زیرِ نظر تحریر افغانستان سے تعلق رکھنے والے عالم، داعی اور فکری جنگ پر دقیق نظر رکھنے والے مفکر فضیلۃ الشیخ مولوی عبد الہادی مجاہد (دامت برکاتہم)کی پشتو تصنیف ’مدرسہ او مبارزہ‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر افغانستان میں مدارس اور دینی تعلیم کے نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے ، لیکن کتاب میں بیان کی گئی امت مسلمہ کی حالت اور اس حوالے سے جو مطالبہ ایک افغان عالم ِاور مدرسے سے کیا گیا ہے وہ درحقیقت باقی عالمِ اسلام کے علماء اور مدارس سے زیادہ مطلوب ہے۔ اس لیے کہ افغانستان میں تو آج ایک شرعی و اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہے جبکہ باقی عالَمِ اسلام اس سے کہیں پیچھے ہے۔ اس کتاب کے اصل مخاطبین علماء و طلبہ ہیں جن کی تاریخ بالاکوٹ، شاملی، صادق پور اور دیوبند کے پہاڑوں، دروں، میدانوں اور مساجد و مدارس کے در و دیوار پر نوشتہ ہے! ومن اللہ التوفیق! (ادارہ)
دوسرا سبب جس کی وجہ سے میں اس موضوع پر لکھنے پر مجبور ہوا، وہ اہل مدراس کے سامنے معاصر اسلامی جدوجہد کے فکری و ادبیاتی میدان کے حوالے سے چند نصائح پیش کرنا ہے، کیونکہ افغان عوام:
-
دینی علماء پر بہت اعتماد رکھتے ہیں، ان علماء سے دین و دنیا کے حوالے سے ہدایات لیتے ہیں،
-
علماء کے فتاویٰ کی روشنی میں ہتھیار اٹھا کر دین دشمن قوتوں کے خلاف جہاد اور مقابلہ کرتے ہیں،
-
علماء کے کہنے پر اپنے جان و مال کو اللہ تعالی کی راہ میں نچھاور کرتے ہیں،
-
اور علماء کی سیاسی قیادت کو دیگر قیادتوں پر فوقیت دیتے ہیں۔
تو اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اہل مدارس اپنے نصاب، تربیتی معیار، اولویاتی ترجیحات، دشمن کی پہچان اور باطل کے خلاف اپنی سرگرمیاں یوں متعین کریں کہ ان کے ہاتھوں تربیت یافتہ نئے علمائے دین کی نسل اسلامی دعوت، قیادت، ریاستی و حکومتی امور، مسلح جہاد، اسلام اور اسلامی اقدار ، غرض ہمہ جہت سے دفاع کی صلاحیتوں اور توانائیوں سے بھر پور ہو۔
مذکورہ صلاحیتوں اور توانائیوں کا وجود اس وقت تک اہل مدرسہ میں ناممکن ہے جب تک اہل مدرسہ اپنا تنقیدی جائزہ نہ لیں، علمی اور تربیتی اولویات اسلام کے اصل فہم کی روشنی میں مرتب نہ کریں، جمود اور سطحیت سے باہر نہ نکلیں، اپنے زمانے کے باطل نظریات کو پہچان کر اس کا رد نہ کریں، امت مسلمہ کی حالت زار اور اس کے حقائق کا ادراک نہ کرلیں، علمی ترقی کے مواقع اور عوام کی دینی، فکری، علمی، سیاسی، اقتصادی، عسکری اور ثقافتی ضرورتوں کو سمجھ نہ لیں، عالمی طواغیت کے اسلام دشمن عزائم اور منصوبوں سے باخبر نہ ہوں اور جب تک یہ سمجھ نہ لیں کہ اہل مدرسہ کے سامنے ایک لمبی خطرناک جنگ ہے جس میں پوری دنیا کے تمام نظام ان کی مخالفت میں کمر بستہ ہیں اور یہ عالمی نظام اس وقت تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا جب تک وہ اپنے ناپاک اہداف تک نہ پہنچ جائے یا یہ عالمی نظام خود مغلوب نہ ہو جائے ۔
میں اہل مدرسہ کو ایک ایسے شخص کی حیثیت سے مخاطب کرتا ہوں، جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمان قوموں، نظاموں، سیاسی اور فکری دھارے کے عروج و زوال کے عوامل کا مطالعہ کیا ہے، اور ساتھ ساتھ افغانستان اور باقی اسلامی امت کے سیاسی اور فکری عروج و زوال کے مناظر کا چشم دید گواہ ہے۔
الٰہی سنت اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جن لوگوں نے اپنے دین، نظریے، دعوت، نظام اور اپنے وجود کو باقی رکھنے کے لیے مادی و معنوی، اسباب و عوامل کو ٹھیک سے استعمال نہیں کیا اور بر وقت درست فیصلے نہیں کیے، پھر چاہے وہ کتنے ہی طاقتور تھے لیکن شکست کھا کر اپنے مادی و معنوی وجود کو باقی رکھنے میں ناکام رہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے قوت اور مادی و معنوی اسباب کو درست سمت میں استعمال کیا اور بروقت مطلوب اقدامات اٹھائے، وہ اگرچہ ابتدا میں کمزور ہی کیوں نہ تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ باقی رہے اور مزید ترقی کرتے گئے۔
آمدم بر سر مطلب!
وقت کا تقاضہ ہے کہ دو عظیم جہادی مبارزوں کے نتیجے میں اب جو فرصت ہاتھ آئی ہے اسے گنوایا نہ جائے اور یہ فرصت صرف ایک لہر بن کر نہ گزر جائے، بلکہ ایک قوی، متمدن اور سچائی پر مبنی اسلامی نظام کی حیثیت سے اسے دوام بخشا جائے، جو آگے چل کر باقی مسلمان ملکوں کے لیے ایک کامیاب قابل اقتدا مثال بن کر ابھرے۔ تو اہل مدرسہ اور علمائے کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے اندر صلاحیتیں پیدا کریں۔
کتاب کے مختلف مقامات پر اہل مدراس کے حوالے سے شکوے اور تنقید کے تناظر میں بات ہوئی ہے جس سے اہل مدرسہ کو ملامت کرنا یا ان کی شان میں تنقیص وکمی کرنا مقصود نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آج اہل مدارس کے کندھوں پر دینی سیاسی قیادت، تعلیم و تربیت، دعوت و ارشاد، فکر و ثقافت، معیشت و صنعت، عسکریت، امورِ حکومت، عدلیہ و قانون، افکارِ باطلہ اور نظامِ باطلہ کے خلاف فکری، سیاسی اور اعتقادی مقابلہ اور نظام وعوام کی جملہ ذمہ داریاں پڑ چکی ہیں، اب ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے علمائے کرام کی ایک ایسی نسل تیار کرنے کی ضرورت ہے جو شرعی علوم پر دسترس کے ساتھ ساتھ اپنے اندر مطلوب صلاحیتوں کو بھی اجاگر کر سکیں۔
اب مندرجہ بالا امور کے حوالے سے موجود خلا کو پر کرنے کے لیے، اور اسلامی مبارزے کی ضرورتوں اور ترجیحات کی طرف علمائے کرام اور تعلیمی ذمہ داران کی توجہ مبذول کرانے کے لیے اس کتاب میں چند چیزیں بطور زادِ راہ گیارہ فصلوں میں مرتب انداز سے ذکر کی ہیں:
فصل اول میں اس موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے کہ جب اسلامی دنیا اور افغانستان میں تعلیمی نظام مغرب زدہ ہو گیا، تو اس تعلیمی نظام کے زہریلے اثرات نے کس طرح مسلمانوں کو دین داری، فکر، ثقافت، اخلاق، سیاست، حاکمیت، عسکریت، معیشت، تعلیم اور معاشرتی اقدار کے میدانوں میں شریعت مطہرہ سے دور کرکے مغرب کے قریب کر دیا اور کس طرح اس تعلیمی نظام کے نتیجے میں اسلامی دنیا کو اپنی یکتا سیاسی پہچان اور فکری ماہیت سے دستبردار ہونا پڑا۔
فصل دوم میں اس موضوع پر بات ہوئی ہے کہ:
-
معاصر اسلامی جدوجہد میں مدرسے کا کیا کردار ہے؟
-
مغرب اور اسلامی دنیا میں موجود مغرب نواز سیکولر لابی کس طرح ان کے مقابلے میں کھڑی ہے؟
-
اہل مدرسہ کو موجودہ فکری انحراف اور اخلاقی انحطاط کے حوالے سے کیا کردار اپنانا چاہیے؟
-
جہاد کی بدولت حاصل کی گئی کامیابیوں کی حفاظت کیسے ممکن ہو گی؟
-
اسلامی ممالک میں اسلامی نظام کا قیام کیونکر ممکن ہے؟
فصلِ سوم میں یہ بات مذکور ہے کہ:
-
دینی مدراس کے نصاب میں معاصر فکری ادبیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہمیں کیا نقصان اٹھانا پڑا؟
-
اقدار کی جنگ کیوں ضروری ہے؟
-
پرانی جاہلیت اور موجودہ جاہلیت کیا ہے، اور یہ جاہلی نظام اسلام کو حاکم ہونے سے کیوں روکتے ہیں؟
-
اہل مدارس کو فکری جنگ سیکھ کر اس کے لیے کیوں کمر بستہ ہونا چاہیے؟
-
فکری جنگ میں مقابلے کے میدان میں امت کے کے امام و مقتدا علمائے کرام کون ہیں؟
-
اور فکری مبارزے کے لیے ادبیات کہاں سے لی جائیں ؟
فصل چہارم میں یہ بات مذکور ہے کہ:
-
اقدار کی جنگ میں ایمانی قوت اور کمزوری کی تاثیر کیا ہے؟
-
اور امت مسلمہ کی خطرناک ترین کمزوری کہاں سے شروع ہوتی ہے؟
فصل پنجم میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ:
-
دینی مدارس کے اندر انقلابی تربیت انقلابی علمائے دین کے نقش قدم پر کیوں ضروری ہے؟
-
اور افغانی عالم دین کے لیے باقی اسلامی دنیا کے علمائے کرام کی نسبت زیادہ انقلابی ہونا کیوں ضروری ہے؟
فصل ششم میں اس موضوع کی تشریح ہے کہ مغرب کی نظر میں افغانستان ان کے ثقافتی اور سیاسی تسلط کے سمندر میں ایک نا قابل تسخیر جزیرہ ثابت ہوا ہے جسے مسخر کرنے کے لیے وہ مختلف ذرائع استعمال کرنے کی کوشش میں لگے ہیں، اور انہیں علم ہے کہ افغانستان کی سیاسی شناخت اور افغانوں کی فکری سرحدات کی حفاظت علمائے کرام کے ذمے ہے، اب ضروری ہے کہ علمائے کرام پیش آمدہ خطروں اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے ہمہ وقت متوجہ ہوں ۔
فصل ہفتم میں دینی تعلیم کے اصلی اہداف پر بات ہوئی ہے اور یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ جب تک دینی تعلیم کے اصلی اہداف کا احساس کرکے ان پر تحقیق نہ کی جائے تو معاشرے میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی ناممکن ہے۔
فصل ہشتم اس کتاب کی تفصیلی اور اساسی فصل ہے جس میں ان علوم اور مضامین کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کی اہلِ مدرسہ کو اشد ضرورت ہے، اور ابھی تک ایسے مواد کو مدارس کے نصاب میں جگہ نہیں دی گئی۔
فصل نہم میں دین کی حاکمیت کی راہ میں مدارس کے کردار، اس راہ میں در پیش مشکلات اور چند کامیاب مثالوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
فصل دہم میں یہ بات مذکور ہے کہ مساجد اور تربیتی حلقے اسلامی جدوجہدکے مورچے ہیں اس لیے ان کی مناسب انداز میں پرورش و تربیت کی جانی چاہیے۔
فصل یازدہم میں شرعی، عقلی اور حقیقت پسندانہ جواب کی تلاش میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ خواتین تک اللہ تعالی کا دین کون اور کیسے پہنچائے گا؟
آخر میں جہاد، دعوت اور اسلامی جدوجہد کے ایک راہ رو کی حیثیت سے علم، فکر، ارشاد اور اصحابِ قلم سے ایک گزارش کرتا ہوں کہ آپ افغان مجاہد عوام کے سامنے اسلامی نظام اور اسلامی جدوجہد کے میدانوں کو عصر ِحاضر کی زبان میں افراط و تفریط سے بچا کر اعتدال پر مبنی تحریرات اور بیانات کی شکل میں لائیں، تاکہ یہ مواد مستقبل کی نسلوں کی فکری اور علمی ترقی کا باعث بنے۔
اس بات کا تذکرہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب اہلیانِ دینی مدارس اور اسلامی جدوجہد کے راہیوں کے لیے ایک اسلامی جدوجہد کی راہنمائی کی ایک انفرادی کوشش ہے، اگر میں نے اس کوشش میں حق بیانی کی ہو، تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگا، اگر کسی حکم، موقف، وصف اور بیان میں کمی بیشی صادر ہوئی ہو تو یہ میری کم علمی کی وجہ سے ہوگی، ایسا ہرگز نہیں کہ میں اپنی غلطی پر اصرار کروں۔ اس بارے میں اسلامی جدوجہد کے ماہرین اساتذہ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ میری غلطیوں کی اصلاح کرنے میں میرے ساتھ تعاون کریں۔
والله هو الموفق والهادي إلى سواء السبيل.
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭