اس تحریر میں مختلف موضوعات پر کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کی آرائ پیش کی جاتی ہیں۔ ان آراء اور کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کے تمام افکار و آراء سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ (ادارہ)
اس شمارے کے کالموں کے جائزے میں درج ذیل موضوعات شامل ہیں:
-
بھارت
-
مذہب تبدیلی کا قانون
-
توہینِ رسالت اور مذہبی منافرت
-
-
پاکستان
-
پاکستان اسرائیل تعلقات اور عمران خان
-
سوشل میڈیا غلاظت
-
-
فلسطین
-
خطے میں پھیلتی جنگ اور مغربی میڈیا کا منافقانہ کردار
-
نسل کشی کا ایک سال
-
فلسطینی جذبہ جہاد و شہادت
-
بھارت | مذہب تبدیلی کا قانون
بھارت کے مسلمان بدستور انتہا پسند ہندوؤں کے زیر عتاب ہیں۔ گزشتہ ماہ روزانہ کے حساب سے مسلمانوں کے خلاف ’ماب لنچنگ‘، تشدد اور مذہبی منافرت کے واقعات تواتر سے سامنے آتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کو سیکولر کانگرس سے، جو کہ مضبوط اپوزیشن ہے، بہت امیدیں وابستہ تھیں جو آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں۔ عام ہندوستانی مسلمان مایوسی اور احساس کمتری میں تیزی سے گرتا جا رہا ہے۔ چونکہ حکومت مسلم مخالف مودی کی ہے تو ہر حکومتی ادارہ چاہے عدلیہ ہو، پولیس ہو یا دیگر ریاستی ادارے سب نے ہی مسلمانوں کے خلاف ایکا کر لیا ہے۔
اس حوالے سے وہاں کے صحافی آواز اٹھا رہے ہیں۔ یہاں ہم ندیم عبد القدیر کے کالم سے اقتباس پیش کر رہے ہیں کہ بھارتی عدالتیں کس طرح ’تبدیلیٔ مذہب کے قانون‘ کو مسلمان داعیانِ دین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
تبدیلیٔ مذہب کا قانون اور گمشدہ انصاف| ندیم عبد القدیر
’’ہندوستانی عدلیہ کی غیر جانبداری پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ شکوک و شبہات گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ عدلیہ گزشتہ ۷۵ سال سے کبھی ایسے دور سے نہیں گزری جس دور سے وہ اب گزر رہی ہے۔ عدلیہ کا ایک وقار رہا ہے، لیکن حال یہ ہے کہ روز بروز اس کا یہ بلند وقار متاثرہو رہا ہے۔ لکھنؤ میں این آئی اے عدالت کے ایک براہمن جج ’وویکا ننتر پاٹھی‘ نے تبدیلیٔ مذہب کے ایک معاملے میں مولانا کلیم اور مولانا عمر گوتم سمیت بارہ داعیانِ اسلام کو عمر قید اور چار کو دس سال قید کی سزا سنا دی ہے۔
……سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کا تبدیلیٔ مذہب کا قانون ہی غلط ہے۔ آج کی دنیا کی کسی بھی بڑی جمہوریت میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں مذہب تبدیل کرنے کی سزا عمر قید ہو۔ ہندوستان سیکولر ملک ہے، ہر ایک شہری کو آزادی ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کو مانے اور اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرے۔ ایسے ملک میں اس قانون کا ہونا ہی ملک کے ہر شہری کی مذہبی آزادی کے منافی ہے۔
……اس قانون کا سب سے بڑا کھیل یہ ہے کہ اس قانون کے تحت آج تک صرف مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہی گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کا استعمال کبھی بھی ہندوؤں یا ہندو تنظیموں کے خلاف نہیں ہوا، جو غیر ہندو کو ہندو بناتی ہیں۔ اتر پردیش میں ایسے سینکڑوں معاملات ہیں جن میں ہندو تنظیمیں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنا رہی ہیں، لیکن تبدیلیٔ مذہب کے قانون کا استعمال ایسی تنظیموں کے خلاف کبھی نہیں ہوا۔ سینکڑوں مسلم لڑکیوں کو بھگوا لو ٹریپ کے تحت عشق کے جال میں پھنسا کر انہیں ہندو بنایا جا رہا ہے۔ لیکن ایسے معاملات میں کوئی بھی ایکشن نہیں لیا جاتا۔
……غرض ہندوستان کا تبدیلیٔ مذہب کا قانون کاغذ پر تو تمام مذاہب پر یکساں نافذ کیے جانے کی بات کرتا ہے لیکن حقیقت کی زمین پر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے کام میں روڑے اٹکانے کے لیے اس قانون کے بہانے اوٹ پٹانگ، اول جلول، واہیات اور بے سرپیر کی کہانیاں گھڑی جا تی ہیں۔ حتیٰ کہ قانون میں دیے گئے تقاضوں کو بھی پورا نہیں کیا جاتا۔ عمر گوتم اور مولانا کلیم اللہ سمیت درجن بھر مسلمانوں کو سزا سنائے جانے کے اس معاملے میں بھی یہی ہوا۔ ‘‘
[اردو ٹائمز]
بھارت | توہین رسالت اور مذہبی منافرت
بھارت میں یکے بعد دیگرے تین بڑے واقعات میں ہندوؤں کے راہنماؤں اور سادھوؤں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا اور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی۔ پہلے ہندو سادھو رام گیری ملعون نے بھرے مجمع میں تقریر کے دوران شانِ رسالت ﷺ میں گستاخانہ کلمات کہے اور بعد میں بھی اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا۔ پھر نتیش رانے ملعون نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا کہ ہمیں موقع ملے تو مسلمانوں کو مساجد میں گھس کر قتل کریں گے۔ اور اب ملعون یتی نرسنگھانند نے اپنی ناپاک زبان سے نبیِ پاک ﷺ کے خلاف توہین آمیز بیانات دیے۔ یتی نرسنگھانند ملعون پہلے بھی کئی بار نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کر چکا ہے، اور ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا رہا ہے۔ لیکن چونکہ یہ سب کچھ باقاعدہ سازش کے ذریعے حکومتی سرپرستی میں ہو رہا ہے اس لیے ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔ اس متعلق پورے بھارت میں احتجاج ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر آئے اور شاتمِ رسول ﷺ کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا، لیکن نتیجہ صفر رہا۔
فاروق انصاری اردو ٹائمز میں لکھتے ہیں:
آخر نتیش رانے میں کیا ہے کہ پولیس کاروائی سے ڈر رہی ہے……؟ | فاروق انصاری
’’نتیش رانے نے جو جو جملے مسلمانوں کے خلاف کہے ہیں اگر اس طرح کے جملے کسی مسلمان لیڈر نے ہندوؤں کے خلاف کہے ہوتے تو اب تک اس کے پورے گھر والے جیل میں ہوتے اور مہاراشٹر کے باہر کا معاملہ ہوتا تو اب تک اس مسلمان کے گھر پر بلڈوزر بھی چل گیا ہوتا، مگر یہاں ایک ایم ایل اے ہے وہ بھی بی جے پی کا۔ اس لیے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو رہی ہے۔ اگر پولیس اس طرح خاموش رہی تو کوئی سر پھرا مسلمان ہی کاروائی کر دے گا۔ اس لیے شندے سرکار کچھ تو غیرت مند بنتے ہوئے قانون کے مطابق کام کرے۔
……اگر نتیش رانے اس طرح کا بیان دیتے رہے کہ پولیس کو چوبیس گھنٹے کے لیے ہٹا لو ہم مسجدوں میں گھس گھس کر مسلمانوں کو ماریں گے تو اس کا ردّ عمل بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ مسلمان کتنا صبر کرے گا، کتنا درگزر کرے گا۔ اس کی بھی تو عزت نفس ہے، اور وہ بھی تو منہ میں زبان اور بازوؤں میں طاقت رکھتا ہے، اس لیے رانے یا سرکار مسلمانوں کی خاموشی کو ان کی کمزوری نہ سمجھے وہ صبر اس لیے کر رہا ہے تاکہ امن و امان و بھائی چارہ و یکجہتی برقرار رہے۔ لیکن اگر دوسرے امن کو تباہ کرنے پر مسلسل آمادہ ہی ہیں اور سرکار رتماشائی ہے تو ماحول خراب ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔‘‘
[اردو ٹائمز]
روزنامہ اردو ٹائمز نے اپنے اداریے میں توہین مذہب کے مرتکب افراد کے خلاف باقاعدہ قوانین بنانے کی سفارش کی ہے ۔
مذہبی دل آزاری کا سخت قانون بنایا جائے | اداریہ
’’سرکار کو چاہیے کہ وہ مذہبی دل آزاری کا سخت قانون بنائے، وہ سزا یا تو پھانسی ہو یا عمر قید۔کیونکہ ایسے لوگوں کا سماج میں رہنا بھی خطرناک ہے۔ کسی بھی مذہب کی کوئی بھی دل آزاری کرے تو اسے کوئی برداشت نہیں کرے گا، کیونکہ مذہب سب کو عزیز ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے جان بھی دے سکتا ہے۔یتی نرسنگھانند کے حسب و نسب پر ہم جانا نہیں چاہتے لیکن اس کی مبینہ حرکتوں کی وجہ سے سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ وہ بھگوا چولے کی آڑ میں سماج میں نفرت پھیلانے کا ایسا سنگین گناہ کر رہا ہے کہ اسے سیدھا پھانسی ہی ہونی چاہیے عمر قید بھی نہیں۔ کیونکہ عمر قید میں وہ جیل میں رہ کر مفت کی روٹیاں توڑ کر سرکار کا بھی نقصان کرے گا۔ اس لیے ایسے گستاخ اور ملعون شخص کو سماج سے الگ جیل میں بند رکھنا چاہیے یا پھر ایسے لوگوں کو پھانسی دے کر قصہ ہی ختم کر دینا چاہیے۔ ایسے لوگ مہذب سماج میں ناسور اور یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہوتے ہیں۔ اس لیے سرکار کو چاہیے کہ مذہبی دل آزاری کا سخت قانون بنایا جائے تاکہ کسی بھی مذہب کی دل آزاری نہ ہو۔ کچھ لوگ مسلمانوں کی مذہبی دل آزاری کی جیسے مہم چلائے ہوئے ہیں ایسے لوگوں کے لیے سخت قانون ہونا ضروری ہے۔ ‘‘
[اردو ٹائمز]
دیکھا جائے تو انڈیا میں توہین مذہب یا توہین رسالت کے متعلق باقاعدہ قوانین نہیں ہیں۔ بلکہ تعزیرات ہند کے مطابق دفعات ۲۹۹ سے ۳۰۲ میں مذہبی اہانت اور مذہبی جذبات مجروح کرنے کے معاملات کی تشریح کی گئی ہے۔ دفعہ ۳۰۲ میں لکھا ہے:
’’کوئی بھی شخص جو کسی شخص کے مذہبی جذبات کو دانستہ طور پر مجروح کرنے کے لیے کوئی بات کہتا ہے، اس مقصد سے کوئی آواز نکالتا ہے یا کوئی ایسی حرکت کرتا ہے تو ایسا شخص زیادہ سے زیادہ ایک برس تک قید یا جرمانے یا دونوں کی سزا کا مستحق ہو گا۔‘‘
یتی نرسنگھانند کے خلاف دفعہ ۳۰۲ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ لیکن ماضی کی طرح اب بھی اس کی فوری ضمانت ہو جائے گی۔ ایسے میں ہندوستان کے مسلمان اپنے لیے کوئی خاص قانون پاس کروانے کی اہلیت تو نہیں رکھتے، البتہ اگر تھوڑی ہمت و جرات کا مظاہرہ کریں اور شاتمِ رسولﷺ کو خود جہنم واصل کریں تو باقی ہندوؤں کے لیے سبق ہوگا۔ ہندو ایک بزدل قوم ہے، یہ تو طاقت کے نشے میں دھت اسرائیل کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مسلمانوں کو کچلنا چاہ رہے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے حق کے لیے طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔ اگر ہندوستان کے مسلمان مسلسل بڑھتے حملوں اور ہندوؤں کی جانب سے ذلت آمیز سلوک بھی سہتے رہے، نبی کریم ﷺ کی توہین بھی برداشت کرتے رہے تو یہ مسلمانوں کی غیرت و حمیت کی موت ہے۔ آخر اب بھی نہ اٹھے تو کب اٹھیں گے؟
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اک تم کہ جم گئے ہو جمادات کی طرح
اک وہ کہ گویا تیر کماں سے نکل گیا
پاکستان | پاکستان اسرائیل تعلقات اور عمران خان
یہ محض ایک اتفاق نہیں کہ موجودہ حالات میں، جبکہ عمران خان کی تحریکِ انصاف کو پاکستانی عوام کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے اور عمران خان جیل میں بیٹھ کر حکومت کے خلاف تحریک چلا رہا ہے، ستمبر کے مہینے میں یکے بعد دیگرے دو بڑے اسرائیلی اخبارات میں پاکستان اسرائیلی تعلقات اور عمران خان کے ممکنہ کردار سے متعلق دو مضامین شائع ہوئے جو پاکستانی اخبارات میں بھی موضوعِ بحث بنے۔ پہلا مضمون دی ٹائمز آف اسرائیل میں ۴ ستمبر ۲۰۲۴ء کو شائع ہوا، اس مضمون میں صحافی ’آئینور بشرووا ‘ نے مختلف زاویوں سے پاکستان کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی کو موضوعِ بحث بنایا اور عمران خان کا غیر روایتی سیاسی طریقہ کار، عمران خان کے گولڈ سمتھ خاندان سے تعلقات اور پس پردہ جمائمہ گولڈ سمتھ کے ذریعے اسرائیل کو بھیجے گئے مبینہ پیغامات کا بھی ذکر ہے۔ اس مضمون کے چند اقتباسات کے ترجمے پر نظر ڈالتے ہیں۔
An Unlikely Ally: How Imran Khan Could Shape Israeli-Pakistani Relations | Aynur Bashirova
’’ایسی رپورٹس ہیں جن میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ عمران خان نے گولڈسمتھ خاندان کے ذریعے اسرائیلی اہلکاروں کو پیغامات بھیجے، جو پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں اس کی ممکنہ دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے اور پاکستان میں مذہبی بیانیے کو اعتدال پر لانے میں اس کی آمادگی کا بھی اشارہ دیتا ہے۔ اگر یہ رپورٹس درست ہیں، تو یہ خان کے اسرائیل کے بارے میں ایک ایسی سطح کی لچک کو ظاہر کرتی ہیں جو روایتی پاکستانی موقف سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ممکنہ طور پر روابط قائم کرنے میں دلچسپی کو مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ہم آہنگ کرنے کے ایک اسٹریٹیجک اقدام کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
……اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو چاہئے کہ وہ عمران خان کو آزاد کرانے کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کریں تاکہ وہ پاکستانی سیاست میں حصہ لے سکے اور اعتدال پسندی کو فروغ دینے والی آواز بن سکے۔ عمران خان کی منفرد حیثیت، تعلقات، اور اسٹریٹیجک سوچ اسرائیل پاکستان تعلقات پر اثرانداز ہو سکتی ہے، حالانکہ اسے اس تبدیلی کے کوشش میں قابل ذکر چیلنجز اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ‘‘
[The Times of Israel]
دوسرا مضمون ’دی یروشلم پوسٹ‘ میں ۱۵ ستمبر ۲۰۲۴ء کو شائع ہوا۔ جس کا بنیادی موضوع ۱۵ ستمبر ۲۰۲۰ء میں ہونے والے ابراہیمی معاہدے تھے۔ جن کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے۔ لیکن اسی مضمون میں کالم نگار باقی مسلمان ممالک کے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے امکانات کا جائزہ لیتا ہے اور پاکستان چونکہ اسٹریٹجک لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے اور پاکستان میں اس معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے سب سے موزوں انہیں عمران خان لگتا ہے۔ ذرا اس مضمون پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
Redrawing Israel’s geopolitical map on Abraham Accords’ anniversary | Harry Richer
’’ پاکستان اس حوالے سے ایک دلچسپ مثال ہے۔ اگرچہ اس نے ایک طویل عرصے تک فلسطینیوں کے حق میں اپنا پالیسی مؤقف برقرار رکھا، حالیہ برسوں میں اس کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کی علامات وقتا فوقتا دیکھی جاتی رہی ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے، جو اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف زبردست بیانات دیتے رہے ہیں، اشارہ دیا کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کا راستہ خود بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ خاص طور پر اس وقت اہم تھا جب باقی مسلم دنیا نے ذاتی مفادات کی بنیاد پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے شروع کر دیے تھے۔ خان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی نے حالیہ انتخابات میں 93 قومی اسمبلی کی نشستیں جیتیں، اس کا اثر و رسوخ، یا شاید اسی جیسے کسی اور ہم خیال اور عملی رہنما کا سامنے آنا، پاکستان کے لیے موقع فراہم کر سکتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنی تاریخی دشمنی پر نظرِ ثانی کرنے کو کس حد تک برداشت کر سکتا ہے، خاص طور پر اس کے جاری شدید معاشی بحرانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے نمایاں اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے، جن میں زراعت، سائبر سیکیورٹی، اور دفاع میں تکنیکی مدد، اس کے ساتھ ساتھ ممکنہ مالی سرمایہ کاری وغیرہ بھی شامل ہیں۔ صرف ۲۰۲۲ء میں، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارت 124% بڑھ کر سالانہ 2.59 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔
پاکستان کی جانب سے ایک زیادہ متنوع خارجہ پالیسی بھارت اور افغانستان کے ساتھ اپنے پیچیدہ تعلقات کو سنبھالنے کے لیے سٹریٹجک فوائد لا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے، اپنے فوجی ادارے کے اندر سے ایک مضبوط مزاحمت کا بدلنا ضروری ہوگا، جو طویل عرصے سے اسرائیل کے ساتھ مکمل طور پر تعلقات معمول پر لانے میں رکاوٹ رہی ہے۔ قیادت میں تبدیلی بھی کسی بھی حل میں پیش رفت کے لیے ممکنہ طور پر ضروری ہوگی، اور خان جیسے افراد عوامی رائے اور فوجی پالیسی کو تبدیل کرنے میں مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن بلاشبہ علاقائی صورتحال کا مسلسل جائزہ لیتے ہوئے۔
……تاہم، ٹرمپ انتظامیہ کے دوسرے دور کے بغیر بھی اور غزہ کی جنگ کے باوجود، اس حوالے سے پیش رفت ہورہی ہے۔ ابراہیمی معاہدوں نے یہ دکھایا کہ نظریاتی اختلافات کو، جو عشروں پرانے تنازعات کی جڑوں میں شامل ہیں، عبور کیا جا سکتا ہے اگر اور جب باہمی مفادات سامنے ہوں، اور یہ تنازعات کے بعد حیرت انگیز طور پر کم وقت میں عبور کیے جا سکتے ہیں۔
سفارت کاری امکانیات کا فن ہے اور تاریخ اکثر ہمیں ممکنات سے حیران کرتی ہے۔ اکیسویں صدی کے جغرافیائی نقشے کی تشکیلِ نو کے مواقع آج ماضی کے کسی بھی دور سے زیادہ ہیں۔ صحیح وژن اور قیادت کے ساتھ، اسرائیل اور مسلم دنیا کے درمیان نارملائزیشن کا اگلا مرحلہ شاید ہماری سوچ سے بھی زیادہ قریب ہو۔ ‘‘
[The Jerusalem Post]
مذکورہ دونوں مضامین میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے ناصرف توقعات وابستہ کی گئی ہیں بلکہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بدلے میں جو مراعات اور فوائد پاکستان کو حاصل ہوں گے اس کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
۱۹۴۸ء میں جب اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا تب سے ہی پاکستان عوام اور حکومت کا فلسطینی ریاست کے حق میں ایک مضبوط مؤقف رہا ہے، اور سفارتی طور پر بھی اسرائیل کے وجود کو ناجائز مانا گیا ہے۔ پوری امت مسلمہ کی طرح پاکستانی عوام کی فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دینی اور جذباتی وابستگی ہے، اور قبلہ اوّل کی وہاں موجودگی اس تعلق کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک علی الاعلان اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات تک کرنے کی کسی حکمران نے جرات نہیں کی۔
اسرائیل کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ناجائز ریاست کو منوانے کے لیے خطے کے تمام ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کرے، خصوصاً تمام اہمیت کے حامل مسلم ممالک سے، تاکہ وہ اپنا ’عظیم تر اسرائیل‘ کا خواب پورا کرتے ہوئے فلسطینیوں کا قتل عام کرے یا مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرے تو کوئی مسلمان ملک اس کے خلاف اٹھانے والا نہ ہو۔
اب جبکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے عرب ممالک قطار میں کھڑے منتظر ہیں، متحدہ عرب امارات، ترکی اور بحرین سمیت متعدد ممالک نے پہلے ہی سفارتی تعلقات نہ صرف استوار کیے ہوئے ہیں بلکہ غزہ اور مغربی کنارے پر ایک سال سے جاری فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں ایک طرح سے عملی طور پر اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔
پاکستان میں پس پردہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بات پرویز مشرف کے دور میں ہوئی لیکن اسے بھی داخلی طور پر کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اسی لیے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ بظاہر تو عمران خان نے بھی اسرائیل کی کھل کر مخالفت کی لیکن مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان نے اپنی سابقہ بیوی جمائمہ گولڈ سمتھ کے ذریعے اسرائیل پیغام بھیجا جس سے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا امکان ظاہر ہوتا ہے۔
عمران خان نے سیاست میں روایتی سیاست دانوں سے ہٹ کر غیر روایتی اور انقلابی انداز اختیار کیا۔ عوام کے جذبات اور مذہب کارڈ کا بھرپور استعمال کر کے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر بھی لے لی، جو کہ بذات خود ایک الگ موضوع ہے۔ عمران خان نے ہی ایک ریاستی حل کے فلسطینی مطالبے کے برخلاف حکومتی سطح پر دو ریاستی حل کی بات کی، اور اب شہباز شریف بھی یہی مؤقف پیش کر رہا ہے۔ بالفاظِ دیگر اس دو ریاستی حل کے تحت اسرائیلی ریاست کے وجود کو بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔
عمران خان پاکستانی سیاست میں سب سے مقبول لیڈر کے طور پر ابھرا ہے کہ جس کے نام پر لوگ اپنی جان گنوانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ایسی صورت میں عوام کی توقعات کے برعکس عمران خان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے اور اس فیصلے کے خلاف اٹھنے والے ردّ عمل کو بھی برداشت کر سکتا ہے۔
اس معاملے کا ایک اہم پہلو سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔ سعودی عرب امت مسلمہ کا مرکز و محور ہے لیکن ’ایم بی ایس‘ (محمد بن سلمان) کی قیادت میں اسلام مخالف مغربی مادر پدر آزاد معاشرت کی طرف تیزی سے گامزن ہے، اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ بلکہ مچل رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق سعودی عرب جیسے ہی اسرائیل کو تسلیم کرے گا تو ساتھ ہی پاکستان پر بھی دباؤ ڈالے گا کہ وہ بھی اسرائیل کو تسلیم کرے، کیونکہ سعودی عرب اکیلا اسرائیل کو تسلیم کر کے امت مسلمہ کی طرف سے آنے والے ردّ عمل کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔
فی الحال ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے شروع ہونے والی جنگ ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب کا اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔
پاکستان | سوشل میڈیا غلاظت
انٹرنیٹ نے جہاں لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں، ہر وقت رابطے میں رہنا، ایک کلک پر تمام معلومات تک رسائی، دنیا میں کب کیا ہو رہا ہے اس کی پل پل کی خبر، وہاں یہ اپنے ساتھ فتنوں اور بے حیائی کا ایک طوفان بھی لایا ہے۔ سونے پہ سہاگہ سوشل میڈیا کا ظہور ہے۔ جس سے لوگوں کی پرائیویسی ختم ہو چکی ہے اور عام لوگوں کی زندگیاں بھی ’پبلک‘ ہو گئی ہیں۔ سوشل میڈیا نے ہر بوڑھے، جوان اور بچے کو کچھ بھی دیکھنے، دکھانے اور نشر کرنے کی آزادی دے دی ہے، جس کی بدولت ہمارے معاشرے میں ایسے ایسے فتنے پھیلنا شروع ہو گئے ہیں کہ جن کا احاطہ چند سطور یا چند مضامین میں کرنا ناممکن ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی اور بد تہذیبی کا ایسا انقلاب آیا ہے کہ جس نے ہمارے امیر، غریب، عالم، جاہل غرض پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس کے نقصان کا صحیح اندازہ آنے والی نسلوں میں مزید واضح ہو گا۔ سوشل میڈیا سے پھیلنے والی شیطانیت کو اجاگر کرنا اور لوگوں کو اس کے نقصانات سے آگاہ کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے جو علماء اور باشعور لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن اس سے متعلق بہت کم لوگ لکھ رہے ہیں۔
اسی موضوع پر ۹۲ نیوز میں سعدیہ قریشی لکھتی ہیں:
سوشل میڈیا کی آندھی کیا کچھ اڑا لے گئی| سعدیہ قریشی
’’ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم سے آسان پیسہ کمانے کی لت نے ہماری سماجی اور تہذیبی اقدار کو تہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔فیملی ویلاگز کے نام پر لوگ اپنے گھروں کے بیڈ روم تک دکھارہے ہیں۔کیا کبھی کوئی سوچ سکتا تھا کہ لوگ اپنے گھروں کے گندے غسل خانے اور بکھری ہوئی الماریاں پوری دنیا کو دکھا رہے ہوں گے؟ وہ معاملات جو پہلے لوگ محفلوں میں بیٹھ کر موضوعِ گفتگو نہیں بناتے تھے کہ تہذیب اور حیا مانع تھی اب ویوز حاصل کرنے کے نام پر کھلم کھلا سکرین پر پوری دنیا کو دکھائے جا رہے ہیں۔ لوگ پیسہ کمانے کے خبط میں ایسے مبتلا ہیں کہ الامان! بھول چکے ہیں کہ ہماری سماجی و مذہبی اقدار کیا تھیں۔ ویوز، فالورز اور ریچ حاصل کرنے کے لیے جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے اسے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہماری سماجی اقدار اتنی کمزور تھیں کہ سوشل میڈیا کی لہر اور پیسے کا لالچ انہیں بہا لے گیا۔
جو کچھ ہمارے یہاں ہو رہا ہے، گاؤں دیہاتوں کے بند کمروں میں لڑکیاں جس طرح مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لائیو الٹے سیدھے تماشے کر رہی ہیں، یہ سب کچھ ہمارا سر جھکانے کے لیے کافی ہے۔ معاشرہ کدھر جا رہا ہے؟ ہم کون ہیں ؟ کون ہمیں راستہ دکھائے گا؟ المیہ یہ ہے کہ یہ ایک ہمہ جہت زوال ہے۔
ایک مثال دوں گی کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچ گئے ہیں۔ پہلے کیا حیا اور تہذیب والا وقت تھا، ماں بننے والی خاتون اپنے آپ کو ڈھانپ کے رکھتی تھی، پھر جب بچے کو جنم دیتی تو جوائنٹ فیملی میں رہنے والی ایسی مائیں تو گھر کے مردوں کے سامنے بھی نہیں آتی تھیں، کچھ حیا اور تہذیب ہوتی تھی۔اور اب حاملہ حالت میں فوٹوگرافی ایک نیا ٹرینڈ ہے، پہلے یہ شوبز تک محدود تھا لیکن اب عام خاندانوں تک بھی یہ خرافات پہنچ رہی ہیں۔ یہ سب سوشل میڈیا کے دروازے سے ہمارے سماج تک آیا۔ پاکستانی سماج کے شعور پر حیرت ہوتی ہے کہ ہر وہ چیز جس سے سماجی اقدار میں بگاڑ پیدا ہو، نمود و نمائش میں اضافہ ہو پاکستانی اسے جی جان سے اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی تحریک نہیں چلانی پڑتی، مگر ہر وہ چیز جس سے نمود و نمائش میں کمی ہو، زندگی میں سادگی ہو، ایسے طور اطوار اپنانے میں پاکستانی ہمیشہ نا اہل ہی رہے ہیں۔ شادیاں سادگی سے کرنے کی جتنی مرضی تحریکیں چلا لیں، پاکستانی وہی کریں گے جس میں نمود و نمائش میں ان کی گردن قرضوں میں جکڑ جائے۔ کہاں گئی ہیں ہماری سماجی اقدار؟ ہمارا مذہب کا تو نام لینا بھی جرم ہے۔ یہاں پہ آپ نے مذہب کا نام لیا نہیں اور لوگوں نے آپ کے اوپر پتھر اٹھا لینے ہیں اور بنیاد پرستی کا ٹیگ لگا دینا ہے۔ ‘‘
[روزنامہ ۹۲ نیوز]
فلسطین | خطے میں پھیلتی جنگ اور مغربی میڈیا کا منافقانہ کردار
گزشتہ سال ۸ اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت کو جہاں ایک برس بیت چکا ہے، اسرائیلی ظلم کی تاریکی وسیع ہوتی چلی جا رہی ہے۔ غزہ سے مقبوضہ فلسطین کا مغربی کنارہ اور وہاں سے لبنان۔ اسرائیل کی مسلط کی ہوئی جنگ کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے جس نے یمن کو بھی اپنی لپیٹ نے لے لیا ہے۔ چونکہ یمن سے حوثیوں نے براہ راست اسرائیل اور اس کی سمندری رسد کو نشانہ بنایا ہے اس لیے اسرائیل اور امریکی بحری بیڑے یمن کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایران کے سپر سونک میزائلوں سے اسرائیلی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بعد اب ایران بھی اسرائیل کی ہٹ لسٹ میں شامل ہے۔ لیکن ایران پر کس طرح کا وار کیا جائے گا یہ فی الحال مخفی ہے۔ اگر اسرائیل امریکہ کی مدد سے ایران کو کسی بڑی جنگ میں گھسیٹتا ہے جس کا امکان ہے تو پاکستان سمیت عرب ممالک کو بھی اس معاملے پر کوئی واضح پالیسی اختیار کرنی پڑے گی۔ ابھی تک تو مسلم ممالک کے بے حس حکمرانوں کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔
۷ اکتوبر کو حماس کی اسرائیل کو لگائی گئی کاری ضرب اور اس کے جواب میں اسرائیل نے جو ظلم کا باب رقم کیا ہے اس کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ اور یورپ، جو اسرائیل کو تواتر کے ساتھ اسلحہ اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے رہے، کا میڈیا بھی تمام صحافتی اصول و ضوابط اور غیر جانبداری کو بالائے طاق رکھ کر حلق پھاڑ کر اسرائیل کی ’’مظلومیت‘‘ کے نوحے دنیا کو سناتا رہا۔ جبکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں اسرائیل کے بھیانک جنگی جرائم خود اس کے اپنے فوجی نشر کرتے رہے، اور غزہ کے بہادر صحافی اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر حقیقت دنیا کو دکھاتے رہے۔ اسرائیل نے چن چن کر انہیں نشانہ بنایا اور پورے سال میں ۱۷۵ صحافی شہید ہوئے۔ وہاں کی تفصیلات اس قدر المناک ہیں کہ قلم لکھنے کی تاب نہیں لاتا، لیکن حقوقِ انسانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ممالک کہتے نہیں تھکتے کہ ’’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے‘‘ اور ہم اس کے ساتھ ہیں۔
اس حوالے سے چند مضامین سے اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
Netanyahu preaches to the world as if it is a basic human right to commit genocide | Ramona Wadi
’’مغرب اور اقوام متحدہ کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے نسل کشی کرنا بنیادی انسانی حق ہے۔ بعینہ یہ تصور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ۸ اکتوبر کو لبنانی عوام کے نام اپنے پیغام میں پیش کیا۔
حتیٰ کہ جب لبنانی عوام بھی غزہ میں فلسطینیوں کی طرح مارے جا رہے ہیں اور جبری بے گھر ہو رہے ہیں، نتن یاہو نے کہا:
’تمہارے پاس لبنان کو بچانے کا موقع ہے اس سے قبل کہ وہ ایک طویل جنگ کے اندھے کنوئیں میں گر جائے جو اسی تباہی اور عذاب کی طرف لے جائے کی جس کا مشاہدہ ہم غزہ میں کر رہے ہیں۔‘
اس جنگی مجرم نے مزید کہا:
’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، اسرائیل کو فتح کا بھی حق حاصل ہے! اور فتح اسرائیل کی ہو گی!‘
اور یہ لبنان کو بچانے کا موقع ہے؟
جب اسرائیل نشل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے ایسے میں یہ ’فتح کا حق‘ کیا ہوتا ہے؟ اسرائیل کے فوجی حملے کی بے ترتیب نوعیت بھیانک بھی ہے اور پہلے سے طے شدہ بھی۔ ایسا کوئی ’حق‘ نہیں ہے،فقط مسلسل بمباری اور لبنانی شہریوں اور شہری بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ اسرائیل کو خطے میں عسکری برتری حاصل ہے، جسے امریکی ہتھیاروں کی لامحدود فراہمی کے ذریعے سے برقرار رکھا جاتاہے۔ اسرائیل یورپ کی کھلی منافقت سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے جو اس کی حکومت کو ایسے ڈانٹتا ہے کہ جیسے یہ صرف ایک سرکش بچہ ہو لیکن اس کے علاوہ کچھ نہ کرتا ہو۔
ایسے میں جب کہ غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے، لبنانی عوام کو پہلے سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی اسی مقدر کا سامنا کریں گے۔ دراصل، وہ پہلے ہی اسی مقدر کا سامنا کر رہے ہیں۔ غزہ میں اپنائے گئے یہی طریقے لبنان میں ’حزب اللہ کو نشانہ بنانے‘ کے بہانے اپنائے جا رہے ہیں۔
نیتن یاہو اور نو آباد کار، استعماری، نسل پرست ریاست کے حواریوں کا اصرار ہے کہ اسرائیل کی بقا کے لیے نسل کشی کا ارتکاب ضروری ہے۔ بنیادی طور پر اسرائیل کے نسل کشی کرنے کے ’حق‘ کی توثیق کرنے کے بعد کیا مغربی رہنماؤں کے لیے اس سے بھی زیادہ نیچے گرنا ممکن ہے؟ ‘‘
[Middle East Monitor]
The past twelve months have been a year of shame and a year of pride | Muhammad Jamil
’’ منصفانہ اور متوازن کوریج مغربی خبروں کی کوریج میں تلاش کرنا تقریبا ناممکن ہے۔
اسرائیلی پروپیگنڈہ اور واقعات پر صہیونی بیانیے کو اوّلین ترجیح حاصل رہی۔ قابض ریاست کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم اور فلسطینیوں کے مصائب کی حقیقت کو اس بیانیے نے ڈبو دیا، جبکہ جب کوئی اسرائیلی زخمی ہو جاتا ہے یا گولی چلنے کی آواز سن کر کسی پر گھبراہٹ کا دورہ پڑ جاتا ہے تو یہ کہانی صفحہ اوّل کی خبر بن جاتی ہے۔
جمہوریت کی وکالت کرنے والے ممالک کی منافقت بے نقاب ہو چکی ہے: اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے (جبکہ حقیقت میں وہ ایسے لوگوں کے خلاف اس حق کا دعویٰ نہیں کر سکتا جو اس کے عسکری قبضے تلے رہ رہے ہیں)، لیکن فلسطینیوں کے کوئی حقوق نہیں۔ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی توہین کرتے ہوئے اپنے پڑوسیوں پر حملہ کر سکتا ہے، ان پر بمباری کر سکتا ہے، لیکن فلسطینی جو بین الاقوامی قانون کے تحت قبضے کے خلاف مزاحمت کا اپنا جائز حق استعمال کرتے ہیں، انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ اسرائیل سامی عرب فلسطینیوں کو قتل کر سکتا ہے لیکن وہ لوگ جو اس قسم کے قتل کی مذمت کرتے ہیں ان کی “اینٹی سیمٹک” (سامی نسل کے مخالفین) کہہ کر مذمت کی جاتی ہے۔ مغرب اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کر سکتا ہے لیکن جو نسل کشی میں اس شراکت کی مخالفت کرتے ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، انہیں ان کی نوکریوں سے برطرفی، گرفتاری اور “نفرت انگیز تقریر” کرنے کی وجہ سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ناقابلِ دفاع کے دفاع کی عجلت میں مغرب کی اس منافقت میں کوئی منطق نہیں۔
پچھلے بارہ ماہ میں ہم نے جو کچھ دیکھا ہے،، وہ اصل میں دو متضاد سال ہیں۔ ایک سال عالمی خاموشی، سیاسی بزدلی، غداریوں اور مجرم قابض ریاست کی حمایت کی وجہ سے شرمساری کا سال ہے جبکہ ایک سال غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں کے لیے فخر کا سال ہے، جنہوں نے اپنے صبر، اپنی استقامت اور اپنی جرات سے تاریکیوں میں روشنی کی کرن دکھائی ہے۔ فلسطینیوں نے پوری دنیا کو شرمندہ کر دیا ہے۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں تاریخ سب کچھ محفوظ کر لیتی ہے، اور ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ فلسطینی تاریخ کی درست جانب ہیں۔ ‘‘
[Middle East Monitor]
فلسطین | نسل کشی کا ایک سال
غزہ جنگ کو ایک سال ہوا تو بہت سے مقامی و بین الاقوامی اداروں نے اپنی تجزیاتی رپورٹیں، تحقیقات اور مقالے شائع کیے۔ ان میں سے ایک مضمون سے چند اقتباس قارئین کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔
After a year of genocide and despite the unbelievable pain, Palestinians emerge stronger | Dr Ramzy Baroud
’’ جنگ سے پہلے کے سالوں میں، اسرائیل فلسطین میں اپنے آبادکار استعماری منصوبے کا آخری باب لکھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے فلسطینی قیادت کو زیر کر لیا تھا یا اسے اپنے ساتھ ملا لیا تھا، غزہ پر اپنا محاصرہ مستحکم کر لیا تھا اور اب زیادہ تر مغربی کنارے کو ضم کرنے کے لیے تیار تھا۔
غزہ اسرائیل کے لیے سب سے کم تشویش کا باعث بن چکا تھا، کیونکہ اس حوالے سے ہونے والی کوئی بھی گفتگو اسرائیلی محاصرے اور اس کے نتیجے میں انسانی لیکن غیر سیاسی بحران تک محدود تھی۔
جبکہ غزہ میں فلسطینیوں نے عالمی برادری سے انتھک التجا کی کہ وہ اسرائیل پر ۲۰۰۷ء میں شدت سے مسلط کردہ طویل محاصرے کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے،تل ابیب نے اس پٹی میں اپنی پالیسیوں کو سابق اسرائیلی اعلیٰ عہدیدار ڈو ویسگلاس کی بدنام زمانہ منطق کے مطابق چلانا جاری رکھا، اس نے ناکہ بندی کے پیچھے دلیل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’فلسطینیوں کو ڈائٹ (محدود خوراک) پر رکھنا لیکن انہیں بھوک سے مرنے نہیں دینا۔‘
ایک سال کی جنگ کے بعد، فلسطینی مشرق وسطیٰ کے پر امن مستقبل کے لیے کسی بھی سنجیدہ گفتگو میں مرکزی حیثیت اختیار کر گئے۔ ان کے اجتماعی حوصلے اور استقامت نے اسرائیلی فوج کی، تشدد کے ذریعے سیاسی نتائج حاصل کرنے کی، صلاحیت کو بے اثر کر دیا ہے۔
یہ درست ہے کہ غزہ میں ہلاک، لاپتہ یا زخمی افراد کی تعداد پہلے ہی ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ پٹی پہلے ہی غربت کا شکار اور خستہ حال تھی، آج یہ مکمل کھنڈر بن چکی ہے۔ ہر مسجد، گرجا یا ہسپتال مکمل یا جزوی تباہ ہو چکا ہے۔ علاقے کا بیشتر تعلیمی انفرا سٹرکچر نیست و نابود ہو چکا ہے۔ پھر بھی اسرائیل اپنا کوئی بھی سٹریٹیجک ہدف حاصل نہیں کر پایا، جو سب ایک واحد مقصد سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ ہے فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دینا۔
ناقابل یقین تکالیف اور نقصانات کے باوجود، ایک طاقتور توانائی ہے جو فلسطینیوں کو ان کے مرکز کے گرد اور عربوں اور دیگر دنیا کو فلسطین کے گرد متحد کر رہی ہے۔ اس کے جو نتائج ہوں گے وہ برسوں تک باقی رہیں گے، نتن یاہو اور اس کے ہم خیال انتہا پسندوں کے جانے کے بھی زمانے بعد تک۔ ‘‘
[Middle East Monitor]
فلسطین | فلسطینی جذبہ جہاد و شہادت
فلسطینی انبیاء کی سرزمین کے اصل باسی اور اس کے وارث ہیں۔ ہم بچپن سے سنتے اور دیکھتے آ رہے ہیں کہ فلسطین کا بچہ بچہ ہاتھوں میں پتھر، کنکر اٹھائے مسلح صہیونیوں اور ان کے آگ اگلتے ٹینکوں کےآگے کس عزم و حوصلے سے کھڑا ہو کر انہیں للکارتا ہے۔ اب وہی فلسطینی نوجوان ہیں کہ ان کی جرات و بہادری پوری دنیا میں مثال بن چکی ہے۔ یہ جنگ غزہ سے نکل کر پورے مقبوضہ فلسطین میں پھیل چکی ہے۔ آئے روز اسرائیلیوں پر گھات لگا کر حملے ہو رہے ہیں۔ پورے مقبوضہ فلسطین و اسرائیل میں یہودی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اسرائیلیوں کی پوری کوشش ہے کہ تمام فلسطینی ایک بار پھر النکبہ کی طرح اپنی سرزمین ہی چھوڑ دیں۔ لیکن اس بار خود فلسطینی کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی جان دے دیں گے لیکن اس سرزمین کو نہیں چھوڑیں گے۔
اس حوالے سے دو مضامین سے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
Palestinians have hope, Zionists do not | Sayid Marcos Tenorio
’’ صہیونی فوج کے سابق آپریشنل چیف اسرائیل زیو نے اسرائیلی چینل ۱۲ پر اعلان کیا کہ اسرائیل کی غزہ میں جنگ صہیونی وجود کی تاریخ کی سب سے طویل ترین اور تھکا دینے والی جنگ بن چکی ہے۔ اس کے تجزیے کے مطابق صہیونی حکومت اور اسرائیلی فوج ’غزہ کی خوفناک دلدل‘ میں پھنس کر رہ گئے ہیں اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ افواج کا فوری انخلا ہے۔
اسرائیل پہلے ہی پوری دنیا میں صہیونی ریاست کی واضح طور پر بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت کے ذریعے سے عالمی سطح پر عوامی رائے میں جنگ ہار چکا ہے۔ تمام زیر تسلط علاقوں میں اسرائیل کے مستقل نقصانات اور صہیونیوں کی “باعزت انخلا” کی تلاش یہ ثابت کرتی ہے کہ حماس ایک شکست خوردہ دشمن نہیں، بلکہ ایک ایسا سخت جان مخالف ہے جو ان لوگوں کو لڑائی کے اصول سکھاتا ہے جنہوں نے اس کی تباہی کی قسم کھا رکھی ہے۔
صہیونی فوجیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ فلسطینی جنگجوؤں کے مقابلے میں دوبدو جنگ کرنے کے قابل نہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ فوجی رپورٹس صہیونی فوج میں شراب اور نشے کے استعمال اور ساتھ ہی خود کو نقصان پہنچانے اور خودکشی کرنے کے رجحان کے ساتھ ساتھ ذہنی دباؤ اور براہ راست لڑائی میں موت کے خوف سے بے چینی اور ذہنی تناؤ میں اضافے کی نشاندہی کر رہی ہیں۔
بالکل یہی معاملہ ہے جس میں القسام بریگیڈ، القدس بریگیڈ اور دیگر مزاحمتی گروپ غزہ اور مغربی کنارے کی خصوصیات والے علاقوں میں کام کرنے میں اپنی تیاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ تصادم کی ایک ایسی قسم ہے جہاں اسرائیلی فضائی امداد اور توپ خانہ اپنی افادیت کھو دیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے فوجیوں کو بھی ساتھ میں خطرے میں ڈالے بغیر حملہ نہیں کر سکتے۔
لیکن سب سے بڑھ کر، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مزاحمتی جنگجوؤں میں شجاعت اور شہادت کا جذبہ ہے، جو انہیں ایسی جنگ میں بطور مجاہد اپنی برتری برقرار رکھنے کے قابل بناتا ہے، جس میں ایسے تصادم کے لیے موزوں تکتیکی طریقوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہ جانتے ہوئے کہ زمین کا درست استعمال کیسے کرنا ہے اور صہیونی افواج کی نقل و حرکت پر اچھے طریقے سے کیسے نظر رکھنی ہے۔
اسرائیل کی فلسطینی عوام کے خلاف غزہ کی پٹی میں جاری نسل کشی کی جنگ اپنے جارحانہ مقاصد، بالخصوص فلسطینی مزاحمت کے خاتمے میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ فلسطینی اپنی مزاحمت کے ہتھیاروں کے ذریعے ضرور فتح یاب ہوں گے۔ ‘‘
[Middle East Monitor]
Why Palestinians won’t leave their land | Ahmad Ibsais
’’ گزشتہ برس میں، اسرائیلی تشدد نسل کشی کی شکل اختیار کر گیا، لیکن فلسطینی ’صمود‘ (استقامت) میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جنین سے غزہ تک، فلسطینیوں نے، بے رحمانہ اسرائیلی حملوں اور بمباریوں کے باوجود، زندہ رہنے اور بقا کے سادہ عمل کے ذریعے استعماری حملوں کے خلاف مزاحمت روکی نہیں۔
قابض جس قدر فلسطینیوں کی زندگی کو ناممکن بنانے کی کوشش کرتا ہے، اتنا ہی زیادہ فلسطینی اسے ممکن بنانے کے لیے عارضی حل ڈھونڈ نکالتے ہیں، چاہے وہ سائیکل سے چلنے والی واشنگ مشین ہو، چاہے روٹی پکانے کے لیے مٹی اور تنکوں سے بنا گارے کا تندور ہو یا مختلف مشینوں کے پرزوں سے بنا بجلی پیدا کرنے والا جنریٹر ہو۔ یہ محض پختہ استقامت کے، صمود کے چند عیاں مظاہرے ہیں۔
دریں اثناء، مہاجرین میں، ہمارے دل و دماغ کبھی فلسطین سے باہر نہیں نکلے۔ ہم نے کرب اور خوف سے دیکھا ہے کہ کیسے نسل کشی کی جا رہی ہے اور کیسے ان ملکوں کے راہنماؤں نے، جہاں ہم نے پناہ لے رکھی ہے، اپنی آنکھیں موند رکھی ہیں۔ مغرب میں بہت سے لوگوں کے نزدیک فلسطینیوں کی زندگی کی کوئی قدر نہیں۔ وہ ہمیں انسان نہیں سمجھتے۔
فلسطینیوں کے ساتھ اس بلا روک ٹوک غیر انسانی سلوک نے ہماری برادریوں میں مایوسی اور ناامیدی پھیلا دی ہے۔ لیکن ہمیں ہار ماننے کا کوئی حق حاصل نہیں جب غزہ کے لوگ نسل کشی کی ہولناکیوں کے باوجود ہار نہیں مان رہے۔ ہمیں اپنے اندر فلسطینی صمود بیدار کرنا ہو گا اور متحرک ہونا ہو گا تاکہ دیگر معاشروں کو بتائیں کہ ہم یہاں ہیں، ہم موجود ہیں، اور ہم اس دنیا میں باقی رہیں گےجو ہمیں مٹا دینے کے در پے ہے۔
’ہم ہی زمین ہیں‘ کا استعارہ صرف شاعرانہ نہیں ہے، یہ فلسطینی عوام کے لیے ایک زندہ حقیقت ہے۔ جب فلسطینیوں سے پوچھا جاتا ہے، ’تم یہاں سے چلے کیوں نہیں جاتے؟‘ تو ان کا جواب ہوتا ہے، ’ہم کیوں جائیں؟‘ یہ فلسطینی سرزمین ہے جسے فلسطینیوں کی نسلوں کے آنسوؤں اور خون نے سنوارا ہے۔ اسے چھوڑ کر جانے کا مطلب ہو گا سب کچھ کھو دینا۔ اس کا مطلب ہو گا ہماری تاریخ، ہماری ثقافت اور ہماری اجتماعی روح کو فنا کر دینے کی اجازت دے دینا۔ نسل کشی کے ایک سال بعد فلسطینی قائم ہیں کیونکہ یہ ان کے لیے ضروری ہے۔ ‘‘
[Aljazeera English]
اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی حالیہ نسل کشی پورے سال سے جاری ہے۔ لیکن فلسطینیوں کی جرات و ثبات و اولوالعزمی نے امت مسلمہ کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔ ایک طرف غزہ میں ہر روز ایک قیامت بیت جاتی ہے۔ کٹے پھٹے بے جان اجسام، زخموں میں تڑپتی لاشیں، بے جان بچے، دوسری طرف مغربی کنارے پر موجود فلسطینیوں کی بلڈوز ہوتی بستیاں، آئے دن مسلح صہیونی آبادکاروں کے حملے، قبضے اور سر عام فلسطینیوں کا قتل، مسجدِ اقصیٰ کی مسلسل بڑھتی ہوئی بے حرمتی اور اب لبنان پر بھی مسلس بمباری۔ یہ جنگ اتنی طویل ہو جائے گی، تجزیہ نگار بھی نہ سوچ سکتے تھے۔ لیکن اس طویل جنگ میں بظاہر نقصان فلسطینیوں کا لگتا ہے لیکن دراصل شکست صہیونیوں کی ہو رہی ہے۔ اور اب ہر سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص، جنگی ماہرین اور تجزیہ نگار بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل نے اپنے آپ کو اس قدر الجھا لیا ہے اور اتنا نقصان برداشت کر رہا ہے لیکن اپنا ایک بھی ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ یہ یہود اور ان کے سرپرست ماضی سے سبق حاصل نہیں کر سکے کہ گولہ بارود گرا کر تو امریکہ نے بھی گیارہ ستمبر کے بعد افغانستان اور عراق پر اپنی جھوٹی ’’فتح‘‘ کا تازیانہ بجایا تھا۔ اس نے بھی القاعدہ کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن بیس سال بعد دنیا نے اس کی ناکامی و نامرادی دیکھی اور جن کو ختم کرنے چلا تھا وہی اصل فاتح بن کر ابھرے۔ یہ کیا جانیں ایمان کی طاقت۔ جس طرح گیارہ ستمبر نے تاریخ کا رخ موڑا، اسی طرح ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بابرکت حملے ان شاء اللہ فلسطینیوں کے حالات کا رخ موڑیں گے۔
فتح و کامرانی قربانی مانگتی ہے، مقصد جتنا عظیم ہو گا قربانی بھی اتنی ہی بڑی دینی پڑے گی۔ ہم نہیں تو ہماری اگلی نسل اس قربانی کا ثمر ضرور دیکھے گی۔ کیونکہ تاریخ شاہد ہے شہداء کا لہو رائیگاں نہیں جاتا۔ ہمارے فلسطینی بھائی تو بے سرو سامانی کے عالم میں بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ ہمارا اور باقی امت مسلمہ کا بھی امتحان ہے کہ ان کا ساتھ دینے کے لیے کاندھے سے کاندھا ملا کر باطل کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ یہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک فیصلہ کن گھڑی ہے۔ کیونکہ اگر ہم ان کا ساتھ نہیں دیں گے تو اللہ اپنے دین اور اپنے بندوں کی نصرت کے لیے کسی کا محتاج نہیں۔
٭٭٭٭٭