بھی قاصر نظر آئے۔مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا،آپ ﷺ کا فرمان ہے : ’’لا يُلْدَغُ المؤمنُ من جُحْرٍ مرتين‘‘، جبکہ ہمارا حال اُس سادہ لوح جیسا ہے جو دھوکہ کھانے کے لیے دشمن کے آگے خود ہی اپنا آپ پیش کرتاہے، دھوکہ کھاکر خوش ہوتاہے، جشن مناتاہے، اسے اپنا کارنامہ بتاتاہے اوردوسروں سے بھی ناراض ہوتاہے کہ وہ اس کے ساتھ ’جشن‘ میں شریک کیوں نہیں ہوتے۔حالیہ مثال سودی نظام کے خاتمے والی ترمیم اور اس پر ہماراردِّعمل ہے۔ کاش یہ خبر واقعی خوش خبری ہوتی، مگر سچ یہ ہے اور اس سچ کو ہر وہ شخص جانتاہے جس کی نظر میں پاکستان، اس کے آئین و قانون کی حیثیت وتاریخ اور اس میں اسلامی دفعات کے ساتھ روا رکھا گیا کھلواڑ ہو کہ یہ وعدہ وترمیم پاکستانیوں کے دینی جذبات اور عقل وفہم کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں۔

ترمیم حقیقت میں کیا تھی اور اس میں کس طرح ایک آدھ سطر کا اضافہ کرکے کیا رنگ دیا گیا۔ سب جانتے تھے کہ اس کہانی کا مقصد عدلیہ کو اسٹیبلشمنٹ کے مزید تابع کرنا تھا۔ پہلے ججز سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس بنتے تھے، اس میں پھر ایسے بھی آجاتے تھے جومحض جرنیلوں کی فرمائش اور حکم پر ہی لیفٹ رائیٹ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی ترجیحات کا بھی پاس کرتے تھے۔ اب اس ترمیم کے بعد پارلیمانی کمیٹی نے چیف جسٹس کا انتخاب کرنا ہے اور چونکہ یہاں پارلیمنٹ وحکومت اسٹیبلشمنٹ ہی کی نوکر رکھی جاتی ہے، لہٰذا عدلیہ اور حکومت دونوں اب ایک ہی جرنیل شاہی کی لاٹھی سے، پہلے سے زیادہ ’ڈسپلن‘ کے ساتھ ہانکی جائیں گی اور ایسا کرنے میں آئینی خلاف ورزی بھی نہیں ہوگی۔ یہ اس ترمیم کا اصل حاصل تھا جس کے لیے اراکینِ پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالاگیا اور جوڑ توڑ کی کوشش کی گئی۔ اراکینِ پارلیمنٹ کی خریدوفروخت کا جواز بھی اس سے پیدا کیاگیا، مگر اصل یہی ہے کہ جرنیلوں کی نظام پر گرفت مزید آسان اور قانونی ہوجائے اور ساتھ ساتھ سیاست دانوں کو بھی ایک خاص دائرے میں قدرے اختیار کا احساس دیا جائے۔ اس سارے میں کہیں سود زیربحث نہیں تھا مگر ترمیم جب منظور ہوئی تو اچانک یہ خبر بھی دی گئی کہ جنوری ۲۰۲۸ء تک سودی نظام ختم کر دیا جائے گا۔ یہ خبر چھوٹی تھی مگر ’ہماری‘ خواہش اور اخلاص نے اس کو کافی بڑا کردیا۔ پھر مبارک بادیں وصول ہونا شروع ہوئیں اور جشن کا سا سماں بنا دیاگیا، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جو خبر دی جارہی ہے کیا یہ واقعی کوئی ایسی بات ہے کہ جس کو بطورِ خبر لینا چاہیے؟ کیا ترمیم کا یہی مطلب ہے جو خبر میں بتایا جا رہا ہے؟ کیا موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے سچ مُچ سود ختم ہوجائے گا؟ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی کے باوجود پاکستان میں ہمیں ایک پاکیزہ اسلامی معیشت میسر ہوجائے گی؟ اگر ہاں، تو کیسے؟ وہ کیا روڈ میپ ہے کہ جس کی بنیاد پر اتنا بڑا دعویٰ کیا جارہاہے اور وہ روڈمیپ اس باطل نظام کے اندر چل سکتاہے؟ یہ خبر دینے والے اور اس پر خوشی منانے والے ہمارے اہل دین ہیں، سوال یہ ہےکہ وہ کون سی قوت ہے کہ جوپہلے ان حضرات کے پاس نہیں تھی اور آج ہی ان کے ہاتھ میں اچانک آگئی کہ باجود یہ کہ ملک کے مقتدر طبقات دین بیزار اور عالمی نظامِ باطل کے سرتاپا غلام ہیں مگر اس کے باوجود یہ حضرات اس اسلامی اصول کو نافذکرلیں گے؟

پھر سود ختم کرنے کا یہ وعدہ کوئی پہلی دفعہ تونہیں کیاگیا۔ ۱۹۵۶ء، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء تینوں آئینوں میں یہ عہد و عزم موجود ہے کہ سودی نظام جلدازجلد ختم کیا جائے گا۔ وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام کےخلاف پچھلے چونتیس سال سے کیسز پڑے تھے، اس نے اس عرصہ میں چار دفعہ سود کی حرمت کا حکم جاری کیاہے جبکہ سپریم کورٹ نے بھی ایک دفعہ اس کے حکم کی توثیق کی، مگر اس کے باوجود اربابِ اقتدار نے کبھی کھلم کھلا ان فیصلوں کو چیلنج کیا اور عدالتی فیصلے کو التوا میں ڈالا تو کبھی حیلے بہانوں سے سودی نظام کو ہی غیر سودی دکھانے کی کوشش کی اور وعدوں پر وعدے کیے۔

موجودہ ترمیم میں وقت کا تعین کیا گیا ہے مگر جوالفاظ استعمال ہوئے ہیں ان سے یہ واضح نہیں کہ بہرحال یہ کام ہوجائے گا۔ لکھاہے، ۲۰۲۸ء میں سود ختم کیا جائے گا،مگرساتھ ہی تحریرہے،’As far as practicable‘ یعنی جتنا قابل عمل ہو،جتنا ممکن ہو، گویا کل بڑی آسانی کے ساتھ کہا جا سکتاہےکہ اتنا ہوا یا سیدھا یہی کہہ دیا جائے کہ It’s not practical، یہ مطلب نہ ہو تو ان الفاظ کے لکھنے کی ضرورت کیا تھی؟ اگر استطاعت کی شرط لکھنی تھی تو پھر تو آئین کی ہرہر شق کے ساتھ استطاعت کی شرط رکھی جاسکتی ہے صرف سود کے ساتھ ہی کیوں خاص ہے؟ بالفرض آئین میں یہ لکھا گیا اور واضح طورپر لکھا گیا کہ اس عرصہ میں سودی نظام ختم کردیا جائے گا تو کیا آئین میں پہلے سے جو وعدے کیے گئے ہیں، اسلامی دفعات شامل کی گئی ہیں اور جنہیں آج تک ہمیں یادبھی دلایاجاتا ہے، کیا ان میں سے کسی ایک پر آج تک عمل ہوپایا ہے کہ موجودہ ترمیم پربھی کماحقہ عمل ہوجائے گا؟ کیا خود ہمارے دینی طبقات آئین میں کیے گئے وعدوں کی ارباب ِ اقتدار کی طرف سے خلاف ورزی کا رونا نہیں روتے؟

یہی آئین ہے کہ جس میں قراردادِ مقاصد شامل کرکے اس کے اسلامی ہونے کا اعلان کیا گیا تھا اور اس کی بنیاد پر کہا جانے لگا تھاکہ ریاست نے اب کلمہ پڑھ لیا، مگر اس کے اس کلمے نے تب بھی اس کو مسلمان نہیں کیا اسی لیے ۷۳ء میں اس کے اندر ایک اور اعلان بھی شامل کیاگیاکہ کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ عرصۂ دراز تک جب یہ عہدو عزم بھی کسی مرض کی دوا نہیں بنا اور اس پر سوالات کھڑے کیے گئے تو برملا کہا گیا کہ اس اعلان کی حیثیت محض ایک وعدے کی ہے، نہ کہ یہ کوئی ایسی آئینی شق ہے کہ جو غیر شرعی قانون سازی روکنے کی بھی موجب بنے1۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ جس طرح اسلامی شقیں پارلیمنٹ نے آئین میں شامل کی ہیں اوروہ محترم ہیں،یہ دیگر( غیر اسلامی) شقیں بھی اسی پارلیمنٹ کی اکثریت نے پاس کی ہیں،لہٰذا اُن کابھی برابر احترام لازم ہے۔

اہلِ دین ہی کی خواہش پر اسلامی نظریاتی کونسل ۱۹۸۰ء میں بنائی گئی کہ جو قوانین غیر اسلامی ہوں انہیں یہ کالعدم قرار دے، مگر اس کا’ توڑ‘ بھی کچھ اس طرح نکالا گیا کہ اس کی حیثیت ہی محض اور محض سفارشی رکھی گئی اور (قانونی لحاظ سے) اصل اختیار پارلیمنٹ ہی کے پاس رکھا گیاکہ اسلامی نظریاتی کونسل جو بھی سفارشات پیش کرے، قبول اور رد کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہی ہوگا، وہ چاہے تو احسان کرکے ا نہیں قبول کرےاور چاہے تو انہیں (نعوذ باللہ ) ردی کی ٹوکری میں پھینکے اور اس کی جگہ اپنا غیر شرعی قانون پاس کرے۔ اس کے بعد وفاقی شرعی عدالت بنائی گئی اورایک دفعہ پھر امید دلائی گئی کہ اس سے مقصد پورا ہوجائے گا، مگر اس کو بھی سپریم کورٹ کے ماتحت رکھاگیا۔ یہ پاکستان کی اسلامی ریاست ہےکہ جہاں کہنے کو تو آئین میں اسلامی دفعات شامل ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل بھی ہے، وفاقی شرعی عدالت بھی مگر اس سب کے باوجود نظامِ مملکت مکمل طورپر غیر شرعی بنیادوں پر چل رہاہے۔ وہی انگریز کا نظام ہے جو عدالتوں میں چلتاہے، قانون بھی وہی اور عدالتی طریق کار بھی وہی۔ معیشت، معاشرت، میڈیا اور تعلیم کسی ایک جگہ بھی کیا کوئی ثابت کرسکتاہے کہ وہاں شریعت محمدی ﷺ نافذ ہے؟ دیت جیسے شرعی قوانین صرف اُس وقت ہی یہاں یاد آتے ہیں جب شریعت ہی کا مذاق اڑاناہو اور ریمنڈڈیوس اور نتاشا دانش جیسے ’خواص‘ کو سہولت دلانی ہو۔ یہ اسلامی ریاست ہے جہاں ’حقوق نسواں‘ بل بھی پاس ہوجاتاہے کہ جس کے متعلق خود دینی جماعتوں نے ہی کہا ہے کہ یہ زنا بل ہے کہ اس سے زنا بالرضا اب قانونی لحاظ سے جائز بن گیا۔ رینڈ کاپوریشن نے اپنی کتابوں میں لکھاہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں چونکہ دینی طبقات کی طرف سے شرعی قوانین کا مطالبہ ہے اس لیے یہاں آئین و قانون میں اسلامی دفعات تو شامل کی جائیں مگر ان پر عمل نہ ہونے دیا جائے2، تاکہ نعوذ باللہ شیطان کے بندے بھی خوش ہوں اور رحمان والے بھی خاموش ہوں! پچھلی پون صدی سے یہاں یہی تو ہورہاہے۔

آپ اس معاملے کی مضحکہ خیزی دیکھیے کہ یہ ’ترمیم‘ ایک ایسے وقت میں ہوئی جب دونوں ایوانوں کے اندرحکومت اور اپوزیشن دونوں میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں شریعت کو کبھی داخل نہیں ہونے دیا، یہ وہ جاگیردار و سرمایہ دار ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دورِ حکومت میں سودی نظام نافذ کیے رکھا اور سودی نظام کے دفاع کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ دوسری طرف ہماری جس دینی جماعت نے یہ ترمیم پیش کی ہے سب جانتے ہیں کہ دونوں ایوانوں میں اس کی نمائندگی نہ ہونے کے برابرہے، گویااس ترمیم کوپاس کرنے کا اصل باعث وہ لوگ بنے جوخود دین بیزار ہیں اور جنہیں نفاذِ شریعت کے ساتھ نہ صرف یہ کہ دلچسپی نہیں، بلکہ اپنی سیاست و زندگی میں اس کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں۔ اس کی اس کے علاوہ کیا تفسیر ہوسکتی ہے کہ اس سے مقصد محض دین پسند طبقات کا منہ بند کرناہے اور آگے بھی اسی دجل وفریب سے کام لیا جائے گا جو آئین کی دیگر اسلامی دفعات کے ساتھ روا رکھاگیاہے۔

افسوس ہے کہ پاکستانی آئین میں جتنی دینی شقیں داخل کی گئیں، انہوں نے پاکستان میں نفاذِ شریعت کے اندر تو کوئی کردار ادا نہیں کیا، نہ ان کے باعث پاکستان کے معاشرے میں بے دینی کے آگے کوئی بند باندھا جا سکااور نہ ہی ان شقوں نے یہاں کی فوجی قیادت کو اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف امریکہ کی جنگ میں آلۂ کار بننے سے روکا، یہ سب بنیادی اہم کام تو اس ’اسلامائزیشن‘ سے نہیں ہوسکے، مگر ایک ’فائدہ‘ اس سے ضرور حاصل ہوا، وہ یہ کہ جو بھی اس باطل نظام کے خلاف اٹھتا ہے اور اس کی تبدیلی کے لیے سنجیدہ تحریک شروع کرتا ہے تو اسے بٹھانے اور چپ کرانے کے لیے پھر یہ اسلامی شقیں پیش کی جاتی ہیں، تب انہیں سمجھایاجاتاہے کہ آپ ایک اسلامی ریاست کے خلاف بغاوت کے مرتکب ہورہے ہیں، یہاں کے حکمران شرعی اولوالامر ہیں اور ان کی اطاعت اسلامی فریضہ ہے۔

دکھ کی بات ہے کہ ہمارے اہلِ دین میں ابھی تک ایک طبقہ ایسا ہے جوپاکستان میں قائم انگریز کے چھوڑے اس نظام کو ہی واحد اور تنہا آپشن کے طورپر دیکھتا ہے۔ یہ نظام اوپر سے نیچے تک مکمل باطل ہے،لیکن یہ اگر اپنے اندر سے تھوڑی سی امید بھی اس طبقے کو دکھائے، چاہے وہ امید اپنے اندر انتہائی کمزور ہی کیوں نہ ہو اور چاہے وہ واضح طورپر فریب اوردھوکہ ہی کیوں نظر نہ آئے، یہ طبقہ اُس کی طرف لپک کر اسے ہاتھوں ہاتھ لیتاہے اور اس کی وجہ سے اس کا دفاع پھر کرتاہے اور اس کا تزکیہ شروع کرتا ہے، حالانکہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ ایسی ساری امیدیں طفل تسلیوں سے زیادہ مفید کبھی ثابت نہیں ہوئیں۔ یہ طبقہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس نظام میں یہ خود کبھی بااختیار نہیں رہا، تقسیمِ ہند سے لے کر آج تک اس کا کردار محض مطالبات رکھنے والا رہا ہے، اس نظام کی تشکیل و اصلاح میں کبھی ایک دفعہ بھی انہیں کوئی فعال کردار نہیں دیا گیا۔ یہ حضرات یہ سب جانتے ہیں بلکہ خود بارہا یہ اس حقیقت کو اپنی زبانوں پر لاچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہاں اربابِ اقتدار دین بیزار ہیں، یہ نظام باطل ہے، اس کو چلانے والے اپنی ذہنیت وکردار میں وہی فرنگی ہیں اور آج بھی یہ داخلی اور خارجی امور میں انہی اصولوں پر کاربند ہیں جو عصرِ حاضر کے عالمی استعمار کی طرف سے انہیں دیے جاتے ہیں، مگر اس سب کے باوجود ہمارا یہ طبقہ اس نظام سے ہٹ کر تبدیلی لانے کا سوچنا تک گوارا نہیں کرتا اور یوں یہاں پر مسلط حکمران طبقات ان سے اس قبیح نظام کی محض تزئین و آرائش کا ہی کام لیتاہے۔ اپنے ان محترم بھائیوں اور بزرگوں سے ہم انتہائی ادب کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ کیا اس نظام کے اندر رہتے ہوئے دنیامیں کسی ایک جگہ شریعت نافذ ہوئی ہے کہ پاکستان میں نافذ ہوجائے گی؟ اللہ کی کتاب اور اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ یہ دین کبھی ایسے لوگوں کے ہاتھوں قائم نہیں ہوا جو اس سے بیزار ہوں، اس کے ساتھ خیانت کرنے والے ہوں اور جنہوں نے امتِ مسلمہ اور ملتِ کفر کے بیچ جنگ میں اہلِ کفر کے اتحادی جبکہ اہل اسلام کے خلاف ہمیشہ کردار ادا کیاہو۔ جب ایسا ہے تو یہاں ہم کیسے یہ امید رکھیں کہ انہی دین مخالف طبقات کی ترامیم و نام نہاد اصلاحات کے ذریعے اللہ کا دین غالب ہوجائے گا اور ان اقدامات کے ذریعے یہاں کوئی اسلامی معاشرہ بن پائے گا؟ یہ دین ایسے فداکار مخلصین کے ذریعے ہی قائم ہوتاہے جو دوسروں سے پہلے اپنے اوپر اس دین کو نافذ کرتے ہیں اور جو اپنی جان و مال اور اولاد اس دین کے قیام کے لیے قربان کرتے ہیں۔ ہم اہل دین ایسی قوت کی تیاری کے لیے کیوں اپنے مساعی وقف نہیں کرتے اور کیوں ہم زمین پر اتر کر ان شرعی اور تاریخی حقائق کو قبول نہیں کرتے؟ کیا دینِ اسلام کو آزمائش اور قربانی دیے بغیر بھی کبھی تمکین ملی ہے؟ اگر نہیں تو ہم ان دین بیزار طبقات کی فراہم کردہ گنجائشوں سے کیوں خود بھی امیدیں وابستہ کرتے ہیں اور قوم کو بھی اس سراب کے پیچھے لگاتے ہیں؟

ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ کو حقیقت پسند بنائیں اور پھر معاشرے میں اتر کر ایک ایسی نسل تیار کریں اور ایسا لشکر تشکیل دیں اور اس کی مدد و نصرت کریں جو نہ صرف یہ کہ شریعتِ محمدﷺ کی شیدائی ہو، بلکہ وہ اسلام کی تنفیذ و قیام میں بھی خود مختار اور خود انحصار ہو۔ اگر کوئی شخص یا گروہ بہت زیادہ صالح تو ہو مگر تنفیذِ دین کے لیے دین بیزار جرنیلوں اور نفس پرست بیوروکریسی کا محتاج ہو تو ایک عام ذہن بھی ایسے صالحین کی سادہ لوحی کی گواہی دے گا اور ان کی محض نیک نیتی کی وجہ سے ان کے پیچھے جانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوگا۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم شرعی راستے کے ذریعے اس ملک میں شریعت لانے کی کوشش شروع کریں، ایسا اگر ہم نے کیا تو پھر حقیقت یہ ہے کہ ہم غزہ کا درد بھی اس امید کے ساتھ سہیں گے کہ آج نہیں تو کل ہم مسجدِ اقصی کی کوئی مدد کرپائیں گے، لیکن اگر اس نظام کے اندر رہ کر اسی کی باطل بیساکھیوں کے ذریعے اسلام لانے کے خواب دیکھیں گے اور دکھائیں گے تو پچاس سال بعد بھی روئیں گے کہ ہم غلام ہیں اور اپنے مقدسات کی مدد کے لیے ہم کسی قسم کی مدد کے قابل نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی نظر، اپنی سوچ اور اپنی تحریک میں مطلوب شرعی تبدیلی لائیں، ایسی تبدیلی کہ یہ امیدِ واثق ہو کہ آج نہیں تو کل کا سورج ضرور ایسے طلوع ہوگا کہ یہاں اللہ کی کتاب غالب ہوگی اور انگریز اور اس کے ایجنٹوں کا دین مغلوب ہوگا۔ ضروری ہے کہ ہماری جدوجہد اور تحریک ایسی مصمم اور پر عزم ہو کہ اس کے آغاز میں ہمیں یقین ہو کہ اس کی منزل صبح کاذب نہیں، بلکہ بہر صورت صبح صادق ہے۔ اللہ نے ایسی منزل تک پہنچنے کا بہ ہر صورت ہمیں مکلف نہیں بنایا ہے مگر ایسی تحریک چلانے کا ضرور ہمیں مکلف کیا ہے جو موافق شرع ہو اور جس کی منزل شریعت ہی کا غلبہ اور امت مسلمہ کی آزادی ہی ہو۔ سفر ومنزل اگر ایسے ہوں تو تب ہی اللہ نصرت فرماتاہے اور ایسے ہی بندوں کے ذریعے باطل کو نیست و نابود کرتاہے۔ اللہ ہماری رہنمائی فرمائیں اور ہمیں توفیق دیں کہ ہم اس کے لشکر بن جائیں اور اس کے دین کی نصرت میں اس کے ہاتھوں استعمال ہوں، آمین ثم آمین۔

٭٭٭٭٭


1پاکستان میں نفاذِ شریعت کے مسائل، از مولانا مفتی محمد تقی عثمانی (دامت برکاتہم)، صفحہ ۴۰

2 ’’رینڈ کا رپوریشن ‘‘ ایک امریکی تھنک ٹینک ہے،امریکی حکومت کی زیادہ تر پالیسیاں اس ادارے کی تجاویز کی روشنی میں بنتی ہیں۔سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس ادارے کا اہم ترین ہدف عالم اسلام کی آزادی کے سامنے بند باندھنا اور یہاں اپنے آلۂ کار دین دشمن طبقات کو حاکم رکھنا ہے۔ یہ ادارہ سالانہ بیسیوں کتابیں اور رپورٹیں نشر کرتا ہے،انہی میں سے ایک کتابچہ Civil Democratic Islam ہے جو 2005میں نشر ہوا۔ اس کتا بچے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اصل اسلام ہمیں منظور نہیں ہے بلکہ اس اسلام کو اپنی خواہش کے مطابق’سول جمہوری اسلام ‘میں تبدیل کرنا ضروری ہے، کتاب کی یہودی مصنفہ عالم اسلام میں نفاذ اسلام کے مطالبے کے متعلق سوال اٹھاتی ہے کہ اس کے ساتھ کیسے نمٹا جائے ؟ جواب کے طور پر وہ پاکستان کی مثال دیتی ہے کہ کیسے یہاں دین پسند قوتوں اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی ہے، کہتی ہے،پاکستان کی سیاست میں ’بنیاد پرست‘موجود ہیں اور یہاں کے عوام بھی اسلام سے محبت رکھتے ہیں۔ اب ایسے میں اگر شرعی قوانین کو مکمل طور پر چھوڑا جاتا ہے تو دینی قوتیں مزاحمت کریں گی اور اگر یہ قوانین عملاً نافذ کیے جاتے ہیں تو بین الاقوامی برادری (یعنی امریکہ و مغرب ) کو یہ قبول نہیں ہوں گے۔ مصنفہ کہتی ہے کہ یہاں اس کا آسان حل ہے اور وہ یہ کہ ’بعض شرعی قوانین کو آئین کا حصہ تو بنایا جائے مگر ان پر عمل درآمد بالکل بھی نہ ہو ‘(دیکھیے مذکورہ کتاب کا صفحہ 18)گویا اس سے دینداروں کے منہ بھی بند ہوں گے اور دین دشمن بھی ناراض نہیں ہوں گے۔

Exit mobile version