مسلم دنیا میں 7اکتوبر نہایت اہمیت کا حامل ایک خاص تاریخی دن ہے جو دو مرتبہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دینے کا سبب بنا۔ 7اکتوبر 2001ء میں امریکہ نے اکیسویں صدی کا آغاز ایک بھاری بھرکم جنگ سے کیا۔ نہایت کمزور افغانستان جو ایک دہائی پہلے روس جیسی سپر پاور کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بمشکل تمام سنبھلا ہی تھا، با ضابطہ فوج تک نہ رکھتا تھا، اس پر امریکہ اپنی ایک لاکھ اور دیگر42ممالک کی 65 ہزار فوج افغانستان میں لے کراترا۔ پاکستان کی حیثیت نان نیٹو فرنٹ لائن اتحادی کی تھی۔ یہ طویل جنگ جس میں اتحادی دس سال کے اندر یکے بعد دیگرے نکلنا شروع ہوئے، بالآخر 15اگست 2021ء کو پوری امریکی فوج افراتفری کی حالت میں C-16جہاز بھر کر نکل گئی۔7اکتوبر 2001ء کا معرکہ ختم ہوا۔ یہ بلین ڈالر سوال رہا کہ اتنی مہیب فوجوں کو شکست کیونکر ہو گئی؟ پیوند لگے چادر پوش، سائنس و ٹیکنالوجی سے عاری فتح یاب کیونکر ہوئے؟ اور اب بھی 10ارب ڈالر امریکہ نے دبا لیے، باقی بہت کچھ اشرف غنی اور حواری لے اڑے، پوری دنیا بائیکاٹ کیے بیٹھی ہے۔ نہ ورلڈ بینک، نہ آئی ایم ایف ، نہ مسلم ممالک۔ مگر افغان کرنسی مضبوط تر اور ملک پر سکون!
اگلا 7اکتوبر2023ء کا تھا۔ 75سال اسرائیل کے آہنی شکنجے میں غزہ کے بے نوا باسی جو یو این کی دی امداد پر جیسے تیسے اپنی سرزمینِ فلسطین سے محروم بیٹھے تھے، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے تحفظ کی خاطر مائیں بچے جنتی اور قربان کر دیتیں، اسرائیل کی گولیوں سے شہید ہوتے یا بھیانک اسرائیلی جیلوں میں پھینک دیے جاتے۔ 7اکتوبر2023ء کو بالآخر پوری قوم سر سے کفن باندھ کر زندگیوں کا سودا اللہ کے ہاتھ کر بیٹھی۔حماس و دیگر فلسطینی جہادی تنظیموں نے اسرائیل پر راکٹوں کا نہایت غیر متوقع حملہ اس طرح کیا کہ آئرن ڈوم انھیں گرانا بھول گیا۔ مجاہدین خود گویا مشین گنیں اٹھائے راکٹ بنے اسرائیل میں جا اترے۔ غیرمعمولی بے خوف بنیان مرصوص مجاہدین نے اسرائیلیوں کو بری طرح بوکھلا کر رکھ دیا۔ اسرائیلی 1139نشانہ بنے، 251یرغمال بنے۔ اس کے بعد کی کہانی دنیا کے سامنے ہے۔ اسرائیل نے درندگی، بے رحمی کے ریکارڈ توڑ کر انسانی تاریخ کی وہ قتل و غارتگری کی ہے جو درندوں کو شرما دے۔دنیا دہل گئی، تمام مغربی ممالک کے عوام سال بھر اپنی کمائیاں، اوقات، صلاحیتیں غزہ کے مظلوموں کی خاطر سڑکوں پر احتجاجوں میں کھپاتے رہے۔ اپنی حکومتوں کو جھنجوڑتے، عار دلاتے، ہر حربہ استعمال کرتے رہے۔ مگر امریکہ اور بڑی طاقتوں، حکومتوں، با اثر شخصیتوں کے کان پر جوں نہ رینگی۔ سب سے حساس دردمند مغربی دنیا کے ذہین و فطین بلند پایہ یونیورسٹیوں کے طلباء اورپروفیسر ثابت ہوئے جنھوں نے اپنی ڈگریوں، نوکریوں کے سہانے مستقبل داؤ پر لگا کر حق کی آواز بلند کی۔ پوری دنیا اسرائیل کے نا پسندیدہ ترین نعروں سے گونجتی رہی، کفیہ دنیا بھر کی اوڑھنی بن گیا، فلسطینی جھنڈے نے پوری دنیا کو لہلہائے رکھا، پہاڑوں جیسی قربانیاں دیتے فلسطینی بے مثل صبر و ثبات کا مظاہرہ کرتے رہے، اسلامی اخوت، مسلم خاندانی نظام، قرآن ونماز سے لازوال تعلق دنیا میں اسلام کا حقیقی تعارف بن گیا، مغربی نوجوان اسلام قبول کرنے لگے، مسلمان عورت کا با حیا لباس، پاکیزہ کردار، مسلم مہربان مرد، باپ، شوہر، نانا (خالد نبھان)، مغربی استحصالی مرد کے تناظر میں خواتین کو بہت کچھ سمجھا گیا، ہالی ووڈ،سیلیبریٹیاں بھی غزہ کو دل دے بیٹھیں۔ اس بے پناہ قربانی کے نتیجے میں 146ممالک نے فلسطین کو آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ تا ہم قتل و غارتگری رتی بھر کم نہ ہوئی، لبنان تک جا پہنچی۔ برطانیہ میں ہر ہفتے 10ہزار لوگ مظاہرے کرتے رہے، لاکھوں کے ضرب المثل مظاہرے ہوئے۔ حکومتی سطح پر، اسرائیل کی جنگ میں خون کی ندیاں کوئی نہ بہانے سے روک سکا۔ مگر کیوں ؟ جانتے تو سبھی بہت کچھ ہیں مگر، سب کہہ دو! کوئی کر گزرا۔
آپ کو حقائق بتا رہا ہے ایک ہندو مضمون نگار۔ اس سے پہلے غزہ 7اکتوبر کے لیے وائٹ ہاؤس کے باہر ریلی میں امریکی چینل CBSکا ایک با ضمیر صحافی میڈیا کی غلط بیانیوں کی تاب نہ لا کر خود کو آگ غم و غصے سے لگا بیٹھا، چلاتے ہوئے کہ :’’ہم غلط خبریں پھیلاتے ہیں۔‘‘ اسے پولیس نے بچا لیا مگر ضمیر کی پکار بلند آہنگ تھی۔ اب حقائق دیکھیے رنجیت لال مدھاون، بھارتی رائٹر نے اعدادوشمار دیے ہیں:
-
گلوبل منشیات (ڈرگز) کا کاروبار 321ارب ڈالر سالانہ ہے۔
-
دنیا بھر میں شراب کی فروخت 1600ارب ڈالر سالانہ ہے۔
-
عالمی اسلحے کی تجارت100ارب ڈالر سالانہ۔
-
عورت کا جسم فروشی کاروبار سالانہ دنیا میں 400ارب ڈالر ہے۔
-
جوئے کا کاروبار110ارب ڈالر سالانہ۔
-
سونے کا 100ارب ڈالر سالانہ۔
-
کمپیوٹر گیمز بزنس54ارب ڈالر سالانہ۔
دنیا میں یہ سارا 2685ارب ڈالر سالانہ کا کاروبار ہے اور اسلام اس سب کے خلاف ہے، اجازت نہیں دیتا! اس ساری بین الاقوامی تجارت میں بڑی انٹرنیشنل کمپنیوں کے سربراہ ، جس کے پشت پناہ بڑے ملکوں کے صدور، حکومتیں اور جاسوسی ادارے ہیں۔ اگردنیا اسلام اور اس کے قوانین کو قبول کر لے تو یہ ساری تجارت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔ ہوٹل، عیاشی کے اڈے، تفریح گاہیں، سیاحتی کمپنیاں، جو حسن فروشی پر چلتی ہیں، بند ہو جائیں گی۔ اگر دنیا اسلامی اصول قبول کر لے کہ عورت کی برہنگی، اس کی بے حرمتی ہے، عورت کے شرف و تقدس کے منافی ہے، تو دنیا کی نمائش گاہوں میں جنسِ ارزاں بنا اس کا جسم نہ بک سکے گا۔ مافیا کا 100ارب ڈالر ڈوب جائے گا! سو یہ تمام اسلامی قوانین گلوبل تجارت کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہیں۔ ان کا دیوالیہ پٹ جائے گا۔( اسی لئے ملا عمر کا شریعت پر کاربند افغانستان ناقابل قبول تھا!)
اس گلوبل مافیا نے گلوبل میڈیا خرید رکھا ہے جواس کا اہم ترین ہتھیار ہے۔اسلام کا چہرہ مسخ کرنے اور اس پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کو ڈرامہ، فلم انڈسٹری نے بھاری کام کیا ۔ بش نے علی الاعلان کہا تھا، ’’ہمیں اسلام کا چہرہ بدل دینا ہے۔‘‘ یہیں سے اسلاموفوبیا پھوٹا۔ اسرائیل کی وحشت و دہشت انگیز کارروائیاں، نارنجی بی جے پی کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام نہ دہشت گردی بنا نہ انتہا پسندی! یہ میڈیا کا کمال ہے۔ انھوں نے کچھ مسلمانوں کو بھی خرید رکھا ہے، اسلام کے خلاف نفرت انگیزی پھیلانے کو۔ انھوں نے کتنی مہارت سے یقین دلا دیا کہ اسلام دہشت گردی ہے! گلوبل تجارت کی بقا کے لیے اسلام کے خلاف وہ جنگ لڑتے رہیں گے، اور بہت تھوڑے رہ جائیں جو یہ ایمان رکھیں گے کہ اسلام ہی سچا دین ہے!
مسلم دنیا پر غزہ کے سلسلے میں چھایا سناٹا، ما سوا گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے والے بیانات اور کبھی کبھار کے مظاہروں کے، درج بالا حقائق کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہم ذہنی غلام بن چکے معاشی ، سیاسی غلامی کے ہاتھوں۔ جو مسلمان چیل کوؤں کو بطور صدقہ گوشت ڈالتے ہیں ( حتیٰ کہ جنات کو بھی بغرضِ جادو!)، حرم کے کبوتروں کو بصد اہتمام دانہ بھیجتے ہیں، حرمِ اقصیٰ کے بھوکے جان بلب بچوں پر پتھر دل بنے بیٹھے ہیں۔ بھوکی معصوم بچیاں جو بھوک سے پتے منہ میں ڈالتی ہیں، چبانے کی کوشش میں کڑواہٹ پر رو دیتی ہیں۔ امت دیوانی ہو کر نہیں اٹھتی، کلیجے اپنے پیاروں، اللہ کے پیاروں، حرم کے مقدس محافظوں کی تکالیف پر شق نہیں ہوتے! 7اکتوبر،آہ! 7اکتوبر۔ افغانستان پر بے حس ہوئے تھے تو عین 8اکتوبر 2005ء میں ہم زلزلے میں ہلا مارے گئے۔ پناہِ بخدا! اللہ ہمیں ایمان اور مہلت دے۔
[یہ مضمون ایک معاصر روزنامے میں شائع ہو چکا ہے۔ مستعار مضامین، مجلے کی ادارتی پالیسی کے مطابق شائع کیے جاتے ہیں۔ (ادارہ)]
٭٭٭٭٭